بی عورت کی کہانی بوا صداقت کی زبانی
اللہ رکھے صداقت بوا کسی تعارف کی محتاج نہیں اور اگر ان کا تعارف کرانا ہو تو پھر کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا ہوگا جس نے ان کی جوانی دیکھی ہو۔ چڑھ چڑھاؤ دیکھا ہو۔ ان کی اپنی کَہن تو یہ ہے کہ جوانی میں باپ اور بھائیوں کے علاوہ کسی نے ان کی پرچھائیں تک نہ دیکھی تھی۔ بس پہلے پہل اللہ بخشے، ان کے میاں نے دیکھا اور شاید وہ تاب نہ لاسکے، کیونکہ بے چاری صرف سات سال سہاگن رہ کر رانڈ ہوگئیں۔ مگر صاحب یہ انھیں کا جامہ تھا کہ سارا رانڈاپا اسی وضعداری سے کاٹا اور آج تک بڑیوں کے کڑے کے پاس جامن والے مکان میں بڑی آن بان سے رہتی ہیں۔ میں نے تو ان کا زوال ہی دیکھا مگر سچ کہتا ہوں اس گھٹتی کے زمانے میں بھی مغلوں کے وقار کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔
کوئی اسی پچاسی برس کی عمر ہوگی۔ سفید سر، کمر میں ہلکا سا خم، پوپلا منھ، جس میں اب صرف عقل داڑھیں ہی باقی بچی ہیں۔ چہرے پر معمولی سی جھریاں، مگر رنگ ایسا جیسے انڈے کا چھلکا سفید سفید کھا ل میں سرخی یوں جھلکتی ہے جیسے دودھ کی نہر میں سیندور گھلا ہو، ہاڑ کباڑ بھی ماشاء اللہ خوب ہے۔ لمبے لمبے ہاتھ پاؤں، چوڑی تختہ سی کمر، اور آواز کا تو کہنا ہی کیا بس جیسے شیر کی گرج۔ اللہ جانے اگر ہم چیخ کر بولیں تو ان کے آگےمیمنے لگیں۔ جامنوں کے موسم میں بچے اکثر ان کی چھت پر یورش کردیتے ہیں مگر انھوں نے ایک دھاڑ ماری اور بچوں کی فوج میں کھلبلی مچی۔ کوئی ادھر دوڑا کوئی ادھر بھاگا، کیا مجال کہ ایک بھی کھڑا رہ جائے۔ کبھی چپکے چپکے غیبت کرتی ہیں تو سات گھر پرے آواز جاتی ہے۔ یوں تو بوا صداقت میں ہزاروں خوبیاں ہیں مگر دوسروں کو برا بھلا کہنے سے انھیں بادشاہ بھی نہیں روک سکتا۔ خود کہا کرتی ہیں ’’ارے بُوا خلق کا حلق کس نے پکڑا ہے، بات منہ تک آتی ہے تو کہی جاتی ہے۔ اس میں کوئی برا مانے یا بھلا۔ واہ جی یہ خوب بات ہے کہ دل میں رکھو تو کینہ ور کہلاؤ، منھ پر کہو تو دل آزاری کا ڈر۔ پیٹ پیچھے کہو تو غیبت کا الزام۔ میں تو جنت میں جاؤں یا دوزخ میں کہے بغیر نہیں رہا جاتا۔‘‘
بی صداقت زمانی سے ہمارا دور پرے کا رشتہ ہے اور بچپن میں انھوں نے مجھے الف، بے، تے بھی پڑھائی تھی اس لیے ہفتے عشرے میں ان کے ہاں چلاجاتا ہوں۔ انسان وہ جو تنکا اٹھائے کا احسان مانے اور سچ پوچھو تو مجھے بوڑھوں سے رغبت بھی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ مجھ میں کوئی بوڑھی ارواح ہے مگر میں کہتاہوں کہ پرانے آدمی اور پرانی چیز کی بات ہی کچھ اور ہے۔ آج کل کے آدمی بھی کوئی آدمی ہیں جن کا دین نہ ایمان۔ بے نتھے بیل، چڑھتے سورج کے پجاری۔ بڑوں کو دیکھو کیسی ساکھ بنائے بیٹھے ہیں۔ جان جائے پر ایمان نہ جائے۔ اب بُوا صداقت ہی کو لے لو۔ جتنی دیر ان کے پاس بیٹھتا ہوں پرانی دلی کی شستہ اور شیریں زبان سننے میں آتی ہے۔ ان کا گھر بار، رہن سہن، اور وضعداری دیکھتا ہوں تو مرحوم دہلی کے نقش و نگار آنکھوں میں پھر جاتے ہیں۔ زمانہ بدل گیا دنیا بدل گئی مگر وہ ہیں کہ اپنے طور طریقوں کو اسی طرح نبھائے جاتی ہیں۔ پرانی قدروں پر یوں بیٹھی ہیں جیسے دولت پہ سانپ۔ میں جب بھی ان کے ہاں جاتا ہوں کچھ لے کر ہی آتا ہوں۔ کبھی کوئی اچھا بول کانوں میں پڑگیا۔ کبھی کسی پیر فقیر اللہ والے کاقصہ سنا، کبھی کوئی سبق آموز حکایت سن لی، پھر بھلا بتائیے وہاں جانے میں کیا برائی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اچھوں کی صحبت میں بیٹھے کہ دو اچھے بول کانوں میں پڑیں۔
بی صداقت بھی میری بڑی مداح ہیں۔ ذرا مجھے گئے ہوئے کچھ دن ہوئے اور انھوں نے تقاضا کردیا۔ ’’ائے دیکھنا اسے ضرور بھیج دینا، میری آنکھیں لگی رہتی ہیں، ہمیشہ کا آنے والا کچھ دن نہ آئے تو دل پریشان رہتا ہے۔‘‘ میں گیا اور انھوں نے ادھر ادھر کی سنانی شروع کی۔ بڑی بی پھونس کی گٹھری ہیں۔ ادھر میں نے چنگاری پھینکی، ادھر شعلے بھڑکے۔ کبھی بائیسکوپ کی شان میں قصیدہ ہوا، کبھی بنا سپتی اور چائے زیر بحث آئی۔ کبھی اگلے زمانے کی ارزانی کی داستان آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سنائی۔ آج کل بے دینی کا دکھڑا رویا۔ اور میں ہوں کہ سراپا سماعت بنا بیٹھا ہوں۔ ادھر انھوں نے کسی کو ملامت کا نشانہ بنایا اور میں نے نفرین نفرین پکارا۔ ادھر انھوں نے کسی کی تعریف کی اور میں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ آمنّا و صدقنا کہا۔ غرض وہ ہفتہ پندرہ دن کی بھڑاس ایک ہی دن میں نکال لیتیں اور میں پرانی زبان کا رسیا سنتا اور درود بھیجتا جاتا۔ اللہ اللہ ایسی زبان بھلا دنیا میں کہاں ہوگی۔ سنو تو یوں لگے جیسے کسی نے کانوں میں رس گھول دیا۔ ہزار باتیں ہزار کہانیاں، ہر بات پر نت نئی مثل۔ قرآن و حدیث کی مثالیں یوں دیتی جاتیں جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ گلستاں بوستاں ازبر، فارسی شاعروں کےدیوان حفظ۔ اور گفتگو میں روانی ایسی کہ سانس تک نہیں لیتیں۔ میری خاموشی اور توجہ پر نہال نہال ہوتی ہیں اور میری سعادت مندی کا قصیدہ سارے خاندان کو سناتی پھرتی ہیں۔
مرد لاکھ عیبی سہی مگر اللہ کا فضل ہے کہ عیب جو اور عیب بیں نہیں۔ میں نے آج تک کسی مردکو مردوں کی برائی کرتے نہیں سنا، خواہ تمام مرد جھوٹ بولیں لیکن مردوں کا قول ضرب المثل ہے۔ شاید اسی صفت نے مرد کے عیبوں پر پردے ڈال رکھے ہیں مگر عورتوں کے لیے تو نہ مرد اچھے نہ عورتیں۔ ان لوگوں میں انگشت نمائی اور نکتہ چینی اس قدر عام ہے کہ الٰہی تو بہ ماں سے بیٹی کی برائی سن لو اور بیٹی سے ماں کی خرابیاں۔ ایک گھر میں چار عورتیں ہوں کیا مجال چاروں ایک دوسرے کو اچھا سمجھیں۔ جب دیکھو نوک جھونک، سر پھٹول۔ ایک میں ایک کیڑے ڈالے گی اور الم نشرح کرتی پھرے گی۔ محلے بھر کی رپورٹ ان کے دل پر لکھی ہوتی ہے۔ فلاں کی بیٹی کا فلاں سے معاشقہ ہے۔ فلاں کی ساس نےبیٹے کے کان بھر کر بہو کو گھر سے نکلوایا۔ فلا نے گھر میں فلاں عیب ہے۔ غرض جتنے شیطانی کام ہوں سب کی داستان اس خدائی فوجدار سے سن لو۔ ہاں اگر کسی کی نیکی کاذکر کیجیے تو بے نیازی کایہ عالم ہوتا ہے کہ بس نہیں چلتا، کانوں میں روئی ٹھونس لیں۔ جو کبھی کچھ کہا بھی تو بس یہ کہ ہم کیا جانیں۔ نیکی کرتی ہوں گی تو اپنے لیے۔ کوئی ہمیں تھوڑی دے جائیں گی۔
صداقت بوا لاکھ نیکیوں کی نیک سہی مگر ہیں تو آخر عورت ہی۔ انھیں بھی اپنی قوم سے اللہ واسطے کابیر ہے اورسب باتوں سے زیادہ عزیز آج کل والیوں کا رونا ہے۔ میں بھی ان کی رگ رگ سے اچھی طرح واقف ہوں۔ جب کبھی فرصت ہوتی ہے اور ان کی شعلہ بیانی سےلطف اندوز ہونے کو جی چاہتا ہے تو کہیں نہ کہیں سے بات نکال نکول کر اسی موضوع پر لے آتا ہوں ’’دادی اب تو لڑکیوں نے بھی بڑی ترقی کرلی ہے۔ ہزاروں لاکھوں کالجوں میں پڑھتی ہیں۔ ہر کام میں مردوں سے آگے ہیں۔‘‘ میں تو اتنا کہہ کر چپ ہوا اور وہ آئیں تو جائیں کہاں۔ ’’نا بیٹا ہمارے زمانے میں تو لڑکی کا گھر سے نکلنا عیب سمجھتے تھے، ہم کیا جانیں موئے لڑکوں کے ساتھ کالج میں پڑھنا اور پھر نوکری کرے لیے جوتیاں چٹخاتے پھرنا۔ پہلے تو ادھر میٹھا برس لگا اور ادھر ماں باپ نے ادھی پاولی کا مزدور دیکھ کر ہاتھ پیلے کیے۔ لو جی لڑکی پرائے گھر کی ہوئی۔ ائے نوج جو ہمیں کمانا پڑتا، ہمارے میاں، اللہ بخشے، کہتے تھے کہ عورت کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی۔ جو کبھی کبھار میں نے وقت گزارنے کو دو ٹکے کی گجائی بھی لپیٹی تو انھوں نے سینکڑوں صلواتیں سنادیں۔ میں کہتی تھی کہ خالی سے بیگار بھلا۔ مگر وہ، اللہ بخشے، ایسے بنکارتے کہ کیا بتاؤں۔ اور بھئی وہ مثل ہے نہ کہ خدا کی طرف سے بھی شکر خورے کو شکر اور موذی کو ٹکر۔ تو ہمیں کبھی پیسے کوڑی کی تکلیف نہیں ہوئی۔ جب تک وہ رہے، خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، بیگموں کی طرح راج کیا۔ صبح اٹھے خزان کے ہاں سے دونا بھرا حلوہ بیوڑی کا لے آئے۔ لو بھئی دونوں نے ناشتہ کرلیا۔ چائے وائے کا ان دنوں رواج ہی نہ تھا۔ موئے انگریز مفت بانٹتے تھے مگر لوگوں نے پڑیالی اور نالی میں الٹ دی۔ ائے ہاں کون پیتا کڑوا کسیلا جوشاندہ سا۔ اب دیکھو تو کوئی چائے بغیر ہلتا ہی نہیں۔ ناشتہ کر وہ تو اپنے کام پر چلے جاتے اور میرے پاس آنے جانے والیوں کا لٹاکر لگتا۔ ذرا دیر میں اچھی خاصی محفل ہوجاتی۔ پٹاری کی چوکی گھسیٹ بیچ میں رکھی۔ سب نے کلے تازے کیے اور بھئی باتیں شروع ہوگئیں۔ جھاڑو بہارو پکانے ریندنے کو ماما ملازم تھی بس یوں ہی باتوں باتوں میں دن ڈھل جاتا۔ بھلا ہم کیا جانیں بازار والیوں کی طرح مارےمارے پھرنا۔ آج کل والیوں کے توہدڑے گئے ہیں۔ پیروں میں بلیاں بندھی ہیں۔ میرے تو دیکھ دیکھ کے ہوش اڑتے ہیں۔ یا اللہ عورتیں کیا ہوئی خوش بختیاں تماشا ہوگئیں۔ جو برقعے والیاں ہیں وہ صبح سے شام تک برقعے پھڑکاتی پھرتی ہیں اور جنھوں نے اتاردیے انھیں تو خیر روک ہی کون سکتا ہے۔ خدا کا خوف نہ دنیا کی شرم۔‘‘
میں پہلے تو خاموش بیٹھا مٹر مٹر سنتا رہا پھر آہستہ سے شہ دے دی ’’کیا کیا جائے دادی مرد بھی تو تمھارے وقتوں کے نہیں، اب تو انھوں نے بھی ساری ذمے داری عورتوں پر ڈال دی ہے۔ اگر بیچاریاں تمھاری طرح گھر کی چار دیواری میں بیٹھی رہیں تو ساراگھر چوپٹ ہوجائے۔‘‘ میری حمایت کااثر ان پر وہی ہوا جس کی مجھے توقع تھی۔ جوش و خروش دوبالاہوگیا اور بڑی تلملا کر بولیں ’’نہیں جی مرد بیچاروں کا اسمیں کوئی قصور نہیں۔ انھیں تو یہ کالے سروالیاں جس طرح چاہیں نچالیں (ذرا شرماکر) اللہ بخشے ان کی حیات میں جب میں کسی بات پر اڑجاتی تھی تو پوری کراکے ہی چھوڑتی تھی۔ وہ کھسیانے ہوکر کہتے تم تو جھاڑ کا کانٹا بن گئی ہو۔ جو چاہو کرو میں تو تمھارے بھلے کی کہتا ہوں مگر تم جیسی موٹی عقل والی سے کون بحثے، بیٹا تیری تو خیر عمر ہی کیا ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تجھے پیدا ہوئے۔ لوگ مرتے مرگئے پر اس ذات کو نہ سمجھنا تھا نہ سمجھے، مثل مشہور ہے کہ عورت کے سر میں جتنے بال اس سے زیادہ اس میں چلّتر۔
اس بندی کی عجیب خصلت ہے نہ اس کل چین ہے نہ اس کل۔ وہ جو کہتے ہیں کہ گیدڑ کی شامت آئے تو شہر کا رخ کرے۔ میں پوچھتی ہوں اس خیلا خبطن پر مصیبت کیا پڑی تھی جو اچھا خاصا گھر چھوڑ نگوڑی ناٹی سڑکوں پر دھول پھانکنے لگی۔ سوٹہل کرتی ہے تو دو روٹیاں میسر آتی ہیں۔ آگ لگے ایسی کمائی کو۔ عزت آبرو سب ملیا میٹ کردی۔ اور بھئی دیکھنا آرام کے تو سب ہی رسیا ہیں۔ مردوں نے جو دیکھا کہ اس عقل کی ماری نے ہمارا جوا بھی اپنے اوپر لاد لیا تو جھٹ الگ ہوگئے۔ لو اب کماؤ بھی تم اور بچوں کو بھی پالو۔ یہ بے وقوف اپنی دانست میں خوش ہے کہ چلو آزادی تو ملی۔ میں کہتی ہوں کہ اس سے تو وہ غلامی ہزار گنا اچھی تھی۔ بھٹ پڑے وہ سونا جس سے پھٹیں کان۔ میں تو سچی بات کہوں گی۔ چراغِ سحری ہوں۔ گورگڑھا سامنےنظر آتا ہے۔ جوانی میں تو خیر جو چاہا کیا مگر اس سفید چونڈے پر جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ آخر اللہ کے پاس جاؤں گی تو کیاجواب دوں گی۔ مرد بے چاروں نےکیا نہیں کیا۔ خود بعد میں کھایا ان نیک بختوں کو پہلے کھلایا۔ ہزار طرح کے عیش کرائے لونڈی باندی، انا چھو چھو اور غلام پیچھے پیچھے پھرائے۔ جب کہیں جانا ہوا تو ڈولی چڑھیں ٹھمک ٹھمک وہاں جاپہنچیں۔ اچھے سے اچھا کپڑا لتا، گہنا، پاتا، گھر بیٹھے حاضر، زر بفت زری، اطلس کم خواب، تاش تمامی، سونا چاندی، ہیرے جواہرات، کون سی چیز تھی جو انھیں میسر نہ ہو۔ آٹھ آٹھ گزے غرارے۔ جہاز کے جہاز۔ گہنے کا یہ عالم کہ سونے میں لدی پڑی ہیں۔ ہاتھوں میں دس دس تولے کے کنگن۔ کانوں میں یہ بڑی بڑی جھلنیاں کہ سنبھالے نہ سنبھلیں۔ گلے میں کالا گلوبند، ہنسلی، ماتھے پر جھومر ٹیکہ اور دس طرح کے زیور مجھے تو اللہ کی سنوار، نام بھی یاد نہیں، پھر بھی یہ آفت زادیاں مردوں کو برا کہتی ہیں۔ ان کے دیے کا پاپ نہ پن۔ سچ ہے گدھے کی آنکھوں میں نون دیا گدھا کہے میرے دیدے پھوٹے۔ غیرت دار ہوں تو مردوں کے پیر دھو دھو کر پیئں۔ اور جاؤ میں کہے دیتی ہوں کہ جو مزے مردوں کے بل بوتے پر کرلیے وہ بھلا نصیب تو ہوجائیں اب انھیں۔ آخر اللہ رسول نےجو مرد کو حاکم بنایا ہے تو کیا ناغوذ باللہ غلط بنایا ہے۔ جس نے نہ لی بڑوں کی سیکھ اس نے مانگی در در بھیک۔
اب دیکھ لو اس خانہ خراب آزادی نے کچھ ہی دن میں کیا حال بنایا ہے۔ گاڑھے گزی کی کرتیاں اور وہ بھی کم بخت بندروں کی سی۔ سرنگی کے غلاف، شلواریں ہیں تو وہ اچکواں، آزدی سے بیٹھنے دیں نہ اٹھنے۔ اور پھر اس پر نہ پیمک نہ گوٹا نہ ٹھپا نہ مسالہ نہ گنجائی نہ مقیش، ڈیڑھ ڈیڑھ گز کی اوڑھنیاں گلے میں پھانسی کی طرح پڑی ہیں۔ نہ سینہ ڈھکے نہ سر۔ غیرت تو جانے کہاں بیچ کھائی ایک سے ایک زیادہ چالاک، ترت پھرت، نا بھئی نا، اللہ معاف کرے، ہمارے زمانے میں ایسی بے غیرتیں ہوتیں تو دیوار میں چنوائی جاتیں۔ میرا تو دیکھ دیکھ کر کلیجہ خاک ہوتاہے۔ روزبروز نت نئے سوانگ، نت نئے فیشن، کبھی دیکھو تو کانوں میں یہ بڑے بڑے سپیروں کےسے بالے۔ ہاتھوں میں موٹی موٹی سادی چوڑیاں۔ اور کبھی ہاتھ بھی خالی کان بھی خالی لو ٹھاکی لوٹھا مرد بنی پھر رہی ہیں۔ کپڑے ہیں تو آج کل کے بنے بیکار۔ کبھی اتنے ڈھیلے کہ ایک میں چار سماجائیں۔ بھوسی ٹکڑے والیوں کی چولیاں، کبھی کسی تو ایسی کہ گاؤتکیہ کا غلاف بنادیا۔ اب ایک پہنے تو دوسرا پہنائے۔ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا مشکل۔ سونے چاندی کا انھیں شوق نہیں۔ زری زردوزی یہ نہ پہنیں بس ایک مصیبت ہے کہ پیٹے جاتی ہیں۔ خیر جی ابھی تو نہ جانے کیا کیا دیکھنا پڑے قربِ قیامت ہے۔ ان نینوں کا یہی بسیکھ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔
اور اس کے بعد بی صداقت پٹاری کی طرف مڑیں۔ ایک پان بناکر میرے آگے کھسکایا۔ ایک خود کھایا۔ زردے کا چگٹا انگلیوں میں دبا داڑھ کے نیچے رکھا اور جھپا جھپ منہ چلانے لگیں۔ مجھے ان کی باتوں میں مزا آرہا تھا۔ جھٹ اگالدان اٹھا آگے رکھ دیا۔ وہ بھی اشارہ پاتے ہی پیک تھوک پھر تیار ہوگئیں۔ میں یوں تو ان کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا مگر کبھی کبھی بھڑکانے کے لیے خلاف بی بول دیتا۔ ’’دادی تم تو بے چاری لڑکیوں کے خلاف بھری بیٹھی ہو۔ اب دیکھو نا مردوں کے ظلم و زیادتی کا کچھ ذکر ہی نہیں۔ تم نے تو سارا الزام عورتوں پر ڈال دیا۔ برے بھلے سب میں ہوتے ہیں۔ ایک تمھارے میاں کیا سیدھے تھے تم سمجھتی ہو سب ہی کے ایسے ہوں گے۔ سچ پوچھو تو مردوں نے بھی کیا نہیں کیا۔ لونڈی باندی بناکے رکھا۔ یاں نہ جھانک واں نہ دیکھ یاں نہ جاواں نہ جا۔ یہ نہ کر وہ نہ کر۔ ایک بات ہو تو کہوں پوری غلامی تھی غلامی اور چار چوٹ کی ماردی سو الگ ایسا غرہ ایسا غرہ کہ اللہ کی پناہ۔ بے چاری عورتیں کہاں تک سہتیں۔ جب کچھ نہ بن پڑی تو بغاوت کردی۔‘‘
ہوں! میری ساری تقریر انھوں نے ایک لفظ میں اڑادی اور اس طرح دیکھاجیسے میں کچھ اول جلول بک رہاہوں، پھر پان ایک کلے میں سمیٹ کر دوبارہ شروع ہوگئیں۔ ’’سچ جانو یہ بغاوت وغاوت کچھ نہیں۔ عورت کی ذات ہی ایسی ہے کہ سونے کا نوالہ کھلاؤ تو بھی اپنی نہ ہو۔ اس پر احسان کرنا سانپ کا پالنا ہے۔ اور پھر جندری ایسی بے چین کہ جنت میں بھی کل نہ آئے۔ تم تو ماشاء اللہ پڑھے لکھے ہو سب جانتے ہوگے۔ باوا آدم بے چاروں پر جو مصیبت پڑی سب اسی کی وجہ سے، نہیں تو اچھے خاصے جنت میں رہتے تھے۔ پھر دنیا میں آکر اس نے کیا نہیں کیا۔ لڑائیاں معرکے اس کی وجہ سے ہوئے۔ پیر پیغمبروں پر اس نے الزام لگائے۔ ہائے ہائے یوسف کو رسوا کرتے اسے غیرت نہ آئی۔ ڈوب نہ مری کسی کنویں کھائی میں۔ میں تو جب زلیخا کا قصہ پڑھتی ہوں دھارم دھار روتی ہوں۔ غرص اس آفت کی پرکالہ نے ہزار ہا فتنے بپاکیے اور پھر ہے کہ معصوم کی معصوم۔ وہ تو یہ کہو کہ مرد بیچاروں کی عقل پر پتھر پڑے ہیں جو آج تک اس کی فطرت کو نہ سمجھے۔ اگر سمجھ جائیں تو قسم کھاکر کہتی ہوں کہ مڑ کے بھی نہ دیکھیں۔‘‘
بات پھر اس جگہ آئی جہاں میرے کچھ کہے بغیر آگے بڑھنے کی گنجائش نہ تھی۔ میں تو تیار ہی بیٹھا تھا جھٹ خدنگا چھوڑا ’’دادی تمھارا کہنا بھی ٹھیک ہے مگر عورتوں میں کچھ اچھی بھی تو ہوتی ہیں۔ پانچوں انگلیاں ایکساں نہیں۔‘‘ بی صداقت نے عورتوں سے نہ جانے کیا زک اٹھائی تھی کہ ان کی تعریف میں آدھی بات سننے کو تیار نہ تھیں۔ آنکھوں آنکھوں میں میری عقل کامضحکہ اڑایا اور یوں گویا ہوئیں،
’’اے بس اب رہنے بھی دو۔ ان ناس پیٹیوں میں اچھائی ہوتی تو کوئی نہ کوئی پیغمبر ضرور ہوتی۔ خدا نے بھی دیکھ کر ہی پٹخا ہے جیسا منہ ویسی تھپیڑ مجھے تو سچ کہتی ہوں، اپنے آپے سے بھی نفرت ہے۔ اللہ بخشے مرنے والے نے کیا نہیں کیا پر میں نے سدا نکتوڑے ہی توڑے۔ اچھا کھایا اچھا پہنا اور کہا ہمیشہ یہی کہ تمہارے گھر آکر عیش کرنا نصیب نہ ہو اسو ٹہلیں کرو جب روکھی سوکھی میسر آتی ہے۔ وہ خدا بخشے مرتے مرگئے پر میں نے بھی شکر کا کلمہ نہ ادا کرنا تھا نہ کیا۔ اب مرے پیچھے قدر ہوئی بھی تو کیا۔ بس خدا سے توبہ کرتی ہوں۔ دیکھو بھئی جب بخشی جاؤں تب بات ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے ایک لمبا سانس کھینچا اور مرحوم کی یاد میں ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ میں نے بھی چھیڑنا مناسب نہ سمجھا اور خاموشی سے انھیں دیکھتا رہا۔ ناک اور آنکھوں کو ڈوپٹے سے مسلتے ہوئے انھوں نے رندھے ہوئے گلے کے ساتھ چند کلمات اپنے مرحوم شوہر کی تعریف میں ادا کیے۔ مجھے نہ تو ان رسمی ٹسووں سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی سچی بات ہے، اس موضوع سے، اس لیے ذہنی طور پر فرار حاصل کیا اور دل ہی دل میں غالب کا یہ شعر گنگنانے لگا،
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
حالانکہ اس واقعہ کو بہت عرصہ ہوا لیکن آج بھی جب میں کسی عورت کو دیکھتا ہوں یا عورت ذات کے بارے میں کچھ سوچتا ہوں تو صداقت بوا معہ اپنی دھواں دھار تقریر کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔ پھر بتائیے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اسے مخلص اور معصوم سمجھ سکوں۔ البتہ اگر کبھی فطرت نے کسی کی جانب مائل بھی کیا تو سیکڑوں شک گزرے، ہزاروں اوہام نے آگھیرا۔ کچھ ایسی کیفیت ہوگئی کہ،
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
میں قسم کھاکے کہتا ہوں کہ بدگمانی میرا شعار نہیں اور نفرت سے مجھے سخت نفرت ہے۔ اب اگر کوئی اس بدگمانی کا جرم میرے سرلاد دے تو میں اسے بدگمانی کے علاوہ کیا کہہ سکتا ہوں۔ جہاں تک میری نیک نفسی کا تعلق ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں نے کبھی اس خیال کو ہوا نہ دی۔ کبھی اس موضوع پر جم کرنہ سوچا۔ جب ذرا ذہن کو الجھتے دیکھا تو سنسکرت کا یہ شلوک پڑھ کر بات ٹال دی،
استری چر ترم پرشّش بھاگیم
دیو و نہ جانا تی کت منشش
(عورت کا چلتر اور مرد کا مقدر دیوتا بھی نہیں جانتے انسان کیا جانے گا)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.