Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ذہن ایک کشتی ہے متلاطم لہروں کے درمیاں

دلیپ کمار

ذہن ایک کشتی ہے متلاطم لہروں کے درمیاں

دلیپ کمار

MORE BYدلیپ کمار

    وہ سمندر کے کنارے بیٹھا ہوا ہے۔ آج اس کی زندگی کا آخری دن ہے۔ اس نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جی ہاں آپ صحیح سمجھے۔ وہ ایک شاعر ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ بڑے شاعر بیماری سے نہیں مرتے۔ عموماً وہ خود اپنے آپ کو مارنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس لیے وہ بڑا شاعر نہ بھی ہو تو اس کی خودکشی اسے عظیم بنا دےگی۔

    آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ایک عظیم شاعر سے وابستہ سبھی متوقع خواص موجود ہیں، ملال ٹپکاتا چہرہ، خوف اور اضطراب سے بھری آنکھیں، ایک معنی خیز مسکراہٹ جو دانتوں کو چھپائے رکھتی ہے اور مزید یہ کہ کوئی اس کی شاعری کو سمجھ نہیں پاتا۔ عموماً وہی رسالے جو تین سو سے زیادہ نہیں چھپتے، اس کی نظمیں کبھی کبھار شائع کر دیتے ہیں۔ اگر وہ زندہ رہا تو صرف ان تین سو لوگوں کے سہارے۔ ویسے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ راج کماری کے علاوہ یہ تین سو لوگ بھی اس کی خودکشی کی خواہش کے لیے ذمہ دار قرار پائیں گے۔

    آپ یہ جاننا چاہیں گے کہ راج کماری کون ہے۔ راج کماری ایک سیدھی سادی، خاصی قبول صورت سی لڑکی ہے۔ ہاں شاعری کا اسے بالکل ذوق نہیں۔ تاہم شاعری میں اس کی عدم دلچسپی سے اسے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ آخر ایسا کوئی قانون تو ہے نہیں کہ قبول صورت لڑکیوں کا شاعری میں دلچسپی لینا ضروری قرار پائے۔ خیر یہ راج کماری ہی تھی جس نے کہا تھا کہ وہ اس سے پیار کرتی ہے۔ گرچہ اس نے یہ جواب نہیں دیاکہ وہ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ تاہم آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اسے ناپسند کرتا ہے، یاپسند کرتا ہے۔ اس کا شاعرانہ ذہن فیصلہ کن باتیں کرنے کا عادی نہیں ہے۔ اس کا خیال یہ ہے زندگی کا حسن تذبذب میں پنہاں ہے۔ یہ کس نے کہاکہ انسانی دماغ فیصلے کرنے کی مشین ہے۔

    بدقسمتی سے آخر میں آکر اسے ایک فیصلہ کرنا ہی پڑا۔ اس نے راج کماری کی محبت کو ٹھکرا دیا۔ (اور اس بات کو جتنی فیصلہ کن آواز میں بتا سکتا تھا، بتا دیا۔) اس کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ فیصلہ پرسکون ذہن کے ساتھ کیا جائے یا کسی دباؤ کے تحت، دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ فیصلہ کوئی بھی ہو، کبھی صحیح ثابت ہوتا ہے، کبھی غلط۔ اس کے خودکشی کرنے کے فیصلے کے بارے میں بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے۔

    وہ اس ساحل پر جان دینے کے ارادے سے کئی بار آیا لیکن ہر مرتبہ زندہ واپس لوٹ گیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں نہ تو پوری ہمت تھی نہ اتنی بزدلی جو خودکشی کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن آج یہ اصول لاگو نہیں ہوگا۔ آج وہ طے کر چکا ہے کہ خودکشی کرکے ہی رہےگا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور سمندر کی طرف بڑھا۔ پھر ساحل کے بالکل کنارے بیٹھ کر پیر پھیلا لیے کہ لہریں نرمی سے انھیں سہلاتی رہیں۔ تھوڑی دیر لہروں کا تماشہ دیکھ لے، پھر تو اسے مرنا ہی ہے۔

    سمندر! اوہ کیسی حیرت انگیز شے ہے یہ سمندر بھی! تاحد نظر لہریں لیتا پانی اور آگے بھی۔ مہیب لہریں ایک جوش کے عالم میں اچھلتی رہتی ہیں۔ چھوٹی لہریں، بڑی لہریں، ایک دوسرے کو دھکا دیتی، ساحل تک آتی اور اس سے ٹکراکر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ اسے یہ سماں بہت خوب صورت لگتا ہے۔ لہروں کے کنارے آکر ساحل سے ٹکرانے پر جو زوردار آواز پیدا ہوتی ہے وہ اس کے دل میں ایک بڑا شدید تلاطم پیدا کرتی ہے۔ ایک تحیر آمیز جذبہ۔ پھر لہروں کے واپس لوٹنے پر لمحہ بھر کو جو خاموشی طاری ہوتی ہے وہ اسے موت کے بعد طاری ہونے والی خاموشی کی یاد دلاتی ہے۔ سمندر ہمیشہ اسے موت کی یاد دلاتا ہے۔ قدرت کا جاہ و جلال انسانوں کے لیے ایک مصیبت ہی ہے۔ آپ اس پر غور کریں تو یہ انسانوں کی بے بسی کا مذاق اڑاتا محسوس ہوگا۔

    آسمان سنہری ہو چلا ہے۔ سورج غروب ہونے کی نشانی۔ دور کہیں دوکشتیاں نظر آ رہی ہیں۔ مچھواروں نے ریت پر اپنے خشک جال پھیلا رکھے ہیں اور ان کی مرمت کر رہے ہیں۔ وہ اس کے پاس سے گزرتے ہیں تو بیڑی کے دھوئیں اور پسینے کی ملی جلی بُو آس پاس منڈلانے لگتی ہے۔ ان میں سے ایک گھنی مونچھوں اور سرخ آنکھوں والا قدرے معمر شخص اس کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے۔ وہ جواب میں مسکراتا تو ہے لیکن ذہن سے پسینے کی اس بو کو دور نہیں کرپاتا جو اس شخص سے آتی ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس کے اور راج کماری کے درمیان چپقلش کی ایک وجہ پسینے کی بو بھی ہے۔ پرنس کارنر میں جب پہلی مرتبہ راج کماری اس کی طرف دیکھ مسکرائی تھی تو مسکراہٹ کے ساتھ ہی اس کے پسینے کی بو بھی چلی آئی تھی۔ اب یہ بُو اس کے تصور کے ساتھ وابستہ ہو گئی ہے۔ بے چاری! ناتجربہ کار لڑکی۔ نہ جانے اس نے اس میں کیا دیکھا۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنی اس بےمصرف زندگی کے بارے میں سوچ کر ایک تھیئٹرائی انداز میں قہقہہ لگائے۔ وہ واقعی یہ کر بھی ڈالتا ہے۔ منھ پھاڑ کر سمندر میں ایک زوردار قہقہہ انڈیل دیتا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ اس کی زندگی حد درجہ بے مصرف ہے۔ بالکل بیکار۔ اس کا نام راہل کے نائک ہے۔ گجراتی۔ غریب۔ عمر چوبیس سال۔ قد چھ فٹ ایک انچ۔ دبلا، سانولا۔ ایک لانبی لیکن چپٹی سی ناک۔ گردن اور سر تقریباً ایک سائز کے، کچھ آگے کو کھنچے ہوئے سے۔ مختصر یہ کہ وہ اتنا ہی پرکشش ہے جتنا کوئی گرگٹ ہو سکتا ہے۔ آٹھویں جماعت تک پڑھا ہے۔ نہ اسے انگریزی آتی ہے نہ ہی گجراتی اچھی طرح جانتا ہے۔ تھوڑی سی تمل آتی ہے۔ اسی کی وجہ سے اس نے لکھنے کی ہمت بلکہ ڈھٹائی کی۔ خوش قسمتی سے اس کی شاعری نے تمل کا کچھ نہیں بگاڑا۔۔۔تمل جو پتھروں اور مٹی کے تودوں سے بھی زیادہ قدیم زبان ہے۔

    وہ کوئی چھ ماہ قبل چنئی آیا تھا۔ اسے امید تھی کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے ایک بڑا آدمی بن جائےگا۔ لیکن جیسے وہ چنئی اسٹیشن پر اترا اس کی سمجھ میں آ گیا کہ اس کا خواب پورا ہونے والا نہیں ہے۔ آج تک کوئی خواب تو پورا ہوا نہیں۔ پیچھے وطن میں ایک بیوہ ماں تھی، ایک بہن تھی جو کسی درزی کے ساتھ فرار ہو گئی تھی، ننھے بہن بھائی تھے۔۔۔ ایسے کنبے کے پس منظر میں خواب عموماً خواب ہی رہ جاتے ہیں۔

    غربت سے شناسائی اس کے لیے نئی نہیں ہے۔ اپنی عمر کے تیرہویں سال میں اس نے پیٹ کترنے والی ایسی بھوک برداشت کی تھی جیسے خالی پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوں۔ پھٹی قمیصوں اور ٹوٹی چپلوں کے علاوہ کبھی کچھ پہنا نہیں تھا۔ اس ساری ذلت کو وہ معمول سمجھ کر برداشت کرتا رہتا تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھاکہ ہندوستان کی غربت ایسی ہی لامحدود ہے جیسی اس کی لامتناہی روحانیت۔

    چنئی میں وہ ایک رشتے دار کے یہاں ٹھہرا اور بڑی شدومد سے نوکری تلاش کرنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بہت سی نظمیں بھی لکھیں۔ کئی دوکانوں کا کوڑی پھیرا کرنے کے بعد آخر اسے پرنسز کارنر (Prince's Corner) میں نوکری مل گئی۔ یہ پونڈی بازار میں ریڈی میڈ کپڑوں کی ایک دوکان تھی۔ مشاہرہ تھا دو سو پچاس روپے ماہوار۔ دس گھنٹے کام کرنا تھا۔ راج کماری سے اس کی ملاقات یہیں ہوئی۔

    راج کماری کے علاوہ جے کمار، کاجا، رتناسنگم اور وینکٹیشن بھی پرنسز کارنر میں کام کرتے تھے۔ اس لڑکی کے علاوہ باقی سب لوگ اپنے مشکل حالات کی وجہ سے وہاں ملازمت کر رہے تھے۔ رتناسنگم تمل فلموں میں اسکرپٹ لکھنے کے لیے قسمت آزمائی کرنے کی خاطر سری لنکا سے آیا تھا۔ جے کمار کو فائر سروس میں جگہ نہیں ملی تھی۔ کاجا کارپوریشن میں اہل کاری کا خواہش مند تھا۔ نہیں ملی۔ وینکٹیشن کو اشوک لیلینڈ میں تین ہزار روپے ماہوار مل سکتے تھے لیکن یہاں تین سو کی نوکری کرنے پر مجبور تھا۔

    یہ صرف راج کماری تھی جو یہاں بڑی خوش تھی۔ یوں چمکتی دمکتی دکھائی دیتی جیسے ریڈی میڈ کپڑوں کی دوکان میں سیلز کلرک بننے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہو۔ اس کا قد کم تھا۔ صرف چار فٹ سات انچ۔ گھنے، گھونگھرالے بال اور بے انتہا گوری۔ تھوڑی سی لانبی ہوتی تو بےحد حسین قرار پاتی۔

    ملازمت اختیار کرنے کے کچھ ہی دن بعد دوسرے اسٹاف سے اس کے اچھے تعلقات بن گئے تھے۔ صرف رتناسنگم ہی اسے بھاؤ نہیں دیتا تھا بلکہ نرا گدھا سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا بلکہ یقین کہ صرف ذہین لوگ ہی تمل فلموں کے اسکرپٹ لکھنے کی سوچ سکتے ہیں۔ خیر پھر بھی وہ دن خوش خوش ہی گزر گئے۔ اتوار کے روز وہ پارک چلا جاتا اور وہاں بیٹھ کر نظمیں لکھتا۔ تین وقت کا کھانا آرام سے مل رہا تھا۔ رات میں وہ پونڈی بازار کے چکر لگاتا جہاں کے گھنے درخت آپس میں ہاتھ ملاتے محسوس ہوتے۔ وہ غیرملکی قونصل خانوں میں یورپی فلمیں دیکھا کرتا تھا۔ وہ ادبی محفلوں میں جاتا۔ اس طرح بہت سے دوست بنا لیے تھے۔ اس کی نظمیں شائع ہوا کرتی تھیں۔ درختوں کے موضوع پر لکھی گئی اس کی ایک نظم خاص طورپر لوگوں کی دلچسپی کا سبب بنی تھی جو کچھ یوں تھی،

    سیاہ رات کے اندھیرے میں

    درختوں پہ اترتا ہے ایک انوکھا حسن

    (بالکل بیویوں کی طرح)

    برگد زمین کی طرف جھکتا ہے

    اور تاڑ تکتا ہے آسماں کی جانب

    نیچے جھکتا ناریل

    چاندنی چھاننے کو تیار ہے

    اور

    آنکھیں نیند سے سودا کرنے کو

    درخت

    اندھیرے میں ضم ہونے سے منکر

    اپناسبز حسن

    ایک گہرے سبز میں بدل لیتے ہیں

    جگہ کوئی ہو، وقت کوئی بھی

    درختوں کا حسن بےپناہ ہے

    لیکن پرنسز کارنر میں کسی کو یہ نظم پسند نہیں آئی۔ راج کماری کو بھی۔ ’’تم اسے شاعری کہتے ہو؟‘‘ اس نے اپنے ہونٹ سکوڑے اور ہنس کر کہا۔

    لیکن اچانک ایک دن راج کماری نے اس سے محبت کرنے کی ٹھان لی۔ وہ عموماً ایک ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا تھا، اس دن راج کماری اسے جیوا پارک ہنکا لے گئی۔ پھر گھر سے لائے ہوئے دہی چاول اور املی چاول کھلانے کے بعد اس نے اپنی محبت کا اعتراف کیا۔ وہ ہکابکا رہ گیا۔ کیا واقعی کوئی شخص اس سے پیار کر سکتا ہے۔ لیکن پھر جلد ہی اس نے خود پر قابو پا لیا۔ ایک عجیب سی نخوت اس پر طاری ہو گئی۔ بے نیازی اور قدرے اکڑ سے مملو لہجے میں اس نے کہا، ’’دیکھو راج کماری، تمہاری اور میری دنیائیں بالکل الگ ہیں۔ تم ایک عام سی لڑکی ہو اور میں ایک شاعر۔ مجھے اس محبت و حبّت میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ محض قسمت کی مار ہے کہ میں اتنا نیچے گر گیا ہوں کہ ایک کپڑوں کی دوکان میں کام کر رہا ہوں، ورنہ میری زندگی کے مقصد تو بہت اونچے ہیں۔ اس وقت، جب کہ میں ان چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے چھلانگ لگانے کی کوشش کر رہا ہوں، یہ محبت نام کی چیز تو ایک بوجھ بن جائے گی۔ مجھے تو تم معاف ہی رکھو۔‘‘

    راج کماری نے اس کی باتوں کا یقین نہیں کیا اور طنزیہ انداز میں مسکرائی لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی، ’’پھر تم سے عشق کرنے میں ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ تمہیں پسینہ بہت آتا ہے اور بالکل لہسن جیسی بو دیتا ہے۔ میں تمہیں ایک صلاح دوں گا۔ اس سے قبل کہ تم کسی سے پیار کرو، پسینے کی بُو دور کرنے کے لیے کوئی دوا ضرور لو۔‘‘

    راج کماری کا منھ اتر گیا۔

    دوسرے ہی دن بدقسمتی نے اس پر دھاوا بولا۔ پرنسز کارنر کے پرانے مالک نے اس پر نگرانی سخت کر دی۔ اگر وہ پانچ منٹ دیر سے بھی آیا تو اس پر ڈانٹ پڑ جاتی تھی، اگر گاہک بغیر کچھ خریدے چلا گیا تو بھی اس کی سرزنش کی جاتی تھی۔ اگر وہ لنچ کے بعد ذرا سا آرام کر لیتا تو اسے برا بھلا کہا جاتا، کھڑا ہوتا تو ڈانٹ کا مستحق ہوتا، بیٹھ جاتا تو بھی یہی سلوک روا رہتا۔ لوگوں کا کہنا تھاکہ یہ سارا راج کماری کا کیا دھرا تھا۔ (مالک اس کی بہت سنتا تھا) پرسوں ایک شخص نے تین سو پانچ روپے کے کپڑے خریدے۔ اسے پانچ روپے کی رعایت دے دی۔ بس آفت ہی تو آ گئی۔ اس کے اور مالک کے بیچ خوب کہا سنی ہوئی اور اسے نکال باہر کر دیا گیا۔ پانچ منٹ کے اندر سب کچھ ختم ہو گیا۔

    ملازمت کا جانا ایک بہت بڑا جھٹکا تھا اور زیادہ بڑی بات یہ تھی کہ یوں اچانک بغیر کسی بڑی بات کے روزی روٹی کا سہارا ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس نے سوچاکہ راج کماری اس سے اتنا گہرا عشق کرتی تھی کہ ٹھکرایا جانا اس سے برداشت نہیں ہوا اور اس کے دل میں اتنا بغض بھر گیا۔ پچھلے ہفتے تک اس کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ زندگی اس سے اس قدر بےرحمی سے پیش آئے گی۔ آج ہرچیز حد سے گزر چکی تھی، سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔

    خوش گوار ہوا کا لطف اٹھانے کے لیے لوگ ساحل پر اکٹھا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ کشتیاں ساحل سے آ لگی تھیں اور مچھیرے واپس ہو لیے تھے۔ نوجوان عاشق جوڑے اندھیرے میں ایک دوسرے کے بازوؤں میں سما رہے تھے۔ آسمان پر تارے کھلنے لگے تھے۔

    وہ بیٹھا ہوا سمندر کو ایک خواب کے عالم میں تکے جا رہا تھا۔ اس نے یہ سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دی کہ موت کے جبڑوں میں سر دیتے ہوئے اس کے پاس سوچنے کو کچھ نہیں رہ گیا ہے۔ صبح سے ہی وہ اپنے ذہن کو خودکشی کے لیے تیار کر رہا تھا۔ اس نے کسی سے اس کے بارے میں بتایا بھی نہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کا یہ عزم پورا نہ ہو سکے۔ وہ تو کسی کی طرف دیکھ کر مسکرایا تک نہیں۔ آئینے میں اپنی صورت بھی نہیں دیکھی۔ گرچہ اس کے چہرے میں کوئی خاص بات نہیں ہے، ایک غیردلچسپ عام سا چہرہ ہے پھر بھی ابھی اسے خیال آیا کہ اگر اس وقت آئینہ دیکھا جائے تو وہ کیسا لگےگا۔

    انسانی چہرہ ہمیشہ سب کچھ ظاہر نہیں کر پاتا۔ جیسے اس پر (سنگار کے لیے) پاوڈر کی تہہ جمائی جاتی ہے اسی طرح کچھ سیدھے سادے جذبات بھی اس پر اجاگر کیے جا سکتے ہیں جیسے خواہش، محبت، شفقت، رنج و غم۔ لیکن یہ دل و دماغ کی گہرائیوں میں اٹھتے طوفانوں یا بدی کو منعکس نہیں کرتا۔ بالکل جیسے زرگل کو منتشر کرنے کے لیے پھول شہد کی مکھیوں کے منتظر ہوتے ہیں، اسی طرح ذہن کے اندرونی حجروں کو کھڑکنے کے لیے موت کا انتظار ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کا بھولپن انسانی چہروں سے ظاہر نہیں ہوپاتا۔ ویسے بھی جو انسان مرنے جا رہا ہو اس کے لیے چہرے کے تاثرات کی اہمیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ اس وقت صرف ذہن اہم ہوتا ہے۔ موت بہرحال بہت اچھی شے تو نہیں۔ کسی وجہ سے مرنے یا بلاوجہ مر جانے میں کوئی بڑا فرق بھی نہیں ہے۔ زندگی کا تو ثبوت ہی موت میں پنہاں ہے۔

    وہ پشت کے بل لیٹ کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا ہے۔ چاند، ستارے، اس کی جوان العمری، اس کی ماں، اس کی شاعری۔۔۔ یہ سب اس کے ذہن میں گڈمڈ ہو رہے ہیں لیکن بالآخر ان کی تان آکر راج کماری پر ہی ٹوٹتی ہے۔ دیکھا جائے تو راج کماری ایک نہایت نفیس انسان ہے۔ شاید مجھے اس کی محبت کو قبول کر لینا چاہیے تھا۔ یقینا اس کے اندر ایک محبوب کی کشش موجود ہے۔ اس کی آنکھوں سے سچی محبت جھانکتی ہے۔ میں کیسا احمق ہوں۔ یہ نہیں سمجھ سکا کہ آفاقی محبت اور روحانی محبت کا سرچشمہ ایک ہی ہوتا ہے۔ مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ اس کا اور اس کے جسم کی بُو کا مذاق اڑاؤں۔ جوانی کا حسن جسم میں ہی اپنی چھب دکھاتا ہے اور ایک پروقار ذہن بھی اکثر جسم کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ راج کماری ایک غیرمعمولی لڑکی ہے۔

    لہریں جب اس کے تلوے سہلا رہی تھیں، اس نے اپنی آنکھیں زور سے بھینچ کر بند کرلیں اور پھر کھولیں۔ آسمان میں مسرور دکھائی دینے والے ستارے اس کا جی خوش کر دیتے ہیں۔ وہ زور زور سے رونا چاہتا ہے لیکن پھر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

    کچھ دیر بعد اسے محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اس کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ بھیگی ریت پر چلتے قدموں کی نرم چاپ اسے صاف سنائی دیتی ہے۔ پھر اسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس کے بہت نزدیک آ گیا ہے۔ وہ ہولے سے آنکھیں کھولتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ آنے والا شخص راج کماری ہے۔ وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا ہے۔ ہاں راج کماری ہی تو ہے۔ وہ چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ چاندنی میں وہ بہت خوب صورت لگ رہی ہے۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے۔ ذرا سا پرے کھسک کر وہ اس کے لیے جگہ بناتا اور اسے وہاں بیٹھنے کا اشارہ کرتاہے۔ وہ بیٹھ جاتی ہے۔

    وہ: ارے تم یہاں کیسے؟

    راج کماری: امس بہت ہے۔ اسی لیے چلی آئی۔

    وہ: ہاں، میں بھی۔

    راج کماری: گرمی کا موسم ہے نا۔

    وہ: بالکل

    راج کماری: مجھے بہت پسینہ آرہا ہے اور تم؟

    وہ: سمجھ رہا ہوں۔ مجھے تم سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے تھے۔ معاف کر دو۔

    راج کماری: کوئی بات نہیں اور آخر تم نے سچ ہی تو کہا تھا۔

    وہ: مجھے واقعی بہت پچھتاوا ہے۔

    راج کماری: ہاں لگےگا تو ایسا ہی۔

    وہ: میں اتنا بےہودہ بھی نہیں ہوں جیساکہ تم سمجھتی ہو۔

    راج کماری: جانتی ہوں۔

    وہ: تم یقین نہیں کروگی لیکن آج میں یہاں خودکشی کرنے کے ارادے سے آیا ہوں۔

    راج کماری: ارے! ایسا ہے کیا؟

    وہ: میرا مذاق مت اڑاؤ۔ میرا دل ویسے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے۔

    راج کماری: تم ایڈیٹ ہو۔

    وہ: سچ میں۔

    راج کماری: تم بزدل ہو اور سچ مچ کے بدمعاش بھی۔

    وہ: سچ ہے۔

    پھر وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔

    راج کماری: (کچھ دیر بعد) تم نے زندگی میں کسی سے محبت کی ہے؟

    وہ: نہیں۔

    راج کماری: کیوں کیا کسی سے محبت کرنا جرم ہے؟

    وہ: نہیں۔

    راج کماری: کیا ایک لڑکی کو زیادہ پسینہ آنا جرم ہے؟

    وہ: بالکل بھی نہیں۔

    راج کماری: تو پھر اعتراف کرلو کہ تم مجھ سے پیار کرتے ہو۔

    وہ: میں تسلیم کرتا ہوں۔ مجھے تم سے محبت ہے۔

    راج کماری: تو پھر یہ ڈراما کیوں کر رہے ہو؟

    وہ: یہی تو میں خود بھی نہیں سمجھ پا رہا۔

    راج کماری: کیا نہیں سمجھ پا رہے۔

    وہ: شاید میں یہ کہنا پسند نہیں کرتا کہ مجھے تم سے محبت ہے۔

    راج کماری: کیا بکواس کر رہے ہو۔

    وہ: کچھ نہیں۔ تم ایک ناتجربہ کار لڑکی ہو۔ تمہیں زندگی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ ہم جس جذبے کو محبت کہتے ہیں وہ بس اتفاق سے ہو جایا کرتا ہے۔

    راج کماری: تو؟

    وہ: تو یہ کہ اب پیار محبت کے لیے موقع نہیں رہا۔ کم از کم میرے لیے تو رتی بھر بھی نہیں۔ اب میں صرف مرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنی آخری نظم بھی لکھ ڈالی ہے۔

    راج کماری: بکواس مت کرو۔

    وہ: اب تم یہ نظم سن لو۔ تمہاری سمجھ میں شاید آ جائے کہ میں بکواس نہیں کرتا ہوں۔ وہ نظم پڑھنا شروع کرتا ہے۔

    مرغازی* کے مہینے میں صبح کا نور

    اور کہیں دور سے آتی مدھم سی بھجن کی آواز

    دنیا تو جوں کی توں ہے

    ایک جانے پہچانے چہرے کی طرح

    زندگی پگھلتی اور اذیت پہنچاتی ہے

    جیسے کسی فن کار کے ذہن میں تیرتے ہیولے

    وہ سب میری میز پر بکھرے ہیں

    چہرے، ان پر منعکس جذبات

    آوازیں

    میں کس کا چہرہ دیکھوں گا؟

    کس کی آواز سنوں گا؟

    کہاں سے شروعات کروں گا؟

    گھونسلے

    خوابوں کی مرجھائی پتیوں سے بنے

    ہمیشہ ایک صورت نہیں لے پاتے

    دل

    کسی اداس چشمے کی طرح

    جو خشک ہوتا جا رہا ہے

    خارج کرتا ہے

    انتہائی تلخی کے ساتھ اپنے آخری قطرے

    سہ پہر کی آلس بھری دھوپ میں

    الجھتی ہوئی ہوائی جڑوں کے ساتھ

    نمودار ہوتی ہے قدیم زندگی

    مجھے خواہش کے پنکھ محسوس ہوتے ہیں

    اور عشق کے اطوار بھی

    سایوں بھری اس دنیا میں

    ایک روشنی کا دھبہ

    کسی بچے کی اولیں مسکراہٹ جیسا

    مجھے بھرا پرا ہونے کا احساس دلاتا ہے

    نہیں

    وہ تو مذاق اڑا رہا ہے میرا

    دنیا قطرہ قطرہ بہتی جارہی ہے

    بالکل پہلے جیسی

    نا

    *(مرغازی نصف دسمبر اور نصف جنوری کے درمیان پڑنے والا تمل مہینہ۔)

    وہ اس کی طرف دیکھ کر ایک تلخ مسکراہٹ پھینکتا ہے۔

    راج کماری: میں ایک بار پھر کہوں گی کہ تم نِری بکواس کر رہے ہو۔ خالص بکواس۔ واقعی جو لوگ ایک بچے کی مسکراہٹ کا مذاق اڑائیں ان سے کسی طرح کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔

    وہ: پلیز مجھے معاف کر دو۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ تم سے محبت کروں تو کئی پریشانیاں گھیر لیں گی۔

    راج کماری: کون سی پریشانی؟

    وہ: تم میری ماں کو نہیں جانتی ہو۔ تمہاری عمر میں وہ پانچ بچوں کی ماں تھی اور بیوہ ہو چکی تھی۔ اب وہ بہت چڑچڑی ہو گئی ہے۔ بے چاری۔ اسے مجھ سے بڑی امیدیں ہیں۔ میں اس کی زندگی کا محور ہوں۔ اس کی سونی پیشانی کو دن رات دیکھتے دیکھتے میرا یقین محبت، شفقت، لگاؤ جیسے جذبات سے اٹھ گیا ہے۔ تیوریاں چڑھائے بغیر میری طرف دیکھو۔ غربت ہر جذبے کو مار دیتی ہے۔ انسانوں کے لیے ان کی بنیادی ضرورتوں کے آگے کچھ اور ہے نہیں۔ ان کے اندر ضرورتیں اور صرف ضرورتیں ہیں۔ اگر غور کرو تو تمہیں اندازہ ہوگا مرد صرف ضرورتوں کی پوٹلی ہیں۔

    تم ایک غیرمعمولی لڑکی ہو۔ تمہیں زندگی یا مردوں سے زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ تمہارے پاس محبت کا خزانہ ہے جسے تم لوگوں کے ساتھ بانٹ سکتی ہو۔ لیکن میں، میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ میری زندگی بالکل بنجر ہے، محبت سے عاری، تلخیوں اور مشکلوں سے معمور۔ مجھے اب جھوٹ اور سچ کے درمیان فرق کو جاننے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے۔ یہ میں نے بہت پہلے ہی جان لیا تھا۔ اس وقت تو میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آ رہا ہے کہ میرا دکھ، میری اذیت بھی حقیقی ہیں یا صرف میرا واہمہ۔ اگر تم مجھ سے جڑوگی تو تمہاری زندگی برباد ہو جائےگی۔ یقین جانو تمہارے لیے پرنسز کارنر میں فراکیں بیچنا ہمیشہ بہتر رہےگا۔

    راج کماری: تم بہت بولتے ہو اور سب بےمطلب۔

    وہ: یہ صحیح ہے۔ لیکن میں تمہاری محبت برداشت نہیں کر سکتا۔

    راج کماری: تم بالکل پگلے ہو۔

    وہ: وہ تو ہم سب ہیں۔

    راج کماری: مجھے تم سے واقعی نفرت ہے۔

    وہ: میری تم سے درخواست بھی یہی ہے۔

    راج کماری: اگر تم مر گئے تو کیا ہوگا۔

    وہ: کچھ نہیں ہوگا۔

    راج کماری: تو پھر انتظار کس بات کا ہے۔ جاؤ مر جاؤ جاکے۔ سمندر تمہاری راہ دیکھ رہا ہے۔

    دونوں پھر کچھ دیر کو خاموش ہو جاتے ہیں۔

    وہ: واقعی اندھیرا ہو گیا۔

    راج کماری: ہاں۔

    وہ: ٹمٹماتے ستارے بڑے خوب صورت لگ رہے ہیں۔

    راج کماری: ہاں۔

    وہ: پورا چاند اپنی چاندنی بکھیر رہا ہے۔

    راج کماری: ہاں۔

    وہ: لہریں بڑھتی جا رہی ہیں۔ وہ گرج رہی ہیں۔

    راج کماری: ہاں۔

    وہ: ٹھنڈی ہوا بڑی فرحت بخش ہے۔

    راج کماری: ہاں۔

    وہ: چاندنی میں تمہارا چہرہ بڑا خوب صورت لگ رہا ہے۔

    راج کماری: ۔۔۔

    وہ: جب ہوا تمہارے گھونگھرالے بالوں کو چھیڑتی اور تمہارے چہرے پر بکھیر دیتی ہے تو تم انتہائی حسین لگتی ہو۔

    راج کماری: ۔۔۔

    وہ: میں تمہاری آنکھوں میں سمندر دیکھ رہا ہوں۔

    راج کماری: ۔۔۔

    وہ: مجھے تمہاری مخروطی انگلیاں بہت اچھی لگتی ہیں۔

    راج کماری: ۔۔۔

    وہ: یہ میرے لیے پہلا موقع ہے۔ تمہارا لمس کتنا گرم ہے۔

    راج کماری: ۔۔۔

    وہ: کیا تمہاری ہتھیلی پر چٹکی لے سکتا ہوں۔

    راج کماری: ۔۔۔

    وہ: میں چاہتا ہوں تمہیں اپنی گود میں بٹھا لوں اور پیار سے تم پر ہاتھ پھیروں۔

    راج کماری: ۔۔۔

    وہ: تمہاری اجازت ہو تو تمہارے یہ ننھے ہونٹ چوم لوں۔

    راج کماری: ۔۔۔

    دونوں ایک دوسرے کی آغوش میں سما جاتے ہیں۔ وہ اسے سختی سے بھینچ لیتا ہے۔ وقت جیسے تھم سا جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد دونوں سرگوشیوں میں میٹھی میٹھی بےمطلب باتیں کرنے لگتے ہیں۔

    راج کماری: تم سے ایک بات پوچھوں۔

    وہ: ہم م م۔

    راج کماری: تم مجھے پسند کرتے ہو؟

    وہ: ہم م م

    راج کماری: بہت پسند کرتے ہو؟

    وہ: ہم م م۔۔۔

    راج کماری: اور وہ میرے جسم کی بو؟ اس پر تمہیں کوئی اعتراض نہیں؟

    وہ: ہم م

    راج کماری: کیا میں خوب صورت ہوں؟

    وہ: ہم م

    راج کماری: تم مجھ سے پیار کرتے ہو؟

    وہ: ہم م م۔

    راج کماری: تمہیں کوئی تذبذب تو نہیں؟

    وہ: ہم ام ام۔

    راج کماری: سچ میں؟

    وہ: سچ۔

    راج کماری: دیکھا، میں نہ کہتی تھی کہ میری محبت سچی ہے۔

    وہ: تم بہت سمجھ دار لڑکی ہو۔ ہے نا؟

    راج کماری: بس بہت ہوا۔ اب میرا دم نہ گھونٹو۔ آخر کتنے بوسے لوگے؟

    وہ: بس یہ ایک آخری۔۔۔

    راج کماری: چھی۔ بوالہوس کہیں کے۔ تمہارے دل میں میرے لیے اتنی خواہش تھی لیکن کیسا اتراتے پھر رہے تھے۔

    دونوں ایک ساتھ زور سے ہنس پڑتے ہیں۔

    راج کماری: اچھا، اب چلیں۔ بہت دیر ہو چکی ہے۔

    وہ: ہم ام م۔

    راج کماری: اچھا، اب اپنے ہاتھ ہٹاؤ۔

    دونوں سڑک کی جانب ٹہلتے ہوئے چل پڑتے ہیں۔

    وہ: اب تم سے دوبارہ کب ملاقات ہوگی؟

    راج کماری: کہہ نہیں سکتی۔

    وہ: کل؟

    راج کماری: نہیں۔

    وہ: اگلے اتوار؟

    راج کماری: ہم م م۔

    سڑک خالی ہے۔ صرف بس اسٹاپ پر دو تین لوگ دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ جیسے ہی سڑک پار کرتے ہیں، بس آ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان کے حکم دینے پر آئی ہو۔

    خالی بس کے ایک کونے میں وہ گھس کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ’’دو ٹکٹ، پونڈی بازار‘‘ وہ کنڈکٹر کو دو انگلیاں دکھاکر کہتا ہے۔ کنڈکٹر اس کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھتا ہے اور صرف ایک ٹکٹ کاٹ کر دیتا ہے۔ وہ کچھ کہنے کے لیے راج کماری کی طرف مڑتا ہے لیکن وہ جو کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی، اچانک جیسے فضا میں تحلیل ہو گئی۔

    بس جو نہایت تیز رفتار کے ساتھ چل چکی تھی، اچانک ایک گڈھے کی وجہ سے ہچکولے لے کر گھڑگھڑائی لیکن پھر معمول کی رفتار پر واپس آ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے