آپ سے ملیے۔ آپ کااسم شریف ہے حکیم محمد شریف، رسالہ شرافت کے ایڈیٹر ہیں۔ پہلے امرتسر میں شریف پورہ میں رہتے تھے۔ آج کل لالو کھیت سے آگے شریف آباد میں قیام ہے۔ معجون شرافت اور شرافت منجن سے کراچی کا کون شریف آدمی واقف نہ ہوگا۔ کسی کو شرف ملاقات حاصل کرنا ہو تو پتہ سیدھا ہے۔ بستی میں داخل ہوتے ہی شریفے کے پیڑوں کا ایک جھنڈ نظر آئے گا۔ اسی کے ساتھ کوچہ شریفاں میں شرافت منزل سامنے نظر آئے گی۔
یہ زمانہ شرافت کا نہیں۔ چوری کہیں بھی ہو، سب سے پہلے پکڑ دھکڑ ہمارے حکیم صاحب کی ہوتی ہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک آدھ بار تلاشی ہوئی تو ان کے ٹرنکوں سے ایسا مال برآمد ہوا جس کے متعلق حکیم صاحب کو کچھ یاد نہیں کہ کب خریدا تھا۔ کہاں سے خریدا تھا۔ انہوں نے بہت کہا کہ ان ٹرنکوں کی کنجیاں ہمیشہ میرے ازاربند سے بندھی رہتی ہیں۔ جانے کس بدمعاش نے کیسے ان کو کھول کر یہ مال مجھے بدنام کرنے کے لیے ان میں رکھ دیا۔ لیکن پولیس والے کب کسی شریف آدمی کا لحاظ کرتے ہیں۔
بعض لوگ جو ہندوستان سے آئے ہیں، بڑی بڑی ہانکا کرتے ہیں کہ میں وہاں یہ تھا وہ تھا۔ حکیم صاحب کی طبیعت میں انکسار ہے۔ لہٰذا انہوں نے پاکستان آنے کے بعد یہاں ڈھنڈورا پیٹنا مناسب نہ سمجھا کہ وہ بھارت میں کیا تھے۔ کس حیثیت کے مالک تھے۔ آج جب کہ بڑے بڑے سیاسی لیڈر اپنے جیل جانے کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے خواہ وہ رات کی رات جیل میں رہے ہوں اور غلط فہمی رفع ہوتے ہی رہا کر دیے گئے ہوں، حکیم صاحب کا اپنے لب سیے رکھنا اور کسی سے ذکر نہ کرنا کہ وہ تین بار کئی سال کی قید کاٹ چکے ہیں بڑے ظرف کی بات ہے۔ حب وطن کا جذبہ ان میں ایسا تھا کہ کبھی انگریز کے قانون کی پروانہ کی۔ ایک بار نقب لگاتے پکڑے گئے۔ انہوں نے بے خوفی سے اعلان کیا کہ انگریزوں کو زچ کرنے کے لیے ہر وطن دوست کا فرض ہے کہ نقب لگائے یا کسی اور طرح قانون شکنی کرے۔
دوسری بار انہوں نے انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون شہادت کی خلاف ورزی کی تو غیر ملکی حکومت نے انہیں جھوٹی گواہی دینے کے الزام میں جیل بھیج دیا۔ حالانکہ حکیم صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے تو ترک موالات کے تحت دیدہ دانستہ سچ بولنے سے اغماض کیا تھا۔ انگریزوں کی نظر میں ہمیشہ کھٹکتے رہے۔ ایک بار گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ ایک انگریز بھی اسی ڈبے میں تھا۔ تھوڑی دیرمیں اس نے شور مچا دیا کہ میری گھڑی کہاں گئی۔ سبھی نے تلاش کرنا شروع کیا۔ حکیم صاحب نے بھی ڈبے کے ایک ایک آدمی کی تلاشی لی اور ڈرایا دھمکایا لیکن کسی نے اقبال جرم نہ کیا۔ اس بدتمیز انگریز نے بجائے اس کے کہ ان کا شکریہ ادا کرتا، ان کی تلاشی لینے پر اصرار کیا۔ اور سوئے اتفاق سے وہ گھڑی ان کی جیب سے نکلی۔ وہاں کیسے چلی گئی۔ حکیم صاحب آج تک حیران ہیں۔ نہ یہ گھڑی کا عقدہ آج تک حل ہوا، نہ یہ کہ ان کی دوسری جیب سے ایک اور مسافر کا جو فونٹن پین نکلا وہ کیسے وہاں آ گیا۔
(۲)
میر رئیس الدین کا تعارف ہم سے ہمارے دوست میاں نیک محمد نے کرایا تھا۔ نیک محمد صاحب کا سانیک نفس آدمی کہیں نہ ملے گا۔ نہ کسی کی برائی کرسکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ ایک بار کسی نے ان کے سامنے شیطان کو برا کہہ دیا تھا۔ اس کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑگئے کہ شیطان کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے، اس کے خوبیوں پر بھی نگاہ کرو۔ دنیا کے اتنے آدمی اس کے ہاتھ پر بیعت ہیں۔ اس کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں تو یہ بے وجہ نہیں ہوسکتا، ضرور اس میں کچھ خوبیاں بھی ہوں گی۔ میر صاحب کا تعارف کراتے ہوئے میاں نیک محمد نے کہا کہ انہیں اپنے ہاں نوکر رکھ لیجیے۔ ضرورت مند ہیں۔ ہندوستان میں تھے تو پوتڑوں کے رئیس تھے۔ در پر ہاتھی جھولتے تھے اور ان کا دسترخوان بہت وسیع تھا۔ آج اس حال میں ہیں ورنہ ان کا قلم ہزاروں پر چلتا تھا۔
میاں نیک محمد صاحب کی ایک نیکی یہ ہے کہ جھوٹ کبھی نہیں بولتے۔ لہٰذا میر صاحب کو ہم نے اپنی کمپنی میں منشی رکھ لیا۔ لیکن چند ہی روز میں ان کی خوبیاں ہم پر کھلنے لگیں تو ہم نے میاں نیک محمد سے کہا کہ سودا جو تیرا حال ہے ایسا تو نہیں وہ، کیا جانیے تونے اسے کس آن میں دیکھا۔ آپ تو انہیں پوتڑوں کا رئیس بتاتے تھے۔ بولے تم ادیب آدمی ہو۔ میری بات کو محاورہ سمجھے۔ بھئی ہم نے تو ہمیشہ ان کے گھر میں پوتڑے سوکھتے دیکھے۔ اس لحاظ سے کہا تھا۔اب ہم نے کہا۔ وہ دروازے پر ہاتھی جھولنے والی بات؟ فرمایا۔ ہمارے میر صاحب کا دولت خانہ کانپور میں چڑیا گھر کے پاس تھا۔ وہاں سے ہاتھی مٹرگشت کرتے ہوئے آنکلتے اور ان کے گھر کے سامنے آکر جھومنے لگتے۔ انہوں نے کئی بار چڑیا گھر والوں سے شکایت بھی کی کہ ان کو باندھ کر رکھا کیجیے۔ میرے گھر کے سامنے آکر گندگی پھیلاتے ہیں۔
ہم نے بات کاٹ کرکہا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کا دسترخوان بڑا وسیع تھا۔ ہم نے تو ایسا ندیدہ اور خسیس آدمی کبھی نہ دیکھا۔ فرمایا، اس بات کو بھی آپ استعارے میں لے گئے تو میرا کیا قصور، بے شک جزرس آدمی ہیں۔ آج تک کبھی دسترخوان نہ خریدا۔ بستر کی چادر سے دسترخوان کا کام لیتے تھے اور اس کے ایک طرف اکیلے بیٹھ کر چٹنی سے روٹی کھاتے تھے۔ آخر میں ہم نے کہا۔ وہ جو آپ نے کہا تھا کہ ہزاروں پر ان کا قلم چلتا تھا۔ اس کا مطلب بھی کچھ دوسرا ہی ہوگا۔ بولے، وہ بھی کچھ جھوٹ نہیں۔ ہمارے میر صاحب ڈاک خانے کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کے منی آرڈر لکھا کرتے تھے۔ جانے کتنے ہزار روپے روز کے منی آرڈر ان کے ہاتھ سے نکلتے ہوں گے۔
(۳)
’’یہ میرے دوست ہیں۔ بہت شریف آدمی ہیں۔۔۔ آپ کی فرم میں جگہ مل سکے تو۔۔۔‘‘
’’کس قسم کی جگہ؟‘‘
’’منشی رکھ لیجیے۔ جو شاندے کوٹنے چھاننے کاتجربہ رکھتے ہیں لہٰذا آپ کے ہاں میڈیکل افسر بھی ہو سکتے ہیں۔ علم نجوم میں بھی دخل ہے۔ آپ کے اسٹاف کے ہاتھ دیکھ دیا کریں گے۔‘‘
’’کیا نام ہے؟‘‘
’’سید فصاحت حسین!‘‘
’’والد کانام؟‘‘
’’جے کے جنجوعہ۔ جھنڈے خاں جنجوعہ۔‘‘
’’کیا کرتے ہیں ان کے والد؟‘‘
’’جی ان کے والد زندہ ہوتے تو ان کو کام کرنے کی ضرورت تھی۔ بیچارے یتیم ہیں۔ ان کے والد ان کی پیدائش سے کئی سال پہلے فوت ہوگئے تھے۔‘‘
’’والدہ؟‘‘
’’جی ان کا سایہ بھی ان کی پیدائش سے دوسال قبل ان کے سر سے اٹھ گیا تھا۔‘‘
’’اور رشتہ دار تو ہوں گے؟‘‘
’’جی نہیں اور رشتہ دار بھی کوئی نہیں کیونکہ ان کے دادا لاولد مرے اور پردادانے شادی ہی نہیں کی تھی۔ یہ تنہا ہیں اس بھری دنیا میں۔‘‘
’’کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’حال ہی میں سات سال کی طویل اقامت کے بعدجیل سے رہا ہوئے ہیں۔ وہ تو اب آکر ان پر وقت پڑا ہے تو نوکری تلاش کر رہے ہیں۔ ورنہ روپیوں میں کھیلتے تھے۔‘‘
’’کیا کرتے تھے؟‘‘
’’بس دست کاری۔ اپنے ہاتھ کی محنت کا کھاتے تھے۔ اپنے فن میں وہ دست گاہ بہم پہنچائی تھی کہ بڑے بڑے ان کے آگے کان پکڑتے تھے۔ وہ تو ان کا ایک شاگرد کچا نکل گیا۔ اوچھا ہاتھ پڑا اس کا۔ بٹوے میں سے کچھ نکلا بھی نہیں اور اس کی نشاندہی پر فصاحت صاحب مفت میں پکڑے گئے۔‘‘
’’ہمارے ہاں نوکری کے لیے چال چلن کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘
’’وہ ہم داروغہ جیل سے لے لیں گے۔ نیک چلنی کی بناپر ان کو سال بھر کی چھوٹ بھی تو ملی تھی۔ اس کاسرٹیفکیٹ بھی موجود ہے۔‘‘
’’تعلیم کہاں تک ہے؟‘‘
’’اجی تعلیم، یہ آج کے اسکولوں کالجوں میں جو پڑھایا جاتا ہے وہ تعلیم ہوتی ہے کیا؟ ہم نے بڑے بڑے میٹرک پاسوں اور ڈگریوں والوں کو دیکھا ہے۔ گنوار کے گنوار رہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو فصاحت حسین صاحب آپ عرضی لائے ہیں نوکری کے لیے؟‘‘
’’جی لایا ہوں یہ لیجیے۔‘‘
’’پڑھ کر سنائیے۔‘‘
’’جی میں عینک گھر بھول آیا ہوں۔‘‘
’’اچھا تو دیجیے۔ اس پر دستخط تو آپ نے کیے ہی نہیں۔ اور یہ کیا سیاہی کا دھبہ ڈال دیا ہے درخواست کے نیچے۔‘‘
’’حضور یہ دھبہ نہیں ہے۔ میرا نشان انگشت ہے۔ دیکھیے نا بات اصل میں یہ ہے کہ۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.