نیا قانون
آزادی کے دیوانے منگو کوچوان کی کہانی ہے۔ وہ ناخواندہ ہے پھر بھی اسے ساری دنیا کی معلومات ہے جنھیں وہ اپنی سواریوں سے سن کر معلوم کرتا رہتا ہے۔ ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں نیا قانون آنے والا ہے جس سے ہندوستان کی انگریزی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اسی خوشی میں وہ قانون لاگو ہونے والی تاریخ کو ایک انگریز سے جھگڑا کر بیٹھتا ہے اور جیل پہنچ جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
مالکن
تقسیم ملک سے بہت سی زندگیوں میں عجیب و غریب تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ یہ کہانی ایک ایسے ہی زمیندار کی ہے جس کا پورا خاندان پاکستان ہجرت کر جاتا ہے لیکن حویلی کی مالکن نے ہجرت کرنے سے انکار کر دیا۔ مالکن حویلی کے اندر باہر کا کام اپنے وفادار چودھری گلاب سے کرا لیا کرتی تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حویلی کی بچی کھچی شان و شوکت بھی جاتی رہی اور حویلی کھنڈر میں تبدیل ہو گئی۔ حویلی کی مالکن کو گزر بسر کرنے کے لیے سینے پرونے کا کام کرنا پڑا اور اس کام میں بھی چودھری گلاب مالکن کی مدد کرتا رہا۔ چودھری گلاب کی انسانی ہمدردی کو دنیا والے اپنی ہی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
قاضی عبد الستار
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
یہ کہانی مغربی جرمنی میں جا رہی ایک ٹرین سے شروع ہوتی ہے۔ ٹرین میں پانچ لوگ سفر کر رہے ہیں جن میں ایک پروفیسر اور اس کی بیٹی، ایک کناڈا کی لڑکی اور ایک ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی ہیں۔ شروع میں سب خاموش بیٹھے رہتے ہیں پھر رفتہ رفتہ آپس میں بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ دوران گفتگو کینیڈین لڑکی ایرانی پروفیسر سے متاثر ہوتی ہے اور اسے پسند کرنے لگتی ہے۔ ٹرین کا سفر ختم ہونے کے بعد بھی وہ آپس میں ملتے رہتے ہیں اور ایک ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ چاروں طرف جنگ کا ماحول ہے، ایران میں تحریکیں زوروں پر ہیں کہ ایرپورٹ پر دھماکہ ہوتا ہے۔ اس بم دھماکے میں ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی مارے جاتے ہیں۔ اس حادثے کا کینیڈین لڑکی کے ذہن پر جو اثر پڑتا ہے، کہانی کا انجام ہے۔
قرۃالعین حیدر
تصویر کے دو رخ
یہ کہانی آزادی سے پہلے کی دو تصویر پیش کرتی ہے۔ ایک طرف پرانے روایتی نواب ہیں جو عیش کی زندگی جی رہے ہو ہیں۔ موٹروں میں گھومتے ہیں، دل بہلانے کے لیے طوائفوں کے پاس جاتے ہیں، ساتھ ہی زندگی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو کوستے ہیں، گاندھی جی کو گالیاں دیتے ہیں۔ دوسری طرف آزادی کے لیے مر مٹنے والے وہ نوجوان ہیں جن کی میت کو کوئی کندھا دینے والا بھی نہیں ہے۔
احمد علی
1919 کی ایک بات
جدوجہد آزادی میں انگریز کی گولی سے شہید ہونے والے ایک طوائف زادے کی کہانی ہے۔ طفیل عرف تھیلا کنجر کی دوبہنیں بھی طوائف تھیں۔ طفیل ایک انگریز کو موت کے گھاٹ اتار کر خود شہید ہو گیا تھا۔ انگریزوں نے بدلہ لینے کی غرض سے دونوں بہنوں کو بلا کر مجرا کرایا اور ان کی عزت کو تار تار کیا۔
سعادت حسن منٹو
ٹوبہ ٹیک سنگھ
اس افسانہ میں نقل مکانی کے کرب کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جہاں ہر چیز کا تبادلہ ہو رہا تھا وہیں قیدیوں اور پاگلوں کو بھی منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ فضل دین پاگل کو صرف اس بات سے سروکار ہے کہ اسے اس کی جگہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سے جدا نہ کیا جائے۔ وہ جگہ خواہ ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں۔ جب اسے جبراً وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک ایسی جگہ جم کر کھڑا ہو جاتا ہے جو نہ ہندوستان کا حصہ ہے اور نہ پاکستان کا اور اسی جگہ پر ایک فلک شگاف چیخ کے ساتھ اوندھے منھ گر کر مر جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
آخری ذریعہ
’’یہ آزادی سے پہلے کے ایک تاجر کی کہانی ہے، جو انگریز افسروں کو خوش رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایک روز جب وہ گھر آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی اپنے سارے ولایتی کپڑے نکال کر کانگریسیوں کو دے رہی ہے۔ وہ اسے ایسا کرنے سے روک دیتا ہے۔ اس کی اس کارروائی کا اس کی بیوی پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ اس صدمے سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔‘‘
سدرشن
موتری
تقسیم ہند سے ذرا پہلے کی صورت حال کی عکاسی اس کہانی میں کی گئی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے خلاف پیشاب گاہ میں مختلف جملے لکھے ملتے تھے۔ مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا اور ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا کے نیچے راوی نے دونوں کی ماں کا ہندوستان مارا لکھ کر یہ محسوس کیا تھا کہ ایک لمحے کے لیے موتری کی بدبو مہک میں تبدیل ہو گئی ہے۔