زبیدہ
گزرے زمانوں کا ذکر ہے کہ ملک عدم میں زیبارونام کی کوئی شہزادی تھی، سانولارنگ، کھڑی ناک، لمبوترا چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں اور بائیں گال پر تل۔ وہ اپنی آنکھوں سے دانائی کا کام لیتی تھی، بادشاہ کی بڑی بیٹی ہونے کے ناتے اس کی رسائی تخت تک تھی۔ وزراء اور مشیر اس کی عقل کے معترف تھے اور بادشاہ اسے اپنی سنتان سونپنا چاہتا تھا۔ سلطنت سونا اگل رہی تھی، ہر طرف بہارہی بہار تھی، درخت میوؤں سے بھرے تھے اور عیش و عشرت نے نعمت کدوں کو اپنے حصارمیں لے رکھا تھا۔ شہزادی رات کے پچھلے پہرپائیں باغ کے سرہانے اپنے تانپورے سے سر چھیڑتی تو دودھیا چاندنی اس کے رخسارکی رونق بڑھانے لگتی۔سلطنت کے معاملات سنبھالتے ہوئے اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ زندگی کسی منجدھار میں پھنس چکی ہے۔اس کی حکمت اور دانائی کی پکاریں دور دور تک سنی جا سکتی تھیں۔ شہزادے اس کا ہاتھ مانگنے کو بےتاب تھے۔ شہزادی زیبارو شکار کی بھی شوقین تھی، اس موقع پر وہ اپنے دل پسند گھوڑے زرود کو ساتھ رکھتی تھی۔ نسواری رنگ کا یہ چھیل چھبیلا گھوڑا سر جھکائے شہزادی کے پیچھے پیچھے چلتا تو دریا کی لہریں پتھروں سے سر ٹکرانے لگتیں۔ زندگی کی یہ آسودگی اس کے لیے جسم پر اگنے والی چیچک تھی جسے وہ کھرچ کھرچ کر خود کو زخمی کرنے لگی۔ اسے اپنے تانپورے کی تاریں لو دینے لگی تھیں، راگ چھیڑتے ہوئے اب اس کی انگلیاں سنسناسی جاتیں۔ فراغت کی تھکن اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھی اس کے خوابوں کی کونپلیں خاردار ہو رہی تھیں۔ انھی دنوں بادشاہ کو ملک چیستان کا شہزادہ اپنی شہزادی کے لیے پسند آ گیا اور تانپورہ سفید مرمریں تخت پر دھرا رہ گیا۔
اپلوں سے بھری ان دیواروں اور زبیدہ میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ سوجے ہوئے منہ کے ساتھ وہ بھی بڑی خاموشی سے اپنے کمرے کی دیوار سے لگی ہوتی تھی۔ بھائی جی اپنی شلوار نیفے تک اڑستے ہوئے اس پرپل پڑتے اور وہ ٹنڈمنڈ پیڑ کی شاخ جیسے فضا میں لہرا جاتی۔ میں نے کتنی دفعہ بھائی جی کواس کی ٹانگوں کے بیچوں بیچ ٹھڈے مارتے دیکھا تھا، وہ وحشی درندہ بن کر اپنے شکار کو پنجوں میں جکڑتے ہوئے منہ میں لے لیتے۔ زبیدہ اپنے پر پھڑپھڑاتی اور میں کھڑکی کی سلاخوں سے ان پروں سے پیدا ہونے والی آوازیں سنتا، میرے چہرے پر یہ پھڑپھڑاہٹ صرصر کرتی۔ بھائی جی کوکس بات پر اور کب غصہ آ جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ خبربس زدمیں آنے والی زبیدہ کو ہوتی تھی جس کی ناؤ میں بیٹھا ملاح چپو سے کھیلنا جانتا تھا۔بھائی جی کویہ دیوانگی ورثے میں باپ سے ملی تھی ،جس کے لیے ماں بھی قینچے کی طرح تھی جسے وہ مٹھیوں میں خوب دگڑ کر مٹی پر پٹخ دیتا تھا۔ یہ قینچا مٹیالی زمین پر پڑا اپنی چکاچوند گنوا چکا تھا کیونکہ کھیلنے والے ہاتھوں کی گرفت بہت سخت تھی۔ میں نے آنکھ کھولتے ہی مردانگی کی جس قسم کو پروان چڑھتے دیکھا تھا اس میں عورت گنے کا وہ پھوک تھی جس کی ساری مٹھاس چوس لی گئی ہو۔میری ماں بھی چوسے ہوئے اس پھوک کی گٹھر بن گئی تھی۔میرے باپ کی دیوانگی نے اسے بھوسا بنا ڈالا تھا پھر ایک دن اس کے جنون نے بھوسے کو آگ دکھا دی۔ اسے میری ماں کومارنے میں مزا آنے لگا تھا اورماں کا پنڈا اس کی ٹانگوں اور گھونسوں کا عادی ہو گیا تھا۔ پھر ایک دن میرے باپ پر بھوت سوار ہو گیا، وہ دھڑ دھڑ دروازہ پیٹ رہا تھا اور وہ مجھے چھاتی سے چمٹائے دودھ پلانے میں مگن تھی۔ سورما ہلکارے مارتا ہوا دروازہ توڑکر اندر داخل ہوا اور میری ماں پر پل پڑا۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ دیوانے نے میری ماں کی چھاتیاں کاٹ ڈالی تھیں۔ ان سے رسنے والا خون اور دودھ شیروشکر ہو گئے تھے اور میں ماں کے پہلو میں لیٹا اسے ٹٹول رہا تھا۔ یہ ان دیکھا منظر جب بھی میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو منہ میں دودھ کی جگہ خون کی تلخی لے لیتی ہے۔ اب یہی حال زبیدہ کا ہو رہا تھا، وہ رات بھر اذیتوں کے برمے اپنے ننگے پنڈے پر سہتی اور صبح اٹھ کر کبھی ٹانگوں کے درمیان گرم اینٹ کا سینکا لیتی اورکبھی پیٹ کے اوپر گرم پانی کی بوتل رکھ کر ٹکوریں کرتی۔ بھائی جی اس اذیت بھری زندگی سے بہت خوش تھے انھیں ہاتھ جوڑتی، پاؤں پڑتی اور سی سی کرتی زبیدہ اچھی لگتی تھی۔ وہ بھنے ہوئے دیسی مرغ کی ٹانگ بھی دانتوں کے درمیان رکھ کر اس زور سے کھینچتے گویا منہ میں زبیدہ رکھی ہو اور وہ اس کی رانوں پر پاؤں رکھ کر اسے چیر رہے ہوں۔
شہزادی ملک عدم چھوڑ چکی تھی، اب وہ جس میں محل میں تھی اس کا ماحول بہت اجنبی تھا۔ شہزادہ نیل خرام اپنی دنیا میں مست تھا،اسے شہزادی کی ذہانت اور حکمت سے کوئی سروکار نہیں تھا، اس کے لیے زیباروفقط جام تھی جو اس کے لبوں کو سوکھنے نہیں دیتا تھا۔ شہزادی کے لیے محل خوب صورت قید خانہ بن گیا جہاں آسودگی ناآسودگی میں بدل چکی تھی۔ یہاں اس کانسواری رنگ کا گھوڑا بھی نہیں تھا جس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس نے اپنی زندگی کے کتنے ہی اعلیٰ شکار کھیلے تھے۔ آج وہ خود کو اس خرگوش کی جگہ بےدست و پا سمجھ رہی تھی جس کا شکار کرتے ہوئے زرود کے ٹاپوں کی دھمک مدھم ہو گئی تھی۔ شکاری کتوں نے پلک جھپکتے اسے گردن سے دبوچ لیا اور شہزادی اس مردہ خرگوش کو اپنی چھڑی میں لٹکائے جیت کے نشے سے سرشار محل کو لوٹی تھی۔ آج وہ شہزادہ نیل خرام کی چھڑی میں لٹکا ہوا خرگوش تھی جس کی گردن کتوں کے بجائے خود شہزادے کے دانتوں میں تھی۔ شہزادی کے حلق تک مردہ گوشت کا بدبودار ذائقہ گھلنے لگتا تو اسے ابکائیاں آنے لگتیں۔ شہزادی کی دانائی کو قسمت کی نظر لگ گئی اب وہ محل میں کھوٹے سکے کی طرح پڑی تھی۔ محل کے دالان اور روشیں اس کے اندر اترنے والے سناٹوں کے گواہ تھے۔ اس کے جہازی کمرے میں بچھے اطلسی پلنگ کے اوپر لٹکتی سفید چادروں کی نرمی بھی سختی میں بدل چکی تھی۔
شہزادہ نیل خرام کو فتوحات کا شوق تھا سووہ اسے فتح کرکے اپنے علاقوں میں شمار کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اس کے نرم گرم بستر کا سارا ٹھنڈاپن اب اس کی رگوں میں اترنے لگا تھا۔ وہ شہزادے کی الفت کو تڑپنے لگی، اس کے پاس تنہائی کے سوا کچھ نہیں تھا تو پھر اس نے ایک طوطا پال لیا۔ وہ اس سے باتیں کرنے لگی، طوطا اپنے پنجے چونچ سے صاف کرتے ہوئے ٹیں ٹیں کرتا اور شہزادی کادل ان پنجوں کی خراشوں کو ترسنے لگتا۔ اس کے باغ آفریں میں بھی حدت جاں نہ رہی اور اسے اپنا تنبورا یاد آنے لگا۔ شہزادے کو دیکھے مہینوں گزر جاتے اور شہزادی اپنے کمرے کی کھڑکی سے لگی سمندر کا نظارہ کرتی رہتی۔ جس میں چلنے والی بڑی کشتیاں لنگر انداز ہونے کے لیے رسے پھینکتیں تو اس کابھی جی چاہتا آگے بڑھ کر کوئی رسا پکڑ لے۔ ایسے میں ایک دن وہ طوطے سے کہنے لگی:’’مٹھو، دعا کرو شہزادہ مر جائے۔‘‘ٹیں، ٹیں، ٹیں،چچ چچ چچ۔۔۔طوطااپنے پنجے کو چونچ سے صاف کرتے ہوئے آمین کہتا اور شہزادی روزن دیوار سے سر ٹیکتے ہوئے آنکھیں بند کر لیتی۔
اس گھر کی دیواروں نے ایک عورت کی کٹی ہوئی چھاتیوں سے دودھ کشید ہوتے دیکھا تھا۔ اس لیے یہاں زبیدہ کی سسکیوں کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ بھائی جی بپھرے ہوئے سانڈھ کی طرح ڈکارتے تو اس کے ہاتھ سے دودھ کی پتیلی پھسلتے پھسلتے بچتی۔ ان کی زندگی کا دنگل سوائے مارپیٹ کے اور کچھ نہیں تھا اور یہ دنگل وہ ہر دوسرے تیسرے دن کھیلتے ہی رہتے تھے۔ مارپیٹ کے بعد وہ اس سے معافی بھی مانگتے ان کی بھوری آنکھیں پانیوں سے لبالب ہوتیں اور زبیدہ دوپٹے کا پلومنہ میں دئیے پھسڑ پھسڑ روتے ہوئے ان کے جڑے ہوئے ہاتھ اپنے ماتھے پہ رکھ لیتی۔چونٹی پہاڑپر چڑھ کر قلعہ فتح ہونے کی نویدسناتی تو معلوم ہوتا کہ قلعے کا کوئی داخلی دروازہ ہے ہی نہیں۔ بھائی جی ہر لڑائی کے بعد زبیدہ کے کندھے دباتے، اپنے شکار کو دوبارہ ہوش میں لاتے ہوئے ان کا انداز دفاعی ہوتا۔ مونچھوں کوتاؤدیتے ہوئے کہتے: ’’تابعدار زنانی ایں۔ ھم م م م ۔‘‘بھائی جی اس سے چمٹ کر سوتے اور وہ زندہ لاش کی طرح چارپائی پرپڑی لمبے لمبے سانس لے رہی ہوتی۔ مجھے بھائی جی سے کبھی محبت اور نفرت محسوس ہی نہیں ہوئی شاید میرے اندر کا ہیجان زبیدہ کو مار کھاتے دیکھ کر کم ہوتا تھا۔ اس وقت میں سوچتا تھا کہ ماں بھی بالکل ایسے ہی میرے باپ کی مار کھاتی ہوگی۔ اسے آخری عمر تک ماں کی موت کاصدمہ رہا، یہ صدمہ شکار کے ہاتھ سے نکل جانے کا تھا۔ وہ اکثر فخر سے بتاتا کہ میری ماں بڑی جی دار عورت تھی، ایک دفعہ جب وہ بہت بیمار ہوا تو اسے اپنے کندھوں پر اٹھاکر دوا دارو کے لیے ماری ماری پھری۔ رات کے کسی پہر اس کی ٹانگیں دباتے ہوئے اگراس کی آنکھ لگ جاتی تو میرا بیمار باپ وہی ٹانگ اس کے سینے میں ٹھونک دیتا۔ وہ دردسے بلبلاتی دوبارہ اس کی ٹانگیں دبانے لگ جاتی اور میرا باپ ’’کڑی یاوی‘‘ کہتا ہوا اسے لوٹنے کھسوٹنے لگتا۔ میرے گھر میں ذہنی بیمار مردوں کی پنیری اگ چکی تھی اور بھائی جی اس پنیری کا پھل تھے۔میری دیوانگی کی تسکین بھائی جی کی جارحیت اور زبیدہ کے آنسوؤں سے ہوتی تھی۔ میں اب اس انتظار میں تھا کہ کب بھائی جی زبیدہ کی چھاتیاں کاٹیں گے جہاں سے سوائے خون کی سرخی کے اور کچھ نہیں نکلےگا۔
پھر ایک دن محل میں کھلبلی مچ گئی کہ شہزادی زیبارو کہیں نہیں تھی۔ پیادے اسے ڈھونڈتے ہوئے محل سے باہر نکل چکے تھے، کشتیاں سمندر کی لہروں کے سپرد کر دی گئیں لیکن سب بےسود تھا۔ شہزادہ نیل خرام نے اس کے سرکی قیمت مقرر کر دی تھی، چرند پرند بھی اسی کی گمشدگی پر بولیاں بولتے تھے کہ ملک چیستان کے نجومیوں نے عقدہ حل کر لیا۔ ان کے خیال میں شہزادی کسی دیو کی قید میں تھی جو ایک بڑے سے عقاب کے پروں کے درمیان بیٹھ کر سمندر کی سیر کو آیا تھا۔ محل کی کھڑکی سے باہر جھانکتی شہزادی کی آنکھوں کی اداسی نے اسے اپنا دیوانہ بنا دیا۔ اکثر رات کے پچھلے پہر اچانک تنبورے پر کوئی راگ چھیڑ دیتا تھا۔ سر فضامیں بکھرتے ہی سمندر پر روشنیاں مسلط ہو جاتیں۔ دور سے ایک روشن عقاب اڑتا ہوا آتا جس پر بیٹھا ہوا حبشی دیو اپنے سفید چمکتے دانت کھولتا تو گویا الاؤ سا روشن ہو جاتا۔ ایسے میں شہزادی زیبا رو صاف شفاف سمندر کی لہروں پر کروٹ لیتے اٹھتی۔ سیاہ دیو بہت بھیانکر دکھائی دیتا اس کے بڑے بڑے کالے ہاتھ کوئلے کی کان تھے۔ شہزادی ان ہاتھوں کے گڑھوں میں اپنے نازک ہاتھ بڑھاتے ہوئے دیوکے کاندھے پر اپنا سر رکھ دیتی۔ روشنیوں سے مخمور عقاب چیاؤں کی آواز نکالتا اور دونوں اس پر سوار ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ تنبورے کی تان مدھم پڑتی جاتی اور سمندر کا نیلگوں پانی اندھیروں میں ڈوبنے لگتا۔
کچھ دن بعد میں نے محسوس کیا جیسے زبیدہ کے آنسو خشک ہونے لگے تھے، اس دن بھی وہ صحن کی دیوار پر روٹیوں کاچھان بورا مٹی کے پیالے میں ڈال رہی تھی کہ یکدم کوؤں کو منڈیر سے اڑاتے ہوئے بولی:’’فیکو، دعاکرئیں اے کاں مر جائے۔‘‘
’’کیوں بھر جائی۔‘‘
’’ویکھ ! نامراد اڈدا وی نئیں۔‘‘
میں اس کے لفظوں میں کھو سا گیا۔ کوے تو بنیروں سے اڑ جاتے ہیں انھیں تو بس اپنی روٹی اور پانی کی پیاس ہوتی ہے۔ میرے بارہا سوال کرنے پربھی وہ بس یہی کہتی کہ دعاکر کاں مر جائے۔ میں چارپائی کی پائینتی پر بیٹھا ہوا حقے کی نالی زبان پر رکھ لیتا۔ تمباکو کی کڑواہٹ حلق چیر دیتی تو میں گڑ گڑ کی آوازیں نکالنے لگتا۔ بھائی جی اور زبیدہ بھی تو حقے کی طرح ہی تھے ایک حصے میں تمباکو تھا، آگ تھی اور دوسرے پیالے میں پانی،اس ملاپ نے حقے میں جو گڑگڑاہٹ پیدا کی تھی اب اس کا ذائقہ کسیلا ہو گیا تھا۔ حقے کی یہ دو نالیاں دھواں پیدا کرتی ہوئیں میرے منہ میں تن گئی تھیں اور بھاپ کی یہ کڑواہٹ حلق پر خنجر بن کر چل رہی تھی۔ میں جلتے ہوئے تمباکو کے نیچے کتنا ہی گڑ ڈال لیتا اس کی تلخی کو ختم نہیں ہونا تھا۔ اس رات بھی زبیدہ نے بہت مار کھائی،وہ کملی اس دیوانے کے سامنے قربانی کے دنبے کی طرح ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھی تھی۔ میں نے پہلی مرتبہ کمرے کی نیم مردہ روشنی میں زبیدہ کو کپڑوں سے آزاد دیکھا۔ وہ چارپائی سے نیچے اکڑوں بیٹھی اپنے دونوں بازو سینے پر رکھے بھائی جی کے تھپڑوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ مجھے امید بندھ گئی کہ شاید آج کی رات زبیدہ بھی میری ماں کی طرح تختہ دار پر لٹکائی جائے گی۔ کتنا مزا آنے والا تھا، بھائی جی نے اسے گردن سے دبوچ رکھا تھا، گردن پر چھری چلتے ہی اسے نیلے ڈرم میں پھینکا جاتا۔ مجھے اس کے کچے گوشت میں ملی ہوئی جسم کی خوشبو نے بے تاب سا کر دیا۔ زبیدہ کی سسکیاں سنتے سنتے میری آنکھ لگ گئی اور میرا زندگی بھر کا نقصان ہو گیا۔
صبح بھائی جی کی چیخ وپکار سے میری آنکھ کھلی، وہ صحن میں لوگوں کامجمع لگائے گالی گلوچ کر رہے تھے: ’’نکل گئی کڑی یاوی، اپنے یار نال۔‘‘مجھے لگا جیسے میں آسمان پر اڑنے والے اس ہوائی جہاز کی پشت پر بیٹھا ہوں جس نے کچھ دیر پہلے ہی اڑان بھری تھی۔ تیز رفتار ہوا نے میرے ان گنت ٹکڑے کر دئیے، میں جتنا باقی بچا تھا زمین پر پٹخ دیا گیا اور گدھ میرے سر پر منڈلانے لگے۔ زبیدہ کو گھر سے بھاگے ہوئے مہینہ ہونے کو تھا، گھر خالی کھنڈر بن گیا۔ میں ہر صبح صحن کی کچی منڈیر پر رکھے مٹی کے پیالے میں روٹی کے ٹکڑے ڈالتا لیکن کوے تو جیسے وہاں آنا ہی بھول گئے تھے۔ وہ کاں بھی غائب تھا جس کے مرنے کی دعائیں زبیدہ مانگا کرتی تھی۔ تو کیا زبیدہ کو وہ کالا کاگ اڑا لے گیا تھا جس کی لمبی چونچ میں گیلی روٹی کے ٹکڑے ہوتے تھے اور وہ اپنے پنجے صاف کرتے ہوئے کائیں کائیں کرتا تھا۔ اب میں خود کو یہ سوچ کر تسلی دے لیتا ہوں کہ بھائی جی کی زندگی میں آنے والی دوسری بیوی میری خواہش ضرور پوری کرےگی۔ وہ اس کی چھاتیاں کاٹ کر میرے دل کو تقویت پہنچائیں گے اورمیں دانت کچکچاتے ہوئے گوشت کے ان لوتھڑوں میں کبھی اپنی ماں کو ڈھونڈوں گااورکبھی زبیدہ کی بےزبانی میرے لیے دودھ کی نہریں نکالےگی۔ زبیدہ واپس آ جاؤ، گھر میں پڑے دو دیوانے تمہاری راہ تک رہے ہیں۔ ایک دیوانہ روز اپنی شلوار نیفے تک اڑس کر ڈنڈا ہاتھ میں لیے ڈنٹر پیلتا ہے اور دوسرا دیوانہ چارپائی کی سخت ادوائن میں سر دئیے، منہ زمین کی طرف کرکے تنکوں سے کھیلتا ہے۔ میرے بدن کا سارا خون سر اور منہ کی طرف گردش کر دیتا ہے اور میں اکھڑتی ہوئی سانسوں کے درمیان دونوں عورتوں کی چیخیں سننے میں مگن ہو جاتا ہوں۔ زبیدہ بس ایک بار واپس آکر اپنی چھاتیاں کٹوا لو تاکہ میں بھی اپنا سر اس سخت ادوائن سے باہر نکال کر کھلی فضا میں سانس لے سکوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.