Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آئینے میں

یوسف ناظم

آئینے میں

یوسف ناظم

MORE BYیوسف ناظم

    دنیا میں کوئی ایسا خوش نصیب ملک نہیں ہے جہاں ادیب پیدا نہ ہوتے ہوں۔ بہت سے ملک ایسے ہوتے ہیں جہاں ادیبوں کو فرش وغیرہ پر بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ انھیں وہاں کے لوگ ہمیشہ سرآنکھوں پر بٹھائے رکھتے ہیں۔ ان ادیبوں کو بھی لوگوں کے سروں پر بیٹھے رہنے کی اتنی عادت ہوتی ہےکہ پھر یہ کہیں اور بیٹھ ہی نہیں سکتے۔ بہت سے ملک ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں ادیبوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور ان کا بچا کھچا حصہ ان کے ورثا کو بڑی مشکل سے واپس ملتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ حصہ بھی میونسپلٹی کے حصے میں آتا ہے۔ اب یہ ادیب کی قسمت پر منحصر ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس کے ہاتھ کی لکیریں اچھی ہیں اور اس کے والدین سعادت مند ہیں تو وہ یقیناً ایسے ملک میں پیدا ہوگا جہاں خرافات لکھنے پر باز پرس نہیں کی جاتی۔

    ادیبوں کے بہت سے حقوق ہوا کرتے ہیں جن میں سے چند حقوق پیدائشی ہوتے ہیں۔ خرافات لکھنا، پیدائشی حقوق کی فہرست میں آتا ہے۔ اچھا ادیب وہ ہوتا ہے جو دودھ کادودھ اور پانی کاپانی کردے۔ دودھ خود پی لے اور پانی اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کردے۔

    اچھا ادیب اسے بھی مانا گیا ہے جو قلم توڑدے۔ لیکن اس ادیب کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک قلم توڑ کر چپ نہیں بیٹھ جاتا بلکہ دوسرے قلم سے لکھنا شروع کردیتا ہے اور لوگ کہتےہیں وہیں پہلے والا قلم غنیمت تھا۔ لیکن جو قلم ٹوٹ گیا، ٹوٹ گیا۔ سمجھ دار لوگ اسی دوسرے قلم سے نکلی ہوئی تحریر کو صبر و شکر کے ساتھ سہہ لیتے ہیں اور دعاکرتے ہیں کہ کم سے کم یہ قلم تو نہ ٹوٹے۔

    ادیب کو ہمیشہ لگن سے لکھنا چاہیے، لوگ چاہے کتنا ہی منع کریں، لکھنے سے کبھی ہرگز باز نہ آئے۔ لوگ خود ہی عادی ہو جائیں گے۔ یوں بھی لوگوں میں مدافعت کا مادہ کم ہی ہوتا ہے اور جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ادیبوں کے مقابلے میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ جو ادیب اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ غبی ہوتے ہیں۔

    ادیبوں کی صحبت کے کئی فائدے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مشتبہ قسم کے لوگ اگر ادیبوں کی صحبت میں بیٹھیں تو انہیں کوئی بھی نہیں پہچان سکتا۔

    عام آدمیوں کی طرح ادیبوں کی بھی دو ٹانگیں ہوتی ہیں لیکن ان کی ایک ٹانگ ہمیشہ اونچی رہتی ہے۔ غیرادیبوں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔ مساوات ہر معاملے میں اچھی بھی نہیں معلوم ہوتی۔ ادیب کی اس اونچی ٹانگ کو گھسیٹنا مشکل ہے۔ ادیبوں کی ناک بھی خلافِ معمول اونچی ہوتی ہے اور اس ناک کو اونچا رکھنے کے سلسلے میں ادیب راستہ چلتے وقت نیچے نہیں دیکھا کرتے۔ البتہ بعد میں صرف یہ دیکھ لیتے ہیں کہ گرنے پر انھیں زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔ ادیب کی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھ سکتی۔ خود مکھیوں کو بھی اس قاعدے کاعلم ہے اور وہ اپنے بیٹھنے کےلیے کسی اور معقول شحص کی ناک کا انتخاب کرلیتی ہیں۔ آرام دہ نشستوں کی اس وسیع دنیا میں کمی نہیں ہے۔

    پہلے زمانے میں سنا ہے ادیب پیدائشی ہوا کرتے تھے اور جس گھر میں یہ پیدا ہوجاتے اس گھر میں پہلے ہی دن سے رونا پیٹنا شروع ہوجاتا۔ لیکن اب قدرت کو والدین پر رحم آنے لگا ہے۔ اب ہر گھر میں صرف آدمی پیدا ہوتے ہیں۔ البتہ آگے چل کر ان میں سے کچھ ادیب بن جاتے ہیں۔ اپنے اپنے کرتوت ہیں۔ اس کی ذمہ داری اب قدرت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔

    ادیبوں کے پاؤں میں سنیچر ہوتا ہے اورسر میں اتوار، یعنی بالکل چھٹی۔ ادیبوں میں ایک بات اچھی ہوتی ہے کہ یہ جو کچھ لکھتے ہیں خود نہیں پڑھتے۔ اگر خود پڑھ لیں تو آئندہ کبھی نہ لکھیں۔ یہ اسی سے ڈرتے ہیں اور دوسروں کا لکھنا بھی نہیں پڑھتے۔ اس کے باوجود اگر ان کے خیالات کسی اور کےپراگندہ خیالات سے ٹکرا جائیں تو اس میں ان کاقصور نہیں ہوتا، نظامِ شمسی کا ہوتا ہے۔ جو نظامِ شمسی ادیبوں کے مشورے کے بغیر بنے گا اس میں یہی خرابی ہوگی۔ اگر ادیبوں کے خیالات کسی وجہ سے ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں تو ادیب خود ٹکراجاتے ہیں۔ ادیبوں ہی کی دیکھا دیکھی کئی ملکوں میں بُل فائٹنگ اور گھونسہ بازی کے مقابلے مقرر کیے جاتے ہیں۔

    ادیب دیکھنےمیں بے ضرر نظر آتے ہیں لیکن یہ اندر ہی اندر بڑے جنگجو ہوتے ہیں۔ تحریر و تقریر کی آزادی کے لیے انھوں نے پانی پت اور ’واٹرلو‘ کی کئی لڑائیاں لڑی ہیں۔ ان لڑائیوں میں جب بھی اور جہاں بھی ادیب جیتے ہیں وہاں ہر قسم کےادب کے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے۔ اور اقوام و افراد بے بس ہوکر رہ گئے ہیں۔ بعض ملکوں میں ادیبوں کو لکھنے پر اور بعض ملکوں میں نہ لکھنے پر انعامات دیے جاتے ہیں۔ کس میں نقصان اور کس میں فائدہ ہے ابھی تک طے نہیں ہوا ہے۔ یوں بھی ادیبوں کے سلسلے میں کوئی بات طے ہو بھی نہیں سکتی۔ ظلم اور ادب ہمیشہ غیر محدود رہے ہیں۔

    بعض ادیب بے حد بے دردی سے لکھتے ہیں اور کاغذ پر اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال کی وجہ سےپڑھنے والا کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا۔ خود اس کاکلیجہ بھی منہ کو آجاتا ہے اور بڑی مشکل سے واپس جاتا ہے۔

    ادیبوں کو لکھنے سے جب بھی فرصت ملتی ہے وہ اور زیادہ لکھتے ہیں۔ وہ اصل میں اس شخص کی طرح ہوتے ہیں جو لیٹے لیٹے تھک جاتا ہے تو اور آرام کرتا ہے۔ ادیب بھی جب ایک چیز لکھتے لکھتے تھک جاتا ہے تو دوسری چیز لکھنے لگتا ہے اور پہلے کے لکھے ہوئے علمی مضمون کے صفحے، بعد کے لکھے ہوئے سیاسی مضمون کے صفحوں میں مل جاتے ہیں اور ادیب کو فرصت نہیں ملتی کہ انھیں چھانٹ سکے۔ پڑھنے والوں کی قسمت میں یہی دورنگی مضمون ہوتا ہے۔ ایڈیٹر اس مضمون کو صرف اس لیے چھاپ دیتا ہے کہ اس کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ضروری ہے کہ ہر وہ مضمون جو سمجھ میں نہ آئے ہر حال میں چھاپا جائے۔ اخباروں اور رسالوں میں صرف اشتہارات اچھے بھی نہیں معلوم ہوتے۔ ایک آدھ مضمون رہنا ہی چاہیے۔

    بہت سےادیب تعمیراتی ادب لکھتے ہیں۔ تعمیراتی ادب وہ ہوتا ہے جس میں نفرت کی دیواریں کھڑی کی جائیں، نفاق کی خلیجیں پیدا کی جائیں اور رائی کے پربت بنائے جائیں۔ ایسا ادب بہت جلد مقبول ہوجاتا ہے۔ اس ادب کا معقول معاوضہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔ معاوضے کی رقم عام طور پر دساور سے منگوائی جاتی ہے۔

    ادیب سکون و اطمینان کے متلاشی ہوتے ہیں۔ امن و سلامتی ان کا آدرش ہوتا ہے۔ اس امن کی تلاش میں کئی ادیب کسی اسٹیج پر جمع ہوکر تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ کا تبادلۂ خیال کئی برسوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ جو ادیب اس تبادلۂ خیال کے بعد صحیح و سالم پائے جائیں ان کے بارے میں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اسٹیج پر موجود نہیں تھے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے