عالی جناب!
صدیوں پراناایک عظیم ادارہ ہے، یشپورم عوامی کتب خانہ۔ یہ ادارہ اب خستہ حالت میں ہے۔ موجودہ حالت اگرجاری رہی تواس کے تباہ ہونے میں زیادہ وقت نہ لگے گا۔ افسران اورعام لوگوں کی توجہ فوراً مبذول کرانے کے لیے میں یشپورم کتب خانہ کے بارے میں کچھ حقائق پیش کرتاہوں۔
میں اس کتب خانہ کا تاحیات رکن ہوں۔ یعنی وفات تک میں اس کا رکن رہوں گا۔ ایک دن میری وفات ہوجائے گی لیکن اس کتب خانہ کی موت کبھی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کوجاری رہناچاہئے۔ یشپورم عوامی کتب خانہ کے اوربھی کئی تاحیات رکن ہیں، دیگراراکین اورمجھ سے تعلق رکھنے والے اہم مسائل کومیں پہلے پیش کرتا ہوں۔
میرا ہی حال دیکھیے۔ اس کتب خانہ کازوال پذیرہونامجھ جیسے تاحیات رکن کوبہت بے قرارکیے دیتاہے کیونکہ اس کتب خانہ کا مستقبل میرے وجود کاسوال ہے۔ جب سے میں اس کاتاحیات رکن بناتب سے ہی میری زندگی کا اس کتب خانہ سے لافانی تعلق قائم ہوچکاہے۔ دل کھول کر کہوں تو کہہ نہیں سکتا کہ اس بات کا کیاثبوت ہے کہ اس کتب خانہ کے نہ ہونے پرمیں اوراس سے لافانی تعلق رکھنے والے، دیگر تاحیات اراکین کاوجود قائم بھی رہ پائے گا یانہیں۔ میری خواہش عرصہ دراز تک زندہ رہے گی۔ میں مرنہیں سکتا۔ کیا تم کو موت پسندہے، ہوسکتانہیں۔ ہم سب موت سے ڈرتے ہیں۔ میں تم لوگوں سے التماس کرتا ہوں کہ مہربانی کرکے تم لوگ اس پرذراغور کروکہ کتب خانہ کے تباہ ہونے پراس کے تاحیات اراکین کاکیاحال ہوجائے گا۔
یشپورم کتب خانہ کے عام قارئین سے میری ایک خاص التجا ہے۔ تمہاراکچھ نہیں بگڑے گا مگرتم ہمیں بھولنانہیں۔ تم کو کسی بھی مہینے اس کتب خانہ سے الگ ہوجانے کاحق ہے۔ تم کوحق ہے کہ اس کے بعدبھی جب چاہو رکن بن کر مددکرسکتے ہو۔ لیکن ہمیں ایساحق نہیں۔ ہماری زندگی یشپورم کتب خانہ کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہے۔ یشپورم کتب خانہ کا استحکام ہماری ضروری مانگ ہے، میں نے تاحیات اراکین کی ایک میٹنگ کچھ ہی دنوں پہلے بلائی ہے۔ میں چاہتاہوں کہ اس میٹنگ میں کتب خانہ سے تعلق نہ رکھنے والے عوام اورکتب خانہ کے معمولی اراکین مشاہدین کی صورت میں شامل ہوں۔ یشپورم کتب خانہ کے تاریک مستقبل نے ہمارے چہروں پر جو خوف، غم اورگھبراہٹ منقش کررکھا ہے، اگر تم انہیں دیکھو تو رحم کے طورپر ہی سہی مگراس کتب خانہ کوبربادہونے نہیں دو گے۔
تاحیات اراکین کی مجلس میں ایک کارکن نے خاص طورپرایک حقیقت کاانکشاف کیاہے جسے میں ایک نہایت اہم موضوع مانتاہوں یعنی اگرکتب خانہ ہمیشہ کے لیے قائم رہے تو اس کے ساتھ ہم جیسے تاحیات اراکین کاوجود بھی پائدار صورت میں قائم رہے گا۔ کیا یہ سچ نہیں۔۔۔ ہمارے کتب خانہ کے ایک فاضل کارکن نے ہی یہ رائے ظاہرکی تھی۔ اگرہم تاحیات اراکین دامے، درمے، سخنے کمربستہ ہوکر محنت کریں توشاید اس کتب خانہ کے ساتھ ہمارا بھی وجود قائم رہے گا۔ ہم ایسے باہمت امتحان کے لیے تیارہیں لیکن پہلاسوال توکتب خانہ کے وجودکوبنائے رکھنے کاہے۔
لیکن مہربانی کرکے تم ایسا نہ سمجھوکہ میں اوراس کتب خانہ کے دیگرسبھی تاحیات اراکین خودغرض ہیں۔ تمہاری طرح ہم بھی وجود کے غیرمتعین ہونے سے خوف زدہ انسان ہیں، فرق اتناہی ہے، ہم خاص طور پر اس سے بندھے رہتے ہیں۔ تم یقین کرو۔ جس طرح تم لوگوں کوزندہ رہنے، کھانے پینے اورامراض سے پاک رہنے کی خواہش ہے، ٹھیک ویسے ہی ہم لوگ کتب خانہ کے وجود کوقائم رکھنے کے آرزومند ہیں۔ بے وجود ہونے کا خوف کس کونہیں ہوتا۔ تم لوگ بھی اگرکسی ادارے کے تاحیات رکن بنے ہوتے توہمارے دل کے غم کو ٹھیک طورسے سمجھ پاتے۔ تم صرف زندگی کے تاحیات رکن ہو۔ تمہاری رکنیت کاآخری دن کہیں دورمستقبل کی تہہ میں چھپاپڑا ہے۔ تم یہ بات آسانیوں کے مطابق بھول بھی سکتے ہو۔
لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ ہم ایسے مریض ہیں جن کا طبیب موت کانسخہ لکھ چکا ہے۔ مریض کی زندگی کی طرح کتب خانہ کا زوال ہوتا جارہا ہے۔ اس کے مٹ جانے کے بعدہمارا کیاحال ہوگا۔ کچھ مریضوں کو کم از کم موت لازمی ہے۔ ہماری حالت اس کے برعکس غیرمتعین اوربہت زیادہ غور طلب ہے۔
یشپورم عوامی کتب خانے کا زوال کئی طریقوں سے ہوناشروع ہوگیاہے۔ شعبہ اجرا ہی کولے لو۔ یہ شعبہ ایک پاگل خانہ جیسالگتاہے۔ کتابوں کا انبارپڑاہے۔ الماریوں میں رکھی کتابوں میں کوئی ترتیب نہیں۔ حروف تہجی یا موضوع کی بات تودور، شکل یارنگ کے مطابق بھی یشپورم کتب خانہ کی کتابوں میں کوئی باہمی ربط نہیں۔ کتابوں کو ترتیب سے مخصوص جگہ رکھنا، اس کے لیے متعین چپراسی کے لاعلم دل کی سوجھ بوجھ پرمنحصر رہتاہے۔ میں نے کئی بار ایک ہی ناشر کے ذریعہ چھپی ہوئی دوکتابیں قریب قریب پڑی دیکھی ہیں۔ لیکن یہ صرف ایسے ہی اتفاق کی بات ہے جیسے کہ ہماری زندگی میں کبھی کبھی قسمت سے بے وقتی حادثات سرزد ہوجاتے ہیں۔
کسی ایک الماری میں ایک بار ’’بنجین‘‘کے پہلے اور پانچویں حصوں کوپاس پاس رکھے دیکھ کرمیرے دل کو جومسرت ہوئی تھی، وہ آج تک مجھے یادہے۔ ایک بارشیکسپیئر کے ڈرامے پاس پاس رکھے دیکھے تھے۔ اس بات کومیں آج بھی یادکرتاہوں کہ ایک نوجوان چپراسی نے ایک ہی شکل اورایک ہی رنگ کی کتابیں ایک ساتھ سجاکر رکھی تھیں۔ ان دنوں الماری ایک زندہ جاویدحسن سے چمک اٹھی لیکن جلد ہی آہستہ آہستہ اناڑی اراکین اور دوسرے چپراسیوں نے مل کر اس ترتیب کوتتربترکرڈالا۔ اس نوجوان چپراسی نے اس کوترتیب دینے کی کئی ناکام کوششیں کیں، لیکن وہ کوشش کبھی بھی ایک دودن سے زیادہ کامیابی کے ساتھ ٹکی نہیں۔ نہ معلوم کیوں وہ ایک دن اپنی نوکری سے استعفادے کرچلاگیا۔
شعبہ اجرا کی اس منظم روایت کے بارے میں ایک دوسرے ڈھنگ سے سوچنے والے لوگ بھی ہیں۔ ان کی نظر میں یشپورم کتب خانہ کی ہرایک الماری ایک دنیا ہے۔ باہری دنیاکے سبھی اختلافات سے پرے کاغذاورلکڑی کی دنیا۔ ہم اسے یشپورم کتب خانہ کی ایک بڑی خصوصیت یا اچھائی تسلیم کرسکتے ہیں۔ کسی اور کتب خانہ میں بھی ایسا عالمی نقطہ نظر تمہیں دیکھنے کونہیں ملے گا۔ اس الماری میں کسی ایک کتاب کی تلاش کرنے والا ایک آدمی تلاش کرتے کرتے کتنے ہی موضوع، فنون اورعلوم کے تعارف میں آتاہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ انتظام محققین میں کم از کم یہ علم پیدا کرنے میں تومعاون ہوتاہے کہ اپنے متعارف موضوع سے الگ کئی موضوعات کا ایک بحربے پایاں ہی وہاں لہریں لے رہا ہے۔
علم جغرافیہ والی الماری میں رکھی کتابیں مندرجہ ذیل اوربھی موضوعات سے متعلق ہیں، سوانح حیات، سفرنامہ، علم الحیوان، ادبی تنقید، حساب، فلسفہ، موسیقی، سماجی علوم، علم البحر، قصے، علم نباتات، طنزومزاح، اقتصادیات، علم الشباب، رقص، فوجی علوم، تاریخ، نجوم، آپ بیتی، مطالعہ آئین، کرکٹ، اندرجال، فتح حیات، طب، ڈرامہ، قدرتی علاج، نفسیات، سرکس، فن بندوق سازی، اکسرے سائنس وغیرہ۔
ان موضوعات کی کتابیں علم جغرافیہ کی الماری میں ایک ساتھ رکھی گئی ہیں مگراس الماری میں علم جغرافیہ کی ایک بھی کتاب نہیں ہے۔
میں یہ بات تسلیم کرنے میں جھجکتا نہیں ہوں کہ مندرجہ بالانقطہ نظرسے دیکھنے پر اس الجھن کے باوجود کچھ فائدے بھی دکھائی دیتے ہیں، یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہرایک آدمی کے پاس کتب خانے کے لیے وقت ہی کتناہے۔ ایک کتاب کی تلاش میں اس سے تعلق نہ رکھنے والی ہزاروں کتابوں اورموضوعات کے درمیان سے ہوکر چکرکاٹنے میں وقت برباد کرنا سنگ دلی ہے نا؟ہم توچاہیں گے کہ جلدہی ہمیں وہ کتاب مل جائے جس کی ہمیں تلاش ہے تاکہ ہمار ا قیمتی وقت برباد نہ ہو۔ بے کار کی تلاش میں جتناوقت برباد ہوتاہے اس کی ہمارے لیے بہت اہمیت ہے۔ الماری کے دیگرسبھی موضوعات ہمیں دنیا بھرکاعلم دیتے ہیں اس سے ہمیں کیا لینا۔ اتناتلاش کرنے کے بعد بھی اگرہمیں وہ کتاب نہ ملے جس کی ہمیں تلاش ہے اوراس تلاش میں ہی کتب خانہ کے بند ہونے کا وقت ہوجائے توہمیں محض بے کارکی کتاب دیکھنے سے کیافائدہ؟
حقیقت میں کئی اراکین نے اب اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرناچھوڑدی ہیں۔ وہ الماری کے درمیان سے ہوکر دونوں طرف نگاہ ڈالتے ہوئے اس امید سے گھومتے ہیں کہ اتفاق سے کچھ نہ کچھ نتیجہ حاصل ہوجائے گا۔ لیکن اس نتیجہ کے حاصل ہونے کااب زیادہ یقین نہیں ہے۔ ہمارا قیمتی وقت اس طرح کی فضول اوربے نتیجہ کھوج میں بربادکرنا یشپورم کتب خانہ کی بربادی کی علامت ہے۔ تلاش وجستجوتوضروری ہے لیکن تحقیق کرنے والوں کی امداد کرنے کے بہانے فہرست موضوعا ت ہی اگرغلط نکلے تو تحقیق کرنے والوں کاکیا حال ہوگا۔
یہ بھی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ یہ کتب خانہ ہم سے کئی کتابوں کوچھپاکررکھتاہے۔ یہ بھی ایک تسلی ہے کہ الماری کی کتابوں کے کھلے ڈھیرکے درمیان سے بھولے بھٹکے ہماری تحقیق کا نتیجہ کسی نہ کسی دن ضرورملے گا۔ اس کی توقع ہی ہمیں زندہ رکھنے کی امید دلاتی ہے۔ لیکن یشپورم کتب خانہ میں اب ایسی امید کی گنجائش نہیں، کیونکہ کسی کے علم کے بغیرہی الماری سے باہر جانے کے بعدکتابیں پھرواپس ہی نہیں آتیں۔ دوسری ہزاروں کتابیں بھی الماری تک نہیں پہنچتیں۔ پرانے نایاب ذخیرے بھی اکثرغائب ہوجاتے ہیں۔ نئی کتابیں الماری میں پہنچتی ہی نہیں۔ اس کتب خانہ کی بربادی اس طرح دوصورتوں میں ہورہی ہے۔ جوکتابیں موجود ہیں وہ غائب ہوجاتی ہیں اور نئی کتابیں آتی ہی نہیں۔
اس طرح کتب خانہ کے رکن دہرانقصان برداشت کرتے ہیں۔ زمانہ ماضی کی محفوظ اورموجودہ دورکی نئی تخلیقات دونوں ایک ہی وقت میں برباد ہورہی ہیں۔ اگرمستقبل میں بھی ایسا ہی ہوتارہا تو رکن بنے رہنے سے کیافائدہ؟ زیادہ تر اراکین نے اسی وجہ سے اپنی رکنیت جاری نہیں رکھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ اس غیرمتعین موجودہ حالت میں ایسا کرنے کے لیے آزادہیں۔ لیکن ہم تاحیات اراکین کاکیا حال ہے؟وقت کے اس ٹیڑھے میڑھے پہیے سے ہم توبندھے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اسے سیدھا اور ٹھیک کرنے میں عاجز ہیں توہم پاگل ہوجائیں گے۔ اس کی ترقی رک جائے گی توکیا ہوگا؟
عالی جناب! یہ صرف ہنسی مذاق نہیں ہے۔ میرے علم میں ہے کہ نایاب کتابیں کس طرح انتخاب کی جاتی ہیں۔ کوئی رکن کتاب پڑھ کر واپس لاتاہے تواسی لمحہ کاؤنٹرکے نیچے انبار میں کتاب پھینک دی جاتی ہے۔ کئی دنوں کے بعدوہ انبار ایک بہت بڑے مینار کے ایک حصے کی شکل اختیارکرلیتاہے۔ آخرمیں جب کاؤنٹر کے نیچے سے کئی میناریں سراٹھاتی ہیں جنہیں چھوتے ہی وہ گرپڑتی ہیں۔ جب یہ مینار ایک ڈھیر کی شکل اختیارکرلیتے ہیں تب انہیں کھول کرگٹھریاں بناکردفترکے اندربڑے کمرے میں رکھ دیاجاتاہے۔ اس کے پیچھے رجحان یہ ہے کہ جگہ تبدیلی عارضی ہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس جگہ کی تبدیلی کا اصول صرف یہی ہے کہ ان کوآسانی کے مطابق کئی حصوں میں بانٹ کرکے پھرالماری میں رکھا جائے۔
لیکن برسوں یہ عمل روبہ عمل نہیں ہوتا۔ اگرکوئی پوچھے کہ واپس آئے ہوئے ان صحیفوں کوپھراس کمرے میں لے جانے کا اصول کیاہے تواصول کسی کومعلوم نہیں ہوگا۔ لے جانے کامسئلہ جاری رہتاہے۔ وہ صحیفے کئی برسوں سے اس کمرے کے فرش پرجمع کیے گئے ہیں۔ ان بڑے انباروں نے یکے بعددیگرے مینارکی صورت میں فرش سے چھت تک کی اونچائی میں کمرے کو پوری طرح قبضے میں کررکھا ہے۔ کمرے میں داخل ہونے کے لیے اب کوئی جگہ نہیں۔ دروازہ آدھا کھولاجاسکتاہے۔ اس لیے اس کاذمہ دارچپراسی کتابوں کوپہلے دروازے کے باہرلاکررکھتاہے۔ اس کے بعدایک ایک کرکے ادھ کھلے دروازے سے ہاتھ بڑھاکر دونوں طرف اوراوپر کی طرف پھینکتا ہے پھروہ ہمیشہ کے لیے غائب ہی ہوجاتی ہیں۔
جلدہی اس کمرے کا دروازہ ذرابھی کھلنابند ہوجائے گا۔ شایداس لیے پاس والے کوکارڈ انڈکس سے خالی اسٹینڈ سے بھرے کمرے کوخالی کیاجارہاہے۔ ہم تاحیات اراکین فکر سے اس بات کااندازہ لگائیں کہ کتب خانہ کی ساری کتابیں اس کمرے میں اس طرح غائب ہونے میں کتنے سال لگیں گے۔ ایک دن اس دوسرے کمرے کا بھی دروازہ کھلنا مشکل ہوجائے گا اورہمیشہ کے لیے بندبھی ہوجائے گا۔ پھربھی ہمارے دل میں کئی آرزوئیں پنپتی ہیں۔
کتب خانہ کا شعبہ حوالہ جات اوراس کے اندرکی تاریک کوٹھری ہماری اہم امیدکامرکز ہے۔ ذرا سوچئے کہ کتب خانہ کے عملہ کے ملازمین کتب خانہ سے کتابوں کے پور ی طرح غائب ہونے کے بعدبھی کیاوہ ملازمین سرکار کے تنخواہ رجسٹر سے اس کتب خانہ کا نام کٹ جانے دیں گے۔ مجھے ایسا ہوتا نظرنہیں آتا کیونکہ پرانے ملازمین کی چھٹی (رخصت) حاصل کرنے اورپنشن لینے پرملازمین ان خالی الماریوں کی نگرانی کے لیے مقررہورہے ہیں، میں سمجھتا تھا کہ اچھاہی ہواکہ سرکار نے اس ادارہ کی ذمہ داری لے لی ہے۔ مگرہمارے خیال اورتوقعات ان کتابوں پرمرکوز ہیں جنہیں غیرذمہ دارواپس دینابھول کریاجان بوجھ کر واپس نہیں کرتے۔ جب تک ان کتابوں کے لوٹ آنے کی توقع ہے تب تک اس کتب خانہ کے وجود کی بھی امید ہے۔ یہی ہماری دلیل ہے اوریہی امید ہے۔ اس کاکون فیصلہ کرسکاہے؟ہمیں معلوم نہیں ہم صبر کرکے محض امیدہی کرتے ہیں۔
اس مجلس میں ہم میں سے کچھ انقلاب پسنددانشوروں نے ایک بات کہی تھی۔ ان کی رائے تھی کہ کتاب کی الماری کے خالی ہونے میں زیادہ دیرنہیں لگے گی۔ اس بات کاپتہ لگتے ہی تاحیات اراکین کوکسی نہ کسی طرح کتابیں اپنے گھرلے جانی چاہئیں۔ کتب خانہ کے وجود کومٹنے سے بچانے کے لیے ایک تدبیرکی شکل میں ان لوگوں نے ایسا حکم دیاتھا۔ انہوں نے یہ بات بھی پیش کی کہ کتابیں نہ لوٹانے والے لوگوں کی غیریقینی امید کی بہ نسبت ہمارااپنافیصلہ ہی اچھاہے لیکن مجھ سمیت دیگر اراکین نے بتایاکہ یہ ایک غیراصولی کام ہوگا۔ لیکن ضمیر کی اب بھی یہی پکارہے کہ کیاوجود کے سوال کے آگے اصولی اورغیراصولی جیسی کوئی بات ہوتی ہے؟ اس کتب خانہ میں اب بہت ہی کم کتابیں ہیں۔ عالی جناب! پہلے آدمی کوزندہ رہناہے۔ بعدمیں مذہب اور لامذہب کی باتیں اٹھانی ہیں۔
میں یہ بھی بتاناچاہتاہوں کہ نئی کتابوں کی کیا بری حالت ہے۔ بھورے رنگ کے کاغذ سے ڈھکی گٹھریاں کھولی ہی نہیں جاتیں۔ ہرسال فرش کی سطح کے نیچے کے ریفرینس شعبہ کے پاس والے کمرے میں ان کاانبارہوجاتاہے۔ میں ایک پرانا آدمی ہوں۔ عصری فکر اور تصنیف کے طریقوں سے میں بالکل ناواقف ہوں پھربھی ایک بار میں نے تاریکی میں گھس کر اس میں سے ایک دوگٹھریوں کوکھول کراپنی کنجیوں کے ساتھ لگی پین ٹارچ کی مدد سے ان پرنگاہ ڈالی تھی۔ اتنی زیادہ نئی تخلیقات نئے قوانین نظریات جذبہ اورحسن خواہ یہ کتنے ہی غیرمتعارف کیوں نہ ہوں، کوایک تاریک کمرہ میں پڑے دیکھ کر میں بہت متاسف ہوا۔ دوسری طرف اس منظر نے مجھے رازدارانہ طورپرشایدبہت ہی خودغرضی کادلاسابھی دیا۔ کیونکہ جب تک ان بغیرکھولی ہوئی کتابوں کی گٹھریاں پڑی رہیں گی، تب تک کتب خانہ کا مستقبل بھی ایک طرح سے روشن رہے گا۔ جب اوپرالماریوں کے خالی ہونے پرکتب خانہ میں تالابندی ہوگی تواسی لمحہ انہیں نیچے بلاکران کتابوں کی گٹھریوں کوفخرکے ساتھ دکھاؤں گاجوہم تاحیات اراکین کاایک محفوظ سرمایہ ہے۔
سچ کہوں ریفرینس کے شعبہ سے متعلق یہ کوٹھری ایک بڑاکمرہ ہے۔ اس کا نام ریفرینس شعبہ کادفتر ہے۔ لیکن سالوں سے اس میں آئی ہوئی کتابوں کی گٹھریاں اورتاریکی دونوں کی وجہ سے یہ ایک چھوٹی سی کوٹھری لگتی ہے۔ میں نے کئی بار اس کے سامنے کھڑے ہوکر سوچاہے کہ پچھلے کتنے ہی سالوں کی تازگی اس تاریک کمرے میں غبارآلود پڑی ہے۔ میرے دل میں اب کبھی کبھی یہ خیال بھی اٹھتاہے کہ تاریکی میں روپوش یہ تازگی کسی نہ کسی دن ہمارے وجودکی ہلکی شمع کوپھرروشن کرنے والی بنے گی۔ دروازے پرگھنٹوں کھڑے ہوکر اندرکی طرف دیکھنے سے ہی اندرکی تاریکی سے آنکھیں آشناہوسکیں گی۔ تب تاریکی کی سرحدمربع شکل کی کتابوں کی گٹھریوں کی دیوار اور ان کے اور دروازے کے درمیان تنگ جگہ پرایک میزکرسی اوراس پرایک آدمی دکھائی پڑے گا۔
یہی آدمی ریفرینس شعبہ کا کلرک ہے۔ مجھے اس دن کی یادآج بھی تازہ ہے جب کہ ایک بارمیں اکیلے یہاں سے سیکڑوں ستونوں کے درمیان سے گھومتے گھومتے پہلے پہل اس پوشیدہ کوٹھری کی طرف متوجہ ہوا اور اس تاریکی میں اس کے اندرکی طرف اپنی پین ٹارچ کی روشنی سے دیکھاتو میں ڈرکی وجہ سے کیسے تھرتھرکانپ اٹھاتھا۔ اس میز کے پیچھے کی کرسی پردور کی طرف تاکتے رہنے والے ایک غیرمتحرک مجسمہ کا انتظارمیری آنکھوں نے نہیں کیاتھا۔
میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرے پیچھے ان کبھی نہ کھولی گئی نئی کتابوں کے ڈھیر کے لیے ایک آدمی ریفرینس شعبہ کی شکل میں اس دھندھلی تاریکی میں پہرہ دیتاہوگا۔ مجھے ایسا کبھی محسوس نہ ہوا کہ اپنے سامنے کے دروازے سے دیکھنے والے سیکڑوں ستونوں سے یا ان کے درمیان کے خالی میز کرسیوں سے یاظاہر نہ ہونے والی الماریوں سے یا اپنے پیچھے کی تاریک کتابوں کے انباروں سے اس کاکوئی تعلق تھا لیکن مجھ جیسے تاحیات رکن کا فکروغم اس کودیکھ کرکچھ کم ہوا۔ مجھے ایسا محسوس ہواکہ وہ آدمی ہم تاحیات اراکین کی حفاظت کے لیے غیرمعمولی طاقت ہے۔
اس دھندلکے میں کبھی نہ باہرجانے والی حوالہ کی کتابوں اورتاریکی میں پڑے کتابوں کے انباروں کے بیش بہاسرمایہ کو ہمارے لیے محفوظ رکھنے والے ایک پہرہ دارکی شکل میں دکھائی دیا۔ میں اس سے بولاتک نہیں۔ جب کبھی مجھے اس سے بات کرنے کی خواہش ہوتی تھی تب مجھے یہ ڈرلگتاتھاکہ اگرمیں اس سے بات کرکے اس پراسرار کمرے کی خاموشی کوختم کردوں گا تونہ معلوم کیاہوگا۔ اتناہی نہیں مجھے یہ امید بھی نہیں تھی کہ وہ جواب میں کوئی لفظ بھی کہے گا۔ مجھے اسے دیکھے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہے۔ پہلے ہی کہہ چکاہوں کہ اس سے ملاقات کیساہنگامی حادثہ تھا۔ ریفرینس شعبہ کی حالت ایسی ہے جوحوالہ جات کا شعبہ کئی ستونوں سے گھراہواایک تہہ خانہ کاحصہ ہے، کے دونوں طرف ایک ایک باب اپنی دھندھلی روشنی سے اس کوٹھری کوروشن بناتے ہیں۔ اس دھندھلی روشنی میں ستونوں کے لمبے سایوں کے درمیان ادھرادھر رکھی الماریوں میں کبھی کبھی کسی ضخیم کتاب کا غیرواضح چہرہ دکھائی پڑتاہے۔
یہاں پانچ مہینے تک مسلسل ریفرینس کاکام کرنے والا ایک دوست ایک امراض چشم کے اسپتال میں چھ مہینوں تک علاج کے لیے پڑارہا۔ جب بھی وہ ایک آنکھ سے اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا۔ مسلسل پانچ مہینے یہاں آنے پربھی انہیں ابھی تک شعبہ تحقیق کے کلرک کاپتہ نہیں چلاہوگا۔ زیاد ہ ترلوگوں نے شعبہ تحقیق کوشاید ہی دیکھا ہو۔ اس طرف باہمت لوگوں میں سے چند نادرلوگوں کاہی آنا ہوتاتھا۔ میں کئی بارہمت کرکے ان ستونوں کے ٹھہرے وجود کے درمیان سے گزراہوں۔ میرے دھندلے سائے نے ان ستونوں کی خاموشی کوسینہ سے لگایااورمیرے پاؤں کی آہٹ ایک یقین کی طرح اس دھندھلی تاریکی میں اٹھی بھی ہے۔ میں نے ان الماریوں کی سیاہ شکلوں کوچھونے اور تحقیق کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
تحقیق سے معلوم ہواکہ ان میں زیادہ ترکتابیں فرہنگ ہیں۔ چھوٹی بڑی فرہنگیں اورایک ہیبت ناک علم الاجسام کی کتاب بھی تھی۔ دوسری کتاب ایک بہت بڑی مصور بائبل تھی۔ ان میں سے ایک توہیولارک ایلس کے سائیکلوجی بیسکس کے دونوں حصے تھے۔ ادھر ادھر کی کچھ کتابوں کابھی میں نے ایک باراپنی پین ٹارچ سے معائنہ کیاتھا۔ زیادہ تر کتابیں ڈراؤنی کی کہانیاں تھیں۔ مجھے خودمعلوم نہیں کہ ایک سنسان راستے سے تنہاجانے والے ایک آدمی کاچپ چاپ پیچھاکرتی ہوئی ایک ڈائن کی خوفناک تصویرکوایک کتاب میں دیکھ کرمیں کس طرح اس تاریکی میں کانپتا پیچھے مڑکردیکھتا ہوازینہ پرچڑھ کراوپرپہنچ گیاتھا۔
اس درمیان میں نے ایک اورکتاب بھی دیکھی۔ وہ جے کرشن مورتی کی کمنٹریزآن لونگ کادوسراحصہ تھی۔ ان دنوں مجھے اس کاپتہ بھی نہیں تھا کہ میرے علاوہ اس تہہ خانے کی تنہائی اورتاریکی کی آڑمیں ایک اورآدمی چھپارہتاہے۔ جوبھی ہوتاحیات اراکین کی شکل میں ہمارا اس ریفرینس شعبہ اور اس کے پہرہ دار کے لیے خوش اخلاق ہونافطری ہی ہے کیونکہ مندرجہ بالااطلاع کے مطابق کبھی برباد نہ ہونے اور بالائی کمرے کی طرف کبھی نہ جانے والی کتابیں یہاں موجود ہیں۔ مستقبل میں پھرکھولی جانے والی کتابوں کے انبار بھی یہیں محفوظ ہیں۔
مگرجناب من! آج میری امیداوربہت بڑی تمناپرسخت حملہ ہوگیاہے اس لیے میں جلدی سے یہ شکایت، یہ مؤدبانہ درخواست قلم بندکرتاہوں۔ میں اب اورانتظار سے معذور ہوں، مجھے ڈرہے کہ ریفرینس شعبہ کی بربادی بھی شروع ہوچکی ہے۔ میں آج سویرے ریفرینس شعبہ میں گیا۔ مجھے وہاں ایک طرح کی بدبوسی آئی۔ سبب معلوم کرتے کرتے میں نے پین ٹارچ کواس دفتر کی طرف کیا تودیکھا کہ ریفرینس شعبہ کے کلرک نے خودکشی کرلی ہے۔ واہ اوپرکی چھت سے لٹکاہوا ہے۔ اس کو اس طرح لٹکے کم از کم تین دن گذرچکے ہوں گے۔ جانتے ہو مستقبل میں اس کاکیا نتیجہ ہوگا۔ اب ریفرینس شعبہ کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے دوسرا کوئی آدمی تیار نہ ہوگا۔ اس کی کیا ضمانت کہ وہاں کی کتابیں بھی ایک ایک کرکے کوئی اڑانہ لے جائے گا، میں بدون تاخیراس کے تاحیات اراکین کی آئندہ کی کارروائیوں کے لیے ایک مخصوص میٹنگ بلاؤں گا، کیونکہ آئندہ کارروائیوں پرفوراً ہی غورکرناضروری ہوگیاہے۔ اس کاایک ہی پہلو عاجزانہ شکایت کی شکل میں آپ کے سامنے پیش کرتاہوں اے خدا! آئندہ کی خبرکس کو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.