عدالت میں
کسی انگریز نے ہندوستانی کی یہ خصوصیت بتلائی تھی کہ ہر ہندوستانی بغیر سند کا حکیم اور وکیل ہوا کرتا ہے۔ صبح سے شام تک ہر شخص کو دوائیں اور قانون بتلاتا ہے۔
ہمارے غفورمیاں بھی کچھ ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔ فی سبیل اللہ لوگوں کو علاج دوا اور قانونی رہبری کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن راستہ میں بفاتی مل گیا۔ غفور میاں نے چہرے پر نظر ڈالی اور فرمانے لگے، کیوں بفاتی آج منھ لٹکائے کیسے بیٹھے ہو۔ موسم خراب ہے۔ نہ ہو تو ایک ڈٹ کے مسہل لے لو، طبیعت صاف ہوجائے گی۔ بفاتی نے پیچھا چھڑانے کے لئے منھ پھیر کر کہا کہ ہاں دادا مسہل توکرّا مل گیا، اب ضرورت نہیں۔ غفور میاں نے چونک کر پوچھا، کس حکیم نے دیا؟
بفاتی نے اب دوسری طرف منھ پھیر کر رفع شر کی خاطر کہا کہ وہی کنّو لال جو ہماری گلی میں رہتا ہے، دنوں سے پیچھے پڑا ہے۔ اس نے چبوترے کا دعویٰ کردیا ہے، دے دیا مسہل!
کیسادعویٰ؟ غفور میاں یہ کہہ کر بفاتی کے پاس بیٹھ ہی تو گئے۔ مجھے بتلاؤ تو سہی، کیسا دعویٰ کیا ہے؟
یہی کہ میرے گھر کے سامنے کا چبوترہ کنّو لال کے باپ کا ہے۔ غفور میاں نے فوراً ڈانٹ کر کہا کہ پھر جواب کیوں نہیں دیتا کہ کنّو لال کے باپ کو آج تک دیکھا نہ سُنا۔
اس کا باپ تھا ہی کب؟
بفاتی نے غفور میاں کی طرف دیکھ کر کہا، کیا خوب، باپ کہاں ہے؟ یہیں تو ہے اس کا باپ، کیا کسی کو معلوم نہیں ہے؟ تم بھی دادا نئی لائے ہو!
ٹھیک ہے کہ اس کا باپ ہمیں ہے، یہ میں بھی جانتا ہوں۔ غفور میاں نے فوراً اکڑتے ہوئے جواب دیا۔
مگر تم کو یا عدالت کو کیسے معلوم کہ کنّو لال اپنے باپ کا لڑکا ہے۔ پہلے کنّو لال یہ ثابت کرے کہ کس باپ کا لڑکاہے، اس کے بعد چبوترے کی ملکیت کاسوال آتا ہے۔ باپ ثابت کرنا آسان نہیں ہے۔
یہ سن کر بفاتی پھڑک گیا کہ واہ واہ غفور میاں، کیا ’’پینٹ‘‘ بتلایا ہے۔ اب تو اس مہاس بھائی کو دھو دوں گا۔ مگر دادا گواہی۔۔۔ اونھ۔ غفور میاں نے پھر اکڑکر جواب دیا، ہمارا نام لکھواؤ۔ دو روپے آج ہی جاکر عدالت میں جمع کرادو۔ پھر ہم نے دیکھا ہے کنّو لال کو، اگر گھٹنیوں نہیں لے آیا تو نام پلٹ دینا۔۔۔ قتل، ڈکیتی کے ملزموں کو یوں چٹکی بجاتے ہوئے چھڑا کر لے آیا ہوں۔ عدالت بھی یاروں کا کاٹ مانتی ہے۔
غرض کہ عدالت نے غفور میاں کو گواہ کی حیثیت سے طلب کیا۔ عدالت پہنچ گئے۔ حسب دستور قدیم عدالت نے بجائے گیارہ بجے کے چار بجے شام کو آواز دلوایا۔ غفور حاضر، غفور حاضر، غفور۔۔۔
بس بس غفور میاں نے چپراسی کو ڈانٹ پلائی۔ اب ہماری یہ عزّت رہ گئی ہے۔ تم بانس کے چھیلنے والے ہم جیسے اشراف کا اس طرح کھڑا نام لیتے ہو۔ وہ دن یاد نہیں جب تمہاری ماں ہمارے گھر بھینسوں کے گوبر کے کنڈے تھوپتی تھی۔ چپراسی نے جھینپتے ہوئے لیکن ترش روئی سے کہا،
ہاں، ہاں میاں آپ تو جلدی سے اندر آجاؤ۔
اب آئے ٹھکانے پر۔ پہلے ہی آپ کہہ کر پکار لیتے تو کیوں کرّی باتیں سنتے؟
غفور میاں جو ایک کالی شیروانی جس میں بٹن ہفت رنگ سفید تاگے سے ٹکے ہوئے تھے اور سر پر صافہ اور پیروں میں ربر ٹائر کا جوتا تھا۔ کھانستے کھنکارتے اندر پہنچے۔ عدالت نے پوچھا نام کیا ہے؟
ارے حضور! ابھی تو چپراسی نے پکارا تھا بلکہ چپراسی نے میرا کھڑا نام لیا تھا۔ گواہی دینے آئے ہیں حضور کوئی مجرم تھوڑی ہیں جو یہ رام لان چپراسی فرعون بن کر نام لیتاہے۔
عدالت نے کہا، ٹھیک ہے نام بتاؤ؟
لکھ لیجئے۔ منشی غفور میاں جاگیردار سابق موضع پلائی تحصیل حضور ضلع۔۔۔
بس بس صرف نام بتلاؤ، عدالت نے بریک لگایا۔
غفور میاں جاگیردار۔
بس، اب ولدیت۔۔۔
ارے حضور میرے باپ کوکون نہیں جانتا۔ میرے باپ کی اس بھوپال میں وہ عزّت تھی کہ حاکم لوگ صبح سے شام تک گپ لگانے آتے تھے۔ عظمت اللہ مدار الہام ریاست جن کی موت میرے والد کے سامنے ہوئی اللہ بخشے میرے والد کے بڑے گہرے دوست تھے۔ یہ میرے والد ہی تھے حضور جنھوں نے مدار الہام صاحب کی قلمی تاریخ لکھی تھی۔۔۔ آج تک گھر کی میال سے لٹکی ہوئی ہے۔
آج سو برس سے میرے باپ کا بدل پیدا نہ ہوسکا حضور۔۔۔
عدالت نے ذرا تیز لہجے میں کہا کہ صرف ولدیت بتلاؤ، یہ بکواس بند کرو۔
حضور یہ بکواس نہیں واقعات ہیں، میرے والد کی اللہ بخشے بڑی شان تھی۔ نوکر چاکر سب ہی ملازم تھے۔
خاموش، صرف ولدیت بتلاؤ جی۔
مگر حضور جب تک کہ میں اپنے والد کے متعلّق عرض نہ کردوں کہ وہ کس پائے کے انسان تھے، حضور کو کیسے معلوم ہوگا کہ میں کسی باعزّت آدمی کا لڑکا ہوں۔ یوں صبح سے شام تک حضور کے سامنے کتنے ہی آتے ہوں گے جن کے باپ کا پتہ نہ دادا کا!
چپ رہو جی، تم ولدیت بتلاتے ہو کہ نہیں؟ عدالت نے میز پر ہاتھ مارتے ہوئے پوچھا۔
تو حضور سننا ہی چاہتے نہیں کہ میرے باپ کیا تھے تو لکھ لیجئے شبراتی دودھ والے۔ مگر حضور دودھ والے سے کہیں میرے باپ کو گھوسی یا نو مسلم اہیر نہ سمجھ لیں۔ حضور خالص پٹھان تھے۔
ان کے جوانی کے مگدر آج دوسرا اٹھا نہیں سکتا۔ اصل میں دودھ مکھن کا شوق تھا اس لئے بیس بھینسیں پال رکھی تھیں۔ تمام افسران کے یہاں ’’فری‘‘ میں دودھ گھی جاتاتھا پھر جس کو چاہا سر بازار جوتے پڑوادیئے، جس کو چاہا تھانیدار سے کہہ کر بندکروادیا۔ حضور وہ ہوا بندھی تھی کہ پورا چوک کانپتا تھا۔ بھوپال کے بڑے بڑے بدمعاش پیر دبایا کرتے تھے۔
چپ رہو بکواس کررہے ہو۔ تم گواہی دینے آئے یا باپ دادا کی تاریخ بتلانے، عدالت نے غصہ سے پوچھا۔
ارے نہیں حضور، تاریخ سننے والے اب کہاں رہے۔ وہ پہلے کے مدار المہام صاحب اب کہاں جو لوگوں کی تاریخ سنا کرتے تھے، تب کہیں جاکے نوکری دیتے تھے۔ آج کل کی طرح تھوڑی جو گھوڑے گدھے ایک ہی اصطبل میں بندھے ہوئے ہیں۔ تلوار والے کو تلوار اور قلم والے کو قلم تاریخ
سن کر ہی دیا کرتے تھے۔ حضور ’’علم دانوں‘‘ کی قدر تھی۔ مدار المہام صاحب اُردو فارسی والوں کی بڑی قدر کرتے تھے۔ شہر کے ہر شخص کی تاریخ کو جانتے تھے۔
اب عدالت نے تنگ آکر کہا کہ دیکھوجی اگر بکواس بند نہیں کی توباہر نکال دیے جاؤگے، عمر بتلاؤ کیا ہے؟
ہائے ہائے حضور! اس بڑھاپے میں حضور عمر پوچھتے ہیں۔ آج سے تیس سال پہلے کی عمر پوچھیے۔ خدا گواہ ہے، حضور اُس زمانے میں جن گلیوں سے نکل گیا ہوں آج تک وہ گلیاں یاد کرتی ہیں۔ ڈھاکہ کے ململ کا کرتا، ماہ پوس کے جاڑے، مگر کیا مجال جو پھریری آ جائے، جسم کندن کی طرح چمکتا تھا۔ گھروں کی چقیں آٹھ جاتی تھیں، ماں بہنیں دیکھی ہی کرتی تھی۔ ڈیڑھ ہاتھ کا سینہ اس پر ’’حامل ہذا‘‘ قد!
خاموش، کیا پاگل ہوگیا، دماغ چاٹ گیا۔ عمر بتاؤ صرف عمر! عدالت نے بیزار ہوکر کہا۔
لکھ لیجئے حضور، تیس سال۔
ایں، تیس سال! کیا تم تیس سال کے ہو؟
ہاں حضور، اس سے زیادہ کی تو عمر بتلانے کو دل نہیں چاہتا۔ وہ تیس والی عمر رہ رہ کے یاد آرہی ہے، ہائے کیاعمر تھی کہ۔۔۔
بس بس، آگے کچھ سننا نہیں چاہتے، جتنا پوچھیں اتنا جواب دو، زبان بند کرو، ہاں۔۔۔ اس مقدمہ میں تم کیا جانتے ہو؟
کیا فرمایا حضور نے؟ جانتے ہو؟ ارے حضور مقدمہ لڑنے کے لئے خاکسار نے ہی بفاتی کو جمایا تھا۔ وہ عدالت میں آہی کب رہا تھا۔ پنجارہ ہے ناحضور، ڈرتا ہے اور حضور کنّو لال کو یہ مقدمہ مہنگا پڑے گا۔ بیٹا نے کرتو دیا ہے بفاتی پر۔ پہلے تو یہ بات ثابت کرے کنّو لال کس باپ کا لڑکا ہے ثبوت دے اس کا۔
خاموش، مجسٹریٹ نے چیختے ہوئے کہا۔ کیسا باپ، کہاں کا ثبوت۔ تم گواہی دینے آئے ہو یا فیصلہ کرنے۔ کیا پاگل ہو تم۔ صرف تم تو اتنا کہو کہ چبوترہ کس کا ہے؟
بفاتی کا حضور آج سے نہیں ہزار سال سے۔
بس بس اتنا ہی بولو۔ کس کے قبضہ میں تھا، عدالت نے پوچھا۔
آج کل تو حضور میونسپلٹی کے قبضہ میں ہے۔ دن پھر پخانے کی ٹوکریاں یہ بھنگی اسی چبوترے پر رکھتے ہیں اور محلہ بھر کا گوبر ہمیں جمع کرتے ہیں کہ حضور ادھر سے آنا جانا بند ہے۔ کئی درخواستیں میونسپلٹی میں دیں مگر سنتے ہی نہیں۔ یہ داروغہ انسپکٹر سب کنو لال سے جھپکتے ہیں کیونکہ یہ بات بات پر ہر کسی کے خلاف درخواست دے دیتاہے، مگر اب تو خوش قسمتی سے یہ چبوترہ کا معاملہ حضور کے پاس آگیا ہے، نہ ہو تو حضور ہی کچھ زور لگائیں۔
اے پاگل آدمی، عدالت نے پنا سر پکڑے پکڑے کہا۔ خاموش! کیا بکواس ہے یہ۔ اتنا بتلاؤ جی کہ کیا چبوترہ بفاتی کے باپ نے بنوایا تھا؟
جی ہاں حضور، بفاتی کے باپ نے بنوایا تھا۔ محلہ والوں کے آرام کے لئے! بفاتی کا باپ بڑا خیر خیراتی آدمی تھا۔ محرم پر دس روز تک کھچڑا پکوا کر غریبوں کو فری کھلاتا تھا۔ سات تاریخ کو سواری بنتا تھا اورسیہور تک جاکر انھیں قدموں واپس بھی آتا تھا۔ دسویں کو وہ شیر بنتا کہ عوتیں چیخ مار کر بے ہوش۔۔۔
چپ رہ بے شیر کے بچّے، نکل جا عدالت سے۔ عدالت نے زور سے گھنٹی پر ہاتھ مارکر حکم دیا، نکالو اس کو عدالت سے باہر۔
غفور میاں عدالت سے باہر آئے اور ان کے تھوڑی دیر بعد بفاتی بھی منھ لٹکائے ہوئے آیا۔ غفور میاں نے بفاتی کو دیکھتے ہی کہا، کیوں خاں کیسی گواہی دی کہ عدالت بھی گھبرا گئی۔ بفاتی حقارت آمیز نظروں سے غفور میاں کو دیکھ کر اور کوئی لفٹ دیے بغیر کہتاہوا چل دیا کہ جی ہاں کیا کہنا، آپ کی بکواس سے تو مقدمہ ہی ہارا ہوں۔ مقدمہ کا ستیاناس مار دیا۔ نہ معلوم کہاں کی الف لیلہ کھول دی۔
غفور میاں نے جھینپتے ہوئے کہا کہ میاں آج کل تو اسی کنو لال کی ہر جگہ چل رہی ہے۔ تمہاری کوئی نہیں سنے گا اور نہ تمہارے اشراف گواہوں کی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.