کبھی دو پیر فرتوت
یہ مایوسی اور تضادات کے درمیان رہتے ہوئے سماجی حقیقت پسندی کی کہانی ہے۔وہ کئی برس بعد اس پارک میں آیا تھا اور اسے شدت کے ساتھ اس دوسرے بوڑھے کی یاد آرہی تھی جس سے کسی نہ کسی بنچ پر اس کی ملاقات ہو جاتی اور وہ ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا کرتاتھا۔ آشرم میں گذارے گئے تین برسوں نے، جہاں اس نے اپنے لئے ایک کٹیا خرید لی تھی، اسے ایک دوسرے انسان میں ڈھال دیا تھا۔ وہ اس امید میں تھا کہ شاید کسی بنچ پر دوسرے بوڑھے سے ملاقات ہوجائے تو وہ اسے آشرم کی زندگی کے بارے میں بتائے گا ، اس شانتی کے بارے میں بتائے گا جسے اس نے آشرم میں رہ کر پراپت کیا تھا۔ وہ اسے بتائے گا کہ اگر تمھیں لمبی زندگی جینی ہے، اگر تم صحیح معنوں میں زندہ رہنے میں یقین رکھتے ہو تو تمھیں اس شہر کے شور شرابے کو خیر باد کہنا ہوگا۔ اس شہر کی مانگیں انسان کو اندر سے کھرچ کھرچ کر کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
صدیق عالم
موتری
تقسیم ہند سے ذرا پہلے کی صورت حال کی عکاسی اس کہانی میں کی گئی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے خلاف پیشاب گاہ میں مختلف جملے لکھے ملتے تھے۔ مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا اور ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا کے نیچے راوی نے دونوں کی ماں کا ہندوستان مارا لکھ کر یہ محسوس کیا تھا کہ ایک لمحے کے لیے موتری کی بدبو مہک میں تبدیل ہو گئی ہے۔