وہ
نورجہاں کے مقبرے کے اندر خنکی تھی!
باہر گرم گرم دھوپ تھی کیوں کہ یہ موسم بہار کا ایک دن تھا۔
نورجہاں کے مقبرے کی تاریکی اور خنکی میں اس نے ہیولی دیکھا تھا، جیسے مغل عہد کی کسی مصور کتاب کا ایک رنگین ورق اڑکر سنیما اسکوپ اسکرین پر آ گیا ہو۔ ایک لمحہ۔۔۔ ایک ثانیہ۔۔۔ مصور کے موقلم کا ایک رنگین چھینٹا۔
ریلوے لائن دھوپ میں چمک رہی تھی!
گرم گرم فضا میں ایک بےنام سی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ ایک جامد سی خوشبو۔ سوئی سوئی سی دھوپ۔
وہ مقبرے کی دیوار کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
ان کے سایے نرم نرم مٹی سے چپک گئے تھے، جس پرکل کی بارش کی نمی تھی اور سڑک کے دوسرے کنارے پر کھجوروں کی پھنگیں سوئی سوئی دھوپ سے سرگوشی کر رہی تھیں۔ ان کے سایوں میں بہار کی دھوپ رچی ہوئی تھی۔ وہ دونوں خاموش تھے۔ ان کے سایے خاموش تھے۔ کائنات خاموش تھی۔ موسم بہار کا یہ دن خاموش تھا۔ وہ چند لمحے پہلے اکٹھے تھے۔ اب وہ دنوں اکیلے تھے کیوں کہ مغل عہد کے بے نام مصور کے موقلم کا ایک رنگین چھینٹا ان کے درمیان حائل ہو گیا تھا۔
سب سے پہلے وہ خاموشی جاگی جو کھجور کی پھننگ پر دھوپ سے سرگوشی کر رہی تھی۔ دھوپ لرزی اور لرزش پھننگ سے اترکر ایک ننھی سی لہربن گئی۔ ایک بے نام سا اضطراب۔ ایک دھیما سا ارتعاش جیسے گھونگھے میں سمندر بول رہا ہو۔ گہرا سمندر ابھی خاموش تھا۔ ابھی اس پرسکوت کی مہرلگی تھی۔ بہار کے پرندے خاموش تھے، کیوں کہ کوئل کی کوک کو ابھی ابربہار سے اذن نغمہ سرائی نہ ملا تھا۔
لیکن جب وہ بڑے پھاٹک سے اندرداخل ہوئے تو دو رویہ روشوں کے پھول ان کے ساتھ چلنے لگے۔ چپ چاپ لان کے درخت اپنے سایوں کے جلو میں چل پڑے دبے پاؤں اور پھولوں کے رنگ سایوں میں گھل مل گئے اور پھولوں کی خوشبو قافلہ سالار بن گئی۔
وہ لوگ جو انہیں روش روش پر ملتے، چلتے پھرتے موم کے پتلے تھے۔ بے جان، گم سم، جیسے وقت کے دھارے پر بہے چلے آ رہے ہوں اور وقت نے انہیں آزاد نہ کیا ہو اور وہ یوں محسوس کر رہا تھا، نہیں، ابھی وہ احساس کی سرحد پر بھی نہ پہنچا تھا، ابھی تو وہ ادراک اور احساس کے سنگم پر تھا، ابھی لمحہ اپنے محور پر گردش کر رہا تھا، ابھی وقت کا دھارا اپنا رخ بدل رہا تھا۔۔۔ وہ ابھی لمحے کی قید سے آزاد نہیں ہوا تھا کیوں کہ اس نے ٹوٹتی زنجیروں کی آواز نہیں سنی تھی۔ سمندر ابھی مہربلب تھا۔ گھونگھے کی لرزشیں محض سراب وقت تھیں۔ ایک فریب گوش۔۔۔
نغمی نے کہا، ’’سلیم! موسم کتنا دل فریب ہے۔‘‘
’’ہاں بڑا دل فریب ہے۔ نہیں تو۔۔۔‘‘
’’تم بولتے بولتے رک کیوں گئے؟‘‘
وہ بولتے بولتے رک گیا تھا۔ نغمی کی آواز نے لمحے کے تسلسل کو توڑ دیا تھا اور پھر موسم بدلتا نہیں، دل فریبی کے انداز بدلتے رہتے ہیں۔
’’اس دن بھی یہی موسم تھا۔ بہار کی خوشبو اور پھولوں کا نکھار۔۔۔‘‘
’’کون سا دن؟‘‘ ا س نے پوچھا۔
نغمی حیران حیران ہو گئی۔ اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ اس کی پیشانی بھیگ گئی۔
’’اس دن بھی بہار کا موسم تھا اور پھول کھلے تھے اور دھوپ۔۔۔‘‘
’’اور تم ایک لان میں اکیلی کھڑی تھیں۔ ایک بیمار سی لڑکی۔ تمہارے چہرے پر دھوپ کی زردی تھی اور تمہاری آنکھوں میں نیلاہٹ تھی۔ نمناک آنکھوں میں جیسے حسرتیں بیٹھی جھانک رہی ہوں۔ مجھے تمہاری آنکھوں نے اپنی طرف کھینچا۔ میں جوتخیل کی وادیوں کا آوارہ شہزادہ ہوں لیکن میں نے تمہیں اس سے پہلے بھی دیکھا تھا۔۔۔ کہاں۔۔۔ میں نہیں جانتا۔۔ اور میں نے اس دن یہی سمجھا کہ میں نے اسے پا لیا ہے۔ نغمی اس دن بھی دھوپ خاموش تھی لیکن اس دن درخت اور پھول میرے ساتھ نہیں چل رہے تھے۔ اس دن بھی مجھے اس کی تلاش تھی۔‘‘
’’کس کی؟‘‘ نغمی کی آواز میں ایک دردناک سر تھا۔
’’میں نہیں جانتا۔ میں ابھی۔‘‘
نغمی کا درد ماضی کے دھندلکوں میں رستہ بھول گیا۔
اس دھند میں دھوپ بھی تھی۔ ایک سوگوار سی دھوپ۔ وہ مقبرہ جانگیرکی سیر کو آئی تھی پکنک کے لیے اور اپنی سہیلیوں کے شوروغل، قہقہوں اور شرارتوں میں اس کا دل نہ لگ سکا تھا۔ وہ نہ جانے اتنا مضطرب دل لے کر کیوں پیدا ہوئی تھی۔ یہ دل جسے خوشیوں کا راگ بھی بھلا نہ معلوم ہوتا اور وہ اس لان میں تنہا کھڑی تھی اور اس کے اردگرد پھول مسکرا رہے تھے۔ اسے خوابوں کے کسی شہزادے کا انتظار بھی تونہ تھا اور پھر وہ اس کی طرف آیا تو وہ چونک بھی نہ سکی۔ وہ چندقدم دور کھڑا تھا اور اسے دیکھ رہا تھا۔
میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ مجھے دیکھ رہا تھا۔ نہیں وہ میری تلاش میں نہیں آیا تھا۔ میں اسے کیوں پہچانتی۔ میں تو اپنی ہی آگ میں جل مرنے کے لئے پیدا ہوئی تھی۔ میں دوسرے کی آگ کو کیسے محسو س کرتی۔ اس نے نیلی پتلون پہنی تھی۔ اس کے سویٹر کا رنگ عنابی تھا۔ اس کے بال بڑھے ہوئے تھے اور وہ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں ایک خواب آوارہ تھا۔ اس نے کہا تھا، ’’میں نے آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا تھا۔‘‘ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ میرے اور قریب ہو گیا، ’’میں مدت سے آپ کی تلاش میں تھا۔‘‘ وہ میری تلاش میں تھا۔ نہیں وہ میری تلاش میں نہیں تھا۔ میں یقین اور بے یقینی کی فضا میں معلق تھی۔ میں کوئی جواب نہ دے سکی۔ پھر وہ مجھے غور سے دیکھتا رہا۔ ایک لمحے نے اس کی آنکھوں سے جھانک کر کہا، ’’میں مصورہوں۔ میں ایک زمانے سے اپنے آئیڈیل کی تلاش میں ہوں۔ میرا گمشدہ تخیل۔ شاید وہ تم ہو۔‘‘
’’میں وہ نہیں ہوں۔‘‘ اس نے لمحے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔ لیکن وہ اس کے ساتھ چل پڑی تھی اور اس کی سہیلیاں اسے ایک اجنبی کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ کر حیران ہو گئی تھیں لیکن انہیں کیا معلوم ابھی ان کے راستے الگ الگ تھے اور فوارے کے قریب۔۔۔
دھوپ نے پھران کا راستہ روک لیا تھا۔
فوارہ اچھل رہا تھا۔ پھوئی پھوئی پانی برس رہا تھا اور جھرنوں سے بوند بوند رس رہا تھا۔
سامنے جہانگیر کا مقبرہ تھا جس کا سنگمرمر دھوپ میں چمک رہا تھا۔
’’میرا راستہ دھوپ نے کیو ں روکا؟‘‘ نغمی نے سوچا۔
نہیں تو۔۔۔ دھوپ کسی کا راستہ نہیں روکتی۔۔۔ اس دن بھی فوارے کے قریب آکر وہ رک گئی تھی۔ سلیم نے کہا تھا۔ چلو اندر سے مقبرہ دیکھ آئیں۔ اس نے انکار میں سر ہلا دیا تھا۔ مقبرہ یہاں سے زیادہ خوبصورت، زیادہ نازک اور زیادہ Sublime نظر آتا ہے۔ اس نے کہا تھا فاصلے حسن کو اور زیادہ Sublime بنا دیتے ہیں۔ یہ مینار دور سے کتنے خوبصورت اور Slim نظر آتے ہیں جیسے ابھی ابھی جوانی چڑھے ہوں۔ تھوڑے سے شرمائے ہوئے، لجائے ہوئے، نیچی نظریں کیے جیسے ترک شہزادے جن کی مسیں بھیگ رہی ہوں اورپہلی بار انارکلیوں سے ان کی نگاہیں دو چار ہوئی ہوں۔
ہوا کا ایک جھونکا فوارے کی اچھال کے ساتھ کھیلتا ہوا گزر گیا۔ اس میں بہار کے دھلے دھلے میٹھے اور معطر سانس بھی تھے۔ اس نے سبزے کی موج درموج ہریالی اور نوخیز کونپلوں کی معصوم نزاکت کا لمس محسوس کیا۔ ایک کونپل مسکرائی اور فوارے کی ایک اچھال شبنم کے ننھے منے قطرے کی صور ت میں اس کی پیشانی پر بکھر گئی۔ وہ جھوم اٹھی۔
’’زندگی کا ریلا زندانئی وقت نہیں۔ وہ تو شبنم کا ایک قطرہ ہے۔‘‘
اور مینار شرماکر اور بھی جھک گئے کیوں کہ وہ انارکلی تھی، نورجہاں نہیں تھی۔
اور اسے ابھی اس کا علم نہیں تھا۔
’’یہ آصف جاہ کا مقبرہ ہے۔‘‘ سلیم نے کہا۔
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ نغمی نے کہا۔
’’یہ گنبد اپنی تعمیر سے دنیا کی واحد چیز ہے۔ میں اسے اپنی کسی تصویر میں علامت بنانا چاہتا ہوں لیکن کس چیز کی، یہ میں نہیں جانتا۔‘‘
نغمی نے گنبد کو ایک نظر دیکھا اور پھر نگاہیں جھکا لیں۔ گنبد کا پلستر اکھڑ چکاتھا۔ بڑے بڑے پتھروں کی دراڑیں منہ کھولے کھڑی تھیں۔ اس کی چوٹی پر دو گدھ بیٹھے تھے اوراس کے اکھڑے کھڑ پلستر پرپرندوں کی بیٹیں تھیں۔ اس ویران ویران سے گنبد میں کوئی وحشت ناک اسرار بسا ہوا تھا۔ نہ جانے یہ اسرار کس چیزکی علامت تھا۔ گنبد پر دھوپ لہرا رہی تھی اور گنبد کے اندر کبوتر غٹرغوں غٹرغوں بول رہے تھے۔ باغ جہانگیر کے اس حصے میں تنہائی تھی۔ بڑی مردہ سی خاموشی تھی۔
نغمی نے کہا، ’’لیکن گنبد بہت بدصورت ہے۔‘‘
’’دنیا کی کوئی چیز بدصورت نہیں۔ میں اس گنبد کو ’وقت‘ کاسمبل بناکر تصویربناؤں گا۔‘‘
’’پریہ گنبد تو یقیناً بدصورت ہے سلیم!‘‘ اس کے لہجے میں ہلکا سا احتجاج تھا۔
’’آصف جاہ نورجہاں کا بھائی تھا۔ ممتاز محل کا باپ۔۔۔‘‘
’’میں جانتی ہوں سلیم!‘‘
’’آصف جاہ نے ممتازمحل کی پرورش اور تربیت اس انداز سے کی جیسے وہ اس کی پیشانی پر اس کی تقدیر پڑھ چکا ہو۔ وہ اسے ملکہ ہندوستان کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔ وہ کتنا بڑا خواب دیکھنے والا انسان تھا اور اس کا خواب پورا ہوکر رہا۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے سلیم!‘‘
’’اور جب بھی اسے ممتاز محل اور تخت ہند کے درمیان کوئی رکاوٹ نظر آئی اس نے اپنے ناخن تدبیر سے۔۔۔‘‘
’’میں تاریخ کے اس خونیں ورق سے بھی آگاہ ہوں سلیم!‘‘
’’اس نے مراد بخش کے بیٹے داور بخش کو تخت پر بٹھایا اور۔۔۔ پرویز، شہریار۔۔۔‘‘
’’ہاں سلیم! جبھی توگنبد دنیا کی بدصورت تعمیر ہے۔ اس کے نیچے سونے والے کے ارادوں کا خوفناک مظہر۔ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آصف جاہ کی روح اس گنبد کے نیچے اب بھی کسی خونی عزم کوعملی جامہ پہنانے کا خواب دیکھ رہی ہو۔‘‘
’’اسے کچھ نہ کہونغمی۔‘‘ سلیم نے چونک کر کہا، ’’ہر شخص شیلان کا قیدی ہے۔‘‘
’’اور تم؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ سلیم سوچنے لگا۔
نغمی اس کے سوچتے ہوئے چہرے کا جائزہ لینے لگی۔ یہ کتنا دلکش چہرہ ہے۔ ان آنکھوں میں کتنی گہرائیاں ہیں۔ اس فراخ پیشانی میں عظمت کا نشان ثبت ہے۔ یہ سر ایک عام آدمی کا سر نہیں لیکن۔۔۔ یہ لمحے کا قیدی ہے۔۔۔ اپنے ہی فلسفے کا اسیر۔۔۔ میرا اور اس کا ایک سال کا ساتھ ہے۔۔۔ میں اسے لمحے سے آزاد نہ کرا سکی۔۔۔ اس کا فلسفہ میرے رگ و ریشے میں نہ رچ سکا اور میں نے اسے پھر بھی والہانہ چاہا۔۔۔ میں نے قدم قدم پر اس کا ساتھ دیا۔ میں اس کے اسٹوڈیو کی گھٹی گھٹی فضا میں بیٹھی رہی۔۔۔ میں ا س کے ساتھ ساتھ رہی۔۔۔ میں نے گلی گلی کی سیرکی۔ قریہ قریہ گھومی۔ یہ ہجوم میں کھو گیا تومیں بھی اس کے ساتھ کھو گئی۔۔۔ اس نے جس شے سے نفرت کی، میں نے بھی اس سے نفرت کی۔۔۔ اس نے جس سے پیار کیا، میں نے بھی پیار کیا۔۔۔
اس نے کہا، ’’میں ایک ’لمحے‘ کی تلاش میں ہوں۔ وہ اس ’لمحے‘ میں پوشیدہ ہے۔ میرا ساتھ دو۔‘‘
میں نے کہا، ’’میں تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس کا ساتھ دیا اور۔۔۔
’’میں وقت کا قیدی ہوں اور وہ بھی جس کی تلاش میں میں سرگرداں ہوں۔‘‘
وہ کون ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔ ابھی ابھی درخت اور سائے، دھوپ اور سرگوشی، پھول اورخوشبو میرے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اگرنغمی فوارے کے قریب رک نہ جاتی تو میں ’اس‘ کے اسرا ر کو پانہ لیتا کیا۔ شاید۔۔۔ نغمی فوارے سے آگے نہیں بڑھتی اور نورجہاں کے مقبرے میں وہ تہہ خانے کے اندر چلی گئی، حالانکہ مجھے وحشت محسوس ہوئی تھی۔ تہہ خانے کی فضا میں نمی تھی اور نمی میں اندھیرا رچا ہوا تھا۔ وہیں میں نے اس ہیولے کو دیکھا جومصور کے موقلم کا ایک چھینٹا تھا اور وہ اس لمحے میں اسیر ہے۔۔۔
’’ممتاز محل وقت کا شاہکار تھی۔ اسے عظمت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔‘‘ سلیم نے کہا۔
’’وہ ایک گھریلو سی عورت تھی جس نے آٹھ بچوں کو جنم دیا اور مر گئی۔‘‘ نغمی بولی۔
’’وقت نے اسے تاج محل کے سنگمرمر میں قید کر دیا۔‘‘ سلیم نے کہا۔
’’تاج محل دنیا کا ایک عجوبہ ہے۔ کسی انگریز سیاح کی بیوی نے تاج محل کو دیکھ کر کہا تھا کہ اگر اس کا شوہر اسی قسم کا عمارت اس کے مزار پر تعمیر کروانے کا وعدہ کرے تو وہ اسی لمحے مرنے کو تیار ہے۔‘‘
سلیم نے مسکراکر کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے ہی تھے کہ نغمی بولی، ’’میں اس قسم کی خواہش کبھی نہ کروں گی سلیم۔ تاج محل کے حسن میں ٹھنڈک ہے، سپارک (Spark) نہیں۔ ایک گھریلو عورت کی یاد میں ایسی ہی عمارت بننی چاہئے تھی۔‘‘
سلیم نے حیران ہوکر نغمی کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہا۔
نغمی ہمیشہ اسے شبنم کی بوند محسوس ہوئی اور شبنم کی بوند میں شرارہ۔
وہ یقیناً شبنم کی بوند تھی، شبنم کی بوند جو سورج کی کرن سے ہم آغوش ہوکر ایک چنگاری بن جاتی ہے۔
نغمی نے کتنی اونچی بات کہہ دی تھی۔
’’تاج محل کا حسن شبنم کی بوند ہے۔ کیا اسے سورج کی کرن کا لمس نصیب نہ ہو سکا کہ وہ شرارہ بن جاتی۔‘‘ سلیم نے سوچا۔ گنبد کے اندر سے آواز آئی۔ غٹرغوں، غٹرغوں، غٹرغوں۔
گنبدکی چھت پرسے دونوں گدھ اڑے اور ان کے سروں پر مہیب سایہ ڈال کر دور گھنے درختوں کی طرف اڑ گئے۔
’’نغمی! خرم نے ممتاز کو اپنی شریک زندگی بنایا لیکن اسے اس گھریلو عورت سے کتنی محبت تھی کہ اس نے اس کے مرنے کے بعد دوسری شادی نہ کی۔‘‘ نغمی نے اسے ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو تم اپنے فلسفے کے باوجود کس قدر سادہ ہو۔
’’سلیم!‘‘ نغمی نے کہا، ’’اسے ممتاز محل سے زیادہ اپنے تخلیقی عمل سے پیار تھا۔ ممتاز تو اس کا تخیل تھا، جسے وہ سنگمرمر میں نہ ڈھال سکا تو اس نے اسے ’تاج‘ کا تجریدی لبادہ اڑھا دیا۔‘‘
سلیم چونک گیا۔
میں بھی توایک فنکار ہوں۔ میں نغمی کو تجرید کے کون سے رنگ میں دیکھ رہا ہوں۔ میں اور نغمی ایک سال سے مل رہے ہیں۔ یہ دوسری بار ہے کہ ہم مقبرہ جہانگیر میں آئے ہیں۔ کیا میں نغمی کو سمجھ نہیں سکا۔ کیا یہ وہی رنگ کا چھینٹا تو نہیں جو مقبرہ نورجہاں میں ایک ہیولی بن گیا تھا جیسے کتاب زندگی کا ایک نقش غیرمرئی ہو۔ وہ شبنم کی ایک بوند ہے جو سورج کی ایک جھلملاتی کرن سے ہم آغوشی کی منتظر ہے۔
غٹرغوں۔۔۔ غٹرغوں، غٹرغوں۔۔۔
دھوپ تیز ہو گئی اور درختوں کے سائے سمٹ گئے۔
وہ دونوں ایک جامن کے سائے تلے آ گئے اور شیشم کی کونپلیں خوشبو کے فوارے بن گئیں۔ وہ چھاؤں تلے سبز گھاس پر بیٹھ گئے۔ گھاس میں ابھی تک رات کی خنکی اور تری رچی ہوئی تھی۔
’’نغمی! چائے پیوگی؟‘‘
نغمی نے کھوئے کھوئے انداز میں سر ہلا دیا۔
اس نے تھرمس کھول کر گلاس میں چائے ڈالی۔ گرم گر م بھاپ اٹھی اور خوشبو کے فواروں سے جا ملی۔ نغمی نے گلاس لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اس کی مخروطی انگلیوں کے حنائی پور بھاپ اور خوشبو کے ساز پر رقص کرنے لگے۔ دور گلاب کی ایک کلی چٹک کر پھول بن گئی یا کھجور کی پھننگ سے دھوپ کی جو لرزش پھیلی تھی، وہ کلی سے سرگوشی کرنا چاہتی تھی کہ متحد ہوکر رہ گئی۔ یا شاید مغل مصور کے موقلم کا رنگین چھینٹا وقت کے صفحے پر ثبت ہو گیا تھا۔
گل غنچگی میں غرقہ دریائے رنگ ہے
اے آگہی! فریب تماشا کہاں نہیں
’’میں فریب نظارہ ہوں، سراب نظرہوں۔‘‘ رنگ کے چھینٹے نے کہا۔
’’میں لمحے کو اس کے اصل روپ میں کب دیکھوں گا؟‘‘ اس نے پوچھا، ’’آج میں نے لمحے کو چلتا ہوا دیکھا اور میں اس کی تلاش میں تھا اور پھول میرے ہم سفر تھے اور فوارے کے قریب قافلہ رنگ و بورک گیا تھا کیوں کہ نغمی رک گئی تھی۔ ابھی کوئی زنجیر بھی تونہ ٹوٹی تھی۔‘‘
’’میں اس پاگل مصورکے فریب میں کیوں آ گئی۔ اس کے تخیل میں ادھورے خوابوں کا جہان آباد ہے؟ نہ جانے اسے کس کی تلاش ہے؟ اس کا تخیل ادھورا، اس کے خواب اھورے ہیں۔ اس کے کینوس پرکوئی تصویر بھی تو مکمل نہیں اور میں جو ایک سال سے اس سے مل رہی ہوں، اس کے کینوس پر ہمیشہ ادھوری تصویر کے روپ میں آئی ہوں لیکن۔۔۔ قدرت مجھے اس عظیم فنکار کی عظمت کے بھینٹ چڑھانا چاہتی ہے۔‘‘
نغمی نے آصف جاہ کے گنبد کی طرف دیکھا۔
غٹرغوں۔۔۔ غٹرغوں۔۔۔ غٹرغوں۔۔۔ ایک کبوتر گنبد سے باہر نکل کر چبوترے کے فرش پر آ گیا اور ناچنے لگا اور ناچتے ناچتے رک کر اسے دیکھنے لگا جیسے اسے پہچان رہا ہو۔
عظمت کی بھینٹ۔۔۔ عظمت کی بھینٹ۔۔۔ عظمت کی بھینٹ۔۔۔
نغمی نے گلاس منہ سے لگا لیا۔
سفید پلاسٹک کے گلاس پر نغمی کے ہونٹ ہلال بن کر جھک گئے اور سلیم انہیں یوں دیکھنے لگا جیسے وہ پہلی بار انہیں دیکھ رہا ہو۔ یہ ہونٹ کتنے گداختہ ہیں۔ ان کے گداز میں کتنی حساس نزاکت ہے۔ ان کی قوس مصور فطرت نے کتنی فنکاری سے بنائی ہے۔
غٹرغوں۔۔۔
ان غٹرغوں کی قوس میں اچھوتی دوشیزگی تھی جسے نظروں کے لمس نے بھی ملوث نہ کیا ہو۔ اتنے پاکیزہ جیسے ان کا گداز خیال کی آغوش سے بھی گریزاں رہا ہو۔
’’میں کن خوابوں میں کھو گیا ہوں؟ میں جو اس کی تلاش میں ہوں۔ وہ جو ایک حقیقت بھی نہیں۔ میری عظمت جو ادھوری تصویروں کی خالق ہے، ایک معصوم غریب کی رہین منت کیسے ہو سکتی ہے۔ میں تاج محل کا شہزادہ خرم نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں تو تاج محل کا خالق ہوں۔ وہ کون ہے جس کی مجھے تلاش ہے کہ میری ادھوری تصویر۔۔۔‘‘
ادھوری تصویر۔۔۔ معصوم آنکھیں۔۔۔ معصوم ہونٹ۔۔۔ قوس قزح۔۔۔ فریب نظر۔۔۔ قوس قزح۔۔۔ دھنک کے سات رنگ۔۔۔ آفتاب کی تجرید۔۔۔ یہ نغمی تھی یا مہرالنسا جو دھنک سے اتر رہی تھی اور ادھر کھجور کی پھننگ سے دھوپ کی ایک روش نے گلاب کی کلی کا منہ چرا لیا تھا اور کلی چٹک کر پھول بن گئی تھی۔۔۔ گل غنچگی میں۔۔۔ رنگ کا دریا۔۔۔ ایک نہر۔۔۔ مصور کا موقلم لرزا۔۔۔ اس کی نوک سے ایک چھینٹا پھسلا اور اس کی ادھوری تصویر پر گرکر دھنک کے سات رنگ بن گیا۔۔۔ ادھوری تصویر۔۔۔ یہ تصویر کب مکمل ہوگی۔۔۔
نغمی گھنٹوں ماڈل بن کر میرے سامنے بیٹھی۔۔۔ میں اس کا اسرار نہ پا سکا۔۔۔ وہ کون ہے۔۔۔ یہ لمحہ مجھے کب آزاد کرےگا۔۔۔ کلی مسکراکر پھول بن گئی ہے۔۔۔ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے۔۔۔ ابد تک یہی ہوتا رہےگا۔۔۔ دھرتی کے کینوس پر خالق ازل ابد کی تصویر اس طرح تکمیل پذیر ہوتی رہےگی لیکن میں۔۔۔ میری تصویر۔۔۔ میں تصویروں کا مکینک نہیں۔۔۔ میں تو تخیل کا مصور ہوں۔۔۔ نغمی کی ادھ کھلی آنکھ میں خواب کا ایک ابرپارہ اڑ رہا ہے۔۔۔ ابرپارہ یانغمی۔۔۔ یہ نغمی تھی۔۔۔ یہ نغمی نہیں تھی۔۔۔
یہ نغمی تھی یا مہرالنساء جو سرو کے ایک درخت کے نیچے کھڑی تھی۔
اور باغ جہانگیر کی روش روش آباد تھی۔
مینا بازار لگا تھا۔ باغ جہانگیر کی ہر روش پر رنگ اڑ رہے تھے اور بو آوارہ تھی۔ باغیچوں کے رنگ برنگ کے پھول مسکرا رہے تھے اور کلیوں کے چٹکنے کی صدا آ رہی تھی۔۔۔ اور وہ لڑکی ہجوم سے ہٹ کر ایک سرو کے نیچے کھڑی تھی کیوں کہ اس کا ہجوم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کی ادھ کھلی آنکھوں میں خواب کا ایک ابرپارہ اڑ رہا تھا اور اس کے حاشیے پر سبز لکیر مصروف پرواز تھی۔ پھول پر ابر کا سایہ تھا اور ابرپارے میں پھول کھل رہے تھے۔ صبا اور نسیم کے جھونکے پھولوں کے فر ش پریوں چل رہے تھے جیسے گل کتر رہے ہوں اور خرام ناز میں رقص تھا اور ساز میں آواز نہیں تھی۔ وہ زعفران تھی۔ وہ ستارہ تھی۔ اس کے گلے میں مروارید کی مالا تھی۔ اس کی اوڑھنی سے عنبر کی بو آ رہی تھی۔ وہ کابل سے آئی تھی۔ اس نے قندھار میں جنم لیا تھا۔ اس نے ایران کی سرزمین سے پھولوں کی نکہت اڑائی تھی۔ اس کے بیضوی چہرے پر مغلئی آنکھیں تھیں۔
ترچھی آنکھیں۔۔۔ سرمے کے دنبالے۔۔۔ کسا کسا لباس اور سانچے میں ڈھلا ہوا جسم۔۔۔ ترکان غمزہ زن۔۔۔ یاسمین کی کلیاں۔۔۔ گلاب کے پھول۔۔۔ چنبیلی کی نکہتیں۔۔۔ سنبل و ریحان کے کاکل پریشاں۔۔۔ بنفشے کے پیچ۔۔۔ آنکھوں میں گل داؤد۔۔۔ آگ اور پھول کا میل۔۔۔ سرخ ہونٹوں کی اوٹ میں خلیج فارس کے موتی۔۔۔ پلکوں میں شمشیراصفہان کی آب۔۔۔ چنبیلی کی خوشبو۔۔۔ مولسری کی لڑی۔۔۔ چنبیلی کا ہار۔۔۔ ناک راجپوتی کٹار کی دھار۔۔۔ کنول نین۔۔۔ سان پر لگی بھنویں۔۔۔ پلکوں میں کالی راتوں کے ستارے۔۔۔ مانگ میں کہکشاں کی دھول۔۔۔ چھوئی موئی۔۔۔ تلسی کی پتیاں۔۔۔ کاجل کے دھارے۔۔۔ برکھا رت کی گھٹائیں۔۔۔ چہرے شام پارے بدن بانکے ترچھے چھریرے۔۔۔ گنگا اور جمنا کے دھارے۔۔۔
اور وہ لڑکی اس ہجوم میں نہیں تھی کیوں کہ وہ ایران سے نہیں آئی تھی۔ اسے ہند کی خاک نے بھی جنم نہیں دیا تھا۔ اس کی نوخیز جوانی اپنی آگ سے بےخبر تھی حالانکہ ابھی ابھی شاعران عجم نے اس کی شان میں غزل ایجاد کی تھی اور شاعر شیراز نے اس کے مخملیں رخسار کے ایک تل پر سمرقند وبخارا نثار کر دیے تھے۔ بھرتری ہری نے اسی کے لیے جوگ لے لیا تھا اور رام نے سیتا کو اسی کے لیے اگنی کنڈ میں ڈال کر پوتر بنایا تھا۔ نل نے دمینتی کو اسی کی تلاش میں کھو دیا تھا اوریونان کے شاعر ہومر نے اسی کے لیے آنکھوں کی بصارت دے کر شاعری کی بصیرت کا سودا کیا تھا۔ وہ یونان کو چھوڑکر ٹرائے میں چلی گئی تھی کیوں کہ اس نے خسرو کے محل میں تیشہ فرہاد کی آواز سنی تھی اور وہ محمل لیلی میں بیٹھ کر صحرائے نجد کی ریت کاسراب بن گئی تھی۔
یہ نغمی تھی یا مہرالنسا!
اب اس کے ہاتھ میں دو کبوتر تھے جواسے معصوم معصوم آنکھوں سے بٹربٹر تک رہے تھے۔ وہ حیران تھے کیوں کہ ان ہاتھوں کے گدازمیں راحت تھی، حالانکہ مخروطی انگلیوں کے آتشیں پوروں سے بجلی کے شرارے پھوٹ رہے تھے اور سرو کی چوٹی پرایک ابرپارہ معلق تھا اور اس لڑکی کے رخساروں سے پھوٹ نکلنے والے سرخ شعلے ابرپارے کو آگ لگا رہے تھے۔ یہ کون تھا جو دو کبوتر اس کے ہاتھ میں تھماکر مینا بازار کی سیر کوچل دیا۔ وہ ایران، کابل، قندھار اور ہندوستان کے سنگم پر کھڑا تھا جیسے ابھی ابھی ’’مرج البحرین‘ کا معجزہ رونما ہوا ہو۔ اس کے کانوں میں ہندوستان کے مندرسے تھے اور ان کے ساتھ بدخشاں کے لعل معلق تھے جو ڈھل ڈھل چمک رہے تھے۔ اس کی مسیں بھیگ رہی تھیں اور سبزہ خط اتر رہا تھا۔ عرفی نے ابھی ابھی اس کی شان میں قصیدہ لکھا تھا اور اس کے ترکستانی اور راجپوتی حسن پر ایرانی تغزل کے سدابہار پھول نچھاور کیے تھے۔
’’باادب باملاحظہ ہوشیار۔ ظل الہی تشریف لاتے ہیں۔‘‘
’’مہابلی اکبر بادشاہ مینا بازار کی سیر دیکھنے آ رہے ہیں۔‘‘
’’نادرہ اری نادرہ!‘‘
پھولوں کے ایک کنج سے قہقہہ بلند ہوا جیسے خسرو کے سات تار جھنجھنا اٹھے ہوں۔ ایران کے نغمے کا ہند کے سنگیت کے ساتھ ملاپ ہو گیا تھا۔
انارکلی۔۔۔
اناربابر کی تزک کے ساتھ قندھار سے آیا تھا۔۔۔ کلی نے ہند کی دھرتی سے جنم یا تھا۔
’’مہابلی! ظل الہی انارکلی کا رقص دیکھیں گے۔‘‘
ستار اور طبلے کی سنیت ہوئی۔ نغمہ موج در موج ابلا، کابل اور جمنا مل گئے۔ سبزے کا مخملی فرش۔۔۔ پھولوں کے کنج۔۔۔ خوشبو کی سوزنی۔۔۔ طبلے کے توڑے۔۔۔ ستار کی لرزشیں۔۔۔ میگھ ملہار۔۔۔ دیپک راگ۔۔۔ کبھی آگ لگی۔۔۔ کبھی ٹپ ٹپ بندیو ں کا راگ چھڑا۔
بےمثل! بےنظیر! گیت کے لفظوں کے لیے تیری آواز ایک شراب ہے۔ مگراے جنت ارضی کی حور! اب کوئی رقص۔ ہم اس شعلے کو بےقرار دیکھنا چاہتے ہیں۔
رقص کی اڑانیں۔۔۔ نرت میں بجلی کی چمک۔۔۔ انگلیاں شہاب ثاقب۔۔۔ انار کی پتیاں جگنو کے شرارے۔۔۔ دھنک کا جھولا آسمان کی بلندیوں سے چھو گیا۔۔۔ سروکی چوٹی پر ابر کا آتشیں ٹکڑ چھم چھم برسنے لگا۔
اے ترک غمزہ زن کے مقابل نشستہ۔
’’محفل برخاست ہوا‘‘ ظل الہی کی آواز میں چنگیز کی گرج تھی۔ تیمور کا صاعقہ خیز دبدبہ تھا۔
ظل الہی۔۔۔ مہابلی۔۔۔ مہاراج۔۔۔ ظل الہی۔۔۔ ابا جان۔۔۔ ننگ خاندان۔۔۔
’’شیخو بیٹا! ہم تخت ہند کو محبت کی آگ سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم تمہاری ذات میں ایران، ترکستان اور ہندوستان کا ملاپ دیکھنے کے آرزومند ہیں۔ جیحوں، سیحوں، کابل اور گنگا جمنا کے دھاروں کا سنگم۔۔۔‘‘
’’اس بےباک عورت کو لے جاؤ اور زندان میں ڈال دو۔‘‘
اور انارکلی کے زرد چہرے پر جو کسی شاعر کا خوا ب تھا، کسی مصور کا تخیل، ہندکے آسمان سے اوس کے چھینٹے برس گئے اور اس کا چہرہ شاداب ہو گیا، نکھر گیا جیسے انار کی کلی دھل کر مسکرا اٹھی ہو۔
’’میں نے ہندوستان کو اپنے قدموں میں دیکھ لیا ہے۔ شہنشاہ کا آہنی قانون کانچ کی چوڑی کی طرح ٹوٹ گیا ہے۔‘‘
اور وہ بےنیاز گم سم سی لڑکی ابھی تک سرو کی چھاؤں تلے کھڑی تھی!
سروکی چوٹی کا ابرپارہ آتشیں حاشیے سمیت اس کی آنکھوں میں اتر آیا تھا۔
اور ہندوستان کی تاریخ ایک بےانتہا نازک موڑ پر کھڑی تھی۔
پھر۔۔۔ ہوا کی ایک لرزش۔۔۔ سفید ہیولی۔۔۔ آسمان کی نیلاہٹ۔۔۔ بہار کی دھوپ۔۔۔ خوشبو کی لپک۔۔۔ کلیو ں کی چٹک۔۔۔ سروکی چھاؤں۔۔۔ سفید ہیولی فضا میں رقص کرنے لگا۔۔۔ اور وہ لڑکی تبسم ریز ہو گئی۔۔۔ گلاب کی پتیوں پر خلیج فارس کے لو لوئے تابدار جھک گئے۔
’’اے لڑکی میرے کبوتر لاؤ۔‘‘
وہ لڑکی جو تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑی تھی، چونک گئی لیکن اس نے بڑی نیازی سے کبوتر والا ہاتھ اس کی طر ف بڑھایا۔
’’ایک!‘‘ آواز کے تحکم میں حیرت کی لرزش تھی۔
لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا کیوں کہ سفید نقطہ آسمان کی نیلاہٹ میں کھو گیا تھا۔
’’دوسرا کیا ہوا؟‘‘ حیران لہجے میں پوچھا۔
لڑکی آسمان کی نیلاہٹوں میں گم تھی، اس لیے اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’ہم جواب کے منتظر ہیں۔‘‘
’’اڑ گیا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ لہجے کی تمکنت میں غصے کی تھرتھراہٹ تھی۔
’’یوں۔۔۔‘‘ لڑکی نے کبوتر والا ہاتھ کھولا۔ حنائی انگلیوں کے گلاب سے دوسرا کبوتر پھر سے اڑا۔ تیر کی طرح سیدھا اٹھا اور پھر سرو کی چوٹی پر قلابازیاں کھانے لگی۔ تب دو نقطے ملے او رآسمان کی نیلاہٹ میں گم ہو گئے۔
وہ لڑکی مسکرانے لگی۔۔۔
لیکن شاہانہ تمکنت کا غصہ تخیل کے خم وپیش میں الجھ گیا۔
’’بہزاد بہت اچھا مصور ہے۔ وہ ہرچیز کی تصویر کھینچ کر رکھ دیتا ہے۔‘‘ بابر نے تزک میں لکھا۔
’’مجھے تصویروں کا ذوق اور نقاش کو سمجھنے کی مہارت اس قدر زیادہ ہو گئی ہے کہ گذشتہ اور موجودہ زمانے کے ماہر مصوروں کا کوئی بھی نمونہ مصور کا نام بتائے بغیر میری نظر سے گزارا جائے تو میں فورا ًاندازہ لگا لیتا ہوں کہ اس کا مصور کون ہے۔‘‘
سلیم نے کہا، ’’میں اس لڑکی کی تصویر کھینچوں گا۔‘‘
جہانگیر نے تزک کا ایک صفحہ کھولا۔
یہ صفحہ سادہ تھا۔ اس کے موقلم نے رنگوں کی آمیزش کا راز نہ پایا تھا۔
اور اس نے تزک بند کر دی۔
وہ مصور تھا۔۔۔ وہ تخت ہندوستان کا وارث تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں موقلم نہ آیا کیوں کہ عصائے شاہی نے اس ہاتھ سے تخیل کو چھین لیا تھا۔۔۔ ا س کی تصویر ادھوری رہ گئی کیوں کہ یہ صفحہ قرطاس پر منتقل نہ ہو سکی تھی۔۔۔ سرو کا درخت۔۔۔ پھولوں کا کنج۔۔۔ بہارکی نیلاہٹ۔۔ اور وہ لڑکی جوسرو کے نیچے کھڑی تھی۔ تاریخ کے صفحوں سے گم ہو گئی لیکن وہ کون تھی؟
تزک کا وہ صفحہ تاریخ کے دھندلکوں میں کیوں کھو گیا جس پراس لڑکی کی ادھوری تصویر کا ہیولی ابھرا تھا۔۔۔ ادھوری تصویر۔۔۔ وہ اسے شراب کے پیالے میں ڈھونڈتا رہا۔۔۔ اور تاریخ نے لکھا، ’’یہ من گھڑت ہے کیوں کہ اس کا تزک میں ذکر نہیں، حالانکہ تزک کا مصنف بڑابے باک جزئیات نگار تھا۔‘‘
تاریخ بڑی بےرحم ہے۔ تاریخ بڑی مہربان ہے۔ تاریخ نے اس لمحے کو آزاد کر دیا۔۔۔ ہندوستان کے بادشاہ نے ایک پیالہ شراب اور دو کباب کے لیے سلطنت ہند کو اس کے ہاتھ بیچ دیاتھا۔۔۔ اور اس کی تکمیل ہو گئی تھی۔۔۔ وہ جو مصور تھا کیا اس کی تصویر مکمل ہو گئی۔۔۔؟ نہیں۔۔۔ وہ لمحہ تو تاریخ کے انقلاب میں کھو گیا تھا۔۔۔ دنوں اور مہینوں سالوں اور صدیوں کی چکی میں پس کر رہ گیا تھا۔۔۔ کوئی تصویر مکمل نہیں ہوتی۔ وہ مصور جو تصویر کی تکمیل کا دعوی کرتے ہیں مصور نہیں ہوتے۔۔۔ عکاس ہوتے ہیں اور وہ مصور تھا۔۔۔ میں مصور ہوں۔ اس نے مہرالنسا کو کھوکر نورجہاں کو پالیا تھا۔۔۔ پر نورجہاں مہرالنسا نہ تھی۔۔۔
یہ نغمی تھی یامہرالنسا جو زندگی کے نازک موڑ پر کھڑی تھی؟
یہ نورجہاں تھی جس نے تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا۔ حسن شاہانہ کی علامت۔۔۔ اس کے سرپر تاج تھا۔ یہ ہیلن تھی۔ یہ قلو پطرہ تھی۔ یہ لیلی نہیں تھی۔ یہ مہرالنسا نہیں تھی۔۔۔ یہ کون تھی؟
میں کیا جانوں۔ میں تولمحے کا زندانی ہوں۔ ابھی میں نے کسی مہرالنسا کوبھی نہیں دیکھا۔ میری تاریخ میری تکمیل کیا کرےگی؟ میں بھی اپنی تزک کے کسی خالی صفحے میں کھو جاؤں گا۔۔۔
’’میں ایک خواب میں کھو گیا تھا نغمی!‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں سرگوشی کی۔
نغمی مسکرائی۔ اس کی آنکھوں کا ابرپارہ فضا میں تحلیل ہو گیا۔
’’نہیں۔۔۔ وہ کون ہے؟‘‘ سلیم نے چونک کر پوچھا۔
’’پھول تمہارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے تمہیں اس کی تلاش تھی۔‘‘ نغمی نے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ میری تکمیل نہیں ہو سکی۔‘‘ سلیم کی آواز میں مایوسی تھی۔
’’لیکن وہ کون تھی سلیم؟‘‘
’’کون؟‘‘
’’ابھی ابھی میں نے اسے تمہاری آنکھوں میں دیکھا تھا۔ باغ جہانگیر کی رو ش روش آباد تھی۔ وہ ایک سرو کے نیچے کھڑی تھی۔ وہ کون تھا جس کے وجود میں جیحوں سیحوں اور گنگا جمنا کا ملاپ ہو گیا تھا وہ جو اسے دیکھ رہا تھا اور ایک تصویر کا ہیولے اس کے تخیل میں ابھر رہا تھا۔‘‘
’’وہ بھی میری طرح۔۔۔ اس کی ادھوری تصویر بھی مکمل نہ ہو سکی تھی۔ تزک کا وہ صفحہ تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گیا تھا اور وہ مہرالنسا نہ تھی۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ وہ مہرالنسا نہیں تھی۔۔۔ وہ نادرہ تھی۔۔۔ وہ انارکلی تھی۔۔۔ سلیم نے انارکلی کو مہرالنسا کے روپ میں دیکھا۔ سلیم انارکلی سے محروم ہو گیا کیوں کہ جہانگیر کو نورجہاں مل گئی تھی۔‘‘
’’نغمی!‘‘ سلیم نے حیران ہوکر کہا، ’’تم اس وقت کہاں تھیں؟‘‘
’’مہابلی میرا رقص دیکھ رہے تھے اور میں ایک ترکِ غمزہ زن کے خیال میں غرق تھی اور وقت کے دھارے تھم گئے تھے کیوں کہ وہ میرے مقابل بیٹھا ہوا تھا اور ہندوستان کی تاریخ اس لمحے کوفنا کی نیند سلانے کے لیے پر تول رہی تھی۔‘‘
’’نغمی!‘‘
’’میں مہرالنسا نہیں۔ میں نورجہا ں نہیں۔ میں انارکلی ہوں۔ میں وقت کے تخت پر نہیں بیٹھتی۔ میں تو ایک لمحے کو جنم دیتی ہوں اور خو دوقت کی دیواروں میں چن دی جاتی ہوں۔‘‘ نغمی کی آواز درد میں ڈوب گئی۔
’’میں نے اس لمحے کو بھی کھو دیا۔ اب میری تصویر کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ وہ زنجیر نہیں ٹوٹ سکی۔ میں سمندر کا نغمہ نہ سن سکا۔ گھونگے کی لرزش سراب تھی۔ وقت کا سراب۔‘‘
اور پھر وہ فوارے کے پاس کھڑے تھے۔
مینار دھوپ میں شرمائے کھڑے تھے۔ وقت کے قیدی۔ ترک شہزادے جو انارکلیوں سے آنکھیں چارنہ کر سکتے تھے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.