بڑے خوار ہوئے نوکری کی تلاش میں
یہ ہماری نوجوانی کے زمانے کاذکر ہے، ہم ایک ایسے نوجوان تھے جن کی تعلیم پر ماں باپ کی کمائی لٹ چکی تھی اور جن کی آئندہ کی زندگی سے والدین کی ہزاروں امیدیں وابستہ تھیں۔ وہ ہم کو جان سے پیارا، آنکھوں کا تارا اور زندگی کا سہارا سمجھتے تھے۔ ہماری طالب علمی کا زمانہ جوبڑی راحت کا زمانہ تھا، اس طرح ختم ہوگیا جس طرح آج کل تنخواہ، پروانے کی زندگی چیل کے گھونسلے میں ماس، عیاش کی دولت، فاحشہ کی جوانی یا نل میں پانی، متعدد ڈگریوں سے مصلح ہوکر اور علم کے نورسے منور ہو کر جب ہم نے اپنے آپ کو آزاد پایا، یعنی امتحان پاس کرنے کی مصیبت سے جب ہم کو چھٹکارا ملا تو خوشی سے ہمارے قدم زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ کاونٹ آف مونٹی کرسٹو کی طرح ہم بھی بے خود ہو کر چلائیں کہ ’’دنیا ہماری ہے۔‘‘
کچھ دن بلکہ مہینے اسی عالم میں گزرے۔ اس کے بعد ہم کو گھر والوں نے بڑی صلاحیت کے ساتھ اس بات کا احساس کرایا کہ ہم سیر و تفریح اور پانچ وقت کھانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کر رہے تھے۔ یہ جان ہمیں بڑا دکھ ہوا اور ہم بے فکری کے آسمان سے بیکاری کے میدان پر دھم سے آگرے۔ لیکن ابھی نوجوانی کے بہت سے ولولے دل میں باقی تھے۔ کچھ گرمی ڈگریوں کی بہتات نے پیدا کر رکھی تھی۔ ہم نے سوچا بھلا یہ بھی کوئی بات ہے، جہاں چاہیں گے، جب چاہیں گے ملازم ہوجائیں گے۔
اخباروں میں نوکری کے اشتہار جب ہم دیکھتے تو ہم کو ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے یہ اشتہار محض ہماری توجہ خاص کے لئے چھپوائے گئے تھے۔ چنانچہ ہم نے دھڑا دھڑ درخواستیں بھیجنی شروع کردیں۔ بعض اداروں سے ہمیں درخواستوں کی وصولیابی کی اطلاعیں بھی ملیں مگر کہیں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ کئی مرتبہ ہم نے رجسٹری کرکے جواب طلب بھی بھیجے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، یعنی خاموشی۔ عظیم و بسیط و دحشت انگیز! اس طرح ہماری خود اعتمادی رفتہ رفتہ ڈگمگانے لگی۔
تلاش ملازمت اب ہمارے لئے نہایت پراسرار صو رت اختیار کرتی جارہی تھی اور ہم اس مہم میں اپنی سرگرمیاں بڑھاتے چلے جارہے تھے۔ درخواستیں بھیجنے کے علاوہ ہم نے اپنی ریاست میں بھی ایسا ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ ہمارے جوتوں کی ایڑیاں گھس گئیں۔ کئی دفتروں کے چکر ہم نے کاٹے، کئی بار سوخ لوگوں سے ہمیں ملایا گیا، لیکن جہاں جاتے جس سے ملتے وہ یہی بتلاتا کہ ’’صاحب! نوکر! کسی اور چیز کا ذکر کیجئے۔‘‘ اور یہ حقیقت واضح کرتے ہوئے وہ ایسا انداز اختیار کرلیتا جیسے ہم کسی چھوت کے خطرناک مریض تھے اور جس سے جس قدر جلد نجات ملے اتنا ہی اچھا!
پانچ چھہ مہینے کی کوشش کے بعد جب کہ ملازمت دلانے والے محکموں اور مختلف دفتروں کے چپراسی ہمارے دوست اور ان دفتروں کے پڑوس کے کتے تک ہم سے مانوس ہوچکے تھے اور ہم کو بھی اپنے ہی زمرہ کا ایک سخت جان جاندار سمجھنے لگے تھے، ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ کوروؤں اور پانڈؤں کے زمانہ میں شاید نوکری مل جاتی ہو مگر 1940 میں یہ شے کم از کم ہمارے لئے تو نایاب ہوچکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں اس بات کا احساس تھا کہ ہم اپنے والدین کی پیری کا عصا اور گونا گوں تمنائوں کا مرکز تھے۔ ان کی امیدیں ہماری ذات ہی سے وابستہ تھیں۔ اس لئے ہم ناامید ہو کر بیٹھ جانے کے موقف میں نہیں تھے۔ چنانچہ ہر صبح اٹھ کر ہم اخبار دیکھتے اور نوکری کے اشتہار پڑھ کر درخواستیں تیار کرلیتے اور پھر تین چار گلاس پانی کے گلے میں انڈیل کر تاکہ راستہ میں پیاس نہ لگے، گھر سے نکل جاتے اور مختلف دفتروں میں عرضیاں داخل کرنے کی غرض سے ان کے ارد گرد منڈلانے لگتے۔ اکثر وبیشتر ہمیں دفتروں میں صاحبوں کے کمروں کے باہر چپراسیوں کے پاس بیٹھنا پڑتا۔ وہ ہمارے ساتھ دوسری عالمگیر جنگ سے لے کر گھر میں دوب بیویوں کی لڑائی، سفید شکر کی سیاہ مارکٹ میں فراوانی، بیڑی پینے کے فوائد اور بال سیاہ کرنے کے مجرب نسخوں جیسے مضمونوں پر بحث کرتے اور جب ہم اس اکسیر کا ذکر کرتے جس کی تلاش میں ہم ان سے کندھے سے کندھا ملائے بیٹھے تھے تو نہایت مفکرانہ مسکراہٹ سے جواب دیتے کہ ’’میاں ابھی تمہاری عمرہی کیا ہے، مل جائےگی۔‘‘ اور پھر بتلاتے کہ کس طرح ان کو بھی اس وقت تک دفعداری کی ملازمت نہیں مل سکی جب تک کہ ان کی تیسری بیوی کے چھوٹے ماموں نے جو بڑے صاحب کے بنگلے پر بحیثیت فراش ملازم تھے، اپنے رسوخ کو استعمال کرکے ان کی سفارش نہیں کی تھی اور یہ مجھے بتلایا جاتا جس کی بیوی کے ماموں کا ہونا تو درکنار خود اپنا ہی کوئی ماموں نہ تھا۔
غرض کچھ اس قسم کے ماحول میں ہم ایڑیاں رگڑتے رہے۔ اب تک بھی نوکری کے اشتہاروں کو دیکھ کر ہم کبھی کبھی اپنے تصور میں خود کو مشتہر ملازمت کے عین قابل سمجھتے۔ مگر جب بفرض محال کبھی انٹرویو کے لئے بلائے جاتے تو انٹرویو لینے والے اصحاب کی نظروں میں ہم ’’ناتجربہ کار‘‘ ’’خام‘‘ اور ’’کچے ‘‘ سمجھے جاتے اور لہذا ملازمت زیر بحث کے لئے ناقابل!
ان انٹرویوز میں ہم سے کچھ اس قسم کے سوال کئے جاتے، ’’چین کا سب سے بڑا دریا کون سا ہے۔‘‘ ’’ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی کیاہے؟‘‘ ’’دریائے بیاس کی گہری کیا ہے؟‘‘ ’’کس جانور کو پیاس کم لگتی ہے۔‘‘ ’’امریکہ کا پریسیڈنٹ کون ہے؟‘‘ ’’ڈنمارک کن چیزوں کے لئے مشہور ہے؟‘‘ ’’اگر تمہارا ہوائی جہاز گرپڑے تو زمین پر سے اٹھنے کے بعد تم پہلا کام کیا کروگے؟‘‘ ’’سائیکل چلاتے وقت پیڈل پرایڑی رکھنی چاہئیے یا پنجہ ؟‘‘ ’’کیا سہگل گنجہ ہے ؟‘‘ ’’دنیا کا سب سے بڑا عاشق کون تھا؟‘‘ ’’بلوا منگل، فرہاد، مجنوں یا رومیو؟‘‘ ’’چارلی چپلن اور ہٹلر کے چہروں میں کیا مشابہت ہے؟‘‘ وغیرہ وغیرہ اور جب ہم ایسے سوالوں کے جواب خاطر خواہ طور پر دے دیتے تو پھر اگر ملازمت اسکول ماسٹری ہوتی تو پوچھا جاتا کہ پہلے کہیں اسکول میں پڑھایا ہے؟ اور جب ہم کہتے کہ’’جی نہیں‘‘ ’’تو وہ کہتے ’’خدا حافظ‘‘ ’’تشریف لے جائیے۔‘‘ اگر کام انتظامی نوعیت کا ہوتا تو انتظامی کام کا تجربہ پوچھا جاتا۔ بہرحال جب ہم اس تجربہ والے سوال کو سن سن کر تنگ آگئے تو بعد کے انٹرویو میں جب چین کے بڑے دریا کو عبور کرکے، مائونٹ پر ریگستانوں میں سفر کرتے، روزولٹ سے تعارف کراکے، ڈنمارک کے پنیروں کا مزہ چکھتے، ہوائی جہاز سے گرپڑنے کے بعد اپنی پتلون جھاڑتے ہوئے سائیکل کے پیڈلوں پر پنجےجمائے، سہگل کے گنجے سر پر ہاتھ پھرتے ہوئے، مجنوں کو سراہتے، جنوں کی سی حالت میں تجربے کے موضوع پر پہنچتے تو ہمارا جواب یہ ہوتا کہ ’’صاحب! امتحانوں کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد کام کا تجربہ حاصل کرنے کی کوشش میں اب تک ہمارا جو تجربہ رہاہے وہ یہ ہے کہ ہم کو تجربہ حاصل کرنے کا موقع دینے کے لئے کوئی تجربہ کار تیار نہیں۔‘‘
یہ جواب دے کر اور خدا حافظ کہتے ہوئے ہم باہر نکل آتے اور دفترکے چپراسیوں سے وعدہ کرتے ہوئے کہ ’’پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔‘‘ انٹرویو کے مقام سے گھر تک کا راستہ طے کرکے اور انٹرویو کے کپڑے آئندہ کے انٹرویو کے لئے حفاظت سے تہہ کرکے اپنی کھٹیا پر بےکسی اور بے بسی کی تصویربن کر پڑجاتے۔
یہ زمانہ ہمارے بڑے دکھ کا زمانہ تھا۔ والدین جو کہ اب تک مسلسل ہماری ذات پر تن اور من اور دھن نچھاور کرتے آرہے تھے، ہماری ملازمت کے بارے میں اپنا صبر وسکون بر قراررکھے، مجھے اس ماہی گیر کی یاد دلاتے جو کانٹا پھینک کر مچھلی پھنسنے کے انتظار میں بیٹھا ہو۔ لیکن پڑوسی اور رشتہ دار ہماری بیکاری کو شک کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ بعض حضرات نے تو یہ بھی کہنا شروع کردیا تھا کہ ’’صاحب لڑکا آوارہ ہے۔ کام کرنا ہی نہیں چاہتا، ورنہ ایسی ڈگریاں اور بیکاری کا یہ عالم! دیکھتے نہیں شام کو جب گھر لوٹتا ہے تو چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں اور آنکھوں کے گردسیاہیاں نظرآتی ہیں۔ شاید چرس یا گانجہ پیتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ پڑوسنیں اور رشتہ دار نیاں چہ مہ گوئیاں کرتیں کہ ’’فلاں کا لڑکا بیکار مارا مارا پھرتاہے۔ جانتی ہو، یہ انگلستان تو گیا تھا مگر پڑھ لکھ کر نہیں آیا۔ بچارے ضعیف ماں باپ کی دولت برباد کرکے آیا ہے۔‘‘
جب ان باتوں کی بھنک ہمارے کان میں پڑتی تو ہم خون کے آنسو پی کر رہ جاتے۔ ان بھلے مانسوں کو کیا معلوم کہ سارا دن مارے مارے پھرنے اور جگہ جگہ دھتکار دئے جانے کے بعد ہمارے منھ پر ہوائیاں نہ اڑتیں تو کیا خوشی کے مارے گلے پھول جاتے۔ ہماری پڑوسنوں کو اس بات کی کیا خبر کہ ہمیں ملازت دئیے بغیر ہی ہم سے تجربے دیکھنے کی خواہش کی جارہی تھی اور اگر ہم کبھی کسی ملازمت کے قابل سمجھے بھی جاتے تو ہماری راہ میں کسی کا سالا آکھڑا ہوتا تھا۔
کچھ اس قسم کے بیچارگی کے ماحول میں دن گزرتے گئے، بالآخر جب ہماری سب امیدیں مٹ گئیں اور تمام ولولے پاش پاش ہوگئے اور جب ہم ہر قسم کی ملازمت سے مایوس، بیزار اور نراش ہوکر اپنے انگلستان کے سوٹ بیچ کر پان بیڑی کی دوکان لگانے پر آمادہ ہوگئے تو ہماری بے بسی اور بے کسی پر ترس کھاکر ایک صاحب کی سفارش پر ہماری ڈگریوں کی بنا پر نہیں بلکہ محکمہ کی ٹیم کی طرف سے کھیلنے کے لئے ہمیں فسٹ گریڈ کلرک کی نوکری مل گئی اور جب ہم دفتر پہنچے تو بجائے اس کے کہ کوئی ہمارے علم سے مرعوب ہو اور ہم سے ہمدردی جتلاتے، اس دفتر کے سینئر سکینڈ اور تھرڈ گریڈ کلرکوں نے جن کی ترقیاں ہمارے آٹپکنے سے رک گئی تھیں ہمیں ایسی صلواتیں سنائیں کہ وہ دن کبھی نہیں بھولے گا۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کی مخاصمت کم ہوتی گئی اور ہم نے تجربہ حاصل کرنا شروع کیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.