حافظ حسین دین
یہ تعویز غنڈے کے سہارے لوگوں کو ٹھگنے والے ایک فرضی پیر کی کہانی ہے۔ حافظ حسین دین آنکھوں سے اندھا تھا اور ظفر شاہ کے یہاں آیا ہوا تھا۔ ظفر سے اس کا تعلق ایک جاننے والے کے ذریعے ہوا تھا۔ ظفر پیر اولیا پر بہت یقین رکھتا تھا۔ اسی وجہ سے حسین دین نے اسے مالی طور پر خوب لوٹا اور آخر میں اس کی منگیتر کو ہی لیکر فرار ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
ظالم محبت
یہ ایک عورت اور دو مردوں کی کہانی ہے۔ پہلا مرد عورت سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور دوسرے مرد کو یہ خبر تک نہیں کہ وہ عورت اسے چاہتی ہے۔ ایک دن وہ دوسرے مرد کے پاس جاتی ہے اور اسکے سامنے اپنے دل کی بات کو ایک افسانے کے پلاٹ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس الجھن کا حل اس مرد سے پوچھتی ہے۔
حجاب امتیاز علی
دیوالی
میکوا ساہوکار کے یہاں کام کرتا ہے۔ وہ اپنے کام کو ایمانداری سے اور وقت سے پورا کر دیتا ہے۔ دیوالی کے موقع پر وہ گھر کی صفائی میں مصروف ہے، اسی درمیان اسے دیوار پر لگی لکشمی جی کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ تصویر دیکھ کر اسے اپنی منگیتر لکشمی کی یاد آتی ہے۔ وہ سارا دن اس کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔ شام کو دیوالی کا پرشاد لینے کے بعد وہ مہتا جی کی خوشامد کر کے چار گھنٹے کی چھٹی مانگ لیتا ہے اور سائیکل پر سوار ہو کر اپنی منگیتر کے گاؤں کی طرف بھاگتا ہے لیکن وہاں جاکر اسے جس سچائی کا علم ہوتا ہے اس سے اس کے پاؤں تلے کی زمین ہی کھسک جاتی ہے۔
قاضی عبد الستار
سرمہ
فہمیدہ کو سرمہ لگانے کا بے حد شوق تھا۔ شادی کے بعد شوہر کے ٹوکنے پر اس نے سرمہ لگانا چھوڑ دیا۔ پھر اس نے نومولود بچے کے سرمہ لگانا شروع کیا لیکن وہ ڈبل نمونیا سے مر گیا۔ ایک دن جب فہمیدہ کے شوہر نے اسے جگانے کی کوشش کی تو وہ مردہ پڑی تھی اور اس کے پہلو میں ایک گڑیا تھی جس کی آنکھیں سرمے سے لبریز تھیں۔
سعادت حسن منٹو
ڈھارس
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے شراب پینے کے بعد عورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس دن وہ اپنے ایک ہندو دوست کی بارات میں گیا ہوا تھا۔ وہاں بھی پینے پلانے کا دور چلا۔ کسی نے بھی اس کی اس عادت کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ وہ پینے کے بعد چھت پر چلا گیا۔ وہاں اندھیرے میں لیٹی ایک انجان لڑکی کے ساتھ جاکر وہ سو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ دلہن کی بیوہ بہن تھی۔ اس کی اس نازیبا حرکت پر وہ مسلسل رو رہی تھی۔ پھر لوگوں کے سمجھانے بجھانے پر وہ مان جاتی ہے اور کسی سے کچھ نہیں کہتی۔‘‘
سعادت حسن منٹو
روپا
یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس کا باپ رجب اودھ کی گڑھی کی سیاست میں کافی پھل پھول گیا۔ اس نے اپنے بیٹے حسین کو بھی اپنی طرح پہلوان بنایا تھا مگر اسے اپنے باپ کے دشمن منور کی بیٹی روپا سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس محبت میں رجب کی جان چلی جاتی پے لیکن حسین روپا کو اپنے گھر لانے میں کامیاب رہتا ہے۔ روپا سے اس نے شادی تو کرلی تھی لیکن اس کے دل میں جگہ نہیں بنا سکا تھا کیونکہ روپا کو اس کا دبلا جسم پسند نہ تھا۔ پھر اچانک ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے روپا اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔
قاضی عبد الستار
شاہ دولے کا چوہا
مذہب کے نام پر گورکھ دھندہ کرنے والوں کی کہانی ہے۔ شاہ دولے کے مزار کے بارے میں یہ عقیدہ رائج کر دیا گیا تھا کہ یہاں منت ماننے کے بعد اگر بچہ ہوتا ہے تو پہلا بچہ شاہ دولے کا چوہا ہے اور اسے مزار پر چھوڑنا ضروری ہے۔ سلیمہ کو اپنا پہلا بچہ مجیب اسی عقیدے کے تحت مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ لیکن وہ اس کا غم سینے سے لگائے رہی۔ ایک مدت کے بعد جب مجیب اس کے دروازے پر شاہ دولے کا چوہا بن کر آتا ہے تو سلیمہ اسے فوراً پہچان لیتی ہے اور تماشا دکھانے والے سے پانچ سو کے عوض اسے لے لیتی ہے۔ لیکن جب وہ پیسے دے کر واپس اندر آتی ہے تو مجیب غائب ہو چکا ہوتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
نازو
کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو صحنچی نہ ملنے کی وجہ سے اپنی بیوی نازو کو طلاق دے دیتا ہے۔ حالانکہ اس نے شادی ہی اسلیے کی تھی کہ وہ بہت خوبصورت تھی اور اسے لگتا تھا کہ اسی کے پاس صحنچی ہے، مگر اس کے جانے کے بعد جب اس نے پرانے صندوق کو کھلوا کر دیکھا تو صحنچی اسی صندوق میں سے بر آمد ہوئی ۔
قاضی عبد الستار
قرض کی پیتے تھے۔۔۔
مرزا غالب کی مے خواری اور قرض کی عدم ادائیگی کی باعث معاملہ عدالت میں پہنچ جاتا ہے۔ وہاں مفتی صدر الدین آزردہ کرسی عدالت پر براجمان ہوتے ہیں۔ مرزا غالب کی غلطی ثابت ہو جانے کے بعد مفتی صدر الدین جرمانہ کی سزا بھی دیتے ہیں اور اپنی جیب خاص سے جرمانہ ادا بھی کر دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
مس اڈنا جیکسن
یہ ایک کالج کی ایسی معمر پرنسپل کی کہانی ہے، جس نے اپنی طالبہ کے دوست سے ہی شادی کر لی تھی۔ جب وہ کالج میں آئی تو طالبات نے اسے بالکل منہ نہیں لگایا تھا۔ حالانکہ اپنے اخلاق اور خلوص کی وجہ سے وہ جلدی ہی اپنی طالبات کے درمیان مقبول ہو گئی تھی۔ اسی اثنا اسے ایک لڑکی کی محبت کے بارے میں پتہ چلا، جو ایک لیکچرر سے پیار کرتی تھی۔ لڑکی کی پوری داستان سننے کے بعد پرنسپل نے لیکچرر کو اپنے گھر بلایا اور خود سے آدھی عمر کے اس نوجوان لیکچرر کے ساتھ شادی کر لی۔
سعادت حسن منٹو
استاد شمو خاں
یہ کہانی استاد شمو خاں کی ہے۔ کسی زمانے میں وہ پہلوان ہوا کرتا تھا۔ پہلوانی سے اس نے کافی شہرت پائی اور اب زندگی کے باقی دن کبوتر بازی کا شوق پورا کرکے گزار رہا ہے۔ پاس ہی رہنے والے شیخ جی بھی کبوتر بازی کا شوق رکھتے تھے۔ کبوتر بازی کے مشترکہ شوق میں دونوں کے درمیان کس کس طرح کے داوں پینچ ہوتے ہیں، جاننے کے لیے یہ کہانی پڑھیں۔
احمد علی
کھل بندھنا
پورنماشی کو ایک مندر میں لگنے والے میلے کے گرد گھومتی یہ کہانی نسائی ڈسکورس پر بات کرتی ہے۔ مندر میں لگنے والا میلہ خاص طور سے خواتین کے لیے ہی ہے، جہاں وہ گھر میں چل رہے جھگڑوں، شوہروں، ساس اور نندوں کی طرف سے لگائے بندھنوں کے کھلنے کی منتیں مانگتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ خاندان اور سماج میں عورت کی حالت پر بھی بات چیت کرتی جاتی ہیں۔
ممتاز مفتی
بلونت سنگھ مجیٹھیا
یہ ایک رومانی کہانی ہے۔ شاہ صاحب کابل میں ایک بڑے تاجر تھے، وہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیے، اپنے دوست بلونت سنگھ مجیٹھیا کے مشورے سے منتر پڑھے ہوئے پھول سونگھا کر اسے رام کیا لیکن حجلۂ عروسی میں داخل ہوتے ہی وہ مر گئی اور اس کے ہاتھ میں مختلف رنگ کے وہی سات پھول تھے جنہیں شاہ صاحب نے منتر پڑھ کر سونگھایا تھا۔
سعادت حسن منٹو
میٹھا معشوق
یہ اس وقت کی کہانی ہے جب ریل ایجاد نہیں، ہوئی تھی لوگ پیدل،اونٹ یا پھر گھوڑوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ لکھنئو شہر میں ایک شخص پر مقدمہ چل رہا تھا اور وہ شخص شہر سے کافی دور رہتا تھا۔ مقدمے کی تاریخ پر حاضر ہونے کے لیے وہ اپنے قافلے کے ساتھ شہر کے لیے روانہ ہو گیا، ساتھ میں نذرانے کے طور پر میٹھائی کا ٹوکرا بھی تھا۔ پورے راستے اس میٹھے معشوق کی وجہ سے انھیں کچھ ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ آرام سے سو تک نہیں سکے۔
چودھری محمد علی ردولوی
خاں صاحب
’’کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے، جو بہت دین دار ہے۔ مگر اتنا کنجوس ہے کہ اس کی بیوی بیٹی بہت مفلسی میں گزارا کرتی ہیں۔ اس کی بیوی بیٹی کو اچھی پرورش کے لیے ایک عورت کے پاس چھوڑ دیتی ہے، تو بدلے میں وہ اس عورت سے پیسے بھی مانگتا ہے۔ عورت پیسے تو نہیں دیتی، ہاں ایک پڑھے لکھے لڑکے سے اس کا رشتہ طے کر دیتی ہے۔ مگر کم مہر اور نقد نہ ملنے کی وجہ سے وہ دھوکے سے اپنی بیٹی کی شادی ایک امیر اور ادھیڑ عمر کے شخص سے کرا دیتا ہے۔‘‘
محمد مجیب
سراج
’’یہ ایک ایسی نوجوان طوائف کی کہانی ہے، جو کسی بھی گراہک کو خود کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی۔ حالانکہ جب اس کا دلال اس کا سودا کسی سے کرتا ہے، تو وہ خوشی خوشی اس کے ساتھ چلی جاتی ہے، لیکن جیسے ہی گراہک اسے کہیں ہاتھ لگاتا ہے کہ اچانک اس سے جھگڑنے لگتی ہے۔ دلال اس کی اس حرکت سے بہت پریشان رہتا ہے، پر وہ اسے خود سے الگ بھی نہیں کر پاتا ہے، کیونکہ وہ اس سے محبت کرنے لگا ہے۔ ایک روز وہ دلال کے ساتھ لاہور چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ اس نوجوان سے ملتی ہے، جو اسے گھر سے بھگا کر ایک سرائے میں تنہا چھوڑ گیا تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
چغد
جنسی خواہش ایک حیوانی جبلت ہے اور اس کے لیے کسی اسکیم اور پلاننگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی بنیادی نکتہ پر بنی گئی اس کہانی میں ایک ایسے نوجوان کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو ایک پہاڑی دوشیزہ کو راغب کرنے کے لیے ہفتوں پلان بناتا رہتا ہے پھر بھی کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ایک لاری ڈرائیور چند منٹوں میں ہی اس لڑکی کو رام کرکے اپنی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
وقار محل کا سایہ
وقار محل کے معرفت ایک گھر اور اس میں رہنے والے لوگوں کے ٹوٹتے بنتے رشتوں کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ وقار محل کالونی کے وسط میں واقع ہے۔ ہر کالونی والا اس سے نفرت بھی کرتا ہے اور ایک طرح سے اس پر فخر بھی۔ مگر وقار محل کو پچھلے کئی سالوں سے گرایا جا رہا ہے اور وہ اب بھی ویسے کا ویسا کھڑا ہے۔ مزدور دن رات کام میں لگے ٹھک ٹھک کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ٹھک ٹھک کی اس آواز سے ماڈرن خیال کی ماڈرن لڑکی زفی کے بدن میں سہرن سی ہونے لگتی ہے۔ اور یہی سہرن اسے کئی لوگوں کے پاس لے جاتی ہے اور ان سے دور بھی کرتی ہے۔
ممتاز مفتی
ماڈل ٹاؤن
حسد کی آگ میں جلتے ایک نوجوان کی کہانی۔ نوجوان جانتا ہے کہ جس لڑکی سے وہ شادی کر رہا ہے وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور نوکری کے لالچ میں اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے اور ماڈل ٹاون میں بس جاتا ہے۔ ایک روزاس نوجوان کی اس شخص سے ملاقات دوران سفر بس میں ہو جاتی ہے۔ وہ شخص آئندہ بھی اس سے ملاقات کا وعدہ کرتا ہے لیکن پھر کبھی ملاقات نہیں ہوتی۔ وہ نوجوان ہمیشہ اپنی بیوی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آگے کا حال جاننے کے لیے کہانی کو پڑھنا ہوگا۔
قاضی عبد الستار
عشقیہ کہانی
یہ عشق میں گرفتار ہو جانے کی خواہش رکھنے والے ایک ایسے نوجوان جمیل کی کہانی ہے جو چاہتا ہے کہ وہ کسی لڑکی کے عشق میں بری طرح گرفتار ہو جائے اور پھر اس سے شادی کر لے۔ اس کے لیے وہ بہت سی لڑکیوں کا انتخاب بھی کرتا ہے۔ ان سے ملنے، انہیں خط لکھنے کے منصوبے بناتا ہے، لیکن اپنے کسی بھی منصوبہ پر وہ عمل نہیں کر پاتا۔ آخر میں اس کی شادی طے ہو جاتی ہے، اور رخصتی کی تاریخ بھی مقرر ہو جاتی ہے۔ اسی رات اس کی خالہ زاد بہن خودکشی کر لیتی ہے، جو جمیل کے عشق میں بری طرح گرفتار ہوتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
احتیاط عشق
کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جس نے اپنے محبوب کو ایک سال قبل دیکھا تھا اور اسکی آنکھوں میں محبوب کا وہی عکس تھا۔ اب جبکہ وہ اس سے ملنے آرہا تھا تو وہ اس کے استقبال میں کوئی کمی نہیں رہنے دینا چاہتی تھی۔ اس نے سنا تھا کی اسکا محبوب فوج میں بھرتی ہو گیا ہے، اس سے اس میں اور بھی بانکپن آگیا ہوگا۔ مگر جب اس نے اسے ایئر پورٹ پر دیکھا تو وہ اسے دیکھ کر اس قدر حیران ہوئی کہ ایک بار تو اس نے اسے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔
حجاب امتیاز علی
دور کا نشانہ
افسانہ ایک ایسے منشی کی داستان کو بیان کرتا ہے جو اپنی ہر خواہشات کو بصد شوق پورا کرنے کا قائل ہے۔ اس کا کامیاب کاروبار ہے اور چوک جو کہ بازار حسن ہے، تک بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ایسے میں اس کی ملاقات ایک طوائف سے ہو جاتی ہے۔ ایک روز وہ طوائف کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک پولیس والے نے اس کے آدمی کے ساتھ مارپیٹ کرلی۔ طوائف چاہتی ہے کہ منشی باہر جائے اور وہ اس پولیس والے کو سبق سکھائے، لیکن منشی جی کی سرد مہری دیکھ کر وہ ان سے خفا ہو جاتی ہے۔
چودھری محمد علی ردولوی
کالی تتری
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو اپنے ساتھی ڈاکوؤں کے ساتھ ملکر اپنی ہی بہن کے گھر میں ڈاکہ ڈالتا ہے۔ جب وہ زیور چرا کر جانے لگتے ہیں تو غلطی سے ان کا ایک ساتھی گولی چلا دیتا ہے۔ اس سے پورا گاؤں جاگ جاتا ہے۔ گاؤں والوں سے باقی ڈاکو تو بچ کر نکل جاتے ہیں لیکن کالی تتری پھنس جاتا ہے۔ گاؤں کے کئی لوگ اسے پہچان لیتے ہیں اور ان میں سے ایک آگے بڑھکر ایک ہی وار میں اس کے پیٹ کی انتڑیا ں باہر کر دیتا ہے۔‘‘
بلونت سنگھ
مراسلہ
اس افسانہ میں ایک قدامت پسند گھرانے کی روایات، آداب و اطوار اور طرز رہائش میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر ہے، افسانہ کے مرکزی کردار کے گھر سے اس گھرانے کے گہرے مراسم ہوا کرتے تھے لیکن وقت اور مصروفیت کی دھول اس تعلق پر جم گئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب واحد متکلم اس گھر میں کسی کام سے جاتا ہے تو ان کے طرز زندگی میں آنے والی تبدیلیوں پر حیران ہوتا ہے۔
نیر مسعود
لالہ امام بخش
دیوی پرساد بخش نے اپنے اکلوتے بیٹے کا نام لالہ امام بخش اسلیے رکھا تھا کہ وہ محرم میں مانگی گئی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ چونکہ لالہ امام بخش کی پرورش بڑے لاڈ پیار سے ہوئی تھی اسلیے امام بخش سرکش ہو گیا تھا۔ دیوی پرساد کی موت کے بعد وہ اور بھی بے لگام ہو گیا اور اس کا ظلم گاؤں والوں پر بڑھتا گیا۔ گاؤں والوں نے مشورہ کرکے اسے پردھان بنا دیا۔ حالات اس وقت بدل گیے جب گاؤں میں ایک قتل ہوا اور قتل کے جرم میں لالہ امام بخش کو گرفتار کر لیا گیا۔
قاضی عبد الستار
شلجم
اس کہانی میں رات کو دیر سے گھر آنے والے شوہروں کی بیویوں کے ساتھ ہونے والی بحث کی عکاسی کی گئی ہے۔ شوہر رات میں تین بجے گھر آیا تھا۔ گھر آنے پر جب اس نے بیوی سے کھانا مانگا تو بیوی نے کھانا دینے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر دونوں کے درمیان بحث ہونے لگی۔ دونوں اپنی اپنی دلیلیں دینے لگے اور کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوا۔ بحث ہو ہی رہی تھی کہ اندر سے نوکر آیا اور کہنے لگا کہ کھانا تیار ہے۔ کھانے کے بارے میں سنتے ہی میاں بیوی کے درمیان صلح ہو گئی۔
سعادت حسن منٹو
چیچک کے داغ
جے رام بی اے پاس ریلوے میں اکسٹھ روپے کا ملازم ہے۔ جے رام کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں، اس کی شادی سکھیا سے ہوئی ہے جو انتہائی خوبصورت ہے، سکھیا کو اول اول تو جے رام سے نفرت ہوتی ہے لیکن پھر اس کی شرافت، تعلیم اور برسر روزگار ہونے کے خیال سے اس کے چیچک کے داغ کو ایک دم فراموش کر دیتی ہے اور شدت سے اس کی آمد کی منتظر رہتی ہے، جے رام کئی بار اس کے پاس سے آکر گزر جاتا ہے، سکھیا سوچتی ہے کہ شاید وہ اپنے چیچک کے داغوں سے شرمندہ ہے اور شرمیلے پن کی وجہ سے نہیں آ رہا ہے، رات میں سکھیا کو اس کی نند بتاتی ہے کہ جے رام نے سکھیا کی ناک لمبی ہونے پر اعتراض کیا ہے اور اس کے پاس آنے سے انکار کر دیا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
ایک ایسے شخص کی کہانی جو محبت تو کرتا ہے لیکن اس کے اظہار کی ہمت نہیں کر پاتا۔ پڑوسی ہونے کے باوجود وہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتا تھا، اس کے والد کی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہونے کے باوجود وہ ان لوگوں سے ملنے آتا رہا۔ گھر والے سوچتے رہے کہ وہ ان کی چھوٹی بیٹی سے محبت کرتا ہے مگر وہ تو بڑی بیٹی سے محبت کرتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ وہ اسے ایک بار ڈارلنگ کہہ سکے۔
قرۃالعین حیدر
مسز ڈی کوسٹا
یہ ایک ایسی عیسائی عورت کی کہانی ہے، جسے اپنی پڑوسن کے حمل سے بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ حاملہ پڑوسن کے دن پورے ہو چکے ہیں، پر بچہ ہے کہ پیدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ مسز ڈکوسٹا ہر روز اس سے بچہ کی پیدائش کے بارے میں پوچھتی ہے۔ ساتھ ہی اسے پورے محلے کی خبریں بھی بتاتی جاتی ہے۔ ان دنوں دیش میں شراب بندی قانون کی مانگ بڑھتی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے مسز ڈکوسٹا بہت پریشان تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنی حاملہ پڑوسن کا بہت خیال کرتی ہے۔ ایک دن اس نے پڑوسن کو گھر بلایا اور اس کا پیٹ دیکھ کر بتایا کہ بچہ کتنے دنوں میں اور کیا (لڑکا یا لڑکی) پیدا ہوگا۔
سعادت حسن منٹو
عشق بالواسطہ
افسانے میں ایک بے میل محبت کی عکاسی کی گئی ہے جس میں سیاست، فلسفہ اور اس کے ساتھ ہی مرد کی زندگی میں عورت کی مداخلت پر تبصرہ ہے۔ ایک پارٹی سے واپس آنے کے بعد وہ دونوں جج صاحب کے ہاں تشریف لے گیے، وہاں جج صاحب تو نہیں ملے لیکن ایک نئی خاتون ضرور ملی۔ وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھی، وہ اسکے ساتھ گھومنے نکل گئے۔ یہ تفریح ایک نظریات میں شامل ہونے کا اشارہ تھا۔
چودھری محمد علی ردولوی
چھوکری کی لوٹ
کہانی میں شادی جیسے روایتی سنسکار کو ایک دوسری ہی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ بیٹیوں کے جوان ہونے پر مائیں اپنی چھوکریوں کی لوٹ مچاتی ہیں جس سے ان کا رشتہ پکا ہو جاتا ہے۔ پرسادی کی بہن کی جب لوٹ مچی تو اسے بہت غصہ آیا، کیونکہ رتنا خوب روئی تھی۔ بعد میں اس نے دیکھا کہ رتنا اپنے کالے کلوٹے پتی ساتھ خوش ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ رتنا کی شادی زبردستی کی شادی نہیں تھی بلکہ وہ تو خود سے اپنا لوٹ مچوانا چاہتی تھی۔
راجندر سنگھ بیدی
آنندی
سماج میں جس چیز کی مانگ ہوتی ہے وہی بکتی ہے۔ بلدیہ کے شریف لوگ شہر کو برائیوں اور بدنامیوں سے بچانے کے لیےشہر سے بازار حسن کو ہٹانے کی مہم چلاتے ہیں۔ وہ اس مہم میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور اس بازار کو شہر سے چھ میل دور ایک ویران جگہ پر آباد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اب بازارو عورتوں کے وہاں آباد ہو جانے سے وہ ویرانہ گلزار ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ ویرانہ پہلے گاوں، پھر قصبہ اور پھر شہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی شہر آگے چل کر آنندی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
غلام عباس
حج اکبر
’’کہانی صغیر نام کے ایک ایسے شخص کی ہے، جسے ایک شادی میں امتیاز نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس کی محبت میں وہ کچھ اس قدر گرفتار ہوتا ہے کہ وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر شادی کے بعد بھی ان کے درمیان مرد عورت کے رشتے قایم نہیں ہو پاتے، کیونکہ صغیر اپنی چاہت کے سبب امتیاز کو ایک بہت پاک شے سمجھنے لگتا ہے۔ ایک روز صغیر کے گھر اس کا بڑا بھائی اکبر ملنے آتا ہے۔ اس کے واپس جانے سے پہلے ہی صغیر امتیاز کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جاتا ہے۔‘‘