Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ولادت

MORE BYاسماعیل فسیح

     

    بچے کا سر باہر آیا اور تسلے میں تھوڑا خون گرا۔ میری دادی نے زچہ کے دونوں ہاتھ کس کر پکڑ لیے اور کہا، 

    ’’زور لگاؤ، کہو یا علیؑ، یا فاطمہ زہراؑ۔‘‘ 

    زچہ اب بھی چیخ چیخ کر روئے جارہی تھی۔ میری طرف کسی کا دھیان نہ تھا۔ میں بارش میں بھیگتا ہوا آیا تھا اور دروازہ بھیڑ کر کھڑا ہوا تھا۔ مجھ کو دور سے بچے کے سر کے چپچپے بال دکھائی دیے، پھر اس کی گردن اورنچلا بدن نظر آیا۔ خون پھر گرا۔ میں نے دیکھا بچہ دھیرے دھیرے دنیا میں آرہا ہے۔ 

    ’’یا علی ی ی ی۔‘‘ 

    اس کے بعد، کوئی ایک گھنٹے بعد، سب کام پورا ہوچکا تھا۔ 

    باہر موسلا دھار بارش اور طوفانی رات تھی۔ میں جاکر نہر سے دادی کے لیے لوٹے میں پانی لے آیا اور دادی احاطے سے متصل چبوتر یا پر ہاتھ دھونے بیٹھ گئیں۔ اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ کبھی کبھی بجلی کوند جاتی اور گرج سنائی دیتی۔ احاطہ چمڑے کے کارخانے کے پیچھے کا ایک کھنڈر تھا، جس کے کونے میں دو کمرے بنے ہوئے تھے۔ انھیں میں سے ایک کمرے میں ایک عورت کے یہاں زچگی ہوئی تھی۔ آدھی رات کے وقت ایک ہمسائی نے میری دادی خانم جان کو بلوایا تھا۔ خانم جان مجھے بھی اپنے ساتھ لیتی آئیں۔ وہ ساٹھ سال کی ہوگئی تھیں۔ میں چھ سال کا تھا۔ 

    خانم جان نے ہاتھ دھوکر پونچھے۔ آکر پھٹا پرانا لحاف زچہ پر ڈال دیا۔ زچہ نے آنکھیں کھول دیں۔ خانم جان بولیں، ’’اللہ نے تمھیں سنہرے بالوں والا بچہ دیا ہے۔‘‘ 

    ’’کیا؟‘‘ زچہ بولی، اس پر نقاہت طاری تھی، ’’کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ 

    خانم جان بولیں، ’’کہہ رہی ہوں تم نے سنہرے بالوں والا بچہ جنا ہے۔ پھر شبِ جمعہ دنیا میں آیا ہے، اس کے وزن برابر چھوہارے خیرات کردینا۔‘‘ 

    عورت نے پوچھا، ’’زندہ بھی ہے؟‘‘ 

    ’’آئیں! زندہ ہے کیا مطلب؟‘‘ خانم جان بولیں، ’’رونے کی آواز نہیں سن رہی ہو؟‘‘ 

    کمرے کے گوشے میں ہمسائی نے آہ بھر لی اور بولی، ’’بہ حق پنجتن۔‘‘ 

    وہ بچے کے قنداق 1 میں لگی ہوئی تھی۔۔۔ خانم جان نے کہا، ’’زندہ ہے۔ اچھا پیارا سا ہے۔‘‘ 

    زچہ بولی، ’’آپ کو جناب عباس کی قسم۔‘‘ 

    ’’توبہ ہے۔‘‘ خانم جان نے کہا، ’’کیسی باتیں کر رہی ہو؟ اچھا بھلا ہے۔ میں نے کہا خانم آقا لٹھے کے پارچے کو بیچ میں چاک دے کر بچے کی قیامتی کفنی 2 بنالیں۔‘‘ 

    ’’تو جیتا رہے گا؟‘‘ 

    ’’ہاں بھئی ہاں۔ یہ کیا بک رہی ہو؟‘‘ 

    ’’میرے بچے جیتے نہیں۔‘‘ عورت بولی، ’’۔۔۔ سب جاتے رہے۔‘‘ 

    دروازے کے پیچھے ہوا چیخ رہی تھی۔ بارش اور تیز ہوگئی تھی۔ میں چھت کے ایک کونے کو گھو رہا تھا۔ وہاں پانی رسنے لگا تھا۔ 

    خانم جان نے بھنویں اچکا کر ہمسائی کی طرف دیکھا۔ ہمسائی بولی، ’’کیا جانے، خانم۔ سچ تو کہتی ہے۔‘‘ 

    خانم جان نے زچہ سے کہا، ’’یہ تو زندہ سلامت ہے۔ یا ام البنین، سب کی مرادیں پوری ہوں۔‘‘ 

    زچہ نے پوچھا، ’’بچہ کہاں ہے؟‘‘ 

    ’’خانم آقا اسے قنداق میں کر رہی ہیں۔‘‘ خانم جان نے بتایا، ’’کل قنداق میں مٹھی بھر چاول باندھ کر دو تین دن یوں ہی رہنے دینا، پھر دروازے پر فقیر کو دے دینا۔‘‘ 

    زچہ نے آنکھیں بند کرلیں اور دیر تک نیند میں، یا غش میں، رہی۔ بارش کے دڑیڑوں کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔ 

    ہمسائی خانم آقا، آ شیخ حسن قلیونی کی بیوی، نے بتایا کہ زچہ کا نام موچول ہے۔ موچول کا شوہر روح اللہ خاں کیل گھر میں کام کرتا تھا۔ بھلا آدمی تھا۔ یہ لوگ نئے نئے یہاں آئے تھے۔ اس سے پہلے قوام الدولہ کی بزریا میں رہتے تھے۔ موچول حاجی آقا جواد واعظ کے گھر کی ایک بروجردی نوکرانی کی لڑکی تھی۔ روح اللہ خاں آج ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔ ہمسائی نے بتایا کہ روح اللہ تھوڑا شرابی ہے، مگر ماشاء اللہ ہٹا کٹا مرد بچہ ہے۔ اس کی پہلی بیوی شادی کے پہلے ہی سال زچگی میں مر گئی تھی۔ موچول اس کی دوسری بیوی تھی۔ 

    خانم جان نے زچہ سے کہا، ’’گھبراؤنہیں، بیٹی۔ یہ بچہ تمہارا جیتا رہے گا۔ خوب تندرست بھی ہے۔‘‘ 

    زچہ نے رونا شروع کردیا۔ پھر دونوں ہاتھ اوپر اٹھاکر بولی، ’’یا جنابِ عباس، آپ کے حوالے۔۔۔‘‘ 

    خانم جان بولیں، ’’سوجا بچی، آرام کرلے۔‘‘ 

    ’’آپ کو کیا پتا۔۔۔‘‘ وہ بولی، ’’کیسی نصیبے کی مار ہے کہ چھے چھے بچے جاتے رہے۔‘‘ 

    ’’چھے چھے؟‘‘ 

    ’’چھے سال میں چھے۔ سب جاتے رہے۔‘‘ 

    خانم جان بولیں، ’’اللہ کی پناہ!‘‘ 

    آ شیخ حسن قلیونی نے اپنے حجرے سے اذان دینا شروع کی۔ زچہ بولی، ’’فقط آخر والا علی سات مہینے جیا۔ اس کا نام میں نے ’علی بمان‘ رکھا تھا، مگر۔۔۔‘‘ 

    عورت کہنے لگی، ’’باقی کوئی تین دن، چار دن سے زیادہ نہیں جیا۔ اتنے اتنے سے پیدا ہوتے تھے۔ سارے ڈیل سے گہنائے ہوئے۔ تمام میں چھالے اور دَدڑے۔ سر اور چھاتی پر بھی چھالے ہی چھالے۔ ایک تونکلا ہی مرا ہوا۔ کیا کیا جھیلا ہے! قوام الدولہ کی بزریا میں صغرا خانم دائی تھی، اس نے سنبھال لیا، نہیں میں بھی گئی تھی۔ علی، وہی جو سات مہینے جیا، آپ نے دیکھا نہیں، چاند سا بچہ تھا۔ پیاری پیاری آنکھیں، گل گوتھنا، ذرا سی ناک، اتنا سا دہانہ۔ وہ بھی جب ہوا ہے تو بدن پر چکتے اور سفید داغ تھے۔ پسلی الگ چلتی۔ ساتویں مہینے پاؤں پاؤں چلنے لگا تھا۔ تین رات بخار میں بھنتا رہا۔ پھر وہ بھی گزر گیا۔‘‘ 

    ’’اللہ پر بھروسہ رکھ، بیٹی۔‘‘ خانم جان نے کہا۔ 

    ’’داغ ہی داغ۔۔۔‘‘ عورت بولی، ’’پھوٹی قسمت، نصیبوں جلی۔ چھے چھے بچے جاتے رہیں اور آدمی کچھ نہ کرپائے۔‘‘ 

    ’’منت مانو۔‘‘ خانم جان نے کہا، ’’آخر پنجتن اور امام بھی تو ہیں۔‘‘ 

    عورت کہنے لگی، ’’جب بھی بچہ جنتی تھی، اس کا باپ قنداق کو اٹھاکر جھنجھوڑنے لگتا، بڑے تیہے سے پوچھتا، یہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ اتنا سا کیسے ہے؟ یہ لعنتی داغ دھبے کا ہے کے ہیں۔۔۔؟ پھر بچے مرتے تو میرا جینا دوبھر کردیتا تھا۔ تاؤدکھاتا تھا، مارتا کوٹتا تھا۔ یا ابوالفضل العباس، یہ ایک میرا جیتا رہے، یہ ایک نہ مرنے پائے۔‘‘ 

    ’’اتنی بے چین نہ ہو بچی۔۔۔‘‘ خانم جان بولیں۔ 

    زچہ دبلی پتلی مختصر سی عورت تھی۔ چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی، ناک پتلی اور نوک پر سے اٹھی ہوئی تھی۔ بڑی بری کالی آنکھیں، الجھے ہوئے سیاہ گھنے بال۔ عمر کا کچھ پتا نہ چلتا تھا، شاید بیس سال۔ چالیس کی بھی ہوسکتی تھی۔ 

    ہمسائی اپنا کام پورا کرچکی تھی اور اب ماں اوربچے کے درمیان جاجم کے ایک کونے پر اکڑوں بیٹھی ہوئی تھی۔ 

    زچہ نے خانم جان کو بتایا، ’’علی جب چار مہینے کا تھا تو ایک رات میں اس کو درگاہ شاہ عبد العظیم میں لے گئی، اس کو ضریح سے باندھ دیا اور خوب روئی، اتنا روئی کہ آنکھوں سے خون بہنے لگا۔‘‘ 

    خانم جان بولیں، ’’خیر، اب تو یہ گلدستہ سا بچہ مل گیا ہے، اس کے لیے دعا کرو۔۔۔‘‘ 

    ’’ہاں، لیکن یہ جیتا بھی رہے گا؟‘‘ زچہ نے پوچھا، ’’اس کو بھی تو موت نہیں لے جائے گی؟ جیسے اوروں کو۔۔۔‘‘ 

    ’’ہاں بھئی، جیتا رہے گا۔‘‘ 

    ’’زندگی!‘‘ ہمسائی نے آہ بھری، ’’مصیبت، بدنصیبی، دکھوں کا گھر۔ مرنے والے چین سے ہیں۔ خاک یہ دو دن کی زندگی۔۔۔‘‘ 

    زچہ نے جھجکتے جھجکتے پوچھا، ’’یہ بھی اتنا سا ہے نا؟ ستوانسا۔۔۔‘‘ 

    خانم جان نے کہا، ’’نہیں۔۔۔ ستوانسے بچے تو بڑے تیز، ہونہار ہوتے ہیں۔ بڑھتے بھی جلدی ہیں۔‘‘ 

    زچہ اور زور زور سے رونے لگی۔ آنسوؤں سے میری آنکھیں سلگنے لگیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ عورت روئے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بچہ مر جائے، مگر مجھ کو یقین تھا کہ بچہ مر جائے گا اور کوئی کچھ نہیں کرسکے گا۔ 

    ہمسائی نے ایک اور زوردار آہ بھری۔ 

    ’’بچہ کہاں ہے؟‘‘ زچہ نے پوچھا، ’’میں بھی تو دیکھوں۔‘‘ 

    ’’صبر کرو، بیٹی۔‘‘ خانم جان بولیں، ’’قنداق تو ہوجانے دو۔‘‘ 

    خانم جان نے ہمسائی کی طرف دیکھا اور پھر کچھ نہیں کہا۔ 

    ’’اس کی حالت۔۔۔‘‘ زچہ بولی، ‘‘ وہ ٹھیک ٹھاک تو ہے نا؟‘‘ 

    وہ کچھ پوچھنا چاہتی تھی مگر پوچھتے ڈر رہی تھی۔ خانم جان نے کہا، ’’ٹھیک ہے، بیٹی۔‘‘ 

    ہمسائی نے پلٹ کر خانم جان کو دیکھا۔ زچہ کو بچہ نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے لالٹین کی روشنی میں بچے کا چہرہ دیکھا۔ ننھا منا، پیارا سا گورا گورا بچہ تھا لیکن اس کی بائیں کنپٹی پر اورہونٹ پرنیلے داغ یا بڑے بڑے گھاؤ تھے۔ ہونٹ سے اوپر اور آدھے منھ پر ایک بڑا سا لال چکتا بھی تھا۔ اس کی سانس پھنس پھنس کر آرہی تھی۔ 

    زچہ نے ہتھیلیوں سے اپنے آنسو پونچھے اور کہنے لگی، ’’جب علی مرا ہے تو جی چاہتا تھا خود بھی زہر کھا کے جان دے دوں۔ دنیا سے، جینے سے جی اٹھ گیا تھا۔ باپ اس کا دو دو رات، تین تین رات گھر نہیں آتا تھا۔ میں خود بچے کو گودی میں اٹھاکر ابن بابویہ کے قبرستان لے گئی۔ دفن کو دے دیا۔ میری آنکھوں کے سامنے قبرکھدی، ننھی سی قبر میں لٹا دیا گیا، مٹی ڈال دی گئی۔ میرے بچے کو کیڑے، سانپ، چیونٹیاں کھا گئیں۔ اللہ! کلیجا خون ہوکر آنکھوں سے نکلا جاتاتھا۔‘‘ 

    خانم جان نے میری طرف دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا مجھے ساتھ لاکر پچھتا رہی ہیں۔ مجھ کو رونا چلا آرہا تھا۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ خانم جان جھوٹ بول رہی ہیں۔ بچے مرکر جنت میں نہیں جاتے۔ مردہ بچے ماں کے لیے آخرت میں کوئی گھر وَر نہیں بناتے۔ مجھ کو یقین ہوگیا تھا کہ میں خود بھی ایک دن مرجاؤں گا اور مجھے بھی زمین میں گاڑ دیا جائے گا۔ میرے بدن کو بھی کیڑے اور سانپ اور چیونٹیاں کھا جائیں گی اور کوئی کچھ نہیں کرسکے گا۔ 

    خانم جان مڑیں اوربولیں، ’’کیسی باتیں کر رہی ہو، بی بی! بس چپ ہوجاؤ۔ زچائیں ایسے کلام نہیں کرتیں۔ بدشگونی ہوتی ہے۔‘‘ 

    ’’جب علی مرا ہے۔۔۔‘‘ زچہ بولی، ’’میں پھر پیٹ سے تھی۔ یہی والا تھا۔ اسی کی وجہ سے زہر کھانا چاہتی تھی۔ جانتی تھی یہ بھی مر جائے گا۔ ہر رات، ہر رات مرنے کے خواب آتے تھے۔ دیکھتی تھی بچہ مر گیا۔ اف، اللہ! سب بچے مرجاتے ہیں۔ کسی نے عمل کردیا ہے۔ مجھ پر لعنت پڑگئی ہے۔ قسمت پھوٹی ہوئی ہے۔۔۔ جب باپ کو پتا چلا علی مر گیا تو دن رات مجھ پر ستم توڑنے لگا۔ ہر وقت پیے رہتا۔ پھر ایک دن رات گئے گھر میں آیا۔ نشے میں چاقو کھینچ کر چلا میری گردن کاٹنے، میں بھاگ کر ہمسائی کے گھر جا چھپی۔‘‘ 

    ہمسائی نے ایک اور آہ بھری اور بولی، ’’ہم بدنصیبوں کا جینا مرنا برابر ہے۔‘‘ 

    نوزائیدہ بچے نے رونا شروع کیا اور دھیرے سے ہاتھ چلائے۔ خانم جان نے بناوٹی خوشی سے کہا، ’’اب تو اس کے بدلے میں پیارا سا سنہرے بالوں والا پا گئیں؟ آواز سن رہی ہو؟‘‘ 

    زچہ نے سر نہیں گھمایا، جیسے ڈر رہی ہو۔ بولی، ’’بچہ مجھے دکھائیں گی نہیں؟‘‘ 

    ’’چھے دن رات بچے کو زمین پر لٹانا چاہئے۔‘‘ خانم جان بولیں، ’’تم نے یہ حدیث نہیں سنی؟ ایک دن رات تو بچے کو ہلانا بھی نہیں چاہئے۔ ساتویں رات خود زچہ بچے کو اٹھاکر پالنے میں لٹائے۔ یہ برکت کی رات ہوتی ہے، اس میں چاہئے کہ مولا مشکل کشا کے نام کی مٹھائی اورمیوے فقیروں میں بانٹے۔‘‘ 

    زچہ روئے جارہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے بچے مر کیوں جاتے ہیں۔ کمرے کی فضا عجب منحو س سی ہوگئی تھی۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ بچہ مرا ہی چاہتا ہے۔ میری نظر میں ولادت ایک بری اور نامناسب اور بیہودہ چیز ہوکر رہ گئی تھی، اور موت یقینی۔۔۔ اور مکروہ۔ 

    *

    کمرے کا دروازہ دھڑ سے کھلا اور ایک آدمی اندر آگیا۔ بارش اورہوا کے شور میں کسی کو احاطے کا پھاٹک کھلنے کی آواز یا اس کے پیروں کی چاپ سنائی نہیں دی۔ میں تو دروازے کے قریب ہی بیٹھا تھا، مجھ کو بھی اس کی آہٹ نہیں ملی۔ وہ لمبا چوڑا، سیاہ پوش آدمی تھا۔ دروازے کی چوکھٹ پر وہ رکا۔ اس کے ساتھ ہی کمرے میں ہوا کے جھونکے اور پانی کی بوچھار آئی۔ اس نے کمرے کی حالت دیکھی اور اس کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ 

    وہ چھبیس ستائیس سال کا بدشکل آدمی تھی۔ گھنی مونچھیں تھیں اور پھیلی ہوئی داڑھی، بدن پر سیاہ رنگ کا مَلا دَلا کوٹ پتلون، بد رنگ کالی مخملی کلاہ، کوٹ کے نیچے میلی چکٹ بنیائین، سرسے پیر تک بھیگا ہوا۔ اس کی کلاہ کے کناروں سے پانی ٹپک رہا تھا، منھ سے شراب کے بھبکے نکل رہے تھے۔ وہ پتلون کو آگے سے کھجائے جارہا تھا۔ کچھ دیر تک وہ کمرے کو متجسس نظروں سے دیکھتا رہا، پھرپوچھنے لگا، ’’کیا ہوا، خانم آقا؟‘‘ اور اس نے کوٹ کے نچلے استر سے اپنا چہرہ پونچھا۔ 

    ’’مٹھائی کھلواؤ، روح اللہ خاں!‘‘ ہمسائی بولی، ’’بیٹا ہوا ہے۔‘‘ 

    اس نے ہمسائی کو مشکوک نظروں سے دیکھا، پھر دو تین بار کھنکھار کر گلا صاف کیا، پھربولا، ’’ہوگیا؟ کب ہوا؟‘‘ اس کی آواز پھنسی پھنسی اورعجیب سی تھی۔ 

    ہمسائی نے اپنی چادر پھر سے کھول کر سر پرڈال لی او ربولی، ’’ابھی، ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا۔ میں نے آ شیخ حسن کو بھیجا تھا کہ مدد کے لیے عالیہ خانم کو بلا لائیں۔‘‘ 

    ’’ہاں میں چلی آئی۔‘‘ خانم جان بولیں، ’’بچہ جنوا دیا۔ ٹھیک ٹھاک ہے، ماشاء اللہ۔‘‘ 

    اس نے چھچھلتی ہوئی نظر زچہ پرڈالی، پھر دیر تک بچے کی طرف دیکھتا رہا، جوتے اتارے اورکمرے کے اندر چلا آیا۔ میں نے دروازہ بند کردیا۔ اس نے بستر کی طرف دیکھے بغیر ہاتھ سے اپنی بیوی کی جانب اشارہ کیا اور ہمسائی سے پوچھا، ’’یہ کیسی ہے؟‘‘ 

    نقاہت کی وجہ سے زچہ کا سر نیچے کو ڈھلکا ہوا تھا۔ ہمسائی کے بجائے خانم جان نے جواب دیا، ’’کمزوری بہت ہے، لیکن سب ٹھیک ہوجائے گا، بہ حق مرتضیٰ علیؑ۔‘‘ 

    آدمی نے کوٹ اتار کر کمرے کے ایک گوشے میں پھینکا اور کئی بار کھنکھار کر دوسرے گوشے میں چولھے کے پاس تھوکنے لگا۔ زچگی کے اس دردناک زنانہ منظر اور موت کی ان گفتگوؤں کے بعد ایسی ہیئت کے مرد کا آدھمکنا ایک بے رحمانہ منظر معلوم ہورہا تھا۔ وہ بچے کے قریب جاکر جھکا، پھر اس نے زمین پر گھٹنے ٹیکے۔ وہ پتلون کو آگے سے کھجا رہا تھا۔ 

    ہمسائی نے پھر سے سر پر چادر درست کی اورکہا، ’’ہاں، تو روح اللہ کیا کھلا رہے ہو؟‘‘ 

    ’’جو کہیے، بہن!‘‘ وہ بولا۔ 

    ’’ماں بہت کمزور ہوگئی ہے۔‘‘ خانم جان اس کے قریب آکر بولیں، ’’اسے آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ ذرا رکیں، پھر بولیں، ’’کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے کہ وہ ڈر جائے۔ تکان بالکل نہ ہونا چاہئے۔ بچہ بھی الحمد للہ ٹھیک ٹھاک ہے۔ ماشاء اللہ بڑا پیارا بچہ ہے۔‘‘ 

    شوہرنے ایک نظر خانم جان کو دیکھا، پھر زیرلب کہا، ’’بری تکلیف کی آپ نے، خیر، دیکھیے۔‘‘ 

    اس کی پھنسی پھنسی بیمار سی آواز سے ڈر معلوم ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے گلے اور سینے کے اندر خراشیں ہی خراشیں ہیں۔ 

    ’’بس خدا کا شکر ہے۔‘‘ خانم جان بولیں، ’’سب کچھ خیر خیریت سے ہوگیا۔ ہم اب چلتے ہیں۔‘‘ 

    وہ اٹھ کھڑی ہوئیں، سر پر رومال لپیٹا، پھر اپنی چادر زچہ پرڈال دی اور چپکے چپکے اسے کچھ ہدایتیں دینے لگیں۔ 

    آدمی اب بچے کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر کچھ گھبراہٹ اور خشونت کی سی کیفیت تھی۔ وہ آگے سے پتلون کو، اپنے پیٹ کو اورجانگھ کو لگاتار کھجا رہا تھا۔ 

    ’’لا الٰہ الا اللہ۔۔۔‘‘ اس نے زیر لب کہا۔ 

    ’’اٹھو، تم بھی کپڑے بدل کر آرام کرو۔‘‘ خانم جان نے اس سے کہا، ’’ماں کو بھی آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ 

    ’’لا الٰہ الا اللہ۔۔۔‘‘ مرد بولا، ’’یہ والا بھی۔۔۔‘‘ 

    اس نے اپنی بات پوری نہیں کی۔ وہ اپنی مونچھ کا کونا اور ہونٹ چبا رہا تھا۔ اسے بھی پتا تھا کہ بچہ مر جائے گا، مگر یہ شاید وہ بھی نہ جانتا تھا، نہ اس کی سمجھ میں آرہا تھا کہ کیوں۔ 

    *

    ہم پانی برستے میں گھر کو لوٹے۔ خانم جان بار بار ’’استغفر اللہ‘‘ کہہ رہی تھیں۔ تنگ اندھیری گلیوں میں بارش کی وجہ سے کیچڑ ہی کیچڑ تھی۔ میں نے سر اٹھایا اور پوچھا، ’’خانم جان، اس کے بچے مر کیوں جاتے ہیں؟‘‘ 
    بارش کے چھینٹے میرے منھ پر پڑ رہے تھے اورایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں بارش ہی سے باتیں کر رہا ہوں۔ 

    خانم جان بولیں، ’’مجھے کیا پتا، یہ بچوں کے سمجھنے کی باتیں نہیں ہیں۔‘‘ 

    میں جان گیا تھا کہ یہ کوئی ایسی بات ہے جو میری سمجھ میں آنا چاہئے مگر نہیں آرہی ہے۔ اور اب میرا دل اسے سمجھنا چاہتا بھی نہیں تھا۔ 

    خانم جان بولیں، ’’جینا مرنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ 

    پانی ہمارے چہروں پر بے دردی سے طمانچے مار رہا تھا۔ ہمارے پاس چھتری وتری کچھ نہیں تھی۔ میں نے خانم جان کی رِدا کا گوشہ تھام رکھا تھا۔ 

    ’’خانم جان!‘‘ میں نے پوچھا، ’’وہ آدمی کھجائے کیوں جارہا تھا؟‘‘ 

    ’’میں کیا جانوں؟‘‘ خانم جان نے کہا، ’’ہوگی کوئی بیماری۔‘‘ 

    میں نے پوچھا، ’’یہ بچہ بھی اس کا مرجائے گا؟ ہے نا؟‘‘ 

    ’’اللہ مالک ہے۔‘‘ 

    ’’میں نے خود دیکھا تھا۔ ’’میں بولا، ’’اس کے منھ پر یہ بڑے بڑے دھبے تھے۔ اس کے ابا کو بھی پتا ہے۔‘‘ 

    ’’شاید۔۔۔‘‘ خانم جان نے کہا، ’’اللہ چاہے تو بچ جائے گا۔‘‘ 

    لیکن مجھے پتا تھا کہ بچہ مر جائے گا اور کوئی کچھ نہ کرسکے گا۔ 

    *

    اس رات مجھ کو نیند نہیں آئی، مرنے کا خیال آتا رہا، پیدا ہونے کا اور مرنے کا۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ پھر اس عورت کے یہاں بچہ ہوگا، اور اب کے اس کی زندگی اور بھی کم، اور بھی تلخ ہوگی۔ تسلے میں بچے کا ہونا، عورت کا رونا، وہ بچے جو مرگئے، خانم جان کی تسلی کی باتیں۔۔۔ موت کے ساتھ۔۔۔ بارش میں مجھے نیند آگئی۔ 

    (فارسی عنوان، تولد) 


    حاشیہ
    (۱) قنداق، کپڑے کا وہ تھیلا جس میں نوزائیدہ بچے کو گردن تک بند کردیتے ہیں۔ (مترجم) 
    (۲) ’’پیراہن قیامت‘‘ یا ’’پیراہن رستا خیز‘‘ بچے کا پہلا لباس جو اس کی سلامتی کے لیے پہنایا جاتا ہے۔ (مترجم)

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے