Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ورثہ

MORE BYناگناتھ کوتاپلے

    عابدچاچانے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے اورایک بارآسمان کی طرف دیکھا۔ جھریوں سے بھرے چہرے اورسفیدداڑھی پراپنے ہاتھ پھیرے۔ بڑا اچھا لگاانہیں۔ بے فکری سے اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلائیں اور غورسے انہیں دیکھتے رہے۔ پھر ’’یااللہ‘‘ کانعرہ لگایا اورپھیلی ہوئی ہتھیلیاں اپنے چہرہ پرپھیریں۔ اورپھرغورسے دیکھتے رہے۔

    لیکن اس کامطلب ہرگزیہ نہیں تھا کہ انہیں اپنی ہتھیلیاں نظربھی آتی ہوں۔ معذور آنکھوں سے بس اپنی ہتھیلیاں تکتے رہے۔ دیرتک بس وہ اپنی ہی ہتھیلیوں کودیکھتے رہے، انہیں میں کھوگئے۔ وہ اپنی نظر نہ آنے والی ہتھیلیوں میں کیاڈھونڈتے رہتے ہیں، پتہ نہیں! لیکن کافی دیرتک بس وہ انہیں دیکھتے رہے۔۔۔ اور پھر ہلکی ہلکی آوازمیں نکلے ہوئے ا ن کے بول یااللہ، یااللہ، درگاہ کے احاطے میں گونجتے رہے۔۔۔ پھرانہوں نے اپنی نظریں یوں ہی آس پاس دوڑائیں۔ دورکی چیزیں توخیر انہیں قطعی نظرنہیں آتی تھیں لیکن آس پاس کی کئی چیزیں نظرآنے لگیں۔

    باباشاہ منتظر کی درگاہ پرپھیلی ہوئی ہری کانچ، چمیلی کی بیل اور اس کے سفیدسفید پھول۔۔۔ درگاہ کی دوسری طرف پھیلی ہوئی جھاڑیاں اورپھردرگاہ کے اطراف اُگی ہوئی مہندی کی مست باڑھ۔ عابدچاچا کوسب کچھ دھندلادھندلانظرآنے لگا۔ یعنی انہیں ان تمام چیزوں کی موجودگی کا اندازہ ہوا جو ان کی جانی پہچانی تھیں۔

    کتنے ہی برسوں سے وہ یہی سب دیکھتے آرہے تھے۔ کتنے برس بیتے ہوں گے بھلا؟ انہیں یادنہیں آتا اور اگریادآبھی جائے توانہیں کہاں حساب جوڑناآتاہے، اس لیے بس اپنا ایک ہاتھ آنکھوں کے سامنے رکھا اوردیکھتے رہے۔ پتہ نہیں کس کی تلاش میں ان کی آنکھیں دورتک بھٹک رہی تھیں —لیکن انہیں کچھ نظرآتاکب ہے؟ ہاں مگردورپھیلی ہوئی ببول کی جھاڑیاں، درمیان ہی میں اُگاہواکوئی درخت، دھندلادھندلانظر آتاہے۔ لیکن عابد چاچا ہیں کہ بس دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ ایک ہی مصروفیت، بس دیکھتے رہنا۔ گھورگھور کے دیکھتے رہنا۔ حالانکہ انہیں دور پھیلے ہوئے درختوں کے سردھندلے دھندلے نظر آتے ہیں لیکن وہ ان سے بھی پرے دیکھتے رہتے ہیں، جیسے کسی کی آمدکا انتظار کررہے ہوں۔ لیکن یہاں آئے گا بھی کون؟ کوئی بھولابھٹکامسافر، کوئی فقیریاپھر کوئی اور؟ مگرعابد چاچا توبس دیکھتے رہتے ہیں۔

    اتنے میں سامنے سے ان کا کتا آتاہوادکھائی دیتاہے۔ یہ کتاعابدچاچا کوجان سے زیادہ عزیز ہے۔ پھر دوسرا ان کا ہے بھی کون؟ اکلوتا ایک بیٹا تھا سووہ بھی دورکہیں شہرمیں جاکررہ گیاہے۔ یہاں اپنے ساتھ صرف یہ کتا۔ اس کاخوبصورت لال لال رنگ اور اس پرسفید دھاریاں۔ پھرچلتابھی کس شان سے ہے۔ ڈول دار۔۔۔ چاچا کویہ سب نظرتو نہیں آتا لیکن لوگ کہتے ہیں۔ کتا ہمیشہ کی طرح چاچا کے پاس آکربیٹھ گیا۔ ایک بے فکربچے کی طرح، کان جھکاکر۔ صرف دم ہلتی رہی۔ چاچابڑی شفقت سے اس کی پیٹھ پرہاتھ پھراتے رہے۔ اس سے باتیں کرنے لگے، ’’کیوں بیٹے! کہاں گیاتھا؟ ایسی فضول گھومنانئیں رے۔ میرے پاس بیٹھنا۔ تویہاں رہا تومجھے اچھا لگتاہے۔ تو رہا تو باباشاہ کی درگاہ مجھے بھری بھری لگتی ہے۔ اکیلااکیلا نئیں لگتا۔ اس ویرانے میں کوئی اپنے ساتھ ہے ایسا معلوم ہوتا۔۔۔ کہاں گیا تھا بیٹے۔۔۔؟‘‘

    کتااپنی زبان باہرنکالے ہانپتارہا۔ تھک گیا تھاشاید۔ کتنی ہی دیرتک چاچااس کی پیٹھ پر ہاتھ پھراتے رہے، اسے نہارتے رہے۔

    روزہی کی طرح آج بھی اس کتے کاتمام واقعہ یادآنے لگا۔ دل کوکوئی دوسری مصروفیت بھی تونہیں ہے۔ بس ایسا ہی کچھ یادکرکے دل سے کھیلتے رہنا۔۔۔ کب آیا تھا یہاں یہ کتا؟ پانچ سال ہوگئے ہوں گے۔۔ ہاں۔۔۔ رمضان کے دن تھے اوراپنے روزے چل رہے تھے۔ موسلادھاربارش ہورہی تھی اورکہیں سے لنگڑاتا لنگڑاتا یہ کتایہاں تک آگیاتھا۔ پاؤں میں بہت بڑا زخم تھا۔ کسی نے مارا تھا یا کسی لومڑی وغیرہ نے بھنبھوڑا تھا، پتہ نہیں۔۔۔ زخم البتہ رسنے لگاتھا۔۔۔ اوربارش کی وجہ سے سڑبھی گیاتھا۔

    چاچا نے اسے دیکھا اور اس چھوٹے سے پلے کوگود میں اٹھالیا۔ اپنی پھٹی ہوئی قمیص سے اس کاگیلا بدن صاف کیا۔ چاچا کی گود میں آتے ہی کتااوں، اوں کرنے گا۔ پھرچاچا نے اس کا زخم اچھی طرح دھویا۔ زخم پرلگانے کے لیے پتہ کوٹا اوراس کے زخم پرباندھ دیا۔ درگاہ کے کونے میں واقع اپنی خستہ حال جھونپڑی سے ایک پھٹاپرانا کپڑا نکالا اور اسے اوڑھادیا۔ پھرچاچا دیرتک اسے دیکھتے ہوئے بیٹھے رہے۔

    اس پھٹے پرانے کپڑے کے نیچے سے کتاچاچا کواحسان بھری نظروں سے دیکھتارہا۔ چاچا کو لگااب اس کتے ساتھ اپنارشتہ بندھ گیاہے۔ پھریہ رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ کتابھی یہیں پڑارہا۔ چاچا کے پاس ہی رہتا، ان کی روٹی سے بچاہوا ٹکڑاکھالیتا۔ درگاہ میں لگی چمیلی کی ٹھنڈی چھاؤں میں توکبھی مہندی کی باڑھ کی طرف نکل جاتا مگرفورا ہی واپس بھی آجاتا اور چاچا کے پاس بیٹھا رہتا۔ وہ جوں ہی اپنا ہاتھ اس کے جسم پر پھرانے لگتے، اس کا جسم پھول جاتا اور وہ چوکناہوکر، چاچا کی حفاظت کے لیے چاروں طرف دیکھنے لگتا۔ اگرکوئی دوربھی نظر آجائے تو بھونکنے لگتا۔ البتہ جوں جوں کوئی قریب آنے لگتا، کتے کابھونکنا کم ہوجاتا۔ کیونکہ بہرحال یہ درگاہ تھی اورلوگ توظاہر ہے یہاں آئیں گے ہی۔ یہ بات کتابھی جانتاہے، اس لیے اب وہ زیادہ بھونکتانہیں، صرف وارننگ دے دیتاہے۔

    کبھی کبھی البتہ زورزورسے بھونکناشروع کردیتاہے۔ چاچا کے منع کرنے کے باوجود بھی بھونکتارہتاہے۔ پتہ نہیں کس بات یاکس آہٹ پرشک ہوجاتاہے اسے؟ چاچا اٹھ کر اسے چمکارنے لگتے ہیں، ’ایسا نئیں کرنابیٹے! ‘کہتے ہوئے اس کے گلے پرہاتھ پھراتے ہیں، پکڑے رہتے ہیں۔ آنے والا جب تک قریب نہیں آجاتا، اسے چھوڑتے نہیں۔ پھربھی کتاغراتارہتاہے، آس پاس چکرلگاتارہتاہے، مہندی کی باڑھ کی طرف بالکل نہیں جاتا۔

    آج بھی ایساہی ہوا۔ صبح صبح کتے نے بھونکناشروع کردیا۔ اس قدر زوروں سے بھونکنے لگا کہ اس کی پسلیاں نظرآنے لگیں۔ رکنے کانام نہ لیتا۔ چاچا اس کے پاس گئے اورکہنے لگے، ’’ایسانئیں کرتے بیٹا!‘‘ اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اپنی کمزور آنکھوں سے دوردیکھنے لگے۔ صحیح اندازہ نہیں ہورہاتھا کہ کون ہے۔ کون ہے بابا۔۔۔ و ہ دیکھتے رہے۔ دھیرے دھیرے ایک سفیددھندلی سی شبیہ نظرآنے لگی جوبتدریج قریب آرہی تھی۔ پھرمہندی کے باڑھ کے پاس کوئی نظرآیا۔ ارے! یہ تومرتضیٰ ہے، گاؤں کا قاضی۔ اس کے باپ نے تواپنانکاح پڑھوایاتھا۔ اب یہ نکاح پڑھواتاہے۔ بڑی عزت ہے اس کی گاؤں میں۔ اب توخیر سے لیڈر بھی ہوگیاہے۔ کہاں کہاں پھرتا رہتاہے۔ دلی بھی جاکرآیاسنا۔

    ایک مرتبہ کہتا تھا وزیراعظم سے مل کرآیاہے۔ کون وزیراعظم؟ چاچا نے یادکرنے کی کوشش کی لیکن کچھ یاد نہیں آیا۔ ایساہی ہورہاہے آج کل۔ کچھ یادنئیں آتا۔ نظربھی نئیں آتا۔ جان بھی تھک گئی۔ پوچھناکیا اس سے، کون سے وزیر اعظم سے مل کرآیاتو۔ جانے دو۔ اپنابھی ایساہی فضول۔ مگر مرتضیٰ کے نزدیک آتے ہی چاچا سے رہا نہیں گیا انہوں نے پوچھ ہی لیا، ’’کیوں رے، اس وزیراعظم کا نام کیاہے جس سے تو مل کے آیا؟‘‘

    کتااب غرانے لگاتھا۔ چاچاکے آس پاس چکرانے بھی لگا۔ ان کے پیروں میں لوٹنے بھی لگا۔۔۔ مرتضیٰ البتہ خاموش رہا۔ ایک لفظ نہیں بولا۔ بالکل خاموش۔ چاچا کو لگاغصہ میں ہے شاید، کیاہوا بابا اس کو؟ مجھ بڈھے پرکیاغصہ؟ چاچا ذرابے چین ہوگئے۔ بلاوجہ اس کوپوچھاکیا؟ اس کی طرف دیکھتے ہوئے چاچا اندازہ قائم کرنے لگے، اورکہا، ’’بیٹھ بیٹے۔۔۔ کیابات ہے؟‘‘

    مرتضیٰ بیٹھنے کوتیارنہ تھا۔ بولنے کوبھی نہیں۔ چپ کھڑارہا۔ کافی دیرہوگئی۔ چاچا نے پھرپوچھا، ’’کیابات ہے بیٹے، بولونا! بیٹھو۔‘‘

    مرتضیٰ، چاچا کی پھٹی پرانی چادر پرنہ چاہتے ہوئے بیٹھ گیا۔ کتااب بھی یوں ہی ادھرادھر چکراتارہا۔ جب چاچا نے تیسری بار کہا، بولو، تومرتضیٰ فوراً بول اٹھا، ’’چاچایہ کیابات ہے؟‘‘

    ’’کون سی بیٹے؟‘‘

    ’’وہی۔۔۔ تم اس سال پنڈھر پورجارہے بولتے۔۔۔‘‘ آوازذرا غصیلی تھی۔

    ’’سوچ تورہاہوں۔‘‘

    یہ سنتے ہی مرتضیٰ اوربھڑک اٹھا۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہاتھاکہ کیاکہوں اورکیانہ کہوں۔ ٹک لگائے چاچاکی طرف دیکھنے لگا۔

    چاچاالبتہ سوچ میں غرق تھے۔ گزشتہ پانچ سات برسوں سے وہ پنڈھر پورنہیں جاسکے تھے۔ عین وقت پرکچھ نہ کچھ نکل آتا۔ یاتوخود بیمار پڑجاتے یابیٹا ہی شہر سے آجاتا۔ اب انہوں نے طے کرلیاتھا، چاہے کچھ ہوجائے اس سال پنڈھرپور ضرورجاؤں گا۔

    سوچتے سوچتے بنڈامہاراج کی دِنڈی ان کی آنکھوں میں اترآئی۔ ایک قطار میں نکلے ہوئے مردعورتیں، ہاتھوں میں گیروئے جھنڈے، عورتوں کی پیشانیوں پرلگاہوا تلسی کاتلک، بھجن کے سرورمیں مست ہوکر رقص کرنے والی عورتیں اورمرد۔ سبھی ان کی آنکھوں میں لہرانے لگے اورپھربنڈامہاراج۔۔۔ سفیدپگڑی باندھے ہوئے، بھجن میں مست۔ ان کی آواز کی مٹھاس، بارش پانی سے بے نیازہوکر وٹھل اورکمائی کی دانی میں آگے سرکتی ہوئی وہ دِنڈی۔

    چاچادِنڈی کے تصورمیں کھوگئے۔ بیناکی مدھردھن پرخوش ہوکر ہنستے ہوئے بنڈامہاراج کی تصویر چاچا کی آنکھوں میں پھرنے لگی۔ مہاراج بیچ بیچ میں ہنسی مذاق بھی کرتے، قہقہے لگاتے اورپھربھجن میں مست ہوجاتے۔ بنڈامہاراج کے ساتھ چلتے ہوئے سفرکا احساس تک نہیں ہوتا۔ یہ سب ایک تصویرکی طرح چاچا کی آنکھوں کے آگے سرکتارہااوروہ بے خودہوگئے۔

    ’’بولوناچاچا، تم خاموش کیوں ہو؟‘‘

    ’’کیا بولوں، بیٹا۔‘‘

    ’’میں صرف اتناکہوں گا کہ یہ سب ٹھیک نہیں، ہمیں بالکل منظورنہیں۔‘‘

    چاچا نے سوچا یہ کون ہوتاہے منظور کرنے یا نہ کرنے والا۔ ادھر تواللہ تعالیٰ خود مجھے بھیجتا ہے۔ کہتا ہے، بیٹاا ب دنڈی کے دن آگئے، پھربیٹھے کیوں ہو؟ کچھ تیاری کرو۔ چاچاسوچتے ہیں، تیاری کیسی؟ اکیلی جان ہے، دنڈی آئی اورنکل گئے۔۔۔ ختم۔۔۔ اوریہ بولتا ہمیں منظورنہیں۔ ارے جا۔۔۔ مگرچاچا نے زبان سے کچھ نہ کہا۔

    مرتضیٰ خودکہنے لگا۔ پچھلے پانچ سات سال سے تم گئے نہیں توہمیں بھی اچھالگا۔ مگراب کے جانے والے ایساسناہے۔ چاچا چپ چاپ بیٹھے رہے، ایک لفظ نہ بولے۔ ادھر مرتضیٰ کا غصہ بڑھنے لگا۔ تھوڑی دیر وہ بھی گم سم اورچاچا بھی خاموش۔ چاچا توخیردنڈی کے تصورمیں کھوچکے ہیں۔ کتاالبتہ نزدیک آکر’غوں غوں کرنے لگاہے۔

    پھرمرتضیٰ اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور چاچاسے کہنے لگا، چاچاچلتا ہوں۔ مسجدجانا ہے۔ کچھ لوگ آئے ہیں۔ پھراچانک بھڑ ک اٹھا۔ اناپ شناپ بکنے لگا۔ زبان تو ہندوستانی ہی استعمال کررہا تھالیکن بیچ بیچ میں عربی اورفارسی الفاظ بھی استعمال کرنے لگا۔ چاچا یہ سوچ سوچ کرہنستے رہے کہ بمبئی، دہلی گھومتاپھرتاہے، اس لیے یہ سب ہورہاہے۔ کچھ باتیں توچاچا کی سمجھ میں آرہی تھیں لیکن کچھ بالکل نہیں۔ وہ صرف سنتے رہے۔ اس کی باتوں پردھیان دے بھی رہے تھے یانہیں، معلوم؟ البتہ درمیان ہی میں مشینی اندازمیں بول دیتے، ’’اب میری عمرہی کیارہ گئی ہے۔ چنددنوں کامہمان ہوں، میری قبرکھودکے رکھنا، مگراس بڑھاپے میں کچھ نہ کہو۔‘‘

    مرتضیٰ سننے کوبالکل تیارنہ ہوتھا۔ بارباریہی دہراتا، ’’یہ ٹھیک نہیں۔۔۔ یہ ٹھیک نہیں۔‘‘

    چاچا کے روبروشاید ا لفاظ اسے سوجھ نہیں رہے تھے پھربھی غصے میں بڑبڑاتارہا۔ کتاسہم کر، گھبراکر، چاچا کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ اچانک غرانے بھی لگتا۔

    چاچا نے مرتضیٰ کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے، ’’اب اس عمرمیں کچھ نہ کہو۔ بس میری قبرکھودکے تیاررکھو۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب مرتضیٰ مزیدچڑنے لگا۔ اس نے کہا، ’’اچھی قبرکھودیں گے چاچا اب تمہاری۔ یاد رکھو۔ دھیان سے سن لو۔ جنازہ نہیں اٹھے گا۔ کوئی ہاتھ نہیں لگائے گاتمہاری لاش کو۔ کان کھول کے سن لو۔ یہیں پڑی رہے گی۔ سڑجائے گی۔ کتے اورگیدڑ کھائیں گے۔۔۔ کان کھول کے سن لو۔‘‘

    مرتضی کب چلاگیا، چاچاکوپتہ نہ چلا۔ وہ سُن ہوکر رہ گئے تھے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ کیاکرناچاہئے اورکیانہیں؟ اچانک انہیں ایسا لگا جیسے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہوں۔ وہ جھٹ سے نیچے بیٹھ گئے۔ درگاہ، چمیلی کی ہری بیل اور اس کے سفید سفیدپھول جیسے نظر ہی نہ آرہے ہوں۔ نظروں کے سامنے دھندسی جمنے لگی۔ پھرچاچا ایسے رونے لگے جیسے کسی ندی کا باندھ ٹوٹ گیاہو۔ پوری عمرکاغم بہنے لگا۔ آنکھوں کے راستے، رستے ہوئے غم کے سہارے وہ کتے سے باتیں کرنے لگے۔ ’’کوئیں کوئیں‘‘ کرتاہوا کتا رحم بھری نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔ چاچا کہنے لگے، ’’کیوں رے بیٹا، ایسا ہوگا۔ کوئی بھی میری لاش نئیں اٹھائے گا۔ کیابگاڑاہے میں نے ان لوگوں کا؟ بول ناکیا بگاڑا۔۔۔؟‘‘

    وہ مزیدبے چین ہوگئے۔ مستقبل کی تصویرجیسے ان کی آنکھوں میں گھوم گئی۔ درگاہ کے احاطے میں لاش پڑی ہوئی ہے اور کوئی ادھرپھٹکتاتک نہیں۔ کسی کوآنے ہی نہیں دیاجاتا اس طرف۔ چاچاکوایسا لگا ان کی لاش پرچیلوں اورگدھوں کی دعوت کا اہتمام ہورہاہو۔ کتے اور لومڑیاں کھارہے ہیں۔ انہو ں نے اپنے کتے کی طرف دیکھا —کیایہ بھی میری لاش کی دعوت میں شریک ہوگا؟ یاسامنے بیٹھاآنسو بہاتارہے گا۔۔۔؟ قبربھی بنے گی یانہیں؟ کیاباباشاہ منتظرجیسی میری قبرنہیں بنے گی؟ وہ خیر بڑے عارف بزرگ تھے۔ ان کے نسب سے ہونے کے باوجودمجھ میں ان جیسا کمال کہاں؟ میں توان کی درگاہ پرگزربسر کرنے والاایک معمولی انسان۔ قبرستان میں میری ایک چھوٹی سی قبربھی نہ ہو۔ یااللہ یہ سب کیاہورہاہے؟ میری قبر تک نہیں بنے گی!

    سوچتے سوچتے چاچا کی بے چینی بڑھتی گئی۔ ایسے میں دورسے کچھ یادآتاہوا دھندلادھندلاسا نظرآنے لگا۔ باباشاہ منتظر کی زندگی کے واقعات آنکھوں میں بھرآئے۔ ان کی لاش نظر آنے لگی۔ باباشاہ منتظرکی تدفین کے تعلق سے چلاہوا مذہبی تنازع بھی یادآنے لگا۔ وہ سب چاچا نے دیکھانہیں تھا اور دیکھتے بھی کیسے؟ بابا شاہ منتظر ان کے دادا کے دادا تھے۔ پیڑھیوں سے چلتی آئی ہوئی یہ داستان ان کے والد نے کبھی بچپن میں نہیں سنائی تھی۔ بچپن میں جونقش دل پراتراتھا، آج پھرجوں کا توں عکس بن کرآنکھوں کے سامنے ابھرآیا۔

    باباشاہ منتظرکیسے لگتے ہوں گے؟ کسے معلوم! اتناضرور ہے کہ بہت بڑے بزرگ تھے۔ آسمان جتنے۔ ہندو مسلمان سبھی یہی کہتے ہیں کہ وہ بہت بڑے بزرگ تھے۔ آج بھی لوگ ان سے مدد مانگتے تھے۔ منتیں مانتے ہیں۔ مشکل وقتوں میں بابا ان کی مددبھی کرتے ہیں۔ اس وقت بھی کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کلکتہ یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ بابا اسی یونیورسٹی سے بی اے کرآئے تھے۔ انگریزی توبس فٹافٹ بولتے۔ اس زمانے میں بی اے کرلینابہت بڑی بات تھی۔ انگریزی عملداران کے اطراف چکرلگاتے پھرتے اورکہتے چلوتم کوتحصیلدار بنادیتے ہیں، منصف بنادیتے ہیں۔ کیا بات تھی، پتہ نہیں، ان کادل ان سب چیزوں میں لگاہی نہیں۔ پھرگاؤں میں درگاہ جو بننی تھی۔۔۔ نکل کرآگئے۔

    آتے ہوئے ساتھ میں ایک انگریزمیڈم بھی لے کر آئے تھے سنا۔۔۔ دوتین مہینوں تک تولوگ صرف اس انگریزمیڈم کودیکھنے کی خاطر دوردراز کے گاؤں سے آتے رہے۔ بس آتے، اس کی خوبصورتی اور گورے گلابی رنگ کی تعریف کرتے ہوئے چلے جاتے۔ اس چکر سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا، وہ یہ کہ بابا اس میڈم کومسلم بنادیتے۔ وہ بھی خوشی خوشی مسلم ہوگئی اوراس کے بعدبرقعہ استعمال کرنے لگی۔ کہاجاتاہے کہ پھر مرنے تک کسی نے اس کاناخن تک نہیں دیکھا۔ ایک بیٹے کوجنم دیا اور پرلوک سدھار گئی بے چاری۔ آب وہوا راس نہ آئی تھی شاید۔ چھوٹا سا بچہ چھوڑکے راہی ملک عدم ہوگئی۔

    اس کی موت کے بعد بابابہت اداس رہنے لگے۔ بچے کوایک شناساکے حوالے کیااور حج کے لیے نکل گئے۔ بابا کے بعد گاؤں میں آج تک پھر کوئی حج کونہیں گیا، ہمارے گھرانے سے بھی کوئی نہیں گیابعدمیں۔ صرف ایک شخص مکہ مدینہ ہوکرآیاتھا، یعنی باباشاہ منتظر۔ ان کے دیکھے ہوئے مکہ اور مدینہ کے تذکرے اب تک گاؤں میں چلتے ہیں۔ لیکن حج سے واپسی کے بعد بھی بابااداس ہی رہے۔ باقی توسب ٹھیک ٹھاک تھا یعنی پانچوں وقت باقاعدگی سے نمازپڑھتے، تلاوت کرتے لیکن زندگی میں سکون نہ رہا۔ پھرایک مرتبہ ایساہواکہ پنڈھرپور جانے والی دِنڈی دروازے ہی پرسے جارہی تھی۔ تال اور مردنگ کی لے پرجاتی ہوئی دنڈ ی اور گاتاہوا مست بُوا۔ لوگ تال کی لے پر رقص کررہے تھے، آگے پیچھے سرکتے جارہے تھے۔ وٹھل کے نام کی گرجناچل رہی تھی۔

    دیکھتے دیکھتے کیاہوا پتہ نہیں، بابا اٹھے اورجاکر دنڈی میں شامل ہوگئے۔ دندی کے ساتھ پنڈھرپور چلے گئے۔ کیوں گئے ہوں گے؟ کسے معلوم۔ یہ بات البتہ اٹل ہے کہ دنڈی میں شامل ہوئے اورپنڈھرپور چلے گئے۔ لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ دنڈی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی پانچوں وقت نماز باقاعدگی سے پڑھتے، کبھی کوئی نماز قضا نہیں ہوتی۔

    اس وقت سے یہ دنڈی اپنے گھرمیں آگئی۔ سبھی لوگوں نے بلاناغہ عمربھردنڈی کے رواج کونبھایا۔ بارش ہو، طوفان ہو، چاہے کچھ ہودنڈی کسی نے نہیں چھوڑی۔ لیکن گزشتہ پانچ سات سال سے معاملہ کچھ جمانہیں۔ مگرگھرانے کا رواج ہے، کیسے چھوڑدوں؟ اپنے باپ دادا نے جورسم عمربھر ایمانداری سے نبھائی ہے، اسے ایسے ہی چھوڑدوں میں؟ وہ بھی اس عمرمیں! اورمرتضی کہتاہے لاش نہیں اٹھے گی۔ ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ کوفکر ہے، ایساہرگز نہیں ہوگا۔

    چاچا کادل پھربھی کانپ اٹھا۔ یادوں میں ڈوب گیا۔ باباشاہ منتظر کی یادوں میں کھوگیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ باباشاہ سب سے برابر کاسلوک کرتے اورسبھی کوہدایت کرتے۔ دنڈی کے ساتھ واری کوبھی جاتے اورنماز بھی باقاعدگی سے پڑھتے۔ تلاوت قرآن پاک بھی کرتے اور بھنگ کے رنگ میں مست بھی ہوجاتے۔ گیانیشوری تو ان کوحفظ تھی۔ باباکیسے ہوں گے، کیسے لگتے ہوں گے! ان کے بولنے کااندازکیسا ہوگا؟ اورایک دن بابابھی اس دنیاسے کوچ کرگئے۔ اپنے پیچھے بس ایک اکلوتا بیٹاچھوڑگئے۔ رات جوسوئے توپھراٹھے ہی نہیں۔ البتہ پانچ چھ دن پہلے سے کہتے تھے سنا کہ اب میں زیادہ دن رہنے والانہیں، خدا مجھے بلارہاہے اورمیں ’میکے جانے کے لیے بالکل تیارہوں۔ لوگ ہنس کرٹال جاتے۔ پھرسچ مچ ایک دن بابا سوئے توسوہی گئے، گہری نیندمیں کھوگئے۔

    ان یادوں سے چاچا کا دل مزید کانپ اٹھا۔ مستقبل کے تصور ہی سے ہی ان کا دل بھرآیا۔ مستقبل کی تگ ودو آنکھوں میں ایسے اترآئی جیسے جسم پر سانپ لوٹ رہے ہوں۔ دیکھتے دیکھتے بابا کی موت کے بعد کامنظر آنکھوں میں بھرآیا۔ لوگ جمع ہورہے ہیں، ہاہاکارمچی ہے۔ معلوم ہوتے ہی لوگ جوق درجوق آکردیکھنے لگے۔ لوگ درشن لینے لگے۔ اکلوتے ایک کم سن بچے نے توروروکر کہرام مچادیا۔ سبھی لوگ بچے کوسنبھالنے میں لگے ہیں، رونہیں بیٹے، تمہارے والدبہت بڑے ولی تھے، اللہ کوپیارے ہوگئے، دنیاایسی ہی ہے۔

    پھر کسی نے بچے کو اٹھایااوروہاں سے لے کردوسری طرف چلاگیا۔ جنازے کی تیاری شروع ہوگئی۔ لیکن لوگوں میں تناؤپیداہوگیا۔ کہیں سے دوچاروارکری آکر کھڑے ہوگئے اورکہنے لگے، ’’بابا ہمارے تھے، ان کی چتا کوآگ ہم لگائیں گے۔ راکھ لے جاکرگنگا میں بہائیں گے۔ باباہمارے تھے۔‘‘

    جنازے کی تیاری میں لگے ہوئے لوگ حیرت سے دیکھنے لگے۔ ایسے موقع پر کوئی کہتابھی توکیا؟ پھر کسی نے سمجھانے کے سے اندازمیں کہا، ’’مگروہ مسلمان تھے۔۔۔‘‘ لیکن بحث بڑھتی ہی چلی گئی۔ دونوں ہی طرف کے لوگ سننے کوبالکل تیارنہ تھے۔ ہٹ دھرمی پراترآئے تھے۔ لاش ویسی ہی پڑی ہوئی ہے۔ آخرمیں پاٹل نے بھی بیچ میں پڑنے کی کوشش کی لیکن کوئی سننے کوتیارہوتب نا! آخرکارضلع کا انگریزحاکم آیا۔ اس نے بیچ بچاؤ کیا۔ اب لوگوں کواتفاق ہویانہ ہو، انگریزافسر کی بات ماننی ہی پڑتی ہے۔ اس طرح جنازے کے نکلنے میں تین دن کی تاخیرہوئی۔ تین دن تک ویسی ہی پڑی رہی۔ لیکن لوگ کہتے ہیں کہ لاش سے بو بالکل نہیں آئی۔ آتی بھی کیسے بھلا؟ آخرولی جوتھے۔

    جنازہ نکلا۔ آگے آگے جماعت کے لوگ ’الوداع، ہو، الوداع‘کہتے ہوئے چلے اورپیچھے سے شری رام، جے رام، جے جے رام کی صدائیں۔ تال اور مردنگ کی لے پربھجن۔ چونکہ انگریز افسرساتھ ہی تھا، لہذا سارا جھگڑا مٹ گیا۔ سبھی لوگوں کی دل جمعی ہوگئی۔ تب سے یہ درگاہ برقرارہے۔ والدکہاکرتے تھے، بیٹاچاہے کچھ ہوجائے، یہ درگاہ چھوڑنانہیں۔۔۔ اورواری بھی۔

    پانچ چھ پیڑھیوں پہلے کے واقعات، جوبچپن میں سنے تھے، صاف صاف آنکھوں کے سامنے ابھرآئے۔ اب توانگریزبھی نہیں رہے اورنہ ہی بابا کے بعد اس طرح کا موقع پھرکبھی گھرانے میں آیا۔ اب آئے گا کیا؟ کیاہوگا اپنا؟ کتوں اورگدھوں کی غذاہوجائے گا اپناماس اورہڈیوں کا یہ جسم؟ لیکن باباجیسااپنے ساتھ کیوں کرہوگا؟ بابا توبڑے بزرگ تھے، ولی تھے وہ۔

    اس حالت میں کتناوقت گذرگیاپتہ ہی نہ چلا۔ چاچا کے سامنے ہی بیٹھا ہواکتااداس ہوگیاتھا۔ کیاہوگا؟ بس یہی ایک سوال باربار دل کو کچوکے لگارہاتھا۔ ذہن چکرانے لگا اورپھراچانک جیسے آسمان سے کلہاڑی گری ہو، ایسا ایک سوال ذہن پرضرب لگانے لگا،

    آخرمیں ہوں کون؟

    کون ہوں میں؟

    کون؟

    چاچا اس وقت سدھ میں آئے جب کتے نے کان کھڑے کردیے اورادھرادھردیکھنے لگا۔ انہیں لگا کوئی دورکھیت سے گزرتا ہوا آرہاہے۔ مٹی کے کالے کالے ڈھیلوں میں پلوسنبھالتا ہوا یہ کون آرہاہے بھئی؟ دورسے بس پیلی زردساڑھی میں ایک ہیولاسا نظر آیا۔ چاچا نے ذرا اپنی آنکھوں پرزور دے کردیکھناچاہا۔ کوئی آرہاتھا لیکن ایسا جیسے پیلا زردسورج مکھی کا پھول لہک رہاہو۔ ایسی بھری دوپہر میں یہ کون ہے۔۔۔ مرد، عورت؟ کچھ منت وغیرہ لے کر آرہی ہوشاید۔ کتا اٹھا اور اسی سمت نکل گیا۔ دم ہلانے لگا۔ چاچا کوحیرت ہوئی۔ اٹھے اور غور سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ ٹھیک سے نظرنہیں آتا۔ آنے والی عورت ہی تھی۔ وہ جلدی جلدی آئی اورآکر سامنے کھڑی ہوگئی۔ کتااس کے قدموں میں لوٹ رہاتھا اور’کوئیں کوئیں کی آوازیں نکالتا ہوا دم ہلارہا تھا۔ چاچاذرا اورقریب آئے اورغورسے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’کون؟‘‘

    ’’میں ہوں چاچا۔۔۔ سلمہ، پہچانے نئیں؟‘‘

    روزکرتے پاجامے میں آنے والی سلمہ کوچاچا نے اس روزپیلی زردساڑھی میں بالکل نہیں پہچاناتھا۔ چاچادل کھول کرہنسے، ’’ارے سلمہ بیٹی، تم ہو۔ میں نے توپہچاناہی نئیں۔ کتنی بڑی ہوگئی رے تواب۔‘‘

    داڑھی پرہاتھ پھیرتے ہوئے چاچا نے پھرایک زوردارقہقہہ لگایا اورکہنے لگے، ’’ٹھہرتیرے اباجان سے بولتاہوں، تری شادی کے بارے میں اب۔‘‘

    اس بھری دوپہر کی دھوپ میں سلمہ شرم سے چورچورہوگئی۔ چاچا سے اسے کچھ پوچھنا تھاکہ چاچا واقعی لوگ جو بول رہے ہیں، ’’سچ کیاہے؟‘‘ مگراب کچھ نہیں بولی۔ بس نظرمیں جھکائے کھڑی رہی۔۔۔ کتے کی پیٹھ پر ہاتھ پھراتی ہوئی۔

    سلمہ کے والد چاچا کے پڑوسی ہواکرتے تھے۔ دونوں میں دوستی توتھی ہی لیکن برتاؤایسا تھا جیسے بہت ہی قریبی رشتہ دارہوں۔ ویسے بیٹے کے چلے جانے کے بعد چاچا نے گھرہی چھوڑدیاتھا۔ اب تھا بھی کیا گھرمیں! وہ بھاگیہ وان توعرصہ ہواچلی گئی۔ بس اب اپنے کوموت کاانتظارہے۔ اللہ کب بلالے، کیا معلوم۔۔۔ قریب قریب پندرہ سال ہوگئے ہوں گے گھرچھوڑکے اس درگاہ پر آکرجم گئے۔ کٹیاپر گاؤں کے لوگوں نے پتروں کی چھت ڈال دی تھی۔ اب چاچا دن رات یہیں رہتے تھے۔ یہ بچی روزانہ ایک وقت آتی ہے کھانالے کر۔ تب توبہت چھوٹی سی تھی۔۔۔ چارسال کی ہوگی، جب اپنے باپ کے ساتھ آتی تھی کھانالے کر۔ پھراکیلی آنے لگی۔ اس کی بھی شادی ہوگئی توکھانا کون لاکے دے گا۔ اس کا باپ لائے شاید۔ مگراپنا وہ دوست بھی اب تھک گیاہے۔ مصروف بھی رہتاہے، کئی کام ہیں۔۔۔ خیراس کی بچی کی اب شادی ہوجاناچاہئے۔ نہاتی دھوتی بچی اپنے گھرچلی جائے توماں باپ کا بوجھ ہی ہلکاہوجاتا ہے نا۔۔۔ خیالوں کی دنیا سے جاگ کر چاچا کہنے لگا، ’’کیوں بیٹی کیاسوچ رہی ہے؟‘‘

    ’’کچھ نئیں، چاچا۔‘‘ وہ شرماگئی۔

    چاچا نے پھرایک زورداقہقہہ لگایا۔

    وہ اٹھی اوردوڑتی ہوئی درگاہ کی طرف نکل گئی۔ اندررکھی ہوئی پیٹی میں کچھ پیسہ دوپیسہ ہے کیا، اس نے دیکھا۔ روزوہی لیتی ہے۔ آج کچھ بھی نہ تھا۔ باہرآگئی اورکہنے لگی، ’’چاچا آج کوئی آیانئیں کیاادھر؟‘‘

    چاچا اس کے سوال کا مطلب سمجھ گئے۔ بولے، ’’ہاں بیٹی، آج کوئی نئیں آیا۔ پہلے جیسے لوگ اب کہاں رہے چھوکری!‘‘ پھرٹکٹکی باندھے اسے دیکھتے رہے۔ اس نے کل لائی روٹی کا کپڑا اٹھایا اور جانے کے لیے نکل پڑی۔ لہکتے ہوئے، ڈول دارقدموں سے اپنی ہی دھن میں مست جاتی ہوئی سلمہ کودیکھ کر چاچا کو یوں ہی خیال ہوا، اپنے گھرمیں بہو بن کرآئے گی کیایہ؟ اسی خیال میں مگن چاچا نے کہا، ’’اے بچی، رات میں ابا جان کوبھیج دینا۔‘‘

    وہ اورشرماگئی اوردوڑتی ہوئی درگاہ کے احاطے سے باہرنکل گئی۔ چاچاکتنی ہی دیرتک اسی سمت دیکھتے رہے جدھرسلمہ گئی تھی اور دل ہی دل میں ہنستے رہے۔

    شام ہوئی، رات ہوگئی، سلمہ کے والد پھربھی نہیں آئے۔ آجاتاتوگھڑی دوگھڑی مزے میں گزرجاتی۔ مگرنہیں آیا۔ کچھ کام وام نکل گیاہوگا؟ ایسا تونہیں کہ وہ اپنے کوٹال رہاہو؟ کسے معلوم۔ آج کل بہت کم آنے لگا ہے۔

    چاچا اپنے پھٹے پرانے بسترپرپڑے تھے۔ آنکھ کسی طرح لگتی نہ تھی۔ مسلسل کچھ نہ کچھ دل میں آتارہا۔ مرتضیٰ آنکھوں کے سامنے آجاتا۔ اس کا بولنا، اس کاغصہ اورپھراس کا تڑاک پھڑاک، اٹھ کر چلاجانا۔ مرتضی کے دماغ میں یہ کیانیامسئلہ گھس گیاہے۔ اتنازمانہ ہوگیاواری کرتے ہوئے۔ والد کے بعدمیں نے ہی تویہ روایت سنبھال رکھی ہے۔ کتنازمانہ ہوابھلا۔ چاچا نے پڑے پڑے انگلیوں پر حساب جوڑنا چاہا مگر حساب ان کوجمانہیں۔ مگریہ مرتضیٰ کیوں بولنے لگاہے؟ چاچا کونہ جواب سجھائی دے رہا تھا اورنہ ہی نیندآرہی تھی۔ باربار کروٹ بدلتے رہے اوربے چین ہوتے رہے۔ البتہ باربار یہی دہراتے، ’’یااللہ اب توہی کوئی راستہ دکھا۔ زندگی بھرجوکرتا رہا، وہ اس عمرمیں چھوڑدوں؟ باباشاہ منتظر کوکیالگے گا۔۔۔ اوراب میرے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں؟ میرے بعد بیٹاکچھ کرے گا، ایسانہیں لگتا۔‘‘

    بیٹے کی یاد آتے ہی چاچا نے پھرایک بارکروٹ بدلی۔ وہ بیٹے کی یادمیں کھوگئے۔ پندر ہ سال پہلے بیٹا گھرسے بھاگ گیاتھا۔ ماں مری تب ہی سے کا دل اس گاؤ ں سے اچاٹ ہوگیاتھا۔ خوب ڈھونڈاڈھونڈی مچی۔ ندی نالے دیکھے، کنویں دیکھے، گاؤں کے کنارے کا تالاب بھی دیکھا۔ بچے کاکہیں پتہ نہ چلا۔ اکلوتا بیٹا آخرگیاتوکہاں؟ گھرانے کاایک چراغ تھا بجھ تونہیں گیا؟ مگرنہیں۔ اللہ کی ایسی مرضی نہ تھی۔ پندرہویں دن شہر سے خط آیا۔ کسی ورکشاپ کے استاد نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں خط لکھا تھا، لکھا تاتھا بچے کی فکرنہ کریں۔ یہاں خوش حال ہے۔ میرے گیراج میں کام سیکھ رہاہے۔ بچے کوہتھیلی کے چھالوں کی طرح رکھوں گا۔

    اس خط نے دل کودلاسادیا۔ اس دن یقین بھی ہوگیاکہ باباشاہ منتظرکی دعا سے بیٹاصحیح راستے پرلگ گیاہے۔ لہذابابا شاہ ہی کے قدموں میں پڑارہنا چاہئے۔ اس دن سے جو چاچایہاں آکررہے تواب تک یہیں ہیں۔

    اب توبیٹے نے خوداپنا گیراج ڈال دیاہے۔ سوکھے بال لہراتاہوالوگوں سے کہتا پھرتاہے۔ پھٹ پھٹی والے بھی اس کے دوست ہوگئے ہیں۔ دیہات کے ایک بن ماں کے بچے نے شہر میں جاکراپنا ذاتی کاروبارسنبھال رکھاہے، چاچا کو اس بات پر بڑا فخر تھا۔ لوگوں کے پاس اکثرذکر کرتے رہتے کہ بیٹا بڑا ہونہار نکلا۔ یہ سوچتے ہی ان کا دل محبت اورپدرانہ شفقت سے بھرآیا۔

    گزشتہ برس ہی کی با ت ہے کہ بیٹا بڑی ضد کرکے انہیں اپنے ساتھ شہرلے گیاتھا۔ روزوں کے دن تھے۔ کیاروشنیاں تھیں۔ بڑی رات کے موقع پر سجائی ہوئی دکانیں، قمقموں کی مالائیں اور مغزیات سے بھری ہوئی دوطرفہ دکانیں، کاجو، کشمش، پستے، بادام، اخروٹ، زردآلو، آلوبخارے منقی، جانے کیاکیا بھرا پڑا تھا۔ کہیں کہیں توسوئیوں کے ڈھیر کے ڈھیرلگے ہوئے تھے۔ چاچا کوبڑی خوشی بھی ہوئی کہ بڑھاپے ہی میں سہی، شہرتودیکھ لیا۔ عیدکے د ن بیٹے نے کتنے ہی لوگوں کوکمرے پربلایاتھا۔ لوگ پھٹ پھٹی پربیٹھ کر آتے (اوربھی عجیب عجیب سواریاں تھیں) بیٹے سے گلے ملتے اورچلے جاتے۔ بڑا ہونہار نکلا ہے میرا بیٹا۔ چاچاسوچتے۔ شہرمیں رہ کر اتنے سارے دوست بنالیے ہیں۔ بس اب صرف ایک کمی رہ گئی تھی، یعنی بہوکی۔ سلمہ کا باپ اپنے بیٹے سے سلمہ کی شادی کرے گاکیا؟ کیاکمی ہے اپنے بیٹے میں۔ شہر میں کھولی ہے، گیراج ہے۔ دیکھنے دکھانے میں بھی اچھا خاصہ ہے۔۔۔ سوکھے بال لہراتے ہوئے جب کسی سے بات کرتاہے تودل چاہتاہے کہ اسے سینے سے لگالوں اورپیشانی پر ایک زورداربوسہ جڑدوں۔

    نیندچاچاکی آنکھوں سے کوسوں دورتھی۔ باربارآنکھوں کے سامنے سلمہ اوربیٹے کی پیاری سی جوڑی گھومتی رہتی۔ سینہ ابھار کے شان سے چلنے والا، سوکھے بال لہراتا ہوا اپنا بیٹا اوراس کوسجنے والی، ڈول دارچلنے والی اس کی بیوی سلمہ۔ اسی تصورمیں چاچاکھوگئے۔ نیند غائب ہوگئی۔ ذہن میں عجیب عجیب تصویریں ابھرنے لگیں۔ سلمہ کے باپ سے رسمی بات چیت، پھر مہرکا طے ہونااورسلمہ کا دھیرے سے ’قبول‘ کہنا اور سہرے میں سجے ہوئے اپنے بیٹے کی بارات۔ ان دلکش مناظر نے چاچا کورات بھرسونے نہیں دیا۔ صبح صبح کسی وقت چاچا کی آنکھ لگ گئی۔ سورج طلوع ہوکراچھا خاصہ سوانیزے پر آچکا تھا۔ چاچا پھربھی جاگے نہیں۔ باہرسے آنے والی کسی آواز سے چاچا کی آنکھ کھل گئی۔ ساتھ ہی کتے کا بھونکنا بھی شروع ہوچکاتھا۔

    چاچا نے آنکھیں کھول کردیکھا توکٹیامیں بھک اجالا پھیلا ہوا تھا۔۔۔ جھٹ سے اٹھ بیٹے اورفورا ہی باہرآگئے۔ دیکھا تو باہرچبوترے پرسوٹ بوٹ والا ایک بابوجی بیٹھاتھا۔ بالکل اجنبی۔ سامنے ہی سوٹ کیس رکھاتھا۔ لیکن وہ آدمی اپنے ہی خیالوں میں گم تھا۔ چاچانے سوچا کبھی کبھارایسے سوٹ بوٹ والے بھی منت، مراد لے کر آجاتے ہیں۔ یہ بھی ایسا ہی کہیں سے آیاہوگا۔ اب اسے بھی درگاہ دکھانی پڑے گی۔ سارا احوال سناناپڑے گا۔

    انہوں نے سوچا اتنا بڑا آدمی آیاہے اورمیں سوتا رہا! جھٹ پٹ سب نمٹانا چاہئے۔ یعنی ہوا سے ادھراھرکھسکا ہواغلاف ٹھیک ٹھاک کرنا چاہئے۔ مورچھ ٹھیک سے رکھنا چاہئے۔۔۔ اورخاص بات یہ ہے کہ عوددانی کیسی رکھی ہے کیاپتہ۔ الٹی پڑی ہے شاید، اٹھاکرٹھیک سے رکھنی چاہئے۔ باقی سب چھوڑچھاڑکرچاچایہ سب درست کرنے میں لگ گئے۔ چندے کی پیٹی سامنے ہی کچھ اس انداز سے رکھی کہ آنے والے کی نظر فوراً اس پرپڑے۔

    یہ سب ہوتارہا لیکن اس سوٹ بوٹ والے نے ایک مرتبہ بھی چاچا کی طرف پلٹ کرنہیں دیکھا۔ پاؤں پر پاؤں جمائے اپنی ہی دھن میں مگن، سوچ میں گم رہا۔

    اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے چاچا ایک بارکھنکارے بھی، پھرزور سے ’یااللہ‘کہا اور چہرے پرہاتھ پھراتے رہے۔ اب اس سوٹ بوٹ والے کادھیان ان کی طرف گیا۔ وہ فوراً ٹھا اورسوٹ کیس لیے ہوئے چاچا کے پاس چلا آیا۔ کتے نے اب بھونکنا بندکردیاتھا۔ حیرت سے ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا۔ چاچا اس جنبی کو درگاہ کے بارے میں تفصیلات بتانے کی تیاری کرنے لگے۔ لیکن چاچا بولناہی چاہتے تھے کہ اس اجنبی نے خودکہنا شروع کردیا۔ اس نے بتایاکہ وہ بہت دورسے آیاہے اورکسی کالج میں پروفیسرہے۔ چاچا نے فوراً موقع دیکھ کر کہا، ’’یہی تواس درگاہ کی خصوصیت ہے ساب—لوگ دوردورسے آتے ہیں۔ ابھی پرسوں ہی کلکتہ سے دوآدمی آئے تھے۔ دلی والے تواکثر آتے ہی رہتے ہیں۔۔۔ منت پوری ہوجاتی ہے نا۔‘‘

    اس شخص نے چاچا کی بات ختم بھی نہ ہونے دی۔ جیب سے ایک نیلی نوٹ نکالی اور سامنے ہی رکھی ہوئی پیٹی میں ڈال دی۔ چاچا کو لگا، کوئی بہت بڑا آدمی ہے یہ۔ ہاں، ورنہ اتنے کھلے دل سے پیسے کون ڈالتا ہے آج کل۔ اس اجنبی نے چاچا سے پوچھا، ’’نیندتواطمینان سے ہوگئی نا؟‘‘

    ’’ہاں بھئی، رات ذرا دیرسے آنکھ لگی تھی اس لیے۔۔۔ ورنہ میں روزمرغ کی بانگ کے ساتھ اٹھ جاتاہوں۔ باباجی کی خدمت کرنی پڑتی ہے نا!‘‘

    موقع ملتے ہی اس اجنبی نے پوچھا، ’’یہ باباجی آپ کے کون لگتے ہیں؟‘‘

    چاچا نے ایک ہی سانس میں ساری حقیقت سناڈالی۔ ان کے ہرہرلفظ سے اس بات کا احساس ہوتاتھا کہ انہیں باباشاہ کے نسب سے ہونے پربڑافخر ہے۔ اسی اجنبی نے پرکہا، سنا ہے یہ باباشاہ بڑے عارف اوردانشور بزرگ تھے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے واری کا رواج بھی ڈالااورنمازبھی ان کی عمربھر کبھی قضا نہیں ہوئی۔ وغیرہ وغیرہ۔

    اس کے بولنے کا انداز بھی کبھی ایساتھا کہ خودتوکہتا رہتا لیکن ہربات پرسننے والے سے اپنی بات کی تصدیق کرواتا۔ چاچا کوبڑی حیرت ہوئی۔ یہ سب باتیں بھلا یہ کیسے جانتاہے؟ کس نے بتائیں یہ سب باتیں اس کو؟ چاچا کے پوچھنے پر اس نے بتایاکہ کسی کتاب میں باباشاہ کے تعلق سے سارے حقائق آئے ہیں اوریہ سب کچھ لکھا جاچکاہے۔

    ’’حیرت ہے۔۔‘‘ چاچاسوچتے رہے۔

    اس اجنبی نے پھرکہا، اس کتاب میں بابا منتظرشاہ کی لکھی ہوئی مراٹھی کتابوں کا بھی ذکر ہے۔ لکھا ہے کہ انہوں نے بہت ساری کتابیں لکھیں لیکن اب وہ کتابیں ناپیدہوچکی ہیں۔

    کسی کتاب میں محض ایک بار پڑھ کر یہ شخص یہاں تک چلاآیاتھا۔ تحقیق کرناچاہتا تھا۔ اس کی خواہش توتھی کہ اگرکچھ قلمی نسخے ہاتھ لگ جائیں توبہتر ہے لیکن وہ یہ بھی جانتاتھا کہ لوگ قلمی نسخے یوں ہی اتنی آسانی سے کسی کے حوالے نہیں کرتے، اسی لیے وہ چاچا سے بڑی احتیاط سے بات کررہاتھا۔ باربار چاچا کو باورکرانے کی کوشش کرنے لگا کہ ان نسخوں کے عوض حکومت سے روپئے پیسے بھی ملیں گے۔۔۔ چاچا کویہ سب خواب سالگ رہا تھا۔ خوداپنا ہی سرہلاکردیکھا کہ سوتونہیں رہا ہوں۔ جب انہیں اچھی طرح یقین ہوگیاکہ وہ جاگ رہے ہیں تو اوربھی حیرت ہوئی۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کراس شخص کودیکھتے رہے۔

    کہیں کسی کالج میں پڑھانے والایہ آدمی وہ سب کچھ اکٹھا کرنے آیا ہے، جوچھ پیڑھیوں پہلے لکھا گیاتھا۔ چاچا کو اس بات پریقین ہی نہیں آرہا تھا۔ پھرانہوں نے یہ بھی سوچا کہ وہ آخروہ سب اکٹھا کرکے کرے گابھی کیا۔ کیامعلوم؟ البتہ اس خیال سے کوئی باباشاہ منتظر کی تصانیف کی تلاش میں یہاں تک آیا ہے۔ چاچا کادل بھرآیا۔ پھر اچانک جیسے کسی قسم کا دورہ پڑاہو، وہ اپنی ہی کنپٹیوں پرزورزور سے مارنے لگے۔ یااللہ کیسابدنصیب ہوں میں بھی۔۔۔ ابھی چھوٹاہی تھا کہ باپ مرگیا۔ پھربیوی بھی گئی۔ اکلوتا ایک بیٹاہے سووہ بھی شہر میں جابساہے۔۔۔ کون سی بات سلیقہ سے ہوئی میری زندگی میں۔۔۔؟ کون سا کام اچھا ہواہے؟ توہی بتاپروردگار۔۔۔ اب میں کیاکروں۔۔۔؟

    اچانک جیسے ابال آگیا تھا۔ دکھ سے بے چین ہوکر اپنی ہی کنپٹیو ں پر پیٹنے لگے۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے۔ گویازندگی بھرکا دکھ امڈپڑا تھا۔ وہ سوٹ بوٹ والا بابو تواس قدر گھبراگیاکہ اسے کچھ بھی نہ سوجھا۔ وہ صرف اتنا کہہ سکا، ’’چاچا کیاہوگیا ہے۔۔۔ ایسا روکیوں رہے ہو۔۔۔ چاچا، چاچا۔‘‘

    آنسوروکے نہ رکتے تھے۔ کتابھی بدحواس ہوکردیکھنے لگا۔ چاچا کے قریب چلا آیااورکچھ اس انداز سے کان اوردم ہلانے لگا، گویا دلاسہ دے رہا ہو۔ تھوڑی ہی دیر میں چاچا کا سارادکھ آنکھوں کے راستے بہہ گیا۔ ہتھیلیوں سے آنسوخشک کرتے ہوئے وہ اپنے مہمان سے کہنے لگے، ’’بیٹھوبیٹابیٹھو۔ سب کچھ بتاتاہوں۔ کس قدر گنہگارہیں یہ ہاتھ، کتنے پاپی ہیں، سب بتاتاہوں۔ بیٹا بیٹھ۔‘‘

    چاچا نے ٹوٹی پھوٹی زبان میں کہناشروع کیا لیکن دل ودماغ زبان کی رفتارسے تیزبھاگ رہے تھے۔ تیس پینتیس برس پہلے کی بات ہے۔ الگ الگ تحریکیں چل رہی تھیں۔ کانگریس کی تحریک بھی چل نکلی تھی۔ پتہ نہیں کہاں کیاہواکہ بھس میں ایک چنگاری پڑگئی۔ فسادات پھوٹ پڑے۔ دن دہاڑے ہندومسلمان کوقتل کرنے لگے اورمسلمان ہندوؤں کو۔ ویسے تو اس چھوٹے سے دیہات میں چاچا کوکسی بات کی خبرنہ تھی لیکن اپنے محفوظ ہونے کا انہیں یقین تھا۔ افواہیں ہواؤں کی طرح پھیل رہی تھیں۔ جھوٹ سچ۔ سبھی لوگ بدحواس ہوچکے تھے۔ چاچا سمجھ ہی نہ سکے کہ برسوں سے جولوگ گھل مل کر رہتے آئے ہیں، اچانک کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ لیکن افواہوں سے وہ بھی گھبراگئے۔ بیوی دھاڑیں مارمار کے روتی تھی۔ کیا کریں، کہاں جائیں۔ دونوں ہی میاں بیوی کوایسا لگنے لگاجیسے تلواریں اورنیزے ہرسمت سے انہیں کی طرف بڑھ رہے ہوں۔ پناہ لیں بھی توکہاں؟

    اسی دوران کسی نے اطلاع دی کہ چاچا کے گھرپرحملہ ہونے والاہے۔ وجہ یہ بتلائی گئی کہ ان کے گھرمیں واری کارواج تھا۔ سلمہ کے والد دبے قدموں گھرمیں داخل ہوئے۔ چاچا کی بیوی نے جب پردہ کرلیاتوسلمہ کے والد سرگوشی میں کہنے لگے، اب تم گاؤں چھوڑدو۔ آج نہیں تووکل لوگ تمہارے گھرپرحملہ ضرورکریں گے۔

    ’’ارے بھئی مگرکیوں؟ کیا بگاڑاہے میں نے ان لوگوں کا؟‘‘

    سلمہ کے والدنے ایک کونے میں رکھی ہوئی چوکی کی طرف اشارہ کیا۔ چاچانے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے پہلی مرتبہ کوئی چیزنظرآتی ہو۔ بے یقینی سے پوچھا، ’’اس کی وجہ؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ سلمہ کے والد نے پھنسی پھنسی آوازمیں کہا، ’’یہ سب جلادو، جوکچھ ہے فوراً جلادو۔ کوئی آئے توکہنا ہمارے گھرمیں کچھ بھی نہیں ہے، دیکھ لو، کہیں بھی دیکھو لو۔۔۔‘‘ اوردبے قدموں واپس چلا گیا۔

    چاچانے پھرایک بار اس چوکی طرف دیکھا۔ اسی چوکی پرکپڑے میں باقاعدگی سے بندھے ہوئے گرنتھ رکھے ہوئے تھے۔ ان گرنتھوں کوچاچا نے کبھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی تھی لیکن انہیں معلوم تھا کہ یہ بہت ہی اہم ذخیرہ ہے جسے اپنے آباواجداد نے سنبھال کررکھاہے۔ سب سے خاص بات تویہ ہے کہ سب باباشاہ منتظر کے لکھے ہوئے تھے۔۔۔ بڑی عقیدت بھری نظروں سے روزاس چوکی کی طرف دیکھا کرتے۔ آج اچانک ایسالگا جیسے وہاں آگ رکھی ہو۔ انہوں نے سوچا فوراً اس آگ کوٹھنڈا کردیناچاہئے ورنہ ساراگھر جل جائے گا۔ خودبھی بھسم ہوجائیں گے اس آگ میں جل کر۔ راکھ ہوجائے گی یہ زندگی۔۔۔ کونے میں دیکھتے ہوئے وہ تھرتھرکانپنے لگے۔ ایسے میں ا ن کی بیوی نے کہا، ’’یہ سب جلادینابولتے؟‘‘

    ’’پھرکیاکروں؟ سب کچھ بربادہونے سے توان کاجل جانا اچھا ہے نا؟‘‘

    بیوی بے چاری کہنے لگی کہ جوہوگا دیکھا جائے گا۔ جب لوگ آئیں گے توکچھ نہ کچھ بات بنادیں گے۔ اجی، یہ اپنا ورثہ ہے۔ جلادیتے بولتے۔ چھی چھی پروردگارسے معافی مانگو۔

    چاچا نے سنی اوران سنی کردی اورپھرعورت کی عقل ہی کتنی ہوتی ہے۔ ایساسوچتے ہوئے وہ کونے میں رکھی ہوئی چوکی کی طرف بڑھنے لگے۔ وہ بے چاری پھربولی، ان کوچھپاتوبھی دیں گے نا۔۔۔ جلاؤمت۔

    ان کوجلادینے کا خیال چاچاکے لیے بھی تکلیف دہ تھا۔ لیکن دل پر پتھررکھ کرانہوں نے وہ چوکی اٹھالی۔ بیوی کی بات ماننے کووہ تیارنہ تھے۔ وہ دوڑتی ہوئی ان کی طرف لپکی۔ کہاں سے اتنی ہمت آگئی تھی پتہ نہیں۔ اوپررکھی ہوئی ایک گرنتھ کھینچ لی۔ باقی تمام گرنتھ چاچا نے کنویں میں ڈبودیے۔

    اب وہاں کیارکھا ہوگا۔۔۔ صرف کیچڑ۔۔۔ سارے گرنتھ گئے۔ ان ہاتھوں نے وہ سب کچھ ختم کردیا جس کے بنانے میں باباشاہ منتظر نے اپنی ساری عمر لگادی تھی۔ کتنابڑا ذخیرہ تھا، کیاکیالکھا ہواتھا؟ کتنا ڈھیر سارا علم بندہوگا ان تھیلابھرکاغذوں میں۔ میں مگرپاگل، بے وقوف، انہیں ہاتھوں سے میں نے وہ سارا اثاثہ، وہ ورثہ بربادکردیا۔

    بیوی کی بات بھی نہ سنی۔ اس نیک بخت نے کم از کم اتنا توکیا کہ ایک گرنتھ ہی سہی میرے سرسے کھینچ لی تھی۔ وہ اسے گھرکے ایک کونے میں دبادی تھی اوراوپرسے لیپ تھوپ کر زمین کوہموار کردیاتاکہ کسی کوشک نہ ہووہاں کچھ چھپایاگیاہے۔ واہ ری قسمت، باقی گرنتھ گئے سوگئے، اتنے فسادات پھوٹے لیکن میرے گھرکی طرف کوئی پھٹکاتک نہیں اورصرف ڈرکے مارے میں نے وہ سب کچھ ڈبودیا۔ گھرکی حفاظت کے لیے گاؤں کے باباجی پاٹل نے دوہٹے کٹے بیس کرچھوڑے تھے۔ جوں جوں باباشاہ منتظر کی یادچاچا کے دل میں زوروں سے عودکرآئی، انہیں لگاباباشاہ کی درگاہ پرسرپٹخ پٹخ کرجان دے دوں۔

    کافی دیر کے بعدچاچا نے اپنے آٖپ کوسنبھالا۔ ہچکیاں پھربھی رکنے کانام نہ لیتیں۔ چہرہ ملول ہوچکا تھا اورلرزتی ہوئی سفیدبھک داڑھی پربھی گناہ کااحساس چھلک رہا تھا۔۔۔۔ وہ سوٹ بوٹ والا حیران، پریشان سب کچھ سنتارہا۔ چاچاسوچ رہے تھے، واقعی کیوں ڈبودیے وہ سارے گرنتھ میں نے، اس سے تومرجانابہترتھا۔ کم از کم دنیا کوبابا کی لکھی ہوئی کتابیں تومل جاتیں۔۔۔

    پندرہ سال بعدقفل کھول کر چاچا گھرمیں داخل ہوئے۔ سارے گھر میں سڑانڈپھیلی ہوئی تھی۔ گھر اس سڑانڈاورگھٹنوں تک دھول مٹی سے بھراہوا تھا۔ سلمہ کے والد اور دوسرے کئی پڑوسی بھی جمع ہوگئے۔ چاچا نے کونے کی وہ جگہ ادھیڑدی اوروہاں سے بیوی کی چھپائی ہوئی اکلوتی ایک کتاب نکالی۔ ان کا دل بھرآیالیکن اپنے آپ کوسنبھالا اورایک دیمک لگی ہوئی وہ کتاب اس اجنبی کے ہاتھ میں تھمادی۔

    کتاب چاچا کے ہاتھوں سے لیتے ہی وہ آدمی بے خود ہوگیا۔ وہیں آلتی پالتی مارکے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے بے داغ سفیدکپڑوں کی بھی پرواہ نہ کی۔ دیمک لگی ہوئی کتاب کھولی اور ایک ایک لفظ جوڑجوڑکرپڑھنے لگا۔۔۔ بالکل اسکول کے بچوں کی طرح۔ وہ غالباًبھول گیاتھا وہاں اوربھی لوگ موجودہیں۔ دھول مٹی میں بیٹھے بیٹھے اپنی ہی دھن میں وہ لفظوں کوجوڑنے لگا،

    بھیدبھاؤکہاں کا! رام رحیم توایک!

    اکتائی سے جگ جنماہے آنکھیں کھول کے دیکھ

    سبھی موجودلوگ اس طرح ساکت کھڑے تھے جیسے کسی انہونی کودیکھ رہے ہوں۔ تصویروں کی طرح ساکت۔ اس منظرمیں چاچا کے کتے نے ایک الگ ہی رنگ بھردیاتھا۔ وہ اپنے سامنے کے دونوں پاؤں پربیٹھاپوری توجہ سے سن رہاتھا۔

    رات کے اندھیرے بڑھنے لگے۔ ہرطرف بجلیاں کوندنے لگیں اور پھرٹھہری ہوئی گھنگھورگھٹاؤں نے برسنا شروع کردیا۔ چاچا اپنی چھوٹی سی جھونپڑیامیں بیٹھے چندھیائی آنکھوں سے دورخلاؤں میں گھور رہے تھے۔ باباشاہ منتظرکی درگاہ، اس کے اطراف پھیلی ہوئی چمیلی کی بیل اورپرے مہندی کی باڑھ، کچھ بھی نظرنہیں آرہا تھا۔ چاچا کولگا، اب اپنا دنیا سے ناطہ ہی ٹوٹ گیاہے۔ ویسے بھی کیا ربط رہ گیا تھادنیا سے؟ کون رہ گیاہے اس دنیا میں اپنا؟ اکلوتا ایک بیٹاہے، سووہ بھی دورشہرمیں جاکربس گیاہے۔ بیوی تو کب کی سدھارچکی۔ ایسے میں کتے کے سسکنے کی آوازیں چاچا کے کانوں میں پڑیں۔ چاچاکادل بھرآیا۔ اس بے چارے کتے نے کیابگاڑا تھا ان لوگوں کا؟ اگرکچھ ہوا ہے تو اس کا ذمہ دارمیں ہوں۔ پھرلوگ اس کتے پر غصہ کیوں اتارتے ہیں؟

    آج کی کی بات ہے کہ صبح صبح مرتضی آیاتھا۔ اکیلانہیں تھا۔ ساتھ آٹھ اوربھی لوگ ساتھ تھے۔ خاص بات تویہ ہے کہ سلمہ کاباپ بھی تھا۔ وہ پہلے بھی ایک مرتبہ آیاتھا اور بڑا پرجوش تھا۔ کہتاتھاسلمہ کی شادی طے کرلی ہے۔ بڑی تعریف کررہا تھا ہونے والے داماد کی۔ کہتا تھا لڑکا اسکول میں مدرس ہے۔ سات آٹھ سوروپے ماہانہ کی آمدنی ہے۔ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ لڑکاسلمہ کورانی بناکے رکھے گا۔ بس اب ایک ہی خواہش ہے، سلمہ کا بیٹا دیکھنے کی۔ اسے دن رات نواسوں ہی کے خواب پڑتے۔ چاچا کو بھی یہ سن کربڑی خوشی ہوئی۔۔۔ مگر یہ کیااپنا اتنالنگوٹیایاراوروہ بھی مرتضی کے ساتھ آرہاہے!

    جیسے ہی وہ لوگ قریب آنے لگے، کتے نے زورزور سے بھونکنا شروع کردیا۔ سب سے آگے مرتضی تھا۔ اس کا آگے ہونا بالکل فطری بھی تھا۔ سب کالیڈر جوتھا۔ ان دس برسوں میں اس کی شخصیت کوبھی چارچاندلگ گئے تھے۔ کاروباربہت بڑھ گئے تھے۔ اکثرلوگوں کے کام کردیتااورکسی نے اس کے عوض روپیہ پیسہ دینا چاہا تو لینے سے انکاربھی نہ کرتا، البتہ خود کسی سے مانگتا نہیں۔ کہتا لوگوں کوخودہی سوچ سمجھ کردیناچاہئے، کچھ لو گ سمجھدار تھے، خودہی دے دیتے۔ ایک اردواسکول بھی کھول رکھا ہے۔ اس سے بھی تھوڑی بہت آمدنی ہوہی جاتی۔ روپیہ پیسہ جمتاگیا۔

    اس نے ایک چھوٹا سا کاروبارشروع کردیا۔ کہتے ہیں ناکہ پیسہ، پیسے کو لگ کرآتا ہے۔ ویسا ہی ہوا۔ کاروبارہی ایساتھا کہ اس میں اچھے برے سبھی دھندے کرنے پڑتے ہیں۔ مرتضی بھی وہ سب کرتا۔ لہذادولت بڑھتی ہی گئی۔ پھراس نے سوچا کہ اتنی ساری دولت کسی کی نظرمیں نہ آجائے، اس لیے ایک سیاسی پارٹی میں بھی شامل ہوگیا۔ ضرورت پڑنے پر اپنی پارٹی کی آڑبھی لیتا۔ اب تومحلے سے گرام پنچایت کے الیکشن میں بھی کھڑا ہونے والا ہے سنا۔۔۔ انہی سب باتوں کاتکبرتھا جواس کی رعب دارچال سے جھلک رہا تھا۔ بڑی خوداعتمادی سے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا آرہا تھا۔ خودسب سے آگے تھا اورباقی سب بھیڑوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے۔

    مرتضی رعب سے ایک ایک قدم بڑھانے لگا۔ خوداعتمادی کایہ عالم تھا جیسے ساری دنیا کوشکست دے کرآرہا ہو۔۔۔ اوریہ حقیر کتا، اس نے سوچا، مجھے دیکھتے ہی کتابھونکنے لگتاہے۔ سالاجب بھی مجھے دیکھتا ہے، اسی طرح بھونکنے لگتاہے۔ چاچا ایک بارخاموش رہیں گے مگریہ کتاسنتاہی نہیں۔ مجھ پر، یعنی مرتضی پربھونکتاہے سالا۔ کتے نے زورزورسے بھونکناشروع کردیا اور چاچااسے روکنے کی کوشش کرنے لگے لیکن کتے نے اورتیزی سے بھونکناشروع کردیا۔ مشتعل ہوگیاتھا شایدوہ۔ وہ لوگ جب ذرا قریب آئے توکتے نے مہندی کی باڑھ سے چھلانگ لگائی اور آنے والوں کی طرف جھپٹا۔ مرتضی کوظاہر ہے بہت ہی غصہ آیاہوگا۔ اس نے نیچے پڑا ہواایک دھاری دارپتھرکاٹکڑا اٹھایا اور نشانہ باندھ کرکتے کو دے مارا۔ پتھرچاقوکی طرح چکراتاہوا آیا اورکتے کے پیٹ کوچیرتا ہوا دوسری طرف گرگیا۔ کتاچکراگیا، دوتین مرتبہ گول گول گھوما اور زمین پرڈھیرہوگیا۔

    جب چاچا نے یہ منظردیکھا، ان کا کلیجہ منہ کوآنے لگا۔ اکلوتا ایک ساتھی چاچا کایہ کتا۔۔۔ ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ کرتے ہوئے چاچادوڑتے اور دکھ بھرے لہجے میں مرتضی سے کہنے لگے، ’’کیاکیاتھارے بے چارے نے۔ کبھی کاٹتانئیں مرتضی وہ کتا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے چاچا۔۔۔ ہم تمہارے کتے کی تعریفیں سننے کے واسطے نہیں آئے ہیں۔‘‘

    چاچا ایک ٹک مرتضی اور اس کے ساتھ آئے ہوئے لوگو ں دیکھتے رہے۔ ہونٹ خشک ہونے لگے، منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتاتھا۔ انہوں نے رحم طلب نظروں سے سلمہ کے والدکودیکھا۔ سلمہ کے والد نے نرم لہجے میں کہا، ’’کچھ سوالات کرنے ہیں تم سے۔‘‘

    چاچا ان لوگوں کوایسا تکتے رہے جیسے آنکھوں میں زندگی کی رمق باقی ہی نہ ہو۔ پورا دھیان کتے کی طرف تھا۔ بالکل چھوٹا ساپلہ تھا جب ایسا ہی زخمی ہوکر چاچا کے پاس آیا تھا وہ کتا۔ چاچا نے اسے چھوٹے بچے کی طرح سنبھالا تھا۔ اسے بڑا کیا۔ سارا ماضی چاچا کی آنکھوں میں ابھرآیا۔ جھٹ سے انہوں نے پنے پھٹے پرانے کرتے کوپھاڑااوروہ ٹکڑا کتے کے پیٹ پرباندھ دیا۔ خون مسلسل بہہ رہا تھا۔ انہوں نے کتے کواٹھایا، اسے پانی پلایا اور پھرجھونپڑی میں لے جاکر لٹادیا۔ باہرآئے اورسب کے سامنے بیٹھ گئے۔ سلمہ کے والد نے کہا، ’’چاچا، تم کومعلوم ہے کہ آنے والے منگل کودِنڈی کی پالکی آرہی ہے۔‘‘

    سلمہ کے والد کی آوازمیں مٹھاس پیداہوچکی تھی۔ ممکن ہے پرانے تعلقات کا نتیجہ ہو۔ چاچا خاموش رہے۔ مرتضی کسی مست بیل کی طرح جھومتا ہواخاموش بیٹھا رہا، لیکن تیزتیز نظروں سے بارباردیکھتا۔ پھرکسی نے پوچھا، ’’پھرتم نے کیاطے کیاہے چاچا؟‘‘

    ’’’کاہے کا؟‘‘

    ’’واری کے ساتھ جانے کے بارے میں؟‘‘

    ’’اس کے بارے میں کیاطے کرناہے؟‘‘

    ’’چاچا، ایسی گتھیاں نہ سلجھاؤ۔‘‘

    ’’میں توصاف بتارہا ہوں۔ اس میں گتھیاں سلجھانے والی بات کہاں سے آگئی؟‘‘

    ’’توپھرآپ اپنے فیصلے پراڑے رہے ہیں؟‘‘ مرتضی نے ماحول کے تناؤ کومزیدبڑھاتے ہوئے کہا۔

    ماحول میں ویسے بھی بدمزگی پیداہوچکی تھی۔ تناؤ بھی بڑھنے لگا۔ طنابیں اس طرح کھینچی جانے لگی کہ بس اب ٹوٹیں اورتب ٹوٹیں۔ چاچاباربار جھونپڑی میں پڑے ہوئے کتے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پھران لوگوں سے کہنے جیسا اب تھا بھی کیا۔ طبیعت پربھی ناگواری تھی، کہتے بھی کیا؟ کہنے سے کچھ حاصل بھی نہ تھا۔ جب لوگ سننے ہی کوتیارنہ ہوں تو سینہ کھول کے دکھانے سے کیاحاصل۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے کہے ہوئے کوبھی یہ لوگ ڈھونگ ہی سمجھیں۔۔۔ اس لیے چاچا خاموش رہے۔۔۔ بالکل چپ چاپ، گم سم۔

    ماحول کی کشیدگی کوختم کرنے کے سے انداز میں سلمہ کے والد نے کہا، ’’چاچاذراسوچو، وہ کون؟ ہم کون؟ ہمارا اس واری سے کیاتعلق؟ دنڈی سے کیاواسطہ؟ بو لونا۔۔۔ کچھ تو، کچھ تومیل ہو؟‘‘

    اب چاچا کے لیے بولناضروری ہوگیاتھا۔ انہو ں نے کہا، ’’باباشاہ منتظر کومانتے ہونا تم لوگ؟ واری کا رواج انہوں نے ہی ڈالا تھانا؟‘‘

    ’’درست ہے چاچا۔۔۔ مگروہ زمانہ الگ تھا۔ پھرباباشاہ منتظر بہت بڑے ولی تھے۔۔۔ ان کا اورآپ کابھلا کیا مقابلہ۔۔۔ بڑے بزرگو ں کوسب معاف ہوتاہے۔‘‘ ان میں سے کسی نے کہا۔

    چاچاسوچ میں پڑگئے۔ بات توسچ ہے۔ بابابہت بڑے بزرگ تھے! میں توبس ایک معمولی ساانسان۔ باباشاہ کی درگاہ کے بھروسے جینے والاایک حقیرساآدمی۔۔۔ بابا شاہ سے میراکیامقابلہ بھا؟ میں اوران سے برابری کادعویٰ!

    پھرخیال ہوا، لیکن ان کے زمانے میں توبابا کوبھی لوگوں نے ستایا۔ اب ایک بہت بڑی درگاہ ہے توکیاہوا، تکلیف توانہیں بھی ہوئی اپنے زمانے میں۔۔۔ پھربابا شاہ کی موت کے بعد وہ سارے ہنگامے۔۔۔ چاچا خاموش بیٹھے سوچتے رہے۔

    ’’بولوناچاچا۔۔۔‘‘ سلمہ کے والد نے کہا۔ آوا زبڑی نرم اور مصلحت کوش تھی۔

    ’’تم باباشاہ کی بات چھوڑو۔ ان کے بعدبھی، میرے والدتک سبھی لوگوں نے اس فرض کونبھایانا؟‘‘

    کسی نے فورا چڑکرٹوک دیا، ’’پرانی باتیں مت نکالو، چاچا ان کی بات ان کے ساتھ گئی۔ اب ہم لوگ نئی باتیں کرلیں گے، نئے زمانے کی۔‘‘

    چاچاخاموش گردن جھکائے بیٹھے رہے، جیسے اپنے گناہوں کا اعتراف کررہے ہوں۔ اس قدر خاموشی طاری تھی کہ ہونٹ تک ہل نہیں رہے تھے۔ جیسے کسی نے ان کے ہونٹوں کو سی دیاہے۔ وہ خاموش تھے اور باقی سارے لوگ چق چق کررہے تھے، پاگل قرار دے رہے تھے چاچاکو۔ ان لوگوں کی بک بک کاشوربڑھ گیاتھا۔ صرف سلمہ کے والد تھے جوبڑی ہمدردی سے چاچا کو دیکھ رہے تھے۔

    جب شوراوربڑھ گیا توچاچا اٹھے اوربغیر کچھ کہے سنے اپنی جھونپڑ ی میں چلے گئے۔ کتے کوپیٹ سے لگایااور تھپکتے رہے، گویاانہوں نے اپنافیصلہ سنادیاتھا۔

    دوپہرمیں سلمہ آئی۔ ساڑی لہراتی ہوئی چل رہی تھی، کسی مدہوشی کے عالم میں۔ اپنی ہی دھن میں مگن چوڑیاں کھنکاتی ہوئی آرہی تھی۔ اس نے درگاہ میں رکھی ہوئی پیسوں کی پیٹی اوندھی کی، سکے اٹھائے اور روٹی کی پوٹلی چاچا کے آگے رکھ کر جانے کے لیے کھڑی ہوگئی۔ چاچا سے بات تک نہیں کی۔ چاچا سے بات کیے بغیر اس کادل ہی نہ لگتا، آج نہ جانے کیوں یہ گونگی ہوگئی ہے! کتے کی پیٹھ اورسرپر سے ہاتھ پھراتے ہوئے چاچابولے، ’’کون، سلمہ ہے کیا؟‘‘

    ’’ہاں چاچا، میں ہی ہوں۔‘‘

    ’’کیوں ری آج ویسی ہی جارہی ہے۔ بات بھی نئیں کرتی کیا؟‘‘

    ’’ایسا کچھ بھی نہیں ہے چاچا۔‘‘

    چاچا نے سلمہ کوبلایا، پاس بٹھایا۔ اس کے ماں باپ کا حال احوال پوچھا۔ باتوں باتوں میں سلمہ نے بتایاکہ اس کے والد شہرگئے ہوئے ہیں۔ چاچا کے بیٹے کوبلانے گئے تھے۔ انہوں نے سوچااپنے بیٹے کوکیوں لارہے ہیں یہ لوگ؟ سلمہ کی شادی توطے ہوگئی ہے۔ ان کے دل میں اچانک ایک ہوک سی اٹھی۔ اپنے آپ کودلاسہ دیتے ہوئے انہوں نے سلمہ سے پوچھا، ’’میرے بیٹے کوکس واسطے لارہے ہیں یہ لوگ؟‘‘

    ’’مجھے تومعلوم نئیں چاچا۔۔۔ مگرمرتضی نے بھیجا ہے تمہارے بیٹے کولانے کے واسطے۔‘‘

    اب چاچا کے ذہن میں روشنی کاجھماکاسا ہوا۔ مرتضی کی یہ حرکت انہیں بالکل پسند نہیں آئی۔ دباؤ ڈالناچاہتے ہیں میرے پر، بیٹے کے ذریعے۔ دیکھیں گے جوہوگا۔ پھربہت ہی مستحکم لہجے میں انہوں نے سلمہ سے کہا، ’’بیٹی میراایک کام کروگی؟‘‘

    ’’تم بتاؤ ناچاچا، کیاکام ہے؟‘‘

    ’’بیٹی، اگلے منگل وارکومیں گاؤں جارہا ہوں۔ تجھے اس کتے کی دیکھ بھال کرنی ہے، کرے گی؟‘‘

    معمول کے مطابق آج جب وہ مٹی کے تودے روندتی ہوئی آئی تو کتا پیروں سے لپٹانہیں تھا۔ وہ خود چاچا سے پوچھناچاہ رہی تھی لیکن اپنی ہی دھن اور مدہوشی میں وہ بھول گئی۔ چاچا کی بات سنتے ہی اس کا دھیان کتے کی طرف گیا۔ کتے کی ملول آنکھوں سے آنسوجار ی تھے۔ کسی اندرسے کچلے ہوئے بے گناہ بچے کی طرح وہ زخمی کتا چاچا کی گود میں بیٹھا تھا۔ سلمہ نے کتے کو دیکھا اور اس کی تمام انسانی ہمدردی جاگ اٹھی۔ کتے کوچمکارتے ہوئے وہ کہنے لگی، ’’اماں! اس کوکیاہوگیاہے؟‘‘ اورپھرکافی دیرتک مسلسل ارے ارے۔۔۔ ارے ارے کرتی رہی۔

    چاچا نے سلمہ کوتفصیل سے سمجھایاکہ کس طرح درگاہ کے آس پاس اگاہوازخموں پرلگایاجانے والا پتہ کوٹا جائے جائے، کیسے زخموں پرلگایاجائے اورزخموں پرپٹی کیسی باندھی جائے۔ وہ ’ہوں، ہاں ‘کرتی ہوئی گردن ہلاتی رہی۔ چاچا نے بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی تھی سلمہ پر۔ اسے خوشی بھی ہوئی۔ تھکے تھکے سے قدم اٹھاتی ہوئی ذمہ داری کے احساس کے بوجھ تلے وہ جھونپڑی سے باہرنکل گئی۔

    شام میں بادل گھرآئے تھے۔ بابا جی پاٹل بھی آئے، لکڑی ٹیکتے ٹیکتے بہت ہی تھک گیاہے پاٹل، چاچا نے سوچا۔ وہ بھی ایک زمانہ تھا، کیا آن بان تھی پاٹل کی۔ کسی میں ہمت نہ تھی کہ اس کی پھیلی ہوئی گچھے دارمونچھوں کی طرف نظر بھی اٹھائے۔ تیس پینتیس برس پہلے جب فسادات پھوٹ پڑے تو باباجی پاٹل کی وجہ سے کتنا آسراتھا اپنے کو۔ بڑا بہادرانسان تھا۔ ایک مرتبہ آیاتھا جب توکس شان سے گھوڑے کی پیٹھ پرسے کود اتھا۔ دوڑتا ہواآیااورکہنے لگا، فکرکرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم لوگ برسوں سے ہنسی خوشی ساتھ رہتے آئے ہیں۔ تمہارے بال کوبھی اگردھکالگاتو اپنی جان دے دوں گا۔ پاٹل نے اپنے گھرکی رکھوالی کے لیے دوہٹے کٹے بیس کرپہرہ پرلگادیے تھے۔

    مگرزمانہ بھی کیسابدل جاتاہے۔ پہاڑ جیسا آدمی روئی کاگالاہوکر رہ گیاہے۔ میں بھی تو گاؤں چھوڑکریہاں آکر رہ گیا۔ مگرپرانی باتیں سوچ کربھی کتنادلاسہ ملتاہے نا؟

    پاٹل لکڑی ٹیکتے ٹیکتے قریب آگئے۔ آداب کیا اوراس پھٹی پرانی چادرپربیٹھ گئے۔ بہت تھک گئے تھے۔ سانس بھی چڑھی ہوئی تھی۔ لکڑی کا ہتھا پکڑے کافی دیرتک ویسے ہی بیٹھے رہے، بالکل خاموش۔ شام کی خاموشی میں پاٹل کی خاموشی ماحول کواوربھی ساکت کیے دیتے تھی۔ چاچابھی چپ چاپ بیٹھے رہے، گویادونوں ہی برسوں پرانی دوستی کے لمحے دل ہی دل میں روشن کررہے ہوں۔ باباجی پاٹل نے ایک آہ بھری، چاچا نے ان کی طرف دیکھا، تب پاٹل نے اداس اداس لہجے میں کہا،

    ’’چاچا، زمانہ بھی کتنی تیزی سے بدلتا ہے۔۔۔ نئیں؟‘‘

    چاچاچپ سادھے گھرآئے بادلوں کودیکھتے رہے۔ کچھ بھی نہیں کہا۔ ممکن ہے صبح کی واردات تازہ ہوگئی ہوان کے ذہن میں۔ کتے کا مرتضی کودیکھتے ہی بھونکنا، پھراس کی دل ہلادینے والی چیخ اورپھرچکراکر گرنا۔۔۔ مرتضی کی آنکھیں۔۔۔ ساری واردات گویاان کی آنکھوں کے سامنے متحرک تھی۔ چاچانے پاٹل کی طرف دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ پاٹل کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں۔ وہ گھبراگئے۔

    ’’کیوں بھئی پٹیل کیا بات ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    پھرخودہی سوچنے لگے۔۔۔ اس عمرمیں بھلا کیاہوسکتا ہے؟ ہمیشہ کی طرح یا توبہونے کچھ کہہ دیاہوگا یا بیٹے نے کوئی ٹیڑھی بات کی ہوگی۔ اتنے میں پاٹل نے آہ بھرتے ہوئے کہا، ’’چاچازمانہ بدل گیاہے۔ بہت بدل گیاہے ہم سمجھ بھی نئیں سکے کہ کیوں بدلااورکیسے بدلا؟‘‘

    چاچاصرف دیکھتے رہے۔ پتہ نہیں وہ پاٹل کی بات سن بھی رہے تھے یانہیں۔ انہوں نے صرف اتناکہا، ’’صاف صاف بتاناپاٹل! ارے اتنی پرانی دوستی ہے ہماری اور اب اپنے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں؟‘‘

    اداس اداس اورتھکے ہوئے لہجے میں پاٹل نے سارا ماجراسنایا۔ شام کے خاموش ماحول میں پاٹل کی لرزتی ہوئی آوازدل میں عجیب عجیب وسوسے پیدا کررہی تھی۔ بڑا ہی عجیب ماجرا تھا۔ لوگوں نے پاٹل کوبتایاتھا کہ دھونڈیاحجام نے ایک میٹنگ بلائی تھی ان لوگوں کی جوہرسال واری کرتے ہیں۔ سناکہ سکھوبائی اورساوتری بائی جیسی بوڑھی عورتیں بھی میٹنگ میں آئی تھیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ پانچ برس بعد چاچادنڈی کے ساتھ واری کے لیے جانے والے تھے۔ کئی برسوں سے جو بات کبھی مسئلہ نہیں بنی تھی اسے دھونڈیاحجام نے مسئلہ بنادیا۔ اس کاکہنا تھا کہ واری کے سب لوگوں میں صرف چاچا ہی دوسرے مذہب کے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ چاچا کوواری میں شامل کرنے کے مسئلہ پرغورکیاجاناچاہئے۔ دھونڈیا واری کے ساتھ مردنگ بجایا کرتا تھا، اس لیے بنڈہ مہاراج سے بہت قریب تھا۔ اسی گاؤں سے واری میں شامل ہوجاتاتھا۔ اب چونکہ دھونڈی نے ایک مسئلہ کھڑا کیاتھا، اس لیے سبھی لوگ پریشان ہوگئے۔ لوگوں کو سوجھ نہیں رہا تھا کہ کیا کیاجائے؟ آخرمیں بوڑھی ساوتری کاکونے بے جھجک کہا، ’’ارے دھونڈیا، چاچااتنے برسوں سے واری کے ساتھ آتاہے، یہ اچانک تونے کیاتماشہ لگادیا؟‘‘

    یہ سن کر سکھوبائی کوبھی ذراہمت ہوئی۔ کہتے ہیں اس نے ایک ابھنگ ہی سناڈالا جس کامطلب کچھ اس طرح تھا کہ وٹھل تووٹاڑاورچنڈال وغیرہ میں فرق نہیں کرتے پھر۔۔۔ سبھی د ل پرایک بوجھ سالیے وہاں سے اٹھ کر چل دیے، کسی نے کچھ کہانہیں —لیکن ہرایک کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہوئے سوال کا اندیشہ تھا جومسئلہ دھونڈی نے اٹھایاتھا، اس کوزبان مل گئی۔

    یہ سب سن کر چاچا کوتوایسا لگاجیسے آسمان پھٹ پڑاہو۔ زندگی میں وہ کسی بات سے اس قدر رنجیدہ نہیں ہوئے تھے، جتنادھونڈی کے اس ایک سوال نے انہیں کردیا۔ چاچا پھرماضی میں کھوگئے۔

    چالیس پینتالیس برس پہلے کی بات ہے کہ والد کی موت کے بعدچاچا پہلی مرتبہ دِنڈی کے ساتھ گئے تھے۔ یہ پہلی دِنڈی انہیں آج بھی اچھی طرح یادہے۔ وہ ہری کے نام کی گونج اوروہ جھنڈیاں۔ وہ مردنگ کی مست کردینے والی دھن۔ اس زمانے میں دھونڈی حجام کا باپ مردنگ بجایاکرتاتھا۔ اس کی انگلیاں مردنگ پراس مہارت سے چلتیں کہ نظرتک نہ آتیں۔ چاچا کویاد آیاکہ اس موقع پر بوا کے دونوں پاؤں کانٹوں سے بھرگئے تھے۔ خون کے فوارے ابل رہے تھے۔ بوا پھر بھی رقص میں مست تھے۔ انہیں کسی بات کا خیال نہ تھا۔ رقص کرتے اورآگے بڑھتے ہوئے وہ ایک کھیت کے کنارے تک پہنچ گئے تھے، جہاں کسانوں نے کانٹوں کی باڑھ لگارکھی تھی۔ لیکن بوا سب کچھ بھول چکے تھے۔ ان کے کانوں میں صرف ویناکی جھنکارتھی اورمردنگ کی دھن تھی کہ جیسے ان کے قدموں سے لپٹی جارہی ہو۔۔۔

    ایک عرصہ گزرگیا لیکن چاچا آج تک وہ منظرنہیں بھولے۔ سکھوبائی بھی دنڈی کے ساتھ تھی۔ بے چاری ابھی ابھی بیوہ ہوئی تھی۔ جب دنڈی کے لوگوں نے ایک مقام پرشب بسری کے لیے پڑاؤ ڈالا تو وہی سکھوبائی رات بھر بوڑھے بوا کے پاؤں سے کانٹے نکالتی رہی، روتی رہی پاؤں کی حالت دیکھ دیکھ کر۔ چاچا کوآج بھی دنڈی کا جگہ جگہ قیام، لوگوں کی آؤبھگت وغیرہ سب یادتھا۔ ایک ہی دھن میں مست واری کے لوگ، ایک عجیب خودفراموشی کی کیفیت جو سب پرطاری تھی۔

    جوں جوں وہ پنڈھری کے قریب ہوتے گئے، دورہی سے انہیں عالیشان کلس، دونوں طرف بہتی ہوئی چندربھاگا، اس کاریتیلا کنارہ اورکنارے پربیٹھے ہوئے وارکری سب نظرآنے لگے تھے۔ وہ سارا منظرپھرچاچاکی آنکھوں میں گھوم گیا۔

    بوا کی وفات کے بعدبنڈہ مہاراج دنڈی کے ساتھ آنے لگے۔ دھونڈیاحجام بھی آنے لگا۔ لیکن بنڈہ مہاراج نے بھی کبھی بھیدبھاؤنہیں برتا۔ ایک بارتو چاچا کوانہوں نے اپنے بالکل قریب بٹھالیاتھا۔ بڑی اپنائیت اورمحبت سے خودچاچا کے لیے کھانانکالا اور پھرچاچاہی کے برتن سے دونوالے خودکھالیے۔ سارے وارکری حیرت سے دیکھتے رہے اورمہاراج، اعلیٰ قسم کے ویشنو، ہاتھ دھونے کے لیے اس انداز سے اٹھ کر چل دیے جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔ آج بھی یہ حالت ہے کہ دنڈی گاؤں میں آتے ہی بوڑھے بنڈہ مہاراج سب سے پہلے چاچا کوسینے سے لگاتے ہیں۔ خوداپنے ساتھ لے کرنکلتے ہیں۔۔۔ اور دھونڈیاحجام بولتاہے کہ۔۔۔ سچی زمانہ بدل گیاہے کیا؟ کیسابدلا؟ کیوں بدلازمانہ؟ سچ مچ بدل گیاکیا؟ ایسا ہے تواپنے کوپتہ کیوں نہیں چلا؟ اب دنڈی آنے میں پانچ سات دن ہی تورہ گئے ہیں۔۔۔ پھر؟

    ’’زمانہ بدل گیاہے۔ بہت بدل گیاہے۔ ہماری سمجھ بھی نئیں آیا۔‘‘ پاٹل نے کہا۔

    واقعی ایساہواہے کیا؟ پھردھونڈیاحجام اورمرتضی میں فرق ہی کیاہے؟ دونوں ہی یہ ایسی پاگلوں جیسی حرکتیں آخرکرتے کیوں ہیں؟ چاچا کا سرپھٹنے لگا۔

    بادل جوگھرآئے تھے اورسیاہ ہونے لگے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بارش کسی بھی لمحے شروع ہوسکتی ہے۔ اپنے آپ میں گم چاچانے کافی دیر کے بعد سراٹھاکردیکھا۔ پاٹل کب کے جاچکے تھے، کب گئے چاچاکوپتہ بھی نہ چلا۔ اتنی خاموشی سے کیوں چلا گیا؟ پاٹل آخرایسے کیوں چلا گیا؟ جانے کی آوازبھی نہیں آئی۔ لکڑی ٹیکنے کی آوازبھی نہیں آئی۔۔۔ اتنی خاموشی سے چلاگیا پیٹل؟

    چاچانے ایک لمبی آہ بھری اوراپنی کٹیامیں چلے گئے۔

    بارش موسلادھارہورہی تھی۔ گھوراندھیراہرطرف چھاچکاتھا۔ جھونپڑی میں جلتے ہوئے دیے کی ٹمٹماتی لوکب کی بجھ چکی ہوتی لیکن چاچاہی کی بضدرہنے والی آتما کی طرح وہ بھی جلتی رہی۔ یادوں کا طومارتھا۔ یادیں جیسے اندرونی کرب سے پھوٹ رہی ہوں۔ چاچا اس ٹمٹماتی لواور سسکتے ہوئے کتے کوبڑی توجہ سے دیکھتے رہے۔ آج نیندان کی آنکھوں سے کوسوں دورتھی، باباجی پاٹل، دھونڈیاحجام، بنڈہ مہاراج، وہ پالکی اورمرتضی وسلمہ کے والد سبھی ایک حلقہ باندھے چاچا کے اطراف طواف کرنے لگے۔۔۔ اس طواف کی رفتار کبھی کبھی تواتنی بڑھ جاتی کہ طواف کرنے والوں کے چہرے ایک دوسرے میں گڈمڈہوجاتے اور کبھی توسبھی ایک ہی جیسے نظرآنے لگتے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتاہے کہ سبھی بے چہرہ ہیں، صرف جسم ہیں جوحرکت کررہے ہیں۔

    دیے کی ٹمٹماتی ہوئی لو میں ایسا لگا جیسے ہرگھڑی طواف کی رفتاربڑھتی جارہی ہو۔ پھرلوگ اتنی تیزی سے چاچا کے اطراف گھومنے لگے کہ چاچا کا کتا ان لوگوں کے پیروں تلے رونداجانے لگا۔ طواف کی رفتارکوبھی کسی چیزکی پرواہ نہیں تھی، کیوں کہ اسے بہرحال اپنی رفتار عزیزتھی۔ اب یوں لگاجیسے اس رفتار کوکوئی نہیں روک سکتا، چاہے چاچاخودکچلے جائیں۔

    گھبراکرچاچا اچانک اٹھ بیٹھے۔ آنکھ گھڑی دوگھڑی ہی لگی تھی کہ یہ ڈراؤنا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چاچا بے چین ہوگئے۔ پھرانہوں نے سوچا، سچ ہی توہے، اس کتے میں اوراپنے میں آخرفرق ہی کیاہے؟ وہ چکرآخرتھاکیا؟ اس کی نہ رکنے والی رفتار کاکیامطلب ہوسکتاہے؟ کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا۔ طبیعت پرطاری سناٹا بڑھتا گیااورپھر اچانک ٹمٹماتی ہوئی لوبھی ٹھنڈی ہوگئی۔

    اب ہر طرف صرف گھنے اندھیرے تھے۔ چاروں طرف گھنااندھیرا۔۔۔ اس گھنے اندھیرے میں کتے کاکراہنا جیسے اندھیرے ہی کی سسکیاں ہوں؟ کتنی رات گزرگئی اندازہ نہ تھا۔ اندھیرے کی وسعت اورموسلادھاربارش نے سارے عالم کواپنی گرفت میں لے لیاتھا۔ کئی پرانی یادیں تھیں جو چاچا کوستانے لگیں۔ دل کے گہرے اندھیروں میں چھپی چھپائی تمام یادیں فواروں کی طرح ابل ابل کرآرہی تھیں۔

    کچھ یادیں توایسی تھیں کہ چاچا کے نہ چاہتے ہوئے بھی پورے زور سے ابل رہی تھیں۔ ان پراب چاچا کو قابونہیں تھا۔ اندھیرے کی وسعت اوربارش کی گھن گرج جیسے ان یادوں کوآوازیں دے رہی ہوں۔ انہیں گہرے پاتال سے نکال رہی ہوں۔ اس اندھیرے میں بھی ایک چہرہ البتہ منورتھا۔ گندمی رنگ، ستواں ناک اور بولتی ہوئی آب دارآنکھیں، موتیوں جیسے سفیددانتوں سے پھوٹ کراندھیرے کومنورکرتی ہوئی ہنسی۔۔۔ کس اداسے ہنستی ہے۔ کتنی بے ساختہ۔ ہنسی کی پھلجھڑیاں جب اندھیرے میں پھوٹتی ہیں توآس پاس کے سارے اندھیرے روشن ہوجاتے ہیں۔

    پھریہ مسکراتاہواچہرہ بھی دھیرے دھیرے مرجھانے لگا، جیسے آگ جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اسی طرح وہ چہرے بھی بے نورہوکراندھیرے کی وسعتوں پرتیرنے لگا۔ چاچا کے پورے جسم پرکپکپی طاری ہوگئی۔ روم روم پروحشت طاری تھی۔ وہ اندھیرے میں بدبدانے لگے۔ زیتون بی، زیتون۔۔۔ اپنی ماموں زاد، گوری گوری، نازک سی جیسے کلی ہو۔۔۔ اب نہ ماموں رہے اورنہ ممانی۔ سبھی عام انسانوں جیسی زندگی اپنے حصہ میں کیوں نہیں آئی؟ ایسی الگ۔۔۔ دنیا سے مختلف زندگی اپنے ہی حصے میں کیوں؟ اپنے گھرانہ میں یہ واری کا سلسلہ اورماموں کے گھرانے میں آیوریدیہہ۔۔۔ شولاپور، کولہاپور، میر ج اورپونے کے بڑے بڑے آیوروید کے عالم ماموں ہی سے مشورے لیاکرتے۔ ماموں کے پاس ان کے ہرسوال کاتشفی بخش جواب تھا۔ ان کے گھرانے میں یہ علم آخرآیاکہاں سے تھا؟

    لوگ کہتے ہیں کہ ماموں کے دادا نے یہ علم حاصل کیاتھا۔ اس کے لیے انہیں بھیس بدلناپڑا تھا۔ سنسکرت سیکھنی پڑی تھی۔ پھردیکھتے دیکھتے ان مولانا کی شہرت چاروں طرف پھیل گئی۔ بڑے بڑے ہندوپنڈت تک ان کے پاس آنے لگے۔ مولاناکا آیورویدیہہ سیکھ لینا خود ایک بہت بڑا معجزہ تھالیکن یہ معجزہ واقعی ہوا۔۔۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعدادبھی کم نہ تھی جومولانا سے محض اس وجہ سے شاکی تھے کہ ایک مسلمان نے آیورویدیہہ کاعلم سیکھاہے۔ لوگ ان سے دوالیتے، صحت مندہوجاتے اورپھر بھی یہی کہتے کہ آیورویدیہہ چلاناایک مسلمان کوزیب نہیں دیتا۔ یہ کام مذہب کے خلاف ہے۔

    عجیب جنم جنم کا پھیرہے کہ اسی آیورویدیہہ شاستری نے اپنی بہن کو چاچا کے والد کے نکاح میں دیناتھا۔ ایساتونہیں کہ ان دوگھرانوں کاایک ہی رشتہ میں بندھ جانا بھی نوشتہ ازل ہو؟ ادھرواری اوروہاں آیورویدیہہ! کیسے یہ سب ایک ہی ناطے میں باندھے گئے پتہ نہیں۔ کہتے ہیں پچھلے جنم کی گرہیں ہوتی ہیں۔ ایسا تونہیں ہوااپنے ساتھ؟ واقعی ایساہی کچھ لگتاہے۔

    گاؤں میں اکثران دونوں ہی گھرانے کے لوگوں کے تذکرے ہواکرتے تھے۔ ان تذکروں کی گہرائی میں شایدشک وشبہ بھی ہولیکن وہ اپنے میٹھامیٹھا ہنسنے والے ماموں اوران کی اکلوتی ایک نازک کلی جیسی زیتون دیکھنے میں بے مثال، ہنستی توساراماحول منورہوجاتا۔ اس کے بالغ ہونے سے پہلے ہی ماموں نے ایک کھاتا پیتا دیشمکھ کاگھرانادیکھا اور اس کی شادی کردی۔ وہ معصوم ہنستی مسکراتی دیشمکھ گھرانے میں چلی گئی۔

    میں توبہت چھوٹا ساتھا اس وقت لیکن آج بھی وہ نازک، دھان پان سی مورت اچھی طرح یادہے۔ وہ سسرال چلی گئی۔ بڑامالدار گھرانہ تھا۔ بہت بڑا خاندان اورعالیشان ڈیوڑھی۔ لیکن چھ مہینے بعدجب میکے لوٹی تو بس روتی ہوئی۔ اتنی چھوٹی سی عمرلیکن آنکھوں کے گردسیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ منہ بسور کرماں کوساراماجرا سنانے لگی۔۔۔

    کام کاج میں معمولی سی بھی غلطی ہوجائے تو کوئی نہ کوئی طنز کرہی دیتا، کہتے جانے دو، مت بولواسے۔ اس کی ماں نے سکھایا ہی کیاہے بے چاری کو۔ ہاں جھاڑپتے کوٹنے کوبولو، برابرکوٹے گی۔۔۔ پھرسب ہی زوروں سے قہقہے لگانے لگتے۔ اگرکام وقت پرنہ ہوتو بڑا جیٹھ کہتا، ارے۔۔ رے غلطی ہوگئی۔ چھوڑوبھئی اسے معلوم ہی نہیں بے چاری کو۔ اس سے کہوناپنڈھرپور جانے کے لیے۔ ضرورجائے گی۔ ہاں ناچے بھی گی۔۔۔ واری کا بتانے کی ضرورت نہیں اس کو۔ پھرکوئی کہتی کہاں سے ڈھونڈکے لائیں گے ماں اس کو! پھروہی کھی، کھی کھی۔۔۔ زوردارقہقہے۔

    شروع شروع میں نندیں اورجیٹھانیاں غلطی پرآہستہ سے ٹوک دیتیں۔ اب وہ بھی چڑانے لگی تھیں۔ کھانا شروع بھی نہیں کرتی کہ کوئی کہتا، ’’یہ کیسا کھائے گی، جھاڑ پتے کھلاؤگی ماں اس کو، نئیں توپورن پولی کھلاؤ۔‘‘ ایسی ہی طنزیہ باتیں ہونے لگیں۔ ان باتوں سے تنگ آگئی تھی اوراب سسرال جانے ہی کوتیارنہ تھی۔ ماں نے سمجھایا، بیٹی چولہے کی لکڑی چولہے ہی میں اچھی لگتی ہے۔ زیتون روتی، آنسوبہاتی سسرال چلی گئی۔ دل پرایک بوجھ سا تھا۔ پھردوبارہ زیتون بی کو کسی نے نہیں دیکھا۔ اس کا کیاحشر ہوا کسی کومعلوم نہیں۔ بس افواہوں کی فصلیں اُگیں۔ کوئی کہتا اس نے کنویں میں کودکرجان دے دی ہے توکوئی کہتا عرصے سے بیمارتھی۔۔۔ لیکن کچھ لوگ بڑے وثوق سے کہتے سنے گئے کہ دیشمکھ کے گھروالوں نے اسے زندہ دیوار میں چن دیاتھا۔

    کیاکیاتھابھلازینون نے؟ اگرکوئی قصوروارتھا تواس کے والدیاپھرہمارا گھرانہ ہی۔۔۔ لیکن سزا اس نازک زیتون کوکیوں ملی؟ یاپھرجرم اورسزا کاکوئی تعلق ہی نہیں ہوتا؟ خداکا ایسا بھی کیاانصاف ہے کہ بے گناہ لوگ قربان ہوجاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اندھیروں میں کھوجاتے ہیں۔ حیرت ہے، خدایہ سب کچھ کیسے دیکھ سکتاہوگا؟ اپنی زندگی میں بھی خدا سے دکھ کے سواملاہی کیاہے؟ کسی دن دامن تھام کرسوال کرناچاہئے اس سے۔۔۔ رات کے اندھیرے میں خداکی ذات پرمیں نے شک کیا! اس خیال کے احساس ہی سے چاچا کے دل میں اپنے گہنگارہونے کااحساس پیداہوا اورانہوں نے خدا سے معافی مانگی۔

    اندھیرا ہونے کے باوجود ہاتھ پھیلائے وہ ’یااللہ یااللہ‘ کرتے رہے۔ رات بھرموسلادھاربارش ہوتی رہی۔ ہرطرف جل تھل تھا۔ زمین کے تمام گھاؤ مٹ چکے تھے اور وہ سیراب ہوچکی تھی۔ اپناسہاگ سجانے کے لیے نکھری سنوری سلمہ جیسی، زیتون جیسی زمین بھی نکھرچکی تھی۔ پانی ہرطرف ٹھہرا ہواتھا۔ مٹی کے تودے پھوٹ پھوٹ کربہہ گئے تھے۔ کیاتوبارش شروع ہوئے پندرہ دن ہوچکے تھے اورایک بوند پانی نہ برسا اورآج رات پانی نے بھی ساری کسرنکال دی تھی۔

    مطلع آج صبح صاف تھا اوردھوپ کھلی پڑی تھی، لیکن دوپہرمیں دھوپ نے ٹھہرے ہوئے پانی اور درختوں کے سروں پرچمکناشروع کردیا۔ دوپہرکی دھوپ میں درگاہ، چمیلی کی بیل اور مہندی کی باڑھ سبھی نکھرے نکھرے لگ رہے تھے۔ چاچا البتہ چپ چاپ بیٹھے ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔ اپنی کمزور آنکھوں سے انہیں جوکچھ نظرآیا، وہ دیکھ کرخداکاشکرادا کرتے رہے۔ خدا کے بخشے ہوئے کرشمے اپنی آنکھوں میں بھرتے رہے۔۔۔ دوردیکھا تو ہمیشہ کی طرح سلمہ آتی ہوئی نظرپڑی۔ کیچڑمیں چلنا اس کے لیے ذرامشکل ہورہا تھا، پاؤں برابر جم نہیں رہے تھے۔ چپل کیچڑ سے لت پت ہوگئی تھی لیکن اسے کسی بات کی پرواہ نہ تھی۔ آج کچھ زیادہ ہی خوش لگ رہی تھی، اپنی ہی دھن میں مگن۔

    سلمہ کودیکھ کرچاچا نے کہا، ’’کیوں سلمہ! بہت خوش لگ رہی ہے۔ ہمارے داماد آئے ہیں کیا؟‘‘

    ’’ایسانئیں بولناناچاچا۔ میں پھر آؤں گی نئیں بھلا۔‘‘

    ’’ہوں، اب توسسرال جائے گی ناتو، یہاں کاہے کوآئے گی۔‘‘

    سلمہ نے پھرمنہ پھلایا، شرمائی اور پھرخاموشی سے جھونپڑی میں داخل ہوگئی۔ اس نے جھونپڑی سے کتے کوباہر نکالا اوراس سے باتیں کرتی ہوئی زخم پر لگی پرانی پٹی نکالی، زخم دھویا اوراس پرپتہ رکھ کرپٹی پھرسے باندھ دی۔ چاچا اس کی حرکت کوغور سے دیکھتے رہے۔ چلو ایک فکرتودورہوگئی تھی۔ سلمہ جب اپنے کام سے فارغ ہوگئی توچاچا نے اس کے والد کی خیرخبرپوچھی۔ سلمہ فورا بتانے گی کہ ان کے بیٹے نے آنے سے انکارکردیاتھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھاکہ میرے بوڑھے باپ کو اس عمرمیں فضول تکلیف مت دو۔

    چاچا کادل بھرآیا۔ آخربیٹا کس کاہے۔۔۔ وہ بھی آخرباباشاہ منتظرکے نسب سے ہے نا۔ بیٹے کا جواب سن کرچاچا کو ایسا لگا جیسے سینے پرسے بہت بڑا بوجھ اترگیاہو۔ بڑے مسرت بھرے لہجے میں انہوں نے سلمہ سے پوچھا، ’’تیرے اباجان کہاں ہیں پھر، سلمہ بیٹی؟‘‘

    ’’وہ ادھرگئے۔ محرم آرہاہے نا۔ سواری بٹھانے کی تیاری کررہے ہیں۔‘‘

    محرم، سواری، یہ سنتے ہی چاچا بے چین ہوگئے۔ ایسا لگا جیسے پرانی یادوں کوزندہ کرنے کے علاوہ زندگی میں کچھ نہ رہاہو۔ کیازمانہ تھا۔ کس دھوم دھام سے محرم کی تیاریاں ہوتی تھیں، سواری بٹھانا، سواریاں سجانا۔ کس شان سے سواریاں جھومتے جھومتے نکلتیں۔ سبھی عورتیں چاہے ہندو ہوں یامسلمان، سواری اٹھانے والے کے پیروں پرپانی کے ہانڈے انڈیل دیتیں، ہندو عورتوں نے کبھی بھیدبھاؤ نہیں کیا۔ گلی میں تاشوں کی تڑام تڑام شرع ہوتے ہی ہندوعورتیں جھٹاجھٹ گھروں سے نکلتیں، عقیدت واحترام سے درشن لیتیں۔۔۔ تعزیے سجائے جاتے اور پھرسارے گاؤں میں گھوم گھوم کر ٹھنڈے کرنے کے لیے ندی پرلے جائے جاتے۔ کتناجوش ہوتا تھا اس وقت لوگوں میں۔۔۔ لوگ اپنے نومولودبچوں کے کان چھدوانے کے لیے تعزیوں کے نیچے سے گزرتے۔۔۔ کوئی بھیدبھاؤ نہیں تھا۔

    اکثرایسا بھی ہوتا کہ کوئی عورت اپنے پہلن بچے کولے کرآتی، ساس ساتھ ہی ہوتی۔ بچے کولیے تعزیے کے نیچے گھستے اورسنارسے بچے کے کان چھدواتے۔ سونے کی کیل سے بچے کے کان چھیدے جاتے۔ بچہ روتا، چیختا۔ ماں اپنے بچے کولیے جلدی جلدی باہرنکلتی اوربچے کو خاموش کرانے کے لیے اپنے پلو کے نیچے لے لیتی۔ محرم آتے ہی سارا گاؤں بیدارہوجاتا۔ مانی ہوئی منتیں پوری کرنے کے لیے لوگ شیر بھی بنتے۔ جسم پرشیرجیسی کالی کالی دھاریاں اورہلدی کے پٹے۔۔۔ مست ہوکریہ شیررقص کرتے، کبھی کبھاردو مست شیروں کامقابلہ بھی لوگوں کودیکھنے کے لیے ملتا۔ و ہ ان شیروں کاایک دوسرے پرجھپٹنا، وہ ان کا دھاڑنا۔۔۔ لوگ منہ کھولے دیکھتے رہتے۔

    لوگوں کی تفریح کے لیے اوربھی کئی پروگرام ہوتے۔ لکڑی کے گھوڑے کمرمیں ڈالے ہوئے لوگوں کارقص، دھونڈیا حجام کاباپ لکڑی کی گھوڑی ایسی نچاتاکہ آنکھوں کی حسرت نکل جاتی۔ نیچے ٹانکی ہوئی جھالر ایسی گھومتی جیسے واقعی کوئی گھوڑا پھدک رہاہو۔۔۔ پھر لوگ باباشاہ منتظر کی درگاہ پرآتے اورجمال بال نکالے جاتے۔ ہندوکبھی نہ سوچتے کہ درگاہ پرجاکرکیسے جاوڑ(جمال بال) نکالیں۔ کتنے ہی گھروں میں میں نے خودفاتحہ پڑھی۔ عیدبرات کے موقعوں پرچونگے بنتے، روٹ بنتے۔۔۔ بھیدبھاؤ تھا کہاں؟

    خیرپاٹل کی بات درست لگی۔ زمانہ بدل گیا ہے۔۔۔ محرم میں بھی اب وہ پہلے جیسی دھوم دھام کہاں رہی؟ بس ایک رسم باقی رہ گئی ہے۔۔۔ یہ سب کیاہوگیا بھلا؟ زمانہ ایسا کیسا بدل گیا؟ اور اپنے کوپتہ بھی نہ چلا۔ چاچا اپنی معذور آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ کتے کازخم اب بھرنے لگا تھا۔ اب وہ کھڑا ہونے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ بڑا گن ہے سلمہ کے ہاتھوں میں۔

    چاچا نے اپنے بیٹے کے نہ آنے کے بارے میں سوچا۔ پتہ نہیں کیاکیاان لوگوں سے۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ اسے گاؤں اور گاؤں کی جھک جھک سے ذرادلچسپی نہیں۔ اپنے باپ کے واری کرنے میں بھی اس کوکوئی برائی نظر نہیں آتی۔ پتہ نہیں۔۔۔ لیکن آنے سے انکارضرورکیااس نے۔ ممکن ہے بیٹا سوچتا ہوکہ بوڑھا باپ ہے تب تک یہ سب چلتا رہے گا، اس کے بعد کون جارہا ہے واری پھاری کرنے۔ چاچا نے سوچا، اپنے بعدبیٹا واری نہیں کرے گاکیا؟ باباشاہ منتظر کا شروع کیا ہوا کام اپنے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا؟ ایسا تونہیں ہوگا جیسے ندی کوراستہ ہی نہ ملتا ہو؟ اوراگرایسا ہوا تو باباشاہ منتظرکوکیالگے گا؟ بابا۔۔۔ باباتم ہی بتاؤ اب میں کیا کروں؟ جتنامجھ سے ہوسکا میں کرتا رہا۔ ایک دن میں بھی ختم ہوجاؤں گا۔ میرے بعد بابا کی خدمت بھی کوئی نہیں کرے گاکیا؟ ایسی ہوابھی چل سکتی ہے کیا کہ یہ ہراکانچ غلاف اڑجائے، یہ مورچھل مٹ جائے۔ کیا ساری درگاہ کے احاطے میں صرف گھٹنوں گھٹنوں تک گھاس اُگی رہے گی؟ کوئی بھی نہیں رہے گا یہاں۔۔۔؟

    درگاہ کی اس حالت کے تصور ہی سے چاچا کوگھبراہٹ ہونے لگی۔ انہوں نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور پہلی مرتبہ خود اپنی ہی درازی عمر کے لیے دعامانگی۔ سوز وگداز ان کے لفظ لفظ سے جھلک رہاتھا۔ چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا، موت کے تصور نے ان کے دل میں ہلچل مچادی تھی۔ موت دن رات چاچاکی آنکھوں کے سامنے رقص کرتی۔ قبرستان نظرآتے۔ خواب میں بھی یہی دیکھتے کہ خودانہیں کاجنازہ نکلا ہے۔ وہ گھبراکر اٹھ جاتے اور انہیں مرتضی کی تمام باتیں یادآتیں۔ خواب اورحقیقت کے اس بے ہنگم سلسلے سے اوربھی بے چین رہنے لگے۔

    جس چیزپر چاچا کی نظرپڑتی، ایسا لگتا جیسے موت اس میں پوشیدہ ہے اورانہیں بلارہی ہے۔ چمیلی کے سفیدپھول دیکھتے تو احساس ہوتا کہ بس دوہی دن میں مرجھائیں گے ایسے جیسے کبھی کھلے ہی نہ ہوں۔ مٹی میں مل جائیں گے یہ پھول بھی۔ درختوں پربیٹھے پرندوں پرنظر پڑتی توانہیں لگتا یہ پرندے جودن بھر آسمان کی وسعتوں میں اڑتے پھرتے ہیں، زندگی کی ڈور ٹوٹتے ہی زمین پر آرہیں گے۔۔ کسی کوپتہ نہ چلے گا کہ کوئی پرندہ بھی تھا۔ کسی کومعلوم نہیں ہوگا کہ اڑتے اڑتے اچانک کہاں چلا گیا۔ ممکن ہے دوچاردن بچے تلاش کریں گے مگر جلدہی وہ خود اپنے بل پر اڑنے لگیں گے اورسب کچھ بھول جائیں گے۔ وہ بھی چندبرس ایسے ہی آسمان کی وسعتو ں میں اڑیں گے، ایسے ہی گریں گے اورپھر۔۔۔ یہ درخت بھی توآخرکبھی نہ کبھی ہواؤں سے اکھڑہی جائیں گے۔ جڑیں آسمان کا منہ تک رہی ہوں گی اورپھول پتے خشک ہوجائیں گے۔ ساری کائنات کا نظام ہی ایسا ہے کیا؟ چاچاموت کے تصورمیں پھنسے ہوئے ہیں اوربالکل بدحواس ہوچکے ہیں۔ ویسے توانہیں بوڑھے ہوئے بھی زمانہ ہوچکا ہے لیکن ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔

    پھرروزبہ روزصحت مندہوتا ہواکتا بھی اچانک ایک رات مرگیا۔ چاچا کوپتہ ہی نہ چل سکا۔ کافی دیرسے کتے کی آوازنہیں آئی تھی۔ پتہ نہیں کیوں۔۔ یہ سوچ کرجب انہوں نے ا س پرپڑا ہواکپڑااٹھایا تو کتا پاؤں پھیلائے مراپڑاتھا۔ چاچا سن ہوکررہ گئے۔ چاچا نے سوچا، کتے کواچھی طرح دفن کرناچاہئے، اس کی قبرپرنشانی کے لیے ایک آدھ پتھر ہی رکھ دیناچاہئے۔ لیکن لوگ نہیں مانتے۔ دونوں پاؤں پکڑکرگھیسٹتے ہوئے لے گئے اورایک کھائی میں ڈال دیا۔ چاچابہت اداس ہوگئے۔ اپنی فطرت کے خلاف آج انہوں نے سوچا، مرتضی بڑا گنہگار ہے۔ انہیں مرتضی کے الفاظ یادآنے لگے۔ لوگ مجھے بھی اس کتے ہی کی طرح پھینک دیں گے؟ کھائی میں! پھرفرق ہی کیاہے اپنے میں اوراس کتے میں آخر؟ انہوں نے دردبھری نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا اور خاموش ہوگئے، بے لفظ۔

    سلمہ معمول کے مطابق آتی، چاچا کوروٹی دیتی اور چلی جاتی۔ سلمہ سے بھی بات کرنے کوطبیعت نہ ہوتی۔ باباجی پاٹل بھی اکثرآتے، دونوں خاموش ایک دوسرے کوتکتے رہتے اورپھر پاٹل اپنی لکڑی ٹیکتے ٹیکتے چلے جاتے۔ سلمہ کے والد بھی آتے لیکن ان سے بھی چاچا نے بات نہ کی۔ صرف تکتے رہتے دیوانوں کی طرح۔ ایک دوبار مرتضی بھی آیا۔ چاچا کی سمجھ میں نہ آیاکہ مرتضی کیوں آتاہے۔ انہیں کچھ کچھ احساس توہوالیکن بات کی تہہ تک پہنچ نہیں سکے۔ ایک مرتبہ توساوتری کاکو بھی آکرگئی۔ چاچاسے کہنے لگی، ’’چاچا دِنڈی پڑوس کے گاؤں تک آگئی ہے۔ دوایک دن میں اپنے گاؤں پہنچ جائے گی۔ تم تیاری کرو۔ فکربالکل نہیں کرنا۔ تمہیں اپنے پلو کے آسرے سے لے جاؤں گی۔۔۔‘‘

    لیکن چاچا کسی بھی بات کا مطلب نہیں سمجھ سکے۔ صرف تکتے رہتے جیسے کچھ سمجھ ہی میں نہ آرہا ہو۔۔۔

    گاؤں میں لوگوں کی مصروفیت بڑھ گئی تھی۔ مرتضی اور سلمہ کے والد مسلسل بھاگ دوڑ کرتے رہتے ہیں۔ تدبیریں کررہے ہیں کہ چاچا کوآخر کیسے سمجھایاجائے۔ دھونڈیاحجام بھی خاموش نہیں ہے۔ وہ بھی گھرگھرجاتا ہے۔ یکایک اس کے دماغ پریہ کیاسوار ہوگیا؟ کس نے بھردیا یہ سب اس کے دماغ میں، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن وہ مسلسل پاگلوں کی طرح گھومتا رہتاہے، بڑبڑاتا رہتاہے۔ حالانکہ کوئی بھی اس کی بات سنجیدگی سے سننے کوتیارنہ تھا۔ باباجی پاٹل کابیٹا سارے حالات پرنظر رکھے ہوئے تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اوپروالوں کواطلاع دی جائے یانہیں؟ اگرگاؤں میں کچھ گڑبڑ ہوجاتی تو اس کی حیثیت ختم ہوجاتی۔ پاٹل پن چلاجاتا۔ سوچ وچار کے بعداس نے تہیہ کرلیا، چاہے کچھ ہوجائے پولس نہیں بلواؤں گا۔ آخرہوگا بھی کیا؟ اپنا پٹیل پن ختم ہوجائے گا نا۔ ہونے دو۔ کھیتی باڑی کریں گے، سکھ سے رہیں گے۔۔۔

    اس نے ہردوطرف کے لوگوں کوسمجھانے کی کوشش کی، ’’آخری ڈورہے یہ۔۔۔‘‘ اس نے سمجھایا، ’’کرنے دوبوڑھے چاچا کواپنے دل جیسا۔‘‘ یہ دھاگا ٹوٹا توسب کچھ خودہی ختم ہوجائے گا۔ پھربوڑھے آدمی میں اچانک تبدیلی ہوبھی کیسے سکتی ہے بھلا؟ اس بے چارے کوکم از کم سکھ سے مرنے تودو۔۔۔ کسی کویہ بات پسندآئی کسی کوپسندنہ آئی۔ کئی لوگ توایسے منہ پھٹ بھی تھے کہ اس کی موجودگی ہی میں برا بھلاکہہ دیتے اورکچھ ایسے تھے جنہوں نے خاموشی اختیارکررکھی۔ اس نے طے کیاکہ دنڈی والے دن خودگاؤں میں گھومے گا اور ضرورت پڑی تو اپنے تمام وسائل کا استعمال کرلے گا۔ دیکھیں گے کیاہوتا ہے۔ اس نے سوچا۔

    گاؤں میں عجیب عجیب باتیں ہونے لگیں۔ لوگ ان باتوں کونمک مرچ لگاکرسنانے لگے۔ چاچا کوبھی کوئی نہ کوئی یہ سب آکربتاہی دیتا۔۔۔ لیکن چاچا کچھ بھی سمجھنے سے قاصرتھے۔۔۔ وہ صرف آنے والے کی صورت تکتے رہتے۔۔۔ آسمان پرگھرآئے بادلوں نے سارے گاؤں کواندھیرے کی زدمیں لے لیاتھا۔

    آرہی، آرہی، کہتے کہتے ایک دن دنڈی گاؤں میں پہنچ ہی گئی۔ آنی تومنگل وار کی صبح ہی تھی لیکن آتے آتے دوپہر کاوقت ہوگیا۔ معمول کے مطابق وارکریوں نے اپناسارا سامان چاوڑی میں رکھا اور ادھرادھر ملنے ملانے کے لیے نکل گئے۔ تیسرے پہر نکل جاناطے تھا۔۔۔ دنڈی کا سواگت بوڑھے بابا جی اوران کے تنومند بیٹے نے کیا۔ پالکی کونمستے کرنے کے بعدانہوں نے بنڈہ مہاراج کے قدموں پر سررکھ دیا۔ بنڈہ مہاراج نے بابا جی پاٹل کو اٹھایااور اپنے سینے سے لگالیا۔ دونوں کی آنکھیں بھرآئیں۔۔۔ دونوں دہاڑیں مارکے رونے لگے۔ مہاراج نے اپنے آپ کوسنبھالا اور پاٹل کے نوجوان بیٹے سے پوچھا، ’’ہم نے جوکچھ سنا وہ سچ ہے کیا؟‘‘

    پاٹل کے بیٹے نے اوس بھری ہنسی ہنستے ہوئے اثبات میں گردن ہلادی۔ بنڈہ مہاراج نے کچھ کہا نہیں۔ ان کے دل میں کیاتھا کیامعلوم! صرف اتناکہا، ’’دیکھتے ہیں، اب وٹھل ہی کوئی راستہ نکالیں گے۔‘‘

    دنڈی تیسرے پہر کونکلتی تھی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی نکلی۔ مہاراج کے گلے میں پھولوں کے ہاراورویناتھی۔ ہری نام کے نعرے لگاتے ہوئے وہ نکلے۔ البتہ آج ان پر ایک الگ ہی دھن سوارتھی۔ ایک الگ ہی رنگ تھا۔ وہ بے ساختہ ہورہے تھے۔ دنڈی کوجوں ہی روانہ ہونے کے لیے سجایاگیا، مہاراج نے ایک زوردار نعرہ بلند کیا۔۔۔ پنڈلیک وردے، ہری وٹھل۔۔۔ اوردنڈی آہستہ آہستہ سرکنے لگی۔۔۔ جھنڈیاں ہوامیں پھڑپھڑانے لگیں۔ مہاراج تھوڑی دور چلتے، رکتے اورپھرکوئی ابھنگ سناتے۔ دھونڈیاحجام کی مردنگ کی دھن پرجیسے ساراعالم مستی میں ڈوب گیاتھا۔ مہاراج آگے آگے تھے لیکن آج الگ ہی رنگ میں رنگے نظرآرہے تھے۔

    دنڈی آہستہ آہستہ آگے سرکنے لگی۔ بالکل چیونٹی کی سی رفتار تھی۔ عورتیں اور مردسبھی گلی کوچوں سے نکل نکل کرآتے، پالکی کے درشن لیتے، مہاراج کے قدموں پرسررکھتے، ان کے گلے میں پھولوں کی مالائیں ڈالتے۔ لیکن وہ سب سے بے نیازتھے۔ ایک عجیب سی مستی طاری تھی ان پر گویا وجد کی کیفیت طاری ہو۔

    دنڈی ہمیشہ ہی باباشاہ منتظرکی درگاہ سے ہوتی ہوئی جاتی تھی۔ آج بھی دنڈی اسی راستے پر نکل پڑی۔ معمول یہ تھا کہ دنڈی یہاں پہنچتے ہی چاچادنڈی میں شامل ہوجاتے۔ دنڈی توآج بھی اسی سمت روانہ ہوئی لیکن پاٹل کے بیٹے نے دیکھاکہ درگاہ کے باہرسات آٹھ لوگ بیٹھے ہیں۔ اندازسے لگتاتھا جیسے یونہی ہواخوری کے لیے بیٹھے ہوں۔ نوجوان پاٹل کا دل پھربھی دھڑکنے لگا۔ لیکن اس نے بھی طے کررکھاتھا کہ دنڈی کووہ اطمینان سے گاؤں سے باہر، گاؤں کی حد سے باہرتک ضرور پہنچائے گا۔۔۔ پھر اس کی ذمہ داری ختم ہوجاتی۔

    اب تیسری پہربھی ختم ہونے کوتھی۔ لوگوں کے قدم ایک الگ ہی دھن میں اٹھ رہے تھے۔ وہ دوسری ہی دنیا میں مست تھے۔ انہیں اگرکچھ سنائی دے رہا تھا توبس بنڈہ مہاراج کی مدھرآواز اوردھونڈیاحجام کے مردنگ کی دھن، گویاوہ اس دنیاہی میں نہ ہوں۔۔۔ جیسے کسی ان دیکھی مثالی دنیا کی راہ کھوجنے نکل پڑے ہوں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی دنڈی درگاہ کے سامنے والی سڑک پررک گئی۔ معمول میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ ان کا گلا ہاروں سے بھرا اور ان کی پیشانی بھبھوکے سے رنگی ہوئی تھی، مہاراج رکے، ساری دنڈی رک گئی۔۔۔ درگاہ کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ ہکابکادیکھتے رہے۔ سوچ رہے تھے کیا ہوتاہے دیکھیں۔ خاموش بیٹھے رہے۔ دنڈی رک گئی لیکن دھونڈیاحجام کامردنگ بجتارہا۔ مہاراج نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ باقی توسب رک گئے لیکن مہاراج کی وینا اوردھونڈیاحجام کا مردنگ بجتے رہے۔۔۔ پھرمہاراج تن کرکھڑے ہوگئے اورانہوں نے اپنی دل کوچھولینے والی آوازمیں تان بھری۔۔۔

    جے، جے رام کرشن ہری

    جے، جے رام کرشن ہری

    جے، جے رام کرشن ہری

    جے، جے رام کرشن ہری

    مہاراج کی آوازآسمانوں سے باتیں کرنے لگی۔ پھردھیرے دھیرے کم ہوتی گئی۔ ایک الگ ہی مٹھاس پیدا ہوچکی تھی آج مہاراج کی آوازمیں۔ ساتھ والے لوگ تصویروں کی مانند ساکت کھڑے آہستہ آہستہ ان کے ساتھ دہرانے لگے تھے۔ جھنڈیاں پھڑپھڑانے لگیں۔۔۔ اوردھونڈیاحجام کا مردنگ بجتارہا۔۔۔ وہ بھی جی جان سے بجارہاتھا۔

    مہاراج نے پھرایک بار ہاتھ کااشارہ کیا اور سب تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ اب مہاراج نے ایک ابھنگ شروع کیا، ان کی مدھرآوازایک بارپھر آسمانوں کوچھونے لگی۔

    ساراماحول مہاراج کی آواز سے بھرچکا تھا۔ تال چپڑیوں ۱؎ کی آواز گونج رہی تھی۔ مردنگ کی آوازبھی بے خودہونے لگی۔۔۔ اورمہاراج کی آواز دم بہ دم بڑھتی رہی۔

    بنڈہ مہاراج نے اپنی بندآنکھیں کھولیں، جیسے کسی سمادھی یااندرونی اطمینان سے جاگے ہوں۔ سبھی وارکری جھوم رہے تھے، رقص کررہے تھے۔۔۔ مردنگ اب بھی اسی اندازمیں بج رہا تھا۔۔۔ مہاراج نے درگاہ کی طرف دیکھا۔ وہاں بیٹھے ہوئے لوگ تصویروں سے بھی زیادہ ساکت ہوچکے تھے۔ باقی سارے ماحول پربھی سناٹااورسکوت طاری تھا۔ ایسا محسوس ہوتاتھا جیسے کسی جادوگرنے سارے ماحول کوسحرمیں باندھ رکھا ہو۔ مہاراج نے پھرایک بارتان بھری اورسارا ماحول لرزاٹھا۔ بنڈہ مہاراج دوسرا ابھنگ شروع کرچکے تھے۔

    تال، چپڑیوں اورمردنگ کی دھن اور ان کی دھن میں گھلی ہوئی مہاراج کی آوازپھرآسمانوں کوچھونے لگی۔ فضا پرسوزوگدازکی کیفیت طاری ہوگئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مہاراج کی آوازسے سوزوگداز اوررحم وکرم کے سوتے پھوٹ رہے ہوں۔

    پھراچانک ایسا ہواجیسے جادوکردیاگیاہو۔ ایک تھرتھراتی ہوئی لکڑی درگاہ کے آس پاس اگی ہوئی مہندی کی باڑھ سے باہرآتی ہوئی نظرآئی۔ اس کے فورابعدہی بوڑھے چاچا کی پرامیدلیکن معذورآنکھیں بھی باڑھ کے اس طرف نظرآنے لگیں۔ کسی سحر یا منتر کے اثرمیں چل رہے ہوں، اس طرح چاچا آگے سرکنے لگے۔۔۔ مردنگ اب بھی ہوش شکن اندازمیں بج ہی رہا تھا۔۔۔

    صرف آسمان بھرشکست کی ریکھائیں پھیل گئی تھیں۔

    حاشیہ

    (۱) چپڑیاں۔ ایک خاص لکڑی کا بنا ہواساز

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے