واپسی
دن بھر آفس میں دماغ کھپانے کے بعد بس کا انتظار کرنا سزا سے کم نہیں تھا۔ لیکن یہ سزا اسے روز بھگتنا پڑتی تھی۔ ٹیکسی کے اخراجات افورڈ کرنا اس کی حیثیت سے باہر تھا۔ کیونکہ گھر بہت دور تھا۔ دیر سویر ہونے کی صورت میں اماں بہت گھبراتی تھیں، ان کی خاطر وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی۔ بےچاری اماں اس کی فکر میں ہولا کرتی تھیں اور اسے ندامت کے ساتھ تکلیف بھی ہوتی تھی۔
اچانک ایک بائیک اس کے قریب آکر رک گئی زمین پر پاؤں ٹیکے۔ بائیک کی گدی پر جما وہ بڑی شان سے مسکرا رہا تھا اور وہ دل ہی دل میں جل رہی تھی۔‘‘ آئیے میڈم۔ آپ کو گھر ڈراپ کر دوں‘‘۔ ’’جی نہیں شکریہ۔‘‘ وہ مزید تپ کر بولی۔
’’کم بخت! کہہ تو ایسے رہا ہے جیسے میں اس کی بائیک پر بیٹھنے کی عادی ہوں، کہ بس اس نے جھوٹوں کہا اور میں بیٹھ جاؤں گی۔ ریاض اتر کر اس کے پاس آ گیا۔‘‘
’’آج دراصل بسوں کی ہڑتال ہے بھلا یہ بھی کوئی ہڑتال کا وقت ہے 'بس' اچانک دوپہر سے بیچ سڑک سے غائب ہو گئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ‘‘۔
خدا جانے یہ سچ تھا یا محض اسے بے وقوف بنا رہا تھا۔ لیکن بڑی دیر سے کوئی بس آئی بھی نہیں تھی۔
اس نے گردن اٹھاکر دور تک سڑک کو نظروں ہی نظروں میں ٹٹولا اور مایوس ہو کر رکشہ تلاش کرنے لگی۔
’’بےکار ہے مس ثمین! بس نہیں آئےگی‘‘۔
’’آپ پریشان نہ ہوں‘‘ اس نے ہاتھ دے کر آٹو رکشہ روکا اور بیٹھ گئی۔ رکشہ زن سے ریاض کے سامنے سے گزر کر سڑک پر دوڑنے لگا۔ ناچار اس نے بھی ٹھنڈی سانس لے کر بائیک اسٹارٹ کی اور اپنے راستے پر ہو لیا۔ اسے ثمین پر بھی غصہ آ رہا تھا۔ لیکن جانتا تھا کہ پتھر میں جونک لگ سکتی ہے۔ اس پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ وہ ایسی ہی تھی۔
ثمین اپنی جگہ جزبز ہو رہی تھی۔ جتنا وہ ریاض سے دور بھاگتی تھی۔ اتنا ہی وہ اس کی راہ میں آتا تھا۔
وہ راستہ بدل دیتی تو وہ پھر آموجود ہوتا۔ خدا جانے کس مٹی کا بنا تھا یہ شخص!
آفس میں بھی وہ بہت لئے دیئے رہتی تھی۔ کیوں کہ آفس کا ماحول بھی کچھ ایسا تھا کہ جوان ادھیڑ سب ہی لڑکیوں سے فلرٹ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ لڑکیاں بھی تو آفس ایسے آتی تھیں جیسے فیشن پریڈ میں حصہ لینے آئی ہوں۔ شوخ رنگوں کے فیشن ایبل کپڑے پہنے، میک اپ سے چمکتی دمکتی، اٹھلاتی، بل کھاتی، ہر ایک سے بے تکلفی سے گفتگو کرنے کے لئے تیار۔ پھر کیوں نہ مخالف جنس ان کی عنایتوں کی متمنی رہتی۔ وہ بے حد ہلکے رنگوں کے لباس پہنتی تھی۔ نہ میک اپ نہ ادائیں، بالوں کی لمبی سی ایک چوٹی کئے، چہرے پر متانت کا غازہ ملے، پورے وقت کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی آنکھیں پھوڑتی رہتی تھی۔ ریاض جل کر سوچتا۔ ’’یہ لڑکی اپنی اتنی خوبصورت آنکھوں کا ستیاناس مارنے پر تلی رہتی ہے۔ لیکن وہ محض ایک لڑکی نہیں تھی۔ وہ ایک سعادت مند بیٹی اور محبت کرنے والی بہن بھی تھی۔ بابا کے انتقال کے بعد اماں اور فرحین کی ذمے داری اس کے کاندھوں پر آ گئی تھی۔ اگر وہ اپنی تنخواہ فیشن، میک اپ اور کپڑوں میں اڑا دیتی تو گھر کا خرچ کیسے چلتا۔ فرحین کی تعلیم کیسے پوری ہوتی اس نے بابا کی زندگی ہی میں ضد کر کے علی گڑھ میں داخلہ لے لیا تھا اور اب اس کا بی۔ اے کا آخری سال تھا۔ اس لئے ثمین نے اسے ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور وہ بدستور پڑھتی رہی۔ بی۔ اے۔ کے بعد اسے گھر ہی آنا تھا۔ اپنے شہر میں کئی پوسٹ گریجویٹ کالج تھے۔ وہ جتنا پڑھنا چاہتی تھی پڑھ سکتی تھی۔ وہ فرحین سے صرف ڈھائی سال بڑی تھی۔ بی۔ اے۔ کے بعد اس نے کمپیوٹر کا کورس مکمل کیا تھا۔ بابا کا اچانک انتقال ہوا تو اسے ملازمت کرنا پڑی اور اس کی کمپیوٹر کی ٹریننگ کام آ گئی۔ کوئی اسے اور فرحین کو ساتھ دیکھتا تو اسے یقین نہ آتا کہ وہ فرحین جیسی شوخ وشنگ لڑکی کی بہن ہے۔ مصلحتاً اس نے خود پر سنجیدگی اور بردباری کا خول چڑھا رکھا تھا۔ اس طرح وہ آفس میں بیباک نظروں سے محفوظ رہتی تھی۔ کوئی اس سے بے تکلف ہونے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ جبکہ ریاض اس سے مخاطب ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔
کبھی کبھی وہ اس کی شوخیوں کے سامنے بے بس ہو جاتی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں ریاض اس خول کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ جو اس نے اپنی شخصیت پر چڑھا رکھا تھا۔ وہ اپنے دل میں اٹھنے والے جوار بھاٹا سے انجان نہیں تھی۔ جوانی کی امنگیں اسے بھی گدگداتی تھیں۔ کبھی وہ بھی بہت شریر اور زندہ دل تھی۔ لیکن بابا کی موت نے اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھین لی تھی۔ اس کے قہقہے بے جان ہو گئے تھے۔ ہنسی کی پھواریں نہ جانے کہاں معدوم ہو گئی تھیں۔ وہ اپنے خول میں سمٹی۔ چپ چاپ اپنے فرائض پورے کر رہی تھی۔
ثمین گھر پہنچی تو اماں اس کے انتظار میں دروازے پر کھڑی تھیں۔ اس کے دل کو چوٹ لگی۔ اماں نے مامتا سے چور لہجے میں کہا۔
’’بیٹی! آج تمہیں بہت دیر ہو گئی؟‘‘
’’اماں اچانک بسوں کی ہڑتال ہو گئی۔ مجھے پتہ نہیں تھا اس لئے انتظار کرتی رہی۔ جب ہڑتال کی خبر ملی تو رکشہ کر کے آنا پڑا۔‘‘ وہ شرمسار سی صفائیاں دینے لگی۔
’’ہڑتال؟ ابھی تو پڑوس کی انجلی بس سے آئی ہے۔ کیا صرف تمہارے ایریا میں ہڑتال تھی؟‘‘۔
’’اب یہ تو میں نہیں جانتی اماں۔ لیکن اس نے یہی کہا تھا‘‘۔
وہ بےساختہ کہہ گئی۔ اسے ریاض پر بے تحاشا غصہ آ رہا تھا۔
’’کس نے کہا تھا؟‘‘ رواروی میں اماں پوچھ بیٹھیں۔
’’وہ! نہ جانے کون تھا۔ میں تو اسے جانتی بھی نہیں تھی‘‘۔
ثمین سٹپٹا گئی۔ دل میں چور نہ بھی وہ تو لڑکیاں ایسے موقعوں پر خود کو قصور وار سمجھنے لگتی ہیں۔
’’اچھا تم کپڑے بدل لو۔ میں چائے لا رہی ہوں‘‘۔
اماں کچن میں جاتے ہوئے بولیں۔ ثمین غسل خانہ میں گھس گئی۔ ’’اف ماں کیا سوچ رہی ہوں گی۔ اگر یہ مذاق تھا تو ریاض کو ایسا بے تکا مذاق کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟‘‘ وہ شاور کے نیچے کھڑی ندامت کی گرد اور غصے کا غبار ٹھنڈے پانی میں بہاتی رہی۔ جب ذرا سکون محسوس ہوا تو کپڑے بدل کر امان کے پاس چلی گئی۔ اب اس کا موڈ بحال ہو گیا تھا۔ بڑے لاڈ میں آ کر بولی۔
’’اماں! فرحین کا خط کب سے نہیں آیا۔ میں کل اسے فون کروں گی اسے دیکھنے کو بہت دل چاہتا ہے‘‘۔
’’ہاں بیٹی۔ دل تو نہ جانے کیا کیا چاہتا ہے۔ لیکن اوپر والے کی مرضی کے سامنے ہم سب مجبور ہیں۔‘‘
اماں نے ٹھنڈی سانس لی۔ ثمین نے تڑپ کر اماں کو لپٹا لیا۔
’’اماں! رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہو جائےگا انشاء اللہ‘‘۔
’’تمہارے بابا زندہ ہوتے تو بھلا تمہیں ملازمت کرنے دیتے؟‘‘
’’چھوڑئیے اماں۔ اچھی اچھی باتیں کیجئے۔‘‘
اچھی باتیں کروں تو تم موضوع بدل دیتی ہو‘‘۔
اماں مسکرائیں۔ وہ بھی اماں کی خاطر مسکرانے لگی۔ اماں کا پسندیدہ موضوع اس کی شادی تھا۔ لیکن اس کا شادی کرنے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ اتنی خود غرض اور بےحس نہیں تھی کہ خوشی خوشی اپنا گھر بسا کر بیٹھ جاتی اور اماں اور فرحین کو قسمت کے حوالے کر دیتی۔ قسمت بھی کہاں ان پر مہربان تھی۔
دوسرے دن لنچ ٹائم میں وہ بیٹھی چائے پی رہی تھی کہ ریاض اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ کہا ’’ہیلو‘‘
’’کیا آپ نے کوئی نیا مذاق سوچا ہے؟‘‘ اس نے تپ کر کہا۔
’’سوری مس ثمین‘‘۔ وہ شرمندہ ہو گیا۔
’’مجھے خوشی ہے کہ آپ زندگی سے اپنے حصے کی خوشیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔ لیکن زندگی کا دوسرا رخ آپ نے نہیں دیکھا۔ جو بہت بھیانک ہے‘‘۔
’’مس ثمین! میری خواہش ہے کہ آپ بھی دوسری لڑکیوں کی طرح ہنسیں، مسکرائیں، زندگی پر آپ کا بھی حق ہے۔ خدا جانے کیوں آپ سنجیدگی کے حصار سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتیں‘‘۔
ریاض بہت نادم تھا۔ ساتھ ہی اس کے دل پر پڑی ہوئی کدورت کی گرد صاف کرنے میں کوشاں تھا۔ اسے یہ لڑکی دل سے پسند تھی۔ سنجیدہ، سیدھی سادی، نہ کوئی بناوٹ، نہ چھچھورپن۔ کیسا ’گریس‘ تھا اس میں اور شاید اس کی کشش کا سبب بھی یہی تھا۔ وہ بہت مختلف لڑکی تھی۔ نہ جانے کیا سو چ کر وہ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ ایک بار ارد گرد نظر ڈالی۔ کینٹین تقریباً خالی ہو گیا تھا۔ ثمین لنچ ختم کر چکی تھی۔ اس نے چائے منگوا لی اور اس سے درخواست کی ’’ایک کپ چائے پی لیں پلیز‘‘ پھر خود ہی بولا۔ ’’کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ لیکن ایک بات ضرور کہنا چاہتی ہوں۔ میں ویسی نہیں ہوں۔ جیسا آپ سمجھتے ہیں۔‘‘ وہ دکھی لہجے میں بولی۔ یہ کیسا ظلم تھا کہ دنیا والے کسی مجبور لڑکی کو اپنے طرز سے جینے بھی نہیں دیتے اور لاکھ احتیاط کے باوجود اسے ہاتھ پکڑ کر ان رنگینیوں میں گھسیٹنا چاہتے ہیں جو اس کے نصیب میں نہیں ہوتیں۔ حالانکہ وہ بھی ایک نوجوان لڑکی تھی۔ اس کا دل بھی جذبات سے خالی نہیں تھا۔ لیکن اس کے حالات نے اسے بے بس کر کے جذبات پر برف کی دبیز تہہ جما دی تھی۔
ریاض کی چھیڑ چھاڑ اسے بھی اچھی لگتی تھی۔ لیکن وہ اس کی حوصلہ افزائی کر کے اسے کوئی غلط پیغام کیسے دی سکتی تھی۔ اسلئے آج اس نے بھی اسے صاف صاف بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تاکہ روز روز کا جھگڑا ہی ختم ہو جائے اور وہ اپنی راہ لے۔
’’آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ثمین۔ میں اگر آپ کو ایک عام لڑکی سمجھتا تو بار بار آپ کے قریب آنے کی کوشش نہ کرتا۔ ایسی لڑکیاں تو قدم قدم پر ملتی ہیں۔ ملتی بھی کیا ہیں، خود موقع ڈھونڈھ کر پاس آتی ہیں۔ بلکہ بہانے تلاش کرتی ہیں۔ اسی آفس میں روز صبح سے شام تک ایسے تماشے دیکھنے میں آتے ہیں۔ بلکہ مجھے تو افسوس ہے کہ آپ نے مجھے بھی ان فلرٹ لوگوں میں شمار کیا۔ جو۔ جو۔‘‘
اس نے مارے دکھ اور شرمندگی کے اپنی بات ادھوری چھوڑدی اور جانے کے لئے کھڑا ہو گیا۔ ثمین نے دل پر جبر کر کے مصلحتاً بھی اس کی بات رد نہیں کی۔ اگر وہ ایسا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے۔ وہ کوئی صفائی نہیں دے گی۔ شاید اسی طرح وہ اس کی راہوں میں آنا چھوڑ دے تاکہ وہ یکسوئی سے اپنی زندگی کا مقصد پورا کر سکے۔ اس کے بار بار چھیڑنے سے دل میں جوار بھاٹا سا اٹھنے لگتا ہے۔ وہ بڑی کوشش اور محنت سے اپنی شخصیت بدلنے میں کامیاب ہوئی تھی اور وہ کسی جذباتی لغزش کا شکار نہیں ہونا چاہتی تھی۔ ایک کمزور لمحہ اس کی ساری ریاضت خاک میں ملا سکتا تھا اور وہ اس کمزور لمحے کو خود سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ اس کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ کہ وہ ریاض یا کسی اور شخص کی طرف ملتفت ہوتی۔ یا اس کی سنجیدگی کا امتحان لیتی۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے سنجیدہ تھی۔ وہ تو بس اتنا جانتی تھی اس سے زیادہ جاننے کی اسے ضرورت تھی نہ خواہش۔
ریاض چلا گیا اور اس نے شکر ادا کیا کہ چلو جان چھوٹی۔
چند دن اطمینان سے گزر گئے۔ اس دن کے بعد ریاض اس کے سامنے نہیں پڑا۔ شاید اسے عقل آ گئی تھی۔
وہ آفس سے آنے کے بعد اماں کے ساتھ بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ اماں کسی سوچ میں گم تھیں۔ اس نے ادھر ادھر کی باتیں کیں اماں ہوں، ہاں میں جواب دیتی رہیں۔
’’کیا بات ہے اماں۔ آپ کیا سوچ رہی ہیں؟‘‘
ثمین ان کی عدم دلچسپی محسوس کر کے پوچھ بیٹھی۔
’’کچھ نہیں۔ یہ ریاض کیسا لڑکا ہے۔؟‘‘
’’ریاض کو آپ کیسے جانتی ہیں؟‘‘
’’وہ آج میرے پاس آیا تھا۔‘‘ اماں نے رسان سے کہا۔
’’وہ آپ کے پاس کیوں آیا تھا؟۔‘‘ اسے غصہ آ گیا۔
’’ریاض میرے پاس تمہارا ہاتھ مانگنے آیا تھا۔ اپنے بارے میں اس نے بتایا کہ وہ دنیا میں اکیلا ہے۔ آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ نہ ماں، نہ باپ، نہ بھائی بہن، بس دور کے رشتے دار ہیں۔ کہہ رہا تھا کہ اسے تمہاری جیسی سنجیدہ لڑکی پسند ہے۔ اس کی باتوں سے انداز ہو رہا تھا کہ وہ تمہیں پسند کرتا ہے۔‘‘
’’لڑکا شریف ہے۔ اس لئے سیدھے سادھے طریقے سے تمہارا ساتھ چاہتا ہے۔ شادی کر کے وہ تمہاری ذمے داریوں میں بھی تمہارا ساتھ دینے کا وعدہ کر رہا تھا۔‘‘۔
’’لیکن اماں۔ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی‘‘۔
’’ہاں! میں نے اسے تمہاری مجبوری اور اپنے حالات بتا دئیے تھے‘‘
’’تب ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے اطمینان کی سانس لی۔ اس کے بعد اماں نے کچھ نہیں کہا۔ گویا بات ختم ہو گئی۔ مجبوری کی بات اور تھی۔ لیکن اسے ریاض کی یہ بات پسند ضرور آئی کہ اس نے اماں سے اس کا ہاتھ طلب کیا۔ کم از کم اس حد تک اس کے خلوص کا اعتراف کرنے میں حرج بھی نہیں تھا۔
وہ بس اسٹاپ پر کھڑی تھی۔ ریاض نے بائیک اس کے قریب روک دی۔ آج وہ کئی دن کے بعد نظر آیا تھا۔ یعنی اماں سے بات کرنے کے بعد شاید آفس نہیں آ رہا تھا۔ یا جان بوجھ کر اس کے سامنے نہیں آیا تھا۔ اس وقت اسے اتنا نزدیک دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔
’’کیا میں آپ کے چند لمحے لے سکتا ہوں؟‘‘ ریاض نے متانت سے کہا۔ ’’بات کیا ہے مسٹر ریاض وہ جھلا گئی‘‘۔
وہی تو آپ کو بتابا چاہتا ہوں۔ لیکن یہاں اس طرح؟‘‘
’’کیا حرج ہے؟ جو کہنا چاہتے ہیں کہہ دیں‘‘۔
’’ہرگز نہیں۔ میری نظروں میں اور دل میں آپ کا جو مقام اور حیثیت ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ سر راہ آپ سے مخاطب نہ ہوا جائے۔ اس لئے پلیز مجھ پر بھروسہ کیجئے اور بس ذرا دیر کے لئے کسی پر سکون جگہ بیٹھ کر میری بات سن لیجئے‘‘۔
اس کے لہجہ میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ وہ متاثر ہو گئی۔ آہستہ سے کہا۔
’’اس سامنے والے ریسٹورنٹ میں بیٹھنا مناسب ہوگا‘‘۔
’’نہیں۔ یہ آفس کے قریب ہے کسی کی بھی نظر پڑ سکتی ہے‘‘۔
’’پھر! کہاں چلیں گے؟‘‘ جھجھک کر سوال کیا۔
اسے رضامند دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھا۔ کہا۔
’’بائیک پر بیٹھ جائیے۔ یہ فیصلہ ہم بعد میں بھی کر سکتے ہیں‘‘
وہ کسی پس و پیش کے بغیر اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔
’’اچھا ہے آج یہ قصہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے‘‘ سوچا اور سڑک کے مناظر میں گم ہو گئی۔ بائیک رکی تو وہ چونک گئی۔
’’آئیے ثمین۔‘‘ ریاض نے اسے مخاطب کیا۔ سامنے ہی ایک خوبصورت ریسٹورنٹ تھا۔ پرسکون اور پوش علاقہ تھا۔ وہ اس کے ساتھ ریسٹورنٹ میں داخل ہو گئی۔ ریاض ایک گوشے کی میز پسند کر کے بیٹھ گیا۔ وہ بھی اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
’’کیا اب یہ بھی بتانا پڑےگا۔؟ خیر اگر آپ جاننا ہی چاہتی ہیں تو سنیے۔ میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔ آپ کی سنجیدگی، سادگی اور احساس ذمے داری کی قدر کرتا ہوں۔ آپ کا جذبۂ ایثار اس لائق ہے کہ آپ کی رفاقت پر فخر کیا جائے۔ آپ جیسی شریک زندگی میری دنیا کو جنت بنا دےگی‘‘۔
’’میں آج کل کی شوخ، فیشن ایبل اور چھچھوری قسم کی لڑکی کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان سے ساری زندگی کا تعلق استوار کیا جائے۔ گھر بسانا ایسی لڑکیوں کے بس کا کام نہیں ہے۔ گھر تو آپ جیسی لڑکیاں بساتی ہیں۔ شادی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں کی جاتی۔ شادی کا مقصد ہوتا ہے ایک بھرپور زندگی۔ ایک پرسکون گھر اور ایک مخلص شریک رنج و راحت۔‘‘
ریاض نے اپنی بات ختم کر کے دو گھونٹ بھرے اور کافی ختم کرکے پیالہ رکھ دیا۔ پھر ویٹر کو بل دے کر اسے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس کا جواب سننے کے لئے ٹھہرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ گویا اپنا ماضی الضمیر سمجھانے کے بعد اس کا کام ختم ہو گیا تھا۔ اب فیصلہ کرنا ثمین کا کام تھا۔ یہ فیصلہ اس کے حق میں ہو یا انکار کی صورت میں۔ اسے اب کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ کیا کہتی ہے۔ ثمین کو سبکی کا احساس ہوا۔ کم از کم ایک منٹ رک کر اس کا فیصلہ تو سن لیتا۔ یا اسے یقین تھا کہ وہ انکار نہیں کرےگی؟۔
ریاض نے اسے اس کے گھر والے بس اسٹاپ پر اتار دیا۔ خدا حافظ کہا اور زن سے نکلا چلا گیا۔ کئی دن گزر گئے۔ اس نے ریاض کا انتظار کیا۔ لیکن وہ آفس نہیں آیا۔ دل تڑپا کہ اس کی خیریت معلوم کرے لیکن کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ کس سے پوچھتی؟ چپ چاپ اس کا ایڈریس معلوم کیا اور اس کی رہائش گاہ پر پہنچ گئی۔ ایک کمرے کا چھوٹا سا فلیٹ تھا اور ریاض بیمار پڑا تھا۔ اسے اچانک سامنے دیکھ کر سٹپٹا گیا۔
’’آپ! آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں۔ میں؟‘‘ ایک خوشگوار سی حیرت نے اس کو بستر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
’’پتہ نہیں چلا۔ بلکہ یہی معلوم کرنے آئی ہوں کہ جناب آفس سے کیوں غائب ہیں؟‘‘ وہ خوش دلی سے کہہ کر اس کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ پھر چاروں طرف کا جائزہ لے کر بولی۔
’’ماشاء اللہ کافی سگھڑ ہیں۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آپ تنہا رہتے ہیں۔ صفائی، سجاوٹ سب اے ون ہے‘‘۔
’’شکریہ‘‘ وہ جل کر بولا۔
’’دوا۔ غذا۔ میرا مطلب ہے کہ کچھ کھایا پیا بھی یا۔؟‘‘
’’بیمار تنہا انسان کیا کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر سے دوا لے لی، ہوٹل سے کچھ کھانے کو منگا لیا۔ اس سے زیادہ اپنے ناز اٹھانے کا مجھے شوق نہیں ہے ’’بےدلی سے کہہ کر اٹھنے لگا۔
’’ہیں! ہیں۔ کہا جا رہے ہیں آپ؟‘‘
ہوٹل والے سے کہہ کر آپ کے لئے چائے منگواؤں‘‘۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہ کہنے آئی تھی کہ آپ جلد سے جلد اماں سے مل لیجئے۔ وہ آپ کو خوش خبری سنانا چاہتی ہیں‘‘۔
’’اماں کیوں؟۔ آپ ہی سنا دیں ’’وہ کچھ شوخ ہوا۔
’’جی نہیں۔ لڑکیاں اپنے منہ سے اپنی شادی کی بات نہیں کرتیں‘‘
’’اچھا کرتی ہیں‘‘ وہ رو میں کہہ گیا پھر ہنسنے لگا۔
’’اب میں چلتی ہوں‘‘ وہ کھڑی ہو گئی۔
’’میں شام کو اماں سے ملنے آ رہا ہوں‘‘۔
’’کوئی ضرورت نہیں۔ ذرا چہرے پر رونق آ جائے تب آئیں، ورنہ کیا پتہ اس بار اماں خود ہی انکار کر دیں‘‘۔
اس نے سنجیدگی سے فقرہ کسا اور اس کا جواب سنے بغیر باہر نکل گئی۔ ریاض کا جاندار قہقہہ اس کی سماعتوں میں دیر تک کھنکھناتا رہا۔
اچانک زندگی حسین ہو گئی تھی۔ اس کی مرضی سے ماں نے ریاض کا رشتہ منظور کر لیا تھا اور طے پایا تھا کہ فرحین امتحان دے کر آئےگی تو ان کی شادی ہوگی۔ اس نے اماں کو منع کر دیا تھا کہ ابھی فرحین کو کچھ نہ بتائیں ورنہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوڑی چلی آئےگی۔
ریاض کا التفات دیکھ کر اسے افسوس ہوتا تھا کہ خواہ مخواہ وہ اتنے عرصے تک زندگی کی لطافتوں سے دور رہی۔ وہ ہر روز گھر چلا آتا تھا۔ مستقبل کے خاکوں میں دھنک کے رنگ بھرتے ہوئے وہ دونوں بہت خوش تھے۔ یہ طے پا گیا تھا کہ شادی کے بعد وہ ان کے ساتھ ہی رہےگا۔ تاکہ اماں کو تنہائی کا عذاب نہ سہنا پڑے۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کا بیٹا بن کر سارے فرائض نبھائےگا اور پھر امتحان ختم ہوتے ہی فرحین گھر آ گئی۔ شوخ و شریر سی فرحین کے آنے سے گھر کی فضا ہی بدل گئی۔ اس کی ہنسی اس کے قہقہے، اس کی پر لطف باتیں اور شرارتیں۔‘‘ زندگی کو خوش گوار بنانے کے لئے فرحین جیسی لڑکی ٹانک کا کام کرتی ہے‘‘۔ اس سے مل کر ریاض نے سوچا۔ خوبصورت تو وہ تھی ہی اس پر اس کا جینے کا ڈھنگ بھی پر کشش تھا۔ شوخ رنگوں کے فیشن ایبل کپڑے، تراشیدہ بال، میک اپ اور فرفر انگریزی بولنا، بات بات پر قہقہے لگانا، لطیفے سنانا، ہنسنا ہنسانا۔
ریاض چکرا کر رہ گیا کہاں ثمین اور کہاں فرحین؟ ایک بوڑھی روح دوسری زندگی سے بھرپور۔ فرحین خود بھی اس میں دلچسپی لینے لگی شاپنگ کرنا ہے تو ریاض ساتھ جا رہا ہے۔ فلم تینوں ساتھ جاتے۔ لیکن جیسے ہی فلم شروع ہوتی۔ ثمین کو محسوس ہوتا کہ وہ تنہا ہے۔ دونوں آہستہ آہستہ فلم پر کمنٹ کرتے، ہنستے، مسکراتے۔ وہ خاموش بیٹھی رہتی۔ خود سے ریاض کو مخاطب کرنا اسے اچھا نہ لگتا تھا اور فرحین سب کچھ جانتے ہوئے بھی ریاض کو الجھائے رہتی تھی۔ رفتہ رفتہ وہ پس منظر میں چلی گئی۔ اب ہر منظر فرحین اور ریاض کے وجود سے رنگین تھا۔ اماں چپ چاپ یہ تماشہ کیسے دیکھتیں؟
ایک دن پھٹ پڑیں۔ فرحین کو بےنقطہ سنائیں۔
’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ بڑی بہن کے منگیتر سے اتنا فری ہوکر باتیں کرتی ہو۔ ہر جگہ اسے اپنے ساتھ گھسیٹ لے جاتی ہو۔؟‘‘
’’میں کیا کروں اماں۔ ریاض خود ہی۔‘‘ فرحین منمنائی۔
’’بس چپ ہو جاؤ۔ آئیندہ احتیاط کرنا۔‘‘
اماں نے سرزنش کی۔ لیکن بات اتنی آسان نہیں تھی۔ ریاض نے کھل کر صاف صاف کہہ دیا کہ وہ فرحین سے شادی کرےگا۔ ثمین اس کے منہ سے فیصلہ نہ بھی سنتی تب بھی سمجھ گئی تھی اور وہ زبردستی کی قائل نہیں تھی۔ کسی پر خود کو مسلط کر کے خوشیاں نہیں ملتیں۔ یہ دل کا سودا ہے۔ شاید ریاض نے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ دل سے نہیں دماغ سے کیا تھا اور اب معاملہ دل کا تھا۔ یعنی ریاض کا دل فرحین پر آ گیا تھا۔ تب ہی تو وہ اپنی کہی ساری باتیں بھول گیا تھا اس نے سارے وعدے اور عہد فراموش کر دئے تھے۔ حد ہے کہ وہ اپنے اصولوں کو بھی درکنار کر چکا تھا۔ گھر بسانے کے لئے اسے سنجیدہ، سادہ اور ایثار پسند لڑکی پسند تھی اور اب وہ فرحین کی شوخیوں کو اور زندہ دلی کو زندگی کے لئے لازم سمجھ رہا تھا اور جب اصول بدل جائیں تو نظریۂ حیات بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ ثمین چپ چاپ ان کے بیچ سے ہٹ گئی۔ نہ وہ روئی۔ نہ ریاض سے جھگڑا کیا۔ نہ فرحین سے شکوہ کیا۔ حد یہ ہے کہ اماں کو بھی منا لیا۔ اماں بہت روئیں لیکن ان کے بس میں تھا بھی کیا؟ دونوں ان کی اولادیں تھیں۔ لیکن جس طرح ثمین نے ان کے لئے اپنی خوشیاں قربان کی تھیں۔
خاص طور سے فرحین کی صرف بہن ہی نہیں ماں اور باپ بن کر سر پرستی کی تھی۔ چاہا تھا، ناز اٹھائے تھے، خوشیاں پوری کی تھیں، اس کا صلہ یہ تو نہیں تھا کہ اس کی زندگی برباد کر دی جائے۔ وہ فرحین سے سخت ناراض تھیں جس نے بہن کی مسرتوں پر ڈاکہ ڈالا تھا۔ جان بوجھ کر اسے برباد کیا تھا۔ کیسی خود غرض نکلی یہ لڑکی؟‘‘
ریاض اور فرحین کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد دونوں نے یہ شہر چھوڑ دیا۔ ریاض نے دوسرے شہر کی برانچ میں اپنا تبادلہ کرا لیا تھا۔ ثمین نے بھی سکون کی سانس لی۔ کم از کم روز اپنی آنکھوں سے اپنی بربادی کا تماشہ دیکھنے سے تو بچےگی۔ ایک بار پھر وہ اپنے خول میں سمٹ گئی۔ اس بار یہ خول پہلے سے زیادہ سخت اور مضبوط تھا۔ اپنی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو وہ کاٹ تو نہ سکی۔ سختی سے جھٹک ضرور دیا۔ مرد کی ذات اپنا اعتبار کھو چکی تھی۔ پہلے ایسی بات نہیں تھی۔ صرف فرض کی ادائیگی کا معاملہ تھا تب ہی تو اس نے ریاض کی رفاقت قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیوں کہ اس نے قدم، قدم پر اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ کیا پتہ تھا کہ مرد کا وعدہ اتنا کمزور اور بودا ہوتا ہے۔ یہ کہ مرد اتنا ناقابل اعتبار ہوتا ہے کہ سب کچھ بھولنے میں چند لمحوں کی دیر نہیں کرتا۔ ایسے ناقابل اعتبار مرد کو وہ کیوں اپنی زندگی کی باگ ڈور سونپے۔ اپنے ڈھنگ سے جینا کیا برا ہے؟
کم از کم زندگی میں الجھاوے تو پیدا نہیں ہوتے۔ اس نے آصف، تابش، امجد حد ہے کہ اپنے باس ضمیر رحمانی کو بھی صاف جواب دے دیا۔ آفس کی نوکری چھوڑ دی اور جمع جتھا سرمائے سے اسکول کھول لیا۔ ننھے منے بچوں کی معصوم مسکراہٹوں میں خوشیاں تلاش کیں۔ تو علم ہوا کہ سچی خوشیاں اسی میں ہیں ’’کہ‘‘ کسی ‘‘روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے‘‘۔
اس کی زندگی ہموار راہوں پر رواں دواں تھی۔ کہ ایک دن اچانک ریاض اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ تنہا نہیں دو چھوٹے بچے بھی اس کے ساتھ تھے۔ لڑکی ہو بہو فرحین کا دوسرا روپ تھی اور لڑکا ریاض کی کار بن کاپی۔ ’’فرحین کہاں ہے کیسی ہے وہ؟‘‘۔ ساتھ کیوں نہیں آئی؟ کیا اب تک خفا ہے؟‘‘۔ دماغ میں اٹھنے والے سوالوں کو اس نے دبا دیا۔ وہ سنگ دل اور بےمروت لڑکی بھلا کیوں آتی۔ وہ تو اماں کی موت کی خبر سن کر بھی نہیں آئی تھی۔ حالانکہ اس نے ریاض کے آفس فون کر کے اماں کے انتقال کی خبر خود دی تھی۔ اماں نے اسے چھوڑا تھا۔ ترک تعلق کیا تھا۔ یہ ٹھیک تھا یا نہیں؟۔ وہ اپنے فیصلے میں صحیح تھیں یا غلط؟۔ لیکن ایک بیٹی ہونے کے ناطے فرحین کا رویہ سراسر غلط تھا۔ اولاد کسی موقع پر، کسی حالت میں، ماں کے حقوق سے انکار نہیں کر سکتی۔ لیکن فرحین نے تو اپنا ماں کا رتی بھر بھی لحاظ و خیال نہ کیا۔ وہ اگر اماں سے معافی مانگتی تو وہ ضرور اسے معاف کر دیتیں۔ ماں کے دل میں اولاد کے لئے بڑی وسعت ہوتی ہے۔ یہ اولاد ہی ہے جو ماں کے دل کی وسعتوں کو نہیں سمجھتی۔
’’ثمین میں اس لائق تو نہیں ہوں کہ تم سے معافی مانگوں یا امید کروں کہ تم میرا جرم معاف کر دوگی۔ لیکن انتا ضرور کہوں گا کہ ان معصوم بچوں کا کوئی قصور نہیں ہے‘‘۔
اس نے اپنے ارد گرد نگاہ ڈالی، رنگ برنگی کپڑوں میں ملبوس ننھے منے بچے، ہنستے کھلکھلاتے، شرارتیں کرتے اس کی جان و روح تھے۔ پھر وہ فرحین کے بچوں کو کیسے نظر انداز کر دیتی۔ اس نے انہیں اپنی بانہوں میں لے لیا۔ ریاض کہہ رہا تھا۔ ’’فرحین اب اس دنیا میں نہیں ہے۔‘‘
’’کیا؟۔ کیا فرحین؟۔ وہ تڑپ گئی۔ اس کی بہن اس کی ماں جائی۔ اتنی جلدی دنیا سے چلی گئی۔ ابھی تو جی بھر کے وہ زندگی سے اپنے حصے کی خوشیاں بھی وصول نہیں کر پائی تھی‘‘۔ ان بچوں کو پروان چڑھانے کی آرزو دل میں لئے وہ کیسے جا سکتی ہے؟۔‘‘ اس نے دونوں بچوں کو سینے سے لگا کر بھینچ لیا۔
مجھے بہت جلدی احساس ہو گیا تھا کہ میرا فیصلہ غلط تھا۔ فرحین ایک اچھی بیوی ثابت نہیں ہوئی۔ اس نے زندگی کو محض تفریح سمجھا تھا۔ حقوق و فرائض کا تصور، خدمت اور ایثار کا جذبہ، اس کے پاس سے چھو کر نہیں گزرا تھا۔ میں بچوں کی وجہ سے اسے برداشت کرتا رہا۔ تیسرے بچے کی ولادت کے وقت کوئی پیچیدگی پیدا ہو گئی اور وہ۔ وہ۔‘‘
ریاض کی آواز آنسوؤں میں ڈوب گئی پھر سنبھل کر کہا۔
’’ثمین! تم آج تک تنہا ہو۔ تمہاری زندگی میں میرے بعد کوئی نہیں آیا۔ میں آج بھی تمہاری رفاقت۔‘‘
’’بس ریاض! اس کے آگے ایک لفظ نہ کہنا۔‘‘ وہ چیخ اٹھی۔
’’تم اگر اس خوش فہمی میں ہو کہ میں آج تک تمہارے نام پر بیٹھی ہوں۔ تو بھول جاؤ! میں نے اپنی زندگی سے وہ خانہ مٹا دیا ہے۔ جس پرکسی مرد کا نام لکھا جاتا۔ ورنہ تم اس دنیاکے آخری مرد نہیں تھے۔ نہ مجھے تم سے عشق تھا۔ یہ تو ایک سیدھا سادا سمجھوتہ تھا۔ جو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ اور بات ہے کہ تم نے مر دذات کا اعتبار مجروح کر کے مجھے بروقت سنبھال دیا۔ ورنہ میرے لئے تمہارے جیسے کسی مرد کے بچے پیدا کرنا مشکل نہیں تھا۔ لیکن میرے آدرش ان سطحی باتوں سے بہت اونچے تھے۔ میرا یہ چھوٹا سا اسکول اور یہ پیارے پیارے بچے۔ اس کا ثبوت ہیں‘‘۔ ثمین نے بڑے فخر سے کہا۔
’’ثمین! مرد کے سہارے کے بغیر زندگی کا سفر بہت کٹھن ہوتا ہے۔ ضد چھوڑ دو۔ ان بچوں کی ماں بن جاؤ‘‘
’’بن جاؤں گی۔ لیکن میری ایک شرط ہے‘‘۔
’’مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔‘‘ ریاض نے جلدی سے کہا۔
’’ان بچوں کی ولدیت کے خانے سے ا پنا نام کاٹ دو‘‘
ثمین نے ٹھوس اور بےرحم لہجے میں کہا۔ ریاض کا دماغ جھنجھنا اٹھا۔ وہ حیرت اور بے یقینی سے کہہ اٹھا۔
’’کیا! کہا؟‘‘۔
’’ہاں! آج کے بعد تم بھول جاؤ گے کہ ان کے باپ ہو۔ اس شرط پر میں ان کی ماں بننے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن میں یہ برداشت نہیں کروں گی کہ میرے بچوں کے باپ تم کہلاؤ‘‘۔
ثمین کے لہجے کی سختی برقرار تھی۔ ریاض نے اس کی آنکھوں میں عزم و استقلال کی جامد سختی دیکھی۔ چہرے پر آہنی فیصلے کا عکس دیکھا اور سر جھکائے خاموشی سے باہر نکل گیا۔
ثمین نے بچوں کو چوم لیا اور آنکھوں میں مچلنے والے آنسوؤں کو باری باری دونوں کے سر سے رگڑ کر صاف کر دیا۔
آج فرحین اور ریاض اسے واپس مل گئے تھے۔ یہ واپسی خوشگوار نہ سہی۔ اس کی ویران زندگی کے لئے صبح کی نرم، نرم، ہواؤں جیسی ضرور تھی۔ وہ انہیں پہلو سے لگائے اسکول سے ملحق اپنے گھر میں داخل ہو گئی۔
آج برسوں کے بعد اس کا گھر پھر سے آباد ہو گیا تھا اور اس کے دل کے زخم پھول بن گئے تھے۔ ان پھولوں پر دونوں معصوم بچوں کی محبت شبنم کی ٹھنڈی پھوار بن کر قطرہ قطرہ گر رہی تھی اور اس کی روح کو بھگور ہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.