بس اسٹینڈ
مرد کے دوہرے رویے اور عورت کی معصومیت کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ سلمی ایک غیر شادی شدہ لڑکی ہے اور شاہدہ اس کی شادی شدہ سہیلی۔ ایک دن سلمی شاہدہ کے گھر جاتی ہے تو شاہدہ اپنے شوہر کی شرافت و امارت کی مبالغہ آمیز تعریف کرتی ہے۔ جب سلمی اپنے گھر واپس جاتی ہے تو راستے میں اسے ایک آدمی زبردستی اپنی کار میں بٹھاتا ہے اور اپنی جنسی بھوک مٹاتا ہے۔ اتفاقاً سلمی اس آدمی کا بٹوہ کھول کر دیکھتی ہے تو انکشاف ہوتا ہے کہ وہ شاہدہ کا شوہر ہے۔
سعادت حسن منٹو
اوور کوٹ
ایک خوبرو نوجوان سردیوں میں مال روڈ کی سڑکوں پر ٹہل رہاہے۔ جس قدر وہ خوبصورت ہے اتنا ہی اس کا اورکوٹ بھی اورکوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ سڑکوں پر ٹہل رہا ہے اور ایک کے بعد دوسری دکانوں پر جاتا ہے۔ اچانک ایک لاری اسے ٹکر مار کر چلی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے اسپتال لے جاتے ہیں۔ اسپتال میں علاج کے دوران جب نرسیں اس کے کپڑے اتارتی ہیں تو اورکوٹ کے اندر کے اس نوجوان کا حال دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں۔
غلام عباس
دودا پہلوان
اس کہانی کا موضوع ایک نوکر کی اپنے مالک سے وفاداری ہے۔ صلاحو نے بچپن سے ہی دودے پہلوان کو اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔ باپ کی موت کے بعد صلاحو کھل گیا تھا اور ہیرا منڈی کی طوایفوں کے کوٹھوں پر اپنی زندگی گزارنے لگا تھا۔ ایک طوایف کی بیٹی پر وہ اس قدر عاشق ہوا کہ اس کی ساری جایداد نیلام ہو گیی۔ گھر کو قرق ہونے سے بچانے کے لیے اسے بیس ہزار روپیوں کی ضرورت تھی، جو اسے کہیں سے نہ ملے۔ آخر میں دودے پہلوان ہی نے اپنی آن کو فروخت کر اس کے لیے پیسوں کا انتظام کیا۔
سعادت حسن منٹو
موسم کی شرارت
یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے، جو کشمیر گھومنے گیا ہے۔ صبح کی سیر کے وقت وہ وہاں کے دلکش مناظر کو دیکھتا ہے اور اس میں کھویا ہوا چلتا چلا جاتا ہے۔ تبھی اسے کچھ بھینسوں، گایوں اور بکریوں کو لیے آتی ایک چرواہے کی لڑکی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اسے اتنی خوبصورت نظر آتی ہے کہ اسے اس سے محبت ہو جاتی ہے۔ لڑکی بھی گھر جاتے ہوئے تین بار اسے مڑ کر دیکھتی ہے۔ کچھ دیر اس کے گھر کے پاس کھڑے رہنے کے دوران بارش ہونے لگتی ہے، اور جب تک وہ ڈاک بنگلے پر پہنچتا ہے تب تک وہ پوری طرح بھیگ جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
بلونت سنگھ مجیٹھیا
یہ ایک رومانی کہانی ہے۔ شاہ صاحب کابل میں ایک بڑے تاجر تھے، وہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیے، اپنے دوست بلونت سنگھ مجیٹھیا کے مشورے سے منتر پڑھے ہوئے پھول سونگھا کر اسے رام کیا لیکن حجلۂ عروسی میں داخل ہوتے ہی وہ مر گئی اور اس کے ہاتھ میں مختلف رنگ کے وہی سات پھول تھے جنہیں شاہ صاحب نے منتر پڑھ کر سونگھایا تھا۔
سعادت حسن منٹو
بانجھ
خود نوشت کے اسلوب میں لکھی گئی کہانی ہے۔ بمبئی کے اپولو بندر پر سیر کرتے ہوئے ایک دن اس شخص سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران ہی محبت پر گفتگو ہونے لگی ہے۔ آپ چاہے کسی سے بھی محبت کریں، محبت محبت ہی ہوتی ہے، وہ کسی بچے کی طرح پیدا ہوتی ہے اور حمل کی طرح ضائع بھی ہو جاتی ہے، یعنی قبل از پیدائش مر بھی سکتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو چاہ کر بھی محبت نہیں کر پاتے ہیں اور شاید ایسے لوگ بانجھ ہوتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
آنکھیں
یہ کہانی مغل شہنشاہ جہانگیر کی ہے، جس میں مغل سلطنت کی سیاست، بادشاہوں کی محفل اور ان محفلوں میں ملنے والوں کا تانتا ہے، انھیں ملنے والوں میں جہانگیر کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوتی ہے جس کی آنکھیں انھیں مسحور کر دیتی ہیں۔ صایمہ بیگم کی آنکھیں ایسی ہیں کہ دیکھنے والے کے دل و دماغ میں براہ راست پیوست ہو جاتی ہیں اور بادشاہ جہانگیر کے ذہن پر ہر وقت ان آنکھوں کا تصور چھایا رہتا ہے۔
قاضی عبد الستار
عشقیہ کہانی
یہ عشق میں گرفتار ہو جانے کی خواہش رکھنے والے ایک ایسے نوجوان جمیل کی کہانی ہے جو چاہتا ہے کہ وہ کسی لڑکی کے عشق میں بری طرح گرفتار ہو جائے اور پھر اس سے شادی کر لے۔ اس کے لیے وہ بہت سی لڑکیوں کا انتخاب بھی کرتا ہے۔ ان سے ملنے، انہیں خط لکھنے کے منصوبے بناتا ہے، لیکن اپنے کسی بھی منصوبہ پر وہ عمل نہیں کر پاتا۔ آخر میں اس کی شادی طے ہو جاتی ہے، اور رخصتی کی تاریخ بھی مقرر ہو جاتی ہے۔ اسی رات اس کی خالہ زاد بہن خودکشی کر لیتی ہے، جو جمیل کے عشق میں بری طرح گرفتار ہوتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
اس کے بغیر
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو موسم بہار میں تنہا بیٹھی اپنی پہلی محبت کو یاد کر رہی ہے۔ ان دنوں اس کی بہن کے بہت سے چاہنے والے تھے مگر اس کا کوئی محبوب نہیں تھا اور اسی بات کا اسے افسوس تھا۔ اچانک اس کی زندگی میں آنند آگیا جس نے اس کی پوری زندگی ہی بدل دی۔ انھوں نے مل کر ایک ٹرپ کا پروگرام بنایا۔ اس سفر میں ان دونوں کے ساتھ کچھ ایسے واقعے ہوئے جن کی وجہ سے وہ اس سفر کو کبھی نہیں بھلا سکی۔
احمد علی
چودھویں کا چاند
فطری مناظر کے پرستار ولسن کی کہانی ہے جو ایک بینک منیجر تھا۔ ولسن ایک مرتبہ جزیرے پر آیا تو چودھویں کے چاند نے اسے اس قدر مسحور و مبہوت کیا کہ اس نے ساری زندگی وہیں بسر کرنے کا ارادہ کر لیا اور بینک کی ملازمت چھوڑ کر گھر بیچ کر مستقل وہیں رہنے لگا۔ لیکن جب قرض خواہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا تو اس نے ایک دن اپنے جھونپڑے میں آگ لگا لی، جس کی وجہ سے اس کا ذہن ماؤف ہو گیا اور کچھ دن بعد چودہویں کا چاند دیکھ کر ہی وہ مر گیا۔
سعادت حسن منٹو
ستاروں سے آگے
کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ طلبا کے ایک گروپ کی کہانی جو رات کی تاریکی میں گاؤں کے لیے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ سبھی ایک بیل گاڑی میں سوار ہیں اور گروپ کا ایک ساتھی ماہیا گا رہا ہے دوسرے اسے غور سے سن رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں کوئی ٹوک دیتا ہے اور تیسرا اس کا جواب دینے لگتا ہے۔ دیا گیا جواب فقط ایک جواب نہیں ہے بلکہ انکے احساسات بھی اس میں شامل ہیں۔
قرۃالعین حیدر
کوٹ پتلون
معاشی بدحالی سے جوجھ رہے ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے جسے ’اخلاقی‘ اور ’غیر اخلاقی‘ کی کشمکش کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیتی۔ ناظم ایک ایسی بلڈنگ میں رہتا ہے جہاں ایک عورت کی پسندیدگی کا معیار ’’کوٹ پتلون‘‘ ہے۔ قرض بڑھنے کی وجہ سے اسے اپنا کوٹ پتلون بیچنا پڑتا ہے اور بلڈنگ خالی کرنی پڑتی ہے۔ ناظم جس دن مکان چھوڑ کر جا رہا ہوتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ زبیدہ کی نگاہوں کا مرکز ایک اور نوجوان ہے جو کوٹ پتلون میں ملبوس ہے۔
سعادت حسن منٹو
چور
’’یہ ایک قرضدار شرابی شخص کی کہانی ہے۔ وہ شراب کے نشہ میں ہوتا ہے، جب اسے اپنے قرض اور ان کے وصول کرنے والوں کا خیال آتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اسے اگر کہیں سے پیسے مل جایں تو وہ اپنا قرض اتار دے۔ حالانکہ ایک زمانہ میں وہ اعلیٰ قسم کا تکنیشین تھا اور اب وہ قرضدار تھا۔ جب قرض اتارنے کی اسے کوئی صورت نظر نہیں آئی تو اس نے چوری کرنے کی سوچی۔ چوری کے ارادے سے وہ دو گھروں میں گیا بھی، مگر وہاں بھی اس کے ساتھ کچھ ایسا حادثہ ہوا کہ وہ چاہ کر بھی چوری نہیں کر سکا۔ پھر ایک دن اسے ایک شخص پچاس ہزار روپیے دے گیا۔ ان روپیوں سے جب اس نے اپنے ایک قرضدار کو کچھ روپیے دینے چاہے تو تکیے کے نیچے سے روپیوں کا لفافہ غائب تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
دوسرا کنارہ
تین مزدور پیشہ بھائیوں کی جد و جہد کی کہانی ہے، جس میں باپ اپنے بیٹوں کی نفسیات کو سمجھ نیں پاتا ہے۔ سندر سوہنا اور رجو اپنے باپ کے ساتھ بیکری میں کام کرتے تھے۔ ان کا گاؤں کھاڑی کے ایک کنارہ پر تھا اور دوسرا کنارہ ان کو بہت خوشنما اور دلفریب معلوم ہوتا تھا۔ جب سندر کا بچپن کا دوست علم الدین تحصیلدار بن کر آیا تو سندر نے بھی تحصیلدار بننے کی ٹھانی اور دوسرے کنارے چلا گیا، سوہنا نے بھی دوسرے کنارے جانے کی کوشش کی لیکن باپ نے مار پیٹ کر اسے روک لیا اور ایک دن اس نے خود کشی کر لی، پھر باپ بھی مر گیا۔ ایک دن سندر جھریوں بھرا چہرہ لے کر واپس آیا تو وہ خون تھوک رہا تھا۔ رجو کو اس نے نصیحت کی کہ وہ دوسرے کنارے کی کبھی خواہش نہ کرے۔