افیون کی پینک
جن بزرگ کی کتھا میں آج آپ کو سنانا چاہتا ہوں ان کا نام مجھے کیا کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ گاؤں بھر انہیں ’’تمہارے صاحب‘‘ کہتا تھا۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ’’تمہارے صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اسے بات کی ٹیکن بنا لیا تھا۔ جہاں زبان رکی اور انھوں نے اس بات کا سہارا لیا۔ اس لیے ان کا یہی نام پڑگیا تھا۔ ہاں جی چاہے تو ان کاتھوڑا سا حلیہ سن لیجیے۔ تھوڑا سا اس لیے نہیں کہ مجھے اختصار منظور ہے بلکہ ان کا حلیہ تھا ہی ذرا سا۔ ٹھگنا قد، اکہرا بدن، دبلا چہرہ، سانولا رنگ، خشخشی داڑھی، سر پر پٹے اللہ اللہ خیر سلّا۔ کپڑے بھی واجبی ہی پہنتے تھے۔ نیچا کرتا اونچا پاجامہ یا کبھی لنگی۔ سر پر رومال لپٹا ہوا۔ آنکھوں میں سرمہ روز لگاتے تھے۔ سر میں تیل چوتھے دن ڈالا کرتے تھے۔
’’تمہارے صاحب‘‘ کبھی ایک چھوٹے سے زمیندار تھے۔ قریب کے کسی گاؤں میں ان کی دو ڈھائی بیگھے زمین تھی جو مقدمہ بازی میں ٹھکانے لگ گئی۔ اس وقت سے وہ ہمارے گھر میں کچھ عزیز اور کچھ نوکر کی طرح رہتے تھے۔ کام وہ صرف دو ہی کرتے تھے۔ ایک تو گھر کے بڑے بوڑھوں کو حقہ بھر کر پلانا۔ دوسرے بازار سے سودا سلف لانا۔ سودا چکانے میں ان کی انوکھی عادت یہ تھی کہ ہمیشہ دکان دار کی سی کہتے تھے۔ مثلاً خربوزے والا آیا اور زنانی دیوڑھی پر اس سے بھاؤ چکایا جارہا ہے۔ یہ حضرت بھی موجود ہیں۔ بیچنے والا سیر کے چار پیسے مانگ رہا ہے۔ خریدنےوالے دو پیسے کہہ رہے ہیں۔ ان حضرت کا فیصلہ یہ ہوتا تھا، نہیں تمہارے صاحب یہ خربوزے تو چار ہی پیسے سیر کے ہیں۔‘‘ اور جو کسی نے کہا کہ تم بیچ میں کیوں بولتے ہو تو بھولے پن سے فرماتے تھے ’’تمہارے صاحب وہ تو آپ ہی چار پیسے سیر کہہ رہا ہے ہم نے کہا۔ تو کیا برا کیا۔‘‘ ان کی سادگی کا ایک اور ثبوت لوگ اس بات کو جانتے تھے، کہ آپس کے رشتے ان کی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ سچ پوچھیے تو ہمارے خاندان کے رشتے ناتےہی ان قدر پیچیدہ ہیں کہ اسی برس کی بوڑھیوں کے سوا کسی کو زبانی یاد نہیں ہوتے۔ بڑے بڑے حسابیوں کو سلیٹ پنسل کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ اور نتیجہ پھر بھی اکثر صفر ہی نکلتا ہے۔ مگر تمھارے صاحب، اس معاملے میں ان سے بڑھے ہوئے تھے۔ پھپھی کی خالیا ساس کو نانی اور بیوی کے بہنوئی کو نندوئی۔ غرض اسی طرح اٹکل پچورشتے بتادیا کرتے تھے۔ ہم سب بچے ان کے پیچے پڑ کر طرح طرح کے سوال پوچھتے تھے اور ان کے جواب سن کر ہنستے ہنتے لوٹ جاتے تھے۔ ایک بار ان سے پوچھا کہ فلاں درزی کےسگے دادا کی سگی پوتی ان کی کون ہوئی۔ پہلے تو انھوں نے اس درزی کے دادا کا نام، ولدیت، سکونت عمر کی تحقیق کی۔ پھر اس کی پوتی کا نام اور عمر پوچھی۔ یہ سب چھان بین کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ ’’بھئی کسی کے گھر کا حال ہمیں کیا معلوم۔ اسی سے پوچھ لو۔‘‘
شادی انھوں نے کم عمری کے زمانے میں کرلی تھی۔ بیوی تعداد میں ایک تھیں۔ مگر مقدار میں ان سے چوگنی اور پھر تیز مزاج، اس لیے یہ ان سے بہت ڈرتے تھے۔ بال بچے تھے نہیں اور بیوی سے محبت کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ اس لیے محبت کا جذبہ اور جانوروں کی طرف منتقل ہوگیا تھا۔ بکریاں، مرغیاں، طوطے، مینا، تیتر، بٹیر بیسیوں جانور پال رکھے تھے۔ اور ان سے بہت مانوس تھے۔ کسی حکیم کا قول ہےاور نہیں ہے تو ہونا چاہیے کہ انسان کو جس جانور سے زیادہ سابقہ رہے اس کی روح حیوانی اسی جانور کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو ’’تمہارے صاحب‘‘ کی روح چڑیا خانے سے کم نہ ہوگی۔
’’تمہارے صاحب، کی رقتِ قلب، بھولے پن اور مسکینی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ افیون کا شغل کرتے تھے۔ دن میں دو وقت، دوپہر کواور رات کو گھلا کرتی تھی۔ اور ہمارے ہیرو دو ایک بے فکروں کے ساتھ افیون کی چسکیاں لیتے تھے اور حقے کے دم لگاتے تھے مگر ان کے ساتھ ہمیشہ نئے نئے ہوا کرتے تھے۔ ان کا قاعدہ تھا کہ آس پاس کے گاؤں میں ’’جو شحص کہ اس چیز کےقابل نظر آیا‘‘ اسے چند روز اپنے پاس سے افیون پلاتے تھےاور جب وہ پکا ہوگیا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔ یہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ ان کے پاس افیون آتی کہاں سے ہےاس لیے کہ خریدتے انھیں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ان سے پوچھیے تو مسکراکر چپ ہو رہتے تھے کوئی بہت اصرار کرے تو ایک قطعہ پڑھ دیا کرتے تھے جو ٹھیک یاد نہیں۔ کچھ اس طرح کا تھا
امے کہ جاپان کے خزانے سے
چینیوں کو افیم دیتا ہے
دوستوں کو رکھے گا کب محروم
دشمنوں کی خبر جو لیتا ہے
اس تعارف کے بعد میں آپ کو ’’تمھارے صاحب‘‘ کی ایک دن کی گفتگو سناتا ہوں جو میرا اصل مقصود ہے۔ اس سے آپ کو ان کی سیرت کا کچھ اندازہ ہوجائے گا اور اگر ’’آپ مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتے ہیں‘‘ تو آپ کو بڑی عبرت وبصیرت حاصل ہوگی۔
ہوا یہ کہ ایک دن ’’تمہارے صاحب‘‘ میٹھے ٹکڑے زیادہ کھا گئے، فصل تھی ملیریا کی۔ معدہ جو خراب ہوا تو جاڑے بخار نے آدبایا۔ فصلی بخار کی بے چینی تو آپ جانتے ہیں اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیتی ہے۔ یہ بیماری کے بڑے کچے تھے، سمجھے کہ بس اب چل چلاؤ ہے۔ لوگوں کو پکارنے لگے کہ میرے پاس آکر میری آخری باتیں سن لو، گھر کے بڑوں نے اسے بخار کی بڑ سمجھ کر کچھ توجہ نہیں کی۔ البتہ بچے آن کر جمع ہوگئے مگر ان کو انھوں نے ڈانٹ کر بھگا دیا۔ کچھ دیر کے بعد ہمارے ایک عزیز دوسرے گاؤں سے آئے۔ بیمار کی یہ حالت دیکھ کر ان کو ترس آیا، اور آکر پاس بیٹھ گئے۔ ’’تمہارے صاحب‘‘ تو موقع کے انتظار میں تھے۔ انھوں نے فوراً اس دردناک لہجے میں جو افیونیوں سے مخصوص ہے اپنی بات شروع کردی۔
’’سنو تمھارے صاحب، آج ہم تم سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ہم نے آج تک کسی سے نہیں کہیں۔ ہماری عمر کچھ ساٹھ برس کی ہوئی اگر بقرعید تک زندہ رہتے تو پورے ساٹھ کے ہوجاتے۔ جوانی میں ہم پر وہ مصیبت پڑی جس سے ساری زندگی برباد ہوگئی، ہماراگھر قریب کے گاؤںمیں تھا جس کا نام ہم نہیں بتاتے۔ بزرگوں کے وقت سے گاؤں میں ایک پٹی چلی آتی تھی۔ والد کے انتقال کے بعد اس کے مالک ہم تھے۔ چین سے اور آبرو سے بسر ہو رہی تھی۔ اتفاق کی بات گاؤں کے نمبردار سے ایک معاملے میں دشمنی ہوگئی۔ وہ اپنے زمانے کا پکاّ جعل ساز تھا۔ اس نے ہمیں دق کرنے کے لیے ایک جعلی دستاویز تیار کی اور اپنے ایک پٹھو سے ہم پر نالش کرادی۔ یہ امید بھی نہ تھی کہ ڈگری ہوجائے گی مگر ڈگری ہوئی اور ہائی کورٹ تک بحال رہی۔ ہماری زمین گھر بار سب کچھ بک گیا، اور ہم روٹیوں کو محتاج ہوگئے۔ خدا بھلا کرے اس ڈیوڑھی کا جس نے ہمیں اس طرح رکھا جیسے اپنوں کو رکھتے ہیں۔ مگر کیا تم سمجھتے ہوکہ ہمارے دل میں ان مصیبتوں کا صدمہ خصوصاً زمین کے چھن جانے کاغم مٹ گیا۔ تو بھئی تمھارے صاحب، تم بھی زمیندار کے بیٹے ہو اور زمین کی قدر جانتے ہو۔ اس دنیا میں جہاں کسی چیز کو دم بھر قرار نہیں ایک ہی چیز ہے جو سیکڑوں ہزاروں سال باقی رہتی ہے اور وہ زمین ہے۔ اسی پر ہم پیدا ہوتے ہیں اور اسی میں دفن ہوتےہیں۔ زمین کی جومحبت انسان کے خصوصاً زمیندار کے دل میں ہوتی ہے اس کی تھاہ نہیں۔ مدّت تک ہمارا یہ حال رہا کہ کھیتوںکی تصویر آنکھوں میں پھرتی تھی اور انھیں یادکرکے تڑپتے تھے۔ نمبردار سے اور اس کے پٹھو سے بدلہ لینے کی تدبیریں ہر وقت سوچا کرتے تھے۔ مگر لڑائی بھڑائی سے ہمیں ہمیشہ نفرت تھی اور طاقت بھی ان دنوں ذرا کم تھی۔ یہی صورت سمجھ میں آئی تھی کہ ان کم بختوں پر آسمان پھٹ پڑے یا بجلی گر پڑے، مگر یہ اپنے اختیار کی بات نہیں تھی۔
دوسرا ہوتا تو اس غم میں تمھارے صاحب، کھانا پینا چھوڑ دیتا۔ مگر ہم بہت صبر سے کام لیتے تھے۔ اور گاؤں میں رہ کر دل بہلانے اور غم غلط کرنے کی جو تدبیریں ہوسکتی ہیں وہ کرتے تھے۔ مگر دل کی کلی کسی طرح نہ کھلتی تھی۔ پیر خاکسار شاہ صاحب یہاں تشریف لائے تو ہم ان کے مرید ہوگئے۔ اور ان سے اپنا درد دل بیان کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ دنیا کو چھوڑ دو اور مولا سے لو لگاؤ۔ نماز روزے کی تاکید کے ساتھ انھوں نے چلہ کھینچنے اور پیر کے نام کا ورد کرنے کی ہدایت کی، نماز تو خیر ہم پڑھتے ہی تھے مگر روزہ ہمیں کبھی راس نہیں آیا۔ جب کبھی روزہ رکھا دن چڑھے سے پیٹ میں کچھ عجیب کھرچن سی ہونے لگتی تھی۔ اور شام تک بڑھتی جاتی تھی۔ اس بیماری کی دوا کسی حکیم نے نہ بتائی۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ پیر صاحب کانام خاکسار تھا۔ جب اسکی رٹ لگاتے تو مٹی اور اس سے زمین کا خیال آتا اور ہمارا زخم ہرا ہو جاتا۔ پیرجی سے عرض کیا تو وہ بہت خفا ہوئے اور ہمیں مردود شیطان کہہ کر نکال دیا۔ اس کے بعد تمھارے صاحب، تحصیل میں ایک فرق امین جو شاعر تھے انھوں نے رائے دی کہ تم شعر کہا کرو۔ پھر دیکھنا کہ زمینِ شعر کے سوا تمھیں زمیں آسمان کی سدھ نہ رہے گی۔ شاعری کا مادّہ تو ہم میں ہمیشہ سے تھا، چنانچہ لوگ کہا کرتے تھے کہ تم ہر بات میں شاعری کرتے ہو مگر موزوں شعر اب تک نہ کہا تھا۔
اب جو کہنا شروع کیا تو بڑے جھگڑے پڑگئے۔ لوگوں نےعجیب عجیب الزام لگائے۔ کہنے لگے تمھارے صاحب فلاں شعر جو ہے وہ سرقہ ہے، ایک شاعر اس مضمون کو انھیں لفظوں میں کہہ گیا ہے۔ کوئی پوچھے کہ تمھارے صاحب ہمارا اس میں کیا قصور ہے؟ شرارت اس شاعر کی ہے جس نے ہمیں پھنسانے کے لیے پہلے ہی سے یہ مضمون کہہ دیا اور پھر انھیں لفظوں میں۔ اب ایک ہی چیز باقی رہ گئی تھی۔ یعنی عشق سو وہ بھی ہم نے کر دیکھا، صبح شام پنگھٹ پر جاتے تھے اور گاؤں کی نازنینوں کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھا کرتے تھے۔ جیسا کہ عاشقوں کا قاعدہ ہے، ہم بھی آہِ سرد بھرتے تھے، کبھی سسکتے تھے۔ کبھی روتے تھے، کبھی جگر تھام کر بیٹھ جاتے تھے۔ مگر تمھارے صاحب ان نیک بختوں کا برتاؤ بالکل قاعدے کے خلاف تھا، انھیں چاہیے تھا کہ ہمیں ترچھی نظروں سے دیکھیں، پلکوں کے تیر بھووں کی کٹاریں چلاتیں، مسکراہٹ کی بجلیوں سے جلا دیتیں، ہونٹوں کے امرت سے جِلادیتیں مگر یہ تو ہمیں دیکھ دیکھ کر قہقہے لگاتی تھیں اور ہمیں پانی کے چھینٹوں سے بھگو دیتی تھیں۔ خیر اس میں بھی ایک خاص لطف آتا تھا۔ اگرچہ جاڑوں میں ذرا تکلیف ہوتی تھی۔ جب تک یہ سلسلہ جاری رہا ہماری طبیعت تھوڑی بہت بہلی رہی مگر تقدیر کو یہ بھی گوارا نہ تھا ’’وہ‘‘ جو آئیں تو انھوں نے عشق کی قطعی ممانعت کردی چلیے چھٹی ہوئی۔ اب تمھارے صاحب پھر وہی حال ہوگیا۔ زمین کا غم پھر دل میں نشتر کی طرح چبھنے لگا۔
اور دشمنوں سے بدلہ لینے کا خیال کانٹے کی طرح کھٹکنےلگا۔ اب پھر ادھر کے چکر ہونے لگے۔ ہم اپنے کھیتوں کے پاس نہیں جاتے تھے۔ دور سےدیکھ دیکھ کر کڑھتے تھے۔ اگر یہ وحشت چند سال اور رہتی تو خدا جانے ہمارا کیا انجام ہوتا۔ مگر خدا کو کچھ اچھا کرنا منظور تھا کہ ایک باکمال جوگی ادھر آنکلا، ہم تو ایسے لوگوں کی تلاش ہی میں رہتے تھے۔ فوراً اس کی خدمت میں پہنچے۔ اس نے ہم کو دیکھ کر کہا۔ بابا تیرا دُکھ بڑا بھاری ہے، اس کو جیون سنکٹ کہتے ہیں۔ یہ بیماری اس طرح ہوتی ہے کہ یہ جیون یہ سنسار آدمی کے لیے سانپ کے منھ کی چھچھوندر ہو جاتا ہے۔ کہ نہ اگلے بنے نہ نگلے بنے۔ جب ایک آدمی کی یا پورے سماج کی تن من کی طاقت گھٹ جاتی ہے اور دنیا کا بوجھ نہیں گھٹتا تو زندگی نہ سنبھالے سنبھلتی ہے اور نہ چھوڑے چھوڑی جاتی ہے۔ اس کاعلاج یا تو یہ ہے کہ اپنے میں اتنی شکتی پیدا کی جائے کہ جیون چیلا بن کر ہمارے آگے ڈنڈوت کرے یا پھر اسے مایا کہہ کر چھوڑ دیا جائے، اور اپنے لیے دھیان گیان کا ایک مندر بنالیا جائے جس میں ہم بھول کو گیان سمجھتے ہوئے، نیند کو شانتی جانتے ہوئے ہنسی خوشی دنیا سے چلے جائیں۔ یہ باتیں تیرے سمجھنے کی نہیں۔ تو نہ تو شکتی رکھتا ہے اور نہ گیان کے قابل ہے اس لیے میں تجھے ایک گٹکا دیتا ہوں جس کے کھانے سے تو دم بھر میں اپنی زمین کی کیا ساری زمین سے چھوٹ جائے گا اور تن کی دنیا کے جھمیلوں سے چھوٹ کر من کی دنیا کی سیر کرے گا اور آپ ہی آپ مزے لے گا۔ یہ کہہ کر اس نے ہمیں ایک کالے رنگ کی چھوٹی سی گولی دی۔ جانتے ہو تمھارے صاحب، یہ کیا چیز تھی؟ یہ وہی تھی جسے دنیا والے افیم کہتے ہیں۔ مبارک تھی وہ گھڑی جب ہم نے ’’درد کی دوا پائی دردِ لا دوا پایا۔‘‘
وہ دن اور آج کا دن پھر کبھی ہمیں زمین کی یاد نے، بدلے کے خیال نے، غرض دنیا کی کسی فکر نے نہیں ستایا۔ کبھی کبھار ذرا سی بے چینی ہوتی ہے مگر جہاں افیون حلق سے اتری اور ہمارے اندر آرام کی ہلکی ہلکی لہریں اٹھنےلگیں۔ چین کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے آنے لگے، ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی نرم نرم ہاتھوں سے آہستہ آہستہ جھولا جھُلا رہا ہے۔ پھر زمین سے آسمان تک خاموشی، سکون، امن و امان چھا گیا۔ ذرّے ذرّے میں صلح و آشتی اور محبت بس گئی اور ہماری روح بے خودی کی آغوش میں پہنچ کر بے خبری کا لطف اٹھانےلگی۔ آج معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا وقت آن پہنچا ہے اور روز روز کے سونے جاگنے، ڈوبنے اچھلنے سے نجات پاکر ہم ابدی نیند کے سمندر میں ڈوب رہے ہیں۔ اس لیے ہم نے تمھیں اپنی کہانی سنادی کہ تم اسے سب ہندوستانی بھائیوں تک پہنچادو اور انھیں وہ نسخہ بتادو جس نے ہمارے سارے دکھ درد کو دور کردیا اور ہماری زندگی کی مشکل کو حل کردیا جسے عمر بھر میں ایک بار بھی یہ نعمت نصیب ہوگئی وہ قیامت تک اس کی لذّت نہیں بھول سکتا۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے،
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی پینک کے رات دن
اونگھا کریں تصورِّ جاناں کیے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.