Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندگی اے زندگی

محمد جاوید انور

زندگی اے زندگی

محمد جاوید انور

MORE BYمحمد جاوید انور

    اس نے مجھے گھما کر رکھ دیا۔

    اب تمہاری سمجھ میں آگا ہو گا کہ مں ساری زندگی کوئی بھی تعلق، میرا مطلب ہے کہ رومانوی تعلق کون نہیں نبھا سکا۔

    اس نے اپنی طرف سے قصہ ختم کا۔

    ہم یہ دھواں دھار گفتگو پچھلے تند گھنٹے سے کر رہے تھے۔ اس کا خال تھا مجھے سمجھا ہی ڈالےگا کہ اس کی زندگی اییر کواں تھی جیں کہ تھی اور یہ بھی کہ اس کی زندگی ابھی ہی کون گزری۔

    ہم تن سال سے ساتھ تھے ۔ کبھی یوں قریب آ جاتے کہ ہمارے بچ سے ہوا بھی نہ گزر سکتی ۔ یک جان و دو قالب سے بھی کہتی آگے ۔ شاید یک جان و یک قالب۔ پھر کوئی چھوٹی سی بات اییم نکل آتی کہ یا تو اسے چپ لگ جاتی یا مجھے۔ ہم سے ایک کچھوے کی طرح اپنی گردن انا کے سخت، بھدے اور ناقابل شکست خول مکیں گھسیڑ کر قلعہ بند ہو جاتا۔ دوسرا اپنی کوشش کی گدھ کی تزا چونچ بھی اس خول منھ گھسیڑ کر اس کا نرم حصہ نہ ڈھونڈھ پاتا۔ اس سرد مہری اور نیمے دروں نیمے بروں کتش ک مں کئی دن گزر جاتے۔ پھر وقت کی حدت اور تنہائی کی گھٹن براونی قلعہ بندی مںس دراڑ ڈالتی اور ذات کا گھوڑا گھمنڈ اور یکتائی کی خندق پھلانگ جاتا۔

    مجھے بوگی کی زندگی گزارتے پانچ سال ہو چکے تھے اگرچہ مر ی عمر صرف پست سال تھی۔ اپنے دکھ کے دو سال گزار کر فطری زندگی کی طرف لوٹ رہی تھی کہ ہماری ملاقات ہو گئی۔ اس کمپنی مں دوسرے شہر تبادلے معمول نہں تھے لکنل آسامی خالی ہونے پر یا کسی عہدیدار کی درخواست پر انتظامہ زیادہ مزاحم بھی نہیں ہوتی تھی۔

    میں عادتاً بڑی اور ذمہ دار گردانی جاتی تھی لکن خشک یا بدمزاج ہرگز نہیں۔ موسیزا، مصوری، فلم، آرٹ ادب مجھے بھاتے تھے۔ طبعا کھلے دل اور کھلے ذہن کی تھی اور مررے ارد گرد کے لوگ مجھ سے ربط ضبط مل کوئی دقت محسوس نہں کرتے تھے۔ میری پہلی محبت، پہلا جنسی تجربہ، شادی یا ازدواجی زندگی کا تذکرہ یہاں بےمحل ہوگا۔ اسی طرح اوائل عمر یا ازدواجی زندگی کی جنسی و نفسابتی پدبت گوں یا اس جانکاہ حادثے کا ذکر کہ جس نے مجھے بو ی سے بوکہ بنا دیا یہاں بےجا ہوگا۔

    یہ بتانا بہرحال ضروری ہے کہ میں عمر کے اس حصہ مں تھی جہاں فطری جنسی تقاضوں کا دریا کناروں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ جذبات شدت کی آخری حدوں کو چھوتے ہں اور یہ مدوجزر ہر ماہ کئی کئی روپ دکھاتا اور پھر دہراتا ہے۔ شرجل مجھ سے دو تنط سال بڑا تھا اور عہدے مںپ تھوڑا سا سنئرت۔

    اس کے کراچی سے لاہور تبادلہ کی محرک اس کی اپنی خواہش سے زیادہ کمپنی کی انتظامی مجبوری تھی۔ بہرحال، حاصل قصہ یہ کہ وہ نہ صرف لاہور آ چکا تھا بلکہ اب اسے لاہور مں آئے تنک سال اور مرے دل میں آئے اڑھائی سال ہو چکے تھے۔

    آج ہم پھر وہ قضہا لے کر بٹھےر تھے جس نے ہمارے تعلق کو نرالاہی رنگ ڈھنگ دے رکھا تھا۔

    ہم دونوں نوعمر یا ناپختہ ذہن نہں تھے پھر بھی ہم بہت ہی تزگی سے قریب آئے۔ قریب کب آئے ایک دوسرے میں گر گئے اور گرے بھی اتنی تزہی سے کہ کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔

    میں ہمیشہ یہ سمجھتی تھی کہ محبت تو بس اِک خواب ہے۔ اک خواب، جو چڑھتی جوانورں کے جوار بھاٹا سے بھاپ کی مانند اٹھ کر کچے ذہنوں کو گرفت کرتا ہے۔ جو جبلی تقاضوں کا ایک ملفوف اور مستور تقاضا اور اظہار ہے۔ مر ا خا ل تھا کہ محبت، وقت اور واقعات اس بے سمت منہ زور دھارے کو ٹھہراؤ سکون اور سمت دیتے ہیں۔ مگر میرے ان خیالات اور اعتقادات نے خاک ہونا تھا۔ مروی عقل نے عاجز آنا تھا اور میری سوچ نے اپنے عجز پر قانع ہونا تھا۔

    رشتوں میں جسم کتنا ہے اور ذہن کتنا، دل کتنا ہے اور روح کتنی، اس طرف کبھی دھیان نہیں لگا تھا۔ شرجل کے آنے، پھر اتنی تز ی سے مرتے بہت قریب آنے اور پھر چمٹ کر رہ جانے نے عجب صورت پیدا کردی تھی۔ ہم نہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے تھے نہ ایک دوسرے کے بغرم۔ ہم خوب خوب لڑتے، بول چال بند ہو جاتی لکنس پھر اک دوسرے کو ڈھونڈتے اور بات چت شروع کرنے کے بہانے بناتے۔ ہر لڑائی کے بعد ہم اور زیادہ قریب آ جاتے اور اگلی بار اور بھی زیادہ شدید لڑائی کرتے۔

    میں جنس کو ایک ہوا بنائے بیھزے تھی۔ شرجلج نے مجھے سکھایا کہ یہ ہوا نہیں حققت ہے۔ خوف کھانے یا نفرت اور اجتناب کا منافقانہ ڈراما کرنے کی چزی نہیں۔ ماننے، تسلمج کرنے اور اہمتے دینے کی فطری چزہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہںف کہ ہم اخلاقی قدروں یا معاشرتی پابندیوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ بس اتنا تھا کہ ہمں اپنی حدود کا پتا تھا۔ یہ ضرور ہوا کہ اس موضوع سے نہ ہم بدکتے نہ جھجھکتے یا خوف کھاتے۔ بس اسے بھی ایک مسلمہ حققتج بلکہ خوب صورت حققتو سمجھتے۔

    اس کی پوری جمالاںت اور حسا۔ت کے ساتھ۔

    بالآخر آج کی بحث بھی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ کچھ مں۔ قائل ہوئی اور کچھ وہ۔ کچھ مںت نہ مانی اور کچھ وہ اڑا رہا۔ ہم اتنی لمبی بحث سے فارغ ہوئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں کوچل دیے۔ ایک دوسرے کے بارے مں۔ سوچتے ہوئے۔

    ہمیں کل پھر ملنا ہے۔ مںل اپنی تنہاکیوں میں محسوس کرتی ہوں کہ مرہے فطری تقاضوں کو کسی کی ضرورت ہے۔ وہ 'کسی' شرجل سے بہتر کوئی نہیںم ہو سکتا۔ اس کا خامل ہے کہ ایسا کوئی بھی تعلق ہمیں راس نہیں آئےگا اور ہم دوستی سے بھی جائیں گے۔ ہم دونوں درماہنہ طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود اچھے اداروں سے پڑھے ہیں۔ شرجل تو ایک آدھ ڈگری باہر سے بھی لاچکا ہے۔ ہم بہت مذہبی نہںا لکنپ مذہب ہماری عائلی اور سماجی زندگی میں سچ بس کر لاشعوری طور پر کہیں نہ کہںک ہمیں اپنی گرفت میں ضرور لاتا ہے۔

    مںں سخت مخمصے میں ہوں۔ کیا مجھے شرجل سے محبت ہو چکی ہے؟

    میں اس سے یہ بات کروں گی تو اس کا قہقہہ فلک شگاف ہوگا۔

    کل پھر اک بحث ہوگی ۔ کل پھر دلائل چلیں گے ۔ بڑا شور شرابا ہوگا۔ کہیں ذات بھی آجائیں گی اور شاید اسی بناید پر لڑائی بھی ہو جائے۔

    ہمیں ایسے ہی کرتے کراتے تنو سال گزر چکے ہیں۔ زندگی تز ی سے گزرتی جا رہی ہے۔

    خراں دیکھتے ہیں کل کاک ہوتا ہے!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے