میں نے جب اپنے خریدے ہوئے خوبصورت کھلونوں کو ڈھیر کی شکل میں لاپرواہی سے ایک کونے میں پڑا ہوا دیکھا تو مجھے دکھ سا ہوا۔یہ کھلونے کتنے چاؤ سے لائی تھی میں اس کے لیے۔ یہ چھوٹا سا پیانو۔۔۔ یہ جلترنگ۔۔۔ یہ چھوٹی سی گٹار، چہکنے والی ربر کی بلبل، ٹیں ٹیں بولنے والا طوطا، اور ڈرم بجاتا ہوا ٹیڈی بیئر اور سب سے بڑھ کر یہ Synthesiser جس میں سو قسم کی دھنیں تھیں، جن سے کئی اور دھنیں بن سکتی تھیں۔ جس میں موسیقی کے ہر آلے کی آواز تھی۔
مگر اس نے انھیں چھوا تک نہ تھا۔ وہ تو ایسے کھلونوں کا عاشق تھا۔ کیا وہ خود کو اب میرا نہیں سمجھتا یا اب اسے مجھ سے محبت نہیں رہی۔وہ جسے میں نے دل کے ایک ٹکڑے کی طرح برسوں سینے میں چھپائے رکھا۔ وہ جس نے میری مجروح ممتا پر اس وقت اپنی معصومیت کا پھاہا رکھا تھا جب میرے دامن میں کھِلنے والا پہلا پھول چند سیکنڈ کے بعد ہی مرجھا گیا تھا۔ جب میرے ہونٹوں پر لوریاں صدا پانے سے پہلے ہی بےسُر ہو گئی تھیں اور روٹھی ہوئی نیند کو میں نصف شب تک رو رو کر، کروٹیں بدل بدل کر منانے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ تب ایک سرد رات کے گیارہ بجے میرے شوہر اسے گود میں لیے ہوئے لوٹے۔ اس نے ٹویڈ کا دھاریوں والا ننھا سا پھرن پہن رکھا تھا اور مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنی غیرمعمولی لمبائی والی منی منی پلکیں پھڑپھڑا کر کسی روبوٹ کی طرح جلدی سے کہا تھا،
آنتی مت لوئیے۔ میں آ گیا۔ اب مت لوئیے۔
کہ اس کے انکل جنھیں وہ اکل جی کہتا تھا اسے راستہ بھر یہ ہی سکھا کر لائے تھے۔ میں مسہری سے اٹھ کر آنسو پونچھتی ہوئی ان کے قریب گئی اور اسے گود میں لے کر سینے میں چھپا لیا۔ اس کے سردی سے ٹھٹھرے چہرے کو میں نے جلتے ہوئے کلیجے سے لگا لیا۔ میرے دل سے خون رسنا تھم گیا۔ اس کے گھنگھریالے بالوں کو میں نے آنسوؤں سے دھو دیا۔
نہیں روؤں میں؟ کیا تم میرے پاس رہو گے۔ اپنی ماما کے پاس نہیں جاؤ گے؟ آنٹی کے ہی پاس رہ جاؤگے بولو؟
ہاں آنتی پاش رہ جاؤں گا۔ لوج لوج مجھ کو بکی ا ور چال کیٹ دوگے؟
اس نے اپنا ادھ چبا چاکلیٹ منھ میں ڈالنے کی کوشش میں اپنے گال پر مل لیا اور خرگوش کی سی تیزی سے سر ادھر ادھر ہلا کر پوچھا۔ پھر پھرن کی اس جیب میں ہاتھ ڈال دیا جس میں کچھ اور چاکلیٹ اور بسکٹ تھے۔
میری تڑپتی ہوئی ممتا کو صبر آ گیا۔
وہ میری بہن کا بیٹا تھا اور میرے شوہر بظاہر میری تڑپ کو بہلانے اور اصل میں خود اپنے دل کے قرار کی خاطر اس دن اسے اس کے گھر سے لے آئے تھے۔ اس کی قربت پا کر میں بھول گئی کہ میری ممتا کے ساتھ اتنا بڑا ناخوشگوار حادثہ پیش آیا تھا۔ بھولی نہیں بھی تھی مگر بہل ضرور گئی تھی۔ وہ مہینوں میرے پاس رہتا اور کبھی اس کی امی اسے لینے آتی تو باقاعدہ وعدہ کر کے جاتا کہ کب لوٹےگا۔ پھر میرے پاس آنے کے لیے ان کی ناک میں دم کر دیتا اور طے شدہ وقت سے پہلے ہی چلا آتا۔ اس کی ماں بھی اسے کچھ زیادہ نہ روکتی کہ میرا درد وہ جانتی تھی۔
وہ واپس آ جاتا تو بہار آ جاتی گھر میں۔ اس کی عادتیں بھی دل موہ لینے والی تھیں۔ فطرت کا اس قدر عاشق کہ ہر وقت باہر لان میں کھیلتا۔ کمروں میں تو جیسے اسے اپنا آپ مقید محسوس ہوتا۔ میری انگلی پکڑ کر کھینچتا ہوا، ننھے ننھے جوتے پہنے چھوٹے چھوٹے تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باہر لے جاتا۔ کبھی پھولوں پر غور کرتا یا کسی تتلی کا پیچھا کرتا ہوا، کبھی گھاس میں چھپے مینڈکوں کو بھگاتا ہوا گیٹ سے باہر نکل جاتا۔ جہاں چنار کے بہت سے پیڑوں کے پرے جھیل نظر آتی تھی۔ وہاں پہروں ایک جگہ کھڑا جھیل کو دیکھتا رہتا۔ یا چنار کے بڑے سے تنے پر چھوٹا سا ہاتھ دھر کر گول گول گھومتا۔ یا اس کے کھوکھلے تنے میں چھپ کر مجھے تلاش کرنے کو پکارتا۔ میں کتنی بار اندر چلی جاتی کہ پیچھے پیچھے آتا ہوگا مگر مجھے پھر باہر جانا پڑتا اس کی تلاش میں اور اسے اپنی دھن میں مگن ہری ہری گھاس پر لیٹا ہوا نیلے نیلے آسمان کو تاکتا ہوا پاتی۔ وہ صبح سے شام کر دیتا کہ پرندے بولنے لگتے۔ کئی طرح کے پرندے چناروں کی اونچی نیچی شاخوں پر آ بیٹھتے اور اپنے اپنے آشیانوں میں شب بھر چھپ جانے سے پہلے کچھ دیر ان ٹہنیوں پر سستاتے چہکتے ایک لطیف سا شور برپا کر دیتے۔ اور وہ اس میں کھو جاتا۔ مجھ سے ان کے نام پوچھتا اور یاد رکھتا۔یہ بلبل ہے، یہ پپیہا ہے، یہ کستوری ہے، یہ ابابیل ہے، یہ فاختہ ہے، یہ مینا ہے۔۔۔ اور ہر پرندے کی بولی پہچان لیتا اور ہو بہو نقل اتارتا۔ جب کوئی پرندہ نیچے کی ٹہنیوں سے اڑ کر اوپر گھنی شاخوں میں کہیں گم ہو جاتا تو وہ پہروں گھوم گھوم کر اسے تلاش کرتا۔
کوئی نیل کنٹھ پاس کی جھیل سے اپنی لمبی نیلی چونچ میں کوئی تڑپتی ہوئی روپہلی مچھلی آڑھی دبوچ کر لاتا اور اسے سیدھی نگل جانے کی دھن میں بار بار اگلنے لگتا اور ناکام ہو کر کسی اونچی موٹی سی ٹہنی پر اسے پٹخ پٹخ کر کھاتا تب وہ بھاگ کر اندر سے اپنی ننھی سی دوربین اٹھا لاتا اور باقاعدہ مشاہدہ کرتا۔ مجھے بھی اس کی ذہین بھول پن کو نہارنے کے علاوہ اور کسی کام میں لطف نہ آتا۔ اس کے ایسے ہی بھول پن اور محویت کا فائدہ اٹھا کر میں اسے کھِلا پلا دیتی ورنہ فطرت کے اس پرستار کو میں باہر سے اندر لانا اگر بھول جاتی تو وہ کہیں باہر ہی سو جاتا، چاند کو سوچتا ہوا۔ تاروں کو دیکھتا ہوا اور صبح جب اسے شبنم جگاتی تو شاید وہ پھر کسی ہُدہُد کو مٹی کی ننھی ننھی ڈھیریوں میں سے چھوٹے چھوٹے کیڑے ڈھونڈتے ہوئے دیکھنے میں کھو جاتا۔
میرے شوہر کہیں شہر سے باہر جاتے تو فون پر اسی کی باتیں کرتے مجھ سے۔ ہماری زندگیوں کا حصّہ بن گیا تھا وہ۔ ذہین بےانتہا تھا وہ، یادداشت غضب کی۔ موسیقی کا دلدادہ ایسا کہ کسی دن دھول میں اٹا سِتار کا غلاف اتار کر میں اسے بجانے لگتی تو دیکھتی کہ وہ بغیر تھکے تقریباً پون گھٹنہ اپنے ہی انداز میں اپنا ایجاد کیا ہوا کوئی رقص کرتا رہتا۔ اس کے ننھے منے ہاتھ پیر نہ تھکتے۔ کبھی ایک ٹانگ آگے کو جا رہی ہے کبھی پیچھے کو۔کبھی سامنے کے تکیے پر ایک آدھ لات رسید کی جا رہی ہے۔ کبھی ایک ٹانگ سے یا کبھی دونوں ٹانگوں سے کودا جا رہا ہے۔ دونوں ہاتھ ہوا میں لہرائے جا رہے ہیں ۔ سر بائیں کو مڑتا پھر تھوڑی دیر بعد دائیں کو۔اور اس طرح کی ہر حرکت میں میں دیکھتی کہ ایک رِدھم ہوتا۔ وہ جھوم جھوم جاتا۔ پسینہ پسینہ ہو جاتا۔ میں دیکھ دیکھ کر ہنستی۔ پھر سِتار چھوڑ کر اسے گود میں بھر لیتی۔ وہ حیرت سے دیکھتا کہ آخر ایسا کیوں ، پھر اور بجانے کی ضد کرتا۔ میں بہلانے لگتی:
ذرا آنکھیں بند کرو۔وہ آنکھیں میچ لیتا۔
یہ لمبی پلکیں کہاں سے لائے۔
باجار سے۔وہ بھول پن سے جواب دیتا۔
کتنے میں۔۔۔؟
دو لوپے میں۔ وہ آنکھیں پھیلا کر ابرو اٹھا کر دو پر زور دے کر کہتا۔ یہ بھولی بھالی باتیں مجھے زندگی کا احساس دلائے رکھتیں۔ اس کی آمد سے میرا ذہنی تناؤ دور ہو گیا تھا۔
اللہ نے میری بھی گود بھر دی۔
وہ کچھ بڑا ہوا تو اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اب وہ صرف Week End پر آتا۔ پھر سال بھر بعد ہمارا ٹرانسفر ہو گیا۔ ہم وہاں سے چلے آئے۔
اس کی جدائی کا غم پتھر کی سِل کی طرح سینے پر رکھا تھا۔ میں نے ہمیشہ اسے پہلوٹھی کے بیٹے کی طرح چاہا اور اس سے الگ ہو کر اس کے لیے ایسے ہی تڑپی جیسے ماں بچے سے بچھڑ کر تڑپتی ہے۔ اسی نے تو اپنے بچپن کو پہلے پہل میری گود میں جگہ دی تھی۔ مجھے ممتا اور محبّت سے آشنا کرایا تھا۔
وہ بھی ہم دونوں کو برابر یاد کرتا۔ ہم سے ملنے کو مچلتا۔ فون ہی کچھ تسلی تھا دل کو۔ کافی دیر بات چیت چلتی۔ میں فون پر کہتی کہ ذرا آنکھیں بند کرو۔ وہ فوراً آنکھیں بند کرتا میں پوچھتی کہ یہ پلکیں کہاں سے لائے تو ویسی ہی سنجیدگی سے کہتا کہ باجار سے۔ دو لوپے میں۔ اس کے چھوٹے سے دماغ میں یہ خیال نہ آتا کہ میں تو اس کی بند پلکوں کو دیکھ ہی نہیں سکتی۔اُس کی امی مجھے بتایا کرتیں۔
پھر ایسے ہی دو تین سال گزر گئے۔ کبھی فون Connect ہوتا کبھی کئی دن گزر جاتے۔ میرے دل سے اس کی محبّت ذرا کم نہ ہوئی۔ اس کی یاد میں میری آنکھیں بھر آتیں، چھلک جاتیں۔ دل اُسے ایک نظر دیکھنے کو تڑپ اٹھتا۔ باہیں اسے سینے سے لگانے کو مچلتیں۔ روح جدائی کے غم سے درد کرتی۔ اور میں دل پر پتھر رکھ لیتی۔ اپنے بچوں میں صبر ڈھونڈ لیتی۔ کہ صبر کرنا میں نے اسے پا کر ہی سیکھا تھا۔
ایک عرصے سے ہم بھی اور وہ لوگ بھی ملنے کا پروگرام بنانا چاہتے تھے اور ملاقات تھی کہ طے ہی نہ ہو پاتی تھی۔ کچھ یہاں کا موسم کچھ ادھر کے حالات۔۔۔
اب کے سردیاں شروع ہوئیں تو وہ لوگ سچ مچ ہی آ گئے۔ مجھے تو انھیں دیکھ کر بھی ان کی آمد کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ ا سکا قد تھوڑا سا لمبا ہو گیا تھا۔ تتلاہٹ ختم ہو گئی تھی۔ پہلے سے کچھ کم گو ہو گیا تھا۔ مگر دیکھنے میں ویسا ہی پیارا۔ دل موہ لینے والی صورت۔ کالی کالی بھولی سی آنکھیں۔ لمبی گھنی پلکیں۔ سیب ایسے گال اور سرخ سرخ کان۔ ہاتھ پاؤں وہی گورے، مکھن کے پیڑوں ایسے۔ مجھ سے لپٹا تو میں رونے ہی لگ پڑی اور وہ کتنی ہی دیر ہنستا چلا گیا۔ میں نے ہچکیاں لیتے ہوئے مسکرا کر کہا:
ذرا آنکھیں بند کرو۔
اس نے آنکھیں جھکا لیں۔ میں نے پوچھا یہ پلکیں کہاں سے لائے تو شرما کر مسکرا دیا۔ میرے گھر میں بہاریں آ گئی تھیں۔ گھر میں کھانا اسی کی پسند کا بنتا۔ میں اسے طویل Drive پر لے جاتی۔ میرا سارا وقت اس کا ہو گیا تھا۔ مجھے میری گم گشتہ جنت مل گئی تھی۔
ایک دن صبح صبح گولیاں چلنے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ بھاگی بھاگی باہر نکلی تو دیکھتی ہوں کہ وہ بالکنی میں کھڑا منھ سے مختلف قسم کی گولیاں چلنے کی آوازیں نکال رہا تھا۔ ایسی مہارت سے کہ ان کے نقلی ہونے کا شک تک نہ گزرے۔
یہ سارا قصور میرا ہی تھا۔ وہ کتنے دن سے آیا تھا اور میں اس کے لیے ایک بھی کھلونا نہیں لائی تھی۔ اسی دن شام کو میں اس کی پسند کے کھلونے خرید لائی۔ جب وہ سو گیا تو میں نے وہ سارے کھلونے اس کی مسہری پر سجا دیے کہ صبح جاگتے ہی دیکھے گا تو کتنا خوش ہوگا۔ دوسرے دن اتوار تھا۔ میں ذرا دیر سے جاگی۔ دیکھا کہ سارے کھلونے ایک طرف کو ایک ڈھیر کی شکل میں رکھے ہوئے ہیں اور وہ غائب۔ میں نے اس کی ماں سے پوچھا تو بولیں کہ سب بچّے بڑے کمرے میں کھیل رہے ہیں۔
بڑے کمرے کے دروازے پر اس کی منّی سی بہن ہونٹوں پر انگلی رکھے پہرا دے رہی تھی۔
شی ادھر نہیں جانا۔فائرنگ ہو رہی ہے۔وہ مجھے خبردار کرتے ہوئے سرگوشی میں بولی۔ اندر جھانکا تو عجیب منظر دیکھا۔ سارے گھر کے تکیے اور سرہانے ایک کے اوپر ایک اس طرح رکھے ہوئے تھے جیسے ریت کی تھیلیاں رکھ کر مورچے بنائے جاتے ہیں ۔ وہ درمیان میں اوندھا لیٹا ہوا ایک بڑی سی لکڑی کو بندوق کی طرح پکڑے منھ سے مختلف طرح کی گولیوں کی آوازیں نکال رہا ہے اور اس کے دائیں بائیں میرے دونوں بچےّ اپنی چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی بندوقیں لیے اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ جیسے حکم کرتا وہ دونوں ویسا ہی کرتے کبھی ایک بھاگ کر ایک کونے میں گھستا، کبھی دوسرا دوسرے کونے میں یہ ہی عمل دہراتا۔ کبھی ایک بک ریک کی آڑ میں ہو کر دوسری طرف کودتا۔ کبھی دوسرا الماری کے پیچھے چھپ کر، جست لگا کر دیوا رکے ساتھ چپک جاتا۔ اور وہ خود مورچہ سنبھالے کبھی ان کو ہدایت کرتا کبھی ان پر بندوق تان دیتا۔
اب یہ ہی اس کا پسندیدہ کھیل تھا۔
وہ میٹھی بولیاں، وہ رقص، وہ موسیقی۔۔۔ وہ بھول گیا تھا اور یہ سب یاد دلانے کے لیے میں شاید اسے کہیں نہیں لے جا سکتی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.