Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندوں کے لیے ایک تعزیت نامہ

خالد جاوید

زندوں کے لیے ایک تعزیت نامہ

خالد جاوید

MORE BYخالد جاوید

    ہم ایک سانپ بنانا چاہتے تھے۔ یا وہ ایک نقطہ تھا جو سانپ ہوجانا چاہتا تھا مگر راستے میں اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور اپنی سمت بدل دی۔

    اب وہ کچھ اور ہوگیا ہے۔ اپنے ادھورے پن میں معلق ،ہوا میں اِدھر اُدھر ڈولتا ہوا

    (کلیشمے)

    پیٹ میں کسی طوفان کی طرح لگاتار بڑھتے ہوئے تیز درد سے حواس باختہ ہوتے ہوئے، اس نے پہلے تو سڑک کے ایک طرف دوڑ لگائی، پھر خطرناک ٹریفک کی کوئی پرواہ کیے بغیر، سڑک کے اُس پار، دوسری طرف۔ اس پار بھی بہت دور تک دوڑا۔ یہاں بھی وہی جگمگاتا ہوا بازار، صاف ستھری دوکانیں اور خوبصورت چمچاتے ہوئے گھر۔ باقاعدہ شہری منصوبہ بندی کے تحت بنوائے گیے تقریباً ایک جیسے گھر جیسے ایک ہی ڈیزائن کی قبریں۔ ہر قبر ایک دوسرے کی نقل یا ہر موت ایک دوسرے کا چربہ۔

    وہ مایوسی سے ایک بجلی کے کھمبے سے ٹک کر کھڑا ہوگیا اور ہانپنے لگا۔

    اُس نے سوچا شاہراہ سے اتر کر ان گلیوں میں نکل جانا چاہیے جو ایک دوسرے کو نوّے ڈگری کے زاویے سے کاٹ رہی ہیں۔ شاید اِدھر مل جائے وہ شاہراہ سے ہٹ کر جلدی جلدی ایک گلی میں گھستا چلا گیا۔ سامنے بڑا سا پارک تھا۔ یہ گلیاں بھی اندر سے شاہراہ کی طرح جگمگا رہی تھیں۔ ہر طرف بجلی کے قمقمے روشن تھے، کسی بھی کونے میں، کہیں بھی کوئی تاریکی نظر نہ آئی۔ وہ تاریکی کے لیے تڑپ رہا تھا۔ کاش کوئی خالی دیوار ہی ہوتی۔ کسی مکان کی کوئی اندھیری پشت ہی ہوتی۔

    وہ چوروں کی طرح مکانوں کے آگے پیچھے چکر لگانے لگا۔ مگر کسی مکان کی کوئی پیٹھ نہ تھی۔ مکانوں کے جسم پر صرف ان کے چہرے ہی چہرے تھے۔ ہر طرف غضب کی صفائی تھی۔

    سارا شہر، صاف، روشن اور چمکتا ہوا جیسے ابھی ابھی لانڈری سے لایا گیا، سفید کلف لگا، کرتا پاجامہ ہو۔ اُس نے سونگھا۔ چاروں طرف سے کپڑے دھونے والے خوشبو دار صابن کی تیز مہک آرہی تھی۔

    کاش کہیں سے کوئی بدبو کا جھونکا بھی آجاتا۔ اُس نے سوچا مگر ٹھیک اُسی وقت، پارک میں لگے ہوئے پھولوں کے پودے ہوا میں لہرانے لگے۔ صابن میں پھولوں کی خوشبو بھی مل گئی۔ اب وہ اور بھی گھبرا گیا۔

    سامنے والی گلی میں چلنا چاہیے۔ اُس نے سوچا اور ایک مضحکہ خیز عجلت کے ساتھ کسی پریشان حال مینڈک کی طرح اُچھلتا، کودتا وہ سامنے والی گلی میں آگیا۔ مگر یہاں بھی بالکل اسی طرح کا پارک، ویسی ہی خوشبو۔ پارک میں بیٹھے ہوئے اُسی قسم کے لوگ، ہنستے بولتے اور کانا پھوسی کرتے ہوئے۔

    نالی، نالی، کہاں ہے؟ اُس نے کسی نالی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر تمام نالیاں شاید پا تال میں بہہ رہی تھیں۔

    جانور؟ جانور کہاں ہیں؟

    مگر تمام جانور شاید گندگی کے نام پر ذبح کیے جاچکے تھے۔

    سوّر ہی نہیں، کتے اور بلّی تک نہیں۔

    افسوس کہ اُس نے ابھی تک کسی کتے کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کہیں سے اُس کے بھونکنے کی آوز آئی۔

    مایوس ہوکر، وہ دھم سے زمین پر بیٹھ گیا اور اب اُسے محسوس ہوا جیسے وہ زمین پر نہیں، ایک تنی ہوئی اجلی سفید چادر پر بیٹھا تھا۔ چادر جوا ہوا میں معلق تھی۔ شاید بیٹھتے وقت اسے چکر آگیا تھا۔ وہ فوراً ہی اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور دونوں ہاتھ خلا میں پھیلا دئیے تاکہ آنے والے چکروں سے لڑسکے۔ درد اب بڑھ رہا تھا۔ چکر اُس کے قریب آرہے تھے۔ وہ زور زور سے ہاتھ ہلا ہلاکر، چکروں کو اپنے سے دور ہٹانے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر وہ آگے بڑھا اور اسی طرح، جھومتا، چکراتا، بائیں طرف والی پتلی گلی میں جانے لگا مگر جلد ہی یہ گلی پھر اُسی بڑی، روشن سڑک سے جاکر مل گئی جہاں سے وہ اِدھر آیا تھا۔

    اُس نے ایک بار پھر دوڑتے ہوئے خطرناک ٹریفک کو پار کیا اور سڑک کے دوسرے کنارے پر آگیا۔ وہ آہستہ آہستہ جنوب کی طرف، فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔ فٹ پاتھ کے کنارے بس غبارے ہی غبارے یا پھر چاٹ کے ٹھیلے ہی ٹھیلے جہاں پکی پکائی عورتیں، فحش انداز میں اپنے لپ اسٹک لگے ہونٹ کھول کھول کر گول گپّے کھا رہی تھیں۔

    ایک جگہ رُک کر اس نے آسمان کی طرف، انھیں عورتیں کی نقل میں فحش انداز میں منھ کھول کر دیکھا۔ آسمان کالا اور سرخ ہورہا تھا۔ اُس کے منھ میں دسمبر کا کہرا بھر گیا۔ اُس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔ اُسے پے درپے کئی چھینکیں آئیں اور وہ تکلیف سے بلبلا اٹھا۔ اسے محسوس ہوا جیسے ان جھٹکوں میں ایک سفاک چاقو اُس کے پیٹرو میں پیوست ہوگیا ہو،سارا جسم ہل رہا تھا۔

    کہیں کوئی گڈھا، کوئی تالاب، کوئی پوکھر؟

    کہیں کوئی گٹر، کوئی نالی؟

    مگر نہیں اب دنیا میں ایسی چیزیں کہاں۔

    کہیں کوئی کوڑا گھر؟

    نہیں سارے کوڑے کے ڈھیر پھولوں کے باغات میں بدل چکے تھے۔

    اس کی نظر سامنے لگے چمکتے ہوئے سائن بورڈ پر پڑی جہاں سرخ رنگ کا پھانسی کا پھندہ بنا ہوا تھا اور تحریر تھا۔

    ’سڑک پر سگریٹ پینے والے کا جرمانہ سزائے موت ہے۔ فضا کو کسی بھی طرح گندا کرنے والے کو شارع عام پر پھانسی دی جائے گی۔‘

    وہ بری طرح خوف زدہ ہوگیا۔ اسے سردی لگنے لگی۔ اس کی چمڑے کی پرانی جیکٹ میں بڑے بڑے سوراخ ہوگیے تھے۔ اِن سوراخوں سے سرد ہوا اور کہرا اندر پہنی ہوئی مدتوں سے میلی اُس کی نیلی قمیص میں، سینے کے پاس آگیے۔ اِس نیلی قمیص میں بھی چھید تھے۔ کہرا اس کے سینے کے بالوں کو گیلا کرنے لگا۔ اُس کے برسوں پرانے جوتوں میں ٹھنڈی ہوا آکر بیٹھ گئی۔ اُس نے یونہی ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھا ایک پل کو چاند نظر آیا مگر اس کے دیکھتے ہی، چاند اچانک کہرے کی قنات کے پیچھے چلا گیا۔

    وہ فٹ پاتھ سے اتر کر کولتار کی سیاہ سڑک پر آگیا۔

    درد اسی طرح آگے بڑھ رہا تھا جیسے ایک خراب گھڑی کی سوئی، رُک رُک کر جھٹکے لے کر آگے بڑھتی ہے۔

    رات زیادہ ہوگئی تھی۔ بازار بند ہونے لگا۔ سڑک پر چہل پہل کم ہونے لگی مگر پولیس بڑھنے لگی۔ صفائی کی حفاظت کرنے کے لیے، چپّے چپّے پر سفید وردیاں پہنے پولیس والے موجود تھے۔ اُن کی وردیاں صابن اور پھولوں کی خوشبو سے مہک رہی تھیں اور وہ اِتنی زیادہ سفید تھیں کہ کولتار کی کالی سڑک اِن کے چمکتے ہوئے عکس سے، ناقابل یقین حد تک سفید نظر آتی تھی۔ وہ سڑک پر سگریٹ بیڑی پینے والوں یا فضا میں گندگی پھیلانے والوں کو یہیں شارع عام پر پھانسی دینے کی تیاری کرکے نکلے تھے۔ اُن کے ہاتھوں میں سفید چکنی رسیوں کے پھندے تھے۔ وہ اپنے آپ میں خود مکتفی جلاد بھی تھے۔اسی لمحے اُسے محسوس ہوا جیسے اس کا پیٹ پھٹ جائے گا۔ وہ پاگلوں کی طرح دائیں طرف والی گلی میں بھاگا جیسے ملک الموت اُس کے تعاقب میں ہو۔

    سامنے اُسے ایک گھر نظر آیا جس کی کھڑکیوں سے روشنی باہر آرہی تھی۔ روشنی میں اُس نے اپنی بے ہنگم اور ڈولتی ہوئی پرچھائیں کو غور سے دیکھا اور پھر جلدی جلدی کچھ نہ سوچتے ہوئے اُس گھر کے دروازے پر زور زور سے دستکیں دینے لگا۔

    دروازہ ابھی اندر سے بند نہ تھا۔ وہ اُس کے ہاتھوں کے زور سے کھل گیا۔

    اُس کمرے میں دو مرد اور دو عورتیں، کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔

    اُس نے اِن کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔

    ’’بس ۔ پیشاب کرنے کے لیے۔۔۔ یقین کریں۔ خدا کے لیے کہ بس پیشاب کرنے کے لیے۔‘‘ وہ گھگیا رہا تھا۔ کوئی میز سے اٹھا تک نہیں۔

    دونوں مرد جڑواں تھے اور عورتیں بھی۔ دونوں کی عمروں میں بھی فرق نہ تھا۔ ایک منحوس اور نہ سمجھ میں آنے والی یکسانیت کھانے کی میز پر طاری تھی۔

    وہ اپنا اپنا شُوربہ پینے میں مگن تھے۔

    ’’ میں پیشاب کرنے کے لیے آپ کے گھر چلا آیا ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ یہ ایک ناشائستہ اور غلط بات ہے۔ آپ کا گھر، جناب کوئی عوامی پیشاب گھر نہیں، جہاں کوئی بھی ایرا غیرا منھ اٹھائے گھسا چلا آئے۔ مگر آپ مجھے ایک بن بلایا غریب مہمان سمجھ کر معاف کردیں۔ مجھے بہت تکلیف ہے۔ میرا مثانہ پھٹا جارہا ہے۔ میرے گردے میں پتھری ہے۔ براہ مہربانی مجھے باتھ روم کا راستہ دکھا دیں۔ میں زندگی بھر آپ سب کا احسان مند رہوں گا۔ آپ لوگوں کے قدم دھو دھو کر پیتا رہوں گا۔‘‘

    اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ لیا اور تکلیف کی شدت سے دوہرا ہوگیا مگر فوراً ہی اس انداز کو بدتمیزی سمجھتے ہوئے اس نے پیٹ پر سے ہٹاکر، دوبارہ اُن کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔

    مرد نے اپنے ہمشکل کی طرف اور عورت نے اپنی ہم شکل کی طرف دیکھا۔ پھر وہ چاروں، سفید چھت کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’میں مجبور ہوں، بے حد مجبور اور شدید بیمار۔ مجھ پر رحم کیجئے۔‘‘ اس نے سردی اور تکلیف کی شدت سے کپکپاتے ہوئے منّتکی۔ مگر اُس کی یہ کپکپاہٹ، سردی کھائے ہوئے، بخار میں مبتلا کسی کتے سے مشابہ تھی۔

    ’’ہم تمہیں پولیس کے حوالے کرنے جارہے ہیں۔ بتاؤ تم کہاں سے آئے ہو۔‘‘

    اُن چاروں نے ایک ساتھ کہا۔ مردانہ اور زنانہ آوازوں نے مل کر اِس جملے کو ایک پُرآسیب شور میں تبدیل کردیا۔

    ’’نہیں۔ خدا کے لئے نہیں۔‘‘ تقریباً یکساں آوازوں کے اِس آسیبی شور سے گھبرا کر اُس نے التجا کی۔

    ’’میرا یقین کیجئے میں چور نہیں ہوں۔ میں ایک شریف آدمی ہوں۔ شاید اس دنیا میں، میں بھی کہیں رہتا ہی ہوں گا مگر آج میں بھٹک گیا ہوں۔ اپنے گھر جانے کا راستہ بھول گیا ہوں۔ یہ شہر مجھے اجنبی لگ رہا ہے۔ شاید میں بہت دنوں تک سوتا رہا ہوں یا بے ہوش رہا ہوں یا پھر ممکن ہے کہ میری عقل اور یاد داشت دونوں ہی خراب ہوگئے ہیں مگر اتنا میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ یقین کریں کہ آپ کے گھر میں صرف پیشاب کرنے کے لیے ہی آیا ہوں۔ باہر سڑکوں پر، چوراہوں پر، گلیوں میں، مجھے کہیں بھی عوامی پیشاب گھر نظر نہیںآئے۔ میں نے انھیں بہت ڈھونڈا۔ شام سے اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہوں۔ گلیوں گلیوں بھٹک رہا ہوں مگر سڑک پر پیشاب کرنے کی سزا پھانسی ہے۔ وہ سب پھانسی کا سفید پھندہ لیے ہوئے شکاری کتوں کی طرح میری تلاش میں ہیں۔‘‘

    یہ کہتے کہتے، اُسی طرح اپنے دونوں ہاتھ جوڑے جوڑے، وہ اُن کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کسی بھیگے ہوئے، مسکین اور بیمار بلّے کی مانند کانپنے لگا۔اُن سب کے کپڑوں سے صابن اور پھولوں کی ملی جلی خوشبو آرہی تھی۔ اِسی خوشبو پر، کبھی کبھی بھنے ہوئے کرم کلّے کی بو حاوی ہوجاتی تھی۔

    ایک مرد نے کھانے والی سفید چمکتی ہوئی چھری اٹھائی اور کرسی سے اٹھ کر، اُس کے قریب آگیا۔

    ’ذلیل چور، تجھے نہیں معلوم کہ گھروں میں ٹوائیلٹ نہیں ہوتے؟‘‘ وہ غرّایا۔

    ’’کیا مطلب؟ اس بار درد سے نہیں، حیرت سے اُس کی آنکھیں پھٹ کر رہ گئیں۔

    ’’چلو پولیس کو فون کرو‘‘ مرد نے دوسرے مرد سے کہا۔

    دوسرے مرد نے پہلی عورت سے کہا۔

    ’’چلو پولیس کو فون کرو۔‘‘

    پہلی عورت نے دوسری عورت سے کہا۔

    چلو پولیس کو فون کرو۔‘‘

    جڑواں انسان اسے ہمیشہ ہی بھیانک اور پُراسرار لگتے تھے۔ اس سے اُن کی طاقت، نفرت اور تشدد میں زبردست اضافہ ہوجاتا تھا، وہ خالق کائنات کی تنوع پسندی کے خلاف نظر آتے تھے۔ اگر ایک شخص آپ کو زمین پر گرا کر ذبح کر رہا ہو تو آپ اُس کے دوسرے ساتھیوں سے کم از کم رحم کی بھیک مانگ سکتے ہیں یا آنکھوں ہی آنکھوں میں التجا کرسکتے ہیں۔ مگر اگر اتفاق سے وہ سب ساتھی ایک دوسرے کے ہم شکل ہوں یا جڑواں ہوں تو یہ قطعی ناممکن ہے۔

    نہیں۔ مجھے معاف کردیں۔ میں ان کے ہاتھوں قتل ہونا نہیں چاہتا۔ میں مرنا نہیں چاہتا، میں چور نہیں۔‘‘ وہ اُسی طرح گھٹنوں کے بل، ان کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھا رہا۔

    اُس کے منھ سے بار بار لرزتی ہوئی آواز میں یہ الفاظ نکل رہے تھے۔

    ’’پیشاب ، بس پیشاب، میں بے قصور ہوں۔ بیمار ہوں۔‘‘

    ’’تم پاگل ہو، گھروں میں ایسی چیزیں بنانے سے گندگی اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔ اب کوئی ایسی گھناؤنی اور کریہہ حرکتیں نہیں کرتا۔ چلو نکلو۔ اپنے دماغ کے علاج کے لیے اسپتال جاؤ۔ ‘‘

    پھر وہ چاروں ایک ساتھ بولے۔

    مگر اِس جملے کے شور میں وہ کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔ا ور اُسی طرح اُن کے سامنے پڑا بلبلاتا رہا۔

    تب وہ مرد، جس کے ہاتھ میں کھانے والی چمکتی ہوئی چھری تھی، اُس کے اور قریب آیا۔

    چمکتی ہوئی چھری کا سفید دستہ اُس کے سر پر پڑا۔

    وہ ایک خالی ڈبّے کی طرح پیچھے، دروازے کی طرف خود بخود لڑھکتا چلا گیا۔

    وہ ایک حقیر کیڑے کی طرح گھر سے باہر پھینک دیا گیا۔

    دروازہ ایک تیز آواز کے ساتھ اندر سے بند کردیا گیا۔

    وہاں، زمین پر اوندھے پڑے پڑے اُس نے اپنے سر کے قریب تانبے کے ایک خالی کٹورے کو رکھا ہوا محسوس کیا اور خلا سے ٹپکتی ہوئی خون کی ایک بھیانک بوند کی مہیب ’’ٹپ ٹپ‘‘ کو سنا جو وقفے وقفے سے اس کٹورے میں گرتی تھی۔

    بہت دیر بعد، وہ دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر وہ بڑی مشکل سے اٹھ سکا۔ اُسے لگا جیسے پیٹ کا درد غائب ہوگیا ہے۔ اب پیشاب بھی شاید نہیں لگ رہا تھا۔ مگر سر بری طرح دکھ رہا تھا اور آنکھوں میں تارے ناچ رہے تھے۔ وہ کہرے کی چادر میں لپٹا ہوا، ڈگمگاتا ہوا بغیر کسی سمت کا تعین کیے، آگے بڑھنے لگا۔ سڑکوں پر ٹریفک کا شور ختم ہورہا تھا۔ سناٹا چھا رہا تھا مگر سردی بڑھنے لگی۔ سردی کا اپنا شور تھا۔ اس شور کو اُس کے کان نہیں بلکہ اُس کی کھال سن رہی تھی۔ جس طرح سانپ آوازیں سنتا ہے۔ اُس کے پھیپھڑے اور دل سردی کے اِس کالے بھیانک شور سے سہم کر سکڑے جاتے تھے۔

    اب اُسے پھر اپنے پیٹ میں درد محسوس ہوا اور اس امر کا انکشاف بھی کہ اُس کے پیٹ میں رہنے والا درد، اُس کے دکھتے ہوئے سرکو دلاسہ دینے کے لیے کچھ لمحوں کے لیے، پیٹ اور پیٹرو سے رینگتا ہوا، اُوپر سر کی طرف آیا تھا اور اب واپس اپنے اصل ٹھکانے کی طرف جارہا تھا۔

    اُسے بہت زور سے پیشاب کی حاجت ہوئی۔ اُس سے برداشت نہ ہوسکا۔ بغیر کچھ سوچے اور اپنی جان کی پرواہ کیے، وہ اپنے کانپتے ہاتھوں کی انگلیوں سے پتلون کی فلائی کے بٹن کھولنے لگا۔ وہ اب اِس سنسان سڑک پر پیشاب کر دینے کے لیے تیار تھا۔

    چپے چپے پر گھومتے ہوئے، پھانسی کے پھندوں کو وہ اِسی طرح بھول گیا جیسے وہ رسّی کے نہیں، بلکہ دھول اور خاک سے بنے ہوئے پھندے تھے اور جنہیں کبھی اُس نے خواب میں دیکھا تھا۔

    مگر فلائی کے بٹن کھولتے ہی اُسے یہ بھیانک احساس ہوا جیسے وہاں صرف برف کا ایک ٹکڑا تھا۔ پیشاب کی حاجت برف کی جلتی ہوئی آگ بن گئی تھی۔ ایک ٹھنڈا، برف کا گہرا زخم۔ اُس کی انگلیاں برف کے اِس جہنم میں سُن ہوکر کٹنے لگیں، کھلی ہوئی فلائی میں دسمبر کی آدھی رات کی سرد ہوائیں اور کہرے کی اڑتی ہوئی دھجیاں داخل ہونے لگیں۔

    شاید لاشعوری طور پر خوف کی وجہ سے یہاں پیشاب نہ اتر رہا ہو۔ اُس نے سوچا اور اسے ایک بار پھر سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے، سفید وردی میں ملبوس، صابن اور پھولوں کی خوشبو سے نہائے ہوئے، ہاتھوں میں پھانسی کے پھندے اٹھائے ہوئے، جلّاد یاد آگئے۔

    اُن کا خیال آتے ہی وہ گھبرا گیا اور فلائی کے بٹن بند کرنا بھول گیا۔

    بُری طرح پریشان اور سر اسیمہ ہوتے ہوئے وہ جلدی جلدی بڑی سڑک کی طرف جانے والے رستے پر چلنے لگا۔

    چلتے چلتے، ایک جگہ ٹھٹک گیا۔ یہ ایک سینما ہال تھا۔ وہ خوشی اور امید سے بھر گیا۔ یہاں تو ہر حال میں پیشاب خانہ ہوگا۔ اُسے جگت ٹاکیز میں قطار سے بنے ہوئے پیشاب خانے یاد آگیے۔

    ابھی رات کا شو چھوٹنے میں کچھ وقفہ تھا۔ سینما ہال کے گیٹ کیپر اندر سے بند تالے کھولنے کی تیاری کرتے نظر آئے۔

    وہ جھپٹتا ہوا سنیما ہال کے چوکیدار تک پہونچا۔ یہاں بھی صابن اور پھولوں کی مہک موجود تھی۔

    چوکیدار نے اُسے غور سے دیکھا۔

    ’ایک منٹ کے لیے گیٹ کھول دو بھائی‘‘ اُس نے التجا کی۔

    ’’اب کیا بھاڑ جھونکنے آئے ہو، فلم ختم ہورہی ہے۔ اگر ایک گھنٹہ پہلے آتے تو چپکے سے بالکونی میں بٹھا دیتا۔ صرف دس روپے لیتا۔ اب کیا ہوسکتا ہے۔اب تو ہیروئین اپنی جان دے بھی چکی ہے۔فلم ختم ہوگئی۔ ‘‘

    میں فلم دیکھنے نہیں آیا۔ مجھے پیشاب کرنا ہے۔‘‘

    ’’کیا پاگل ہے تو‘‘

    ’’نہیں بھائی۔ میرے گردے میں پتھری ہے۔ میرا پیٹ پھٹا جارہا ہے۔ میں کہیں مر نہ جاؤں۔ مجھے ہال کے اندر کسی پیشاب خانے تک پہونچا دو۔ بس پیشاب کرکے ابھی آجاؤں گا۔‘‘ وہ اور بھی شدت کے ساتھ گڑ گڑایا۔

    ’’چل چل۔ آگے بڑھ۔ یہاں اب پیشاب خانے نہیں بنائے جاتے آگے بڑھ، ورنہ پولیس کو بلاتا ہوں۔‘‘

    گارڈ نے اپنا ڈنڈا ہاتھ میں اٹھاتے ہوئے اُسے بری طرح دھتکارا۔

    اُس نے نظر اٹھائی تو سنیما ہال کے اوپر ایک دیو قامت، پوسٹر ہوا میں پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اُسے یہ ہلتا ہوا پوسٹر پھانسی کے پھندے جیسا نظر آیا۔

    وہ کسی خوف زدہ جانور کی طرح وہاں سے بھڑک کر بھاگا۔ اِس طرح بھاگنے کی وجہ سے اُس کے جسم کے نچلے حصے میں بری طرح چبھن ہونے لگی جیسے ایک نوکدار کنکری وہاں آکر پھنس گئی ہو۔ یہ بھیانک چبھن کبھی اُس کے پیٹرو تک پہونچتی اور کبھی ناف تک۔ درد اور تکلیف کی اِسی حالت میں وہ دور تک بھاگتا چلا گیا۔ پتہ نہیں یہ شہر اُس کے بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازوں کو سن رہا تھا یا نہیں مگر اُس نے بھاگتے بھاگتے دور کہیں ریل کی سیٹی ضرور سن لی۔

    وہ رُک گیا اور اپنی سانسیں درست کرنے لگا۔

    ریلوے اسٹیشن چلنا چاہئے۔ وہاں تو ضرور پیشاب گھر ہوں گے۔ جانے کہاں کہاں سے مسافر آتے جاتے رہتے ہیں۔ اُس نے اپنے دل کو تسلی دی اور اُسے ایک بار پھر اپنا بچپن یاد آگیا جب ریلوے اسٹیشنوں پر موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوتا تھا۔

    ’’بم پولس مردانہ‘‘۔ ’’بم پولس زنانہ‘‘۔

    ایک پھروپھر، قریب ہی کہیں، ریل کی سیٹی سنائی دی اور اُس نے آواز سے اندازہ لگاتے ہوئے، سڑک سے اُتر کر دائیں طرف چلنا شروع کردیا۔

    اُس کا اندازہ غلط نہیں نکلا، وہ ایک چھوٹے سے مگر جگمگاتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کے سامنے کھڑا تھا۔

    بھیڑ نہیں تھی۔ اِکّا دکّا مسافر ہی نظر آرہے تھے۔ اسٹیشن پر غضب کی صفائی تھی، عمارت سفید تھی اور گویا عطر کی خوشبوؤں میں بسی ہوئی تھی۔ وہ دوڑتا ہوا اندر آیا۔ جیسے اُس کی ٹرین چھوٹ رہی ہو۔ پلیٹ فارم سنسان پڑا تھا ایک سفید پٹی کے مانند جس کے نیچے لوہے کی بیڑیاں دور تک بچھی ہوئی نظر آرہی تھیں، اور لال ہرے سگنلوں کا ایک جال تھا۔

    وہ پلیٹ فارم کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑتا چلا گیا۔ کئی جگہ اُس نے خوانچے والوں سے ٹکرا کر ٹھوکریں اور گالیاں بھی کھائیں مگر جس کی تلاش تھی، وہ نہیں نظر آیا۔

    مجبور ہوکر، تھکتے ہوئے اُس نے ایک بوڑھے مسافر کی طرف دیکھا۔ بوڑھا اپنا ایک عجیب سا بیگ، جو تقریباً ایک فٹ بال کی طرح تھا اور جس پر گدھے کے کان بنے ہوئے تھے، کاندھے پر ڈالے لوہے کی پیٹریوں کو خاموشی سے تکے جارہا تھا۔

    اُس نے پوچھا۔

    ’’جناب یہاں ٹوائیلٹ کس طرف ہے‘‘؟

    ’’کیا‘‘ بوڑھے کی منھ سے ایک سیٹی سی نکلی۔

    ’’ٹوائیلٹ ۔ میرا مطلب ہے پیشاب وغیرہ کرنے کے لیے‘‘ ۔

    بوڑھے نے اُسے اور اُس نے بوڑھے کو غور سے دیکھا۔

    بوڑھے کا چہرہ ایک گہرے زخم کے نشان کی وجہ سے دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ لگتا تھا جیسے یہ ایک چہرہ نہ ہو کہ دو چہرے ہیں جو ایک ساتھ اُسے پراسرار انداز میں گھور رہے تھے۔ یہ ایک لمبا زخم تھا جو پیشانی سے لے کر ٹھوری تک جارہا تھا۔ ایک گلابی سفید لکیر۔

    ’’مجھے پیشاب کرنا ہے۔ میرا پیٹرو پھول رہا ہے۔ میرے گردے میں پتھری ہے۔ اگر میں نے پیشاب نہیں کیا تو مرجاؤں گا۔ مہربانی کرکے مجھے بتائیں کہ میں کہاں پیشاب کروں؟‘‘

    اُس نے طوطے کی طرح رٹے رٹائے جملے ادا کیے۔

    ’’تم کہاں سے آئے ہو‘‘؟ بوڑھے کی آواز واقعی ایک سیٹی کی طرح تھی۔

    ’’جناب ۔ یقین کریں۔ اِس وقت مجھے یاد نہیں آرہا۔ درد کی شدت نے دماغ ماؤف کردیا ہے۔ میرا دل بیٹھا جارہا ہے۔‘‘ اُس نے لرزتی آواز میں جواب دیا۔

    ’’کیا تم بھول گئے کہ اب اِس دنیا میں کہیں کوئی پیشاب خانہ نہیں۔‘‘

    ’’آپ مذاق کر رہے ہیں۔ میں بہت تکلیف میں مبتلا ہوں۔‘‘

    ’’میں تمہیں مذاق کرنے والا آدمی نظر آتا ہوں؟ مذاق میرے رتبے کی چیز نہیں۔ دیکھتے نہیں میں کتنا سنجیدہ ہوں۔ میں ایک پر وفیسر ہوں۔‘‘ سیٹی بہت زور سے گونجی۔

    ’’اوہ معاف کیجئے گا۔ بھلا مجھے کیا پتہ۔ میں تو پیشاب۔۔۔‘‘

    کیا تم اندھے ہو۔ میرے چہرے پر علم و دانش کا یہ زخم نہیں دیکھتے۔ ہر سچے پروفیسر کے چہرے پر یہ زخم ہوتا ہے۔‘‘

    اُس نے اپنے کانوں میں، پے در پے پے کئی خطرناک سیٹیوں کو سنا۔ اُسی وقت ایک بے حد تیز رفتار ٹرین شور مچاتی، دل دہلاتی اور پٹریاں ہلاتی گزری۔ وہ اِس اسٹیشن پر رُکی نہیں۔ٹرین کے گزر جانے کے بعد، اُسے وہاں اتنا سناٹا محسوس ہوا جیسے وہ سائیں سائیں کرتے ہوئے ایک جنگل میں کھڑا تھا۔

    ’’دیکھو احمق آدمی۔ اسٹیشن کے باہر پولیس والوں کی چوکی ہے۔ اگر تم نے اُن سے اپنی اس واہیات اور مکروہ خواہش کا ذکر کیا تو تمہیں فوراً پھانسی دے دی جائے گی۔ فضا آلودہ کرنے والے پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جاتا بس فوراً پھانسی دے دی جاتی ہے۔‘‘

    بوڑھے کی سانسوں کے درمیان بجنے والی سیٹیوں سے ایک خوفناک خطبہ برآمد ہورہا تھا۔

    نہ جانے کیوں، ایک پل کے لیے اُس کے پیٹرو میں چبھنے والی کنکری شاید اِدھر اور اُدھر ہوگئی۔ درد کچھ حد تک قابل برداشت محسوس ہوا۔

    ’’تو جناب کیا اِس شہر کے لوگ فطری ضروریات رفع نہیں کرتے؟ اُس نے ڈرتے ہوئے سوال کیا۔

    ’’ہاں۔ اگرچہ مجھے علم ہے کہ تم یا تو پاگل ہو یاپھر کوئی جاسوس ۔ مگر میں تمہارے ہر سوال کا جو اب دوں گا۔ جب سے یونیورسٹی نے مجھے ریٹائر کیا ہے۔ لوگوں نے مجھ سے سوال کرنا بند کردیے ہیں۔ جب بہت دنوں تک کسی پروفیسر سے سوال نہیں پوچھا جاتا تو اُس کے چہرے پر لگے ہوئے علمِ و دانش کے زخم میں خارش ہونی شروع ہوجاتی ہے اور خارش بجائے خود ایک گندگی ہے۔‘‘

    بوڑھا رُکا اور پھر کچھ اِس طرح بولنا شروع کردیا جیسے کسیمجمعے کو خطاب کر رہا ہو۔

    ’’زمانہ ہوگیا، زمانہ ہوگیا۔ جب انسان گندگیوں کی پوٹلی اپنے ساتھ لیے لیے پھرتے تھے۔ انسان کے پاس ایک جسم کا ہونا ہی سب سے بڑا گناہ تھا۔ جسم کے سنسکار اور کرم ہی روح کو بندھن میں ڈالتے تھے۔ ساری مصیبتوں کی جڑ آدمی کا جسم ہی تھا۔ دھیان سے سنو۔ پیٹ کو کیوں بار بار پکڑ رہے ہو۔ وہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک دھوکہ، فریب، مایا یا سراب۔ انسان کے ساتھ جسم کی یہ علت ابتدائے آفرینش سے ہی چلی آرہی تھی اور اِسی لیے وہ جنت سے نیچے پھینکاگیا اور روح کی نجات مشکل ہوتی چلی گئی۔‘‘

    اُس نے بوڑھے کو پاگل سمجھا اور پلیٹ فارم کی سفید، بے داغ پٹی پر پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اِس طرح بیٹھنے میں اُس کا پیٹ اور بھی تن گیا۔ پتلون کمر پر بری طرح پھنسنے لگی۔ اُس کی سانس سینے میں نہ سما رہی تھی۔ وہ فوراً دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ بوڑھا بہت طویل القامت تھا۔ وہ تو اُس کے سامنے بونا نظر آتا تھا۔ اُس نے منھ اُوپر اٹھا کر مجبوراً بوڑھے کی بے تکی تقریر سننا شروع کردی۔ صرف اِس امید پر کہ شاید اپنی دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد، بوڑھا اُسے پیشاب کی حاجت رفع کرنے کا کوئی طریقہ بتا ہی دے۔

    ’’سنو۔ بہت غور سے سنو‘‘ سیٹی گرجی

    انسان کا جسم گندگی کی پوٹ ہے اور گندی خواہشات کا ذخیرہ ہے۔ عشق اور محبت کے نام پر جسم اپنی غلیظ ضرورتوں پر ہمیشہ پردہ ڈالتا آیا۔ مگر کیونکہ مادّے سے چھٹکارہ پانا فی الحال ممکن نہیں اس لیے شہری منصوبہ بندی والوں نے سائنس، مذہب اور فلسفے کے باہمی اشتراک کے ذریعہ، سب سے پہلے ’’محبت‘‘ کے کوڑے کو جھاڑو لگاکر، شہر بدر کردیا اور اِس طرح اور اِسی قسم کی دوسری کوششوں سے، بالاخر جسم کو اُس کی آلائشوں سے یکسر پاک کردیا۔ سارے جانور پاتال میں ڈال دیے گئے۔ یہ جدید سائنس سماج مکمل طو پر سبزی خور ہے۔ گوشت کے معنی، نئی نسل، پرانی فرسودہ لغات میں ڈھونڈتی پھرتی ہے۔

    ’’آپ مہربانی کرکے، مجھے کسی اسپتال کا راستہ ہی دکھا دیں۔ میں بیمار ہوں وہاں میں اپنے پیٹ میں بھرے ہوئے اِس منحوس پیشاب سے چھٹکارہ پاسکتا ہوں۔‘‘

    اُس نے بوڑھے کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، بے چینی کے ساتھ التجا کی۔

    ’’تم بیمار نہیں ہو۔ تمہاری روح بیمار ہے۔‘‘ اب درمیان میں بولے تو تمہارا انجام بہت برا ہوگا۔‘‘

    بوڑھے نے اُسے خوفناک نظروں سے گھورا۔ اُس کے چہرے کا وہ گہرا، لمبا زخم، کسی زہریلے سانپ کی کھال کی طرح چمکنے لگا۔ رات شاید آدھی سے بھی زیادہ گزر چکی تھی۔ اچانک پلیٹ فارم پر سرد ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے۔ لوہے کی پیٹریاں اور ہرے لال سگنل کہرے میں چھپ کر رہ گئے۔

    اُس کے سر کے بال گیلے ہونے لگے۔ کھڑے کھڑے، منھ اُوپر اٹھائے، اُسے پھر چکر سا آنے لگا۔ پھٹے ہوئے جوتوں کے اندر اُس کے تھکے ہوئے پاؤں بری طرح سوج رہے تھے۔ پیشاب نہ آنے کی وجہ سے اُس کے پورے جسم پر سوجن چڑھتی جارہی تھی۔ گردوں میں ٹیس اٹھنے لگی۔

    وہ درد پر قابو پانے کے لیے بار بار اپنے نچلے، خشک اور پپڑی زدہ ہونٹ کو دانتوں میں دبا لیتا۔

    اسپتال اب لوگ صرف اپنی روح کا علاج کروانے جاتے ہیں۔ بلغم، کھانسی، چھینک، پس اور جراثیم سے جسم نے چھٹکارا پالیا ہے۔ اسپتال پاگل خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔‘‘

    یک بارگی اُس کا جی چاہا کہ وہ اُس پاگل بوڑھے کا مار کر قیمہ بنا دے جو اتنی دیر سے اُسے بے وقوف بناکر دماغ کھائے جارہا ہے مگر اس وقت اُس میں شاید ہاتھ اوپر اٹھانے کی بھی طاقت نہ تھی۔ وہ ہمت کرکے، بس یہ طنز ہی کرسکا۔

    ’’جناب ۔ کیا اب لوگ مرتے نہیں یہاں‘‘؟

    نہیں مرتے، موت پرانی چیز ہوگئی۔ صرف جو گندا ہوگا اور گندگی پھیلائے گا، وہی مرے گا۔ موت تاریخ کے گندے کوڑے دان میں کہیں پڑی ہوگی جسے کترنے کے لیے اب اِس دنیا میں چوہے بھی نہیں۔‘‘

    اچانک پروفیسر کا لہجہ راز دارانہ ہوگیا۔ وہ اپنی آواز کو تقریباً ایک سرگوشی کی حد تک لے گیا اور پھر اچانک بلند آواز میں پھٹ پڑا۔

    ’’اب یہ پاک و صاف شہر ایک عظیم ابدیت کے سائے میں ہے۔ جیسے ہی جسمانی مجبوریوں اور اُس کی مکروہات اور آلائشوں پر قابو پالیا گیا ویسے ہی موت دم دباکر بھاگ گئی۔ ہاہا۔‘‘

    بوڑھے نے گلا پھاڑکر ایک بھیانک قہقہہ لگایا۔ ایک ساتھ کئی ہزار خطرناک سیٹیاں فضا میں گونجیں اور اُس کے کاندھے پر لٹکے ہوئے تھیلے پر بنے ہوئے گدھے کے کان زور زور سے ہلنے لگے۔

    ’’تو اب بچے نہیں پیدا ہوتے؟‘‘ وہ خوف زدہ ہوتے ہوئے کراہا۔

    ’’کیوں نہیں پیدا ہوتے۔ مگر وہ اب مریں گے نہیں۔ اُن کی عمر بڑھتی جائے گی۔ وہ پرانے ہوتے جائیں گے۔ صرف پرانے مگر موت اُن کو کبھی نہیں آئے گی جیسے میں ہمیشہ زندہ رہوں گا۔‘‘

    ’’تو بغیر گندگی کے بچے کیسے پیدا‘‘؟

    بچے اب ماؤں کے پیٹ میں نہیں بلکہ صاف ستھرے پھولوں کے باغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کے لیے عورت کے گندے جسم کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس اپنے ذہن اور روح میں بچے پیدا کرنے کی خواہش کا قوی تر ہونا ضروری ہے۔ نئی دنیا مکمل طور پر مردوں کی دنیا ہے۔ ہم نے عورت کی اندام نہانیوں کو مردہ کرکے، محض پرچھائیوں میں بدل دیا ہے۔وہ اب گندے خون میں لتھڑے ہوئے ، مہینوں کے کپڑوں سے مکتی پا چکی ہے۔ عورت ہی تو گناہ کا محرک تھی۔ مگر اب کوئی شریف اور نیک عورت محبت کا گناہ نہیں کرسکتی۔ سب کچھ پاک صاف ہوگیا۔‘‘

    ’’دیکھئے۔ پروفیسر صاحب، بہت ہوگیا۔ آپ نے مجھ غریب بیمار کا جی بھر کے مذاق اڑا لیا مگر اب تو خدا کے واسطے مجھے بس اِتنا بتادیں کہ میں پیشاب کہاں کروں۔‘‘؟

    اُسے کچھ اور نہیں سوجھا تو وہ بوڑھے کے آگے بھی اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرنے لگا۔ دونوں ہاتھ جو سردی اور تکلیف سے لگاتار کانپ رہے تھے۔

    پروفیسر کے چہرے کا زخم ایک بار پھر کسی سانپ کی طرح کُلبلانے لگا۔

    بوڑھا پروفیسر اپنے اس لمبے گہرے زخم کے باعث، جو اُس کے چہرے کو دو برابر کے حصوں میں تقسیم کرتا تھا، تقریباً ایک شیطان یا بد روح کی طرح نظر آیا۔

    ’’انسانوں کے جسم اب بس دیکھنے میں ہی جسم نظر آتے ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ ہر دیکھی ہوئی چیز سچی اور اصل نہیں ہوتی۔ جسم اب پوری طرح ذہن بن چکے ہیں۔ کیا یہ ارتقا کی عظیم ترین منزل نہیں۔ جسم اب ہر قسم کی غلاظت اور گندگی سے پاک ہے۔ وہ انسان کی روح کا ایک سچا عکس ہے۔‘‘

    شیطان نے سیٹی نما آواز نکالتے ہوئے انکشاف کیا۔

    ’’مگر میں پیشاب ‘‘ وہ جملہ پورا نہ کرپایا کہ پروفیسر بول اٹھا۔

    ’’دیکھو اگر تم واقعی حکومت کے جاسوس ہو تو اب تک تمہیں یہ خوب اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں اس قومی ترقیاتی پراجیکٹ کا دل سے قائل ہوں، جس کے تحت شہری منصوبہ بندی اور محکمۂ صحت کے اشتراک کے ذریعہ ساری دنیا میں صفائی کی مہم چلائی جارہی ہے۔ سائنس، فلسفہ اور مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام دانشوران بھی اِس مہان پراجیکٹ کے حامی ہیں۔ اور اگر تم جاسوس نہیں ہو تو۔ واقعی تمہیں اسپتال جانا چاہیے جہاں اب صرف ذہنی امراض کا علاج ہوتا ہے۔ جسم کے کسی حصے میں ہوتے ہوئے درد کا نہیں۔ درد محض ایک وہم ہے۔ دماغی خفتان، روح ہر درد سے ماورا ہے۔ تم جسم نہیں۔ ایک روح ہو۔ صرف روح۔‘‘

    بوڑھا پروفیسر کسی طرح خاموش ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ پلیٹ فارم کچھ زیادہ ہی سنسان ہوگیا تھا۔ ہر طرف سے تازہ صابن اور پھولوں کی تشدد آمیز اور بے رحم مہک آنے لگی۔

    ایک لمحہ کے لیے واقعی، اُس نے بھی خود کو پاگل تصور کیا۔ اُس کا جی بے تحاشہ پیشاب کی کھراند سونگھنے کو چاہا۔ وہ اپنے جسم کی تمام طاقت اپنے حلق میں لاتے ہوئے بولا۔

    ’’سوّر کے بچے۔ خبیث شیطان۔ میں تیرے منھ میں پیشاب کرنے والا ہوں۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے، وہ ایک وحشی کی طرح بوڑھے کی طرف جھپٹا مگر پھر فوراً ہی لڑکھڑاتا ہوا پیچھے ہٹ گیا۔ اُسے محسوس ہوا جیسے بوڑھے کے چہرے کا لمبا زخم سانپ کی طرح اُس کی طرف لپکا تھا۔

    اُسی وقت فضا میں ایک سیٹی گونجی اور اُس نے صاف دیکھا کہ وہ اِدھر کو چلے آرہے تھے۔ پھانسی کے پھندے ہاتھ میں لیے۔ سفید وردی والے، اُس کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہے تھے۔

    مگر وہ مرنا نہیں چاہتا۔ وہ شارع عام پر پھانسی کے پھندے میں جھولنا نہیں چاہتا۔

    (۲)

    وہ پلیٹ فارم سے ریلوے لائن پر اِس طرح کُودا جیسے ایک خوف زدہ اور رنگ بدلتا ہوا گرگٹ ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر کودتا ہے۔ وہ کہرے سے لدی ہوئی ریلوے لائن پر دور تک بھاگتا چلا گیا۔ دور اندھیرے میں گرتا پڑتا، پھسلتا اور ٹھوکریں کھاتا۔

    اُس کے جوتوں کے جھلّی جیسے تلے لوہے کی سخت ٹھنڈی پٹریوں سے رگڑ کھاکر، چتھڑے چتھڑے ہوکر ہوا میں اڑ رہے تھے۔ پٹریوں کا ٹھندا بے رحم لوہا اُس کے پیروں کے پنجوں اور ایڑیوں پر بھیانک ضرب لگا رہا تھا جس کی دھمک سیدھے اُس کے دل تک جاکر رکتی تھی۔

    اُس کے آس پاس سے مسافر اور مال گاڑیاں گزرتی رہیں۔ وہ بھاگتا رہا اور اُس کے مثانے میں اکٹھا پیشاب اُچھل اُچھل کر اُس کے پیٹرو، پسلیوں، سینے اور یہاں تک کہ دل کو بھی ڈبونے لگا۔ ہوا بہت تیز تھی۔ اُس کی جیکٹ پھڑپھڑا رہی تھی۔ وہ کہرے کے اٹھتے ہوئے بگولوں کے اندر داخل ہورہا تھا۔ اُسے محسوس ہوا جیسے بوندا باندی بھی شروع ہوگئی ہو یا ممکن ہے کہ یہ کہرے کے پرتوں کے بیچ پھنسی ہوئی اوس کی بوندیں ہوں۔ سردی اُس کے اُوپر کوڑے کی طرح برس رہی تھی۔

    کیا اُسے علم تھا کہ جلد ہی وہ ایک پیٹ پھولے ہوئے لاوارث کتّے کی طرح مرنے والا تھا؟

    اُسے اب یہ معلوم تھا کہ اب کہیں کوئی ایسا زندگی بخش مقام نہیں تھا جہاں کھرا ند ہو اور انسانی سیلن ہو جس پر دیوانہ وار چیوٹیاں امڈی چلی آتی ہوں اور جہاں مردانہ کمزوری کو دور کرنے والی سستی دواؤں کے گھٹیا اشتہارات چسپاں ہوں اور جس کی دیواروں پر طوائفوں اور بری عورتوں کے فون نمبر اور پتے لکھے ہوں۔

    نہیں، اب وہ کہیں نہیں ہوگا، نہ کسی ہوٹل میں، نہ کسی اسکول میں، نہ کسی عبادت گاہ کے حجرے میں، اور نہ جو ئے خانے یا کسی شراب خانے میں۔

    لوہے کی پیٹریوں پر چڑھتا اترتا وہ اِس طرح چلا جارہا تھا جیسے اپنی خود کشی کا تعاقب کر رہا ہو۔ حالانکہ وہ ابھی مرنا نہیں چاہتا۔

    مگر خود اُس کے تعاقب میں سیاہ کہرے کو چیرتی ہوئی ٹارچیں تھیں۔ بھورے وزنی بوٹ اور سفید، مہکتی ہوئی وردیاں تھیں اور پھانسی کے جھولتے ہوئے پھندے تھے، مگر وہ پھانسی سے نہیں مرنا چاہتا تھا۔ اِس سے اچھا تھا کہ اُس کا مثانہ پھٹ جاتا یا وہ کسی ریل گاڑی کے سامنے آکر کٹ جاتا یا کسی پہاڑ سے ہی ٹکرا جاتا۔

    اور، یقیناًسامنے ایک کالا اونچا پہاڑ آرہا تھا۔ تیز ہواؤں کے جھکّڑ اِسی پہاڑ سے آرہے تھے۔ پہاڑ جیسے سردی سے جل کر اور بھی سیاہ ہورہا تھا اور اپنی چٹانوں کی دراڑوں میں سے کہرے کا دھواں انڈیل رہا تھا۔ اِس پہاڑ کے راستے میں سرنگیں تھیں جو کالی سے کالی رات سے بھی زیادہ کالی اور اندھیری تھیں۔ ایک اُجاڑ، بے رونق لمبی مال گاڑی سُرنگ سے ہوکر نکل رہی تھی، جیسے ایک اندھا اژدھا رینگتا ہوا جارہا ہو۔ کالا پہاڑ، مال گاڑی کے بند اور اندھیرے ڈبّوں میں گرجنے لگا۔

    گرج سے اس کے کان بند ہوگئے۔ جب مال گاڑی کا آخری ڈبّہ بھی سرنگ کے دہانے سے نکل گیا تو وہ بھی اِس کے پیچھے پیچھے کالی سرنگ میں داخل ہوگیا۔

    یہاں اُس نے خود کو، ٹارچوں کی روشنی سے محفوظ پایا۔ مال گاڑی سُرنگ سے نکل کر کہیں دور جاچکی تھی۔ بہت دور اُس نے اُسے سیٹی دیتے ہوئے سنا مگر سُرنگ میں اُس کی گزری ہوئی دھواں آلود آواز ابھی تک پھنسی ہوئی تھی۔

    وہ اندھیری سُرنگ میں ہلکے ہلکے چلتا رہا۔ اُس کا جی مالش کر رہا تھا۔ پیٹ پہلے سے بھی زیادہ پھول آیا تھا۔ چلنے میں یہ پھولا ہوا وزنی پیٹ زور زور سے ہلتا تھا۔ اُس کا کلیجہ منھ کو آنے لگا۔ شدید پیاس سے اُس نے اپنے بدن کو تیزی کے ساتھ خشکی کے نرغے میں آتا ہوا محسوس کیا۔

    وہ سُرنگ کی دیوار کی طرف، منھ کرکے کھڑا ہوگیا اور پتلون کی فلائی میں ہاتھ ڈال دیا جس کے بٹن پہلے ہی سے کھلے ہوئے تھے۔

    مگر وہاں تو وہی برف کی جلتی ہوئی قاش۔ اُس نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ زور لگایا۔ اُس کے گردے پھٹ جانے کے قریب تھے۔ ریڑھ کی ہڈی کے گُریے اپنی جگہ چھوڑ رہے تھے۔ مگر پیشاب کی ایک بوند بھی باہر نہ آئی۔

    وہ سمجھ گیا کہ گردے کی پتھری نیچے آکر، کہیں پھنس گئی ہے۔ اُسے فوری طور پر آپریشن کی ضرورت تھی۔

    مگر اب اسپتال کہاں۔ صرف پاگل خانے تھے۔

    اُسے یقین کامل ہوگیا کہ واقعی وہ ایک کتّے کی ذلیل موت مرجائے گا۔ سسک سسک کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر۔

    سُرنگ میں دسمبر کی بھیانک اور وحشت ناک ہوائیں ایک تانڈو رقص کر رہی تھیں۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ اب اُسے اپنی موت کا مقام منتخب کر ہی لینا چاہیے۔

    یہاں؟

    نہیں یہاں نہیں۔ کالے پہاڑ کی اِس سُرنگ میں تو ہرگز نہیں۔

    آگے آگے، ابھی اُسے اور آگے چلتے جانا چاہیئے۔ چتھڑے چتھڑے ہوتے ہوئے جوتوں کے ساتھ اِس تاریک اور پتھر کی سُرنگ میں اُس کے پیروں کی دھمک صدیوں پرانے کسی وحشی گیت سے مشابہ تھی۔

    اُسے کچھ یاد کرنا چاہیے۔ یہی وقت ہے، اپنا مقدر تو کالی سُرنگ کے اِن پتھریلے آئینوں میں وہ دیکھ آیا۔ اب مایوسی کا جشن کب تک منائے۔ مگر ابھی ایک جسم اُس کے ساتھ ہے۔ وہ اِس مایوسی کا بلبلا بلبلا کر جشن مناتا ہے۔ بین کرتا ہے۔ جسم بیمار ہے، تھک کر چور ہورہا ہے اور پتہ نہیں کب سڑنابھی شروع ہوجائے۔

    یہی وقت ہے اُسے کچھ یاد کرنا چاہیے۔ کوئی دعا۔ کوئی توبہ کہ موت آسان ہو۔ اُسے کچھ یاد کرنا چاہیئے۔ یونہی چلتے چلتے۔ پھولے اور سوجے ہوئے مثانے کے درد کے اندر خود کو گم کرتے ہوئے۔ اُسے کسی پرانی یاد کے بارے میں سوچنا چاہیئے لیکن اتنا تو اُسے معلوم ہے کہ اُس کے اندر ایک برا ضمیر ہے۔ اُس کے دکھتے ہوئے سر میں یہ برا ضمیر اپنے عجیب و غریب احساسات کے ساتھ زندہ تھا۔ اِس ضمیر کا شکار کرنے کے لیے کوئی دعا نہیں تھی۔

    مگر اُسے یہ ضرور یاد کرلینا چاہیئے کہ محبت کے عظیم، پاکیزہ، انسانی، اور سفید برف کے تودے جیسے سوتے سوکھ گیے۔ اور پھر اُس کی پہلی محبت بڑی آسانی کے ساتھ شکار کر لی گئی، دوسری محبتوں کے ذریعے۔

    بس وہ دو بدنصیب، خلا میں تاکتی آنکھیں رہ گئیں۔ وہ آنکھیں جو محبت کرتی تھیں۔ وہ آنکھیں صبح کے مدھم ہوتے ہوئے تارے دیکھ کر بے نور ہوجاتی ہیں۔ وہ آنکھیں ان راستوں کو یاد کرتی ہیں جہاں سے ہوکر محبت گزری۔

    مگر اُس کو اب کچھ بھی نہیں یاد۔ اُس کے جسم کی کھال ، نہ تاریکی کا لمس محسوس کرتی ہے اور نہ روشنی کا۔ یہ کھال سن ہوگئی ہے۔ سُرنگ کے کالے پتھر جیسی ہوگئی ہے۔

    سُرنگ کی دیواروں سے رگڑ کھاکھاکر وہ چلتا رہا۔ دور، ایک سِرے پر، اندھیرا کچھ کم ہورہا تھا۔ ہوا نے اپنا رخ بدل لیا۔اب یہ بجائے مشرق کے شمال کی طرف سے آرہی تھی۔ایک یکسرمختلف ہوا۔ سُرنگ کا دوسرا دہانہ آرہا تھا۔

    آخر کار وہ سُرنگ سے باہر نکل آیا۔ اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ریلوے لائن کو پار کرکے اپنی موت کا مقام تلاش کرنے کے لیے ایک طرف چل دیا۔

    چھپاک کی آواز کے ساتھ اُس کے پیر پانی میں اتر ے۔ وہ رُکا نہیں، پانی میں چلتا رہا۔ پانی اُس کے جوتوں میں بھر گیا اور وہ بہت بھاری ہوگیے۔ اُس کے پیر شل ہونے لگے۔ مگر وہ چلتا رہا موت اُس کے پیروں تک آ پہونچی تھی۔ اُس کی پنڈلیوں پر اِس کالے پوکھر کی جونکیں آکر چمٹ گئیں اور اُس کا خون پینے لگیں۔ وہ پانی سے باہر آیا۔ اُس کے جوتوں کو آبی سیوار اور کائی کے ریشوں نے جکڑ رکھا تھا۔ کچھ فاصلے پر، روشنی نظر آئی جیسے کہیں اونچائی پر بہت سی موم بتیاں جل رہی تھیں۔

    کوئی بستی تھی، چھوٹی سی بستی۔

    دھیرے دھیرے اُس نے گانے کی آواز سنی، کوئی گا رہا تھا۔ شاید عورتیں گارہی تھیں۔ ڈھول بھی بج رہا تھا اور گھنگرو بھی کبھی کبھی درمیان میں سارنگی کی آواز بھی بلند ہوتی ۔سارنگی کی آواز ہمیشہ انسانی آواز کی بھونڈی نقل کرتی ہے۔

    مگر اِن آوازوں کے ساتھ ایک خاموشی بھی تھی، اُس نے اِس خاموشی کو اپنے کان کے بہت اندر سنا۔ اُس نے ایک گہری سانس لی تو خاموشی اور تیز ہوگئی۔ مگر شاید اُس نے سانس نہیں لی تھی۔ سانس خود اُس تک آئی تھی۔

    ’’میں کہاں آگیا؟‘‘ قطار سے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹوٹے پھوٹے مکانوں کے قریب آتے ہوئے اُس نے خود کلامی کی۔ مگر اُس کا دل اپنی خود کلامی سے گھبرایا۔ اب اِس خاموشی میں اُس کی اپنی خاموشی کا ایمان دار حصہ بھی شامل ہوا۔ رات گزرنے والی تھی۔ اِس وقت رات ہمیشہ خاموش ہوتی ہے۔ وہ انتظار کرتی ہے جب تارے مدھم پڑ جائیں۔

    وہ اِن مکانوں کے ایک دم سامنے آگیا۔ ہر مکان اداس تھا۔ ہر مکان کے اُوپر زینے جارہے تھے۔ اندھیری، تنگ سیڑھیاں، ہر مکان کی بالائی منزل پر ہلتی اور ٹمٹاتی ہوئی روشنی تھی، وہاں گھنگرو تھے، ڈھول تھے ،گھٹیا گیت تھے اور انسانی آواز کی نقل کرتی ہوئی سارنگی تھی۔

    یہ جلا وطنوں کی بستی تھی؟

    درد اور مایوسی سے بے حال ہوتے ہوئے، اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے اُس نے دیکھنے کی کوشش کی۔

    اُس کے ہاتھ پیر پتھر ہوگئے۔ اُن سے سُرنگ کے پتھروں کی بو آرہی تھی۔

    وہ طوائفوں کے کوٹھوں کے سامنے کھڑا تھا۔ اپنے پتھر جیسے بھاری مگر موت جیسے ہلکے پپروں کے ساتھ اُس نے ایک کوٹھے کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔

    (۳)

    مگر انھیں آوازوں کے ساتھ ایک خاموشی بھی ہے۔ اُس نے اِس خاموشی کو اپنے کان کے بہت اندر سنا۔ اُس نے ایک گہری سانس لی تو خاموشی اور تیز ہوگئی۔ مگر شاید اُس نے سانس نہیں لی ہے۔ سانس خود ہی اُس کے پاس آئی ہے۔

    وہ کھڑکی کے پٹ کھولے، چپ چاپ، اندھیرے میں آسمان کو تاک رہی ہے۔ رات اب ختم ہونے والی ہے۔ اِس وقت رات ہمیشہ خاموش ہوتی ہے۔ وہ انتظار کرتی ہے جب تارے مدھم پڑجائیں۔

    سیلن زدہ، افسردہ سی کوٹھری میں موم بتی کی روشنی اُس کے آدھے چہرے پر پڑ رہی ہے، یہ آدھا چہرہ بے حد حسین ہے۔ چمکتی ہوئی روشن اور بہت ستواں ناک، ایک بڑی سی معصوم اور تیز کتھئی آنکھ اور ایک چھوٹا سا سفید کان جو خاموشی کو سنتے رہنے کے باعث کبھی کبھی پیلا ہونے لگتا ہے۔ آدھے چہرے پر جو آدھے ہونٹ نظر آتے ہیں وہ گہرے جامنی رنگ کے ہیں۔ یہ آدھا چہرہ بہت روشن ہے مگر صبح کے ستارے کی مانند اس کی چمک بار بار مدھم ہوتی ہے پھر بڑھ جاتی ہے۔

    برابر والے کوٹھے پر سازندوں نے رات کا آخری ساز چھیڑ دیا۔ تھکے ہوئے گھنگروؤں کی تال پر اُداس بھاری کولہے ڈھول کی طرح بجنے لگے۔ پھوہڑ اور فحش گیت فضا میں بھدّی بھدّی آوازوں کے ساتھ، ابھرنے لگے، مگر اِن میں ’اصل فحش پن‘‘ کا عنصر غائب ہے۔ اِن ننگے گیتوں میں ایک قابل رحم قسم کی محرومی ہے اور مایوسی ہے۔ یہ گندے، اول جلول گیت کسی شے کے کھو جانے کا نوحہ محسوس ہوتے ہیں۔

    وہ اِن گیتوں کو صدیوں سے سنتی آئی ہے مگر آج وہ اِنھیں نہیں، اپنے بہت قریب آتی ہوئی خاموشی کو سن رہی ہے۔ وہ خاموشی کی چاپ کا انتظار کر رہی ہے اور یہ یقیناًقدموں کی چاپ ہے۔وہ مڑی اور لکڑی کے کمزور سے دروازے کو دیکھنے لگی جو اِس طرح ہل رہا ہے جیسے زلزلہ آگیا ہو۔

    وہ اندر آیا ہے۔ وہ جس کی پرانی جیکٹ میں بڑے بڑے سوراخ ہیں، وہ جس کے جوتے چھتڑے چھتڑے ہورہے ہیں اور وہ جس کی پتلون کی فلائی کے بٹن کھلے ہوئے ہیں، دسمبر کی سرد کالی ہواؤں اور کہرے سے اُس کا چہرہ سیاہ ہورہا ہے، اُس کے سر کے بال اڑ کڑ پیچھے کی طرف گدّی تک جا پہونچے ہیں جس کی وجہ سے اُس کا ماتھا ایک چھوٹے سے سپاٹ پتھر کی طرح نظر آتا ہے جس پر نہ جانے کب کا نکلاہوا خون جم کر کالا پڑ چکا ہے اور وہ جس کی پنڈلیوں میں زہریلی جونکیں لپٹی ہوئی ہیں۔ اور جس کے پیٹ کا نچلا حصہ ایک پھولتا ہوا غبارہ بنتا جا رہا ہے۔

    وہ آتے ہی لڑکی کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا۔

    ’’میں یہاں مرنے آیا ہوں، میں ایک پیشاب خانے میں مرنا چاہتا ہوں۔ میری آخری امید یہی کوٹھا ہے۔ یہاں تو وہ ضرور ہوگا۔‘‘

    ’’ہاں۔ صرف میرے کوٹھے پر ہے۔‘‘

    لڑکی نے اُداسی کے ساتھ کہا ہے اور موم بتی کی روشنی میں اُس کے چہرے کا دوسرا آدھا حصہ بھی سامنے آگیا ہے جو بے شمار دانوں اور پھنسیوں سے بھرا ہوا ہے جیسے کسی ڈبل روٹی کے آدھے ٹکڑے پر، لاتعداد موٹے موٹے لال لال بمتے چپکے ہوئے ہوں۔ اِن دانوں اور پھنسیوں میں اس کی آنکھ، ناک، کان اور ہونٹ محض ایک واہمہ بن کر رہ گئے ہیں۔

    مگر اُس نے اِس چہرے کو نہیں دیکھا، وہ اپنے دونوں ہاتھ اُس طرح جوڑے جوڑے، لڑکی کے آدھے حسین چہرے سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہے۔

    ’’تم پیشاب خانے میں کیوں مرنا چاہتے ہو‘‘؟

    ’’کیونکہ اس صاف ستھری، پاک و صاف اور شفاف دنیا میں کسی اور جگہ، ایک سڑتے ہوئے اور پھولتے ہوئے پیٹ والے کتّے کی ذلیل موت مرنے سے بہتر ہے کہ طوائف کے کوٹھے پر بنے پیشاب خانے میں دم توڑ دیا جائے۔‘‘

    ’’اِدھر دیکھو، اپنا چہرہ سامنے لاؤ، میں تمہارا انتظار کر رہی تھی۔‘‘

    اُس نے اپنا منھ اٹھا کر لڑکی کو غور سے دیکھا۔ لڑکی جس کا آدھا چہرہ دنیا کا سب سے خوبصورت چہرہ تھا اور آدھا چہرہ اِتنا بھیانک اور مکروہ۔

    وہ اُسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ اُس کی آواز اُسے جانی پہچانی سی محسوس ہوئی ہے جیسے کوئی کھوئی ہوئی شے وقت کے صدیوں پرانے ٹیلوں کے عقب سے کسی کو پکارتی ہے، مگر اُس کے دکھتے ہوئے زخمی سر میں ایک برا ضمیر ہے، بُرا ضمیر ہمیشہ یاد داشت کو ہی دھتکارتا ہے۔

    ’’میں نے کتنی بار تمہیں پیار کیا۔ میں نے تمہارے اُس کان پر بھی بوسہ دیا ہے جو بچپن میں بری طرح بہتا تھا۔‘‘

    لڑکی نے برسوں پرانی افسردگی کے ساتھ کہا۔

    ’’تم کون ہو‘‘ اُس نے کچھ خوف اور کچھ بے یقینی کے ساتھ پوچھا۔

    ’’میں؟ میں ایک غریب ذلیل طوائف جس کے کوٹھے پر کوئی نہیں آتا۔ میں پھانسی کے پھندے سے چھپ کر اِس سیلن بھری کوٹھری میں رہتی ہوں۔ اگر کسی کو پتہ بھی چل جائے تو وہ ڈرتے ہیں کیونکہ میرے جسم کا ایک حصہ خطرناک اور گھناؤنی بیماریوں کا خزانہ ہے۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’کیونکہ میرے پاس ایک زندہ اندامِ نہانی ہے۔ اب شاید ہی کسی عورت کے پاس یہ ہو۔ یہ جو ناچ رہی ہیں، اِن کے پاس مردہ اندام نہانیاں ہیں یا محض ان کی پرچھائیاں۔ مرد یہاں ذہنی مباشرت کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اُن کے عضوِ تناسل صرف لرزتے ہوئے تاریک سائے ہیں۔ اِن عورتوں کے گیتوں میں گوشت اور کھال کی بو نہیں وہ اپنے بھاری اور چربی کے کوبڑ نما کولہوں پر، اپنے بال بکھرا کر، زور زور سے دو ہتھّڑ مارتی ہیں اور وہ پھٹے ہوئے ڈھول کی طرح بجتے ہیں۔‘‘

    ’’تم پتہ نہیں کیا کہہ رہی ہو۔ میرا پیٹ پھٹا جارہا ہے۔ میرے جسم کا سارا خون برف بن کر جم گیا۔ میں جلد ہی مرنے والا ہوں۔‘‘

    ’’تم ہمیشہ سے ہی خود غرض ہو۔ ضدّی اور خود غرض۔ تم نے کبھی میری بات نہیں سنی۔‘‘

    ’’مگر میں مرنے والا ہوں۔‘‘

    ’’تم نہیں مر سکتے۔‘‘

    ’’تم کیا جانو‘‘

    ’’میں جانتی ہوں، میں نے تم سے محبت کی ہے۔‘‘

    ’’میں تمہیں نہیں پہچانتا۔ مجھے پانی دو، میں ریگستان کا خشک تودہ ہوں۔‘‘

    ’’میں تمہارے ساتھ اُس دن سے ہوں جب تم ماں کے پیٹ میں تھے۔‘‘

    لڑکی نے مٹی کی صراحی سے تانبے کے بد رنگ پیالے میں پانی انڈیلا ہے۔ وہ پیالہ اُس کے ہونٹوں تک آ پہنچا ہے۔

    پانی پیتے ہی اچانک اُس کا درد جان لیوا ہوگیا۔اسے محسوس ہوا جیسے حلق سے لے کر میدے تک وہ پانی پتھر میں تبدیل ہوگیا۔ اسے ایک بھیانک اُلٹی آنے کو ہوئی اور اُسے لگا جیسے اُس کی آنتیں حلق سے باہر آجائیں گی۔ دانتوں سے اپنی زبان کو بُری طرح کاٹتا ہوا وہ دوہرا ہوتا چلا گیاہے۔ اُس نے اپنے منھ میں خون کا ذائقہ محسوس کیا ہے۔ اُس کی آنکھوں کی سفید پتلیاں باہر آنے لگیں ہیں، اُس کی ناف اوپر ابھر آئی ہے اور پیڑو اس طرح پھولنے لگا ہے جیسے کسی غبارے میں ہوا بھرتے بھرتے وہ پھٹنے والا ہو۔ اُس کا پورا جسم اکڑ گیا ہے۔ وہ پہاڑی سُرنگ کا کالا پتھر بن گیا ہے۔

    لڑکی اب اُس کے بہت قریب آگئی ہے۔

    ’’مجھے اپنی بانہوں میں کس کر پکڑلو، پوری طاقت سے اپنے سینے سے لگا لو۔‘‘

    ’’نہیں۔ وہ دھیرے سے سسکا پھر رونے لگا۔

    ’’میں مرنا نہیں چاہتا۔ میں مرجاؤں گا۔‘‘

    ’’تم نہیں مروگے کیونکہ تم نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی۔ ڈرو نہیں میں نے اپنی ساری پاکیزگی اور محبت اپنے جسم کے ایک الگ حصے میں تمہارے لیے بچپن سے سنبھال کر رکھی ہے۔ میں تمہاری ہوں۔‘‘

    وہ اس کے اور قریب آئی ہے۔ بہت قریب۔ موم بتی کی لو بھڑکنے لگی ہے وہ ختم ہورہی ہے۔ اُس کا موم پگھل کر اینٹوں کے بد رنگ فرش پر جمتا جا رہا ہے

    وہ جیسے ہی اُس کے اِتنے قریب آئی۔ اُس نے اُسے سونگھا اور پہچان لیا۔

    لڑکی نے کس کر اپنے جسم سے اُس کا جسم ملا دیا جیسے دو چٹانیں آپس میں ملتی ہیں۔ لڑکی کے ہاتھ پیر اُسے مٹی کے بنے ہوئے محسوس ہوئے۔ لڑکی نے اُس کا زخمی، ٹھوکر کھایا ہوا ماتھا اپنے ایک نرم، گول اور بڑے سے پستان پر رکھا جس میں سے جامن کے پرانے تیز سرکے کی خوشبو آرہیہے۔ لڑکی نے اپنے آدھے جامنی ہونٹ، اُس کے خشک، پپڑی زدہ سیاہ ہونٹوں پر رکھ دیے ہیں۔

    لڑکی نے اپنی آدھی، روشن، ستواں ناک سے ایک گہری سانس لی اور اُس کی ایک بڑی سی کتھئی رنگ کی آنکھ بند ہوگئی۔

    لڑکی کے مٹی جیسے ہاتھ پاؤں نے اُس کے جسم کو چاروں طرف سے جکڑ لیا۔ وہ بخار میں جل رہی ہے۔

    موم بتّی بجھ گئی، کھڑکی میں، آسمان پر ایک سفید لکیر نمودار ہوئی۔ اچانک اُس نے محسوس کیا ہے جیسے وہ پیشاب کر رہا ہو۔ اُس کا درد کم ہونے لگا ہے۔ اُس کے سوجے ہوئے گردے اور پیٹرو اپنی جگہ پر آتے جارہے ہیں۔ پیٹ کا تناؤ ختم ہورہا ہے، وہ ہلکا ہوتا جارہا ہے۔ اِس معجزے پر اُس کا دل خوشی سے بھر آیا۔ اُسے نیند آنے لگی۔ لڑکی کے بدن کے نمک سے اُس کی پنڈلیوں میں چمٹی ہوئی جونکیں بے جان ہو ہوکر، فرش پر گرتی جارہی ہیں۔

    ’’مجھے نیند آرہی ہے۔‘‘ اُس نے لڑکی کے کان میں کہا۔

    ’’سوجاؤ۔ کتنا تھک گیے ہو‘‘ لڑکی نے محبت اور خلوص سے کہا۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ وہ جو اپنی آنکھیں بند کرتا ہے، وہی اندھے پن کو محسوس کرسکتا ہے۔

    ’’مجھے نہ جانے کب سے راتوں میں نیند نہیں آئی‘‘ اُس نے لڑکی کے خشک اور کھر کھرے بالوں کو سہلایا اور سونگھا، جن میں سے ایسی مہک آرہی ہے جو جاڑوں کی خاموش اور ملال انگیز بارش میں درختوں سے گرے ہوئے، پیلے پتوں سے آتی ہے۔

    ’’تم میرے خوابوں میں آکر جاگتے تھے جب میں بے خبر سوتے ہوئے تمہیں پیار کرتی تھی۔‘‘

    لڑکی کے منھ سے ایک گہری سانس باہر آئی جیسے اُس نے سوکھی، کِر کِری مٹی اگلی ہے۔

    وہ بے قابو ہوکر اُس سے لپٹ گیا۔

    ’’جانتی ہو۔ انھوں نے مجھے پیشاب نہیں کرنے دیا۔ میں کتنا رویا۔‘‘

    ’’جانتی ہوں، اب بھول جاؤ۔‘‘ لڑکی کی اُداس اور کمزور آواز جیسے بہت دور سے آئی ہے۔

    اُس کے جسم میں اب کہیں درد کا نام و نشان تک نہیں بچاہے۔ وہ ہوا کی طرح ہلکا پھلکا ہوگیا ہے۔ جیسے وہ ابھی ابھی پیدا ہوا ہے، اِسی عورت کی پسلی سے۔

    اسی لمحے لڑکی کی گرفت اُس کے جسم پر سے اچانک ڈھیلی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ہے۔

    فضا میں ابھرنے والے گندے گیت اور فحش ساز خاموش ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی سارنگی نے بھی آخری ہچکی لی ہے۔ صبح کی سفیدی کی شکل میں ایک سناٹا کھڑکی کے راستے اندر چلا آیا ہے۔

    ’’کیا ہوا؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘

    وہ اِس کے جسم پر سے اِس طرح پھسل گئی ہے جیسے پانی کسی کائی زدہ چکنی چٹان سے پھسلتا ہے۔

    ’’یہ کیا ہوا تمہیں کیا ہوگیا۔‘‘ وہ گھبراکر، گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا، اُس پر جھک آیا۔

    ’’کچھ بھی نہیں، میں بس مر رہی ہوں۔‘‘

    اُس نے غور سے دیکھا۔ لڑکی کا آدھا خوبصورت چہرہ بالکل پیلا پڑ چکا ہے اور دوسرا حصہ اب نظر ہی نہیں آرہا ہے۔ اُس کے پیٹ کا نچلا حصہ ایک غبارے کی طرح پھول رہا ہے جیسے اُس میں لگاتار ہوا بھرتی جاتی ہے۔

    ’’مگر کیوں، تم کیوں مر رہی ہو۔‘‘ وہ بے تکے اندازمیں رونے لگا۔

    ’’روؤ مت، تمہارے گردوں کا سارا پیشاب اب میرے اندر ہے۔‘‘ وہ اٰس سچی خوشی کے ساتھ بولی جو کسی کو صرف موت کے وقت ہی محسوس ہوسکتی ہے۔

    ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ ۔

    ’’اِس لیے کہ مجھے تم سے محبت تھی۔‘‘

    اُس کے منھ سے نکلی ہوئی آواز ایسی تھی جیسے اُس نے ایک سوکھی اور کرِی کرِی، انسانی مٹی میں ملے ہوئے خون کو تھُوکا ہو۔

    اُس کے آدھے ہونٹ پر ایک اجلی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اُس کی ایک کتھئی آنکھ نے خود پر جھکے ہوئے چہرے کو، ہمیشہ کے لیے اپنے اندر ڈبو دیا۔

    ’’جو محبت کرتے ہیں، انہیں مرنا پڑتا ہے‘‘ لڑکی نے اپنے ننھے سے زردکان کے بہت اندر سنا اور دم توڑ دیا۔

    اس کی سفید شلوار پر خون کی کچھ بوندیں تیزی کے ساتھ اکٹھا ہوتی جارہی ہیں۔

    اُس کا جسم اکڑتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ پہاڑ کی سُرنگ کے پتھروں جیسا ہوگیا۔

    وہ لڑکی کی لاش کے پاس دو زانو بیٹھ گیاہے۔ صبح کے اُجالے کی چمک بڑھ گئی ہے اور اس چمک کے ساتھ طوائفوں کے کوٹھوں کا سناٹا اور بھی گہرا ہوگیا ہے۔

    وہ محبت کو پہلی بار دیکھ رہا ہے۔ اُس کی آنکھوں کے اندر سے دو نئی آنکھیں نکل رہی ہیں جو پرانی آنکھوں کو آرام سے کھا رہی ہیں۔

    اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ یہاں ضرور پہنچیں گے۔ اُن کے ہاتھوں میں اُس کی گردن کی ناپ کا سفید پھندا ہوگا مگر وہ یہیں بیٹھا رہے گا۔ اُن کی طرف سے پیٹھ کیے یہیں بیٹھا رہے گا۔ اِسی لاش کے پاس، محبت کے اِسی کوڑے کے پاس، طوائف کی یہ کوٹھری جو اس شہر کا اکلوتا کوڑا گھر ہوگا جو اس شہر یا دنیا کی ظالمانہ، بے حس اور غیر انسانی صفائی کے منھ پر تھوکے گا۔

    وہ یہیں بیٹھا رہے گا۔ ابھی وہ مرے گا نہیں۔ ابھی اُسے محبت کرنا نہیں آئی، جس دن وہ محبت کرنا سیکھ جائے گا وہ بھی مرجائے گا۔ اِسی خوبصورت کوڑا گھر میں دفن ہوجائے گا ورنہ ایک منحوس ابدیت اُس پر مسلط رہے گی۔ ابدیّت نہ تو محبت کو پسند ہے اور نہ موت کو۔

    اُسے ابدیّت کے کالے، فحش خنجر سے اپنی پیٹھ کو بچائے رکھناہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے