Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ شہر بکاؤ ہے

جیلانی بانو

یہ شہر بکاؤ ہے

جیلانی بانو

MORE BYجیلانی بانو

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے شہر کی کہانی ہے جو فروخت ہونے والا ہے اور اسے خریدنے والا اپنی پسند کی ہر چیز خرید سکتا ہے۔ شہر میں موجود لیڈر، مولوی، پنڈت اور ہر قسم کی عورتیں بھی فروخت کے لیے موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ شہر پہلی بار فروخت ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس شہر کو بادشاہوں، نوابوں اور انگریزوں نے کئی بار خریدا ہے۔

    یہ شہر بکاؤ ہے۔۔۔

    آئیے۔۔۔آئیے۔۔۔ جلدی جلدی بولی لگائیے۔۔۔

    پھرنہ کہنا کہ ہمیں خبر نہ ہوئی۔۔۔

    ہم اپنا شہر بیچ رہے ہیں۔۔۔ ہمارے شہر کو خریدنے والوں کی بھیڑ لگی ہے۔۔۔

    آگے بڑھیے۔۔۔دوسرے آنے والوں کو راستہ دیجیے۔۔۔

    یہاں آپ کو ہرچیز مل جائے گی جس کی آپ کو ضرورت ہے۔۔۔

    اجی مہاشے۔۔۔ الیکشن کے جلسے میں جانے سے پہلے تو ضرور اس بازار پر ایک نظر ڈالیے۔

    یہاں الیکشن کے لیے ضرورت کی ہر چیز آپ کومل جائے گی۔۔۔

    آپ کو لیڈر۔۔۔ مولوی۔۔۔ پنڈت۔۔۔ غنڈے۔۔۔ جادوگر۔۔۔ سب مل جائیں گے۔۔۔

    اگر آپ کو بے شمار جوتوں کی ضرورت ہے تو آپ کو بےبھاؤپڑجائیں گے۔۔۔

    میڈیکل شاپ بھی ہیں سرکار۔۔۔ الیکشن میں۔۔۔ ہر وبائی بیماری کی دوا مل جائے گی۔

    ادھر دیکھیے۔۔۔ دھرم۔ ایمان۔ اللہ۔ بھگوان۔ رام اور رحیم کاآکشن ہو رہا ہے۔۔۔

    ذرا رکیے تو مولانا۔۔۔ یہ سودا آپ کو مہنگا نہیں پڑے گا۔

    آپ عورت کے ہاتھ سے کتاب چھین کر۔۔۔ اس کے منہ پرنقاب ڈال کر۔ اس کے زبان کے کھولنے پہ قتل کاحکم دیے بغیر بھی ٹی۔وی کے ہر چینل پر نظر آسکتے ہیں۔

    جی نہیں۔۔۔ ہم اپنا شہر پہلی بار نہیں بیچ رہےہیں۔۔۔ ہم تو اپنا شہر باربار بیچتے رہے ہیں۔

    کبھی بابر نے خریدا۔ کبھی انگریزوں نے۔۔۔ اس چھینا جھپٹی میں ٹکڑے بکھر گئے ہیں ہمارے شہر کے۔۔۔

    وہ دیکھیے۔۔۔ دنیا کاسب سے بڑا تاجر بش بھی بہت اونچی بولی لگا رہا ہے۔

    مگر ہم باہر کے شہریوں کو کیوں گھسنے دیں؟ کیا ہمارے پاس لوٹنے والے ڈاکوؤں کی کمی ہے؟

    آپ جو ہیں۔۔۔ آپ جیسے سیٹھ ساہوکار تو ایک شہر کیا۔۔۔ چاند کے اوپر بھی پلاٹ خریدنے اور بیچنے کی اڈوانس بکنگ کرچکے ہیں۔

    ڈالر کا بھاؤ ان کےاشارے پہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔

    اور اسی حساب سے عوام کا معیار گھٹتا بڑھتا جاتا ہے۔

    اگر آپ کو کہیں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا ہے۔ مسجدوں اور مندروں، ہوٹلوں میں بم دھماکے کرنا ہیں تو آپ کو بے شمار ہندو، مسلم بے روزگار بے سہارا نوجوان ہم سپلائی کرسکتے ہیں۔ ننگی کرنے، روند ڈالنے کے لیے عورتیں۔ فٹ پاتھ کی دوکانیں۔ جھونپڑپٹی کی بستی۔ مسجدوں، مندروں میں عبادت کرتے ہوئے لوگ۔۔۔ سڑکوں پر جانے والے بچے۔۔۔ عورتیں۔۔۔ اس سب کو منٹوں میں جلاڈالنے کاکام ہم کرسکتے ہیں۔۔۔ اس بازار میں ہر چیز بک رہی ہے۔ انصاف، مذہب، تہذیب، قانون۔۔۔ اور ان کی لوٹ مار کے ہنگامے بھی ہوجائیں گے۔

    یہ دیکھیے۔۔۔ تباہی کے ایسے ہولناک مناظر کہ پورا میڈیا۔۔۔ ٹی۔وی کاہر چینل وہ دہشت ناک مناظر بار بار دکھائے گا۔

    ان ہنگاموں کے خلاف منسٹروں کے وہ بیان بھی ہمارے ہاں تیار ہیں جووہ ایسے ہنگاموں کے بعد ٹی۔وی پر دیا کرتے ہیں۔

    عوام سے لیڈروں کی ہمدردی کے ڈائیلاگس بھی تیار ہیں۔

    عوام کو پہلے پتھروں سےمارتے تھے۔ پھر ہتھیاروں سے۔

    اب فرقہ پرستی کی آگ پھیلانے کے لیے اس آگ کو عوام کا ایندھن ڈال کر ہی بھڑکا دیا جاتا ہے۔ جی نہیں اب کسی لیڈر کو اللہ اور بھگوان کی ضرورت نہیں ہے۔

    اس لیے عوام کی بات سب کرتے ہیں اور مذہب کا بیوپار کرنے والے مولوی پنڈت بھی کرتے ہیں۔

    جی۔۔۔ ہم جانتے ہیں سرکار۔۔۔ ہم جیسےلاکھوں آپ کی جیب میں ہیں۔

    آپ ہر ایک چیز خریدنے کا کریڈیٹ کارڈ اپنے پرس میں رکھتے ہیں۔

    آپ افغانستان کو خریدسکتے ہیں اور ایران کو بھی۔ عراق بھی آپ کی جیب میں ہے یہاں بھی آپ کو ہرچیز مل جائے گی جس کی آپ کو ضرورت ہے۔

    یہ اسپیر پارٹس کی دوکانیں ہیں۔۔۔

    وہ دیکھیے۔۔۔ دل۔۔۔ خون۔۔۔ آنکھیں۔۔۔ گردے بیچنےوالے غریب لوگوں کی لمبی قطار ہاسپٹل کے سامنے کھڑی ہے۔۔۔ اور اندر ہاسپٹل کے ڈاکٹر انھیں چیرپھاڑ کر خریدنے والوں کے حوالے کر رہےہیں۔

    اب موت، حیات اوپر والے کے ہاتھ میں نہیں رہی۔۔۔ خریدنے اور بیچنے والوں کے پاس ہے۔ اب ماں۔۔۔ باپ۔۔۔ بیٹا۔۔۔ بیٹی۔۔۔ محبوبہ کمپیوٹر کا بٹن دباتے ہی آپ کے پاس آجائیں گے۔

    انسانی بدن کے۔۔۔ پارٹس کی اس دوکان پر خریدنے اور بیچنے والوں کارش ہے۔

    یہاں انسان کے بدن کا ہر ٹکڑا مل جاتا ہے۔

    آپ کو کیا چاہیے۔۔۔؟

    عورت کاسینہ۔۔۔؟ لیڈر کی زبان۔۔۔؟ بچوں کے ہاتھ پاؤں۔۔۔؟

    مزدور کا بدن۔۔۔؟ لیڈر کا دماغ۔۔۔؟

    ہم ہر طرح کا گوشت سارے شہر کو سپلائی کرتے ہیں۔

    گورنمنٹ کی ہر پارٹی کابار بی کیو ہم تیار کرتے ہیں۔

    جی ہاں۔۔۔ وہ سامنے سب شاندار بیوٹی پارلر ہیں۔

    آپ جس دن جس سیاسی پارٹی میں گھسنا چاہیں ۔۔۔ منٹوں میں ہوجاتا ہے۔ میک اپ مین آپ کو وہاں پر ہرپارٹی کے رنگ میں رنگ سکتے ہیں۔

    آپ چاہیں تو ایک پارٹی کا شاعر بن کر کسی منسٹر کی شان میں قصیدہ پڑھیے۔۔۔ اور دوسری پارٹی کا شاعر بن کر اس کی ہجو سناڈالیےاور۔۔۔ زور زور سے اعلان کیجیے۔۔۔

    ہم کب آتے بھلا فریب میں ہےتم سے لاکھوں ہماری جیب میں ہیں۔

    ذرا سی دیر میں آپ نہرو جیکٹ پہن کر، سر پر ٹوپی رکھ کر گاندھی جی کے چیلے بن سکتے ہیں۔ اور پھر تیسری پارٹی کی طرف جاتے وقت ہم آپ کو بھگواکلر میں ڈبودیں گے۔

    ساتھ ہی سب پارٹیوں کے لیڈروں والے ڈائیلاگس بھی تیار ہیں۔

    ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہیں آپ۔۔۔؟

    کیا۔۔۔؟ آپ کو ایک تجربہ کارخطرناک مجرم کی تلاش ہے۔۔۔؟ اسے تو آپ پارلیمنٹ کی کرسیوں پر جا کر پکڑ لیجیے۔۔۔ اس بازار میں وہ نہیں ملیں گے۔

    جی۔۔۔؟ کیا کہا آپ نے۔۔۔؟ آپ کو ایک ایسا آدمی چاہیے۔۔۔ بغیر بینائی والی آنکھیں۔

    سوچ سے خالی ذہن۔۔۔ چیخنے چلانے والاشاندار آدمی چاہیے۔۔۔؟

    اچھا۔۔۔ تو آپ کو ایک منسٹر کی تلاش ہے۔۔۔؟ انھیں ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے صاحب؟

    آج کل تو عوام سے زیادہ ہمارے منسٹر ہیں۔ اب منسٹر بننے میں کوئی مشکل نہیں رہی صاحب۔ شاید آپ الیکشن میں کھڑے ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔۔۔

    تو پھر اس طرف جائیے آپ۔۔۔ وہاں ہر پانچ برس کے بعد الیکشن ہوتاہے۔ وہاں آپ کسی بھی پارٹی کا لیڈر اپنی پارٹی کے لیے خریدسکتے ہیں۔۔۔

    آج کل وہاں بھی ری ڈیکشن سیل چل رہا ہے۔۔۔

    ذرا سنئے۔۔۔ وہ آپ کو بلا رہے ہیں۔۔۔ ان کا بھاشن تو سن لیجیے۔۔۔

    آپ نے پہلے ہماری پارٹی کو ووٹ دیا تھا؟

    میرے دادا اسی شہر سے کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ غریبوں کو گھر دیں گے۔ دوروپے کلو چاول دیں گے، پانی، بجلی کی کمی، مہنگائی کو ختم کردیں گے۔ گاؤں کی جھونپڑیاں ہٹاکر ایک نیا گاؤں بنادیں گے۔

    میرے پتاجی نے بھی آپ سے یہی وعدہ کیا تھا اور الیکشن جیت گئے تھے۔

    میں بھی آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ الیکشن جیتنے کے بعد ساری جھونپڑیاں ٹوٹے پھوٹے مکان ہٹاکر یہاں شاندار بلڈنگیں بنادوں گا۔ آپ سب ان ٹوٹے پھوٹے نگروں سے نکال دیےجائیں گے۔ (تالیاں)

    ایک نظرادھر بھی۔۔۔

    ذرادیکھیے۔۔۔ اس بازار میں ہر چیز بک رہی ہے۔

    اس شوکیس میں نوعمر لڑکیوں کا تازہ اسٹاک آیا ہے۔ ابھی جو شہر میں بم دھماکے ہوئے وہاں سے منگوائی گئی ہیں۔

    دور کیوں کھڑے ہیں۔۔۔ آگے آئیے حضور۔۔۔

    جی ہاں۔۔۔ آج کل میڈیا نےعورت کے کپڑے اتاردیے ہیں۔۔۔ قریب جائیے۔۔۔ عورت۔۔۔ جانور۔۔۔ ڈھول۔۔۔ یہ سب مارپیٹ کر ٹھیک کیے جاتے ہیں۔

    اگر آپ کواپنے لیے باپ چاہیے۔۔۔ بیوی کے لیے شوہر۔۔۔ بچے کے لیے باپ کی ضرورت ہے تو یہاں ہر کردار ادا کرنے والے ایکٹر موجود ہیں۔

    ہمیں ان سب کو ختم کرنا ہے جو ابھی تک سچ بولتے ہیں۔۔۔ انسانوں کے بیچ نفرت کی دیوار نہیں اٹھاتے۔۔۔ مذہبی راہنما۔۔۔ سیاسی لیڈر۔۔۔ یہ کردار اداکرنےوالے یہاں مل جائیں گے۔

    اگر آپ روزگار چاہتے ہیں تو ہر پوسٹ کے لیے اپلائی کرسکتے ہیں۔ مذہبی راہنما، جیوتشی۔۔۔ لیڈر۔۔۔ خدا اور بھگوان کے لیے اب بہت کم نوجوان اپلائی کرتےہیں۔ بڑا جھنجھٹ ہے نا اور اب خدا کی مسند پربیٹھ کر ساری دنیا پر خدائی کرنے کا اختیار لیذر نے لے لیا تھا۔۔۔ ہم اپنی ہر چیز لیڈر کے ہاتھوں بیچ چکے ہیں۔

    ہمارا کلچر۔۔۔ عزت۔۔۔ ہمارے سارے اچھے ہنر مند نوجوانوں کو خریدنے کے لیے امریکہ کے ون ڈالر شاپ پر نوجوانوں کی قطار لگی ہے۔

    اگر آپ ہمارے شہر کو خریدنے کی قیمت لے کرنہیں آتے ہیں تو ہمارے شہر کو رہن رکھ لیجیے۔۔۔

    ہم اپنا شہر کئی بار بیچ چکے ہیں۔۔۔ راجاؤں مہاراجاؤں کے پاس۔۔۔ فرنگی لیٹروں کے پاس۔۔۔ آج بھی ہر پانچ برس بعد اس شہر کا الیکشن ہوتا ہے۔

    جی ہاں۔۔۔ یہاں ایک ٹریننگ کالج بھی ہے جہاں لیڈر بننے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ لیکن فیس بہت زیادہ ہے۔۔۔ آپ کو ایک فارم دیا جاتا ہے۔

    اس فارم میں لکھنا پڑتا ہے۔

    عمر۔۔۔؟

    قابلیت کے سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

    پہلےکبھی لیڈر بنے تھے۔۔۔؟ بنے ہو تو کس پارٹی میں کتنے دن رہے۔۔۔؟

    اب تک کتنے قتل کیے ہے۔۔۔؟

    کس پارٹی کی لیڈر شپ کتنے دنوں کے لیے چاہیے۔۔۔

    اس پیپر پر سائین کرو کہ ہمارے بنائے ہوئے پروگرام پر عمل کروگے۔

    اس لیڈر شپ کو چھوڑنے سے پہلے کسی بڑی چوری کے اس کام میں حصہ لوگے۔

    آدھامال ہمارا ہوگا۔

    اپنی منسٹری کے کسی کام سے کوئی واسطہ نہیں رکھوگے۔۔۔؟

    جی۔۔۔؟ کیا کہا آپ نے۔۔۔؟

    آپ لیڈر بننا نہیں چاہتے۔۔۔

    اچھا۔۔۔؟ توآپ ایک ادیب، ایک فن کار کو خریدنےکے لیے آئے ہیں۔۔۔؟

    ٹھہریے۔۔۔ آگے مت جائیے۔۔۔ وہاں ادیب، موسیقار۔۔۔ فن کار رہتے ہیں۔ وہ نہ کسی کی جیب میں جاتے ہیں اور نہ کسی کی جھولی میں گرتے ہیں۔

    انھیں خریدنے کے لیے تو سیاسی لیڈر بھی آتے ہیں اور مذہبی راہنما بھی۔۔۔

    وہ سب اپنی سی کر کے ہار گئے۔۔۔

    اُدھر۔۔۔ دیکھیے۔۔۔ میڈیا! ایک کو ہیرو بناکر ٹی۔وی کے ہر چینل پر ان کے دن رات کا پروگرام دکھا رہی ہے۔ آج انہوں نے کیا کھایا؟ ان کا موڈ کیسا رہا۔۔۔؟ آپ بھی اس شہر کو خریدنے کے لیے بولی لگائیے۔

    ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے