تین میں نہ تیرہ میں
افسانہ میاں بیوی کے درمیان ہونے والی نوک جھونک پر مبنی ہے۔ بیوی اپنے شوہر سے ناراض ہے اور اس کے ساتھ جھگڑتے ہوئے محاوروں کا استعمال کرتی ہے۔ شوہر اس کے ہر محاورے کا جواب دیتا ہے اور وہ دونوں جھگڑتے ہوئے عورت مرد کے تعلقات، شادی اور خانگی امور کے بارے میں بڑی دلچسپ گفتگو کرتے جاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
یہ پری چہرہ لوگ
ہر انسان اپنے مزاج اور کردار سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ سخت مزاج بیگم بلقیس طراب علی ایک دن مالی سے بغیچے کی صفائی کرا رہی تھیں کہ وہ مہترانی اور اس کی بیٹی کی بات چیت سن لیتی ہیں۔ بات چیت میں ماں بیٹی بیگموں کے اصل نام نہ لے کر انھیں مختلف ناموں سے بلاتی ہیں۔ یہ سن کر بلقیس بانو ان دونوں کو اپنے پاس بلاتی ہیں۔ وہ ان ناموں کے اصلی نام پوچھتی ہیں اور جاننا چاہتی ہیں کہ انھوں نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ مہترانی ان کے سامنے تو منع کر دیتی ہے لیکن اس نے بیگم بلقیس کا جو نام رکھا ہوتا ہے،وہ اپنے شوپر کے سامنے لے دیتی ہے۔
غلام عباس
مسٹر معین الدین
’’سماجی رسوخ اور ساکھ کے گرد گھومتی یہ کہانی معین نامی ایک شخص کی شادی شدہ زندگی پر مبنی ہے۔ معین نے زہرہ سے اس کے ماں باپ کے خلاف جاکر شادی کی تھی اور پھر کراچی میں آ ن بسا تھا۔ کراچی میں اس کی بیوی کا ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ معین کو یہ بات معلوم ہے۔ لیکن اپنی محبت اور معاشرتی ذمہ داری کا پاس رکھنے کے لیے وہ بیوی کو طلاق نہیں دیتا اور اسے اس کے عاشق کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد جب عاشق کی موت ہو جاتی ہے تو معین اسے طلاق دے دیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
عشق حقیقی
اخلاق نامی نوجوان کو سنیما ہال میں پروین نامی ایک ایسی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے جس کے گھر میں سخت پابندیوں کا پہرا ہے۔ اخلاق ہمت نہیں ہارتا اور بالآخر ان دونوں میں خط و کتابت شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک دن پروین اخلاق کے ساتھ چلی آتی ہے۔ پروین کے گال کے تل پر بوسہ لینے کے لئے جب اخلاق آگے بڑھتا ہے تو بدبو کا ایک تیز بھبھکا اخلاق کے نتھنوں سے ٹکراتا ہے اور تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ پروین کے مسوڑھوں میں گوشت خورہ ہے۔ اخلاق اسے چھوڑ کر اپنے دوست کے یہاں لائل پور چلا جاتا ہے۔ دوست کے غیرت دلانے پر واپس آتا ہے تو پروین کو موجود نہیں پاتا۔
سعادت حسن منٹو
وہ کون تھی؟
ایک بہت ہی مذہبی شخص اور اس کے افراد خانہ کی کہانی ہے۔ اس شخص کے دو گھر ہیں، ایک میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتا اور دوسرا مکان خالی پڑا ہوا ہے۔ اپنے خالی مکان کو کسی شریف اور نیک شخص کو کرائے پر دینا چاہتا ہے۔ پھر ایک دن اس گھر میں ایک عورت آکر رہنے لگتی ہے، وہ شخص اس کے پاس جانے لگتا ہے۔ اس کے بارے میں جب اس کی بیوی اور گھر کے دیگر افراد کو پتہ چلتا ہے تو کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے اور وہ مذہبی اور دیندار شخص اپنے گھر والوں کی نگاہوں میں قابل نفرین بن جاتا ہے۔
مرزا ادیب
نل کی پیاس
یہ ایک مصنوعی اور بے ہنگم معاشرے کا مقابلہ کرنے کی کہانی ہے۔اس کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے تھا۔ اس کا گھر کلکتہ کے مرکز میں ایک ایسے بنگالی محلے میں تھا جہاں لوگ اب بھی اپنی پرانی قدروں کے ساتھ جی رہے تھے۔ پھر ایک دن اس کی نظر ایک ٹیوب ویل پر پڑی جو اس کے محلے میں گلی کے بیچوں بیچ ہونے کے باوجود ایک طرح سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا۔ وہ اسے اس جگہ سے ہٹانے کا بیڑا اٹھاتا ہے۔ مگر بہت جلد اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ یہ پرانا نل ایک پرانے کرایہ دار کی طرح تھا جسے اکھاڑ پھینکنا آسان کام نہیں ہوتا اور کام کے لائق بنانا تو اور بھی مشکل۔
صدیق عالم
مجید کا ماضی
’’عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ماضی کو یاد کرنے والے ایک ایسے دولت مند شخص کی کہانی ہے جس کے پاس کوٹھی ہے، اچھی تنخواہ ہے، بیوی بچے ہیں اور ہر طرح کی عیش و عشرت ہے۔ ان سب کے درمیان اس کا سکون نہ جانے کہاں کھو گیا ہے۔ وہ سکون جو اسے یہ سب حاصل ہونے سے پہلے تھا، جب اس کی تنخواہ کم تھی، بیوی بچے نہیں تھے، کاروبار تھا اور نہ ہی دوسرے مسایل۔ وہ سکون سے تھوڑا کماتا تھا اور چین و سکون کی زندگی بسر کرتا تھا۔ اب سارے عیش و آرام کے بعد بھی اسے وہ سکون نصیب نہیں ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
جانکی
جانکی ایک زندہ اور متحرک کردار ہے جو پونہ سے ممبئی فلم میں کام کرنے آتی ہے۔ اس کے اندر مامتا اور خلوص کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن ہے۔ عزیز، سعید اور نرائن، جس شخص کے بھی قریب ہوتی ہے تو اس کے ساتھ جسمانی خلوص برتنے میں بھی کوئی تکلف محسوس نہیں کرتی۔ اس کی نفسیاتی پیچیدگیاں کچھ اس قسم کی ہیں کہ جس وقت وہ ایک شخص سے جسمانی رشتوں میں منسلک ہوتی ہے ٹھیک اسی وقت اسے دوسرے کی بیماری کا بھی خیال ستاتا رہتا ہے۔ جنسی میلانات کا تجزیہ کرتی ہوئی یہ ایک عمدہ کہانی ہے۔
سعادت حسن منٹو
سراج
’’یہ ایک ایسی نوجوان طوائف کی کہانی ہے، جو کسی بھی گراہک کو خود کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی۔ حالانکہ جب اس کا دلال اس کا سودا کسی سے کرتا ہے، تو وہ خوشی خوشی اس کے ساتھ چلی جاتی ہے، لیکن جیسے ہی گراہک اسے کہیں ہاتھ لگاتا ہے کہ اچانک اس سے جھگڑنے لگتی ہے۔ دلال اس کی اس حرکت سے بہت پریشان رہتا ہے، پر وہ اسے خود سے الگ بھی نہیں کر پاتا ہے، کیونکہ وہ اس سے محبت کرنے لگا ہے۔ ایک روز وہ دلال کے ساتھ لاہور چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ اس نوجوان سے ملتی ہے، جو اسے گھر سے بھگا کر ایک سرائے میں تنہا چھوڑ گیا تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
رحمت خداوندی کے پھول
یہ ایک ایسے شرابی شخص کی کہانی ہے جو جتنا بڑا شرابی ہے، اتنا ہی بڑا کنجوس بھی ہے۔ وہ دوستوں کے ساتھ شراب پینے سے بچتا ہے، کیونکہ اس سے اسے زیادہ روپیے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ وہ گھر پر بھی نہیں پی سکتا، کیونکہ اس سے بیوی کے ناراض ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اس مشکل کا حل وہ کچھ اس طرح نکالتا ہے کہ پیٹ کے درد کا بہانہ کرکے دوائی کی بوتل میں شراب لے آتا ہے اور بیوی سے ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک خوراک دینے کے لیے کہتا ہے۔ اس سے اس کی یہ مشکل تو آسان ہو جاتی ہے۔ مگر ایک دوسری مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک روز اس کی بیوی پیٹ کے درد کی وجہ سے اسی بوتل سے تین پیگ پی لیتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
سودا بیچنے والی
جمیل اور سہیل نام کے دو دوستوں کی کہانی۔ جمیل کو ایک پارٹی میں جمیلہ نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ سہیل کو جمیلہ پسند نہیں آتی، پر وہ اپنے دوست کی خوشی کی خاطر مان جاتا ہے۔ ادھر جمیلہ کی بڑی بہن حمیدہ بھی جمیل سے محبت کرتی ہے۔ ایک روز جمیل جمیلہ کو اس کے گھر سے بھگا کر سہیل کے یہاں چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے پیچھے سہیل جمیلہ سے شادی کر لیتا ہے۔ وہاں سے مایوس ہونے پر جمیل حمیدہ سے شادی کر لیتا ہے۔ ایک روز جب وہ ایک پارک میں جمیلہ کو دیکھتا ہے تو وہ اسے کوئی سودا بیچنے والی کی طرح نظر آتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
حامد کا بچہ
حامد نام کے ایک ایسے شخص کی کہانی، جو موج مستی کے لیے ایک طوائف کے پاس جاتا رہتا ہے۔ جلدی ہی اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ طوائف اس سے حاملہ ہو گئی ہے۔ اس خبر کو سن کر حامد ڈر جاتا ہے۔ وہ طوائف کو اس کے گاؤں چھوڑ آتا ہے۔ اس کے بعد وہ منصوبہ بناتا ہے کہ جیسے ہی بچہ پیدا ہوگا وہ اسے دفن کر دیگا۔ مگر بچہ کی پیدائش کے بعد جب وہ اسے دفن کرنے گیا تو اس نے ایک نظر بچہ کو دیکھا۔ بچہ کی شکل ہو بہو اس طوائف کے دلال سے ملتی تھی۔
سعادت حسن منٹو
بکی
کلکتہ کے ایک سینما کی کھڑکی پر ٹکٹ فروخت کرتی ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو زائد چونی لے کر نوجوانوں اور کنواروں کو لڑکیوں کی بغل والی سیٹ دیتی ہے۔ اس روز اس نے آخری ٹکٹ ایک کالے اور گنوار سے دکھتے لڑکے کو دیا تھا۔ شو کے بعد جب اس نے اس سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ کسی دیہات سے کلکتہ دیکھنے آیا ہے۔ بات چیت میں اسے احساس ہوتا ہے وہ واقعی کچھ بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ اسے بتاتی ہے کہ کلکتہ ایک عورت کی طرح ہے اور وہ اسے سمجھانے کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
گوندنی
دوہری زندگی جیتے ایک شخص کی کہانی جو چاہتے ہوئے بھی کھل کر اپنے احساسات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ مرزا برجیس کا خاندان کسی زمانے میں بہت امیر تھا لیکن اس وقت اس خاندان کی حالت دیگرگوں ہےَ۔ اس کے باوجود مرزا اسی شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ رہنے کا ڈھونگ کرتا ہے۔ ایک روز بازار میں خریداری کرتے وقت اس سے کھانے کے لیے پیسے مانگے تو اس نے اسے جھڑک دیا مگر شام کو سینما دیکھتے ہوئے جب اس نے ایک بوڑھیا کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو رو دیا۔
غلام عباس
مسز گل
ایک ایسی عورت کی زندگی پر مبنی کہانی ہے جسے لوگوں کو تل تل کر مارنے میں لطف آتا ہے۔ مسز گل ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ اس کی تین شادیاں ہو چکی تھیں اور اب وہ چوتھی کی تیاریاں کر رہی تھی۔ اس کا ہونے والا شوہر ایک نوجوان تھا۔ لیکن اب وہ دن بہ دن پیلا پڑتا جا رہا تھا۔ اس کے یہاں کی نوکرانی بھی تھوڑا تھوڑا کرکے گھلتی جا رہی تھی۔ ان دونوں کے مرض سے جب پردہ اٹھا تو پتہ چلا کہ مسز گل انہیں ایک جان لیوا نشیلی دوا تھوڑا تھوڑا کرکے روز پلا رہی تھیں۔
سعادت حسن منٹو
ماڈل ٹاؤن
حسد کی آگ میں جلتے ایک نوجوان کی کہانی۔ نوجوان جانتا ہے کہ جس لڑکی سے وہ شادی کر رہا ہے وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور نوکری کے لالچ میں اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے اور ماڈل ٹاون میں بس جاتا ہے۔ ایک روزاس نوجوان کی اس شخص سے ملاقات دوران سفر بس میں ہو جاتی ہے۔ وہ شخص آئندہ بھی اس سے ملاقات کا وعدہ کرتا ہے لیکن پھر کبھی ملاقات نہیں ہوتی۔ وہ نوجوان ہمیشہ اپنی بیوی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آگے کا حال جاننے کے لیے کہانی کو پڑھنا ہوگا۔
قاضی عبد الستار
سو کینڈل پاور کا بلب
اس افسانہ میں انسان کی جبلی اور جذباتی پہلووں کو گرفت میں لیا گیا ہے جن کے تحت ان سے اعمال سرزد ہوتے ہیں۔ افسانے کی مرکزی کردار ایک طوائف ہے جسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس کے ساتھ رات گزارنے جا رہی ہے اور اسے کتنا معاوضہ ملے گا بلکہ وہ دلال کے اشارے پر عمل کرنے اور کسی طرح کام ختم کرنے کے بعد اپنی نیند پوری کرنا چاہتی ہے۔ آخر کار تنگ آکر انجام کی پروا کیے بغیر وہ دلال کا خون کر دیتی ہے اور گہری نیند سو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
شانتی
اس کہانی کا موضوع ایک طوائف ہے۔ کالج کے دنوں میں وہ ایک نوجوان سے محبت کرتی تھی۔ جس کے ساتھ وہ گھر سے بھاگ آئی تھی۔ مگر اس نوجوان نے اسے دھوکہ دیا اور وہ دھندا کرنے لگی تھی۔ بمبئی میں ایک روز اس کے پاس ایک ایسا گراہک آتا ہے، جسے اس کے جسم سے زیادہ اس کی کہانی میں دلچسپی ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے شانتی کی کہانی آگے بڑھتی ہے وہ شخص اس میں ڈوبتا جاتا ہے اور آخر میں شانتی سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
دس روپے
ایک ایسی کم سن لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے امڈتے ہوئے شباب سے بے خبر تھی۔ اس کی ماں اس سے پیشہ کراتی تھی اور وہ سمجھتی تھی کہ ہر لڑکی کو یہی کرنا ہوتا ہے۔ اسے دنیا دیکھنے اور کھلی فضاؤں میں اڑنے کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن جب وہ تین نوجوانوں کے ساتھ موٹر میں جاتی ہے اور اپنی مرضی کے مطابق خوب تفریح کر لیتی ہے تو اس کا دل خوشی سے اس قدر سرشار ہوتا ہے کہ وہ ان کے دیے ہوئے دس روپے لوٹا دیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ روپے میں کس لیے لوں؟
سعادت حسن منٹو
شلجم
اس کہانی میں رات کو دیر سے گھر آنے والے شوہروں کی بیویوں کے ساتھ ہونے والی بحث کی عکاسی کی گئی ہے۔ شوہر رات میں تین بجے گھر آیا تھا۔ گھر آنے پر جب اس نے بیوی سے کھانا مانگا تو بیوی نے کھانا دینے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر دونوں کے درمیان بحث ہونے لگی۔ دونوں اپنی اپنی دلیلیں دینے لگے اور کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوا۔ بحث ہو ہی رہی تھی کہ اندر سے نوکر آیا اور کہنے لگا کہ کھانا تیار ہے۔ کھانے کے بارے میں سنتے ہی میاں بیوی کے درمیان صلح ہو گئی۔
سعادت حسن منٹو
بہروپیا
ہر پل شکل بدلتے رہنے والے ایک بہروپیے کی کہانی جس میں اس کی اصل شکل کھو کر رہ گئی ہے۔ وہ ہفتے میں ایک دو بار محلے میں آیا کرتا تھا۔ دیکھنے میں خوبصورت اور ہنسوڑ مزاج کا شخص تھا۔ ایک چھوٹے لڑکے نے ایک دن اسے دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوا اور وہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر اس کا پیچھا کرتا ہوا اس کی اصل شکل جاننے کے لیے نکل پڑا۔
غلام عباس
مسز ڈی کوسٹا
یہ ایک ایسی عیسائی عورت کی کہانی ہے، جسے اپنی پڑوسن کے حمل سے بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ حاملہ پڑوسن کے دن پورے ہو چکے ہیں، پر بچہ ہے کہ پیدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ مسز ڈکوسٹا ہر روز اس سے بچہ کی پیدائش کے بارے میں پوچھتی ہے۔ ساتھ ہی اسے پورے محلے کی خبریں بھی بتاتی جاتی ہے۔ ان دنوں دیش میں شراب بندی قانون کی مانگ بڑھتی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے مسز ڈکوسٹا بہت پریشان تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنی حاملہ پڑوسن کا بہت خیال کرتی ہے۔ ایک دن اس نے پڑوسن کو گھر بلایا اور اس کا پیٹ دیکھ کر بتایا کہ بچہ کتنے دنوں میں اور کیا (لڑکا یا لڑکی) پیدا ہوگا۔
سعادت حسن منٹو
ابجی ڈ ڈو
’’یہ میاں بیوی کے درمیان رات میں جسمانی تعلقات کو لے کر ہونے والی نوک جھونک پر مبنی کہانی ہے۔ میاں بیوی کے ساتھ سونا چاہتا ہے، جبکہ بیوی اسے مسلسل انکار کرتی رہتی ہے۔ اس کے انکار کو اقرار میں بدلنے کے لیے میاں اسے ہر طرح کی ترغیب دیتا ہے، پر وہ مانتی نہیں۔ آخر میں وہ اپنا آخری داؤں چلتا ہے اور اسی میں بیوی کو پست کر دیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
میرا نام رادھا ہے
یہ افسانہ عورت کے will power کا احاطہ کرتا ہے۔ راج کشور کے رویے اور تصنع آمیز شخصیت سے نیلم واقف ہے اسی لیے فلم اسٹوڈیو کے ہر فرد کی زبان سے تعریف سننے کے باوجود وہ اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ ایک روز سخت لہجے میں بہن کہنے سے بھی منع کر دیتی ہے اور پھر آخر کار رکشا بندھن کے دن مشتعل ہو کر اسے بلیوں کی طرح نوچ ڈالتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
ممد بھائی
ممد بھائی بمبئی میں اپنے علاقے کے لوگوں کے خیرخواہ ہیں۔ انھیں اپنے پورے علاقے کی خبر ہوتی ہے اور جہاں کوئی ضرورت مند ہوتا ہے، وہ اس کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ کسی عورت کے اکسانے پر ممد بھائی ایک شخص کا خون کر دیتا ہے۔ حالانکہ اس خون کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے پھر بھی اسے اپنی مونچھوں کی وجہ سے شناخت ہو جانے کا ڈر ہے۔ اسے صلاح دی جاتی ہے کہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے وہ اپنی مونچھیں صاف کرادے۔ ممد بھائی ایسا ہی کرتا ہے پھر بھی عدالت اسے قتل کرنے کے جرم میں سزا دیتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
رتی، ماشہ، تولہ
یہ ایک رومانی کہانی ہے۔ جمال نام کے لڑکے کو ایک لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ لڑکی بھی اس سے محبت کرتی ہے، لیکن اس کی محبت بہت نپی تلی ہوتی ہے۔ اس کا سبب اس کی زندگی کا معمول (ٹائم ٹیبل) ہوتا ہے، جسکے مطابق وہ ہر کام وقت پر اور نپے تلے انداز میں کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ دوسرے کاموں کی طرح ہی وہ محبت کو بھی وقت اور اس کے کئے جانے کی مقدار میں کرنے پر ہی راضی ہوتی ہے۔ لیکن جب جمال اس سے اپنی جیسی چاہت کی مانگ کرتا ہے، تو ان کی شادی طلاق کے لیے کورٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
ستاروں سے آگے
کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ طلبا کے ایک گروپ کی کہانی جو رات کی تاریکی میں گاؤں کے لیے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ سبھی ایک بیل گاڑی میں سوار ہیں اور گروپ کا ایک ساتھی ماہیا گا رہا ہے دوسرے اسے غور سے سن رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں کوئی ٹوک دیتا ہے اور تیسرا اس کا جواب دینے لگتا ہے۔ دیا گیا جواب فقط ایک جواب نہیں ہے بلکہ انکے احساسات بھی اس میں شامل ہیں۔
قرۃالعین حیدر
شاردا
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو طوائف کو طوائف کی طرح ہی رکھنا چاہتا ہے۔ جب کوئی طوائف اس کی بیوی بننے کی کوشش کرتی تو وہ اسے چھوڑ دیتا ۔ پہلے تو وہ شاردا کی چھوٹی بہن سے ملا تھا، پر جب اس کی شاردا سے ملاقات ہوئی تو وہ اسے بھول گیا۔ شاردا ایک بچہ کی ماں ہے اور دیکھنے میں قابل قبول ہے۔ بستر میں اسے شاردا میں ایسی لذت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اسے کبھی بھول نہیں پاتا۔ شاردا اپنے گھر لوٹ جاتی ہے، تو وہ اسے دوبارہ بلا لیتا ہے۔ اس بار گھر آکر شاردا جب بیوی کی طرح اس کی دیکھ بھال کرنے لگتی ہے تو وہ اس سے اکتا جاتا ہے اور اسے واپس بھیج دیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
ننگی آوازیں
اس کہانی میں شہری زندگی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بھولو ایک مزدور پیشہ آدمی ہے۔ جس بلڈنگ میں وہ رہتا ہے اس میں سارے لوگ رات میں گرمی سے بچنے کے لیے چھت پر ٹاٹ کے پردے لگا کر سوتے ہیں۔ ان پردوں کے پیچھے سے آنے والی مختلف آوازیں اس کے اندر جنسی ہیجان پیدا کرتی ہیں اور وہ شادی کر لیتا ہے۔ لیکن شادی کی پہلی ہی رات اسے محسوس ہوتا ہے کہ پوری بلڈنگ کے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ بیوی کی توقعات پوری نہیں کر پاتا اور جب بیوی کی یہ بات اس تک پہنچتی ہے کہ اس کے اندر کچھ کمی ہے تو اس کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور پھر وہ جہاں ٹاٹ کا پردہ دیکھتا ہے اکھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
کوٹ پتلون
معاشی بدحالی سے جوجھ رہے ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے جسے ’اخلاقی‘ اور ’غیر اخلاقی‘ کی کشمکش کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیتی۔ ناظم ایک ایسی بلڈنگ میں رہتا ہے جہاں ایک عورت کی پسندیدگی کا معیار ’’کوٹ پتلون‘‘ ہے۔ قرض بڑھنے کی وجہ سے اسے اپنا کوٹ پتلون بیچنا پڑتا ہے اور بلڈنگ خالی کرنی پڑتی ہے۔ ناظم جس دن مکان چھوڑ کر جا رہا ہوتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ زبیدہ کی نگاہوں کا مرکز ایک اور نوجوان ہے جو کوٹ پتلون میں ملبوس ہے۔
سعادت حسن منٹو
خورشٹ
یہ افسانہ معاشرہ کے ایک نازک پہلو کو سامنے لاتا ہے۔ سردار زور آور سنگھ، ساوک کاپڑیا کا لنگوٹیا یار ہے۔ اپنا اکثر وقت اس کے گھر پہ گزارتا ہے۔ دوست ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی خورشید سے بھی بے تکلفی ہے۔ سردار ہر وقت خورشید کی آواز کی تعریف کرتا ہے اور اس کے لیے مناسب اسٹوڈیو کی تلاش میں رہتا ہے۔ اپنے ان حربوں کے ذریعہ وہ خورشید کو رام کر کے اس سے شادی کر لیتا ہے۔