ٹھنڈا گوشت
بے حس ہو چکے معاشرے میں بھی انسانیت کی رمق باقی رہتی ہے۔ ٹھنڈا گوشت ایک مرد کے جنسی جذبات سرد ہو جانے یا نفسیاتی طور پر نامرد ہو جانے کی کہانی ہے۔ فسادات میں لوٹ مار، عصمت دری، قتل و غارت گری میں پیش پیش رہنے والا ایشر سنگھ جب ایک لڑکی پر ہاتھ صاف کرنے کے ارادے سے اسے اٹھا کر لاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ مر چکی ہے۔ اس شدید صدمے سے وہ اپنی مردانگی کھو بیٹھتا ہے۔ لڑکی کو وہیں چھوڑ کر وہ ہوٹل میں اپنی داشتہ کلونت کے پاس جاتا ہے۔ کلونت کے لاکھ کوشش کے باوجود وہ خود کو جنسی طور پر تیار نہیں کر پاتا۔ جب وہ کلونت کو اپنے جنسی جذبات سرد ہوجانے کی کہانی سناتا ہے تو کلونت آگ بگولہ ہوجاتی ہے اور اسے خنجر گھونپ دیتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
وہ لڑکی
کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس نے فسادات کے دوران چار مسلمانوں کا قتل کیا تھا۔ ایک دن وہ گھر میں تنہا تھا تو اس نے باہر درخت کے نیچے ایک لڑکی کو بیٹھے دیکھا۔ اشاروں سے اسے بلانے میں ناکام رہنے کے بعد وہ اس کے پاس گیا اور زبردستی اسے اپنے گھر لے آیا۔ جلدی ہی اس نے اسے قابو میں کر لیا اور چومنے لگا۔ بستر پر جانے سے پہلے لڑکی نے اس سے پستول دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے اپنی پستول لاکر اسے دے دی۔ لڑکی نے پستول ہاتھ میں لیتے ہی چلا دی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ جب اس نے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو لڑکی نے بتایا کہ اس نے جن چار مسلمانوں کا قتل کیا تھا ان میں ایک اس لڑکی کا باپ بھی تھا۔
سعادت حسن منٹو
یزید
کریم داد ایک ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے جس نے تقسیم کے وقت کے فساد کی ہولناکیوں کو دیکھا تھا۔ ہندوستان پاکستان جنگ کے تناظر میں یہ افواہ اڑتی ہے کہ ہندوستان والے پاکستان کی طرف آنے والے دریا کا پانی بند کر رہے ہیں۔ اسی دوران اس کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے جس کا نام وہ یزید رکھتا ہے اور کہتا ہے اس یزید نے دریا بند کیا تھا، یہ کھولے گا۔
سعادت حسن منٹو
عزت کے لیے
چونی لال کو بڑے آدمیوں سے تعلق پیدا کرنے میں ایک عجیب قسم کا سکون ملتا تھا۔ اس کا گھر بھی ہر قسم کی تفریح اور سہولت کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ ہربنس ایک بڑے افسر کا بیٹا تھا۔ فسادات کے زمانے میں اس نے چونی لال کی بہن روپا کی عصمت دری کی تھی۔ جب خون بہنا بند نہیں ہوا تو اس نے چونی لال سے مدد مانگی تھی۔ چونی لال نے اپنی بہن کو دیکھا لیکن اس پر بے حسی طاری رہی اور وہ یہ سوچنے میں مصروف رہا کہ کس طرح ایک بڑے آدمی کی عزت بچائی جائے۔ اس کے برعکس ہربنس پر جنون طاری ہو جاتا ہے اور وہ چونی لال کو گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے۔ اخباروں میں خبر چھپتی ہے کہ چونی لال نے اپنی بہن سے منہ کالا کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔
سعادت حسن منٹو
انجام بخیر
تقسیم کے دوران ہوئے فسادات میں دہلی میں پھنسی ایک نوجوان طوائف کی کہانی ہے۔ فساد میں قتل ہونے سے بچنے کے لیے وہ پاکستان جانا چاہتی ہے، لیکن اسکی بوڑھی ماں دہلی چھوڑنا نہیں چاہتی۔ آخر میں وہ اپنے ایک پرانے استاد کے ساتھ خاموشی سے پاکستان چلی جاتی ہے۔ وہاں پہنچ کر وہ شرافت کی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ مگر جس عورت پر بھروسہ کرکے وہ اپنا نیا گھر آباد کرنا چاہتی تھی، وہی اس کا سودا کسی اور سے کر دیتی ہے۔ طوائف کو جب اس بات کا پتہ چلتا ہے تو وہ اپنے گھنگھرو اٹھاکر واپس اپنے استاد کے پاس چلی جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
سو کینڈل پاور کا بلب
اس افسانہ میں انسان کی جبلی اور جذباتی پہلووں کو گرفت میں لیا گیا ہے جن کے تحت ان سے اعمال سرزد ہوتے ہیں۔ افسانے کی مرکزی کردار ایک طوائف ہے جسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس کے ساتھ رات گزارنے جا رہی ہے اور اسے کتنا معاوضہ ملے گا بلکہ وہ دلال کے اشارے پر عمل کرنے اور کسی طرح کام ختم کرنے کے بعد اپنی نیند پوری کرنا چاہتی ہے۔ آخر کار تنگ آکر انجام کی پروا کیے بغیر وہ دلال کا خون کر دیتی ہے اور گہری نیند سو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
قادرا قصائی
اپنے زمانہ کی ایک خوبصورت اور مشہور طوائف کی کہانی۔ اس کے کوٹھے پر بہت سے لوگ آیا کرتے تھے اور سبھی اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان میں ایک غریب شخص بھی اس سے محبت کا دعویٰ کرتا تھا۔ لیکن اس نے اس کی محبت کو ٹھکرا دیا۔ طوائف کے یہاں ایک بیٹی ہوئی۔ وہ بھی اپنی ماں کی طرح بہت خوبصورت تھی۔ جن دنوں اس کی بیٹی کی نتھ اترنے والی تھی انہیں دنوں ملک تقسیم ہو گیا۔ اس تقسیم کے فساد میں طوائف ماری گئی اور اس کی بیٹی پاکستان چلی گئی۔ یہاں بھی اس نے اپنا کوٹھا آبادکر لیا۔ جلد ہی اس کے کئی چاہنے والے نکل آئے۔ وہ جس شخص کو اپنا دل دے بیٹھی تھی وہ ایک قادرا قصائی تھا، جسے اس کی محبت کی ضرورت نہیں تھی۔
سعادت حسن منٹو
سرکنڈوں کے پیچھے
عورت کے متضاد رویوں کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ اس میں ایک طرف نواب ہے جو اس قدر سادہ لوح ہے کہ جب سردار اس سے پیشہ کراتی ہے تو وہ سوچتی ہے کہ جوان ہونے کے بعد ہر عورت کا یہی کام ہوتا ہے۔ دوسری طرف شاہینہ ہے جو نواب کا قتل کرکے اس کا گوشت پکا ڈالتی ہے، صرف اس بنا پر کہ ہیبت خان نے اس سے بے وفائی کی تھی اور نواب کے یہاں آنے جانے لگا تھا۔
سعادت حسن منٹو
سراج
’’یہ ایک ایسی نوجوان طوائف کی کہانی ہے، جو کسی بھی گراہک کو خود کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی۔ حالانکہ جب اس کا دلال اس کا سودا کسی سے کرتا ہے، تو وہ خوشی خوشی اس کے ساتھ چلی جاتی ہے، لیکن جیسے ہی گراہک اسے کہیں ہاتھ لگاتا ہے کہ اچانک اس سے جھگڑنے لگتی ہے۔ دلال اس کی اس حرکت سے بہت پریشان رہتا ہے، پر وہ اسے خود سے الگ بھی نہیں کر پاتا ہے، کیونکہ وہ اس سے محبت کرنے لگا ہے۔ ایک روز وہ دلال کے ساتھ لاہور چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ اس نوجوان سے ملتی ہے، جو اسے گھر سے بھگا کر ایک سرائے میں تنہا چھوڑ گیا تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
گلگت خان
یہ ہوٹل میں کام کرنے والے ایک بیحد بدصورت نوکر کی کہانی ہے۔ اس کی بدصورتی کی وجہ سے اس کا مالک اسے پسند کرتا ہے اور نہ ہی وہاں آنے والے گاہک۔ اپنی محنت اور اخلاق سے وہ سبھی کا عزیز بن جاتا ہے۔ اپنے اکیلے پن کو دور کرنے کے لیے وہ مالک کی ناپسندیدگی کے باوجود ایک کتے کا پلا پال لیتا ہے۔ بڑا ہونے پر کتے کو پیٹ کی کوئی بیماری ہو جاتی ہے، تو اسے ٹھیک کرنے کے لیے گلگت خان چوری سے اپنے مالک کا بٹیر مارکر کتے کو کھلا دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
محبت یا ہلاکت؟
کہانی ایک ایسے شخص کی داستان کو بیان کرتی ہے جو اپنی چچازاد بہن سے بہت محبت کرتا ہے۔ یکبارگی وہ چچازاد بیمار پڑ جاتی ہے اور اسکے علاج کے لیے ایک نوجوان ڈاکٹر آنے لگتا ہے۔ چچازاد ڈاکٹر کی جانب مائل ہونے لگتی ہے اور اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ اس کے اس فیصلے پر اس کا چچازاد بھائی اپنے رقیب ڈاکٹر کا قتل کر دیتا ہے۔