Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طنز و مزاح پر اشعار

طنزومزاح کی شاعری بیک

وقت کئی ڈائمنشن رکھتی ہے ، اس میں ہنسنے ہنسانے اور زندگی کی تلخیوں کو قہقہے میں اڑانے کی سکت بھی ہوتی ہے اور مزاح کے پہلو میں زندگی کی ناہمواریوں اورانسانوں کے غلط رویوں پر طنز کرنے کا موقع بھی ۔ طنز اور مزاح کے پیرائے میں ایک تخلیق کار وہ سب کہہ جاتا ہے جس کے اظہار کی عام زندگی میں توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ شاعری پڑھئے اور زندگی کے ان دلچسپ علاقوں کی سیر کیجئے۔

کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا

جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا

اکبر الہ آبادی

جو چاہتا ہے کہ بن جائے وہ بڑا شاعر

وہ جا کے دوستی گانٹھے کسی مدیر کے ساتھ

ظفر کمالی

کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے

مگر ان کا کہا یا آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

عیش دہلوی

وہاں جو لوگ اناڑی ہیں وقت کاٹتے ہیں

یہاں بھی کچھ متشاعر دماغ چاٹتے ہیں

دلاور فگار

پہلے ہم کو بہن کہا اب فکر ہمیں سے شادی کی

یہ بھی نہ سوچا بہن سے شادی کر کے کیا کہلائیں گے

راجہ مہدی علی خاں

علم حاصل کر کے بھی ملتی نہیں ہے نوکری

رحم کے قابل ہے بس حالت ہماری ان دنوں

رنجور عظیم آبادی

چہرے تو جھریوں سے بھرے دل جوان ہیں

دن میں ہیں شیخ رات میں سلمان خان ہیں

ساغر خیامی

پریشانی سے سر کے بال تک سب جھڑ گئے لیکن

پرانی جیب میں کنگھی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

آ کے بزم شعر میں شرط وفا پوری تو کر

جتنا کھانا کھا گیا ہے اتنی مزدوری تو کر

دلاور فگار

آئی صدائے حق کہ یہی بند و بست ہیں

تیرے وطن کے لوگ تو مردہ پرست ہیں

ساغر خیامی

میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرع لکھ دیا

کام ہو سکتا نہیں سرکار میں روزے سے ہوں

سید ضمیر جعفری

دس بچوں کے ابا ہیں مگر ہے یہی خواہش

ہر وقت ہی بیٹھی رہے لیلیٰ مرے آگے

نظر برنی

ان کے گناہ کیا کہیں کس کس کے سر گئے

تم کو خبر نہیں کئی استاد مر گئے

ساغر خیامی

بوا کو تو دیکھو نہ گہنا نہ پاتا

بجٹ ہاتھ میں جیسے دھوبن کا کھاتا

سید ضمیر جعفری

نرس کو دیکھ کے آ جاتی ہے منہ پہ رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

رؤف رحیم

زمانے کا چلن کیا پوچھتے ہو ؔخواہ مخواہ مجھ سے

وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

چائے بھی اچھی بناتی ہیں مری بیگم مگر

منہ بنانے میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں

انور مسعود

کفن کی قیمت سنیں گے مردے تو اس کے صدمے سے جی اٹھیں گے

جنازہ اٹھے گا اب کسی کا نہ اب کسی کا مزار ہوگا

اکبر لاہوری

الیکشن پھر وہ ذی الحج کے مہینے میں کرائیں گے

تو کیا دو دانت کے ووٹر کی پھر قربانیاں ہوں گی

خالد عرفان

ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اس سے ذرا سا

پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اس سے

انور مسعود

اپنے استاد کے شعروں کا تیا پانچہ کیا

اے رحیم آپ کے فن میں یہ کمال اچھا ہے

رؤف رحیم

دیا ہے نام کفن چور جب سے تم نے مجھے

پرانی قبروں کے مردے مری تلاش میں ہیں

پاگل عادل آبادی

غزل پڑھنے سے بالکل ایکٹر معلوم ہوتا ہے

بڑھی ہیں اس قدر زلفیں جگرؔ معلوم ہوتا ہے

خالد عرفان

بہت دبلی بہت پتلی حیاتی ہوتی جاتی ہے

چپاتی رفتہ رفتہ کاغذاتی ہوتی جاتی ہے

عبیر ابوذری

پوپلے منہ سے چنے کھانا نہیں ممکن حضور

آ نہیں سکتی جوانی لوٹ کے معجون سے

ظفر کمالی

درگت بنے ہے چائے میں بسکٹ کی جس طرح

شادی کے بعد لوگو وہی میرا حال ہے

نشتر امروہوی

داڑھی کا نام لے کے ہمیں کیوں ہو ٹوکتی

داڑھی کوئی بریک ہے جو سائیکل کو روکتی

عادل لکھنوی

ڈاکٹر کی فیس کا سن کر مریض محترم

آپریشن سے ہی پہلے کوچ فرمائیں گے کیا

سید فہیم الدین

یہاں ہم بیٹھ کر چائے کے اک کپ کو ترستے ہیں

وہاں سب لے کے بسکٹ کیک کے انبار بیٹھے ہیں

حماد حسن

ہمارے لال کو درکار ہے وہی لڑکی

کہ جس کا باپ پولس میں ہو کم سے کم ڈپٹی

ساغر خیامی

اولاد کی کثرت پہ ہے سو سو یہاں قدغن

میں سو سے زیادہ تو بہر طور کروں گا

سید سلمان گیلانی

انورؔ خدا کرے کہ یہ سچی نہ ہو خبر

اکیسویں صدی میں وڈیرے بھی جائیں گے

انور مسعود

جو اپنا بھائی ہے رہتا ہے وہ پاؤں کی ٹھوکر میں

مگر جورو کا بھائی تو گلے کا ہار ہوتا ہے

ظفر کمالی

پتہ ہوتا تو نہ کرتا کبھی کوئی نیکی

تمہیں جنت میں ملو گی مجھے معلوم نہ تھا

روحی کنجاہی

شیخ صاحب نے مسائل میں جکڑ رکھا ہے

ورنہ اسلام تو آسان تھا اچھا خاصا

اسامہ منیر

نہیں ہے بحر میں بے وزن ہے رحیمؔ مگر

ہماری شاعری سر میں ہے اور تال میں ہے

رؤف رحیم

کہاں ہے تاب و طاقت جس پہ تم کو ناز رہتا تھا

جوانی پر نہ تم مسرورؔ اتراتے تو اچھا تھا

مسرور شاہ جہاں پوری

یہ رشوت کے ہیں پیسے دن میں کیسے لوں مسلماں ہوں

میں لے سکتا نہیں سر اپنے یہ الزام روزے میں

ظفر کمالی

جو تھے عروض داں وہ روایت میں بند تھے

بے بہرہ جو گدھے تھے ترقی پسند تھے

ساغر خیامی

نہ جس سے پیاس بجھ پائے وہ ''کے ایم سی'' کا نل تم ہو

حقیقت یہ ہے میری غیر مطبوعہ غزل تم ہو

خالد عرفان

سیاست داں جو طبعی موت مرتے

تو سازش کی ضرورت ہی نہ ہوتی

غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی

کہتے تھے میچ دیکھنے والے پکار کے

استاد جا رہے ہیں شب غم گزار کے

ساغر خیامی

غزل چرا کے کبھی خدمت ادب کر لی

پکڑ گئے تو وہیں معذرت طلب کر لی

دلاور فگار

برہمن کو گوائیں ٹھمریاں اس نے شوالے میں

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

قتیل شفائی

جوتے کے انتخاب کو مسجد میں جب گئے

وہ جوتیاں پڑیں کہ خدا یاد آ گیا

دلاور فگار

جو اہل عشق ہیں دیتے ہیں زور برگر پر

جو اہل حسن ہیں سپنے ڈنر کے دیکھتے ہیں

بدر منیر
بولیے