بڑے شاعر اور ادیب کنوارے کیوں مر گئے
پنجابی صوفی شاعری میرے بدن اورروح میں ان پرتشدد زمانوں میں جب کہ بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کو اور ہمارے جوانوں کو ہلاک کر کے اُن کے سر کھمبوں پر آویزاں کرنے والوں کو شہید قرار دیا جاتا ہے۔ بے وجہ قتال اور اپنی دھرتی کے خلاف ’’جہاد‘‘ کرنے کو جائز ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ صرف پنجاب کے صوفی شعراء کا کلام ہے جو مجھے ڈھارس دیتا ہے۔۔۔ کہ نہیں، بے شک یہ کشت ویراں ہے، اس میں بارود اور خون کی بو ہے۔۔۔ ایک بھٹے میں زندہ جلائے جانے والے بے قصور جوڑے کے جلتے ہوئے گوشت کی بو ہے لیکن یہ ہم نہیں، ہمارا دین یہ نہیں۔۔۔ میرے پیارے رسول ﷺ کا یہ پیغام تو نہیں اور یہ صرف پنجابی صوفی شاعر ہیں جو امن اور سلامتی کے اس پیغام کو عام کرتے ہیں۔ میاں محمد صاحب کہتے ہیں۔
بال چراغ عشق دا تے کر دے روشن سینہ
دل دے دیوے دی رُشنائی جاوے وِچ زمیناں
ہم تو عشق کا چراغ روشن کرنے والے ہیں اور ہمارے دل میں عشق رسول اللہؐ کا دیا جلتا ہے اُس کی روشنی تو زمینوں کے اندر تک چلی جاتی ہے۔ ہم نے یہ دِیا کبھی بجھنے نہیں دینا۔ بس یہی ہماری فلاح ہے اور یہی شفاعت کا واحد راستہ ہے۔
میں نے پچھلے کالم میں شیخ منظور الٰہی مرحوم کو یاد کرتے ہوئے اُن کی رہائش گاہ میں جو یادگار محفلیں ہوا کرتی تھیں اُن کا تذکرہ کیا تھا تو ایک بار مشتاق احمد یوسفی نے مختار مسعود صاحب سے پوچھا۔۔۔ اور یاد رہے کہ ’’آواز دوست‘‘ کے مصنف مختار مسعود صاحب سوہنی کے شہر گجرات کے باسی ہونے کے باوجود پنجابی میں کلام کرنے سے گریز کرتے ہیں اور نہایت نستعلیق اردو میں حاضرین محفل سے گفتگو کرتے ہیں، علی گڑھ کے تہذیبی حصار سے باہر نہیں آتے اور تانگے کو ہمیشہ ٹم ٹم ہی کہا کرتے تھے تو یوسفی صاحب نے پوچھا ’’مختار صاحب۔۔۔ ان دنوں آپ کی تخلیقی مصروفیات کیا ہیں‘‘ تو مختار مسعود کہنے لگے ’’ان دنوں میں صوفیا کرام کی عائلی زندگی کے بارے میں تحقیق کر رہا ہوں۔۔۔ کہ وہ کیسی تھی‘‘،
’’بری ہی ہو گی‘‘ یوسفی صاحب نے نہایت سنجیدگی سے کہا ،تبھی تو وہ صوفی ہو گئے
پچھلے دنوں میرے دوست مشتاق صوفی نے، اور وہ عجیب سے صوفی ہیں، انہوں نے ایک انکشاف کیا کہ جتنے بھی بڑے صوفی شعراء ہو گزرے ہیں اُن میں سے بیشتر غیر منکوحہ رہے، انہوں نے عمر بھر شادی نہ کی۔۔۔
بے شک وارث شاہ اپنی بھاگ بھری کے عشق میں مبتلا رہے لیکن ایک مجرد زندگی گزار دی۔ نہ ہی بلھے شاہ نے شادی کی اور نہ ہی شاہ حسین نے۔۔۔ یہاں تک کہ میاں محمد بخش بھی کنوارے ہی رہے۔۔۔ تو کیا اُن کی عظیم شاعری صرف اس لیے وجود میں آئی کہ وہ کبھی شادی کے بندھن میں نہ بندھے۔۔۔
اب میں اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑاتا ہوں کہ انہوں نے عمر بھر عورت کی قربت سے، ایک بیوی کی رفاقت سے کیوں گریز کیا۔ شاید اس لیے کہ وہ دنیاوی رشتوں سے ماورا ہو کر اُس ایک عشق میں مبتلا ہو گئے تھے جس کے بعد کسی انسانی عشق کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔۔۔ وہ انسانی رشتوں سے اس لیے گریز کرتے تھے کہ وہ معاشرے کے بندھنوں سے بندھ کر محدود ہو سکتے تھے وہ لامحدود کی جستجو میں تھے۔۔۔ اگرچہ یہ کوئی حتمی کلیہ تو نہیں ہے، بہت سے بڑے تخلیق کار شادی شدہ تھے اور اس کے باوجود انہوں نے بڑی شاعری اور عظیم ادب تخلیق کیا لیکن ذرا دیکھئے کہ۔۔۔ نہ ہمیں عظیم شاعر ہومر اور نہ ہی شیکسپیئر کی بیوی کا سراغ ملتا ہے۔۔۔ غالب اگرچہ شادی شدہ تھے اُن کی اہلیہ نے اُن پر کیسے کیسے ستم ڈھائے، ٹالسٹائی اپنی بیوی سے فرار ہو کر کسی نامعلوم ریلوے سٹیشن پر جا کر مر گیا۔ دوستووسکی کے بارے میں بھی کیا کہہ سکتے ہیں کہ اُس کے شادی شدہ ہونے کا کہیں تذکرہ نہیں۔ لارڈ بائرن تو ویسے ہی ایک کھلنڈرا شخص تھا، میر تقی میر کے بارے میں بس کوئی تحقیق کرے کہ کیا وہ اُسی عطار کے لونڈے سے ہی دوا لیتے تھے یا کبھی منکوحہ بھی ہو گئے۔۔۔ اپنے شیخ سعدی نے بھی ’’بوستان‘‘ میں نہایت حسین لونڈوں کا تذکرہ کیا ہے، کیا کسی کو معلوم ہے کہ انہوں نے کبھی شادی بھی کی۔۔۔ عمر خیام بھی اگرچہ رنگ رنگیلے تھے لیکن اُن کی بیگم کا بھی سراغ نہیں ملتا۔
چند برس پیشتر نیویارک سے کچھ فاصلے پر ٹیری ٹاؤن قصبے میں مشہور امریکی مصنف ارونگ واشنگٹن کا پرانا گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا جو دریائے ہڈسن کے کنارے واقع ہے۔ مجھے ارونگ سے لگاؤ اس لیے تھا کہ اس نے ’’الحمرا کی کہانیاں‘‘ نام کی کتاب لکھی جس نے یورپ بھر کو احساس دلایا کہ اُندلس کے شہر غرناطہ کی ایک پہاڑی پر مسلمانوں کے تعمیر کردہ ایک شاہکار قصر کے کھنڈر بکھرے پڑے ہیں اور اس عجوبے کو فنا نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اسے بحال کر کے اس کی عظمت کو محفوظ کر لیا گیا۔ ارونگ ایک امریکی سفارت کار کی حیثیت سے غرناطہ تعینات ہوا اور اُس نے الحمرا کے اجڑے ہوئے قصر میں قیام کے دوران1829ء میں ’’الحمرا کی کہانیاں‘‘ اپنے تصور کے کرشمے سے تخلیق کیں ۔۔۔ ’’میں نے ٹیری ٹاؤن کے قبرستان سیپسی ہالو میں اس کی قبر بھی دیکھی اور اس کا پرانا مکان بھی دیکھا اور وہاں گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ واشنگٹن ارونگ نے بھی کبھی شادی نہ کی اور اس کی بھتیجیاں اس کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔
اب یہ محققین کا کام ہے کہ وہ کھوج لگائیں کہ دنیا کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے آخر شادی سے کیوں گریز کیا۔ تمام عمر تنہائی میں کیوں بسر کی۔ شاید میں آج تک بڑا مصنف نہیں بن سکا کہ میری تو شادی ہو گئی تھی بلکہ کسی حد تک کر دی گئی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.