حافظ حسین دین
یہ تعویز غنڈے کے سہارے لوگوں کو ٹھگنے والے ایک فرضی پیر کی کہانی ہے۔ حافظ حسین دین آنکھوں سے اندھا تھا اور ظفر شاہ کے یہاں آیا ہوا تھا۔ ظفر سے اس کا تعلق ایک جاننے والے کے ذریعے ہوا تھا۔ ظفر پیر اولیا پر بہت یقین رکھتا تھا۔ اسی وجہ سے حسین دین نے اسے مالی طور پر خوب لوٹا اور آخر میں اس کی منگیتر کو ہی لیکر فرار ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
روشنی کی رفتار
کہانی ’روشنی کی رفتار‘ قرۃالعین حیدر کی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ کہانی میں حال سے ماضی کے سفر کی داستان ہے۔ صدیوں کے فاصلوں کو لانگھ کر کبھی ماضی کو حال میں لاکر اور کبھی حال کو ماضی کے اندر بہت اندر لے جا کر انسانی زندگی کے اسرار و رموز کو دیکھنے، سمجھنے اور اسکے حدود و امکانات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
قرۃالعین حیدر
دیوالی
میکوا ساہوکار کے یہاں کام کرتا ہے۔ وہ اپنے کام کو ایمانداری سے اور وقت سے پورا کر دیتا ہے۔ دیوالی کے موقع پر وہ گھر کی صفائی میں مصروف ہے، اسی درمیان اسے دیوار پر لگی لکشمی جی کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ تصویر دیکھ کر اسے اپنی منگیتر لکشمی کی یاد آتی ہے۔ وہ سارا دن اس کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔ شام کو دیوالی کا پرشاد لینے کے بعد وہ مہتا جی کی خوشامد کر کے چار گھنٹے کی چھٹی مانگ لیتا ہے اور سائیکل پر سوار ہو کر اپنی منگیتر کے گاؤں کی طرف بھاگتا ہے لیکن وہاں جاکر اسے جس سچائی کا علم ہوتا ہے اس سے اس کے پاؤں تلے کی زمین ہی کھسک جاتی ہے۔
قاضی عبد الستار
پان شاپ
کہانی میں اپنی محبوب اشیا کو گروی رکھ کر قرض لینے والوں کے استحصال کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ بیگم بازار میں فوٹو اسٹوڈیو، جاپانی گفٹ شاپ اور پان شاپ پاس پاس ہیں۔ پہلی دو دکانوں پر نام کے مطابق ہی کام ہوتا ہے اور تیسری دوکان پر پان بیچنے کے ساتھ ہی قیمتی چیزوں کو رہن رکھ کر پیسے بھی ادھار دیے جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے فوٹو اسٹودیو کا مالک اور جاپانی گفٹ شاپ والا پان والے کی ہمیشہ برائی کرتے ہیں۔ جب ایک روز انھیں خود پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ دونوں ایک دوسرے سے چھپ کر پان والے کے ہاں اپنی قیمتی چیزیں گروی رکھتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی
نعرہ
یہ افسانہ ایک متوسط طبقہ کے آدمی کی انا کو ٹھیس پہنچنے سے ہونے والی درد کو بیاں کرتا ہے۔ بیوی کی بیماری اور بچوں کے اخراجات کی وجہ سے وہ مکان مالک کو پچھلے دو مہینے کا کرایہ نہیں دے پایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مالک مکان اسے ایک مہینے کی اور مہلت دے دے۔ اس درخواست کے ساتھ جب وہ مالک مکان کے پاس گیا تو اس نے اس کی بات سنے بغیر ہی اسے دو گندی گالیاں دیں۔ ان گالیوں کو سن کر اسے بہت تکلیف ہوئی اور وہ مختلف خیالوں میں گم شہر کے دوسرے سرے پر جا پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پوری قوت سے ایک ’نعرہ‘ لگایا اور خود کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگا۔
سعادت حسن منٹو
لاجونتی
لاجونتی ایمانداری اور خلوص کے ساتھ سندر لال سے محبت کرتی ہے۔ سندر لال بھی لاجونتی پر جان چھڑکتا ہے لیکن تقسیم کے وقت کچھ مسلمان نوجوان لاجونتی کو اپنے ساتھ پاکستان لے جاتے ہیں اور پھر مہاجرین کی ادلا بدلی میں لاجونتی واپس سندر لال کے پاس آجاتی ہے۔ اس دوران لاجونتی کے لیے سندر لال کا رویہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ لاجوانتی کو اپنی وفاداری اور پاکیزگی پر کچھ ایسے سوال کھڑے دکھائی دیتے ہیں جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
شغل
’’یہ کہانی امیروں کے شوق اور ان کی دلچسپیوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک پہاڑی علاقے میں کچھ مزدور پتھر صاف کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ وہاں سڑک سے گزر نے والی طرح طرح کی لاریاں ہی ان کے تفریح کا ذریعہ تھیں۔ ایک روز وہاں ایک نئی گاڑی آکر رکی، اس میں سے دو نوجوان اترے اور ایک چمار کی بیٹی کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر چل دیے۔ ٹھیکیدار نے ان نوجوانوں کے رسوخ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تو اپنے شوق کے لیے اس لڑکی کو لے جا رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد اسے چھوڑ جا ئینگے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
مزدور
’’یہ سماج کے سب سے مضبوط اور بے بس ستون ایک ایسے مزدور کی کہانی ہے، جو شب و روز خون پسینہ بہاکر کام کرتا ہے۔ مگر اس کی اتنی آمدنی بھی نہیں ہو پاتی کہ اپنے بچوں کو بھر پیٹ کھانا کھلا سکے یا اپنی بیمار بیوی کی دوا خرید سکے۔ وہ فیکٹری مالک سے بھی درخواست کرتا ہے، لیکن وہاں سے بھی اسے کوئی مدد نہیں ملتی۔‘‘
سدرشن
یزید
کریم داد ایک ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے جس نے تقسیم کے وقت کے فساد کی ہولناکیوں کو دیکھا تھا۔ ہندوستان پاکستان جنگ کے تناظر میں یہ افواہ اڑتی ہے کہ ہندوستان والے پاکستان کی طرف آنے والے دریا کا پانی بند کر رہے ہیں۔ اسی دوران اس کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جس کا نام وہ یزید رکھتا ہے اور کہتا ہے اس یزید نے دریا بند کیا تھا، یہ کھولے گا۔
سعادت حسن منٹو
شیر آیا شیر آیا دوڑنا
بچپن میں اسکول میں پڑھائی جانی والی جھوٹے گڑریے کی کہانی کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں گڑریے کے شیر کے نہ آنے کے باوجود چلاّنے کے مقصد کو بتایا گیا ہے۔ گڑریا شیر نہ ہونے کے باوجود چلاتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ شیر کے آنے سے پہلے ہی خود کو تیار رکھیں۔ اگر اچانک شیر آ گیا تو کسی کو بھی بچنے کا موقع نہیں ملے گا۔
سعادت حسن منٹو
شہید آزادی
دولت اور شہرت کو کنبے اور رشتوں سے زیادہ اہمیت دینے والی ایک ایسی عورت کی کہانی، جس کی شادی ایک تاجر سے ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد بھی وہ اپنی زندگی میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں کرتی۔ اس کا شوہر تجارت کے سلسلے میں ودیش چلا جاتا ہے تبھی اس کی زندگی میں ایک بگڑا ہوا امیرزادہ آ تا ہے، جو اس کی زندگی کو موت کے دہانے تک لے جاتا ہے۔
نیاز فتح پوری
بھیک
’’ایک ایسے شخص کی کہانی، جو پہاڑوں پر سیر کرنے کے لیے گیا ہے۔ وہاں اسے ایک غریب لڑکی ملتی ہے، جسے وہ اپنے یہاں نوکری کرنے کا آفر دیتا ہے۔ مگر اگلے دن امید سے لبریز جب وہ لڑکی اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ ڈاک بنگلے پر پہنچتی ہے تو ایک ساتھ اتنے بچوں کو دیکھ کر وہ اسے نوکری پر رکھنے سے منع کر دیتا ہے۔ انکار سن کر لڑکی جب واپس جانے لگتی ہے تو وہ اسے دو روپیے دے دیتا ہے۔‘‘
حیات اللہ انصاری
مسز گل
ایک ایسی عورت کی زندگی پر مبنی کہانی ہے جسے لوگوں کو تل تل کر مارنے میں لطف آتا ہے۔ مسز گل ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ اس کی تین شادیاں ہو چکی تھیں اور اب وہ چوتھی کی تیاریاں کر رہی تھی۔ اس کا ہونے والا شوہر ایک نوجوان تھا۔ لیکن اب وہ دن بہ دن پیلا پڑتا جا رہا تھا۔ اس کے یہاں کی نوکرانی بھی تھوڑا تھوڑا کرکے گھلتی جا رہی تھی۔ ان دونوں کے مرض سے جب پردہ اٹھا تو پتہ چلا کہ مسز گل انہیں ایک جان لیوا نشیلی دوا تھوڑا تھوڑا کرکے روز پلا رہی تھیں۔
سعادت حسن منٹو
سو کینڈل پاور کا بلب
اس افسانہ میں انسان کی جبلی اور جذباتی پہلووں کو گرفت میں لیا گیا ہے جن کے تحت ان سے اعمال سرزد ہوتے ہیں۔ افسانے کی مرکزی کردار ایک طوائف ہے جسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس کے ساتھ رات گزارنے جا رہی ہے اور اسے کتنا معاوضہ ملے گا بلکہ وہ دلال کے اشارے پر عمل کرنے اور کسی طرح کام ختم کرنے کے بعد اپنی نیند پوری کرنا چاہتی ہے۔ آخر کار تنگ آکر انجام کی پروا کیے بغیر وہ دلال کا خون کر دیتی ہے اور گہری نیند سو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
مزدور
ہمارا مہذب سماج مزدوروں کو انسان نہیں سمجھتا۔ ایک غریب مزدور طبیعت ٹھیک نہ ہونے کے باوجود مجبوری میں بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر بجلی ٹھیک کر رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کا توازن بگڑتا ہے اور وہ نیچے آ رہتا ہے۔ کسی طرح اسے اسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ ابھی اس کی سانسیں چل رہی ہیں کہ ڈاکٹر اسے مردہ اعلان کر دیتا ہے۔
احمد علی
غلامی
سرمایہ داری نے ہر غریب انسان کو غلام بنا دیا ہے۔ ایک خوشگوار شام کو دو دوست ندی کنارے بیٹھ کر اپنی غربت کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اس بات سے افسردہ ہیں کہ غریب کتنی مصیبتوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ دونوں دوست اب یہاں سے چلنے کی تیاری کرتے ہیں، جبھی ایک غریب عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے۔ ان میں سے ایک اس عورت سے فصل کے بارے میں دریافت کرتا ہے کہ وہ عورت رونے لگتی ہے۔ دوسرا دوست اس کی مدد کرنا چاہتا ہے کہ پہلا دوست یہ کہہ کر اسے مدد کرنے سے روک دیتا ہے کہ غلامی تو ان کے اندر بسی ہوئی ہے۔
احمد علی
اے رود موسیٰ
یہ ایک ایسی خوددار لڑکی کی کہانی ہے، جو دنیا کی ٹھوکروں میں رلتی ہوئی ویشیا بن جاتی ہے۔ تقسیم کے دوران ہوئے فسادات میں اس کے باپ کے مارے جانے کے بعد اس کی اور اس کی ماں کی ذمہ داری اس کے بھائی کے سر آگئی تھی۔ ایک روز وہ بہن کے ساتھ اپنے باس سے ملنے گیا تھا تو انہوں نے اس سے اس کا ہاتھ مانگ لیا تھا۔ مگر اگلے روز باس کے باپ نے بھی اس سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس نے اس خواہش کو ٹھکرا دیا تھا اور گھر سے نکل بھاگی۔
واجدہ تبسم
گرم کوٹ
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے ایک گرم کوٹ کی شدید ضرورت ہے۔ پرانے کوٹ پر پیوند لگاتے ہوئے وہ اور اسکی بیوی دونوں تھک گیے ہیں۔ بیوی بچوں کی ضرورتوں کے آگے وہ ہمیشہ اپنی اس ضرورت کو ٹالتا رہتا ہے۔ ایک روز گھر کی ضروریات کی فہرست بنا کر وہ بازار جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جیب میں رکھا دس کا نوٹ کہیں گم ہو گیا ہے، مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ نوٹ کوٹ کی پھٹی جیب میں سے کھسک کر دوسری طرف چلا گیا تھا۔ اگلی بار وہ اپنی بیوی کو بازار بھیجتا ہے۔ بیوی اپنا اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے شوہر کے لیے گرم کوٹ کا کپڑا لے آتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
خدا کی قسم
تقسیم کے دوران اپنی جوان اور خوبصورت بیٹی کے گم ہو جانے کے غم میں پاگل ہو گئی ایک عورت کی کہانی۔ اس نے اس عورت کو کئی جگہ اپنی بیٹی کو تلاش کرتےہوئے دیکھا تھا۔ کئی بار اس نے سوچا کہ اسے پاگل خانے میں داخل کرا دے، پر نہ جانے کیا سوچ کر رک گیا تھا۔ ایک روز اس عورت نے ایک بازار میں اپنی بیٹی کو دیکھا، لیکن بیٹی نے ماں کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ اسی دن اس شخص نے جب اسے خدا کی قسم کھا کر یقین دلایا کہ اس کی بیٹی مر گئی ہے، تو یہ سنتے ہی وہ بھی وہیں ڈھیر ہو گئی۔
سعادت حسن منٹو
گرہن
یہ ایک ایسی حاملہ عورت کی کہانی ہے جس کے حمل کے دوران چاند گرہن لگتا ہے۔ وہ ایک اچھے خاندان کی لڑکی تھی مگر کائستھوں میں شادی ہونے کے بعد لڑکی کو فقط بچہ جننے کی مشین سمجھ لیا جاتا ہے۔ حاملہ ہونے اور وہ بھی گرہن کے اوقات میں بھی گھریلو ذمہ داریاں نباہنی پڑتی ہیں۔ ایسے میں اسے اپنے میکے کی یاد آتی ہے کہ گرہن کے اوقات میں کیسے دان کیا جاتا تھا اور حاملہ کے لیے بہت سارے کاموں کو کرنے کی ممانعت تھی، یہ سب سوچتے ہوئے اچانک سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
شانتی
اس کہانی کا موضوع ایک طوائف ہے۔ کالج کے دنوں میں وہ ایک نوجوان سے محبت کرتی تھی۔ جس کے ساتھ وہ گھر سے بھاگ آئی تھی۔ مگر اس نوجوان نے اسے دھوکہ دیا اور وہ دھندا کرنے لگی تھی۔ بمبئی میں ایک روز اس کے پاس ایک ایسا گراہک آتا ہے، جسے اس کے جسم سے زیادہ اس کی کہانی میں دلچسپی ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے شانتی کی کہانی آگے بڑھتی ہے وہ شخص اس میں ڈوبتا جاتا ہے اور آخر میں شانتی سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
سڑک کے کنارے
انسانیت نوازی اور مرد و عورت کے جسمانی رشتے کی ضرورت اور قدر و قیمت اس کہانی کا مرکزی نکتہ ہے۔ ایک مرد ایک عورت سے جسمانی رشتہ قائم کرکے چلا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں عورت کے حمل ٹھہر جاتا ہے۔ دوران حمل وہ مختلف قسم کے خیالات اور ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتی ہے لیکن بالآخر وہ ایک خوبصورت بچی کو جنم دیتی ہے اور خود مر جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
اس کا پتی
یہ افسانہ استحصال، انسانی اقدار اور اخلاقیات کے زوال کی کہانی ہے۔ بھٹے کے مالک کا عیاش بیٹا ستیش گاؤں کی غریب لڑکی روپا کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیتا ہے۔ جب گاؤں والوں کو اس کے حاملہ ہونے کی بھنک لگتی ہے تو روپا کا ہونے والا سسر اس کی ماں کو لعن طعن کرتا ہے اور رشتہ ختم کر دیتا ہے۔ معاملے کو سلجھانے کے لیے نتھو کو بلایا جاتا ہے، جو سمجھدار اور معاملہ فہم سمجھا جاتا تھا۔ ساری باتیں سننے کے بعد وہ روپا کو ستیش کے پاس لے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ روپا اور اپنے بچے کو سنبھال لے۔ لیکن ستیش سودا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر روپا بھاگ جاتی ہے اور پاگل ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
بابو گوپی ناتھ
طوائفوں اور ان کے ماحول کی عکاسی کرتی ہوئی اس کہانی میں منٹو نے ان کرداروں کے ظاہر و باطن کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے یہ ماحول پنپتا ہے۔ لیکن اس ظلمت میں بھی منٹو انسانیت اور ایثار کی ہلکی سی کرن ڈھونڈ لیتا ہے۔ بابو گوپی ناتھ ایک رئیس آدمی ہے جو زینت کو ’اپنے پیروں پر کھڑا کرنے‘ کے لیے مختلف جتن کرتا ہے اور آخر میں جب اس کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ انتہائی خوش ہوتا ہے اور ایک سرپرست کا کردار ادا کرتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
پت جھڑ کی آواز
یہ کہانی کے مرکزی کردار تنویر فاطمہ کی زندگی کے تجربات اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ تنویر فاطمہ ایک اچھے خاندان کی تعلیم یافتہ لڑکی ہے لیکن زندگی جینے کا فن اسے نہیں آتا۔ اس کی زندگی میں یکے بعد دیگرے تین مرد آتے ہیں۔ پہلا مرد خشوقت سنگھ ہےجو خود سے تنویر فاطمہ کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ دوسرا مرد فاروق، پہلے خشوقت سنگھ کے دوست کی حیثیت سے اس سے واقف ہوتا ہے اور پھر وہی اسکا سب کچھ بن جاتا ہے۔ اسی طرح تیسرا مرد وقار حسین ہے جو فاروق کا دوست بن کر آتا ہے اور تنویر فاطمہ کو ازدواجی زندگی کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے۔ تنویر فاطمہ پوری کہانی میں صرف ایک بار اپنے مستقبل کے بارے میں خوشوقت سنگھ سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ فیصلہ اس کے حق میں نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی میں آئے اس پہلے مرد خشوقت سنگھ کو کبھی بھول نہیں پاتی ہے۔
قرۃالعین حیدر
اللہ دتا
فساد میں لٹے پٹے ہوئے ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جس میں ایک باپ اپنی بیٹی سے منہ کالا کرتا ہے اور پھر اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کو بہو بنا کر لاتا ہے تو اس سے بھی زبردستی کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اس کی بیٹی کو پتہ چلتا ہے تو وہ اپنے بھائی سے طلاق دلوا دیتی ہے کیونکہ وہ اپنی سوت نہیں دیکھ سکتی۔
سعادت حسن منٹو
خون کی ایک بوتل
روزگار کی تلاش میں اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے ایسےفرد کی کہانی جس کی ماں بیمار ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کے جسم میں خون کی کمی بتائی۔ وہ بلڈ بینک گیا تو وہاں موجود شخص نے کہا کہ اس گروپ کا خون نہیں ہے۔ اسے وہ ایک دوسرے شخص کا پتہ دیتے ہوئے وہاں سے خون لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ دریں اثنا اس کی ماں کی موت ہو جاتی ہے۔ نوکری کی تلاش میں گھومتے ہوئے اس شخص کی ملاقات اسی خون دینے والے شخص سے ہوتی ہے جو اس بلڈ بینک والے شخص کے ساتھ پارٹنرشپ میں کام کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔