خلائی دور کی محبت
مستقبل میں خلا میں آباد ہونے والی دنیا کا نقشہ اس کہانی کا موضوع ہے۔ ایک لڑکی برسوں سے خلائی اسٹیشنوں پر رہ رہی ہے۔۔۔ وہ مسلسل سیاروں اور مصنوعی سیاروں کے سفر کرتی رہتی ہے اور اپنے کام کو آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ انھیں مصروفیات کی وجہ سے اسے اتنا بھی وقت نہیں ملتا کہ وہ زمین پر رہنے والے اپنے افراد خانہ سے کچھ لمحے کے لیے بات کر سکے۔ انہیں اسفار میں اسے ایک شخص سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس شخص سے ایک بار ملنے کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے اسے بیس سال کا طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس درمیان وہ اپنے کام کو آگے بڑھاتی رہتی ہے، کہ آنے والی نسل کے لیے محبت کرنا آسان ہو سکے۔
اختر جمال
میٹھا معشوق
یہ اس وقت کی کہانی ہے جب ریل ایجاد نہیں، ہوئی تھی لوگ پیدل،اونٹ یا پھر گھوڑوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ لکھنئو شہر میں ایک شخص پر مقدمہ چل رہا تھا اور وہ شخص شہر سے کافی دور رہتا تھا۔ مقدمے کی تاریخ پر حاضر ہونے کے لیے وہ اپنے قافلے کے ساتھ شہر کے لیے روانہ ہو گیا، ساتھ میں نذرانے کے طور پر میٹھائی کا ٹوکرا بھی تھا۔ پورے راستے اس میٹھے معشوق کی وجہ سے انھیں کچھ ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ آرام سے سو تک نہیں سکے۔
چودھری محمد علی ردولوی
جانکی
جانکی ایک زندہ اور متحرک کردار ہے جو پونہ سے ممبئی فلم میں کام کرنے آتی ہے۔ اس کے اندر مامتا اور خلوص کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن ہے۔ عزیز، سعید اور نرائن، جس شخص کے بھی قریب ہوتی ہے تو اس کے ساتھ جسمانی خلوص برتنے میں بھی کوئی تکلف محسوس نہیں کرتی۔ اس کی نفسیاتی پیچیدگیاں کچھ اس قسم کی ہیں کہ جس وقت وہ ایک شخص سے جسمانی رشتوں میں منسلک ہوتی ہے ٹھیک اسی وقت اسے دوسرے کی بیماری کا بھی خیال ستاتا رہتا ہے۔ جنسی میلانات کا تجزیہ کرتی ہوئی یہ ایک عمدہ کہانی ہے۔
سعادت حسن منٹو
نفرت
یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کی ایک معمولی سے واقعہ نے پوری زندگی ہی بدل دی۔ اسے زرد رنگ جتنا پسند تھا اتنا ہی برقعہ ناپسند۔ اس دن جب وہ اپنی نند کے ساتھ ایک سفر پر جا رہی تھی تو اس نے زرد رنگ کی ہی ساڑی پہن رکھی تھی اور برقعے کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا تھا۔ مگر لاہور اسٹیشن پر بیٹھی ہوئی جب وہ دونوں گاڑی کا انتظار کر رہی تھی وہاں انہوں نے ایک میلے کچیلے آدمی کی پسند ناپسند سنی تو انہوں نے خود کو پوری طرح ہی بدل لیا۔
ممتاز مفتی
حسن کی تخلیق
’’یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے، جو اپنے وقت کی سب سے خوبصورت اور ذہین جوڑی تھی۔ دونوں کی محبت کا آغاز کالج کے دنوں میں ہوا تھا۔ پھر پڑھائی کے بعد انہوں نے شادی کر لی۔ اپنی بے مثال خوبصورتی کی بناپر وہ اکثر اپنے ہونے والے بچے کی خوبصورتی کے بارے میں سوچنے لگے۔ ہونے والے بچے کی خوبصورتی کا خیال ان کے ذہن پر کچھ اس طرح حاوی ہو گیا کہ وہ دن رات اسی کے بارے میں باتیں کیا کرتے۔ پھر ان کے یہاں بچہ پیدا بھی ہوا۔ لیکن وہ کوئی عام سا بچہ نہیں تھا بلکہ وہ اپنے آپ میں ایک نمونہ تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
آوارہ گرد
دنیا کی سیر پر نکلے ایک جرمن لڑکے کی کہانی۔ وہ پاکستان سے ہندوستان آتا ہے اور بمبئی میں ایک سفارشی میزبان کے یہاں قیام کرتا ہے۔ رات کو کھانے کی میز پر وہ اپنے میزبان سے جرمنی، دوسری عالمی جنگ، نازی اور اپنے ماضی کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ ہندوستان سے وہ شری لنکا جاتا ہے، دوران سفر ایک سنگھلی بودھ اس کا دوست بن جاتا ہے۔ وہ دوست اسے ندی میں نہانے کی دعوت دیتا ہے اور خود ڈوب کر مر جاتا ہے۔ لنکا سے ہوتا ہوا وہ سیلانی لڑکا ویتنام جاتا ہے۔ ویتنام میں جنگ جاری ہے اور جنگ کی ایک گولی اس یوروپی آوارہ گرد نوجوان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
قرۃالعین حیدر
چودھویں کا چاند
فطری مناظر کے پرستار ولسن کی کہانی ہے جو ایک بینک منیجر تھا۔ ولسن ایک مرتبہ جزیرے پر آیا تو چودھویں کے چاند نے اسے اس قدر مسحور و مبہوت کیا کہ اس نے ساری زندگی وہیں بسر کرنے کا ارادہ کر لیا اور بینک کی ملازمت چھوڑ کر گھر بیچ کر مستقل وہیں رہنے لگا۔ لیکن جب قرض خواہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا تو اس نے ایک دن اپنے جھونپڑے میں آگ لگا لی، جس کی وجہ سے اس کا ذہن ماؤف ہو گیا اور کچھ دن بعد چودہویں کا چاند دیکھ کر ہی وہ مر گیا۔
سعادت حسن منٹو
سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
ایک ایسے شخص کی کہانی جو محبت تو کرتا ہے لیکن اس کے اظہار کی ہمت نہیں کر پاتا۔ پڑوسی ہونے کے باوجود وہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتا تھا، اس کے والد کی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہونے کے باوجود وہ ان لوگوں سے ملنے آتا رہا۔ گھر والے سوچتے رہے کہ وہ ان کی چھوٹی بیٹی سے محبت کرتا ہے مگر وہ تو بڑی بیٹی سے محبت کرتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ وہ اسے ایک بار ڈارلنگ کہہ سکے۔
قرۃالعین حیدر
عشق بالواسطہ
افسانے میں ایک بے میل محبت کی عکاسی کی گئی ہے جس میں سیاست، فلسفہ اور اس کے ساتھ ہی مرد کی زندگی میں عورت کی مداخلت پر تبصرہ ہے۔ ایک پارٹی سے واپس آنے کے بعد وہ دونوں جج صاحب کے ہاں تشریف لے گیے، وہاں جج صاحب تو نہیں ملے لیکن ایک نئی خاتون ضرور ملی۔ وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھی، وہ اسکے ساتھ گھومنے نکل گئے۔ یہ تفریح ایک نظریات میں شامل ہونے کا اشارہ تھا۔
چودھری محمد علی ردولوی
بیگو
’’کشمیر کی سیر کے لیے گئے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جسے وہاں ایک مقامی لڑکی بیگو سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ بیگو پر پوری طرح مر مٹتا ہے کہ تبھی اس نوجوان کا دوست بیگو کے کردار کے بارے میں کئی طرح کی باتیں اسے بتاتا ہے۔ ویسی ہی باتیں وہ دوسرے لوگوں سے بھی سنتا ہے۔ یہ سب باتیں سننے کے بعد اسے بیگو سے نفرت ہو جاتی ہے، مگر بیگو اس کی جدائی میں اپنی جان دے دیتی ہے۔ بیگو کی موت کے بعد وہ نوجوان بھی عشق کی لگی آگ میں جل کر مر جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
پشاور سے لاہور تک
جاوید پشاور سے ہی ٹرین کے زنانہ ڈبے میں ایک عورت کو دیکھتا چلا آرہا تھا اور اس کے حسن پر نثار ہو رہا تھا۔ راولپنڈی اسٹیشن کے بعد اس نے راہ و رسم پیدا کی اور پھر لاہور تک پہنچتے پہنچتے اس نے سیکڑوں قسم کے منصوبے ذہن میں ترتیب دے ڈالے۔ لیکن لاہور پہنچ کر جب اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک طوائف ہے تو وہ الٹے پاؤں راولپنڈی واپس ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
میرا ہم سفر
’’علیگڑھ سے امرتسر لوٹتے ہوئے ایک ایسے طالب علم کی کہانی ہے جو ٹرین میں سوار ہوا تو اسے الوداع کہنے آئے اس کے ایک ساتھی نے اس سے کوئی ایسی بات کہی کہ اس نے اسے پاگل کہہ کر جھٹک دیا۔ ٹرین میں اس کے ساتھ سفر کر رہے نوجوان نے سوچا کہ وہ اسے پاگل کہہ رہا ہے۔ بات کرنے پر پتہ چلا کہ وہ نوجوان اپنے گھر سے صرف اس لیے نکل آیا ہے کیونکہ اس کا یہودی باپ اسے پاگل کہتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی بیوی بھی اسے چھوڑکر اپنے مائکے چلی جاتی ہے۔‘‘