وہ صیح معنوں میں چاند کا ٹکڑا تھی۔ شاید اسی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اس کا نام زون (چاند) رکھا تھا۔ وہ ایک مفلوک الحال گھرانے میں پیدا ہوئی تھی جہاں پانی پینے کے لئے روز کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ زون واقعی کیچڑ میں کھلے کنول کی طرح تھی۔ اس کے ماں باپ ایک بوسیدہ سے ڈونگے میں رہتے تھے (ڈونگا پانی پر بنا ایک لکڑی کا گھر ہوتا ہے جس کی شکل و صورت ہاوس بوٹ سے ملتی جلتی ہے)۔ یہ شکستہ اور اپا ہج سا ڈونگا ڈل کی چھاتی پر نہ جانے کب سے سوار آکاش کی طرف منہ اُٹھا ئے جانے کیا تکتا رہتا تھا۔ اس ڈونگے میں رہنے والے زون کے ماں باپ اور بھائی بہن تنگی ترشی کے دن گزار رہے تھے۔ باپ اکثر بیمار رہتا تھا۔ دو چھوٹے بھائی تھے جو نشاط باغ کے باہر بیٹھ کر چنے اورمونگ پھلی بیچ کر چار پیسے کما لیتے تھے۔ زون اس غربت و افلاس کے دشت میں اپنا حسن کھوتی جارہی تھی۔ اُسکی جوانی اور خوبصورتی بہتے وقت کے ساتھ ڈھلتی جارہی تھی اور اس کے رنگ و روپ کے اجیارے افلاس کی تیز آنچ سے ماند پڑتے جا رہے تھے۔ یہ بات بھی نہیں تھی کہ زون کو پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ نشاط کے گھاٹ پرجہاں وہ لنگر ڈالے بیٹھے تھے اس کے اورے دھورے اس کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ ڈل میں ناو کھینے والے علی ملاح تو اپنی ناو لے کر صبح سے لے کر شام تک اس ڈونگے کا حربے ظربے طواف کرتا رہتا تھا، اس آس کے ساتھ کہ ایک بار زون کے دیدار ہو جائیں تو اس کی پیاسی نینوں کو تسکین مل جائے۔ یہ ایک ایسا عاشق تھا جو محبوب کی ایک جھلک پاکر اپنی تشنہ طلب آنکھوں کو سیر اب کر لیتا تھا۔ دوسرا وہ اوبرائے ہوٹل میں کام کرنے والا ہیڈر سو یا جمال شیخ تھا جو بہانے بہانے سے اڑ اڑ کر آ جاتا تھا اور ایک بھنورے کی طرح اس کے ارد گرد منڈھلاتا رہتا تھا۔ زون تھی کہ ان تاڑ بازوں کی طرف نگاہ اٹھا کے بھی نہیں دیکھتی تھی۔
ایک دن اس کا باپ رمضان ہانجی اچانک بیمار ہوا۔ گھر میں جو بھی دھیلہ دمڑی پس انداز کرکے رکھی گئی تھی وہ ابا کے علاج معالجے میں صرف ہو گئی۔ ایسا و قت بھی آ گیا جب چولھے آگ گھڑے پانی نہ تھا۔ جب فاقہ کشی کی نوبت آگئی تو زون تڑپ اٹھی۔ وہ اپنے پریوار کو یوں بھوکوں مرتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ زون اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھی اس لئے اس نے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے اس فیصلے پر کسی نے اعترض نہیں کیا۔ اس قبیلے کی بیشتر عورتیں کام کرتی تھیں سو زون بھی کام پر نکل گئی۔ وہ گھر گھر جاکر دودھ بیچنے لگی۔ ان دنوں دودھ کی بڑی مانگ تھی۔ شدھ دودھ کہیں ملتا نہیں تھا۔ زون نشاط کے گاؤں میں جاکر دودھ خرید کرلے آتی تھی اور پھر یہ دودھ شہر کے علاقے میں جاکر بیچتی تھی۔ کہتے ہیں نا کہ آمدنی کے سر سہرا ہے۔ گھر میں چار پیسے زیادہ کیا آنے لگے گھر کا دلدر دور ہو گیا۔ ابا کی صحت بھی رفتہ رفتہ بحال ہو نے لگی۔ پیسے آنے سے گھر میں آمین آمین ہونے لگی۔ زون نے اپنے وہ سارے کپڑے اتار کے پھینک دئے جن میں لیرے لگے تھے۔ اُس کی ماں نے بھی پھٹے پرانے کپڑے اتار کر نئے کپڑے پہن لئے۔۔۔ پیسے آنے سے گھر کا رنگ و روپ ہی بدل گیا۔
زون کی ماں بیچ بیچ میں اپنے شوہر کو متنبہ کرتی رہتی تھی کہ لڑکی کی عمر ڈھلتی جا رہی ہے۔ اسے اب اس کے ہاتھ پیلے کر دینے چاہیں پر رمضان یہ بات ایک کانسے سنتا اور دوسرے کان سے اڑاتا تھا۔ سچ تویہ تھا کہ وہ ابھی اس کی شادی کرنے کے حق میں نہیں تھا کیونکہ اس کی کمائی دیکھ کر وہ ہوکا کرنے لگا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جب زون اس گھر سے رخصت ہو جائےگی تو بدنصیبی اور مفلسی پھر سے ان کے در پر دستک دینے چلی آئےگی اسلئے بیوی کی رو زروزکی جھک جھک کے باوجود اس نے اپنا ایک کان گونگا اور ایک بہرہ کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ تو بس زون کو دیکھتے ہی اُسکی تعریف میں ایران توران کرنے لگتا تھا۔ زون باپ کے منہ سے اتنی تعریفیں سن کر نہال ہو جاتی تھی اور اس طرح اصل مسلہ ہنسی خوشی کے شور و غل میں دب کر رہ جاتا تھا۔ زون کی ماں اپنے شوہر کی خودغرضی دیکھ کر اپنا من مسوس کر رہ جاتی تھی۔
زون ہر روز نشاط کے علاقے سے اپنا سفر شروع کرتی۔ کئی ہانجی اپنی کشتیاں لے کر گھاٹ پر اس آس کے ساتھ چشم براہ رہتے تھے کہ کہیں ان کے بھاگ کھل جائیں اور وہ ان میں سے کسی ایک کی کشتی میں بیٹھ کر اُ سے نہال کردے پروہ بیٹھنا تو دور ان پر تھوکنا بھی پسند نہ کرتی تھی۔ وہ بیٹھتی تھی تو اس سوکھے سڑے سلام ککرو کی ناؤ پرجو اس کی خدمت میں ایک خادم کی طرح ہمیشہ ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا۔ وہی اسے سویرے سویرے ڈل گیٹ کے گھاٹ پر چھوڑ کے آتا تھا اور شام کو واپس لے کے بھی آتا تھا۔ زونی ڈل گیٹ کے علاقے میں دودھ گھروں میں دے دیا کرتی تھی۔ وہ دودھ دے کر شام تک فارغ ہو جاتی تھی۔ دودھ تو دوپہر تک ختم ہو جاتا تھا۔ باقی کا وقت وہ اپنا جھینکنا سنانے میں بتاتی تھی۔ پھر وہ سلام ککرو کا تب تک انتظار کرتی رہتی تھی جب تک وہ کشتی لے کر نہیں آجاتا تھا۔ اس کی عدم موجودگی میں بہت سارے ملاح بھنوروں کے مافق ادھر ادھر منڈھلانے لگتے تھے پرزون ان کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی۔ اب اگر کوئی بات کرنے کی پہل کرتا تھا تو زون کے
تیکھے تیور بھانپتے ہی وہاں سے کھسک جایا کرتا تھا۔ زون بڑی منہ پھٹ اور جھگڑالو عورت تھی۔ وہ جب لڑنے بھڑنے پر آ جاتی تھی تو کسی کا لحاظ نہیں کرتی تھی۔ گالیاں دینے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وہ ایسی مادر زاد گالیاں دے دیا کرتی تھیں کہ شریف شرفاتو کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر بھاگ جاتے تھے۔
سلام ککرو دو بچوں کا باپ تھا۔ چار سال پہلے اس کی بیوی ایک وبائی بیماری کا شکار ہوکر لقمہ اجل ہوگئی جب سے سلام ککرو اکیلے ہی اپنے بچوں کا پال رہا تھا۔ پتہ نہیں سلام ککرو کی کون سی ادا زون کو بھا گئی تھی کہ وہ دل ہی دل میں اُس سے پیار کرنے لگی تھی۔ سلام ککرو عام ہانجیوں کے مقابلے میں بڑا ہی خاموش طبع، شریف النفس اور ایماندار آدمی تھا۔ اسے دولت کمانے کی حرص نہ تھی۔ وہ ساگ بھات میں خوش تھا۔ ادھر زون کے گھر والے اس کے لئے لڑکا تلاش کر رہے تھے ادھر زون ایک دن سلام ککرو کے ساتھ بھاگ گئی اور دونوں ایک قاضی کے پاس جاکر دو بول پڑھ کے آ گئے اور اس طرح وہ سلام ککرو کی منکوحہ ہو گئی۔ اُسکے باپ کو جب یہ روح فرسا خبر ملی تو وہ تیورا کر گرا۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ اس کی ماں تو پچھاڑیں کھا کھا کر رونے لگی۔ بھائی تو سلام ککرو کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ زون نے اپنے باپ کے دل کو بڑی گہری ٹھیس پہونچائی تھی۔ ایک رنڈوے سے شادی کرکے اس نے انہیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ علی ملاح تواس بات کی ڈونڈی ایسے پیٹ رہا تھا جیسے یہ کام کرنے کی اسے اجرت مل رہی ہو۔ اصل میں اس ساری کاروائی کے پیچھے اس کی جلن اور مایوسی کارفرما تھی۔ زون کے باپ نے اس دن کے بعداپنی بیٹی سے سارے رشتے ناتے توڑ دئے اور وہ جیتے جی ہی اس کا فاتحہ پڑھ کر بیٹھ گئے۔
زون کے لئے اس کی یہ خوشی دیرپا ثابت نہ ہوئی۔ سلام ککرو ایک دن بیٹھے بیٹھے ہی چٹ پٹ ہو گیا۔ زون کے سر پر دکھ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس کے پیٹ میں چھ مہنے کابچہ تھا جو سلام ککرو کی آخری نشانی تھی جو وہ اس کی کوکھ میں چھوڑ کر مرا تھا۔ زون کے سامنے پہاڑ سی زندگی پڑی تھی۔ وہ اکیلے یہ زندگی کیسے کاٹےگی یہ بات اسے اندر ہی اندر کریدتی رہتی تھی۔ اب اسے ایک کی نہیں تین تین بچوں کی کفالت کرنی تھی۔
وہ پھر سے کمر باندھ کے کھڑی ہو گئی۔ وہ اب اکیلے ہی دودھ لے کر ڈل گیٹ پہونچ جایا کرتی تھی۔ ایک دن وہ ہمارے رابطے میں آ گئی۔ اب وہ زون سے زون دید ہو گئی تھی۔ شوہر کے جانے کے بعد وہ اسقدر ٹوٹ چکی تھی کہ وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھی ہونے لگی تھی یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم بچھوارہ (ڈلگیٹ) کے علاقے میں رہا کرتے تھے۔ ان دنوں یہ علاقہ اتنا ایڈوانس نہیں تھا۔ ایک عام سا محلہ تھا جہاں سکون تھا، شانتی تھی۔ آج کی طرح اتنی بھیڑ بھاڑ اور غلغلہ نہیں تھا۔ ہر چیزشدھ اور صاف ملا کرتی تھی۔ چھوٹی سی فیملی تھی ہماری۔ میرے پتا جی شہر کے مانے ہوئے سرجن تھے۔ نام تھا اُن کا ڈاکٹر ایس۔ کے۔ چودھری۔ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اسلئے مجھے گھر میں بڑا لا ڑ ملتا تھا۔ ان ہی دنوں میری ملاقات زون دید سے ہو گئی۔ وہ نہ میری ہم مذہب تھی نہ ہم عمر پھر بھی جانے وہ مجھے کیوں بہتاچھی لگتی تھی۔ اسے دیکھ کر نہ جانے میرے دل میں مسرتوں کے پھول کیوں کھلنے لگتے تھے۔ جب کوئی اُسے نام لے کر بلاتا تھا تو نہ جانے میرے کانوں میں خوشی کی گھنٹیاں کیوں بجنے لگتی تھیں۔ اس خوشی کی اصل وجہ یہ بھی تھی کہ اس کا نام میری دادی کے نام سے ملتا جلتا تھا۔ میری دادی کا نام زون مالی تھا اور اس کا نام زون دید تھا۔ فرق صرف ایک شبد کا تھا۔ اس طرح کے ملتے جلتے نام ہونا کشمیر میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ نام کو چھوڑئے یہاں چہرے مہرے سے بھی پتا نہیں چلتا کہ کون ہندو اور کون مسلمان۔ یہاں ملتے جلتے نام ہونا ایک عام سی بات ہے۔ نام کی زرا سی ہیر پھیر کے قطع نظر، ایک جیسا کھان پان، ایک جیسا کلچر اور ایک جیسا رہن سہن۔ اخلاقی طور پر زون دید میری دوسری ماں تھی۔ سب سے بڑاسچ تو یہ تھاکہ اُسے دیکھ کر مجھے اپنی سورگباشی دادی کی کمی پوری ہو جاتی تھی جسے میں نے برسوں پہلے کھو دیا تھا۔ اس سے ملتے ہی میں اپنی حثیت اپنا رتبہ بھول جاتا تھا اور اس سے اسی طرح کا برتاو کرنے لگتا تھا جیسے میں اپنی دادی کے ساتھ کیا کرتا تھا۔ میں اپنی دادی کو بہت چاہتا تھا۔ وہ بھی مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتی تھی۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس کے پران مجھ میں بسے تھے تو غلط نہ ہوگا۔ زون دید اور میری دادی کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ میری دادی جتنی شانت سبھاو کی تھی زون دیداتنی ہی تنک مزاج اور جگھڑالو۔ وہ بات بات پہ ابل پڑتی تھی۔ اس میں تحمل کا یارا نہ تھا۔ آدھی سی بات بھی اس سے نہ اٹھائے جاتی تھی۔ کوئی اگر اس سے ہنسی ٹھٹھول کرے یا اسے چڑانے کی کوشش کرتا تھا تو وہ تو آگ بگولہ ہو جاتی تھی پر میں جب اس کو چڑاتا یا اُس سے دل لگی کرتا تھا تو وہ قطعی مجھ سے ناراض نہیں ہوتی تھی بلکہ میری چھیڑ چھاڑ سے محظوظ ہوتی تھی۔ میں اسے دید اوروہ مجھے پیار سے ”میرے بلبل“ کہہ کر بلایا کرتی تھی۔
ایک تو میں اپنی ماں کا مقروض تھا جس نے مجھے جنم دیا تھا۔ دوسرا میں زون دید کا قرضدار تھا جو میری دائی پلائی نہ ہوتے ہوئے بھی مجھے دودھ پلاتی رہی۔ مجھے اس بات کو قبول کرنے میں زرا سی بھی جھجک نہیں کہ میری نشو نما میں ماں سے کہیں زیادہ زون دید کے دودھ کا ہاتھ رہا ہے۔ اسی کا دودھ پی پی کر میں پلا بڑھا ہوں۔ پتا جی مجھے بھی اپنی طرح ہی ڈاکٹر بنا نا چاہتے تھے جب کہ میرا رجحان ڈاکٹری کی طرف کم اور شعر و شاعری کی طرف زیادہ تھا۔ میں فلمی اداکاروں کا دیوانہ اور سنگیت کا رسیا تھا۔ جب بھی فلمی گانے ریڈیو کشمیر سے بجنے لگتے تھے تو مجھ پر وجد کا سا عالم طاری ہوتا تھا اور میں جھومنے لگتا تھا۔ میرا بیشتر وقت یہی گانے سننے میں بیت جاتا تھا۔
ان دنوں ریڈیو ہی تفریح کا واحد زریعہ تھا۔
ایک دن پتا جی اسپتال سے گھر جلدی لوٹے۔ میں اپنے کمرے میں ریڈیو کی دھن پر جھوم رہا تھا۔ جب انہوں نے میرے کمرے میں زور زور سے ریڈیو بجتے سنا تووہ پہلے چکرا کے رہ گئے اور پھر وہ پیچ تاب کھاتے ہوئے میرے کمرے میں آ گئے اور پھر پہلی بار وہ مجھ پر خوب برسے۔ مجھے یاد ہے کہ زون دید اس وقت میری ماں کے پاس بیٹھی اپنا آلا روئے جا رہی تھی جو کہ اس کا روز کا معمول تھا۔ جب میں روتے ہوئے نیچے آ گیا تو وہ مجھے اس حال میں پہلی بار دیکھ کر سناٹے میں رہ گئی۔ اچانک وہ کسی زخمی شیرنی کی طرح بپھر کر کھڑی ہو گئی اور پھر وہ جلبلا کرپتا جی پر چڑھ بیٹھی۔
”او ڈاکدر ساحب۔ تم نے میرے بلبل سے ایسا کیا کہہ دیا جو یہ اپنی آنکھوں سے ایسے موٹے موٹے آنسو بہاتا جا رہا ہے؟“
”ابھی تو صرف کہا ہے۔ ابھی میں نے اسے جوتے نہیں مارے ہیں۔ تو اس سے بڑا پیار کرتی ہے نا توسمجھا دے اپنے اس نالائق بلبل کوکہ زندگی میں فلمی گانے کام نہیں آئیں گے بلکہ پڑھائی کام آئےگی۔ اگر اسے بانڈہی بننا ہے تو پھر میرے پیسے کیوں برباد کر رہا ہے۔ کہہ دے اسے کہ اپنی کتابیں ردی والے کو بیچ کر آجائے اور پھر جاکے بانڈوں کی ٹولی میں شامل ہو جائے۔ جب گھاگرا چولی پہن کر ناچےگا تو خوب پیسے برسیں گے۔ خوب داد ملےگی“ اب کے زون دید کی سمجھ میں بات آ گئی اور وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے میرے پاس آ گئی اور مجھے ڈانٹتے ہوئے بولی، ”تمہارا باپ برابر کہہ رہا ہے۔ تم علم حاصل نہیں کروگے تو ڈاکدر کیسے بنوگے۔ کل جب میں بیمار پڑوں گی تو میرا علاج تم ہی کوتو کرنا پڑےگا نا۔ جب تم ڈاکدر نہیں بنو گے تو پھر میرا علاج کیسے کر پاؤگے؟ اس لئے میرے بلبل میری بات دھیان سے سن۔ من لگا کر پڑھ۔ یہ سچ ہے کہ میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتی ہوں مگر جب تم پڑھائی نہیں کرو گے تو میں بھی تم سے اوروں کی طرح نفرت کرنے لگوں گی۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم سب کے ارمانوں پر بجلی گرے۔ ہماری آرزؤں کا خون ہو جائے۔ ایسا مت کرنا میرے بلبل۔ ایسا مت کرنا میری جان۔ یہ تیری زون دید پھر تجھے کبھی معاف نہیں کرےگی۔ کبھی معاف نہیں کرےگی“ جو بات باپ کی مار نہ کر سکی وہ ایک ان پڑھ گوالن کی سیدھی سادھی بات کر گئی۔ میں نے اُسی دن وہ ریڈیو ایک گتے کے ڈبے میں بند کر دیا اور اپنا تن من پڑھائی میں لگا دیا۔ مجھے یاد ہے کہ اُن دنوں دودھ کی بڑی قلت تھی۔ یہ زون دید تھی جو برین (نشاط) سے آکر ہمارے گھر میں دودھ دے کر جایا کرتی تھی۔ وہ گھر سے ٹھنڈے پہرے نکل جاتی تھی اور سویرے سویرے ہمارے گھر پر پہونچ کر ہانک لگاتی تھی۔ ماں دوڑ کر دروازے پر برتن لے کر جاتی تھی اور زون دید دودھ ڈال کر چلی جاتی تھی۔ زون دید کے حلق سے آواز باہر آ تی نہیں تھی کہ ماں اس کی آواز سنتے ہی باہر کی اور دوڑنے لگتی تھی۔ کیونکہ وہ زون دید کے مزاج سے کماحقہ واقف تھی۔ وہ زرا زراسی بات پرخفا ہو جاتی تھی۔ تب اُسکے لئے نہ کوئی بڑا نہ چھوٹا تھا۔ وہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے لگتی تھی۔ جب اس کا غصہ اتر جاتا تھا تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی تھی۔ اگلے روز وہ آکر شرمسار نظر آتی تھی اور بڑوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگتی تھی۔
زون دید بڑی ہی محنتی اور جفا کش عورت تھی۔ اس کا مرد اسے بھری جوانی میں داغ مفارقت دے کر چلا گیا تھا۔ وہ خود تو چلا گیا مگر زون دید کے گلے میں تینبچوں کی پھانس ڈال کے گیا۔ زون دید کو کئی رشتہ داروں نے اجڑا گھر بسانے کامشورہ دیا یعنی کسے رنڈوے سے دوسرا نکاح کر لے تاکہ دونوں پریوار وں کو ایک دوسرے کا سہارا مل جائے۔ یہ سچ تھا کہ زون دید کے بچے بہت چھوٹے تھے۔ بڑا بیٹا آٹھ سال کا تھا جب کہ سب سے چھوٹا بیٹا دو سال کا تھا۔ وہ اپنے بچوں کو جی جان سے چاہتی تھی۔ اسے واقعی سہارے کی ضرورت تھی لیکن وہ محض سہارے کی خاطر اپنے بچوں کی زندگی غارت کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اس لئے اس نے کسی کی نہ سنی۔ وہ جی جان سے اپنے بچوں کی پرورش میں جٹ گئی تھی۔ اس میں ایک اپنا تھا اور دو سوتیلے تھے مگر وہ اتنا بڑا دل رکھتی تھی کہ اُسنے تینوں بچوں میں کوئی فرق نہ کیا۔ میری ماں اس کی حتی المقدور مدد کرتی رہی جس کا وہ بار بار زکر کرتی رہتی تھی۔ زون دید ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئی۔ ڈل گیٹ کے علاقہ اُس زمانے میں سب سے خوشحال اور خوبصورت علاقہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ شہر کے نامی گرامی لوگ، جیسے منسٹر، ڈاکٹر، اور بڑے بڑے کاروباری اس علاقے میں سکونت پزیر تھے۔ زون دید نے ہر گھر تک رسائی پالی تھی۔ وہ سب کی چہیتی بن کر رہ گئی تھی۔ کسی منسٹر یا افسر سے کوئی کام کرانا ہو تو لوگ زون دید کے وسیلے سے اپنا کام کراتے تھے۔ زون دید کسی بھی افسر یا منسٹر کو جب کوئی بھی کام کرنے کے لئے کہتی تو کیا مجال کہ وہ اس کی بات ٹال جائے۔ گھر کی عورتوں سے اس کے تعلقات اتنے گہرے اور نزدیکی ہوتے تھے کہ وہ زون دید کا کام منٹوں میں کروا دیتی تھیں۔ بہت دنوں بعد زون دید کو اس بات کا ادراک ہوا کہ لوگ اسے اپنے فائدے کے لئے استمال کرتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے بعد اس نے کسی کا بھی کام کرانے سے توبہ کرلی۔
جس دن میں نے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کا امتحان اول درجے میں پاس کیا، زون دید کی خوشی دیدنی تھی۔ مارے خوشی کے اس کے قدم زمین پر نہ پڑ رہے تھے۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس میں نے نہیں بلکہ اس نے پاس کیا ہو۔ اگلے روز وہ ٹھنڈے ٹھنڈے ہی گھر پر آدھمکی اور سیدھے جاکر میرے کمرے میں گھسی۔ میں اسے اتنی صبح اپنے کمرے میں دیکھ کر حیرا ن رہ گیا۔ وہ آگے بڑھی اور پھر میری پیشانی چومی اور میرے ہاتھ میں ایک دھاگہ باندھ کر بولی۔
”میں نے مخدوم صاحب کی درگاہ میں منت مانی تھی کہ جس دن تو ڈاکدری پاس کرے گا اس دن میں ایک سو روپیے کا نیاز چڑھا لوں گی۔ کل مخدوم صاحب نے میری منت پوری کی اور میں ایک سو ایک چڑھا کے سیدھے تمہارے پاس آئی ہوں۔ یہ دھاگہ میں وہیں سے لائی ہوں اور ساتھ میں تمہارے لئے دہی بھرا کوزہ لے کر آئی ہوں۔ گھر کی جمی ہوئی دہی ہے۔ تمہیں میرے ہاتھ کی جمی ہوئی دہی پسند ہے نا اس لئے میں آج دودھ تو نہیں لے آئی البتہ تمہارے لئے دہی لے کر آئی ہوں۔“
اتنا پیار اور دلار دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوئیں۔ یہ عورت میری اتنی پرواہ کیوں کرتی ہے؟ میں یہ سوال اس سے کرنے کی کبھی ہمت نہیں کر سکا۔ ویسے بھی یہ سوال بڑا غیر ضروری سا لگ رہا تھا مجھے۔ اس دن مجھے زون دید نے ڈھیر ساری دعائیں دے ڈالیں۔ شاید یہ اس کی دعاؤں کا اثر تھا کہ میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا گیا۔ میں جب لنڈن سے لوٹا تو میں ایک ماہر فزیشن بن چکا تھا۔ میں نے نوکری سے پرائیویٹ پریکٹس کو ترجیع دی۔ میں نے ڈل گیٹ کے علاقے میں ہی اپنا کلنک کھولا۔ ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب میری گنتی شہر کے مانے ہوئے فزشنوں میں ہونے لگی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ میرے ہاتھ میں شفا ہے۔ یہ کہاں تک سچ تھا یہ میں نہیں جانتا تھا پر یہ بات صیح تھی کہ مجھے مرض کی تشخیص کرنے میں مہارت حاصل ہو چکی تھی۔
میری پریکٹس ایسی چل پڑی تھی کہ مریض کو مجھ تک پہونچنے میں ہفتوں لگ جاتے تھے۔ اسی دوراں کشمیر میں ایک ایسی آندھی اٹھی جس نے سب کچھ تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ لاکھوں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ہم کو بھی اپنا آبائی گھر چھوڑ کر جموں میں پناہ لینی پڑی۔ ہم نے اپنا سب کچھ وہیں چھوڑ دیا۔ بس تن پر جوکپڑے تھے ان میں ہی وہاں سے بھاگ گئے۔ اوج موج کا زمانہ لد گیا تھا۔ کچھ دن تو چکی پیس کر گزارہ کرنا پڑا۔ اب نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنی تھی۔ میں نے کبھی بھی ہار نہیں مانی تھی۔ مجھ میں حالات سے لڑنے کا ظرف تھا اسلئے میں نے جموں کے روپ نگر علاقے میں پریکٹس شروع کی۔ دھیرے دھیرے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ گھر میں پھر سے خوشحالی لوٹ کر آنے لگی۔ باوجود اس کے میں کشمیر کو بھلا نہیں پایا تھا۔ کشمیر اور زون دید میرے لاشعور کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
برسوں بیت گئے۔ ایک دن ایک ایسی انہونی ہو گئی جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میرے سامنے زون دید بیٹھی تھی۔ میں اسے دیکھ کر روؤں یا خوشیاں مناؤں مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ بڑی لاغر اور ظعیف ہو گئی تھی۔ اُسنے جب مجھے دیکھا تو بےساختہ مجھ سے لپٹ گئی اور پھر دہاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ میں بھیاپنے آنسو روک نہ سکا۔ ہم بہت دیر تک اپنے اپنے حصے کا درد اگلتے رہے۔
رونے دھونے کے بعد جب اس نے مجھے اپنی روداد سنائی تو مجھے لگا کہ میرا دکھ اس کے دکھ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وہ اپنے چھوٹے بیٹے اشفاق کو کھو چکی تھیوہ سنگ بازی کرتے ہوئے گولی کانشانہ بنا تھا۔ اس میں جیسے آگ بھری ہوئی تھی۔ جب بھی باہر کوئی ہنگامہ ہوتا تھا تو وہ سب سے پیش پیش ہوتا تھا۔ چند مطلبی سیاستدان ایسے کتنے ہی معصوم بچوں کو اپنے مطلب کے لئے استمال کرتے چلے گئے۔ اس حادثے نے اس کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی۔ اپنے مرحوم شوہر کی ایک آخری نشانی تھی وہ بھی اس سے چھن گئی تھی۔ وہ اپنی قسمت کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہی تھی۔
بیٹے کے چلے جانے کے بعد جب وہ کافی بیمار ہو گئی تو دونوں سوتیلے بیٹوں نے اس کی دیکھ ریکھ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ سری نگر کے ایک سے ایک ڈاکٹر کے پاس وہ اُسے لے گئے مگر کوئی افاقہ نہ ہواتب اسی کے کہنے پر وہ اُسے میرے پاس لے آئے۔ میں نے اس کی نبض ٹٹول کر پوچھا، ”کہاں پر درد ہے زون دیدی؟“
وہ اپنے سینے کے پاس میرا ہاتھ لے گئی اور پھر اسے چوم کر روتے ہوئے بولی، ”یہاں اس دل میں درد ہے۔ کیوں ہمیں چھوڑ کر تم یہاں چلے آئے؟“
”جب وہ شاخ ہی ٹوٹ گئی جس پر تمہارے بلبل کا بسیرا تھا تو وہاں رہ کے میں کیا کرتا۔ اسلئے میں نے اپنا آشیاں وہاں سے اٹھا لیا۔“ میں نے رقت بھری آواز میں کہا۔
وہ کچھ دن میرے پاس رہی۔ میری ماں کو وہ اپنا دکھڑا سناتی رہی۔ ماں بھی اس کی کہانی سن کر آٹھ آٹھ آنسو بہاتی رہتی تھی۔ ہفتے عشرے کے بعد وہ کسی حد تک صحٹ یاب ہوکے واپس اپنے گھر لوٹ گئی مگر جاتے جاتے اُسنے مجھ سے قسم لے لی کہ میں اسے دیکھنے ضرور آؤں۔ میں نے بھی نم آنکھوں سے اسے وداع کیا اوراُس سے وعدہ کیا کہ اگلے سال جب میں ایک کانفرنس میں شریک ہونے کے لئے سری نگر آؤں گا تو سب سے پہلے میں اُ س سے ملنے اُس کے گھر پر آ جاؤں گا۔
میں نے تو اپنا وعدہ وفا کیا مگر وہ وعدہ ایفا نہ کر سکی۔ جب میں اس کے گھر پر پہونچا تو مجھے بتایا گیا کہ ایک ہفتے پہلے اس کا انتقال ہوا۔ مرتے مرتے بھی اس کے لبوں پر میرا نام تھا۔ وہ اپنے بلبل کا انتظار کر رہی تھی اور بلبل اس برباد چمن کا حال دیکھ کر خون کے آنسو رو رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.