رشوت
’’ایک نوجوان کی زندگی کے تلخ تجربوں کی کہانی ہے۔ نوجوان نے جب بی۔ اے پاس کیا تو اس کے باپ کا ارادہ تھا کہ وہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ اس درمیان اس کے باپ کو جوا کھیلنے کی عادت پڑ گئی اور وہ اپنا سب کچھ جوئے میں ہار کر مر گیا۔ نوجوان خالی ہاتھ جد و جہد کرنے لگا۔ وہ جہاں بھی نوکری کے لیے جاتا، سب جگہ اس سے رشوت مانگی جاتی۔ آخر میں پریشان ہو کر اس نے اللہ کو ایک خط لکھا اور اس خط کے ساتھ رشوت کے طور پر وہ تیس روپیے بھی ڈال دیے، جو اس نے مزدوری کر کے کمائے تھے۔ اس کا یہ خط ایک اخبار کے ایڈیٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اسے دو سو روپیے ماہوار کی تنخواہ پر نوکری کے لیے بلاوا آ جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
فاصلے
ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں تنہا رہتے ہوئے بور ہو گیا ہے اور سکون کی تلاش میں ہے۔ ایک دن وہ گھر سے باہر نکلا تو گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر اور سامان بیچتے دوکاندار سے بات کرنا اسے اچھا لگا۔ اس طرح وہ وہاں روز آنے لگا اور اپنا وقت گزارنے لگا۔ ایک دن انگلینڈ سے واپس آیا بیٹا اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ کافی وقت کے بعد جب وہ واپس آتا ہے اور پھر سے اپنی گلی میں نکلتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے لیے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آگئی ہے، شاید وہ ان کے لیے ایک اجنبی بن چکا تھا۔
مرزا ادیب
پھاہا
عنفوان شباب میں ہونے والی جسمانی تبدیلیوں سے بے خبر ایک لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ آم کھانے سے گوپال کے پھوڑا نکل آتا ہے تو وہ اپنے والدین سے چھپ کر اپنی بہن نرملا کی مدد سے پھوڑے پر پھاہا رکھتا ہے۔ نرملا اس پورے عمل کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھتی ہے اور گوپال کے جانے کے بعد اپنے سینے پر پھاہا رکھتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
ماں کا دل
کہانی ایک فلم کی شوٹنگ کے گرد گھومتی ہے جس میں ہیرو کو ایک بچے کو گود میں لے کر ڈائیلاگ بولنا ہوتا ہے۔ اسٹوڈیو میں جتنے بھی بچے لائے جاتے ہیں ہیرو کسی نہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیتا ہے۔ پھر باہر جھاڑو لگا رہی اسٹوڈیو کی بھنگن کو اسکا بچہ لانے کے لیے کہا جاتا ہے، جو کئی دن سے بخار میں تپ رہا ہوتا ہے۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے کسی ڈاکٹر کو بھی نہیں دکھا پاتی ہے۔ ہیرو بچے کے ساتھ سین شوٹ کرا دیتا ہے۔ بھنگن اسٹودیو سے پیسے لے کر جب ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے تب تک بچہ مر چکا ہوتا ہے۔
خواجہ احمد عباس
اولڈ ایج ہوم
آرام و سکون کا طالب ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو سوچتا تھا کہ سبکدوشی کے بعد اطمینان سے گھر میں رہیگا، مزے سے اپنی پسند کی کتابیں پڑھےگا لیکن ساتھ رہ رہے دیگر افراد خانہ کے علاوہ اپنے پوتے پوتیوں کے شور غل سے اسے اوب ہونے لگی اور وہ گھر چھوڑ کر اولڈ ایج ہوم رہنے چلا جاتا ہے۔ وہاں اپنے سے پہلے رہ رہے ایک شخص کا ایک خط اسے ملتا ہے جس میں وہ اپنے بچوں کو یاد کر کے روتا ہے۔ اس خط کو پڑھ کر اسے اپنے بچوں کی یاد آتی ہے اور وہ واپس گھر لوٹ جاتا ہے۔
مرزا ادیب
آدھے چہرے
کہانی ایک ایسے نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو مس آئیڈینٹٹی کا شکار ہے۔ ایک دن وہ ایک ڈاکٹر کے پاس آتا ہے اور اسے اپنی حالت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ جب وہ محلے میں ہوتا ہے تو حمید ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کالج میں جاتا ہے تو اختر ہو جاتا ہے۔ اپنی یہ کیفیت اسے کبھی پتہ نہ چلتی اگر بیتے دنوں ایک حادثہ نہ ہوتا۔ تبھی سے اس کی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کون ہے؟ وہ ڈاکٹر سے سوال کرتا ہے کہ وہ اسے بتائے کہ وہ حقیقت میں کیا ہے؟
ممتاز مفتی
انار کلی
سلیم نام کے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو خود کو شہزادہ سلیم سمجھنے لگتا ہے۔ اسے کالج کی ایک خوبصورت لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے، لیکن وہ لڑکی اسے قابل توجہ نہیں سمجھتی۔ اس کی محبت میں دیوانہ ہو کر وہ اسے انارکلی کا نام دیتا ہے۔ ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے والدین نے اسی نام کی لڑکی سے اس کی شادی طے کر دی ہے۔ شادی کی خبر سن کر وہ دیوانہ ہو جاتا ہے اور طرح طرح کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ سہاگ رات کو جب وہ دلہن کا گھونگھٹ ہٹاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسی نام کی کوئی دوسری لڑکی تھی۔
سعادت حسن منٹو
ہم دوش
دنیا کی رنگینی اور بے رونقی کے تذکرہ کے ساتھ انسان کی خواہشات کو بیان کیا گیا ہے۔ شفاخانے کے مریض شفا خانے کے باہر کی دنیا کے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں شدید قسم کی خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ وہ کبھی ان کے ہمدوش ہو سکیں گے یا نہیں۔ کہانی کاراوئی ایک ٹانگ کٹ جانے کے باوجود شفایاب ہو کر شفا خانے سے باہر آ جاتا ہے اور دیگر لوگوں کے ہمدوش ہو جاتا ہے لیکن اس کا ایک ساتھی مغلی، جسے ہمدوش ہونے کی شدید تمنا تھی اور جو دھیرے دھیرے ٹھیک بھی ہو رہا تھا، موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
حجامت
میاں بیوی کی نوک جھونک پر مبنی مزاحیہ افسانہ ہے، جس میں بیوی کو شوہر کے بڑے بالوں سے وحشت ہوتی ہے لیکن اس بات کو ظاہر کرنے سے پہلے ہزار قسم کے گلے شکوے کرتی ہے۔ شوہر کہتا ہے کہ بس اتنی سی بات کو تم نے بتنگڑ بنا دیا، میں جا رہا ہوں۔ بیوی کہتی ہے کہ خدا کے لیے بتا دیجیے کہاں جا رہے ہیں ورنہ میں خود کشی کر لوں گی۔ شوہر جواب دیتا ہے نصرت ہیئر کٹنگ سیلون۔
سعادت حسن منٹو
وہ کون تھی؟
ایک بہت ہی مذہبی شخص اور اس کے افراد خانہ کی کہانی ہے۔ اس شخص کے دو گھر ہیں، ایک میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتا اور دوسرا مکان خالی پڑا ہوا ہے۔ اپنے خالی مکان کو کسی شریف اور نیک شخص کو کرائے پر دینا چاہتا ہے۔ پھر ایک دن اس گھر میں ایک عورت آکر رہنے لگتی ہے، وہ شخص اس کے پاس جانے لگتا ہے۔ اس کے بارے میں جب اس کی بیوی اور گھر کے دیگر افراد کو پتہ چلتا ہے تو کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے اور وہ مذہبی اور دیندار شخص اپنے گھر والوں کی نگاہوں میں قابل نفرین بن جاتا ہے۔
مرزا ادیب
وہ لڑکی
کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس نے فسادات کے دوران چار مسلمانوں کا قتل کیا تھا۔ ایک دن وہ گھر میں تنہا تھا تو اس نے باہر درخت کے نیچے ایک لڑکی کو بیٹھے دیکھا۔ اشاروں سے اسے بلانے میں ناکام رہنے کے بعد وہ اس کے پاس گیا اور زبردستی اسے اپنے گھر لے آیا۔ جلدی ہی اس نے اسے قابو میں کر لیا اور چومنے لگا۔ بستر پر جانے سے پہلے لڑکی نے اس سے پستول دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو اس نے اپنی پستول لاکر اسے دے دی۔ لڑکی نے پستول ہاتھ میں لیتے ہی چلا دی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ جب اس نے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو لڑکی نے بتایا کہ اس نے جن چار مسلمانوں کا قتل کیا تھا ان میں ایک اس لڑکی کا باپ بھی تھا۔
سعادت حسن منٹو
پھندنے
افسانے کا موضوع جنس اور تشدد ہے۔ افسانے میں بیک وقت انسان اور جانور دونوں کو بطور کردار پیش کیا گیا ہے۔ جنسی عمل سے برآمد ہونے والے نتائج کو تسلیم نہ کر پانے کی صورت میں بلی کے بچے، کتے کے بچے، ڈھلتی عمر کی عورتیں، جن میں جنسی کشش باقی نہیں وہ سب کے سب موت کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
کھل بندھنا
پورنماشی کو ایک مندر میں لگنے والے میلے کے گرد گھومتی یہ کہانی نسائی ڈسکورس پر بات کرتی ہے۔ مندر میں لگنے والا میلہ خاص طور سے خواتین کے لیے ہی ہے، جہاں وہ گھر میں چل رہے جھگڑوں، شوہروں، ساس اور نندوں کی طرف سے لگائے بندھنوں کے کھلنے کی منتیں مانگتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ خاندان اور سماج میں عورت کی حالت پر بھی بات چیت کرتی جاتی ہیں۔
ممتاز مفتی
گوندنی
دوہری زندگی جیتے ایک شخص کی کہانی جو چاہتے ہوئے بھی کھل کر اپنے احساسات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ مرزا برجیس کا خاندان کسی زمانے میں بہت امیر تھا لیکن اس وقت اس خاندان کی حالت دیگرگوں ہےَ۔ اس کے باوجود مرزا اسی شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ رہنے کا ڈھونگ کرتا ہے۔ ایک روز بازار میں خریداری کرتے وقت اس سے کھانے کے لیے پیسے مانگے تو اس نے اسے جھڑک دیا مگر شام کو سینما دیکھتے ہوئے جب اس نے ایک بوڑھیا کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو رو دیا۔
غلام عباس
خاندانی کرسی
ایک ایسے شخص کی کہانی جو انیس برس بعد اپنے گھر لوٹتا ہے۔ اتنے عرصے میں اس کا گاؤں ایک قصبہ میں بدل گیا ہے اور جو لوگ اس کے کھیتوں میں کام کرتے تھے اب انکی بھی زندگی بدل گئی ہے اور وہ خوشحال ہیں۔ حویلی میں گھومتا ہوا وہ اپنے پرانے کمرے میں گیا تو وہاں اسے ایک کرسی ملی جو کسی زمانے میں خاندان کی شان ہوا کرتی تھی،اب کباڑ کے ڈھیر میں پڑی تھی۔ کرسی کی یہ حالت اور خاندان کی پرانی یادیں اسے اس حال میں لے آتی ہیں کہ وہ کرسی سے لپٹا ہوا اپنی آخری سانسیں لیتا ہے۔
مرزا ادیب
پانچ دن
بنگال کے قحط کی ماری ہوئی سکینہ کی زبانی ایک بیمار پروفیسر کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ جس نے اپنے کریکٹر کو بلند کرنے کے نام پر اپنی فطری خواہشوں کو دبائے رکھا۔ سکینہ بھوک سے بیتاب ہو کر ایک دن جب اس کے گھر میں داخل ہو جاتی ہے تو پروفیسر کہتا ہے کہ تم اسی گھر میں رہ جاؤ کیونکہ میں دس برس تک اسکول میں لڑکیاں پڑھاتا رہا اس لیے انہیں بچیوں کی طرح تم بھی ایک بچی ہو۔ لیکن مرنے سے پانچ دن پہلے وہ اعتراف کرتا ہے کہ اس نے ہمیشہ سکینہ سمیت ان تمام لڑکیوں کو جنہیں اس نے پڑھایا ہے، ہمیشہ دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا ہے۔
سعادت حسن منٹو
آنکھیں
یہ کہانی مغل شہنشاہ جہانگیر کی ہے، جس میں مغل سلطنت کی سیاست، بادشاہوں کی محفل اور ان محفلوں میں ملنے والوں کا تانتا ہے، انھیں ملنے والوں میں جہانگیر کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوتی ہے جس کی آنکھیں انھیں مسحور کر دیتی ہیں۔ صایمہ بیگم کی آنکھیں ایسی ہیں کہ دیکھنے والے کے دل و دماغ میں براہ راست پیوست ہو جاتی ہیں اور بادشاہ جہانگیر کے ذہن پر ہر وقت ان آنکھوں کا تصور چھایا رہتا ہے۔
قاضی عبد الستار
کپاس کا پھول
ادھوری رہ گئی محبت میں ساری زندگی تنہا گزار دینے والی ایک بوڑھی عورت کی کہانی۔ اس کے پاس جینے کا کوئی جواز باقی نہیں ہے وہ ہر وقت موت کو پکارتی رہتی ہے۔ تبھی اس کی زندگی میں ایک نوجوان لڑکی آتی ہے جو کپاس کے پھول کی طرح نرم و نازک ہے۔ وہ اس کا خیال رکھتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ اس برے وقت میں بھی اس کی قدر کرنے والا کوئی ہے۔ انھیں دنوں بھارتی فوج گاؤں پر حملہ کر دیتی ہے اور مائی تاجو کا وہ پھول کسی کیڑے کی طرح مسل دیا جاتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی
شاہی رقاصہ
ایک ایسی رقاصہ کی داستان جو محل کی زندگی سے اوب کر آزادی کے لیے بے چین رہتی ہے۔ وہ جب بھی باہر نکلتی ہے وہاں لوگوں کو ہنستے گاتے اپنی مرضی کی زندگی گزارتے دیکھتی ہے تو اسے اپنی زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اسے وہ محل کسی سونے کے پنجرے کی طرح لگتا ہے اور وہ خود کو اس میں قید چڑیا کی طرح تصور کرتی ہے۔
مرزا ادیب
صاحب کرامات
صاحب کرامات سادہ دل افراد کو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دھوکہ دینے اور بیوقوف بنانے کی کہانی ہے۔ ایک عیار آدمی پیر بن کر موجو کا استحصال کرتا ہے۔ شراب کے نشے میں دھت اس پیر کو کراماتی بزرگ سمجھ کر موجو کی بیٹی اور بیوی اس کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں۔ موجو کے جہالت کی حد یہ ہے کہ اس پیر کی مصنوعی داڑھی تکیہ کے نیچے ملنے کے بعد اس کی چالبازی کو سمجھنے کے بجائے اسے کرامت سمجھتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
دو قومیں
’’یہ کہانی مذہب اور محبت دونوں نکتوں پر یکساں طور پر بحث کرتی نظر آتی ہے۔ مختار اور شاردا دونوں ایک دوسرے کو بے پناہ محبت کرتے ہیں مگر جب شادی کی بات آتی ہے تو دونوں اپنے اپنے مذہب پر بضد ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کی محبت تو پیچھے رہ جاتی ہے اور مذہب ان پر حاوی ہو جاتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے راستے واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘
سعادت حسن منٹو
ترقی پسند
طنز و مزاح کے پیرایہ میں لکھا گیا یہ افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاروں پر بھی چوٹ کرتا ہے۔ جوگندر سنگھ ایک ترقی پسند افسانہ نگار ہے جس کے یہاں ہریندر سنگھ آکر پڑاؤ ڈال دیتا ہے اور مسلسل اپنے افسانے سنا کر بو رکرتا رہتا ہے۔ ایک دن اچانک جوگندر سنگھ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی حق تلفی کر رہا ہے۔ اسی خیال کے تحت وہ ہریندر سے باہر جانے کا بہانہ کرکے بیوی سے رات بارہ بجے آنے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن جب رات میں جوگندر اپنے گھر کے دروازہ پر دستک دیتا ہے تو اس کی بیوی کے بجائے ہریندر دروزہ کھولتا ہے اور کہتا ہے جلدی آ گئے، آو، ابھی ایک افسانہ مکمل کیا ہے، اسے سنو۔
سعادت حسن منٹو
روغنی پتلے
’’قوم پرستی جیسے مدعے پر بات کرتی کہانی، جو شاپنگ آرکیڈ میں رکھے رنگین بتوں کے گرد گھومتی ہے۔ جن کے آس پاس سارا دن طرح طرح کے فیشن پرست لوگ اور نوجوان لڑکے لڑکیاں گھومتے رہتے ہیں۔ مگر رات ہوتے ہی وہ بت آپس میں گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ صبح میں آرکیڈ کا مالک آتا ہے اور وہ کاریگروں کو پورے شاپنگ سینٹر اور تمام بتوں کو پاکستانی رنگ میں رنگنے کا حکم سناتا ہے۔‘‘
ممتاز مفتی
دیکھ کبیرا رویا
کبیر کو علامت بنا کر یہ کہانی ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے جس کے بنا پر لوگ ہر اصلاح پسند کو کمیونسٹ، آمریت پسند قرار دے دیتے ہیں۔ سماج میں ہو رہی برائیوں کو دیکھ کر کبیر روتا ہے اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکتا ہے۔ لیکن سب جگہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں اور مار کر بھگا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
بجلی پہلوان
امرتسر کے اپنے وقت کے ایک نامی پہلوان کی کہانی ہے۔ بجلی پہلوان کی شہرت سارے شہر میں تھی۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ موٹا اور تھل تھل آدمی تھا جو ہر قسم کے دو نمبری کام کیا کرتا تھا۔ پھر بھی اسے پولس پکڑ نہیں پاتی تھی۔ ایک بار اسے سولہ سترہ سال کی ایک لڑکی سے محبت ہو گئی اور اس نے اس سے شادی کر لی۔ شادی کے چھہ مہینے گزر جانے کے بعد بھی پہلوان نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایک دن جب وہ اپنی بیوی کے لیے تحفے لیکر گھر پہنچا تو وہ اس کے بڑے بیٹے کے ساتھ ایک کمرے میں بند کھلکھلا رہی تھی۔ اس سے ناراض بجلی پہلوان نے اسے ہمیشہ کے لیے اپنے بیٹے کے حوالے کر دیا۔
سعادت حسن منٹو
بہروپیا
ہر پل شکل بدلتے رہنے والے ایک بہروپیے کی کہانی جس میں اس کی اصل شکل کھو کر رہ گئی ہے۔ وہ ہفتے میں ایک دو بار محلے میں آیا کرتا تھا۔ دیکھنے میں خوبصورت اور ہنسوڑ مزاج کا شخص تھا۔ ایک چھوٹے لڑکے نے ایک دن اسے دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوا اور وہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر اس کا پیچھا کرتا ہوا اس کی اصل شکل جاننے کے لیے نکل پڑا۔
غلام عباس
خودکشی کا اقدام
افسانہ ملک کی معاشی اور قانونی صورتحال کی ابتری پر مبنی ہے۔ اقبال فاقہ کشی اور غربت سے تنگ آکر خود کشی کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے قید با مشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ عدالت میں وہ طنزیہ انداز میں دریافت کرتا ہے کہ صرف اتنی سزا؟ مجھے تو زندگی سے نجات چاہیے۔ اس ملک نے غربت ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں نکالا تو تعذیرات میں میرے لیے کیا قانون ہوگا؟