شادی کو گیارہ سال ہو گئے تھے، لیکن اولاد نرینہ سے محرومی اس کی پوری زندگی پر محیط ہو چکی تھی۔ شادی سے پہلے اس نے کتنے منصوبے بنائے تھے، ’’دو بیٹے ہوں گے اور دو ہی بیٹیاں پیدا کریں گے’‘ لیکن اللہ میاں کی منصوبہ بندی میں انسان کی سوچ کو بھلا کیا دخل؟ وہ ان گیارہ سالوں میں اولاد نرینہ کی خواہش کے لیے چار بیٹیوں کا باپ بن چکا تھا مگر اپنا وارث پیدا نہ کر سکا۔ بات بے بات بیوی سے لڑائی رہنے لگی وہ پریشان اور بے بس رہتی کہ شوہر کی خواہش کیوں کر پوری کر سکے؟ وارث پیدا کرنے کی خواہش میں اس کی ذاتی محرومیوں نے اوربھی شدت پیدا کر دی تھی۔ وہ اولاد کی شکل میں ان محرومیوں کی تکمیل چاہتا تھا اور جوں جوں اس کی عمر ڈھلتی جا رہی تھی محرومیوں کا طوق اور وزنی ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اس جنون میں اس نے شہر کا کوئی ہسپتال، ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر نہ چھوڑی جس سے بیوی کا طبی معائنہ نہ کرایا ہو۔ اپنی روشن خیالی کے باوجود وہ کئی سنیاسیوں اور حکیموں کے پاس بھی مشورے کے لیے گیا، مگر اس خلش کا علاج کوئی نہ کر سکا۔۔۔ اس نے کئی مرتبہ عقد ثانی کے ذریعے بھی یہ عقدہ حل کرنے کی ٹھانی مگر دوسرے ہی لمحے قلیل آمدن آڑے آ جاتی اور اسے اپنا ارادہ ترک کرنا پڑتا۔ آخر اس نے ہر طرف سے مایوس ہوکر حالات سے سمجھوتہ کر کے اپنی محرومیوں کو تھپک تھپک کر سلا دیا۔
اب اس کی تمام تر توجہ کا مرکز اس کی بیٹیاں تھیں۔ رشیدہ چھٹی، سعیدہ چوتھی اور حمیدہ دوسری جماعت میں پڑھ رہی تھی، فریدہ ابھی صرف ایک سال کی تھی۔ اس نے تہیہ کر لیا بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر ان کے بہتر مستقبل کو ممکن بنائے گا، لیکن کبھی کبھی یونہی غور و فکر میں غلطاں وہ اپنی چار بیٹیوں کو بھی قلیل آمدن کے ترازو میں تولنے لگتا۔ ان کی تعلیم و تربیت اور پھر شادی کی فکر سے اس کا دل بیٹھ بیٹھ جاتا۔ ایسے میں اس کی وفا شعار بیوی اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دل کا تمام بوجھ ہلکا کر دیتی۔ کیونکہ زندگی میں وہی اس کی واحد غمگسار تھی۔ایک دن اس نے اخبار میں خبر پڑھی کہ ایک مسلمان ملک پر پڑوسی ملک نے یلغار کر کے طویل جنگ مسلط کر دی ہے جس کے نتیجے میں اس ملک کی کثیر مسلم آبادی کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے سینکڑوں مرد و زن ہلاک کر دیئے گئے۔ ان کے معصوم بچے یتیم اور بےآسرا ہو گئے۔ چنانچہ امہ مسلمہ کے متفقہ فیصلے کے مطابق ان بے آسرامسلم بچوں کو بہت سے دوسرے مسلمان ملکوں میں کفالت کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ انہی بے یارومددگار بچوں پر مشتمل ایک جہاز کچھ عرصہ بعد اس ملک میں پہنچ رہا ہے۔ خبر پڑھ کر اس نے ایک لمحہ کے لیے سوچا اور پھر جیسے اس نے بجلی کے ننگے تار چھو لیے ہوں۔۔۔ وہ خوشی سے کھل اٹھا، گویا اس کے خوابوں کو تعبیر مل گئی۔ اس نے ایک دم فیصلہ کر ڈالا کہ وہ ان درماندہ بچوں میں سے ایک بچے کی تربیت اورکفالت سے اپنی تشنہ کام آرزوؤں کی تکمیل کرےگا۔ حالانکہ اس خبر سے پہلے کسی یتیم خانے سے بچہ لے کر پالنے کا معاملہ بھی اس کے زیر غور آیا تھا اور درپیش مسائل نے اس کی راہ روک لی تھی۔۔۔ لیکن اس خبر نے تو اس کی آرزوؤں کو نئی اڑان دے دی تھی۔
اخبار کی وہ خبر بہت چھوٹی اور نا مکمل تھی۔ اس نے خبر کے بارے میں کئی دوستوں سے تفصیلات دریافت کرنے کی کوشش کی ۔بہت سوں نے تو سرے سے وہ خبر پڑھی ہی نہ تھی۔ جو چند ایک نے پڑھی تھی، انہوں نے اس کے فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، کسی نے کہا ’’یار! مہنگائی کے اس عالم میں تم ایک لے پالک بچے کی پرورش کیسے کرو گے؟ جبکہ تم پہلے ہی چار بچیوں کے باپ ہو‘‘ کسی نے اسے جذباتی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ تمہاری بیوی اس لاوارث بچے کی پرورش کے لیے کیسے راضی ہوگی؟ تم شاید عورت کی نفسیات نہیں جانتے، اپنے بچے ہی اس کے وارث ہوتے ہیں، لاوارث بچے ان کی جگہ کبھی نہیں لے سکتے۔ آپس کے اختلافات بڑھ جائیں گے۔ اس طرح تو گزارا مشکل ہو جائےگا۔’‘ بعض نے کہا کہ ’’غیر ممالک سے آئے ہوئے بچوں کے رنگ و نسل اور زبان کا بڑا مسئلہ ہوگا، کیا معلوم تمہاری اپنی بچیاں ہی نئے آنے والے کو برداشت نہ کر سکیں۔ پھر تم کیا کروگے؟‘‘ دوستوں کے طرح طرحٖ کے سوالات نے اسے خاصا پریشان کر دیا، مگر پھر بھی وہ مایوس نہ ہوا۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنی بیوی کو اس سلسلے میں اعتمادمیں لینے کی کوشش کرےگا۔ وہ اس بارے میں بہت دیر تک سوچتا ریا، پھر اچانک اس کے ارادوں کو زبان مل گئی۔
’’رشید ہ کی امی تم نے یہ خبر پڑھی ہے؟’‘ اس نے بیوی کے سامنے اخبار پھیلاتے ہوئے کہا۔
’’ہوں۔۔۔ کون سی خبر۔۔۔؟’‘ بیوی نے نظریں اخبار پر پھیلاتے ہوئے چونک کر پوچھا۔
’’یہ خبر دیکھو۔۔۔ ایک مسلمان ملک کے سینکڑوں بےآسرا بچے تھوڑے عرصے میں ہمارے ملک لائے جارہے ہیں، بیچاروں کے والدین جنگ میں شہید ہو چکے ہیں، اب ان کی پرورش ہمارے ملک کے بہت سے مسلم گھرانے کریں گے۔‘‘ اس نے پوری خبر آسان اور مختصر الفاظ میں سنا ڈالی اس کی بیوی نے خبر کا بغور جائزہ لیا اور پہلے سے ہی اپنے شوہر کا ارادہ بھانپ کر خاموش رہی۔
میں نے ان میں سے ایک خوبصورت بچہ ’’ایڈاپٹ‘‘ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، ہم اس کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے، ہمارا بیٹا بڑا ہو کر یقیناًہمارا وارث اور سہارا بنےگا اس کی بیوی بدستور خاموش تھی، جس کی مسلسل خاموش اور چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات اس بات کی دلیل تھے کہ وہ شوہر کے فیصلے سے خوش نہیں مگر وہ فیصلہ سن کر شوہر کی خواہش اور اپنی بے بسی پر بہت مایوس نظر آ رہی تھی۔ بیوی کو خاموش پا کر وہ بچوں کی طرف متوجہ ہوا۔
’’رشیدہ۔۔۔ سعیدہ بیٹے ادھر آؤ بات سنو! تم دونوں پوچھتی تھیں ناں کہ ہمارا کوئی بھائی کیوں نہیں ہے؟ بیٹے میں نے تمہارے معصوم سوالوں کا جواب پا لیا ہے لو خود ہی اخبار دیکھ لو۔ اس میں تمہارے بھائی کے بارے میں خبر چھپی ہے۔‘‘
’’ابو اس خبر سے بھلا ہمارے بھائی کا کیا تعلق؟ یہ تو ایک جہاز کے ذریعے بہت سے بچوں کے آنے کی اطلاع ہے‘‘ رشیدہ خبر پڑھ کر کچھ سمجھنے اور کچھ نہ سمجھنے کی کیفیت میں والدین کی طرف دیکھنے لگی۔
’’بیٹے! اس خبر کا تمہارے بھائی سے بہت گہرا تعلق ہے۔’‘
اس نے اعتماد سے کہا ’’وہ کیسے ابو؟’‘ اب کے سعیدہ مجسم سوال بن کر بولی۔
’’بیٹا! انہی بچوں میں تمہارا بھائی بھی ہوگا’‘ وہ مسرور ہو کر بولا۔
’’ابو! پہلے ہمارا بھائی کہاں ہوا کرتا تھا وہ ہمارے پاس کیوں نہیں رہتا تھا؟’‘ حمیدہ معصومیت سے بولی۔
’’وہ پہلے اللہ میاں کے پاس رہتا تھا، ہم نے اسے خط لکھ کر آپ کے پاس بلوا لیا ہے۔’‘ اس نے کہانی گھڑی۔
’’ابو! بھائی وہاں سکول میں بھی پڑھتا ہوگا ناں، ورنہ تو وہ پڑھائی میں مجھ سے پیچھے ہوگا۔‘‘ حمیدہ کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔
’’دیدو بیٹا! ابھی وہ تم سے چھوٹا ہے، یہاں آئے گا تو اسے تمہارے سکول میں داخل کرا دیں گے’‘ اس نے حمیدہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ رشیدہ اور سعیدہ ابو کو مسکرا مسکرا کر دیکھ رہی تھیں، جیسے ساری کہانی ان کی سمجھ میں آ گئی ہو۔ بچوں کی ماں بظاہر تمام معاملے سے بےخبر ننھی فریدہ کن فیڈر سے دودھ پلا رہی تھی لیکن وہ اس کی اندرونی کیفیت کو اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔
’’بیٹے! جب جہاز ایئر پورٹ پر لینڈ کرےگا تو میں تمہارے بھائی کا استقبال کروں گا اور اسے لے کر آؤں گا پھر وہ ہمارے ساتھ رہا کرےگا‘‘ اس نے گویا اپنا فیصلہ سنا دیا۔
’’ٹھیک ہے ابو! ہم اپنے بھائی کے ساتھ کھیلا کریں گے اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھیں گے۔’‘ سعیدہ نے ابو کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ وہ بچوں کی طرف سے مطمئن ہوکر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اب تو اٹھتے بیٹھتے اسے ایک ہی خیال دامن گیر رہتا کہ بچوں کا جہاز کب آئےگا اور وہ کب اپنا وارث منتخب کر کے لائےگا۔ صبح اٹھتے ہی اخبار سنبھال لیتا اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر بس ایک ہی خبر کی تلاش میں محو ہو جاتا لیکن اس کی مطلوبہ خبر اخبار میں نہ ملتی، اس کی بے چینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ بیٹا حمیدہ سے عمر میں چھوٹا ہوتا کہ اس کی تربیت وہ یہاں کے ماحول کے مطابق کر سکے۔ ایک دن اس نے گزشتہ خبر کے حوالے سے اخبار کے دفتر بھی فون کر ڈالا لیکن انہیں بھی مزید تفصیلات کا علم نہ تھا۔۔۔ مگر پھر بھی اس نے بیٹے کے استقبال کی تیاریاں جاری رکھیں اور چند ہی دنوں میں اپنے آئیڈیل بیٹے کے لیے رنگ برنگے کپڑے، جوتوں کے کئی جوڑے اور ڈھیر سارے کھلونے جمع کر لیے۔
پھر ایک دن صبح کے اخبار میں کمشنر صاحب کی طرف سے ایک اشتہار پڑھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ان بے سہارا بچوں کا جہاز ٹھیک دس روزبعد پہنچ رہا تھا، اشتہار میں اہل ثروت اور درد مند، خاص طور پر بےاولاد شہریوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ ان بچوں کی سرپرستی، کفالت اور پرورش میں انتظامیہ کی مدد کریں اور اگر بےاولاد اورصاحب توفیق والدین ان بچوں کو ’’ایڈاپٹ’‘ کرنا چاہیں تو انتظامیہ ان سے پورا پورا تعاون کرےگی۔
اشتہار پڑھنے کے بعد وہ کافی دیر اپنے آپ میں مگن ہو کر جانے کیا کیا سوچتا رہا، اخبار اس کے سامنے پھیلا ہوا تھا اور جلتا ہوا سگریٹ کب کا خاموش ہو چکا تھا۔
’’ابوناشتہ کر لیجیئے۔۔۔’‘ رشیدہ ناشتے کی ٹرے لیے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ ’’رشیدہ بیٹے! تمہارے بھائی کا جہاز دس روز بعد آ رہا ہے۔’‘ اس نے بیٹی کو خوشخبری سنائی۔
’’سچ ابو!۔۔۔’‘ رشیدہ کے چہرے سے بھی مسرت جھلکنے لگی۔ یہ گفتگو سن کر سعیدہ بھی دوڑی چلی آئی۔ مارے تجسس کے اس نے اخبار کی ساری خبریں دیکھ ڈالیں، اس امید پر کہ شاید اس سے متعلق مزید کوئی تفصیلی خبر مل جائے لیکن اخبار میں کمشنر آفس کے اشتہار کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس کی ذہنی کیفیت عجیب ہو چلی تھی۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنے دفتر فون کر کے اشد ضروری کام کی وجہ سے چھٹی کی اطلاع دی اور تیار ہوکر کمشنر آفس چل پڑا۔
ان بےسہارا بچوں کے ’’ ایڈاپشن’‘ کے لیے کمشنر آفس سے رابطہ کرنے والا وہ پہلا آدمی تھا۔ اس پر اس کی بہت پذیرائی کی گئی۔ کمشنر صاحب نے چار سالہ بچہ ’’ایڈاپٹ’‘ کرنے کی اس کی عرضی کارروائی کے بعد منظور کر لی اور اس سلسلے میں حکومتی پالیسی کی چیدہ چیدہ باتوں سے بھی آگاہ کر دیا اور اسے مقررہ تاریخ کو صبح دس بجے ایئر پورٹ پر پہنچنے کی ہدایت کی گئی۔ وہ کمشنر صاحب کا شکریہ ادا کر کے خوشی خوشی گھر آ گیا۔
اب تو وہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے دور دیس سے آنے والے بیٹے کے خواب دیکھنے لگا۔ بچے کی عمر تقریباً چار سال کے لگ بھگ ہو گی، وہ ہم ایشیائی باشندوں سے ذرا مختلف بلکہ خوب گورا چٹا ہوگا۔۔۔ پہلے تو وہ ہماری اور ہم سب کی زبان نہ سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں گے۔۔۔ سب بچے بالے بات بےبات کھلیں گے۔۔۔ تھوڑے عرصے میں بچے اسے مقامی زبان سکھانا شروع کر دیں گے اور وہ چھوٹے چھوٹے جملوں کو اپنے لہجے میں ادا کرنے کی کوشش کرےگا۔ ‘‘اس نے ان چند ہی دنوں میں اپنے ذہن میں بیٹے کا مبہم سا خاکہ تیار کر لیا۔
اب اس کا کسی کام میں جی نہیں لگتا تھا۔۔۔ وقت تھا کہ جیسے ٹھہر گیا ہو ایک ایک پل بھاری ہو چلا تھا اگرچہ جہاز آنے میں ابھی کئی دن پڑے تھے لیکن ابھی اسے بیٹے کے استقبال کی تیاری بھی تو بہت کرنی تھی اس نے یہ سوچ کر دفتر سے ہفتہ بھر کی چھٹی لے لی اور مزید انتظامات میں جت گیا۔‘‘
اس کے مکان کے کل تین کمرے تھے، ایک بچوں کا، ایک ان کا اپنا اور ایک ڈرائنگ روم جس میں کبھی کبھار کوئی مہمان رات بھر کے لیے ٹھہر جایا کرتا تھا۔ ’’بیٹے کا کمرہ کون سا ہوگا؟‘‘ اسے فکر لاحق ہوئی۔۔۔ قدرے توقف کے بعد اس نے سوچا کہ بچوں کے کمرے سے فالتو سامان نکال لیا جائے اور بیٹے کے لیے دوسرے بچوں ہی کے کمرے میں گنجائش نکالی جائے۔
چنانچہ دوسرے دن صبح صبح بچیوں کے کمرے کی قلعی کرائی گئی، نیا پلنگ اور بستر ڈالا گیا۔ نئے کپڑے اور جوتے الماری میں سلیقے سے رکھے گئے، تمام کھلونے ایک بڑی میز پر قرینے سے سجا دیئے گئے، دوسرے تمام بچوں کو اس کمرے کی دیکھ بھال کے لیے کہہ دیا گیا۔
اگلے روز اس نے بیدار ہوتے ہی دیوار پر لگے کیلنڈر میں نشان لگایا، انتظار کی گھڑیاں گنتے گنتے اب صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا۔ تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ آخری روز وہ دن بھر گھر سے باہر نہ نکلا بلکہ اپنے کمرے میں وقفے وقفے سے چائے اور سگریٹ پینے اور مطالعہ کرنے میں مشغول رہا۔ اس نے ایک عرصہ بعد اپنے پرانے دوستوں کو خط لکھے اور ان میں خصوصیت کے ساتھ اپنے وارث کا ذکر کیا جس کا نام اس نے عدنان سوچ رکھا تھا۔ ’’عدنان خواجہ’‘۔
اس رات صبح کے انتظار میں وہ دیر تک جاگتا رہا، جانے کب نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اور اس کے تھکے ہارے جسم کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ وہ رات بھر تشنہ خوابوں سے آنکھ مچولی کھیلتا ریا، اس کے خواب جلتے بجھتے چراغوں کی طرح اسے بھٹکاتے رہے اور یونہی صبح ہو گئی اس نے کھڑکی سے پردہ سرکایا تو سرما کی نرم دھوپ چھن چھن کر اندر آنے لگی، پرندوں کی چہچہاہٹ نے اس کے رگ و پے میں تازگی کا نیا احساس بھر دیا۔ وہ صبح بالکل نئی اور انوکھی تھی جیسے بارش کے بعد اچانک سورج نکل آئے تو فضا میں ہر طرف سونا بکھر جاتا ہے۔ اس نے گھڑی دیکھی تو آٹھ بجنے کو تھے۔ وہ جلدی جلدی اپنے معمولات سے فارغ ہو کر ائیرپورٹ پہنچ گیا۔ لیکن ابھی دس بجنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ ائیرپورٹ پر بچوں کے استقبال کے لیے تڑپتی آغوش لیے اور بھی بہت سے بے اولاد والدین موجود تھے۔ جس سے ائر پورٹ کے رش میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ بچوں کے جہاز کو فضا سے زمین پر لینڈ کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ سوچ کر وہ سب سے لا تعلق ہو کر ائیرپورٹ کی چھت پر ایک الگ تھلگ بنچ پہ جا بیٹھا جہاں سے نیچے دور تک پھیلا صاف اور شفاف رن وے صاف نظر آ ریا تھا۔ اس نے گھڑی دیکھی تو دس بج چکے تھے لیکن ابھی تک فلائٹ کی آمد کا اعلان نہیں ہوا تھا شاید فلائٹ لیٹ تھی۔
اس نے سگریٹ سلگایا اور ایک لمبا کش لے کر دھوئیں کے مرغولے فضا میں چھوڑتے ہوئے جاگتے میں خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔
وہ چار بیٹیوں کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت بیٹے عدنان خواجہ کا باپ بن چکا تھا اور بے حد مسرور تھا کیوں کہ اس نے مرنے سے پہلے اپنا ولی عہد پیدا کر لیا تھا، جو اس کے بعد کسی نہ کسی صورت یقیناً اس کے نام کا حوالہ بنے گا میں اپنے بیٹے کی تربیت میں اپنے سارے ارمان نکالوں گا، اس نے سوچا۔۔۔ پھر اس نے واقعی بیٹیوں سے زیادہ بیٹے کی تربیت پر توجہ دینا شروع کر دی، اسے اچھی تعلیم دلوائی۔۔۔ پہلے سکول، پھر کالج اور پھر ایک دن عدنان خواجہ نے آسمان کی بلندیوں کو چھو لیا۔۔۔ وہ انتہائی محنت سے تربیت مکمل کر کے پائلٹ بن چکا تھا۔ اس روز عدنان خواجہ اپنی پہلی ٹیسٹ فلائٹ پر تھا۔ جیٹ کے سارے انجن اسٹارٹ ہو چکے تھے جن کے شور سے ائیر پورٹ گونج اٹھا۔۔۔ گھنے درختوں میں چھپے پرندے پھڑپھڑانے لگے۔۔۔ وہ اپنے بیٹے کی فرسٹ فلائٹ کا دور سے نظارہ کر رہا تھا۔۔۔ اگلے ہی لمحے عدنان کا طیارہ رن وے پر دوڑنے لگا۔۔۔ابھی اس نے ٹیک آف کا بٹن دبایا ہی تھا کہ خواجہ صاحب کے کاندھے پر کسی نے ہاتھ دکھ دیا۔
’’ارے خواجہ صاحب! آپ یہاں بیٹھے ہیں ہم نے آپ کی تلاش میں سارا ائیرپورٹ چھان مارا ہے۔’‘ اس نے نگاہ اٹھائی تو کمشنر صاحب انتظامیہ کے چند اہلکاروں کے ہمراہ سامنے کھڑے تھے۔
’’خواجہ صاحب! مجھے بےحد افسوس ہے بس یہی ایک بےسہارا رہ گئی ہے۔ جو آپ کے دست شفقت کی منتظر ہے۔’‘ کمشنر صاحب ایک پانچ سالہ سرخ و سپید بچی کے سر پر ہاتھ رکھے خواجہ صاحب کی طرف التفات بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.