گزشتہ بدھ کی شام ہمارا صدر کے ایک نامی ریستوران میں جانا ہوا۔ بیرا لپک کر آیا۔ ہم نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘ بولا، ’’جی اللہ کا دیا سب کچھ ہے!‘‘ ہم نے کہا، ’’کھانے کو پوچھ رہے ہیں۔ خیریت دریافت نہیں کر رہے۔ کیونکہ وہ تو تمہارے روغنی تن و توش سے ویسے بھی ظاہر ہے۔‘‘ کہنے لگا، ’’حلیم کھائیے۔ بڑی عمدہ پکی ہے۔ ابھی ابھی میں نے باورچی خانے سے لاتے میں ایک صاحب کی پلیٹ میں سے ایک لقمہ لیا تھا۔‘‘
’’لیکن آج تو گوشت کا ناغہ ہے۔‘‘ بولا، ’’ہوا کرے۔ یہ مرغ کی حلیم ہے۔ آپ کھاکے تو دیکھیے۔ فوراً بانگ دینے کو جی چاہے گا۔‘‘
’’نہاری ہے؟‘‘
’’جی ہاں ہے، مرغ کی نہاری بھی ہے، بٹیر کی نہاری بھی ہے۔‘‘
’’بٹیر کی نہاری؟‘‘
بولا، ’’جی ہاں اور اس کے علاوہ پدی کا شوربا بھی ہے۔ تیتر کے سری پائے ہیں۔ مسور کی دال کے تکے کباب ہیں۔ آپ کل آئیں تو بھینسے کے گوشت کا مرغ پلاؤ بھی مل سکتا ہے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’بٹیر کی نہاری لاؤ فی الحال۔‘‘
ہمارے ساتھ ہمارے ایک دوست تھے۔ دلی کے جیوڑے، نہاری آئی تو بولے، ’’میاں نلیاں تو اس نہاری میں ہیں نہیں۔ ہم لوگ جب تک نلیوں کو پیالی کے سرے پر بجا بجا کر نہ چوسیں مزا نہیں آتا۔‘‘ بیرا جانے کیا سمجھا۔ ایک طشتری میں خلال اٹھا لایا۔ ہم نے کہا، ’’میاں خلال تو کھانے کے بعد درکار ہوتے ہیں۔ کچھ تمیز ہے کہ نہیں۔‘‘ بولا، ’’حضور یہ خلال نہیں۔ نلیاں ہیں۔ بٹیر کی نلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ویسے ہم آئندہ نلیوں کے شوقینوں کے لیے پلاسٹک کی نلیاں بنوارہے ہیں۔ ناغے کے دن نہاری اورشوربے کے ساتھ پیش کی جایا کریں گی۔ گودا ان کے اندر آلوؤں کا ہوا کرے گا۔‘‘
ہمیں معلوم نہیں کہ ہر چیز کا نعم البدل نکالنے والوں نے پلاسٹک کے بکرے بھی ایجاد کیے ہیں یا نہیں۔ ان کی ضرورت کا احساس ہمیں عید سے دو روز پہلے ہوا۔ وہ یوں کہ ہم دفتر جاتے برنس روڈ سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ دیکھا کہ ہجوم ہے۔ راستہ بند ہے۔ آدمی ہی آدمی۔ دنبے ہی دنبے۔ بکرے ہی بکرے! ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا، ’’یہ کیا میلہ مویشیاں ہو رہا ہے۔ ہم نے اشتہار نہیں پڑھا اس کا۔ میلہ مویشیاں ہے تو ساتھ مشاعرہ بھی ضرور ہوگا۔ ایک غزل ہمارے پاس بھی ہے۔‘‘ بولا، ’’جی نہیں۔ یہ بزنس روڈ کی بکرا پیڑی ہے۔ لیجیے یہ دنبہ لے جائیے۔ آپ کے خاندان بھر کو پل صراط سے پار لے جائے گا۔‘‘
ہم نے پوچھا، ’’ہد یہ کیا ہے اس بزرگ کا؟‘‘ بولے، ’’پانچ سو لے لوں گا۔ وہ بھی آپ کی مسکین صورت پر ترس کھا کر۔ ورنہ چھ سو روپے سے کم نہ لیتا۔‘‘ ادھر سے نظر ہٹاکر ہم نے ایک اللہ لوگ قسم کے بکرے کی طرف دیکھا جو مارے ضعف اور ناتوانی کے زمین پر بیٹھا تھا۔ہم نے کہا، ’’اس ذات شریف کے کیا دام ہوں گے؟‘‘ اس کا مالک دوسرا تھا۔ وہ بھاگا آیا۔ بولا، ’’جناب آپ کی نظر کی داد دیتا ہوں۔ بڑی خوبیوں کا بکرا ہے۔ اس کی داڑھی پر نہ جائیے۔ ایک میمن گھرانے میں پلا ہے ورنہ عمر اس کی زیادہ نہیں۔ آپ سے دو چار سال چھوٹا ہی ہوگا۔‘‘ ہم نے کہا، ’’یہ چپ چاپ کیوں بیٹھا ہے۔ جگالی تک نہیں کرتا۔‘‘ بولے، ’’دانتوں میں کچھ تکلیف تھی۔ پوری بتیسی نکلوادی ہے۔ خیال تھا مصنوعی جبڑا لگوانے کا۔ لیکن اتنے میں عید آ گئی۔‘‘
’’کتنے کا ہوگا؟‘‘
’’دوسو دے دیجیے۔ اتنے میں مفت ہے۔‘‘
ہم نے اپنی جیب کو ٹٹولا اور کہا، ’’سوروپے سے کم کی چیز چاہیے۔‘‘ بولے، ’’پھر آپ مرغ کی قربانی دیجیے۔ چوپایہ نہ ڈھونڈیے۔‘‘ اس سے کچھ آگے ایک کالا بکرا نظر آیا۔ کالا ہونے کی وجہ سے نظر بھی آ گیا۔ ہم نے اس پر ہاتھ پھیرا لیکن اتنے میں ہوا کا جھونکا آیا اور یہ دور جا پڑا۔ہم نے مالک سے کہا، ’’یہ بکرا ہے یا بکرے کا خلاصہ؟‘‘ مالک نے کہا، ’’سائیں آج کل زمانہ ہی خلاصوں کا ہے۔ یہ تو خلاصہ ہے۔ ایسے ایسے بکرے آپ کو دکھاؤں کہ آپ ان کو گیس پیپر کہیں۔ جانور کا ست قرار دیں۔ ہوا تیز ہے لہٰذا اپنی جیب میں ڈال رکھے ہیں۔‘‘
ہم نے کہا، ’’دکھاؤ تو۔‘‘ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور مٹھی کھول کر کہا۔ یہ لیجیے۔ ہم نے کہا، ’’ہمیں تو نظر نہیں آتا۔‘‘ بولے، ’’قریب سے دیکھیے۔ جھک کے دیکھیے۔ سستا بھی ہے، چالیس روپے میں ہوجائے گا۔‘‘ ہم نے گھڑی دیکھ کر کہا، ’’اچھا کل سہی۔ اس وقت تو ہمیں دیر ہو رہی ہے۔‘‘ ان بزرگوں نے ایک مینڈھے کو ششکارا کہ صاحب کو دیر ہو رہی ہے ذرا پہنچا آئیو ان کے دفتر۔وہ سینگ جھکا کر ہماری طرف لپکا۔
جب کوئی چیز نایاب یا مہنگی ہوجاتی ہے تو اس کابدل نکل ہی آتا ہے جیسے بھینس کانعم البدل مونگ پھلی۔ آپ کو تو گھی سے مطلب ہے۔ کہیں سے بھی آئے۔ اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ ہمارے ہاں بکرے اور دنبے کی صنعت بھی قائم ہو۔ آپ بازار میں گئے اور دکاندار نے ڈبا کھولا کہ جناب یہ لیجیے بکرا، اور یہ لیجیے پمپ سے ہوا اس میں خود بھر لیجیے۔ کھال اس بکرے کی کیریلین کی ہے۔ اور اندر کمانیاں اسٹین لیس اسٹیل کی۔ مغز میں فوم ربڑ ہے۔ واش اینڈ ویر ہونے کی گارنٹی ہے۔ باہر صحن میں بارش یا اوس میں بھی کھڑاکر دیجیے تو کچھ نہ بگڑے گا۔ ہوانکال کر ریفریجریٹر میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ آج کل قربانی والے یہی لے جاتے ہیں۔
رسالوں کا زمانہ گیا۔ اب ڈائجسٹوں کا دور ہے۔ لیکن ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے مزا بٹیر کی نہاری کا ہی آتا ہے کہ بچارے کی جان گئی اور کھانے والے کو سواد نہ آیا۔ پھر زیادہ مصروف لوگوں کے لیے ڈائجسٹوں کے ڈائجسٹ نکلے۔ خلاصتہ الخلاصہ۔ خیر بہت سی کتابیں ہیں بھی اس قابل کہ محض ان کا استعمال کیا جائے۔ ہمیں تو کوئی کسی ناول کے پڑھنے کی سفارش کرے تو ہم پوچھتے ہیں کہ صرف اتنا بتا دو کامیڈی ہے یا ٹریجڈی؟ آخری باب میں باجے گاجے بجتے ہیں یا ہیرو ہیروئن کی قبر پر کھڑے ہوکر ٹسوے بہاتا ہے اور آسمان سے رحمت کے پھول برستے ہیں۔ بیچ کے مناظر سے ہمیں مطلب نہیں کیونکہ ان میں حد سے حد رقیب ہوگا۔ سو آخری سے پہلے باب میں اپنے کیفر کردار کو پہنچا ہوگا یا اس کے من کی آنکھیں کھل گئی ہوں گی یا جیل میں اکڑوں بیٹھا چنے کی دال سے جو کی روٹی کھا رہا ہوگا۔
ہمارے خیال میں اخباروں کے ڈائجسٹ بھی نکلنے چاہئیں کیونکہ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ بارہ بارہ چودہ چودہ صفحے پڑھے۔ لوگ تو بس توس کا ٹکڑا منہ میں رکھ، چائے کی پیالی پیتے ہوئے سرخیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ بڑا اخبار نکالنے کے لیے یوں بھی لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ’’سرخی‘‘ کے نام سے ایک روزنامہ نکالیں اور پبلک کی خدمت کریں۔ ہمارے پاس بنک میں پچاس روپے ہیں۔ شائد زیادہ ہی ہوں۔ اب اہل نظر سے سرپرستی کی درخواست ہے۔
اس اخبار میں مزاحیہ کالم کی جگہ صرف یہ لکھا ہوگا، ’’ہنسئے۔‘‘ ایڈیٹوریل کے کالم میں فقط ایک لفظ ہوگا، ’’روئیے۔‘‘ منڈیوں کے بھاؤ کا کالم بھی ہوگا لیکن وہ بھی ایک لفظی ’’لٹیے۔‘‘ ریلوں اور ہوائی جہازوں کے اوقات بھی ہم تفصیل سے نہ دیں گے۔ ان کی جگہ فقط ’’جائیے ‘‘ کا لفظ ہوگا۔ ڈائجسٹ نئی چیز نہیں۔ کسی نے پرانے زمانے میں حضرت یعقوبؑ اور یوسفؑ کے قصے کا خلاصہ بھی سرخیوں میں لکھا تھا، ’’پدرے بود۔ پسرے داشت۔ گم کرد۔ بازیافت۔‘‘ آپ خود ہی سوچئے اصل بات اتنی ہی تو ہے۔ زلیخا کے قصے سے کتنوں کو دلچسپی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.