یہ رابطے دل کے
’’صاحبزادی لوٹ کر گھر آ گئی ہیں ‘‘چچا نے ہاتھ دھوکر کھانے کے لئے تخت پر بیٹھتے ہوئی اطلاعاً زور سے کہا۔
روٹی کی ڈلیا کھولتے ہوئے چچی جان کا ہاتھ دم بھر کو کانپ گیا۔
’’حد ہوتی ہے بےغیرتی کی۔ ہنہہ۔۔۔‘‘ چچا نے سالن کا ڈونگا اپنی طرف کھسکایا اور پلیٹ سیدھی کی۔
’’آپ کو اس قدر غصّہ کیوں ہے۔۔۔‘‘ چچی جان نے’’آپ کو‘‘ پر زور دیتے ہوئے ان کی جانب نگاہ کی۔
انھوں نے قہر برساتی نظروں سے چچی جان کو دیکھا، ان کا چہرہ سر خ ہو گیا تھا اور آنکھوں میں بےانتہا نفرت کا احساس تھا۔
’’کیوں ہے۔۔۔؟ آپ کو نہیں معلوم رضیہ بیگم غصّہ کیوں ہے۔۔۔؟ غیرت دار آدمی ہوں بےغیرت نہیں ہوں اور لوگوں کی طرح۔۔۔‘‘ انھوں نے چمچہ دستر خوان پر پٹخا۔
’’باپ دادا کی پگڑی اچھال کر وہ بےغیرت۔۔۔۔اور باقی لوگ صبر کئے بیٹھے ہیں ،میری بیٹی کرتی ایسا۔۔۔یہیں اسی جگہ زمین میں دفن نہ کر دیتا تب کہتیں۔۔۔‘‘
’’اللہ نہ کرے۔۔۔‘‘ چچی جان نے دہل کر سینے پر ہاتھ رکھ لیا۔
’’اور تم پر تو انہی لوگوں کا رنگ چڑھا ہے غیرت اور عزت جیسے الفاظ تم کیا سمجھو گی۔۔۔‘‘ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اپنی بات میں اضافہ کیا۔
’’اور خبردار جو یہاں سے کوئی ملنے گیا۔۔۔یا وہ اس چوکھٹ پر چڑھی۔۔۔‘‘
دکھ سا دکھ تھا ان کو۔۔۔؟ ننھی سی جان انکے ہاتھون میں پل کر تو جوان ہوئی تھی وہ۔۔۔
پرانے زمینداروں کی طرح ظہیر علی خاں اور فیصل علی خان میں مقدمہ بازی تو چلتی رہتی تھی۔ زمین جائیداد کے قصے کس جاگیر دار خاندان میں نہیں ہوتے؟ بڑی بڑی باتیں ہو جاتیں، قتل تک ہو جایا کرتے تھے۔
ان دونوں بھائیوں میں بھی بر سوں سے مقدمے چل رہے تھے۔ آگ میں تیل ڈالنے کا کام گاؤں والے بہت مہارت سے کرتے اور فایئدہ اٹھاتے۔ باتیں ادھر کی ادھر کرنے میں دیگر لوگوں کا بڑا ہاتھ تھا اور باتیں بھی اس طرح پیش کی جاتیں کہ دونوں بھائی کھول کر رہ جاتے مگر وضع داری کا یہ عالم تھا کہ جب مقدمے کی تاریخ پڑتی تو ایک دوسرے کو کہلوا بھیجتے کہ
’’ہم نے گاڑی نکلوالی ہے ساتھ ہی چلئیےگا۔۔۔‘‘
اور دونوں بھائی ساتھ بیٹھ کر دنیا بھر کی سیاست پر باتیں کرتے کچہری پہونچتے۔۔۔بحث ہوتی وہ بھی کرتے ۔۔۔پھر تاریخ پڑ جاتی تو دونوں ایک ساتھ واپس بھی اسی گاڑی میں آ جاتے۔
آم کی فصل میں ایک دوسرے کے گھر آمون کی دعوت ہوتی۔ اہتمام سے نذریں ہوتیں ،تو ایک دوسرے کو بلایا جاتا۔ عقیدت سے کھانا کھایا جاتا۔ کسی بچے کی تقریب ہوتی تب بھی سب ملکر مناتے۔ عید کی نماز دونوں بھائی ساتھ ہی ادا کرتے اور سب بچّوں کو عیدی دیکر ہی فیصل علی خان اپنے گھر جاتے، وہ اپنے بڑے بھائی کی بےحد عزت کرتے تھے اور بچوں سے بےپناہ محبّت بھی۔۔۔جب سے بڑے بھائ کی بیوئی کا انتقال ہوا تب سے چچی جان کا ذیادہ تر وقت ان بچوں کی دیکھ بھال میں گزرنے لگا۔
خاص کر ارم تو انکی لاڈلی تھی۔
دکھ سا دکھ تھا ان کو؟؟
ننھی سی ارم بن ماں کی بچی، جب انکی اپنی بیٹیاں نہائی دھوئی صاف ستھری فرا کیں پہنے اڑتی پھرتیں تو وہ آ جاتی۔ میلی کچیلی فراک پیروں میں دھول سر میں جوئیں۔۔۔
وہ اس کا سر صاف کرتیں نہلاتیں نئی فراک پہنا کر بنا سنوار دیتیں۔
اس کی حالت دیکھ کر انکا دل پھٹتا تھا کیسے ٹوٹی چپل پہنے پھرا کرتی۔
کس چیز کی کمی تھی وہاں؟ سوا ایک عورت کے۔
اس کی چپل اتروا کے اسے سینے بیٹھ جاتیں۔
’’ارے کیا کر رہی ہو؟ دوسری چپل پہنا دو اسکو۔۔۔‘‘وہ اخبار ہٹاکر محبت سے اسے تکتے۔۔۔
’’رہنے دیجیے ۔۔بھائی جان کو اچھا نہیں لگےگا۔ میں ابھی ٹھیک کیئے دیتی ہوں۔‘‘
ایسا نہیں تھا کہ وہاں کسی چیز کی کمی تھی۔ کپڑے صندوقوں میں بھرے تھے جوتے چپل بےشمار۔۔۔کوئی معاشی مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ تو بس اتنا تھا کہ ظہیر علی خان اور طرح کے آدمی تھے وہ بچو ں کو دیکھ نہیں سکتے تھے سب نو کروں کے ہاتھ میں تھا۔
جب ارم کے کان چھدے اور خیال نہ ہونے کی وجہ سے پک گئے تو وہ انہیں کے پاس دوڑی آئی۔
’’بہت درد ہورہا ہے چچی جان۔۔۔‘‘
اور چچی جان نے بزرگوں کا بتایا ہوا نسخہ آزمایا۔
اس وقت ارسل سب سے چھوٹا بیٹا ہوا تھا۔ انھوں نے جھٹ ارم کو گود میں لیکر لٹا لیا اور اسکے کانوں کی لوؤں پر دودھ کی دھاریں ڈا لیں ،وہ سکون سے ان کی گود میں ہی سو گئی اور وہ کئی گھنٹوں تک گھٹنا ہلائے بغیر بیٹھی رہیں۔
صبح کی اوس جمع کرکے کانون پر لگائی۔۔۔ہومیو پیتھی کی دوائیں کھلائیں، جب تک اسکے کان ٹھیک نہیں ہوئے بےقرار رہیں۔
’’وہاں کسی کو فکر نہیں تو تم کیوں دبلی ہوئی جاتی ہو فکریں کر کر کے؟‘‘
’’سبھی بچے ہیں وہاں بھائیجان کے پاس وقت کہاں۔۔۔جو یہ سب دیکھیں۔۔۔کیا ہوا جو میں۔۔۔بن ماں کی بچی ہے‘‘
بولتے بولتے انکی آنکھیں آنسوں سے بھر جاتیں سر جھک جاتا۔۔۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔کرو خدمتیں۔۔۔کوئی ماننے والا نہین ہے وہاں تمہاری بے لوث محبّت کو‘‘
’’میں کسی کو منوانے کے لیئے نہیں کرتی یہ تو دل کے رابطے ہیں۔۔۔‘‘ان کی آواز دھیمی ہوتی چلی جاتی۔
کنگھی کر کے چوٹی گوند دیتیں وہ صاف ستھری ہوکر چمک اٹھتی۔۔۔آنگن میں لگے بیلے اور موگرے کے پھولوں کو گوندھ کر گجرے بنا لاتی۔۔۔کبھی ان کے بالوں میں اور کبھی ہاتھوں میں پہنا دیتی اور وہ اس خوشبو سے مسحور بیٹھی رہتیں۔
وقت گزرتا رہا۔ عامر کی تعلیم اب ختم ہو گئی تھی اسنے ایک فلیٹ شہر میں لے لیا تھا اور نوکری کی تگ و دو میں مشغول تھا۔
چچی جان کی نظر کے زاویئہ بدل گئے تھے وہ ارم کو اپنی بہو بنانے کے خواب دیکھنے لگی تھیں۔ وہ عامر کا ہر انداز پہچانتی تھیں کہ ارم کو دیکھ کر اسکی انکھون میں جو معصوم سی چمک د ر آتی اس کا کیا مطلب ہے وہ اس کے انداز خوب پہچانتی تھیں۔ اپنے بچّوں میں سب سے ذیادہ پیارا تھا انھیں۔۔۔
وہ بس عامر کی ملازمت کے انتظار میں تھیں۔ وہ گاؤں میں نہیں رہنا چاہتا تھا، حالانکہ اب گاؤں پہلے جیسا تاریک نہ رہا تھا۔ ہتھیلیوں سے چراغ، انگلیوں سے لالٹینیں نکل کر دیواروں پر بلب اور سی۔ ایف۔ ایل۔ بنکر اجالے بکھیر رہے تھے۔ ہاتھوں کے بنے رنگ برنگے پنکھے اب سیلنگ فین بن گئے تھے، گھڑونچی کی جگہ اب واٹر کولر اور ایکوا گارڈ نے لے لی تھی بڑی خوبصورت تبدیلی تھی مگر عامر جانتا تھا کہ حالات بدل گئے ہیں اب ملازمت کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔
اور جب انھیں ارم کی شادی کی خبر ملی تو وہ دل پر ہاتھ رکھ کرزمین پر بیٹھتی چلی گئیں۔ بڑی عجیب ناقابل ِاعتبار بات تھی۔ کہ اسنے خود کسی کو پسند کر لیا اور بھائیوں بہنوں کی مرضی کے خلاف نکاح ہو گیا۔۔۔عامر آکر خاموشی سے ان کی مامتا بھری گود میں لیٹ گیا۔ وہ اپنی کانپتی انگلیوں سے اس کی پلکوں سے دکھ چنتی رہیں۔ وہ اس کے غم سے خوب واقف تھیں۔
اس کے لب خاموش تھے اور انکھیں نو حہ کناں۔
دکھ اور اذیت کے یہ دوسال بڑی مشکل سے کٹے بیان کر نا بیحد مشکل تھا اور وہ موگرے ،بیلے کے پیڑوں کو پانی دیے جاتیں۔۔۔
’’بھائیجان کو تو برا حال ہوگا۔۔۔‘‘
وہ پھر حال میں آ گئیں۔۔۔
’’برا حال؟؟؟ خود بلایا ہے انھوں نے۔۔۔دعوت کی ہے داماد کی۔۔۔جاکے دیکھو کس قدر آؤ بھگت ہو رہی ہے۔ بیٹی داماد کی۔۔۔‘‘
غصہ میں پانی کا گلاس پٹخا اور چیخ کر بولے۔
’’خود گئے تھے بلانے اس بد ذات وبےحیا کو۔۔۔۔‘‘
’’چلیئے ٹھیک ہے اب۔۔۔شادی ہونی تھی ہو گئی‘‘ چچی جان صلح جو تھیں۔
’’ایسے ہوتی ہیں شادیاں؟؟؟ بیٹی صاحبہ نے پسند کیا اور آپ نے جاکر نکا ح کروا دیا؟؟ نہ کسی سے رائے نہ مشورہ۔۔۔خود انکے بڑے صاحب ذادے خلاف ہیں۔۔گھر نہیں آئے۔۔۔اچھّا ہے پھوٹ پڑے باپ بیٹے میں‘‘ وہ طنزیہ مسکرائے
چچی جان خاموش بیٹھی رضائی کی گوٹ پر انگلیاں پھیرا کیں۔
عامر کو لڑکیاں دکھا دکھا کر تھک ئیں مگر اس کی ایک نا۔۔۔ہاں میں نہیں بدلی۔۔۔وہ سب جانتی تھیں مجبور تھیں۔۔۔افسردہ تھیں۔
شام ہو رہی تھی ڈیوڑ ھی میں اندھیرا سا تھا۔۔۔تب انھوں نے دو برس کے بعد اسے دیکھا۔۔۔
وہ سر جھکائے کھڑی تھی ہلکا نیلا سوٹ ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں ہلکے ہلکے لرز رہی تھیں۔ چچی جان نے گھبرا کر اندر کی طرف نظر کی۔ وہ شاید مطا لعے میں مشغول تھے کمرے کا دروازہ بھڑا ہوا تھا لائٹ جل رہی تھی۔
دالان میں عامر لیٹا ہوا تھا۔ وہ سلام کر کے خاموش کھڑی رہی۔ انھوں نے بغور اسے دیکھا بہت کمزور نظر آئی اپنے آنسو چھپا کر اسے گلے لگا لیا۔
پھر اسے وہیں چھوڑ کر جلدی سے باورچی خانے میں گئیں۔ رواج کے مطابق کچھ چیزیں لیکر آئیں اسکا انچل تھام کر ارد کی دال، چاول۔ ایک بھیلی گڑ اور ایک سو کا نوٹ اسکے پلو میں ڈالا پھر اپنا کپکپاتا ہوا ہاتھ اسکے سر پر رکھ کربہت تکلیف سے بولیں۔۔
’’جیتی رہو خوش رہو۔۔۔مگر اب یہاں کبھی مت آنا۔۔۔‘‘
اور دروازہ بند کر دیا۔
واپس آکر آنگن میں بیٹھ گئیں اور کھر پی لیکر بیلے اور موگرے کے پیڑوں کو بےدردی سے کاٹنے لگیں آنسو بہتے جاتے تھے اور وہ پیڑوں کو گہرائی سے کھودتی جا رہی تھیں۔ برامدے میں لیٹے ہوئے عامر نے سارا منظر نم آنکھوں سے دیکھا پھر ننگے پیر چلتے ہوئے آکر ماں کے پاس زمین میں بیٹھ گئے اور ان کو۔۔۔اپنے بازوں میں لپٹا لیا۔
دروازے کی کنڈی ایک بار پھر کھڑ کی دونوں نے ایک ساتھ ا۔ دیکھا۔ چچا باہر سے آ رہے تھے ان کی باہوں کے گھیرے میں لپٹی سسکتی ماہ گل کو دیکھ کر وہ گھبرا کر گھڑی ہو گئیں۔ وہ ہنستے ہوئے بولے۔ ’’لو دیکھو باہر سے ہی چلی جارہی تھی میں نہ دیکھتا تو تم سے ملے بنا ہی چلی جاتی‘‘۔ ان کی آنکھوں میں شفقت چھلک رہی تھی اور آنسو چمک رہے تھے۔
لاؤ کچھ چائے ناشتہ کر وائو میری بیٹی اتنے دنوں بعد گھر آئی ہے ’’وہ اسے لیئے ہوئے تخت پر بیٹھ گئے اور چچی جان کو حواس میں واپس آنے میں کافی دیر لگی۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.