وہ جو دیوار کو نہ چاٹ سکے
کہانی کی کہانی
یاجو ج ماجوج کے واقعہ کو بنیاد بنا کر انسانوں کی لالچ، عیاری اور مکاری کو بے نقاب کیا گیا ہے، یاجوج اور ماجوج روز دیوار چاٹتے ہیں، یہاں تک کہ وہ دیوار صرف ایک انڈے کے برابر رہ جاتی ہے۔ یہ سوچ کر کہ کل اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں گے، وہ سو جاتے ہیں سو کر اٹھتے ہیں تو پھر دیوار پہلے کی طرح سالم ملتی ہے۔ ابھی دیوار ختم بھی نہیں ہوتی ہے کہ اس کے بعد حاصل ہونے والے فائدے کے لالچ میں یاجوج اور ماجوج کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کی اولاد کو مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے اختلافات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی نسلوں کو ختم کر ڈالتے ہیں اور دیوار جوں کی توں کھڑی رہتی ہے۔
پھر یہی ہوا کہ یاجوج ماجوج رات بھر دیوار کو چاٹا کیے۔ یہاں تک کہ دیوار تحلیل ہوتے ہوتے انڈے کے چھلکے کی مانند ہو گئی اور پھر یاجوج ماجوج تھک گئے اور انہیں نیند آنے لگی اور وہ یہ کہہ کر سو گئے کہ باقی دیوار صبح کو چاٹیں گے۔ مگر جب وہ صبح کو اٹھے تو دیوار پھر اونچی اور موٹی ہو گئی تھی، یہ دیکھ کر وہ اپنی کوتاہی پر پچھتائے، اور انہوں نے پھر یہ عزم باندھا کہ آج تو ہم دیوار کو چاٹ کر ہی دم لیں گے۔
سو جب شام ہوئی تو پھر وہ اپنی لمبی لمبی زبانیں نکال کر دیوار کو چاٹنے لگے، چاٹتے رہے چاٹتے رہے، یہاں تک کہ رات کا کجرا پھیلنے لگا اور دیوار انڈے کے چھلکے کی مثال رہ گئی مگر یاجوج ماجوج اب تھک کر چور ہو گئے تھے اور زبان اینٹھنے لگی تھی اور پپوٹے نیند سے بوجھل ہورہے تھے۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ سدِ سکندری کو ہم نے واقعی چاٹ لیا ہے، دم بھر کے لیے سولیں۔ پھر تازہ دم ہوجائیں گے اور دو زبانیں پھیر کر اس کا ستھراؤ کر دیں گے، سو یاجوج نے ایک کان نیچے بچھایا اور دوسرا کان اوڑھ کر سوگیا، ماجوج نے بھی اپنا ایک کان نیچے بچھایا اور دوسرا کان اوڑھ کر سو گیا۔
یاجوج ماجوج صبح کو سو کر اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ دیوار تو پھر پہاڑ کی مثال ان کے سروں پر کھڑی ہے، یہ دیکھ کر وہ ایسے ڈھے گئے جیسے برسات میں کچی دیوار ڈھے جاتی ہے، ماجوج نے بہت دکھ کے ساتھ یاجوج سے کہا کہ، ’’اے یاجوج! کیا ہمارے عمل کا کوئی حاصل نہیں ہے۔‘‘ یاجوج ڈھئی آواز میں بولا کہ، ’’شاید ہماری تقدیر ہی یہ ہے کہ روز رات کو دیوار چاٹا کریں اور روز صبح کو کوہِ گراں کی طرح ہمارے سروں پر کھڑی ہو جایا کرے۔‘‘ اس پر ماجوج مایوس ہوکر بولا کہ، ’’اگر یہی بات ہے تو دیوار کو ہم چاٹا کیے تو کیا، اور نہ چاٹا تو کیا، پس قبل اس کے کہ وقت ہمیں چاٹ لے ہمیں چاہئے کہ دیوار کی طرف پشت کریں اور تھوڑا زندگی کو چکھیں۔‘‘
تب قوم یاجوج ماجوج کا وہ بوڑھا جواب اپنی عمر کے ہزارویں سال میں تھا، پہاڑ کی کھوہ سے نکل کر باہر آیا اور بولا کہ، ’’اے یاجوج ماجوج ہر شے کے ایک معنی ہیں۔ اور ہر ایک عمل کا ایک حاصل ہے، کوئی دیوار ایسی نہیں کہ سدا کھڑی رہے، ڈھینا دیوار کا اور چاٹنا زبان کا مقدر ہے اور میں نے تمہارے باپ یافؔث سے اور تمہارے باپ یافث نے اپنے باپ نوحٖؑ سے یہ سنا ہے کہ اولاد ان کی سدِ سکندری کو ایسے چاٹ لے گی جیسے دن رات کو چاٹ لیتا ہے۔ پھر وہ آزاد ہوکر کھلے میدانوں اور شاداب سبزہ زاروں میں پھیل جائے گی اور وہ زبانیں جو پتھر چاٹتی تھیں شیریں چشموں تک پہنچیں گی، پہلے قوم یاجوج ماجوج کا اگلا گروہ طبرستان کے ٹھنڈے میٹھے چشمے تک پہنچے گا اور وہ اتنا پیاسا ہوگا کہ چشمے کا سارا پانی پی جائے گا، جب پچھلا گروہ وہاں پہنچے گا تو خشک چشمے کو دیکھ کر کہے گا کہ شاید یہاں آگے کبھی پانی تھا۔
اپنی قوم کے بوڑھے کا یہ کلام سن کر یاجوج ماجوج نے جھر جھری لی اور اپنی لمبی لمبی زبانیں نکال کر پھر دیوار کو چاٹنے لگے۔ بوڑھا تو واپس پہاڑ کی کھوہ میں چلا گیا مگر اس کی بات ماجوج کے بیٹے نے سن لی تھی، اور اس نے اپنے پہاڑ میں جا کر آل ماجوج کو جمع کیا اور سوال کر ڈالا کہ، ’’اے آلِ ماجوج کیا تم سدِ سکندری کے ٹوٹ جانے پر بھی پیچھے رہ جانے والوں میں رہوگے۔‘‘ آلِ ماجوج نے پوچھا کہ، ’’تونے کیا دیکھا جو ایسا سوال زبان پر لایا۔‘‘
ماجوج کا بیٹا بولا کہ، ’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ آل یاجوج نے سر سبز پہاڑ پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہمارے حصّہ میں بنجر پہاڑ آیا ہے، وہ پیٹ بھر کر تل کھاتے ہیں جب کہ ہم پتھر چاٹ کر پیٹ پالتے ہیں، اب جبکہ سدِ سکندری ٹوٹنے کو ہے تو میں نے قوم کے بزرگ سے یہ سنا ہے کہ جو گروہ اس قیدِ سکندری سے پہلے نکلے گا وہ طبرستان کے شیریں چشمے پر پہنچے گا اور سیراب ہوگا، جو گروہ بعد میں نکلے گا وہ چشمے پر بعد میں پہنچے گا اور اسے خشک پائے گا تو اے ماجوج کے محروم بیٹو! کیا تم اس قید سے رہائی کے بعد بھی پیچھے رہ جانے والوں میں رہوگے۔‘‘ یہ کلام سن کر آلِ ماجوج نے تاؤ کھایا اور چیخ کر کہا کہ، ’’ اپنے باپ ماجوج کی اس لمبی زبان کی قسم سے، جو سدِ سکندری کو چاٹ کر پوست بیضہ بنا دیتی ہے، ہم پیچھے رہ جانے والوں میں نہیں رہیں گے اور تشنہ لبوں میں شمار نہیں ہوں گے۔‘‘
ادھر آلِ یاجوج کو بھی یہ خبر مل چکی تھی کہ سدِ سکندری اب ڈھینے والی ہے اور آل ماجوج سب سے پہلے نکل کر طبرستان کے چشمے سے سیراب ہونے کے لیے کمر باندھ رہی ہے، آل یاجوج نے یہ سوچ کر غصّہ کیا کہ ماجوج کی آل نے ابھی سے چشموں پر قبضہ کرنے اور سبزہ زاروں پر چھا جانے کے خواب دیکھنے شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے غصّہ کیا اور اعلان کیا کہ ہم ان میں سے نہیں ہوں گے جو پیچھے رہ جاتے ہیں اور سوکھے چشمے سے کنکر چنتے ہیں، سوابھی رات باقی تھی، وہ اپنے پہاڑ سے نکلے اور دیوار کی سمت چلے مگر ادھر ماجوج کے بیٹے پوتے بھی اپنے پہاڑ سے نکل پڑے تھے اور آل یاجوج سے پہلے دیوار تک پہنچ جانا چاہتے تھے۔
رات کے اندھیرے میں یاجوج کے بیٹوں نے ماجوج کے بیٹوں کا رستہ کاٹا اور ماجوج کے بیٹوں نے لپک کر یاجوج کے بیٹوں کو جا لیا، تب یاجوج کے بیٹے ماجوج کے بیٹوں سے الجھے اور ماجوج کے بیٹوں نے یاجوج کے بیٹوں کو للکارا، وہ آپس میں لڑتے مرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور انہوں نے دیکھا کہ یاجوج ماجوج سوئے پڑے ہیں اور سدِ سکندری پھر اونچی اور موٹی ہوگئی ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنی اپنی راہ لی اور واپس اپنے پہاڑوں میں چلے گئے۔
جب پہاڑوں سا دن کٹ گیا اور رات نے ڈیرہ کیا تب یاجوج ماجوج نے پھر اپنی زبانیں تیز کیں اور دیوار چاٹنی شروع کر دی، اور ابھی رات باقی تھی کہ دیوار کے ڈھے جانے کی امید لے کر اور شیریں چشمے سے سیرابی کا تصوّر باندھ کر آل یاجوج اپنے پہاڑ سے نکلی اور آلِ ماجوج اپنے پہاڑ سے برآمد ہوئی۔ انہوں نے پھر ایک دوسرے کا رستہ کاٹا اور آپس میں دست و گریباں ہوئے۔ یاجوج ماجوج کے بیٹے رات بھر آپس میں لڑا مرا کیے اور خونم خون ہوگئے۔ جب تڑکا ہوا تو انہوں نے یہ دیکھا کہ یاجوج ماجوج سوگئے ہیں اور دیوار پھر پہاڑ کی طرح بلند اور سنگین ہوگئی ہے، یہ دیکھ کر وہ بیزار ہوئے۔ انہوں نے اپنا اپنا رستہ پکڑا اور واپس اپنے اپنے پہاڑوں کو ہو لیے۔
دن بھر کسی نہ کسی طور کٹ گیا اور رات پھر آگئی مگر آج آلِ یاجوج یہ تہیہ کرکے نکلی تھی کہ روز روز کا خر خشہ ختم کرو اور رستے کا کاٹنا نکال پھینکو تو انہوں نے بے خبری میں آلِ ماجوج کو جا لیا اور ان کے پہاڑ سے نکلنے سے پہلے ان پر ہلہ بول دیا۔ انہوں نے ان کے گھروں کو لوٹا، جوانوں کو قتل کیا اور عورتوں کو بے عزّت کیا، یہ قیامت دیکھ کرماجوج کی بیٹی اپنے خیمے سے نکلی اور یاجوج کے بیٹوں سے مخاطب ہوئی کہ، ’’اے میرے دادا کے بیٹے کے بیٹو، کیا تم ہم میں سے نہیں ہو اور ہم تم میں سے نہیں ہیں کہ تم ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہو؟‘‘ یاجوج کے بیٹے نے یہ سن کر تاؤ کھایا اور کہا، ’’اے ماجوج کی بیٹی ہم تم میں سے کیونکر ہو سکتے ہیں اور تم ہم میں سے کیسے ہو جب کہ ہم یاجوج کی اولاد ہیں اور اپنے پہاڑ میں رہتے ہیں اور تم ماجوج کی اولاد ہو اور اپنے پہاڑ میں آباد ہو۔‘‘
ماجوج کی بیٹی یہ سن کر چلائی اور بولی کہ، ’’اے میرے دادا کے بیٹے کے بیٹے، کیا تو اس سے انکار کرے گا کہ یاجوج ماجوج ایک باپ سے پیدا ہوئے اور ایک ماں کی گود میں پلے۔ یاجوج کا بیٹا قطعی انداز میں بولا کہ، ’’اے ماجوج کی بیٹی، میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتا کہ ہم یاجوج کے بیٹے قوم یاجوج ہیں اور اپنے پہاڑ سے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘ ماجوج کے بیٹوں نے یہ سن کر بہن کو پیچھے دھکیلا اور اونچی آواز میں کہا کہ، ’’ہم ماجوج کے بیٹے قوم ماجوج ہیں اور اپنے پہاڑ سے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘ اور پھر آلِ یاجوج نے آلِ ماجوج پر اور آلِ ماجوج نے آل یاجوج پر ہلہ بول دیا۔ یاجوج کی اولاد نے ماجوج کی اولاد کے خون میں اور ماجوج کی اولاد نے یاجوج کی اولاد کے خون میں ہاتھ رنگے۔
صبح ہونے پر ماجوج کی بیٹیوں نے جسموں پر ٹاٹ باندھے، بال پریشان کیے اور برہنہ پا نالہ کناں ماجوج کے پاس پہنچیں اور چلائیں کہ، ’’اے ہمارے باپ، تو گریہ کر کہ تیرے بھائی کے بیٹوں کے ہاتھوں ہمارے گھر برباد ہوئے، ہمارے سہاگ اجڑے اور ہمارے ماں جایوں کے خون سے ہماری زمین لالہ زار ہوگئی۔‘‘ ماجوج نے اپنی آل کا یہ حال دیکھا اور یاجوج کے پاس جاکر بولا کہ، ’’اے یاجوج تیرے بیٹوں نے میرے بیٹوں کو تہِ تیغ کیا اور میری بیٹیوں کو رسوا کیا۔ یاجوج یہ سن کر لال پیلا ہوااور بولا کہ، ’’اے ماجوج، تیرے فرزندان میں سے ہیں جو شیریں چشموں سے خود سیراب ہونا چاہتے ہیں اور دوسروں کو پیاسا رکھنے کے درپے ہیں۔‘‘ یاجوج ماجوج میں تکرار ہونے لگی اور بات بڑھتی ہی چلی گئی، یاجوج نے طیش کھایا اور کہا کہ، ’’جو زبان سدِ سکندری کو چاٹ کر انڈے کے چھلکے کی مثال بنا دیتی ہے وہ ماجوج کو بھی چاٹ سکتی ہے۔‘‘ ماجوج پھنپھنایا اور بولا کہ، ’’ماجوج کی زبان چاٹنے میں یاجوج کی زبان سے زیادہ تیز ہے۔‘‘
بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ شام ہونے پر یاجوج ماجوج نے اپنی اپنی زبانیں نکالیں اور سدِ سکندری کو چاٹنے کی بجائے عالمِ غیظ میں ایک دوسرے کو چاٹنے لگے۔ وہ رات بھر ایک دوسرے کو چاٹتے رہے حتیٰ کہ یاجوج ماجوج کے چاٹنے سے اور ماجوج یاجوج کے چاٹنے سے انڈے کی مثال رہ گیا، یاجوج نے دل میں سوچا کہ اب ماجوج میں رہ ہی کیا گیا ہے، اب سوئے جاتا ہوں، صبح اٹھ کر ایک زبان ماروں گا اور ماجوج کو چاٹ جاؤں گا، سو وہ۔۔۔ اپنا ایک کان بچھا اور دوسرا کان اوڑھ سوگیا۔ ماجوج نے بھی دل میں یہی کہا کہ یاجوج کے نام کا تو اب ایک چھلکا رہ گیا ہے تھوڑا آرام کرلوں، صبح اٹھ کر ایک زبان پھیروں گا اور اسے صفا چٹ کر جاؤں گا سو وہ بھی ایک کان نیچے بچھا دوسرا کان اوپر سے لے پڑ رہا۔
جب یاجوج ماجوج سوکر اٹھے تو یاجوج نے ماجوج کو اور ماجوج نے یاجوج کو تازہ دم پایا اور حیران ہوئے، پھر یاجوج کے پاس آلِ یاجوج اور ماجوج کے پاس آلِ ماجوج نالہ و شیون کرتی پہنچی کہ رات پھر آلِ یاجوج نے آلِ ماجوج کا اور آلِ ماجوج نے آلِ یاجوج کا خون بہایا تھا، تب پھر یاجوج نے ماجوج پر دانت کچکچائے اور کہا کہ میں تجھے اور تیری آل کو یوں چاٹوں گا جیسے سدِ سکندری کو چاٹتا ہوں۔ اور ماجوج نے یاجوج پر زبان تیز کی اور چلاّیا کہ میں سدِ سکندری کو بعد میں اور تجھے اور تیری آل کو پہلے چاٹوں گا اور شام پڑے سے وہ پھر ایک دوسرے کو چاٹنے لگے اور چاٹتے ہی چلے گئے حتیٰ کہ دونوں انڈے کے چھلکے کی مثال رہ گئے۔ مگر اب ان کی زبانیں اینٹھ چکی تھیں اور آنکھوں میں نیند بھری ہوئی تھی، یاجوج نے طے کیا کہ ماجوج بوند برابر تو باقی رہ گیا ہے، اتنا صبح کو چاٹ لو ں گا، سو وہ اپنا ایک کان نیچے ڈال دوسرا کان اوپر تان سو گیا۔ ماجوج نے بھی سوچا کہ باقی ماندہ یاجوج کو صبح چاٹ کر ختم کروں گا۔ وہ بھی ایک کان کو گدّا بنا کر دوسرے کان کو لحاف کی طرح اوڑھ کر سو گیا۔
صبح جب یاجوج کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے کان کے اندر سے جھانک کر ماجوج کو دیکھا اور اسے تازہ دم دیکھ کر متحیر ہوا، پوچھا کہ، ’’اے ماجوج کیا میں نے تجھے چاٹ نہیں لیا تھا؟‘‘ ماجوج خود اسے تندرست دیکھ کر متعجب تھا۔ پوچھنے لگا، ’’مگر اے ماجوج میں نے تجھے کیا چاٹ نہیں لیا تھا؟‘‘ اور پھر دونوں کی آل خونم خون اپنے اپنے بزرگ کے پاس پہنچی اور فریادی ہوئی۔ یاجوج ماجوج اپنی اپنی اولاد کی فریاد سن کر پھر ایک دوسرے پر غرّائے پھر ان کی لمبی لمبی زبانیں ان کے منہ سے یوں باہر نکلیں جیسے بانبی سے سانپ نکلتے ہیں۔ یاجوج ماجوج ایک دوسرے کی طرف زبان لہراتے تھے کہ بوڑھا دانشمند پھر اپنی کھوہ سے باہر نکل آیا، یاجوج ماجوج کو دیکھ کر اس نے افسوس کیا اور کہا کہ، ’’اے یاجوج ماجوج، تمہارا برا ہو کہ تم سدِ سکندری کو تو نہ چاٹ سکے مگر ایک دوسرے کو سچ مچ چاٹے لے رہے ہو۔‘‘
تب یاجوج نے اپنی آل کا حال سنایا اور ماجوج نے اپنی آل کا ماتم کیا، دونوں نے بوڑھے سے انصاف چاہا، بوڑھا دانشمند دونوں کی بات سن کر بولا کہ، ’’میں ہابیل اور قابیل کے درمیان تو فیصلہ کر سکتا تھا کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم ہے کہ ان میں سے ایک قاتل تھا اور دوسرا مقتول تھا مگر یاجوج کے باب میں کیسے فیصلہ کروں کہ میں یاجوج کی زبان کو ماجوج کے خون سے اور ماجوج کی زبان کو یاجوج کے خون سے لال دیکھتا ہوں۔‘‘
یاجوج نے کہا کہ، ’’اے بزرگ کیا تو چاہتا ہے کہ آلِ ماجوج طبرستان کے چشمے سے سیراب ہو، اور میری آل سوکھے چشمے کے کنکر پتھر چاٹے؟‘‘ ماجوج بولا کہ، ’’اے بزرگ، کیا تو یہ گوارا کرے گا کہ آل یاجوج طبرستان کا پورا چشمہ ڈکوس جائے اور میری آل تشنہ لب پھرے؟‘‘ بوڑھا بولا کہ، ’’طبرستان کا چشمہ کس نے دیکھا ہے، وہ تو سدِ سکندری کے اس طرف ہے، اس چشمہ سے وہ سیراب ہوگا جو پہلے پتھر چاٹے گا نہ کہ وہ جو لہو چاٹے گا۔‘‘
تب یاجوج نے اعلان کیا کہ میں پہلے ماجوج کو چاٹ لوں، پھر سکندر کے کھڑے کیے ہوئے پتھر چاٹوں گا، ماجوج گرجا کہ میں یاجوج کو اس کے آخری بچّے تک چاٹ لوں گا، پھر میں سدِ سکندری کو چاٹوں گا اور اپنی آل کو لے کر طبرستان کے چشمے تک پہنچوں گا۔‘‘ بوڑھے نے انہیں افسوس کے ساتھ دیکھا اور کہا کہ، ’’چاٹنا یاجوج ماجوج کی زبانوں کا مقدّر ہے، وہ سدِ سکندری کو نہیں چاٹیں گے تو اپنا لہو چاٹیں گے۔‘‘ اور یاجوج ماجوج اپنی لال لہو زبانوں کے ساتھ پھر آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔ بوڑھے دانشمند نے انہیں گتھم گتھا دیکھ کر بصد افسوس کہا کہ، ’’یافثؔ کی اولاد دو منہا سانپ بن گئی کہ خود ہی کو ڈس رہی ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ واپس اپنی کھوہ میں چلا گیا۔
یاجوج ماجوج اس اندھیاری رات میں ایک دوسرے کو جھنجھوڑتے رہے، چاٹتے رہے، انہوں نے ایک دوسرے کو چاٹا، اتنا چاٹا کہ وہ دیو ہیکل یاجوج ماجوج گھٹ کر انڈے کے چھلکے سے بھی کم رہ گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.