Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یوں بھی ہوتا ہے

احمد طفیل

یوں بھی ہوتا ہے

احمد طفیل

MORE BYاحمد طفیل

    سفر کا آغاز تو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ہی ہوگیا۔ شاید اس وقت جب اس نے اس تحقیقی کورس میں داخلہ لیا تھا۔ اس وقت جب اسے ایک نہایت ہی نامور شاعر کے فن پرتحقیقی مقالہ لکھنے کاکام دیا گیا تھا۔ یا شاید اس سے بھی پہلے مگر اس نے اس سفر پرروانہ ہونے سے پہلے کوئی خاص تیاری نہیں کی تھی ضرورت بھی کیا تھی۔ اس نے کوچ کے ذریعے آدھی رات کو روانہ ہونا تھا۔ صبح سویرے وہ منزل پرپہنچ جاتا۔ کام صرف اتنا تھا کہ شاعر کی بیوہ سے مختصر انٹرویوکرنا تھا۔ دوپہر یا زیادہ سے زیادہ سہ پہر کو روانہ ہو کر وہ واپس آجاتا۔

    سردیوں کی دھندلی رات میں جب کوچ اپنے سفر پر روانہ ہوئی تو سڑک دھند سے لبریز تھی۔ کوچ کی طاقت ور روشنیوں کے باوجود زیادہ دور تک دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے کوچ آہستہ روی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف چلی تو اس نے حسب عادت کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کیا۔ لیکن شہر سے نکلتے ہی وہ اپنی کھڑکی سے چند فٹ سے زیادہ نہیں دیکھ سکتاتھا۔ کہیں کہیں دور روشنی سی جھلملاتی دکھائی پڑتی مگر کبھی گمان گزرتا کہ اس کی نظر کا دھوکا ہے۔

    اس نے آنکھیں بند کر لیں اس کے ذہن کے منظر پر شاعر کی شبیہ ابھری۔ ایک دردماندہ فرد جس نے اپنی زندگی کسما پرسی اور گمنامی میں گزاردی مگر جس کی موت کے بعد اس کی شہرت اور شاعرانہ عظمت کا آغاز ہوا اور اب اسے بلاشبہ اپنے عہد کا سب سے اہم شاعر قرار دیا جارہا تھا۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے جو زندگی اس نے گزاری تھی اس کامداوا ممکن نہ تھا۔اس نے اپنے ذہن میں بننے والی شہر کی شبیہ پر اپنی توجہ مرتکز کرنے کی کوشش کی شاعر کے چہرے پر سب سے نمایاں چند اس کی تیکھی ناک تھی۔ چھوٹی مگر گہرائی میں اترتی آنکھیں دوسرے نمبر پر آتی تھیں۔ اس وقت نجانے کیوں یہ شبیہ اس کے ذہن میں واضح نہیں ہو پارہی تھی۔ ورنہ اس نے شاعر کی تصویریں اتنی بار دیکھی تھیں کہ اسے چہرے کی ایک تفصیل یاد تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے باہر کی دھند اس کے ذہن میں غبار کی شکل اختیار کر رہی تھی۔

    ایسے میں ایک بات ذرا ہٹ کرتھی اور وہ اس کے اندر دبادبا جوش اورجذبہ تھا ایک تواس نے جب اپنے مقالے کے لیے موضوع کا انتخاب کیا تو یہ اس کی اپنی پسند تھی۔ آگے چل کر گرچہ اسے بعض اوقات مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اپنے نگران کی تسلی کے لیے کچھ باتیں اپنے مزاج کے خلاف بھی برداشت کرنا پڑیں۔ مگر اس کے باوجود موضوع کے ساتھ اس کی ذہنی و جذباتی قربت میں کوئی فرق نہ آیا۔ بلکہ جیسے جیسے وہ شاعر کی شاعری اور اس پر ہونے والی تنقید پڑھتا گیا۔ شاعر کے لیے اس کی محبت اوراپنائیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ شاعر نے حیات و کائنات کے معاملات پر نہایت غوروفکر کے بعد انہیں نہایت سادگی اور سہولت سے بیان کر دیا تھا۔ شاعری میں فکری الجھنیں تو تھیں اور کہیں کہیں شاعر کے استعارے بھی تفہیم میں حائل تھے مگر شاعری کو سمجھنے کی تگ و دو وہی تو وہ اصل بات تھی جو مسرت بخش تھی۔

    شاعر کے بارے میں ایک بات اسے گومگو میں مبتلا کرتی تھی وہ اس کی ذاتی زندگی اور شاعری کا تضاد تھا۔ زاہد خشک کی زندگی، مایوسیوں، بے بسوں اور درماندگی سے پرخوشیوں، مسرتوں سے دور مگر قناعت کا عمدہ نمونہ۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ ذاتی زندگی اور شاعرانہ زندگی اس شاعر کے ہاں ٹرین کی دو پٹڑیوں کے طرح متوازی کیوں چلتی رہیں۔ ساتھ ساتھ مگر کہیں بھی ایک دوسرے سے ملاپ کے امکان سے محروم۔ چلتی کوچ میں نیم خوابیدگی کے عالم میں وہ اپنے اندر ایک دبا دبا جوش ضرور پاتا تھا۔ اس شاعر کی بیوی کے روبرو ہونے اس سے شاعر کی نجی زندگی کے بارے میں پوچھنے، کچھ ایسے گوشوں سے پردہ اٹھانے جو ابھی تک نظروں سے اوجھل ہیں۔

    خود اسے شاعر کی نجی زندگی سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور وہ اس کرید کے لیے خود کو آمادہ بھی نہیں پاتا تھا۔ مگر تحقیق کے اپنے معاملات ہیں۔ نگران کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے اپنے نتائج ہیں جن سے وہ ہر ممکن بچنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ نجی محفلوں میں اس بات پر طنز کے نشتر ضرور چلاتا کہ ہمارے بڑے محققین، جب تک اچھے بھلے تخلیقی موضوع پر یبوست کی نقد نہ بیٹھادیں۔ سند جاری نہیں ہونے دیتے۔ رٹے رٹائے حوالے، چند پروفیسروں کی تحریروں سے اقتباس۔ تنقید کے نام پر گزرے ہوئے نقادوں سے اتفاق کیوں کر اختلاف کی گنجائش کم ہوتی ہے اور ا س کے نتائج دور رس اس نے اپنے ذہن میں آنے والے ان تصورات کو جھٹکنے کی کوشش کی۔

    زندگی بھی انسان سے کیسے کیسے کھیل کھیلتی ہے۔ ایک طرف دولت اور آسائشوں کے ڈھیر اور دوسری طرف محرومیوں اور غربت کے انبار، مگر اصل اہمیت کس بات کی ہے۔ زندگی میں چمکتی دھمکتی آشائیوں کی یا خود میں مگن اپنی دھن میں زندگی جانے کیسے بسر کی۔ تو اس نے جس شاعر پر کام کا آغاز کیا تھا وہ بھی اپنی دھن میں مگن رہ کر گزارتی ہے تو پھر شہر چھوٹا ہو تو تب کیا اور بڑا ہو تو جب کیا۔ اس شاعر نے بھی اپنی زندگی ایک چھوٹے سے شہر میں بسر کر دی تھی۔ اس شہر کے درمیان سے ایک نہر گزرتی تھی۔ گرمیوں کی شاموں میں وہ نہر کے کنارے جب اپنی سائیکل پررواں ہوتا تو اس کو اپنے ساتھ ایک کائنات سفرمیں دکھائی دیتی وہ ستاروں کی چال سے کائنات کے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتا اور ایک بارتاجر پیشہ لوگوں نے جب نہر کے کنارے آگے ہرے بھرے چھتناور کاٹ دیتے تو اس کا تخلیقی وجدان دکھ اور قرب کی قندیل سے روشن ہو گیا۔ اسے محسوس ہوا یہ درخت نہیں کٹے بلکہ اس کے ماہ وسال کسی نے زندگی سے کاٹ کر پھینک دئیے ہیں۔

    اس نے اپنی توجہ شاعر کی تصویر پر جمانے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں میں دھندلا دھندلا چہرہ ابھرا۔ چند تصاویر کے علاوہ ایک ٹی وی ریکارڈنگ کی ویڈیو، دھیمی آواز، مکالمہ اتنا آہستہ رو کہ خود کلامی کا گمان گزرتا۔ اس نے وہ ویڈیو کئی بار دیکھی تھی اور ہر بار اس کا شک پختہ ہو گیا تھا کہ اپنے ٹی وی انٹرویو کے دوران بھی وہ روشنیوں کمروں اور میزبان سے لاتعلق کہیں اپنے آپ میں گم ہے۔ اپنے ارد گرد سے ایسی لاتعلقی اسے حیران کر دیتی اور وہ سوچتا کہ زندگی کا چلن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جہاں تعلق کے ہونے یا نہ ہونے کے درمیان حد واضح نہ ہو۔

    اب معاملہ سفر در سفر کا تھا۔ رات کے اندھیرے، سردی کی دھند اور اپنی رفتار میں مگن کوچ اپنے سفر پر رواں تھی۔ کوچ کے اندر مسافر جاگو میٹی کے کھیل میں مصروف تھے۔ اس کے ذہن میں کبھی تصورات نہایت تیزی کے ساتھ گزرتے اور کبھی اتنی آہستگی سے کہ اسے گمان ہوتا کہ اس کا ذہن بالکل خالی ہو گیا ہے۔ تب اسے وہ جملہ اپنی پوری گونج کے ساتھ سنائی دیتا ’’میری زندگی تو برباد کر دی حرامی نے‘‘۔

    اس نے چونک کر اپنے اردگرد دیکھا۔ سب مسافر اپنے آپ میں مگن تھے۔ سردی کے باوجود کوچ کے اندر حدت تھی۔ سامنے ایل سی ڈی پر کوئی فلم چل رہی تھی۔ جس کی آواز سونے والے کے آرام میں خلل ڈالتی۔ کچھ مسافر اپنے کانوں میں ہینڈ فری لگائے آنکھیں بند کئے اپنی آرزوؤں کے چمن کی سیاحت میں مگن تھے۔ ایک لمحے کے لیے اسے محسوس ہوا کہ آواز اس نے ابھی ابھی سنی ہے۔ پھر گمان گزرا کہ جیسے یہ آواز اس کے اندر سے بلند ہوتی ہے۔ اس نے اپنی توجہ شاعر کی بیوی سے ہونے والی ملاقات پر مبذول کی۔

    کوچ سے اتر کر اس نے فون پر اس شہر کے ایک اور مشہور لکھنے والے سے رابطہ کیا جو شاعر کے خاندان سے واقف تھا اور یہ تو وہ بتاہی چکا تھا کہ اس کے سگے عزیزوں میں کوئی بھی اب اس شاعر میں موجود نہیں۔ کچھ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور کچھ ملک کے دوسرے شہروں میں جا آباد ہوئے ہیں۔ اولاد کوئی تھی نہیں بس اس کی بیوی اپنے بھائی کے پاس رہتی ہے۔ اس لکھنے والے کو شاعر کی بیوی کا پتہ معلوم تھا کہ کیوں کہ شوہر کی پنشن کے حصول میں آنے والی مشکلات کو دور کرنے میں وہ اس کی مدد کیا کرتا تھا۔ فون پر بتائے ہوئے پتے پر وہ پہنچا تو اس کا استقبال خندہ پیشانی سے کیا گیا اور صبح کے وقت کی مناسبت سے سادہ سا ناشتہ اس کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اس نے بھی بلا تکلف اپنی جسمانی غذا سے انصاف شروع کر دیا۔

    ناشتے کے بعد مشہور لکھنے والے نے اپنے بیٹے کو اس کے ساتھ کر دیا کیوں کہ خود اسے شہر میں ہونے والی ایک تقریب میں جانا تھا کہ وہ ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ صحافی بھی تھا اور ملک کے ایک ممتاز اخبار کے مقامی نامہ نگار کے طور پر اہم سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا۔ اس نے لکھنے والے کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بیٹے کے ساتھ اپنی منزل مراد کی طرف چل پڑا۔ لڑکی کی عمر بیس سال کے قریب تھی اور لڑکے نے اسے بتایا کہ وہ مقامی کالج میں انگریزی میں ایم اے کر رہا ہے اور اس کا ارادہ مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا ہے۔ ویسے تو وہ کرکٹر بننا چاہتا تھا لیکن باپ کے دباؤمیں آکر اپنی تعلیم جاری رکھنے پر مجبور ہے اس نے باتوں باتوں میں یہ بھی بتایا کہ اس نے چند سال پہلے کچھ شاعری کی تھی مگر پھروجہ شاعری اور شغل شاعری دونوں سے توبہ کرلی۔

    راستہ کچھ زیادہ طویل نہیں تھا اور موٹر سائیکل نے اس سفر کو اور مختصر کر دیا تھا۔ وہ راستے میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ بازار، دوکانیں، گزرتے لوگ جیسے ہر شہر یا قصبے میں ہوتے ہیں۔ بہت کچھ ملتا جلتا بس تھوڑا تھوڑا مختلف کہا جا سکے کہ یہ نئی جگہ ہے۔ موٹر سائیکل بڑی سڑک سے بغلی گلی میں آگئی اور گلی میں دو چار موڑ مڑنے کے بعد ایک چھوٹے سے مکان کے سامنے کھڑی ہو گی۔ لڑکے نے آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔ دوسری دستک پر اندر سے کسی نے پوچھا کون۔ لڑکے نے اپنا نام بتایا۔ تھوڑی دیر کے بعد کسی نے دروازہ کھولا۔ آنے والے کے انداز میں لڑکے کے لیے شناسائی موجود تھی جب کہ اس پر ایک اجنبی سی نگاہ ڈالی دروازہ کھولنے والے نے لڑکے کی طرف دیکھا۔

    یہ بڑے شہر سے آئے ہیں۔ ابا نے آپ سے بات کی تھی۔ آپا سے کچھ بات کر نا چاہتے ہیں۔ چچا جی کے حوالے سے۔ ’’اندر آجائیں‘‘ وہ ایک طرف ہٹ گیا اور وہ دونوں دروازے میں لٹکا پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوئے۔ میزبان نے انہیں دائیں طرف بنے ایک کمرے میں بیٹھا دیا۔ اور خود گھر کے اندر چلاگیا۔

    ’’یہ آپا کے بھائی ہیں‘‘۔ ان کے پاس ہی وہ رہتی ہیں۔اس نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کمرے پر نگاہ ڈالی۔ کمرے میں چند کرسیاں اور ایک میز پڑی تھی۔ درمیان میں قدرے صاف اور رنگ برنگی دری بچھی تھی۔ کمرے میں باہر کی جانب کھلنے والی کھڑکی پر سادہ سا پردہ پڑا تھا۔ اندر کی سمت والی دیوار کے ساتھ ایک پلنگ بچھا تھا۔ ان کی میزبان کوئی ساٹھ ستر سال کا قدرے فربی مائل سانولی رنگت والا فرد تھا۔ جس کی قامت اسے اپنے برابر محسوس ہوئی تھی۔وہ دونوں کمرے میں بیٹھے انتظار کرتے رہے اس دوران وہ تو اپنے خیالات میں کھویا رہا۔ مگر لڑکا شاید اسے متاثر کرنے کے لیے اپنے اور اپنے شہر کے سارے میں بولتا جارہا تھا۔ جس کے جواب میں وہ کبھی اثبات میں سر ہلاتا اور کبھی ہوں ہاں میں جواب دیتا۔ رات پھر سفر کرنے سے اس کے ذہن پر ہلکی سی غنودگی اور دھند باقی تھی اور اس نے ایک دوبار ہلکی سی جمائی بھی لی۔

    اب وہ بالکل درست نہیں بتا سکتا کہ کتنا وقت گزرا۔ شاید دس منٹ یا پندرہ منٹ یا ایک گھنٹہ۔ دروازے پر آہٹ ہوئی۔ اس نے دیکھا تو ان کا میزبان اندر داخل ہو رہا تھا۔ اسکے ہاتھ میں چائے کے عام سے گھروں میں استعمال ہونے والے سادہ سے کپ اور ایک چھوٹی سی پلیٹ میں بسکٹ، ایک تھالی میں سجے تھے۔ اس نے برتن کرسیوں کے سامنے پڑی میز پر رکھ دئیے اور بولا۔

    ’’آجاؤ اپنے بچے ہی ہیں‘‘۔

    وہ سنبھل کر بیٹھ گیا اور اس نے دروازے پر نگاہ ڈالی۔ ایک میانے قدکی، قدرے کھلتی رنگت کی سفید بالوں والی کمزور سی عورت کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے کن رنگوں کا پرنٹ پہن رکھا تھا اب اسے یاد نہیں آرہا تھا اگرچہ اس واقعہ کو چند گھنٹے ہی گزرے تھے۔ شاید وجہ یہ تھی کہ اس نے آنے والی عورت کو غور سے نہیں دیکھا تھا۔ اسے ایک رعب سا پورے ماحول پرچھا محسوس ہوا تھا اور اس کی آنکھیں خودبخود جھک گئیں تھیں۔ وہ عورت اس کی کرسی کے سامنے میز کی دوسری طرف بیٹھ گئی۔ اسے محسوس ہوا یہ دو آنکھیں کچھ اس کے چہرے پر کچھ ڈھونڈرہی ہیں۔

    وہ اپنے سامنے دیکھنے کی بجائے خود کو بات کو آغاز کرے کے لیے تیار کررہا تھا اس نے پہلے تو ان کا شکریہ ادا کیا ۔ شاعر کی توصیف میں کچھ شاندار الفاظ کہیں۔ اسے اپنی آواز اوپری اوپری ہی محسوس ہوئی اور لگا کہ سامنے والی عورت نے ان الفاظ کو سنا ان سنا کر دیا ہے یا تووہ یہ باتیں پہلے بھی کئی بار سن چکی تھی یا اس کے کان ان الفاظ سے شناسا نہیں تھے اور اس کا ذہن ان الفاظ کو اپنے اندر سمونے اور بامعنی بنانے کے ہنر سے آشنا نہیں تھا۔

    اس نے بیگ سے چھوٹا ریکارڈ نکال کر چیک کیا او راسے اپنے سامنے میز پر اس طرح رکھا کہ مائیک کا رخ مخاطب کی طرف رہے۔ پھر اس نے صاف کاغذ اور قلم نکالا اور تیار ہو گیا چند ابتدائی باتیں۔ نام، تعلیم، شادی کب ہوئی۔ بس ہو گئی۔ کتنا عرصہ تک رہے۔ چند ماہ یا پتہ نہیں رہے بھی کہ نہیں رہے۔ عورت نے اس کے سوالوں کا جواب چند الفاظ یا ہوں ہاں میں دیا۔اس دوران اس نے چائے کے چند گھونٹ بھی لیے۔ ایک دو بسکٹ کھائے اور اپنی پوری توجہ اس بات پر لگادی کہ وہ اس سے کچھ کام کی باتیں معلوم کر سکے۔ ایسی باتیں جنہیں وہ اپنے مقالے میں درج کر سکے۔ ایسی باتیں جو ادبی حلقوں میں دھوم مچا دیں۔ مگر لگتا تھا کہ شاید اسے چند رسمی سی باتوں کے علاوہ کچھ بھی معلوم نہیں ہوگا۔

    جب وہ پہلے سے تیار کئے گئے سوال پوچھ چکا تھا تو اس نے اپنے ذہن میں نئے گونجنے والے سوالوں کو گرفت میں لینا چاہا مگر اسے لگا کہ ذہن پر چھایا اندھیرا اور دھند مزید گہری ہو گئی ہے۔ اس میں کچھ بھی تازہ او ر نیا نہیں۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال گونجا۔ اس نے پہلی بار اپنے سامنے بیٹھی عورت پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے اس سے پوچھا کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے شوہر اس ملک کے کتنے بڑے شاعر ہیں، ان کا کلام کتنا عمدہ ہے اور کیسے کیسے لوگ اب ان پر لکھنا اور ان کے بارے میں اظہار خیال کرنا اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھتے ہیں۔ عورت چپ رہی اسے لگا کہ اس نے اپنا سر ہلایا ہے مگر یہ جنبش اتنی خفیف تھی کہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس نے اپنے سر کو ہاں میں ہلایا ہے یا نہیں میں۔ تب اس نے قدرے جھنجلائے ہوئے انداز میں پوچھا کیا آپ ان کی قدرو قیمت سے واقف ہیں۔

    اسے لگا کہ تب اس عورت کے ہونٹوں سے پہلے با ر ایک مکمل جملہ ادا ہوا اس کے کانوں نے اس جملے کی سماعت کی۔ مگر یہ بات وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ اس عورت نے کہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خودبخود عورت کے ذہن سے اس کے ذہن میں منتقل ہو گیا ہو۔ شاید پھر یہ خود اس کے اپنے باطن کی آواز ہو جو اس نے اپنے کانوں سے سنی ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے