زندگی کا زہر
بھرے شہر میں تنہائی کا ڈستا احساس۔ وجود میں بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی نا آسودہ آرزوؤں کا زہر۔ رگ رگ میں بسی ہوئی تنہائی کی گھٹن۔ آنکھوں میں چبھتا ہوا اذیت کا احساس۔ یہ سارے درد جو پچھلے کتنے زمانوں سے دل کے کسی سنسان گوشے میں دفن تھے، آج اسی کا جنازہ اپنے کندھوں پر لیے اس کے سامنے بت بنے کھڑے تھے۔
’’بیگم صاحبہ کیا ہوا؟‘‘ اس کی بڑی بڑی کالی آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑی دیکھ کر زیبو کے جسم دباتے ہوئے ہاتھ رک گئے۔ لیکن وہ بالکل خاموش، موت کے تنہا احساس کی طرح آنکھیں آئینے پر ساکت۔ پھر اس پر جوانی کا پچھلا پہر، کالے بالوں میں نکھری چاندی کی جھلملاتی آسیب، اپنی گھٹی ہوئی خواہشوں سے گھبراکر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔
’’بیگم صاحبہ آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘ جو اب میں ایک لمبی ٹھنڈی سانس جو ہونٹوں پر آکر الجھ گئی۔ زیبو سگریٹ جلاکر لائی۔
’’ہاں بیگم صاحبہ پئیں گی آپ؟‘‘
اس نے خموشی سے سگریٹ سلگایا۔ سوکھے ہونٹوں میں دبا ہوا سستا سا سگریٹ سلگایا۔ سگریٹ کا سفید دھواں اور تنہائی کی گھٹن۔
’’بی بی جی آج تو کالو نے بھی دیکھ لیا۔‘‘
’’پھر؟‘‘ وہ ڈر کے مارے چونک گئی۔
’’کہنے لگا کیا کرتی ہو سگریٹوں کا؟‘‘
’’تم نے کیا کہا؟‘‘ آنکھوں میں راز کھلنے کے ڈر کے سائے۔
’’میں نے کہا میں پیتی ہوں سگریٹ۔‘‘
دونوں کی ہلکی ہنسی جیسے کھنڈروں سے تنہا آواز کی بازگشت۔
’’زیبو۔‘‘
’’جی بیگم صاحبہ۔‘‘
’’تجھے کالو اچھا لگتا ہے۔‘‘
بڑا گہرا سوال لیکن بظاہر درمیانہ سا۔
’’اپنا شوہر کیسے اچھا نہیں لگتا۔ بیگم صاحبہ۔‘‘
’’تجھے پیار کرتا ہے؟‘‘
’’بی بی جی وہ تو کہتا ہے کہ ایک پل بھی مجھ سے جدا نہ ہوا کر۔‘‘
’’بڑے مان سے دیا گیا جواب لیکن اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے گرم گرم خون اترآیا ہو۔ جسم سے پاتال تک پھیلا سگریٹ کا دھواں۔ ایک لمبا کش۔ سوچوں کا ایک طویل سلسلہ۔ ناآسودہ آرزوؤں کا زہر دل میں بھر آیا۔ ایک سانولا سا چہرہ جو وہ دروازہ کے بند کواڑے سے جھانک کر دیکھا کرتی تھی۔ ایک گرم دوپہر کو جھانکتے ہوئے پکڑی گئی تھی۔
’’کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘
اس کے سہمے ہوئے وجود کے چاروں طرف مضبوط بانہیں پھیل گئیں۔ اس کا دل سینے سے نکل کر خون کی ہر بوندھ میں دھڑکنے لگا۔ بہار کا پھیلاؤ اس کی رگ رگ میں پھیل گیا۔ تب کسی کے کھانسنے پر وہ بانہوں کے گھیرے سے نکل کر اپنے گھر میں آچھپی تھی۔ وہ بچپن سے ہی احمد کے ساتھ منسوب تھی۔ بہت پہلے ایک دن سورج ڈھلتے وقت اس کی چچی نے جھل مل کرتا لال دوپٹہ اسے پہنایا تھا اور اپنی آغوش میں لے کر کہا تھا، ’’میرے احمد کی چھوٹی سی دلہن۔‘‘ اور یہ الفاظ کئی زمانوں سے اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ تب سے اس نے احمد کے لیے خوبصورت سپنے اپنی آنکھوں میں سجالیے تھے۔ اس کے بعد اس کے خوابوں کی تعبیر زیبو کے ’’پرے‘‘ تلے اندھیری راتوں میں گھر کی چھت پرلمبی ملاقاتوں، خوشبوؤں میں بسے لمبے خطوط بانہوں کے وسیع پھیلاؤ تھے۔
احمد پڑھنے کے لیے حیدرآباد چلاگیا اور پھر واپس آنے کا وعدہ کرکے ملک سے باہر چلا گیا اور وہ اس بہت بڑے بنگلے میں تنہا رہ گئی۔ جیسے قبرستانوں میں بھٹکتی ہوئی تنہا بدروح۔ جسم کے اندر پاتال میں احمد کی مضبوط بانہوں کا لمس، کانوں میں سرگوشیاں۔ ’’آخر تو تمہیں میرا ہی ہونا ہے پھر شرمانا کیسا۔‘‘ خون کی ہر بوند میں انجانا بھاری بوجھ۔ دوسرے مہینے سب کچھ خود ہی سمجھ گئی۔ پاگل سی ہوگئی۔ دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر اتنا چیختی تھی کہ دھرتی سے آکاش تک بازگشت بن کر گونجتی رہی تھی۔
اس کی ماں کی تیز نظریں سب کچھ سمجھ چکی تھیں۔ بے ہوشی کی حالت میں آنکھوں تلے اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ یہ سوچ کر اس کے بھائی جو بڑے غیرت مند تھے اگر ان کو پتہ چل گیا تو اسے جان سے مار ڈالیں گے۔ باپ جو بڑا عزت دار آدمی تھا اس کا گلا گھونٹ ڈالے گا۔ لیکن ان دنوں وہ سب گھر پر نہیں تھے۔ بھائی نئی گاڑیاں لینے کے لیے حیدرآباد اور کراچی کے درمیان دوڑتے رہتے تھے۔ اس کے باپ نے حال ہی میں ایک مچھیرن کو بغیر نکاح کے اپنے گھر میں رکھ لیا تھا۔ ایک ماں تھی جو سارا سارا دن پاگلوں کی طرح اس کے پیٹ کی جانب گھورتی رہتی تھی اور وہ خود سارا سارا دن پنگھوڑے میں غنودگی کے عالم میں سوئی رہتی تھی۔
آخر اس کی ماں نے زیبو کو شہر بھیج کر ڈاکٹرنی کو بلواہی لیا۔ جب اس کے جسم کے پاتال میں چھپا ہوا بوجھ کم ہوگیا، تب اس کی ماں نے دوہزار روپے اور ایک سونے کی انگوٹھی دے کر ڈاکٹرنی کا منہ بند کردیا۔ لیکن وہ کئی دنوں تک ویران آنکھوں سے چھت کو تکتی رہی تھی۔ ہر احساس جیسے خود بخود مرگیا ہو۔ اس لمحے اچانک اس کے دل میں ظاہر ہوتاخون اور گوشت کا چھوٹا سا لوتھڑا، جوزیبو نے کموڈ میں پھینک کر فلش چلادیا تھا۔ پانی کی ایک تیز لہر نے گوشت اور خون کے اس لوتھڑے کو دھرتی کے پاتال کی طرف دھکیل دیا۔ لیکن لال لال خون اور گوشت کا یہ بے جان لوتھڑا اس کے اندر چبھتا رہا۔ چھوٹی چھوٹی بانہیں اس کے سارے جسم میں لپٹ گئیں اور پھر اندر سے ایک چیخ نکلتی تھی جو ساری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی۔ اس کے باپ نے ڈاکٹر کو بلو الیا۔
’’ہسٹریا ہے شادی کردو۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ دوزنی (دو بیویوں والا) ہماری بیٹیوں کے لیے کہتا ہے شادی کروادو۔ باپ ڈاکٹر کو گالیاں دینے لگا تب اس کی چیخیں اور بھی بڑھ گئیں۔ اپنے گھٹے ہوئے احساس سے گھبراکر احمد کو خط لکھا جو زیبو چھپا کر پوسٹ کر آئی۔ واپسی میں بہت دنوں کے بعد احمد کا خط آیا تو سہی لیکن اس کے باپ کے نام۔
’’میں بڑوں کے فیصلوں سے فردوس کو آزاد کرتا ہوں کیونکہ میں نے یہاں پر شادی کرلی ہے۔‘‘ احمد کے خط سے کہرام مچ گیا۔ احمد کا بھائی تو احمد کا خون کرنے ملک سے باہر جانے لگا (جیسے وہاں پر بھی سندھ کی طرح انسان کو مارنا آسان کام ہو) لیکن باپ عقل والا تھا۔ عزت کا معاملہ تھا۔ غیرت والے ایک مرتبہ جس جگہ سے رشتہ کرتے ہیں اسے نبھاتے بھی ہیں اور یہ بات کوئی اتنی بڑی بھی نہیں تھی۔ دو بیویاں تو ہم سندھی مردوں کی شان ہیں۔ سو احمد کو لکھ کر بھیجا کہ ’’جتنی بیویاں اتنی شان، جہاں ناتا لگایا اسے نبھانا، یہ ہماری برادری کی شان ہے۔ فردوس جب تک زندہ رہے گی تمہارے لیے بیٹھی رہے گی۔‘‘ احمد نے کوئی جواب نہیں دیا اور جب بات برداری میں پھیل گئی تو اس نے بھی سنا اور اس کے من کی بلند عبادت گاہیں ایک پل میں زمین دوز ہوگئیں۔
اسے ایک بار پھر خون اور گوشت کا وہ لوتھڑا اپنے جسم پر رینگتا ہوا محسوس ہوا۔ کئی خط اس نے احمد کے نام لکھے لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ اندر ہی اندر ریت کے ذروں کی طرح بکھرتی اور ٹوٹتی رہی خون کی ہر بوند میں زندگی کا زہر پھیلتا گیا۔ جوانی کے ڈوبتے سورج کا شدید احساس، تنہائی کا عذاب۔ زیبو نے دوپٹے کے پلو سے ایک سگریٹ سلگاکر اس کے خشک ہونٹوں میں دبادیا۔ دو تین لمبے کش۔ سینے سے اٹھتی ہوئی ہلکی کھانسی کی بازگشت۔ وہ سوچنے لگی انسانوں کی بستی سے نکل کر کہیں بھاگ جائے لیکن زہریلی سوچیں دماغ کے ہر گوشے میں پھیل گئیں۔
’’زیبو اگر میں مرگئی تو۔‘‘
’’مریں آپ کے دشمن بی بی جی۔‘‘
’’نہیں میں بھاگ جاؤں گی۔‘‘ ا ک ہلکی سی ہنسی۔
’’آہستہ بولیں بی بی جی کوئی سن نہ لے۔‘‘
ایک زور دار قہقہہ جیسے دمے کی کھانسی کی بازگشت۔
’’اگر میں بھاگ گئی تو یہ مجھے ذبح کرڈالیں گے۔‘‘
وہی قہقہہ لیکن قہقہے میں کھوکھلا پن۔۔۔ آنکھوں میں خوابوں کے جنازے سمٹ آئے۔ دل میں باپ اور بھائی کا خوف جن کی غیرتیں اور عزتیں صلیب کی طرح اس کے کاندھوں پر ٹکی ہوئی تھیں لیکن اس کے بعد بند آنکھوں میں گھوم گئیں۔ بہت سی یادیں۔ سلیم جسے اس نے برقعے کے کالے نقاب میں سے ریشم گلی کی ایک زیورات کی دکان پر دیکھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی پتہ نہیں کیوں اس کے دل نے دھڑکنا شروع کردیا تھا۔
’’آپ نقاب تو اٹھائیں۔‘‘ انگوٹھی دکھاتے ہوئے اس نے فردوس کے کان میں سرگوشی کی۔ نقاب کے اندر اس کا چہرہ ایک پل کے لیے سرخ ہوگیا اور جب اس نے انگوٹھی انگلی میں پہنی تو اچانک اس نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔
’’اتنے نازک ہاتھ میں اتنی بیدردی سے انگو ٹھی نہیں پہنی جاتی۔‘‘
وہ اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑانہ سکی۔ وہ اسے دیسی فلموں کا ہیرو محسوس ہوا جس سے اسے کسی زمانے میں عشق ہوگیا تھا۔ جس کی فلمیں، اخباروں اور رسالوں سے کٹی ہوئی تصویریں اس کی الماری میں رکھی ہوئی تھیں۔ انگوٹھی لے کر جب وہ دکان سے نکلی تب اس نے فردوس کے کان میں سرگوشی کی، ’’پھر آئیے گا۔ میں آپ کا انتظار کروں گا۔‘‘
پھر سارے راستے وہ اور زیبو اس کی باتیں کرتے آئے۔ اسے ساری رات نیند نہیں آئی۔ اس رات اسے نہ احمد کا سانولا چہرہ یاد آیا نہ گوشت اور خون کا وہ لوتھڑا رینگتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے انگوٹھی پہناتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑلیا تھا اور کہا تھا، ’’آپ کے ہاتھ کتنے نازک ہیں۔‘‘ وہ ساری رات اندھیرے میں اپنے خوبصورت ہاتھ د یکھتی رہی، جن پر ابھی تک سلیم کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہورہا تھا۔ دوسرے دن ماں سے کہنے لگی، ’’انگوٹھی تنگ ہوگئی ہے۔ میرا خیال ہے بدلوانا چاہیے۔‘‘ اور پھر شام کی ا داسی میں چہرے پرنقاب ڈالے زیبو کے ساتھ وہ اسی دکان میں پھر گئی۔ وہ مسکراکر کہنے لگا، ’’مجھے یقین تھا کہ تم آؤگی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
کئی سوال اس کیوں میں سمائے ہوئے تھے۔
’’میں تمہارا انتظار کر رہا تھا۔‘‘
اس نے بڑے یقین سے کہا۔ تب اسے محسوس ہوا اس کا دل سینے سے نکل کر پیروں میں آکر دھڑکنے لگا ہے لیکن بظاہر دکھاوے کے لیے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔ حالانکہ اس کا دل بھی شدت سے چاہ رہا تھا کہ وہ ایسے ہی اس کا ہاتھ تھامے رہے اور زندگی کے لمحے ساکت ہوجائیں لیکن وہ بھی اس معاملے میں بڑا تجربہ کار تھا۔ اس نے اپنی دکان میں کئی لڑکیاں پھنسائی تھیں۔ وہ شریف زادیوں کے اندر چھپی ہوئی ناآسودہ خواہشوں سے واقف تھا۔ وہ خود ان خواہشوں کی تکمیل کیا کرتا تھا۔
’’تمہارے یہ ہاتھ چومنے کو دل کرتا ہے۔‘‘ اس نے سرگوشی کی اور وہ ایسے شرماگئی جیسے اس نے یہ لفظ پہلی مرتبہ سنے ہوں۔ احمد سے پہلے اسکول کلرک نے بھی یہی بات کی تھی۔ لیکن وہ نئی نویلی دلہن کی طرح شرماگئی تھی۔
’’انگوٹھی تنگ تھی بدلوانے آئی ہوں۔‘‘
’’پہلے نقاب تو اٹھائیے۔‘‘ اس نے فردوس کا نقاب اٹھانا چاہا لیکن وہ ڈر کے مارے چونک گئی۔
’’نہیں نہیں کوئی دیکھ لے گا۔‘‘
’’ایک جھلک تو دیکھنے دیں۔‘‘ اس نے نقاب سے جھانک کر فردوس کا چہرہ دیکھا۔ ایک بار پھر اس کا دل سینے سے نکل کر پیروں میں دھڑکنے لگا۔
’’کتنی خوبصورت ہو تم۔‘‘
اس کی آواز میں نہ جانے کیا تھا۔ فردوس کو اپنا وجود پگھلتا ہوا محسوس ہوا۔ واپسی میں زیبو کو اس نے وہ ساری باتیں بتادیں جو اس نے سلیم سے کی تھیں۔ یہاں پر بھی ڈاکیے کا کام زیبو نے کیا۔ لمبے خوشبودار رومانی خطوط جو اردو شعروں سے بھرے ہوتے تھے، خوب صورت ریشمی رومال، ملنے کے لیے پیغام اور ملاقاتیں جو زیادہ تر سلیم کی دکان کے اندرونی کمرے یا اس کے دوستوں کے گھروں میں ہوتی تھیں۔ گھر سے سہیلیوں سے ملنے کا بہانہ کرکے نکلتی تھی۔ کبھی میلاد شریف، کبھی درزی، کبھی دعوت کا بہانہ۔۔۔ ماں نے بھی کوئی روک ٹوک نہیں کی۔ اس نے سوچا احمد کا دیا ہوا دکھ کم ہوجائے گا۔ گھرپر کھڑی دو دو گاڑیاں سلیم اور اس کے درمیان فاصلوں کو کم کرتی گئیں۔ ایک دن اس نے سلیم کے کاندھے پر سر رکھ کر کہا، ’’مجھ سے شادی کرو گے؟‘‘
وہ چونک گیا۔
’’تمہارے رشتہ دار بہت بڑے آدمی ہیں فردوس۔ مجھے تمہارا رشتہ نہیں دیں گے۔‘‘
’’ہم چھپ کر شادی کریں گے۔‘‘ اس کی بات سن کر سلیم کا چہرہ پیلا پڑگیا۔ اس نے کسی بھی لڑکی سے شادی نہیں کی تھی۔ اس کی اپنی خوبصورت بیوی اور دو پیارے پیارے بچے تھے۔ فردوس اور کئی دوسری لڑکیاں اس کی زندگی میں آئیں اور چلی گئیں۔ وہ ایک تجربہ کار کھلاڑی تھا۔
’’اپنی شادی جائز نہیں۔‘‘
’’جھوٹ کہہ رہے ہو۔‘‘
’’سچی قرآن اور حدیث کھول کر دیکھ لو۔ ’’اس نے قرآن و حدیث کا جھوٹا حوالہ دیا فردوس سے جان چھڑانے کے لیے۔ اور وہ چپ ہوگئی۔ موت کے تنہا احساس کی طرح یہ خاموشی اس کے من میں دور دور تک زہر کی طرح پھیلتی گئی۔ ایک دن اچانک سلیم کی دکان پر پہنچی۔ ایک چھوٹی عمر کا لڑکا دکان پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا، ’’سلیم بھائی سکھر چلے گئے ہیں اب وہ وہیں رہیں گے اور سکھر والی دکان ہی سنبھالیں گے۔‘‘ اسی لمحے اس کے من کی کچی اور پکی عبادت گاہیں زمین دوز ہوگئیں۔ وہ پھر شہر میں تنہائی کا ڈستا ہوا احساس لیے لوٹ آئی۔ اسے ایک مرتبہ پھر ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگے۔ کالی کالی تھکی تھکی آنکھوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی آنسو امنڈ آئے۔
اس نے خود کو سگریٹ کا ایک لمبا کش لیتے ہوئے آئینے میں دیکھا جو اذیتوں سے بھرا ہوا تھا۔ اندر باہر تنہائی کا احساس بھرے پرے شہر میں موت کے احساس جیسی تنہائی، کئی یادیں خون کی ہر بوند میں سماگئیں۔ چہرے، بانہوں کا پھیلاؤ، ہونٹوں کا لمس، کاندھوں پر زندگی کی صلیب، چھوٹی چھوٹی ناآسودہ آرزوؤں کا ہجوم اور پاتال تک پھیلا ہوا زندگی کا زہر۔
’’زیبو تم فیملی پلاننگ والے ہسپتال گئی تھیں، وہاں سے گولیاں لائیں۔‘‘ اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں بی بی جی۔ ڈاکٹر نے کہا ہے جتنے دن یہ گولیاں کھائیں گی۔ خیر رہے گی۔‘‘ دونوں کی ہلکی سی ہنسی لیکن ہنسی ایسے جیسے تنہا آواز کی بازگشت۔ پانی سے گولی حلق سے نیچے اتاری جیسے زندگی کا زہر گلے سے نیچے اتارا ہو۔ اسے ایک بار پھر گوشت اور خون کا لوتھڑا اپنے مرجھائے ہوئے جسم پر سرکتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے گولیوں کا پیکٹ تکیے کے نیچے چھپادیا اور وہاں سے ایک خط نکال کر زیبو کو دیا، ’’یہ جمیل کو دے دینا۔ اور اس سے کہنا کہ میں کل شام کو آؤں گی۔‘‘ زیبو خط لے کر چلی گئی اور وہ موت کے احساس کی طرح تنہا پنگھوڑے میں بیٹھی سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتی رہی، ازل کا عذاب خون کی ہر بوند میں سماگیااور ایک لمبی سانس لے کر اس نے آنکھیں موند لیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.