زمین زاد
سائنس دان انسان کو مریخ پر اتارنے کا حتمی فیصلہ کر چکے تھے۔
کانفرنس میں پورے کرۂ ارض کے سائنس دانوں اور مذہبی سکالرز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ کانفرنس کئی ماہ سے جاری تھی اور سائنس دانوں نے ہی حتمی فیصلہ کرنا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک نے پہلی با ر ترقی پذیر ممالک کو نمایندگی کا موقع دیا تھا۔ کروڑوں میل کی دوری پربسیط و عریض کائنات میں مریخ کا سفر سالوں پر محیط تھا۔ سائنس دان ایک طویل عرصے تک اس تحقیق میں سر کھپاتے رہے کہ ہم صرف مریخ سے لی گئی تصاویر کے مفروضے پر انسان کو مریخ پر اتارنے کا سوچ رہے ہیں اگر وہاں پر ہوا، پانی اور سورج کی روشنی نہ ہوئی تو اپالو کو اپنے مدار میں لوٹنے کے لیے چار سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے جب اپالو واپس اپنے مدار میں دوبارہ داخل ہو تو وہاں اتارے گئے انسان کہیں گپھاؤں میں گم ہو چکے ہوں۔ مریخ زمین سے کئی گنا بڑا ہے۔ ابھی تک ہم زمین کے دفینے پوری طرح نہیں کھوج سکے۔ آئے دن ماہرینِ آثار قدیمہ تحقیق کی دنیا میں کوئی نہ کوئی نیا شہر سامنے لا کھڑا کرتے ہیں اور پھر تخمینے اندازے پر اس کی عمر مقرر کرتے ہیں۔ چند سال پہلے NATIONAL GEOGRAPHIC SOCIETY نے گھنے گنجان جنگلوں میں سے پورا شہر برآمد کر ڈالا۔ اہرامِ مصر کے دفینے ابھی پوری طرح دریافت نہیں ہوئے۔ فراعینِ مصر کی حنوط شدہ لاشوں کے ساتھ مدفون خزینوں کی خبریں آئے دن دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں موہن جوداڑو اور ہڑپہ کی دریافتوں کو آخری دریافت نہیں کہا جا سکتا۔ تو پھر مریخ پر اتارے گئے انسان کو کون تلاش کرےگا۔۔۔؟سائنس دانوں کو یہ خدشہ بھی تھا کہ مریخ پر وقت کا پیمانہ یکسر مختلف ہوا تو کیا ہوگا۔۔۔؟ ممکن ہے زمین سے بھیجا جانے والا انسان وہاں پانچ سو سال یا اس سے بھی زیادہ زندہ رہے۔ تو انسانی زندگی کے ارتقا کے لیے ایسا آکسیجن سلنڈر تیار کیا جانا چاہیے جو اس کی بقا اور سانسوں کے تسلسل کے لیے کم از کم ایک ہزار سال کافی ہو۔ ماہرین کی رائے یہ بھی تھی کہ قدیم ادوار میں انسان کی عمر ہزار سال بھی رہی ہے اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر آکسیجن سلنڈر کی CAPACITY کم از کم پانچ ہزار سال ہونی چاہیے۔ تاکہ مریخ اور زمین کے درمیان ہزاروں سال تک رابطہ رہ سکے۔ اپالو میں ایک ایسا جدید سسٹم بھی فٹ کیا جا رہا تھا تاکہ زمین اور مریخ کے درمیان انسانی رابطہ منقطع نہ ہونے پائے۔ پورے کرۂ ارض کے مذہبی سکالرز اور سائنس دانوں کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ اپالو اجتماعی رضامندی سے بھیجا جائے اور اس پر کوئی ایک ملک اپنا حق نہ جتا سکے۔۔۔ مذہبی سکالرز کا کہنا تھا کہ مریخ پر بھیجے جانے والے انسانوں کو تمام مذہبی کتابیں ساتھ دی جائیں۔ قرآن، انجیل بارناباس کا جدید ترین نسخہ جو ترکی کے پہاڑوں کی ایک غار میں سے دریافت ہوا، گرنتھ، ہندو مت کی تعلیمات کے مخطوطے۔۔۔ لیکن سائنس دانوں نے اس فیصلے کے خلاف ووٹ ڈالا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ ہم مریخ پر صرف ایک جوڑا اتار رہے ہیں۔ MALE اور FEMALE۔ جن کے درمیان میاں اور بیوی کا رشتہ ہے۔ نسلِ انسانی کی بقا کے لیے ساتھ ہزاروں آکسیجن سلنڈر بھیجنے کی بھی تجویز تھی۔ تاکہ وہاں نو مولود بچے کسی مشکل کا شکار نہ ہوں۔ خوراک کا بہت اعلیٰ نظام ترتیب دیا گیا تھا۔ خوراک کا ایک کیپسول ایک سال تک کھانے پینے سے بے نیاز کرنے کو کافی تھا اور کیپسولز کی تعداد ملین میں تھی۔
بھیجے جانے والے انسانی جوڑے کا DNA کے ذریعے مکمل طبی معائنہ کیا گیا۔ طبعی عمر میں انہیں کسی بیماری کا سامنا نہیں تھا۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ بھیجے جانے والے جوڑے کو تمام مذاہب اور سائنسی علوم پر مہارت ہو۔
کانفرنس جاری تھی۔
مندوبین اپنی اپنی رائے دے رہے تھے۔
موضوع بحث یہ بات تھی کہ ساری باتیں اور فیصلے درست لیکن مریخ پر بھیجے جانے والے انسان کو مذہب سے دور ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ زمین پر فساد کی جڑ مذہب ہی ہے۔ خوفناک جنگیں، ہتھیاروں کی دوڑ، تیر سے میزائل تک، منجنیق سے توپ اور ٹینک تک اور آگ کے گولوں سے ایٹم تک تباہی کے جتنے بھی ہتھیار ہیں وہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر ہی ایجاد ہوئے ہیں۔ ا من قائم کرنے کی آڑ میں اپنے مفادات کی جنگیں لڑی جاتی ہیں۔ مذہبی سکالرز نے پرزور اور مدلل طریقے سے سائنس دانوں کی اس رائے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کو رہنمائی صرف مذہب نے عطا کی ہے۔ ان کا کہنا تھا، اس حیوان ناطق کو انبیاء و رسل نے انسانیت کا درس نہ دیا ہوتا تو اس کے سفلی جذبات اسے حیوانوں سے بدتر بنا دیتے۔ اور آج بھی جن انسانوں کا باطن تیرہ و تاریک ہے وہ پوری انسانیت کو جنگ کی ہولناک تاریکیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس لیے مریخ پر اترنے والا انسان اگر مذہب سے بیگانہ رہا تو اس کے لیے وہاں زندگی عذاب ہو جائے گی۔ اس کے جذبات، احساسات اور ذہن میں پنپنے والے سوالوں کو رہنمائی کہاں سے ملےگی۔۔۔؟ اسے مذہبی کتابوں سمیت بھیجا جائے۔ ان کتابوں میں سے وہ کس کتاب سے زیادہ رہنمائی حاصل کرتا ہے یہ فیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن سائنس دانوں کی سوئی اس ایک نقطے پر اٹکی ہوئی تھی کہ انسان کو مذہب سے دور ہی رکھا جائے۔
ساری تیاریاں مکمل تھیں بس یہی آخری فیصلہ ہونا باقی تھا۔ خوراک کے کیپسول کا آخری بار پھر تجزیہ کیا گیا۔ آکسیجن سلنڈر اور دیگر مشینی سامان کا آخری Computerized چیک اپ کیا گیا۔۔۔ آخری روز مذہبی سکالرز واک آؤٹ کر گئے۔ ان کا موقف تھا کہ ہماری بات کو بے وزن ہی رکھنا تھا تو ہمیں مدعو کس لیے کیا گیا تھا۔ سائنس دان پھر سر جوڑکر بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ اتنے عظیم الشان منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مذہبی سکالرز کی بات مان لی جائے اور مختلف مذاہب کی CDs اورHard Disks کو ساتھ جانے دیا جائے۔
جس روز اپالو نے زمین کے مدار سے نکل کر کائنات کی وسعتوں کو کھوجنا تھا، اس روز پورے کرۂ ارض کے انسان ٹیلیویژن اور انٹر نیٹ پر بیٹھے کاروائی دیکھ رہے تھے۔ اپالو خلا کی پہنائیوں کو چیرتا اپنی منزل کو دوڑ رہا تھا۔ اور اربوں انسانوں نے یہ انتظار کھینچنا تھا کہ مریخ پر زندگی کے آثار ہیں بھی کہ نہیں۔۔۔؟ زمین پر زند گی اپنے معمول پر رواں ہو گئی۔ کس کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ اپالو کی واپسی کا انتظار کھینچتا۔ البتہ سائنس دان اپنی دنیا اور اپنے کام میں انتہائی مگن تھے۔ دو سال بعد جب اپالو مریخ کے مدار میں داخل ہوا تو دونوں میاں بیوی کے دل زور سے دھڑکے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ وہ ایک نئی دنیا میں داخل ہو رہے تھے جہاں ان کا کوئی اپنا نہیں تھا وہ با لکل تنہا تھے انہیں یہ بھی تو معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنے جیسے انسانوں میں زندہ لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔۔۔؟ وہ نئی دنیااور وقت کے نئے پیمانوں میں قدم رکھ رہے تھے۔ انہیں تنہائی کے جان لیوا عذاب کا بھی سامنا تھا اور نئی دریافتوں کی دھن بھی تھی ان کا سائنس روم اپالو سے کٹ کر الگ ہوا تو انہوں نے اپالو کو بڑی حسرت سے دیکھا۔ آخری زمینی رابطہ۔۔۔اپالو۔۔۔ وہ بھی گیا!
سائنس روم کہاں جا اترا۔۔۔؟ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ ہر طرف گھور اندھیرا تھا۔ انہوں نے زمین پر پیغام بھیجا کہ مریخ پر گھپ اندھیرا ہے۔ جانے اس کرے کا کوئی سورج ہے بھی کہ نہیں۔ جب تلک روشنی نہ ہو کچھ کہنا مشکل ہے۔ ہم اپنے کمرے میں بند ہیں اور روشنی کا انتظار کر رہے ہیں۔
لیکن سرچ لائیٹ کے ذریعے یہ تو بتاےئے کہ جگہ کیسی ہے۔۔۔؟ صحرا ہے یا پہاڑی سلسلے ہیں۔۔۔؟
ہم اس وقت ایک لق ودق صحرا میں ہیں.
کئی ماہ گزر گئے دونوں میاں بیوی اوبھ گئے۔ وہ انسانی چہروں اور زمین کے نظاروں کے لیے بےتاب ہونے لگے لیکن کچھ بھی تو نہیں ہو سکتا تھا۔ آواز، چہکار اور نہ ہی کوئی منزل۔۔۔! ان کے ہاں پہلے بچے کی ولادت پر ان کی زندگی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بچے کی شکل میں وہ تنہائی کا عذاب بھول گئے۔
CDs اور انٹر نیٹ پر وہ پہروں مختلف ا لنوع موضوعات کی WEB SITES کھول کر اپنی تنہائی کم کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کا کوئی غمگسار اور دمساز تو تھا نہیں کبھی کبھی لا یعنی اور بےمعنی گفتگو کرتے ہوئے وہ بےساختہ ہنس پڑتے اور کبھی اداسی ان کو گھیر لیتی۔
ایک دن اس کی بیوی نے کمپیوٹر سکرین سے نظریں اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔ ایک بات کہوں۔۔۔؟
کہو.....!
جس روز ہم مریخ کی سیر کو نکلیں گے نا۔۔۔! تو میں پتھروں پر ایک تحریر کندہ کروں گی کہ ہم انسان ہیں۔
کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔؟
میں یہ تحریر رقم کروں گی کہ ہم انسان ہیں اور۔۔۔ اور۔۔۔ ہم کرۂ ارض سے آئے ہیں تا کہ ہماری Next Generation خود کو بندر اور چیمپنزی کی اولاد نہ سمجھتی رہے۔
تم سائنس دان ہو کر ذہن میں ایسی سوچ کو جنم دے رہی ہو۔ جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔
دلیل ہے۔۔۔!
کیا۔۔۔؟
وہ بے ساختہ ہنسی۔۔۔ میرے والدین انسان تھے۔ میرے والدین کے والدین بھی انسان تھے۔ مذہبی کتابوں کے مطالعے سے یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچتی ہے۔ کہ ہم کئی ہزار سال سے انسان ہی ہیں۔ تو پھر اس بات کو مان لینے میں کون سی بات مانع ہے جیسے ہم زمین سے مریخ پر آاترے ہیں اسی طرح ہمارے FORE FATHERS کسی اور جہان سے زمین پر آاترے ہوں گے۔ جیسے ہم سے یہ نسلِ انسانی چل نکلی ہے ویسے ہی ان کی نسل کا ارتقاء شروع ہو گیا ہوگا۔۔۔ وہ اپنے بچے کو دیکھ کر مسکرائی۔
تمReligeous ہوتی جا رہی ہو۔ سائنس دانوں کی سوچ درست تھی کہ مذہبی کتابیں ساتھ نہیں ہونی چاہئیں۔
تم جو بھی کہو۔۔۔ میں تو آنے والی نسلوں کے نام یہ پیغام چھوڑ جاؤں گی کہ تم انسان کی اولاد ہو۔ واقعی انسان اس کائنات کی بہترین Creation ہے۔ بےکیف زندگی۔۔۔ مکمل مشینی۔۔۔ ان کو وقت کا پیمانہ بھی معلوم نہیں تھا۔۔۔ سونے جاگنے کے اوقات بے ترتیب تھے۔
ایک دن ان کی پریشانی اس وقت سوا نیزے پر پہنچ گئی جب اچانک ان کا رابطہ زمین سے منقطع ہو گیا۔ ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔۔۔ وہ کبھی ایک دوسرے کو اور کبھی اپنے معصوم بچے کو دیکھتے۔ وہ پہروں سر کھپاتے رہے۔ Internet کو متعدد بار Reconnect کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بےسود۔۔۔ خوف سے خون ان کی رگوں میں منجمد ہونے لگا۔ زمین سے رابطہ بحال نہ ہوا تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔۔۔؟ اگر موت نے آلیا تو اس بچے کا کیا ہوگا۔۔۔؟ کیا یہ سسک کر جان دے دےگا۔۔۔؟ان کی سو۔چیں الجھ گئیں۔ ان کے پاس تو فرار کا رستہ بھی نہیں تھا۔ مریخ بارونق کرہ تو تھا نہیں۔۔۔ جنگل ہوتے، پہاڑ، ندی نالے، جھرنے تو زندگی جینے کا سامان کر لیتے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ کوئی ایک ہستی ہے، جس نے کرۂ ارض پر بلا تفریق، رنگ و نسل و مذہب انسانوں سے لے کر چرند، پرند، حیوان، حشرات الا رض بلکہ ہر ذی روح کی زندگی جینے کا پورا پورا سامان کیا۔ زمین سب کے لیے۔۔۔ سورج، چاند، ستارے، پانی، ہوا۔۔۔ اور بارشوں پر سب کا برابر حق۔۔۔ سب بلا معاوضہ مستفیض ہوتے ہیں۔
وہ واقعی رب ا لعالمین ہے۔۔۔ عورت کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
کون۔۔۔؟
اللہ۔۔۔ وہی اللہ۔۔۔ جس نے صرف کرۂ ارض انسانوں اور جانداروں کے رہنے کے لیے بنایا۔ ہم بےکار کے سفر پر نکلے ہیں۔ کسی بھی کرّے پر ہمیں کچھ بھی نہیں ملےگا۔۔۔!
یہاں جان کے لالے پڑے ہیں اور تم جانے کیا اوٹ پٹانگ سوچ رہی ہو۔
میں یہی سوچ رہی ہوں کہ ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے ابھی ہمارا ایک بچہ ہے۔۔۔ اگر بہت سے بچے ہوں تو رونق بڑھ جائےگی۔ یہاں کون سا آبادی کے گنجان ہونے کا خطرہ ہے؟ یا خوراک کے مسائل ہیں لیکن جب وہ جوان ہوں گے تو ان کا مستقبل کیا ہوگا۔۔۔؟ تعلیم۔۔۔ شادی۔۔۔؟ شادی تو نہیں ہو سکتی۔ وہ سب بہن بھائی ہوں گے۔
انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
ابھی وقت تو آئے۔ بچے جوان ہوں گے تو مذہبی کتابوں سے رہنمائی لے لیں گے۔
ابھی تو ہم نے مریخ کی سیر کرنی ہے۔ اس کمرے سے نکلنا ہے۔ بچے جوان ہوں۔ وہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ہمارے باہر نکلنے کے سسٹم کو کنٹرول کریں پھر کہیں جاکر مریخ کے اسرار کھلیں گے۔۔۔! اس کے خاوند نے اسے تسلی دی۔
وہی کرۂ ارض اچھا تھا۔۔۔ ہوا، پانی، بادل، انسان، جانور، محبتیں نفرتیں، جھگڑے، خوشیاں، رونقیں میلے بہاریں۔۔۔ یہ جو اس بسیط و عریض کائنات میں اربوں کہکشائیں بکھری ہیں ہم ان کو اپنی مختصر عمر ساٹھ ستر سال کے پیمانے میں نہیں کھوج سکتے۔۔۔ نا ممکن۔۔۔ ہمیں بس زمین پر ہی رہنا چاہیے۔
ان کے ہاں کئی بچوں کی ولادت ہوئی۔ وہ سنِ شعور کو پہنچے۔ ان کی کل کائنات بس یہی کمرہ تھا۔ اب ان سے اہم کام لینا باقی تھا۔ وہ یہیں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔
والدین نے جب ان کو یہ بتایا کہ ہم ایک ایسے کرے سے آئے ہیں جہاں آکسیجن سلنڈروں کی بجائے فضا میں موجود ہوتی ہے۔ وہاں پہاڑ ہیں۔۔۔ پانی، سبزہ، جنگل، چرند پرند اور ہمارے جیسے اربوں انسان، مختلف الوان، نسلیں، بلند و بالا عمارات، کاریں، ٹرینیں اور ہوائی جہاز، انواع و اقسام کے کھانے اور جدا جدا ذائقہ رکھنے والے سینکڑوں پھل، میوہ جات۔۔۔ بس کیا پوچھتے ہو۔۔۔ زمین رنگ و نور سے بھری ہوئی ہے۔
تحیر زدہ بچے ایک دوسرے سے پوچھتے۔۔۔ یہ کس جہان کی باتیں اور قصے ہیں۔۔۔؟
کیا وہاں انسان ایک کمرے میں نہیں رہتے۔۔۔؟ ان کی آنکھوں میں سوال تیرتے نہیں۔۔۔! وہ جہاں جانا چاہیں جا سکتے ہیں پیدل، گاڑیوں پر، ہوائی جہازوں اور سمندری جہازوں کے ذریعے۔ اور وہ مزے دارذائقوں والے کھانے کھاتے ہیں۔ سبزیاں، گوشت، دالیں، کیک، پیسٹریاں، بسکٹ اور ساتھ رنگا رنگ مشروبات بھی۔۔۔!
اچھاااااا۔۔۔ بچے حیران ہو کر پوچھتے۔۔۔ تو کیا وہ وہاں سال میں اپنی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک کیپسول نہیں لیتے۔
جب انہوں نے National Geographic کی CDs کی مدد سے دنیا کے مختلف ممالک کی ڈاکومنٹریز دیکھیں۔ حیرت انگیز مناظر، انسان اور ان کی طرز رہائش، رسم ورواج، رنگا رنگ کھیل اور تفریحی سلسلے تو تحیر سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انہیں یقین ہو گیا کہ ہمارے والدین جنت سے نکل کر آئے ہیں۔ لیکن آخر کیوں۔۔۔؟
وہ جنت سے کیوں نکلے یا نکالے گئے۔۔۔؟ ان کا قصور کیا تھا۔۔۔؟ ہم بھی وہیں پر پیدا ہوتے، وہیں رہتے تو کتنا مزہ رہتا۔۔۔! جانے ہم وہاں کبھی جا بھی سکیں گے یا نہیں۔
مما۔۔۔ یہ جگہ رہنے کے لیے نہیں ہے۔ ہم جنت میں واپس کب پہنچیں گے۔۔۔؟
دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔
اب مذاہب کو مان لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ Specially اسلام کو۔۔۔ میں نے قرآن کا Deeply مطالعہ کیا ہے۔ اب تو مریخ پر ہونے کی وجہ سے ہم عین ا لیقین کی سرحد پر کھڑے ہیں۔ یہ مریخ ہے اور جہاں سے ہم آئے ہیں وہ ارضی جنت۔ بچوں کے لیے یہ دریا، ندی نالے، سرسبز وادیاں،بلند و بالا عمارات، انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات، ہم جنس۔۔۔ ہم Documenatries کے ذریعے انہیں ان ذائقوں سے آشنا تو نہیں کر سکتے۔ جس طرح زمینی جنت ایک زندہ حقیقت ہے با لکل ایسے ہی مرنے کے بعد ایک اور عالم ہے اور وہ بہت خوبصورت ہے۔۔۔ اس کی بیوی نے خاوند کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میرا دل بھی یہی کہتا ہے۔ چند روز پہلے میں نے اپنے بچوں کی زبانی بھی سنا۔ وہ آپس میں تبادلۂ خیال کر رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ زمین پر وہ سب کچھ موجود ہو جس کی خبر ہمارے والدین ہمیں دے رہے ہیں۔ سمندر، دریا، رنگ برنگے پرندے اور ان کی چہکار، انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات، ہمارے جیسے اربوں انسان اور پھر آکسیجن سلنڈر کے بغیر زندہ رہنا۔۔۔؟
ہمارے والدین جھوٹ تو نہیں بولتے نا۔۔۔! وہ زمین سے آئے ہیں۔ والدین کی بات جھٹلانی نہیں چاہیے۔
میرا تو یقین ہے کہ زمین ہے اور ایک دن ہم وہاں پہنچ جائیں گے اور مزے لوٹیں گے۔
جب بچوں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی، سائنسی علوم کے ماہر ہو گئے تو میاں بیوی نے اپنے مخصوص لباس اور سسٹم کے ذریعے سائنس روم سے نکل کر مریخ کی سیر کا پروگرام بنایا۔ Control System پر بٹھا کر انہیں ہر بات اور آپریشن سسٹم سمجھا دیا گیا۔ تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔
پہلے روز وہ اپنے مخصوص خلائی لباس میں تھوڑی دور تک گئے اور لوٹ آئے۔ اپنا تحقیقی سفر جاری رکھتے ہوئے انہوں نے پورا مریخ گھوم کر دیکھ لیا۔ بنجر پہاڑوں اور صحراؤں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ انہیں عمیق اور خوفناک غار بھی دیکھنے کو ملے۔ ان میں اترنا موت کو دعوت دینا تھا۔ جن تصویروں کو دیکھ کر سائنس دان اندازے اور تخمینے لگا رہے تھے کہ یہاں پانی ہے وہ یہی عمیق اور اندھے غار تھے۔ سائنسی ترقی میں وہ اتنے آگے نکل گئے کہ انہوں نے دوسری کہکشاؤں کو سَر کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں رفتار کے پیمانے بدل گئے تھے۔ وہ جس سیارے پر بھی جا اترے وہ لق ودق صحراؤں اور خشک بنجر پہاڑوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ وہ حیران تھے کہ ان اربوں ستاروں اور کہکشاؤں کو کس نے تھام رکھا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے ٹکراتے کیوں نہیں۔۔۔؟ اسی بات پر ایک روز بحث جاری تھی۔
مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن میں اس بات کا جواب موجود ہے۔۔۔ عورت نے تیقن سے کہا۔
کیا لکھا ہے اس کتاب میں۔۔۔؟
اس نے کمپیوٹر میں قرآن کی CD ڈالی۔ اسے Open کیا۔ بائیں جانب ایک سو چودہ سورتوں کی فہرست تھی۔ اس نے Al -Yaseen پرکلک کیا پھر آیت تلاش کی۔
یہ دیکھو۔۔۔!
’’اور ایک نشانی ان کے لیے رات ہے۔ کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں اور اس وقت ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے۔ یہ خدائے غالب اور دانا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے اور چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کر دیں یہاں تک کہ گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ تو سورج ہی سے ہو سکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔‘‘
Amaizing۔۔۔ واقعی حیران کن کتاب ہے۔ اس کا خاوند تحیر میں ڈوبا قرآنی آیت کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
ابھی ٹھہرو۔۔۔ اگلی آیت دیکھو۔
’’اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور ان کے لیے ویسی ہی اور چیزیں پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔‘‘
اوہ۔۔۔ میرے خدا۔۔۔ اللہ کہتا ہے کہ ہم نے ویسی اور چیزیں پیدا کی ہیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سائنسی ترقی کار سے جہاز اور اپالو تک جو ہماری سواریاں ہیں ان کا اصل خالق اللہ ہے۔۔۔ حیرت انگیز کتاب ہے یہ۔۔۔!
اس سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اربوں کہکشاؤں میں مغز ماری فضول ہے۔ ہوا پانی اور دوسری مخلوق کا کہیں وجود نہیں ہوگا۔ ہمیں زمین پر ہی رہنا چاہیے اور اسی کو سنوارنا چاہیے۔
با لکل۔۔۔ بلکہ میں تو مذہبی کتابوں اور حدیث کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ جس طرح ایٹم ایک ذرہ ہے اور پوری دنیا کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے ایسے ہی قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو پوری دنیا کو سنوار سکتی ہے۔ میں نے اس کا مکمل مطالعہ کیا ہے۔ یہ زمین پر انسان کو اس کی زندگی کے ایک ایک لمحے کی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کی رہنمائی میں زندگی گزاری جائے تو انسان دونوں جہانوں میں ٹھوکریں کھانے سے بچ جاتا ہے۔
اگر کبھی زمین سے رابطہ ہو گیا اور ہم واپس اپنی دنیا میں پہنچ گئے تو تمہاری اس Fundamental Theory کو کون قبول کرےگا؟
بھلے سے کوئی نہ کرے۔۔۔ میں سچ جان گئی ہوں۔۔۔ آؤ میں تمہیں ایک اور چیز دکھاؤں۔ اس نے سورت Al-Bani Israeel پر کلک کیا۔۔۔ دیکھ رہے ہو۔۔۔ نا!
’’وہ ذات پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد ا لحرام سے (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجدِ اقصی( یعنی بیت المقدس ) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا۔ تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے پیغمبر محمد ابغیر اپالو کے آسمانوں پر کیسے پہنچ گئے۔۔۔؟ وہ عہد تو ترقی یافتہ نہیں تھا۔۔۔ اس کے خاوند نے پوچھا۔
وہ عہد اس Universe کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ عہد تھا۔ محمدا کا واقعہ معراج ایک ایسی Univocal سچائی ہے جسے جھٹلانا نا ممکن ہے۔ میں تمہیں سمجھاتی ہوں۔
دیکھو اپالو Material ہے۔۔۔ ہے نا۔۔۔! اس میں انرجی Atomic fuel ہے۔ اسی انرجی سے یہ لاکھوں میل کی مسافت طے کرتا ہے۔ یہ فیول نہ ہو تو بے جان مادہ زمین پر ہی پڑا رہے۔۔۔ اسی طرح مسلمانوں کے پیغمبر محمدا کے باطن میں اللہ نے روحانی اٹامک فیول رکھ دیا تھا۔ انتہائی Powerful Atomic Fuel۔
اگر Atomic fuel سے یہ مادہ، یہ اپالو اڑ سکتا ہے۔ لاکھوں میل کی مسافت طے کر سکتا ہے تو روحانی Fuel سے جسم جو ایک مادہ ہے کیوں نہیں اڑ سکتا۔۔۔ وہ یقیناً آسمانوں پر گئے تھے۔۔۔!
چلو تمہاری بات مان بھی لی جائے۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم Friction کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔۔۔ اس کے شوہر نے سوال کیا۔
اسے بھی سائنس ثابت کر چکی ہے۔
کیسے۔۔۔؟
آئن سٹائن کی تھیوری ہے کہ اگر مادہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیالیس ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرے تو وہ روشنی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
گفتگو میں ان کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ انہیں گرد و پیش کی خبر ہی نہیں تھی۔ بچوں کی چیخوں پر وہ ایک دم چونکے۔۔۔ بچوں کے چہرے خوشی سے گلنار ہو رہے تھے۔
زمین سے رابطہ بحال ہو گیا۔۔۔ خوشی سے سب کی آوازیں کانپ رہی تھیں۔
ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ آواز صاف اور واضح تھی۔
ہم زمین سے بول رہے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ لوگ آج سے پچاس ہزار سال پہلے مریخ کے مدار میں داخل ہوئے تھے۔۔۔!
کیا کہا۔۔۔؟ پچاس ہزار سال۔۔۔! ہمیں تو بمشکل پچاس سال ہوئے ہوں گے۔
وہاں وقت کا پیمانہ اور ہوگا۔۔۔ سائنس دانوں اور حکومتوں کے متفقہ فیصلے کے مطابق صدیوں سے اپالو با قاعدگی سے مریخ کے سفر پر روانہ کیا جا رہا ہے۔ اسی آس پر کہ شاید کبھی انہونی ہو جائے اور آپ سے رابطہ ہو جائے۔ اپالو مریخ کے مدار میں داخل ہونے والا ہے۔ آپ کا سائنس روم خود بخود اس کے ساتھ منسلک ہو جائےگا۔
وہ جب زمین پر اترے۔۔۔ ہزاروں نسلیں گزر چکی تھیں۔
وہ عظیم ا لشان استقبال کے باوجود با لکل اجنبی تھے۔
وہ کس سے گلے ملتے۔ کون ان سے مل کے خوش ہوتا۔۔۔ کون ان کی تنہائی کا دکھ بانٹتا۔ ان گنت چہروں کے درمیان ان کا کوئی بھی اپنا نہیں تھا۔۔۔!
وہ اربوں انسانوں کے درمیان پھر تنہا ہو گئے۔۔۔!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.