Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عینک فروش

سید عابد حسین

عینک فروش

سید عابد حسین

MORE BYسید عابد حسین

    ڈاک گاڑی اپنی پوری رفتار سے چل رہی تھی۔ مجھے معمولی سواری کی رفتار سے بھی وحشت ہوتی ہے اور ڈاک گاڑی کی تیزی سے تو اختلاج ہونے لگتا ہے۔ اکثر یہ خیال آتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ میرے سفر کی سمت غلط ہو تو جتنی تیز یہ گاڑی چلے گی اتنا ہی میں منزل مقصود سے دور ہوجاؤں گا۔ پھر سوچتا ہوں کہ یہی صورت زندگی کے سفر کی ہے۔ سست قدم راہ رو اگر غلط راہ بھی اختیار کر لے تو دن بھر میں منزل سے دور نہ ہٹے گا۔ لیکن وہ مسافر جو برق رفتار مرکب پر سوار ہے۔ راہ سے بے راہ ہو جائے تو دم بھر میں خدا جانے کہاں جاپہنچے گا۔ عقل کہتی ہے کہ یہ منطق غلط ہے۔ تیز چلنے والا تیزی سے واپس بھی آسکتا ہے مگر جو شخص قدم گن گن کر رکھتا ہے، اسے آدھی دور سے لوٹنا پڑے تو جانے میں جتنی دیر لگی تھی اتنی ہی آنے میں لگے گی۔

    کس کی مجال ہے کہ ریاضی کی اس مساوات سے انکار کرے۔ مگر یہ بتائیے کہ پچھلے مہینے جب میں دلّی سے لاہور جانا چاہتا تھا اور غلطی سے بمبئی کی ڈاک میں بیٹھ کر جھانسی جاپہنچا جہاں آٹھ گھنٹے تک واپسی کے لئے پسنجر بھی نہ ملی اس وقت یہ مساوات کہاں چلی گئی تھی۔ اس وقت میں ریاضی سے سر پھوڑتا یا منطق کو لے کر چاٹنا۔ ریاضی اور منطق کی صحت مسلم مگر زندگی میں ان کا استعمال اتنا سہل نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ غرض مجھے ڈاک گاڑی کی رفتار سے ڈر لگتا ہے۔ میرا سر چکراتا ہے، طبیعت بے قابو ہوجاتی ہے، بات بات پر غصہ آتا ہے، ہر شخص سے لڑنے کو جی چاہتاہے، اس کے لئے منطق دلیل یا ریاضی کی مساوات کی کوئی ضرورت نہیں۔

    میں ڈیوڑھے درجے کے ایک چھوٹے سے ڈبے میں بیٹھا تھا جس میں آمنے سامنے صرف دو ببینچیں تھیں۔ میرے علاوہ تین مسافر اور تھے، ان میں سے ایک پہلی نظر میں موٹے معلوم ہوتے تھے۔ دوسری نظر میں اس سے بھی زیادہ موٹے اور تیسری نظر میں یہ انکشاف ہوتا تھا کہ گو ان کی آنکھیں کھلی ہیں اور منھ بھی کھلا ہے مگر وہ سورہے ہیں۔ یہ بزرگ میرے سامنے کی پوری بینچ پر پھیلے ہوئے بیٹھے تھے اور جب کبھی میں نظر اٹھاتا تھا مجبوراً ان کے چہرے کی زیارت ہوتی تھی۔ مجھے ان کے مٹاپے سے اور ان کے یوں بے ساختہ سونے سے بڑی کوفت ہوتی تھی اور جب یہ سوتے سوتے جوش میں اگر خراٹے بھی لینے لگتے تھے تب تو بے ساختہ جی چاہتا تھا کہ بقیہ دو مسافروں کی مدد سے انہیں اٹھاکر کھڑکی سے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ دروازے سے باہر پھینک دوں۔

    میں بینچ کے ایک سرے پر تھا اور میرے داہنے ہاتھ پر ایک نوجوان بیٹھے تھے جن کے چہرے سے کسی گہرے صدمے کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ ان کے لب خشک تھے۔ چہرے کا رنگ زرد تھا اور آنکھوں کی بے حالی سے دل کی بے چینی ٹپک رہی تھی۔ بینچ کے دوسرے سرے پر ایک پیر مرد، نیم دیسی نیم انگریزی وضع کے تشریف فرما تھے جنہیں میں نے اکثر ریل میں سفر کرتے دیکھا تھا۔ ان کے ساتھ ایک چمڑے کا ہینڈ بیگ تھا جس پر ان کا نام اور پتہ لکھا ہوا تھا۔ میں نے اس سے پہلے کئی بار اسے پڑھنے کی کوشش کی مگر چونکہ یہ کھٹکا رہتاتھا کہ وہ میرے اس خلاف تہذیب تجسس کو نہ دیکھ لیں اس لئے کبھی کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ آج موقع پاکر میں نے اتنا معلوم کرلیا کہ وہ بیگ کے ایک مشہور کارخانے کے ایجنٹ ہیں۔ نام دوسری طرف تھااسے نہ پڑھ سکا۔

    میں خود ریل میں باتیں نہیں کرتا اور چاہتا ہوں کہ کوئی نہ کرے۔ اسی لیےحتی الامکان خالی درجے میں بیٹھا کرتا ہوں۔ مگر ڈیوڑھے درجے میں خالی ڈبہ تقدیر سے ہی ملتا ہے۔ آج میرے ساتھ تین مسافر تھے، مگر بظاہر ان میں سے کسی سے یہ اندیشہ نہ تھا کہ زیادہ باتیں کرے گا۔ سامنے کی بینچ والے خواہ مخواہ مرد آدمی کا شمار تو اس وقت حیوان ناطق کی ذیل میں تھا ہی نہیں۔ ویسے وہ دونوں حضرات جو میری بینچ پر تھے ان میں سے نوجوان تو ہمارے عزت و ملال کی تصویر بنے ہوئے تھے اور ہر مرد عینک فروش کسی کتاب کے مطالعے میں غرق تھے۔ اس لئے میں اطمینان سے بیٹھا گاڑی لڑنے، پل ٹوٹنے، آدمیوں کے گرنے، کچلنے، مرنے کے تصور سے اپنے دل کو دہلانے اور پریشان کرنے کا سامان کر رہا تھا۔

    گاڑی اسٹیشن پر رکی، باہر کی چہل پہل کے اثر سے ہمارے چھوٹے سے حلقے میں بھی کچھ حرکت پیدا ہوئی، ہمارے نوجوان رفیق گھبرا کر اس انداز سے اٹھے گویا یہیں اترنا چاہتے ہیں مگر جب انہوں نے کھڑکی کے پاس جاکر اسٹیشن کا نام پڑھا تو کسی قدر مایوسی کے ساتھ آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ موٹے مسافر نے بھی گاڑی ٹھہرتے ہی آنکھ کھولی اور بیٹھے ہی بیٹھے اسٹیشن کی طرف مڑ کر گردن کھڑکی میں سے نکالی۔ انہوں نے اس کریہہ آواز سے جو شاید نزع کے وقت انجن کے گلے سے نکلتی ہوگی سودے والے کو بلایا۔ اور تھوڑی دیر میں ان کی بینچ کے ایک کونے میں مٹھائی، پوری، کباب دہی بڑے، ککڑی، امرود، الم غلم کا ایک ڈھیرلگ گیا۔ میں سمجھا کہ شاید انہیں کئی دن تک مسلسل سفر کرنا ہے اس لئے انہوں نے یہ ذخیرہ جمع کر لیا ہے۔ لیکن جب انہوں نے نیت باندھ کر کھانا شروع کیا تو میرے دیکھتے ہی دیکھتے چند منٹ میں وہ سارا سامان رسدان کے صندوق شکم میں جاکر غائب ہوگیا۔ کھانے سے فارغ ہوکر انہوں نے ایک بڑا سا لوٹا اٹھایا اور منھ سے لگا کر ایک سانس میں خالی کردیا۔ پھر آستین سے منھ پوچھا، ڈکار لی، گاڑی کی دیوار کے سہارے سے پھیل کر بیٹھ گئے۔ آنکھیں بند کرلیں، وہ چشم زدن میں جہاں سے آئے تھے وہیں پہنچ گئے۔

    میں اس روح فرسا نظارے کو دیکھ کر دل میں کڑھ رہا تھا کہ گاڑی چلی، اور پیر مرد نے جواب تک برابر مطالعے میں مصروف تھے دفعتہ کتاب بند کردی اور نوجوان مسافر کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے، ’’آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟‘‘ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مجھے یہ بات بے حد ناگوار ہوئی۔ مغربی تہذیب میں اگر مجھے کوئی اصول پسند ہے تو یہ کہ جس شخص سے تعارف نہ ہو اس سے بے ضرورت گفتگو کرنا جائز نہیں۔ میرا جی چاہا کہ ان سے پوچھوں آپ کو ایک اجنبی سے اس طرح سوال کرنے کا کیا حق ہے، مگر خیال ہوا کہ کہیں وہ نہ کہہ بیٹھیں کہ انہیں دخل درمعقولات کا کیا حق ہے۔ اس لئے میں خاموش ہو رہا لیکن دل میں دعا مانگتا تھا کہ وہ نوجوان پیر مرد کی اس جسارت پر ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔ مگر نوجوان نے ڈوبی ہوئی آواز میں صرف اتنا کہا، ’’کیاعرض کروں، کہاں جا رہا ہوں؟‘‘ اب مجھے یقین ہوگیا کہ یہ گفتگو کا سلسلہ چلا اور دیر تک چلا۔ غصہ تو مجھے ضرور آیا مگر اسی کے ساتھ یہ اشتیاق بھی تھا کہ نوجوان کی اس شکستہ دلی اور مایوسی کی وجہ معلوم ہو۔ بظاہر تو میں منھ پھیر کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا مگر کان ان دونوں کی گفتگو پر لگے تھے۔

    ’’آپ بہت اداس معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’جی ہاں، کچھ ایسی پریشانیاں ہیں۔‘‘

    ’’آخر معلوم تو ہو وہ کون سی ایسی بات ہے جس نے آپ کو شگفتگی کے موسم میں پژمردہ کر دیا ہے۔ میری اس بے تکلفی کو معاف کیجئے، میں بے فائدہ دوسروں کے حالات کا تجسس نہیں کرتا۔ آپ سے یہ سوال اس لے پوچھتا ہوں کہ شاید آپ کی کچھ مدد کر سکوں۔‘‘

    ’’میں آپ کی اس بزرگانہ شفقت کا شکر گذار ہوں، مگر میری مدد دنیا میں کوئی نہیں کرسکتا۔‘‘

    ’’آپ کیوں میرا حوصلہ پست کرتے ہیں، اپنی سی کوشش تو کرنے دیجئے۔‘‘

    ’’جب آپ کی کوشش ناکام ہوگی تو حوصلہ اور زیادہ پست ہوگا۔‘‘

    ’’نہیں ایسا نہیں، راہ سعی میں پیروں کا تھک جانا اس سے اچھا ہے کہ آرزو ئے سعی میں دل ڈوب جائے۔‘‘

    ’’شاید ہو مگر میرا تجربہ اس کے خلاف ہے۔ میں تو اسی سعی ناکام کا کشتہ ہوں اور اب سعی، کوشش، عمل کے نام سے کانپتا ہوں۔ آپ نے دریافت کیا تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں، میں وہاں جاتا ہوں جہاں انسان دنیا کے شور و شر سے ایمن زندگی کی کشمکش سے محفوظ، امن وعافیت سے دن گذار سکتا ہے۔ جہاں نہ ا سے بھائیوں کی عقلت، جہالت، پستی، نکبت کے منظر آنکھوں سے دیکھنا پڑیں گے اور ان کی نامہربانی، ناشکر گذاری، احسان فراموشی، کینہ پروری کے زخم سینے پرکھانا پڑیں گے۔ جہاں نہ وہ اپنی قوم کے تنزل کے احساس سے تڑپے گا اور نہ اس کی اصلاح کی کوشش کرکے پچھتائے گا۔ میں آبادی سے دور پہاڑوں پر جا رہا ہوں کہ وحدت کی مومیائی سے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑوں، خلوت کے دامن میں بکھری ہوئی طبیعت کو سمیٹوں، باہر کی دنیا سے آنکھ بند کرلوں اور اندر کی دنیا کو آنکھ کھول کر دیکھوں۔‘‘

    ’’مگر یہ تو معلوم ہو کہ ہماری دنیا نے آپ کا کیا بگاڑا ہے، جو آپ اس سے اس قدر بیزار ہیں۔‘‘

    ’’سنئے صاحب، میرے لئے دنیا ہندوستان ہے اور یہی ہوسکتا تھا، یہی وہ زمین ہے جس میں میری زندگی کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں اور یہیں میرا شجر حیات پنپ سکتا تھا۔ اب آپ یہ پوچھیے کہ ہندوستان نے میرا کیا بگاڑا ہے اس کا میں جواب دیتا ہوں، مگر میرا دل یہ کہانی کہتے دکھتا ہے اور آپ کا دل اسے سن کر دکھے گا۔ آہ اس بدنصیب ملک نے مجھ سے وہ دولت چھین لی جو زندگی کا سہارا ہے۔ یعنی عقیدہ اور امید اور مجھے وہ چیز دے دی جو موت کا پیام ہے یعنی ناامیداور مایوسی، جب میں نے اپنے آپ کو دل وجان سے اس کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا۔ اس وقت میرا سینہ عقیدے کے نور سے معمور تھا اور میرا دل امید کے ولولے سے لبریز۔ مجھے یقین تھا کہ ہندوستان والوں میں ایمان ہے، خلوص ہے، درد اور، قابلیت ہے، ذہانت ہے، جفا کشی ہے، صبر ہے، استقلال ہے، صرف ہمت، عزم اور جوش کی کمی ہے۔ مجھے امید تھی کہ یہ چیزیں ذرا سی کوشش سے پیدا ہوجائیں گی جس طرح مستوں کے لئے ایک ایک الاپ، دیوانوں کے لئے ایک ہو، عقلمندوں کے لئے ایک اشارہ کافی ہے۔ اسی طرح ہندوستانیوں کے لئے صرف ایک ترانہ ٔ امید ایک نعرۂ ستانہ چاہئیے۔ یہ آواز کانوں میں پہنچتے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ غلامی کا طوق اتار کر پھینک دیں گے، جہالت کی بیڑیاں توڑ کر رکھ دیں گے اور پھر ہندوستان میں ایک عظیم الشان تمدن کی بنیادپڑے گی جو ساری دنیا کے لئے باعث حیرت اور قابل تقلید ہوگا۔ یہ تھا میرا عقیدہ، یہ تھی میری امید۔

    ’’مگر افسوس کیا سمجھا تھا اور کیا نکلا۔ تصور اور واقعے میں اتنی نسبت بھی تو نہ تھی جتنی چیز میں اور اس کے سائے میں ہوتی ہے۔ میں اور مجھ جیسے دوسرے تکلیفیں اٹھاکر کڑیاں جھیل کر سارے ملک میں پھرے کہ سوتوں کو جگا ئیں، رہ نوردوں کو رہنماؤں کا پیام پہنچائیں۔ کچھ سونے والے اٹھے، کچھ مسافروں نے آگے قدم بڑھایا، ہمارا دل خوش ہوا، ہماری ہمت بڑھ گئی، مگر یہ اطمینان عارضی تھا کیونکہ راہ کی دشواریوں نے چلنے والوں کے چھکے چھڑادیے اور اس پرستم یہ ہوا کہ کچھ رہنما راہزن نکلے اور کچھ راہ سے نابلد، ان میں سے بعض اپنے پیرووں کو لوٹ کر چل دے اور بعض ٹھٹک کر کھڑے ہوگئے۔ اور اس پر جھگڑنے لگے کہ دائیں کو مڑیں یا بائیں کو آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں۔ یہ نتیجہ ہوا سالہا سال کی کوشش کا۔ یہ پھل ملا، مدتوں کی ریاضت کا، میرا تو یہ دیکھ کر دل چھوٹ گیا، ہاتھ پیر شل ہوگئے، زبان بند ہوگئی، افسردگی دل و دماغ پر مسلط ہوگئی۔ مایوسی رگ وپے میں سرایت کرگئی میں نے سمجھ لیا کہ یہ ہندوستان ہمیشہ غفلت کی نیند سوتا رہے گا۔ غلامی کی ذلت اٹھاتارہے گا، مجھ میں یہ جانکاہ نظارہ دیکھنے کی تاب نہیں، اس لئے میں آبادی سے منہ موڑ کر کوہ و بیاباں کی طرف جا رہا ہوں تاکہ کم سے کم اپنی روح کو اس ندامت اور پستی سے بچاؤں اور تزکیۂ نفس و تصفیۂ قلب کے ذریعہ سے معرفت اور نجات حاصل کروں۔‘‘

    مجھے خوشی تھی کہ نوجوان کی آنکھوں سے فریب ہستی کا پردہ اٹھ گیا ہے لیکن یہ افسوس تھا کہ اس پر بجائے طیش کے یاس کا غلبہ ہوگیا ہے میں تو اسے یہ رائے دیتا کہ دنیا سے پیچھا چھڑانے کی جگہ دنیا کے پیچھے پڑ جائیے۔ سست قدم رہ نوردوں کو ملامت کرے اور جھوٹے رہنماؤں کی قلعی کھولے۔ بہرحال میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ پیرمرد پر اس گفتگو کا کیا اثر ہوا۔ اس لئے میں نے ذراسا مڑ کر کنکھیوں سے ان کے چہرے کو دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ ایک لمحے تک مجھے ہمدردی کے، افسوس کے، دکھ کے آثار نظر آئے۔ مگر فوراً ہی یہ کیفیت جاتی رہی اور وہی سکون و اطمینان اور خفت سا تبسم جو پہلے تھا پھر نظرآنے لگا۔ انہوں نے نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا،

    ’’میں نے آپ کی داستان بہت غور سے سنی اور میرے دل پر اس کا بڑا اثر ہوا۔ مگر ایک بات میری سمجھ میں نہ آئی، جب آپ کا جذبہ محبت سچا تھا تو آپ نے انجام کی فکر کیوں کی۔ پروانہ جس کی فطرت میں جلنا ہے کامیابی اور ناکامی سےغرض نہیں رکھتا۔ شمع جس کی سرشت میں گھلنا ہے، یاس اور امید کی پابند نہیں ہوتی۔ مستی میں یہ ہوشیاری کیسی، دیوانگی میں یہ تدبیر کیوں۔ آپ کی طرف سے سعی اور خدا کی طرف سے اتمام، آپ نے اپنا کام کرتے کرتے خدا کے کام کی فکر اپنے سرکیوں لے لی۔‘‘

    ’’جناب انسان کو جس نے عشق دیا ہے اسی نے عقل بھی دی ہے اور تدبر تعقل، تفکر کی تاکید بھی کی ہے۔ انسان نہ پروانہ ہے کہ حسن سو زندہ کی ایک جھلک دیکھ کر دیوانہ وار جل مرے اور نہ شمع کہ عشق سوزاں کی ایک ادا پر گھل گھل کر مر مٹے۔ اس کی مستی ہوشیاری کے سہارے چلتی ہے، اس کی دیوانگی دانائی کے پیروں پر اڑتی ہے۔ عشق انسان کے دل میں شوق منزل پیدا کرتا ہے اور ذوق سفر، عقل اسے راہ سجھاتی ہے اور اس کے لئے زاد راہ فراہم کرتی ہے۔ میرا جذبہ محبت تو خیر جیسا کچھ ہے میں جانتا ہوں لیکن میری عقل کہتی ہے کہ ملک، قوم کے پنپنے کی کوئی امید نہیں تو اپنی روح کو بچا اور اس کی بالیدگی کا سامان کر۔‘‘

    ’’الحمد للہ کہ آپ عقل کے قائل ہیں اور اسے عشق کا دست و بازو سمجھتے ہیں، ورنہ ہمارے اہل حال کے یہاں تو عقل بیچاری راندہ ٔدرگاہ ہے، اس لئے کہ وہ عشق کی ضد سمجھی جاتی ہے۔ آپ نے جو کچھ ابھی فرمایا اس کے سبب سے گفتگو میں بڑی آسانی ہوگئی۔ عقل کا قدم درمیان رہے تو باہمی مفاہمت ممکن ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ آپ کی ہنگامۂ زندگی سے مایوسی اور گوشۂ خلوت کی طلب عقل پر مبنی ہے یا محض جذبات کے رد عمل کا نتیجہ ہے۔ پہلے اس یاس کو لیجئے، آپ کی باتوں سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کو مایوسی خدا نخواستہ نظام عالم اور قانون زندگی سے نہیں ہے بلکہ انسانوں سے ہے۔ اپنے ملک کے انسانوں سے ہے، اپنے ملک کے انسانوں سے آپ کو یہ بدگمانی نہیں کہ دنیا میں سعی اور عمل خلوص و ایثار، پامردی اور استقلال کا پھل نہیں ملتا، بلکہ یہ گمان ہے کہ آپ کی قوم عمدہ چیزوں سے محروم ہے۔ آپ کے دل میں یہ وسوسہ نہیں کہ رحمت ایزدی مستحقوں کو نہیں پہچانتی یا جان بوجھ کر ان سے روگردانی کرتی ہے، بلکہ یہ خدشہ ہے کہ آپ کے بھائی اس رحمت کے مستحق نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ اس اتھاہ مایوسی سے بچے ہوئے ہیں جو روح کے لئے دائمی موت ہے۔ مگر یہ دوسری قسم کی مایوسی یعنی اپنے ملک اور اپنی قوم کی طرف سے ناامیدی جو آپ کے سر پر منڈلا رہی ہے، یہ بھی کچھ کم مہلک نہیں اگر سچی ہو۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہ سچی اور پائیدار مایوسی نہیں بلکہ ایک عارضی افسردگی ہے جو جوش کی حد سے بڑھ جانے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوکہ قوموں کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا اندازہ مہینوں اور برسوں سے نہیں قرنوں اور صدیوں سے کیا جاتا ہے۔ ہندوستان بلکہ ایشیا کی پچھلی نصف صدی کی تاریخ آپ کو یہ بتائے گی کہ اکثر قوموں میں خصوصاً مسلمانوں میں ایک عام بیداری پیدا ہوئی ہے۔ دنیا کے اہل الرائے اس پر متفق ہیں کہ لوگ خواب غفلت سے چونک اٹھے ہیں۔ ان کی رگوں میں زندگی کا خون جو اب تک منجمد تھا پھر گردش کر رہا ہے، انہوں نے راہ عمل پر چلنا بلکہ دوڑنا شروع کردیا ہے، ٹھوکریں کھاتے ہیں مگر پھر سنبھل جاتے ہیں۔ تھک کر بیٹھتے ہیں مگر پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

    کوئی اس کا دعوا نہیں کرسکتا کہ اسے انجام کا یقینی علم ہے۔ بڑ ے سے بڑا دانشمند علامات پر حکم لگاتا ہے اور علامات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ترقی کی لہر جو اٹھی ہے یہ اب رکنے والی نہیں، یہ لوگ جو اس راہ پر گامزن ہیں بہت بھٹکیں گے، بہت نشیب و فراز دیکھیں گے مگر کسی نہ کسی دن منزل پر ضرور پہنچیں گے۔ مسلسل کوششیں کبھی رائگان نہیں جاتی، زندگی کا یہ قانون ہے، دنیا کا یہ دستور ہے، خدا کا یہ وعدہ ہے۔

    آپ جس تحریک کی ناکامی کو رورہے ہیں، وہ ایک بڑے سلسلے کی کڑی تھی۔ اس کا لوہا کمزور تھا جب زندگی کے جھٹکے پڑے تو ٹوٹ گئی۔ اس پر فریاد کرنا نادانی ہے اور اس سلسلے کو ناتمام چھوڑنا بزدلی ہے۔ لوہے کو کچھ دن آگ میں تپنے اور ہتھوڑے کی چوٹ کھانے دیجئے کہ وہ فولاد بن جائے، پھر کڑی پڑتی جائے گی سلسلہ پر بیٹھتا چلا جائے گا اور توڑ نے والوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔‘‘

    ’’خدا آپ کو جزائے خیر دے، آپ تو اس وقت میرے حق میں مسیحا ہوگئے، آپ کی باتوں کا جواثر دل پر ہوا ہے اس کا پورا اندازہ تو بعد میں ہوگا مگر اس وقت معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے تیز بخار بعد مدت کے اترا ہو۔ مایوسی کی کیفیت میرے دل سے تقریباً بالکل جاتی رہی اور امید کا ایک ہلکا سا رنگ چھا گیا۔ مگریہ تو فرمائیے کہ میں اب کیا کروں؟ جو قصد کرچکاہوں اسے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا، مگر یہ خیال ہوتاہے کہ صحرا نور دی کی ایک مدت معین کرلوں اور اسے پورا کرکے واپس آجاؤں۔ آٖپ فرماتے ہیں کہ لوہے کو فولاد بنانا چاہئیے لیکن لوہا اگر زنگ آلودہ ہو تو اس پر صیقل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی صورت یہی نظر آتی ہے کہ انسان کچھ دن تنہائی میں ریاضت کرے۔ دنیا کی آلائشوں میں رہ کر تو یہ کثافت دور نہیں ہوتی۔‘‘

    ’’آپ کا یہ حسن ظن جو میرے حق میں اور خود اپنے حق میں ہے صحیح نہیں۔ آپ کا بخار اگر اترا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ خود آپ کی طبیعت میں مرض کو دفع کرنے کی قوت موجود تھی اور ایک ذرا سا سہارا ڈھونڈتی تھی۔ آپ کی مایوسی اگر دور ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نیچے امید کی تہ ابھرنے کو مستعد تھی اور ایک ہلکی سی چھیڑ کی منتظر تھی۔ میں نے طبیب کا کام نہیں کیا بلکہ ایک معمولی تیمار دار کا۔ اب رہا آپ کا یہ خیال کہ آپ تنہائی کی زندگی میں محض اپنی قوت سے تزکیۂ نفس کے ہفتخواں کو طے کرلیں گے یہ بہت بڑا دھوکا ہے۔ جس منزل کو آپ ابتدائی منزل سمجھتے ہیں یہ آخری منزل ہے۔ خلوت کے سکون کا انعام اسی کو ملتا ہے جو جلوت کی سعی کے امتحان میں پورا اتر چکا ہو۔ لوہے کا زنگ وہی زندگی کی آگ دور کرسکتی ہے جو اسے فولاد بناتی ہے۔ اس کے بعد کہیں وہ وقت آتا ہے کہ فولاد جلا پاتے پاتے شیشہ بنے، جو خام کار ابتدا میں تنہائی اختیار کرتے ہیں، ان کے دل کا زنگ دور نہیں ہوتا بلکہ ہوائے نفس سے اور گہرا ہو جاتا ہے۔ وہ ادنیٰ خواہشات و جذبات کی مستی کو نشہ، غرور نفسانی کو تمکین، روحانی خودی کو خدا سمجھنے لگتے ہیں۔ خدا تک پہنچنے کا کوئی چھوٹا راستہ نہیں، ہر سالک کو زندگی اور دنیا کی سنگلاخ راہوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ بے شک اس راہ میں راہزن بھی ہیں مگر اسی کے ساتھ رہنما بھی ہیں۔ ہرانسان اپنا اور دوسروں کا راہزن ہوسکتا ہے مگر راہنما بھی ہوسکتا ہے۔ یہی خیر و شر کا امکان زندگی ہے۔ یہی دنیا ہے، کمزور دل اس دگدے سے کانپتے ہیں مگر مضبوط دل اس میں یکسوئی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے۔ میں مفصل جواب دیتا مگر وقت کم ہے۔ یہ اسٹیشن جو آنے والا ہے اسی پر مجھ کو اترنا ہے۔ وہ دیکھئے سگنل گزر گیا۔ اب صرف چند منٹ ہی باقی ہیں اس لیے میں آپکے سوال کے جواب میں ایک شاعر کے چند شعر پڑھتا ہوں، جس نے زندگی کے راز کو سمجھا بھی اور اپنی زبان میں سنا بھی دیا۔‘‘ سنئے؛

    کاٹئے دن زندگی کے ان یگانوں کی طرح

    جو سدا رہتے ہیں چوکس پاسبانوں کی طرح

    سعی سے اکتاتے اور محنت سے کنیاتے نہیں

    جھیلتے ہیں سختیوں کو سخت جانوں کی طرح

    رسم وعادت پر ہیں کرتے عقل کو فرماں روا

    نفس پر رکھتے ہیں کوڑا حکمرانوں کی طرح

    شادمانی میں گذرتے اپنے آپے سے نہیں

    غم میں رہتے ہیں شگفتہ شادمانوں کی طرح

    رکھتے ہیں تمکیں جوانی میں بڑھاپے سے سوا

    رہتے ہیں چونچال پیری میں جوانوں کی طرح

    پاتے ہیں اپنوں میں غیروں سے سوا بیگانگی

    پر بھلا تکتے ہیں اک اک کا یگانوں کی طرح

    آس کھیتی کے پنپنے کی انھیں ہو یا نہ ہو

    ہیں اسے پانی دیئے جاتے کسانوں کی طرح

    کام سے کام اپنے ان کو گو ہو عالم نکتہ چیں

    رہتے ہیں بتیس دانتوں میں زبانوں کی طرح

    طعن سن سن احمقوں کے ہنستے ہیں دیوانہ وار

    دن بسر کرتے ہیں دیوانوں میں سیانوں کی طرح

    ’’لیجئے وہ اسٹیشن آگیا۔ اب میں جاتا ہوں خدا حافظ۔ میں آپ سے یہ نہیں پوچھتا کہ آپ نے اپنا قصد بدلایا نہیں کیونکہ جب میں نے آپ کو خدا کی حفاظت میں دے دیا تو پوچھنے کی ضرورت کیا اور میں پوچھنے والا کون، آئیے مصافحہ کرلیجئے، خدا حافظ۔‘‘

    یہ کہہ کر پیر مرد نے اپنا ہینڈ بیگ سنبھالا اور گاڑی سے اتر کر چل دیئے۔ مجھے بھی اس اسٹیشن پر اتر کر گاڑی بدلنا تھی۔ میری گاڑی سامنے کھڑی تھی۔

    صرف پلیٹ فارم درمیان میں تھا، میں چاہتا تھا کہ ذرا ٹھہر کر کسی طرح یہ معلوم کرلوں کہ نوجوان کا ارادہ اب کیا ہے مگر اتنے میں میری گاڑی نے سیٹی دی اور میں مجبوراً اترا اور دوڑ کر بدحواسی میں ایک دوسرے درجہ کے ڈبہ میں گھس گیا۔ چلتے چلتے میں نے دیکھا کہ نوجوان سرجھکائے گہری فکر میں ڈوبا ہوا بیٹھا ہوا ہے اور موٹےمسافر کھڑکی سے سرنکالے اپنے لحن شدا دی میں چائے والے کو پکار رہے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے