Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ کیسی بے وفائی ہے

بلند اقبال

یہ کیسی بے وفائی ہے

بلند اقبال

MORE BYبلند اقبال

    ’اللہ مارے تمھارے ابا پرائی عورتوں کے بہت شوقین تھے، جہاں کوئی لال پیلی چھپن چھری دیکھی، چل پڑے پیچھے پیچھے، پھر نہ گھر کا پتہ نہ باہر کا، میں کہے دے رہی ہوں ذرا نظر دبا کر رکھیو، یہ مرد ذا ت بڑی بےوفا ہوئے ہے، شادی کے کچھ سال تو ہر کوئی دم دبا کہ چلے ہے پر جہاں دو چار لو نڈے لونڈیاں ہوئے وہی آس پاس کی عورتوں کو دیکھ کہ دم کھڑی کر لی‘۔۔۔

    ادھر اماں جی تو جو منہ میں آئے بکے جا رہی تھیں پر عفت بی بی گھٹنوں گھٹنوں شرم سے پانی ہوئے جا رہی تھی ،وہ کبھی دوپٹہ سر پہ پھیلاتی تو کبھی سینے پہ کھینچ لیتی ،جب اور برداشت نہ ہو ا تو گھاگرا سنبھالا، کھڑاؤں میں پاؤں گھسایا اور گھسر گھسر کرتی ہوئی رسوئی میں جاکر لکڑی کے تختے پہ گھٹنوں کے بیچ سردے کر بیٹھ گئی، پر اماں جی بھی کب چپ ہو کر بیٹھنے والی تھیں۔۔۔

    ’اری نوج ماری شرما کیا رہی ہے، یہ بات دھیان میں رکھ لے و رنہ پھر بعد میں پچھتاوےگی‘۔۔۔

    ’اونہہ اماں جی بھی تو بس، اب جب بیاہ میں صرف چار دن ہی رہ گئے ہیں تو ایسے وقت یہ بک بک جھک جھک، جب دیکھو بس یہی راگ الاپے جا رہی ہیں، نہ جانے ابا نے اماں جی کو کیسے کیسے دھوکے دیے کہ انہیں ساری دنیا کے مرد بس ایک جیسے ہی لگے ہیں‘۔

    عفت نے بیزا رگی سے سوچا۔ اونہہ۔۔۔ اچانک ہی اسے اپنے ہونے والے میاں کا خیال آ گیا۔۔۔ ’میرے منان ایسے تھوڑی ہونگے جیسے ابا تھے۔ وہ اور مردوں کی طرح ہر طرف آنکھیں مٹکانے والے نہیں ہونگے۔ وہ تو صرف میرے ہونگے۔ صرف میرے، مجھ سے تھوڑی بےوفائی کریں گے، وہ تو مجھ سے سچا پیار کر یں گے‘ یہ خیال آتے ہی عفت کو لگا جیسے اس کے سارے بدن میں بجلیاں سی رینگنے لگی ہوں۔ اس نے جلدی سے دوپٹے کے پلو سے پیشانی اور گردن کا پسینہ صاف کیا اور سامنے چولہے پہ چڑھی دیگچی کے ڈھکن کو سرکا کر بھا پ کو نکلتے دیکھنے لگی۔

    اور پھر یہی ہوا، شادی کی رات منان نے جو اسے دیکھا تو عفت کو ایسا لگا کہ جیسے اس کے دہکتے حسن کو دیکھ ان کی سٹی ہی گم ہوگئی ہو، ایسے کانپتے ہاتھوں سے اسے ہاتھ لگایا جیسے وہ موم کی گڑیا ہو، ہاتھ لگے اور پگھل جائے۔ اماں جی کے پیدا کردہ سارے اندیشے بس ہوائی ثابت ہوئے۔ منان تو سر سے پاؤں تک سچے من سے اسے چاہتے تھے۔ کتنا بڑا تو کاروبار تھا، دن رات کا دفتری عورتوں میں اٹھنا بیٹھنا، مگر مجال ہے جو خاندانی رکھ رکھاؤ میں کوئی فرق آنے دیں، پوری متانت سے لوگوں سے ملتے، کبھی ضرورت سے زیادہ میل جول نہ بڑھاتے، ہر چیز کا وقت پہ دھیان رکھتے، خود عفت کا تو چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال کرتے، کپڑے لتے زیور بس زبان ہلنے کی دیرہوتی اورا نبار لگ جاتا۔ جو دھن برس رہا تھا وہ اس پر روپ بن کر چمکتا، بس دلہن ہی بنی رہتی، شادی کو دو سال ہو گئے مگر اولاد اب تک نہ ہوئی تھی پر مجال ہے جو منان شکا یت کا کوئی لفظ بھی زبان پہ لائے ہوں، پورے خاندانی وقار سے رہتے تھے، نہ تو کبھی پریشانی کا اظہار کرتے اور نہ ہی کبھی اپنے روزمرہ کے معمولات میں فرق آنے دیتے، وہ تو اس کو اب بھی ایسے ہی چھوتے تھے کہ جیسے وہ پہلے ہی دن کی دلہن ہو، ہاتھ لگے اور میلی ہو جائے۔ ان کے دن رات ویسے ہی تو تھے جو شادی سے پہلے تھے، صبح ہوتی اور دفتر چلے جاتے، شام پانچ بجتے ہی گھڑی کی چڑیا جو پانچ بار کو کو کرتی ٹھیک اسی وقت منان کی موٹر کی ہارن کی آواز پی پی کرتی گھر میں گھستی، شام کی چائے وہ بلاناغہ عفت کے ساتھ پیتے پھر ان کے بچپن کے دوست شرافت بھا ئی آ جاتے اور دونوں میں کیرم کی بازی لگ جاتی۔کبھی ان کے گھر اور کبھی منان بھائی کے گھر۔

    شرافت بھائی ہی تو منان کے اکلوتے دوست تھے، بچپن کا یارانہ تھا، دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ پڑوس میں ہی رہتے تھے، ماں باپ مر چکے تھے، منان ایک بار کہہ رہے تھے کبھی نوجوانی میں جو کسی نے دل توڑ دیا تو پھر شادی ہی نہیں کی۔ ان کے گھر دن رات کا آنا جانا تھا، خود عفت کی زبان شرافت بھائی شرافت بھائی کہتے نہ تھکتی تھی۔ شرافت بھائی بھی نام کی طرح بےانتہا شریف، منان کے بچپن کے دوست ہونے کے باوجود مجال ہے جو کبھی عفت سے نظر ملاکر بھی بات کی ہو۔ شکل پہ بھول پن برستا تھا، بس لے دےکر ایک ان کی گھنی مونچھیں تھیں جو ان کے چہرے پہ کچھ اجنبی اجنبی سی لگتی تھیں، جب بھی ہنستے تو کچھ عجیب طرح سے منہ کو سکیڑتے کہ لگتا جیسے ہونٹ خود مونچھ بن گئے ہو۔ عفت کو ان کو ہنستا دیکھ کر بڑی ہی الجھن ہوتی تھی۔

    اس رات بجلی کڑاکے سے گرج رہی تھی، منان دفتر سے آئے، عفت کے ساتھ چائے پی اور پھر شرافت بھائی کے گھر کیرم کی بازی جمانے چلے گئے۔ عفت کو نہ جانے کیوں صبح ہی سے عجیب عجیب سے ہول سے اٹھ رہے تھے، کئی بار سوچا آج منان کو گھر پہ ہی روک لیں، بچپن ہی سے اس کا بجلی کے کڑاکوں سے دل دہلنے لگتا تھا۔ دو سے جب تین گھنٹے ہو گئے تو چھاتا لیا اور شرافت بھائی کے گھر کے لیے نکل کھڑی ہوئی، گیٹ بجانے سے پہلے ہی کیا دیکھتی ہے کہ محلے کے دو چار بچے ایک دوسرے کے کندھوں پہ چڑھے، شرافت بھائی کے کمرے کی کھڑکی سے کمرے کے اندر جمی کیرم کی بازی دیکھنے میں مگن تھے، اس کو اچانک دیکھا تو ایک دوسرے کے پیچھے کودتے پھلانگتے ہوئے بھاگ گئے۔ اس نے جو پیروں کے بل کھڑے ہوکر کمرے میں جھانکا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

    شرافت بھائی اور منان کچھ اس طرح سے ایک دوسرے میں مشغول تھے کہ کیا کوئی نو بہاتا شادی شدہ جوڑا آپس میں مصروف ہو۔۔۔ اسے ایسا لگا کہ جیسے آسمان کی ساری ہی گرجتی ہوئی بجلیاں اس پہ ایک ساتھ گر رہی ہوں اور ہر کڑکڑاہٹ میں اماں جی کی آواز گونج رہی ہو۔۔۔ ’یہ مرد ذا ت بڑی بے وفا ہوئے ہے.‘

    ہائے اماں جی۔۔۔ مگر یہ کیا۔۔۔ اچانک عفت کے منہ سے نکلا۔۔۔ یہ کیسی بےوفائی ہے؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے