باندھ
پنجابی لڑکی رانو کی کہانی، جو جانتی ہے کہ وریا مواس سے محبت کرتا ہے، پر وہ اسے چھوڑ کر کیہر سنگھ کے پیچھے لگی رہتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ کیہر سنگھ اس سے محبت نہیں کرتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے ارد گرد چکر لگاتی رہتی ہے۔ اسی میں وہ کیہر سنگھ سے حاملہ ہو جاتی ہے۔ مگر وریامو تب بھی اس سے خاموش محبت کرتا رہتا ہے۔ اسی محبت کی وجہ سے وہ اس کے گھر کو سیلاب سے بچانے کے لیے تنہا ہی بارش میں بھیگتا ہوا باندھ بنا دیتا ہے۔
بلونت سنگھ
بانجھ
خود نوشت کے اسلوب میں لکھی گئی کہانی ہے۔ بمبئی کے اپولو بندر پر سیر کرتے ہوئے ایک دن اس شخص سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران ہی محبت پر گفتگو ہونے لگی ہے۔ آپ چاہے کسی سے بھی محبت کریں، محبت محبت ہی ہوتی ہے، وہ کسی بچے کی طرح پیدا ہوتی ہے اور حمل کی طرح ضائع بھی ہو جاتی ہے، یعنی قبل از پیدائش مر بھی سکتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو چاہ کر بھی محبت نہیں کر پاتے ہیں اور شاید ایسے لوگ بانجھ ہوتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
بارش
ایک نوجوان کے نامکمل عشق کی داستان ہے۔ تنویر اپنی کوٹھی سے بارش میں نہاتی ہوئی دو لڑکیوں کو دیکھتا ہے۔ ان میں سے ایک لڑکی پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ ایک دن وہ لڑکی اس سے لفٹ مانگتی ہے اور تنویر کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے اپنی منزل مل گئی ہے لیکن بہت جلد اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کسبی ہے اور تنویر مغموم ہو جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
چودھویں کا چاند
فطری مناظر کے پرستار ولسن کی کہانی ہے جو ایک بینک منیجر تھا۔ ولسن ایک مرتبہ جزیرے پر آیا تو چودھویں کے چاند نے اسے اس قدر مسحور و مبہوت کیا کہ اس نے ساری زندگی وہیں بسر کرنے کا ارادہ کر لیا اور بینک کی ملازمت چھوڑ کر گھر بیچ کر مستقل وہیں رہنے لگا۔ لیکن جب قرض خواہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا تو اس نے ایک دن اپنے جھونپڑے میں آگ لگا لی، جس کی وجہ سے اس کا ذہن ماؤف ہو گیا اور کچھ دن بعد چودہویں کا چاند دیکھ کر ہی وہ مر گیا۔
سعادت حسن منٹو
دس منٹ بارش میں
بارش میں بھیگتی ایک ایسی غریب عورت کی داستان ہے جس کا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اس کی گھوڑی بھی گم ہو گئی ہے۔ اس کا ایک کم عقل بیٹا ہے جو جھونپڑی میں پڑا رہتا ہے۔ تیز بارش کی وجہ سے جھونپڑی کی چھت اڑ گئی ہے جسے وہ عورت اکیلے ٹھیک کر رہی ہے اور دور کھڑے دو مرد آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ کب مدد کے لیے انھیں بلاتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
لال ٹین
اس افسانے میں مصنف نے اپنے کشمیر دورے کے کچھ یادگار لمحوں کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ مصنف کو یقین ہے کہ وہ ایک اچھا قصہ گو نہیں ہے اور نہ ہی اپنی یادوں کو ٹھیک سے بیان کر سکتا ہے۔ پھر بھی بٹوت (کشمیر) میں گزارے ہوئے اپنے ان لمحوں کو وہ بیان کئے بغیر نہیں رہ پاتا، جن میں اس کی وزیر نام کی لڑکی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے سبب وہ اپنے دوستوں میں کافی بدنام بھی ہوا تھا۔ وزیر ایسی لڑکی تھی کہ جب مصنف اپنے دوست کے ساتھ رات کو ٹہلنے نکلتا تھا تو سڑک کے کنارے انہیں راستہ دکھانے کے لیے لالٹین لیکر کھڑی ہو جاتی تھی۔