Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ نصف صدی کا قصہ ہے

عذرا نقوی

یہ نصف صدی کا قصہ ہے

عذرا نقوی

MORE BYعذرا نقوی

    ابھی تھوڑی دیر پہلے ماجد کا امریکہ سے فون آیا تھا۔ اصرار کر رہا تھا کہ اس بار میں سالانہ چھٹیوں میں حیدر آباد نہ جاؤں، اس کے پاس امریکہ چلی آؤں، اس نے نیا گھر خریدا ہے، وہ بھی دیکھ لوں گی۔ ماجد کی دادی زبیدہ کے انتقال کو اب پانچ برس ہوگئے اور میری آزمائش کا زمانہ بھی شکر ہے تما م ہوا۔ وہ گھٹن، وہ الجھن، وہ غصہ جو میں برسوں سے خاموشی سے پی رہی تھی اس سے نجات مل گئی مجھے۔ کیا ماجد کو اس کا اندازہ تھا؟ اسے کچھ معلوم تھا۔۔۔ اللہ جانے۔۔۔ ہاں یہ بات تو ہے کہ اس نے اپنی دادی کو کبھی امریکہ نہیں بلایا۔ وہ وہیں تھیں کراچی میں۔ البتہ ان کا خرچہ وہ پابندی سے بھیجتا تھا، خیر خبر رکھتا تھا۔ کیا ماجد اپنی زندگی کی یہ کہانی جانتا تھا؟

    ڈاکٹر سلیمہ نے ٹھنڈی سانس لے کر کرسی کی پشت پر سر ٹکا دیا۔ وہ سوچ رہی تھیں۔۔۔ ماجد اب خوش خرم اچھی بھلی زندگی گذار رہا ہے میرے لئے یہ ہی بہت ہے۔ لیکن اتنے عر صے میں کس طرح خاموش رہی، دل چاہتا تھا کی زبیدہ کی اصلیت سب کے سامنے کھول کر رکھ دوں۔ مگر سوچتی تھی کہ اس سے اب کیا حاصل ہوگا۔۔۔ سو میں نے وہی کیا جو مجھے صحیح لگا۔۔۔ کتنا وقت گذر گیا۔۔۔ مجھے یہاں جدہّ میں رہتے ہوئے چالیس سال ہو گئے۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔

    ہاں تقریباََ نصف صدی کا ہی قصہ ہے۔ کہاں سے یہ کہانی شروع کروں، میں تو کبھی اس کا مرکزی کردار تھی ہی نہیں۔ مگر آ ج تک اس کہانی سے جڑی ہوئی ہوں۔۔۔ ماشااللہ ماجد انجینیر ہے، اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گذار رہا ہے۔ وہ مجھے پابندی سے فون کرتا ہے، میر ی صحت کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔۔۔ ہمار ا رشتہ ہی کیا ہے؟ کوئی خونی رشتہ نہیں۔ درد کا رشتہ کہوں یا ہموطنی کا یا شاید پھر انسانیت کا؟ یا اس مامتا کے جذبے کا جو خونی رشتوں کی محتاج نہیں ہوتی ۔خونی رشتے! کیا کیا ظلم نہیں ڈھاتے کبھی کبھی یہ خونی رشتے۔

    میرا کردار اس کہانی برسوں پہلے شامل کیسے ہوا تھا۔۔۔ وہ شام آج بھی مجھے یاد ہے۔ آج سے کوئی تیس برس پہلے کی شام۔ میری رشتے کی نند صباحت اپنے شوہر کے ساتھ ہندوستان سے عمرہ کرنے آئی ہوئی تھیں۔ میں صباحت کو اپنے واقف کار اور ہاسپٹل میں ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹر یوسف کے گھر ملانے لے گئی جو کراچی سے چند سال پہلے جدہ آئے تھے۔ ان کا خاندان قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی میں بس گیا تھا۔ ہندوستان کے اسی علاقے سے ان کا تعلق تھا جہاں کے ہم رہنے والے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف کے ساتھ ان کی رعب دار، شاندار اورباتونی والدہ بھی تھیں جو سارے گھر پر حاوی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی بیگم نسیم فرماں بردار اور خاموش طبع عورت تھی ا پنے تین بیٹوں کو پالنے پوسنے اور ساس کی خدمت میں ہمیشہ مصروف نظر آتی تھیں۔

    ہاں! تو بات اس شام کی ہو رہی تھی جب میں اس کہانی میں شامل ہوئی تھی۔ ا س شام میں اور صباحت ڈاکٹر یوسف کی والدہ سے باتیں کر رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب اندر داخل ہوئے۔ ان کو دیکھ کر صباحت کے چہرے پر ایک عجیب سے دہشت اور حیرت کا ملا جلا تاثر ابھر آیا۔ اسنے کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں اور پھر یونہی سرسری طور پر ان کے بچوں کے ملنے کی فرمائش کی۔ بچے آئے، میں دیکھ رہی تھی کہ صباحت ان کے سب سے بڑے بارہ سالہ بیٹے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔

    جیسے ہی ہم واپس جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھے تو مجھے لگا کہ صباحت عجب بے چین سی ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہے۔ میں نے پوچھا بھی کیا بات ہے۔ اس نے ڈرائیور کی طرف دیکھا، کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا، پھر کچھ کہتے کہتے رک گئی۔ بس اتنا کہا، ’’کچھ نہیں بھابی! بس کوئی پرانی بات یاد آ گئی۔

    میں سمجھ گئی کہ وہ ہمارے حیدرآبادی ڈرائیور کے سامنے کچھ نہیں کہنا چاہتی گھر میں داخل ہوتے ہی وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بیڈروم میں لے گئی۔ میرا ہاتھ پکڑ کر بستر پر بٹھا دیا اور جلدی جلدی کہنے لگی ‘’بھابی! یہ جو آپ کے ڈاکٹر یوسف ہیں نا! میر ے بچپن کی دوست ذکیہ کے شوہر ہیں، میں انکی شادی میں شریک ہوئی تھی اور ایک دو بار شادی کے بعد بھی ان سے مل چکی ہوں‘‘ وہ گھبر ا گھبر ا کر کہے جارہی تھی۔

    ’’پتہ ہے باجی! ان لوگوں نے کیا کیا تھا۔ یہ لوگ بے چاری ذکیہ کا چار دن کا بچہ چراکر چپ چاپ کھوکرا پار کے رستے سے پاکستان چلے گئے تھے۔ ابھی ان کی شادی کو ایک سال ہی ہوا تھا۔سارے محلے میں اس کا چرچا تھا۔۔۔ اس زمانے میں کھوکھرا پار کے رستے پاکستان جانے کے لئے ابھی کھلے ہوئے تھے۔۔۔ بس چل دیں دادی اپنے ننھے پوتے کو چراکر۔۔۔’‘

    مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ ڈاکٹر یوسف اتنے مہذب اتنے دیندار آدمی یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ صباحت کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لیتی تھی۔

    وہ کہے جارہی تھی۔ ‘’میں تو کتنے برسوں سے یہ بات بھلا ہی چکی تھی۔ آج اچانک ڈاکٹر یوسف کو دیکھ کر سب کچھ اس طرح یاد آ گیا جیسے کل کی بات ہو۔ بھابی! ان لوگوں نے بےچاری ذکیہ کو بھنک بھی نہیں پڑ نے دی۔۔۔ بھابی! آپ نے غور نہیں کیا کہ ان کے بڑے بیٹے کی شکل ڈاکٹر احب کی بیوی نسیمہ سے بالکل نہیں ملتی۔ بالکل اپنی ماں ذکیہ کی شبیہ ہے‘‘

    ‘’ایسا کیسا ہوسکتا ہے۔ اتنے چھوٹے بچے کو ماں سے جدا کر دینا۔۔۔ تم نے ڈاکٹر یوسف کی ماں کو پہلے دیکھا تھا۔۔۔ تم تو کہہ رہی تھیں کہ تم ذکیہ کی شاد ی میں موجود تھیں؟‘‘ میرا دل یہ سب ماننے کو جیسے تیار نہیں تھا۔

    ‘’نہیں۔۔۔ شادی میں سمدھنوں کو دیکھنے کا شوق کبھی مجھے نہیں رہا۔۔۔ اور ذکیہ کی شادی میں تھوڑی دیر کو ہی گئی تھی۔۔۔ دولہا کو البتہ دیکھا تھا۔ شادی کے بعد ایک آدھ بارجب وہ ذکیہ کے میکے میں آئے تب دیکھا تھا۔ ذکیہ کی سسرال دوسرے محلے میں تھی۔ میں کبھی وہاں نہیں گئی‘‘

    صباحت جیسے خواب میں بول رہی تھی ‘’لوگوں نے بتایا کہ ایک رات کو جب ذکیہ سو رہی تھی تو یہ لوگ اس کے ایک مہینے کے بچے کو لے کر چل دئے، طلاق سرہانے لکھ کر رکھ گئے۔ بےچاری ذکیہ کئی سال تک دیوانی سی ہو گئی تھی۔ ان ڈاکٹر صاحب کی والدہ بڑی تیزطرار ہیں، ان کی بہو سے بنتی نہیں تھی۔ ڈاکٹر یوسف اپنی والدہ کی اکلوتی اولاد ہیں، ان کے والد کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ والدہ اپنے میکے میں رہتی تھیں۔ کچھ خاندانیجائداد تھی، گذر بسر اچھی خاصی ہو جاتی تھی۔۔۔ یہ سب ایک بار مجھے ذکیہ نے بتایا تھا‘‘ صباحت ماضی میں کھوئی ہوئی بولے جا رہی تھی۔

    میں ہل کر رہ گئی تھی، میں نے کہا ‘’میں ڈاکٹر یوسف کے گھرانے کو کئی سال سے جانتی تھی مگر کبھی بھی ان کی بیو ی نسیم سے اس بات کی طر ف اشارہ بھی نہیں کیاکہ ماجد ان کا بیٹا نہیں ہے۔‘‘

    ’’ارے باجی! جو لوگ دو ماہ کے بچے کو ا پنی ماں سے جدا کر سکتے ہیں، وہ نسیم جیسی سیدھی لڑکی کو خاموش رہنے پر مجبو ر بھی کر سکتے ہیں‘‘ صباحت نے غصے سے کہا ‘’ذکیہ اب کہاں ہے’‘ میں بھی اب سب کچھ جاننا چاہتی تھی ‘’بےچاری ذکیہ کے گھر والوں نے چند سال بعد کسی نہ کسی طرح اس کی شادی دور کسی اور شہر میں کروا دی’‘ میں سوچنے لگی کہ واقعی کبھی ڈاکٹر صاحب کی باتونی والدہ نے جو دنیا بھر کی باتیں اور لن ترانیاں کیا کرتی تھیں ہندوستان میں اپنے آبائی گھر اور محلے کا ذکر نہیں کیا حالانکہ وہ ہمارے ہی شہر کی تھیں۔ البتہ کراچی میں اپنے کچھ رشتے داروں کا ذکر وہ بہت زور شور سے کرتی رہتی تھیں۔

    میں نے ظاہر ہے یہ بات کسی کو نہیں بتائی۔ بتانے سے فائدہ بھی کیا تھا، اس راز کو مشتہر کرنے سے کس کا بھلا ہونا تھا۔ دل تو چاہتا تھا کہ ڈاکٹر یوسف کے خاندان سے کوئی تعلق نہ رکھوں لیکن نہ جانے کیوں ماجد کیلئے میرے دل میں عجیب طرح کی محبت نے گھر کر لیا تھا، ڈاکڑ یوسف کی بیگم نسیم کی خاموشی پر حیرت ہوتی تھی لیکن وہ بھی مجھے کچھ مظلوم سی لگتی تھی۔

    دنیا کا کاروبار یوں ہی چلتا رہا۔ کہ اچانک ایک صبح پاسپٹل گئی تو یہ خبرملی کہ چند گھنٹے پہلے ڈاکٹر یوسف کا کار کے حادثے میں انتقال ہو گیا۔ کسی والدہ کا جوان کا اکلوتا جوان بیٹا ختم ہو جائے تو ماں کا کیا حال ہوتا ہے کہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جب میں ان کو بین کرتے دیکھ رہی تھی تو ذہن کے نہاں خانوں سے بدنصیب ذکیہ کا سراپا ابھر آتا تھا جو برسوں پہلے ایک دن سو کر اٹھی ہوگی اور اپنے بچے کو پہلو میں نہیں پا یا ہوگا۔ طلاق نامہ اس کامنہ چڑا رہا ہوگا۔ اب جانے اسے یہ معلوم بھی ہے کہ نہیں کہ اس کا بیٹا زندہ ہے۔

    ڈاکٹر یوسف کے دوستوں نے کسی طرح ان کے واجبات اسپتال سے دلوائے، گھر کا ساز وسامان فروخت کرایا، ان سب کو پاکستان بھجوایا۔ میں بھی کسی حد تک اس میں شامل رہی۔ کچھ ماہ بعد پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کی بیوہ نسیم اپنے دو نوں بیٹوں کو لے کر اپنے مائیکہ چلی گیءں بس ماجد دادی کے پاس رہ گیا۔ نہ جانے کیوں مجھے رہ رہ کر ماجد کا خیال آتا تھا۔ مجھے معلوم ہو ۱کہ اسے تعلیم مکمل کرنے کے لئے مالی دشواری کا سامنا ہے تو میں نے کسی طرح اس سے رابطہ کرکے اس کی مدد کی۔ مجھے لگتا تھا کہ کوئی غیبی طاقت مجھ سے کہہ رہی ہے کہ کیا ہوا جو تیر ی اولا دنہیں، مامتا کا جذبہ تو بہت وسیع ہوتا ہے جہا ں چاہے نچھاور کرو اور یہ ہی مامتا کا جذبہ مجھے آج تک ماجد سے جوڑے ہوئے ہے۔ ایک بار میں اس سے ملنے پاکستان بھی گئی۔ تب تک وہ ملازم ہوگیا تھا۔ اس نے میری بہت خاطرکی۔ جب اس کی شادی کی بات چل رہی تھی تو اس نے لڑکی کے کوائف اور تصویر مجھے بھی بھیجی تھی۔ اب وہ امریکہ میں ہے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ۔

    کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اس کی ماں ذکیہ کو ڈھونڈ نکا لنا کوئی ناممکن کام بھی نہیں تھا۔ میرے بہت سے جاننے والے ہندوستان اور جائداد تھی، گذر بسر اچھی خاصی ہو جاتی تھی۔۔۔ یہ سب ایک بار مجھے ذکیہ نے بتایا تھا‘‘ صباحت ماضی میں کھوئی ہوئی بولے جا رہی تھی۔

    میں ہل کر رہ گئی تھی، میں نے کہا ‘’میں ڈاکٹر یوسف کے گھرانے کو کئی سال سے جانتی تھی مگر کبھی بھی ان کی بیو ی نسیم سے اس بات کی طر ف اشارہ بھی نہیں کیاکہ ماجد ان کا بیٹا نہیں ہے۔‘‘

    ’’ارے باجی! جو لوگ دو ماہ کے بچے کو ا پنی ماں سے جدا کرسکتے ہیں، وہ نسیم جیسی سیدھی لڑکی کو خاموش رہنے پر مجبو ر بھی کر سکتے ہیں‘‘ صباحت نے غصے سے کہا

    ‘’ذکیہ اب کہاں ہے’‘ میں بھی اب سب کچھ جاننا چاہتی تھی ‘’بے چاری ذکیہ کے گھر والوں نے چند سال بعد کسی نہ کسی طرح اس کی شادی دور کسی اور شہر میں کروا دی’‘

    میں سوچنے لگی کہ واقعی کبھی ڈاکٹر صاحب کی باتونی والدہ نے جو دنیا بھر کی باتیں اور لن ترانیاں کیا کرتی تھیں ہندوستان میں اپنے آبائی گھر اور محلے کا ذکر نہیں کیا حالانکہ وہ ہمارے ہی شہر کی تھیں۔ البتہ کراچی میں اپنےکچھ رشتے داروں کا ذکر وہ بہت زور شور سے کرتی رہتی تھیں۔

    میں نے ظاہر ہے یہ بات کسی کو نہیں بتائی۔ بتانے سے فائدہ بھی کیا تھا، اس راز کو مشتہر کرنے سے کس کا بھلا ہونا تھا۔ دل توچاہتا تھا کہ ڈاکٹر یوسف کے خاندان سے کوئی تعلق نہ رکھوں لیکن نہ جانے کیوں ماجد کیلئے میرے دل میں عجیب طرح کی محبت نے گھر کر لیا تھا، ڈاکڑ یوسف کی بیگم نسیم کی خاموشی پر حیرت ہوتی تھی لیکن وہ بھی مجھے کچھ مظلوم سی لگتی تھی۔

    دنیا کا کاروبار یوں ہی چلتا رہا۔ کہ اچانک ایک صبح پاسپٹل گئی تو یہ خبرملی کہ چند گھنٹے پہلے ڈاکٹر یوسف کا کارکے حادثے میں انتقال ہو گیا۔ کسی والدہ کا جوان کا اکلوتا جوان بیٹا ختم ہو جائے تو ماں کا کیا حال ہوتا ہے کہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جب میں ان کو بین کرتے دیکھ رہی تھی تو ذہن کے نہاں خانوں سے بدنصیب ذکیہ کا سراپا ابھر آتا تھا جو برسوں پہلے ایک دن سو کر اٹھی ہوگی اور اپنے بچے کو پہلو میں نہیں پا یا ہوگا۔ طلاق نامہ اس کامنہ چڑا رہا ہوگا۔ اب جانے اسے یہ معلوم بھی ہے کہ نہیں کہ اس کا بیٹا زندہ ہے۔

    ڈاکٹر یوسف کے دوستوں نے کسی طرح ان کے واجبات اسپتال سے دلوائے، گھر کا ساز وسامان فروخت کرایا، ان سب کو پاکستان بھجوایا۔ میں بھی کسی حد تک اس میں شامل رہی۔ کچھ ماہ بعد پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کی بیوہ نسیم اپنے دو نوں بیٹوں کو لےکر اپنے مائیکہ چلی گیئ بس ماجد دادی کے پاس رہ گیا۔ نہ جانے کیوں مجھے رہ رہ کر ماجد کا خیال آتا تھا۔ مجھے معلوم ہو ۱کہ اسے تعلیم مکمل کرنے کے لئے مالی دشواری کا سامنا ہے تو میں نے کسی طرح اس سے رابطہ کرکے اس کی مدد کی۔ مجھے لگتا تھا کہ کوئی غیبی طاقت مجھ سے کہہ رہی ہے کہ کیا ہوا جو تیر ی اولا دنہیں، مامتا کا جذبہ تو بہت وسیع ہوتا ہے جہاں چاہے نچھاور کرو۔ اور یہ ہی مامتا کا جذبہ مجھے آج تک ماجد سے جوڑے ہوئے ہے۔ ایک بار میں اس سے ملنے پاکستان بھی گئی۔ تب تک وہ ملازم ہوگیا تھا۔ اس نے میری بہت خاطر کی۔ جب اس کی شادی کی بات چل رہی تھی تو اس نے لڑکی کے کوائف اور تصویر مجھے بھی بھیجی تھی۔ اب وہ امریکہ میں ہے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ۔

    کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اس کی ماں ذکیہ کو ڈھونڈ نکا لنا کوئی ناممکن کام بھی نہیں تھا۔ میرے بہت سے جاننے والے ہندوستان اور بیرونی ممالک میں، کہیں نہ کہیں سے میں کھوج کر ذکیہ کا اتا پتا معلوم ہی کر سکتی تھی۔ لیکن سوچتی تھی کہ ہو سکتا ہے ذکیہ اپنے گھربار میں رچ بس گئی ہو، کیوں اس کی زندگی اتھل پتھل کروں اور نہ جانے ذکیہ کے سسرال والوں کو اس کی پہلی شادی اور بچے کے بارے میں سب معلوم ہے کہ نہیں۔

    میں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ ماجد کو اپنی زندگی کی کہانی پوری طرح معلوم ہے کہ نہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اپنی دادی سے اس کا کوئی دلی تعلق نہیں ہے۔ بس و ہ ان کی کفالت کرتا ہے۔

    جو بھی ہو جانے ان جانے میں ہی جیسے اس کہانی کو مرکزی کردار بن گئی ہوں۔ مجھے اللہ نے ایک بیٹا دے دیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے