Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مکان کی تلاش میں

شفیق الرحمان

مکان کی تلاش میں

شفیق الرحمان

MORE BYشفیق الرحمان

    مکان کی تلاش۔۔۔ ایک اچھے اور دل پسند مکان کی تلاش۔۔۔ دنیا کے مشکل ترین امور میں سے ہے۔ تلاش کرنے والے کا کیا کیا جی نہیں چاہتا۔ مکان حسین ہو۔ جاذب نظر ہو۔ آس پاس کا ماحول روح پرور اور خوشگوار ہو۔ سنیما بالکل نزدیک ہو۔ بازار بھی دور نہ ہو۔ غرض بیچ میں مکان ہو تو چارو ں طرف شہر کی تمام دلچسپیاں حلقہ بنائے ہوئے ہوں۔ مکان تلاش کرنے والے کو آپ سڑک پر جاتے دیکھیے۔ اس کا حلیہ، اس کی چال، اس کے چہرے کا اظہار، اس کی حرکات، سب سے عیاں ہوگا کہ یہ بے چارہ مکان کی تلاش میں ہے۔ مکان تلاش کرنے والے کا حال کچھ کچھ عاشق سے ملتا ہے۔ آج سے سو دو سو سال پہلے کے عاشقوں سے نہیں بلکہ آج کل کے عاشقوں سے۔ یعنی کوئی چیز معیار پر پوری نہیں اترتی۔ بعض اوقات اچھا خاصا مکان مل جاتا ہے۔ پھر بھی دل میں بار بار خیال آتا ہے کہ ذرا اور ہاتھ پاؤں مارو، شاید اس سے بہتر چیز مل جائے۔

    کوئی پوچھے کہ بھلا

    مکان کی تلاش کرنے میں دیر ہی کیا لگتی ہے۔ اخبار سے پتا پڑھا۔ چھٹی کے دن سائیکل سنبھالی اور چل دیے۔ جہاں ’مکان کرائے کے لیے خالی ہے‘ لکھا دیکھا، ٹھہر گئے۔ مکان کو ادھر ادھر سے دیکھ کر پانچ چھ منٹ میں پسند کر ڈالا۔ کرایہ طے کیا اور شام تک آبسے۔ مگر نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ مشکلات ان پر بخوبی عیاں ہوں گی جنہیں کبھی اس قسم کا تلخ تجربہ ہوا ہو۔ سب سے زیادہ قابل رحم وہ لوگ ہیں جن کی قیمتی عمر کا زیادہ حصہ مکان کی تلاش میں گزرتا ہے۔ اور ان سے دوسرے درجے پر ہیں طلبہ حضرات، جنہیں اول تو اپنی پسند کا مکان ملتا نہیں اور اگر کہیں مل بھی جائے تو فوراً سوال ہوتا ہے ، ’’بیاہے ہو یا نہیں؟‘‘

    اس قسم کے بے سمجھ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ایک وقت میں دو کام کس طرح ہو سکتے ہیں اور جو کسی چالاک سے طالب علم نے کہہ بھی دیا کہ ہاں ہم بیاہے ہیں، کر لو ہمارا کیا کروگے؟ تو فرمائش ہوتی ہے کہ پہلے بیوی حاضر کرو۔ جہاں ایک بیاہا طالب علم شریف الطبع، پرہیزگار، متقی، خدا سے ڈرنے والا اور شرافت کا پتلا گردانا جاتا ہے، وہاں ایک بدقسمت کنوارے کو آوارہ گرد، بدتمیز، مشکوک چال چلن والا، اور خطرناک سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اکثر معاملہ بالکل الٹا ہوتا ہے۔ ہمارے امتحان نزدیک تھے اور ہوسٹل کی فضا کچھ کچھ خراب ہونے لگی تھی۔ مصیبت یہ تھی کہ امتحان صرف ہماری جماعت کے تھے۔ باقی حضرات کے یا تو ہو چکے تھے یا ایک دو ماہ کے بعد تھے۔

    پڑھنے کی بہتیری کوشش کی گئی۔ کمرے کو باہر سے تالا لگوا دیا جاتا۔ چابی نوکر کے حوالے کردی جاتی اور اسے خوب تاکید کی جاتی کہ خبردار جو تو نے شام سے پہلے کمرہ کھولا۔ مگر ذرا سی دیر میں کامن روم سے پنگ پانگ کی ٹپ ٹپ سنائی دیتی۔ کبھی برج اور شطرنج والوں کا شور، دو دو منٹ کے بعد فلک شگاف قہقہے۔۔۔ ساتھ ہی ریڈیو سے ٹھمریاں اور قوالیاں، پڑوس کے لڑکوں کی نغمہ سرائیاں، کوئی ستار بجا رہا ہے کوئی وائلن۔ پڑھا لکھا سب برابر ہو جاتا۔ شام ہوتی تو فٹ بال کی دھمادھم اور ٹینس لان سے گیند کے بلے پر پڑنے کی پیاری آواز۔ لوگ تالاب سے بھیگے بھیگے واپس آ رہے ہیں۔ بہت سے حضرات بن سنور کر سیر کرنے جا رہے ہیں۔ غرض یہ کہ جی بڑے زوروں سے للچاتا۔ دماغ بغاوت کر دیتا۔ کوئی آدھ گھنٹے کے بعد یک لخت جو ہوش آتا تو اپنے آپ کو یا تو کسی سنیما ہال میں پاتے یا کسی سڑک پر چہل قدمی کر رہے ہوتے جو ہوسٹل سے کم از کم دو تین میل دور ہوتی۔ رات بھر اپنے آپ کو لعنت ملامت کرتے اور قسمیں کھاتے کہ اگر کل پورے بیس گھنٹے لگاتار نہ پڑھا تو نام بدل لیں گے۔ آخر پاس بھی تو ہونا ہے اور قوت ارادی بھی تو کوئی چیز ہے۔ مگر دوسرا روز بھی اسی طرح گزر جاتا۔ روز کیا ہفتے یونہی گزر رہے تھے۔ اور دن بھر کو کوئی پچاسوں لڑکے ملنے آتے۔

    ’’ہیلو!‘‘ اور، ’’اخاہ آئیے‘‘ کے بعد تقریر سننی پڑتی۔

    ’’اررر بھئی! یہ وقت بھی کہیں پڑھنے کا ہے۔ توبہ توبہ! تم لوگ بھی زندگی سے بیزار ہو چکے ہو۔ ایسا بھی کیا کہ آدمی بالکل دھونی رما کر بیٹھ جائے۔ ایمان سے اگر میں اس طرح دو روز بھی پڑھ لوں تو ایک مہینے کے لیے لیٹ جاؤں۔ کون سی مصیبت آئی ہوئی ہے۔ امتحان ہی تو ہے۔ جب دل چاہا پاس کر لیں گے۔ یہ کیا کہ اپنا ستیاناس ہی کر ڈالا۔ ارے میاں

    بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔‘‘

    دعا مانگ رہے ہیں کہ یہ کسی طرح یہاں سے ٹلے۔ لیکچر پھر شروع ہوتا ہے، ’’کل ہمارا کرکٹ میچ تھا۔ تم نہ تھے مزہ نہیں آیا۔ ویسے ہم لوگ جیت تو پھر بھی گئے۔ وہ جو ہے نا اپنا چھوٹا سا لڑکا۔۔۔ کیا نام ہے اس کا؟ بھئی بھول گئے تم بھی۔ وہ کل غضب کا کھیلا۔ ان کا ایک بولر تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے کوئی سات فٹ کا ہوگا۔ پورا گینڈے کا گینڈا تھا۔ جب گیند پھینکتا تھا تو زمین ہلتی تھی۔ اور سٹارٹ بھی لیتا ہوگا فرلانگ بھر کا۔ اس کے سامنے اپنا کوئی لڑکا بھی نہیں جما۔ مگر وہی چھوٹا سا لڑکا۔ میں اس کا نام پھر بھول گیا۔ وہ کچھ قلابازی سی کھا کر یوں بلا گھماتا تھا کہ پورا چوکا پڑتا تھا۔ وہ شاندار ہٹیں لگائی ہیں کہ بس منٹوں میں ساٹھ سکور کر گیا۔ میرا خیال ہے کہ تم بھی اچھا کھیلتے۔ ایک بات مانو۔ تم اتنا آہستہ مت کھیلا کرو۔ دیکھنے والوں کو ذرہ بھر مزہ نہیں آتا۔ اور ہاں بھئی! ایک بات دریافت کرنی تھی تم سے۔ امتحان کے بعد تمہارا پروگرام کیا ہے؟ میں پہاڑوں کی نسبت میدانوں کو زیادہ پسند کرتا ہوں۔ پہاڑوں پر ہوتا ہی کیا ہے۔ بس پہاڑ ہی پہاڑ ہوتے ہیں۔ نہ کوئی نئی چیز نہ تفریح۔۔۔ رات کو پہاڑوں پر الو بولتے ہیں۔۔۔ لا حول و لا قوۃ۔‘‘

    جی میں آتا ہے کہ کہہ دیں، ’’او نابکار انسان! میدانوں کو چھوڑ کر خواہ انڈیمان چلا جانا۔ مگر فی الحال تو یہاں سے دفع ہوجا۔‘‘ اگر پندہ بیس منٹ تک یہ صاحب نہ ٹلیں تو پھر نگاہیں کتابوں، کیلنڈروں اور دروازے کی طرف دوڑنے لگتی ہیں۔ اور اگر وہ اس پر بھی نہ سمجھیں تو پھر دبی زبان میں امتحان کا ذکر کرنا پڑتا ہے کیونکہ انیس ہی نے تو فرمایا ہے۔

    خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہردم

    انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

    وہ اچانک چونک پڑتے ہیں، ’’ارے بھئی! توبہ توبہ میں بھی کتنا بدحواس ہوں۔ یہ بھول ہی گیا کہ تمہارا امتحان ہے۔ معاف کرنا مجھے سچ مچ خیال نہیں رہا۔ اچھا امتحان کے بعد سہی!‘‘ ایک تو خلاصی ہوئی۔ ذرا سی دیر میں ایک دوسرے صاحب آ جاتے ہیں اور دنیا کی فلم انڈسٹری کے ماضی، حال اور مستقبل پر ایک بسیط لیکچر دیتے ہیں اور مس اندوبالاؔ سے معاملہ رانلڈ کالمین اور ہیڈی لیمار پر ختم ہوتا ہے۔ فلموں کے بارے میں تنقید ہوتی ہے اور جادو کا ڈنڈا، فولادی مکا، ظالم گھسیارا سے کوئین کرسچینا، اور بن حرتک۔۔۔ سب پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ پھر امریکی اور انگلش فلموں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ آخر میں سودیشی فلموں پر فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ تیسرے صاحب آتے ہیں جو عشق کے بارے میں اپنی تازہ ترین تحقیقات، مشہور عشاق کی سوانح عمریاں، عشق کرنے کے طریقے، فوائد اور نقصانات۔۔۔ سب کچھ ہی تو بتا دیتے ہیں۔ پھر ایک اور حضرت آتے ہیں جو دنیا بھر کے پالیٹکس پر ایک جنرل سا ریویو کر کے محض دو گھنٹوں میں دنیا کے بڑے مشاہیر کی سیاسی غلطیاں اور ان کے عیوب، سب کچھ سمجھا دیتے ہیں۔

    ایک صاحب محض کبڈی ہی کے بارے میں تقریر کیے جائیں گے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کبڈی بھی کوئی کھیل ہے؟ مگر کبڈی کی تاریخ، بڑے بڑے کھلاڑی، کبڈی میں دلچسپی لینے والے بڑے بڑے آدمی، راجے اور مہاراجے، غرض سب کچھ بتا کر چھوڑیں گے۔ کوئی صاحب آئیں گے تو مکابازی پر دھواں دھار تقریر کریں گے۔ حالانکہ ان کا حلیہ ایسا ہوگا کہ مکا تو کیا اگر ایک ہلکا سا چانٹا بھی مار دیا جائے تو ناک آؤٹ ہو جائیں۔ ادھر خواہ مخواہ ہاں میں ہاں ملانی پڑے گی۔ مسکرا کر اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا پڑے گا۔ سگریٹوں کے ڈبے خالی ہو جائیں گے۔ نوکر چائے لاتا لاتا تھک جائے گا۔ مگر دبی زبان سے ذکر تک نہ کرو، ور نہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آبگینوں کو ٹھیس لگ جائے۔ کوئی آتا ہے تو یونہی ٹائم پیس کو چابی دینے لگتا ہے۔ کوئی صاحب ملتان کی ہلکی پھلکی صراحی کو اس طرح پکڑیں گے کہ ذرا سی دیر میں ایک ہاتھ میں صراحی کی گردن ہوگی اور دوسرے ہاتھ میں بقیہ صراحی۔۔۔ ایک قہقہے پر معاملہ ختم۔

    کوئی کتابیں الٹ ڈالے گا کہ کہیں کوئی ناول یا غزلوں کی کتاب تو نہیں رکھی۔ کوئی البم ہی دیکھنے لگے گا۔ ذرا نظر چوکی اور ایک آدھ تصویر غائب۔ کوئی صاحب ٹینس کا بلا ادھار لے جائیں گے۔ اور تو اور بعض اوقات قمیض، ٹائیاں تک مہینا مہینا لوگوں کے ہاں مہمان رہتی ہیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہوسٹل کی زندگی بہترین زندگی ہے۔

    بڑے غوروخوض کے بعد فیصلہ ہوا کہ میں اور باقر صاحب دونوں ایک مکان کرائے پر لیں۔ ایک چمکیلی صبح کو ہم دونوں نے چائے پیتے ہوئے پروگرام بنایا۔ کیلنڈر میں دیکھا تو دن سنیچر کا تھا۔ چونکہ سنیچر منحوس سمجھا جاتا ہے، اس لیے پروگرام یہ بنا کہ اتوار کو علی الصبح اس مہم پر روانہ ہوں گے۔

    یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے اخباروں کی مدد سے اور ادھر ادھر پوچھ کر خالی مکانوں کی فہرست پہلے ہی بنا لی تھی۔ سب سے پہلے ہم ایک ڈیری فارم پہنچے۔ وہاں ایک مکان خالی تھا۔ دروازے پر منشی بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر ہڑبڑا کر اٹھا۔ اس سے مکان کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے جو ڈیری کے فوائد پر لیکچر دینا شروع کیا تو چپ ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ دودھ، مکھن، بالائی اور پنیر۔۔۔ ایک ایک چیز گنوادی۔ شہر میں نقلی چیزیں ملتی ہیں۔ ان سے فلاں فلاں بیماریاں پھیلتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہم تنگ آکر بولے، ’’پہلے مکان دکھا دو۔ پھر باتیں کریں گے۔‘‘ خیر اندر گئے۔ دیکھا کہ ایک بڑا کمرہ ہے جس میں اگر فٹ بال نہیں تو کم از کم ٹینس تو ضرور کھیل سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ دو ذرا ذرا سے کمرے، جیسے کھلاڑیوں کے لیے بنوائے گئے ہوں کہ وہ سستا لیں یا کپڑے بدل لیں۔ وہ بولا، ’’اوپر چلیے۔‘‘ ہم نے سوچا کہ شاید اوپر کچھ مطلب کے کمرے ہوں گے۔ دیکھا تو وہی لمبا چوڑا سا کمرہ اور دو ننھے منے کمرے۔ ہم نا امید ہو گئے۔

    ’’نہیں صاحب ابھی ایک منزل اور بھی ہے۔‘‘ امید پھر بندھ گئی۔ اوپر جاکر دیکھتے ہیں کہ بعینہٖ وہی نقشہ۔ الٹے پاؤں لوٹے۔ بسم اللہ ہی غلط نکلی۔ دوسرا مکان کوئی آدھ میل کے فاصلے پر تھا۔ دیکھا کہ دروازے پر ایک خطرناک قسم کے مولوی صاحب حقہ پی رہے ہیں۔ ہمیں غیظ و غضب کی نگاہ سے دیکھا۔

    ’’مکان چاہیے آپ کو؟‘‘ وہ کڑکے۔

    ’’جی ہاں۔‘‘

    انھوں نے تین چار لمبے لمبے کش لگائے اور داڑھی سے کھیلتے ہوئے بولے، ’’تو گویا سچ مچ آپ کو مکان درکار ہے۔‘‘ جیسے ہم ان سے مذاق کر رہے تھے۔

    ’’تو آپ کو ذرا تکلیف ہوگی۔ اس مکان کی چابی ہوگی منشی قلندر بخش کے پاس جو رہتے ہیں چنگڑ محلے میں۔ مگر ٹھہریے خوب یاد آیا۔ اب انھوں نے کباڑی بازار میں سکونت شروع کر دی ہے۔ بڑے بھلے مانس ہیں۔ کیا کہوں، یہ عمر ہو گئی مگر ایسا جوان دیکھنے میں نہیں آیا (دونوں بازو پھیلاکر) یہ سینہ تھا۔۔۔ اور (دونوں کہنیاں نکال کر) یہ چہرہ تھا۔ بالکل شیر جیسا۔ خدا کی شان، اب وہی قلندر بخش ہیں کہ منہ پر مکھیاں بھنکتی ہیں۔ پھر بھی کیا مجال جو آن بان میں فرق آجائے۔‘‘ باقر صاحب بے چین ہو رہے تھے، ’’صاحب اگر برا نہ مانیں تو ذرا چابیاں۔۔۔!‘‘

    ’’ہاں تو چابیوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ چابیاں تو ان کے بھتیجے ایجاد علی کے پاس ہوں گی کیونکہ ان بچاروں کا اپنا تو کوئی لڑکا تھا نہیں۔ بس اپنے مرحوم بھائی کی نشانی کو دیکھ کر دل ٹھنڈا کر لیا کرتے تھے۔۔۔ مگر مجھے خطرہ ہے کہ کہیں چابی ان کا بھانجا قدرت اللہ نہ لے گیا ہو۔ کیونکہ پرسوں افواہ اڑی تھی کہ وہ ڈیرہ غازی خاں سے واپس آ رہا ہے۔ وہ قلعہ گوجر سنگھ کے پچھم والے حصے میں رہتا ہے۔ ایک بڑی سی نالی ہے اس کے پار بجلی کا کھمبا ہے۔ میں اچھی طرح نہیں کہہ سکتا کہ وہ وہاں رہتا ہے یا نہیں۔ بہرحال مکان اس کا وہی ہے۔۔۔‘‘

    ’’مگر ہم اتنی دور نہیں جا سکتے۔‘‘

    ’’آپ چابی کا کریں گے کیا؟ لائیے میں آپ کو نقشہ سمجھائے دیتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر لگے ایک تنکے سے زمین پر نقشہ سمجھانے ، ’’یہ غسل خانہ ہے۔۔۔ اور یہ ہے باورچی خانہ۔ ارررر میں الٹا کہہ گیا۔ غسل خانہ یہ ہے اور وہ ہے زینہ۔ یہاں ایک کمرہ ہے! توبہ توبہ میں بھی کیا ہوں۔ یہاں تو ایک چھوٹی سی کوٹھری ہے اور زینہ ہے وہاں۔۔۔‘‘ (مکان کی حد سے باہر بتاتے ہوئے کہا۔)

    ’’گویا زینہ مکان کے باہر پڑوس میں کہیں واقع ہوا ہے؟‘‘ باقر صاحب نے پوچھا۔

    ’’جی نہیں، میرا مطلب ہے کہ زینہ اندر کی طرف ہے۔‘‘

    ہم دونوں اٹھ کر چل دیے۔

    ’’اجی ٹھہریے۔۔۔ ذرا سنیے تو سہی! اس مرتبہ ٹھیک بتاؤں گا۔ اب سمجھ میں آگیا نقشہ۔‘‘ وہ بلاتے ہی رہے۔

    اب مکان نمبر ۳ کی تلاش شروع ہوئی۔ خوش قسمتی سے یہ مکان کالج کے بالکل نزدیک تھا۔ ویسے مکان تھا بھی اچھا خاصا۔ ہمیں دور ہی سے پسند آ گیا۔ معلوم ہوا کہ مکان کے دو حصے ہیں۔ ایک میں مالک مکان رہتے ہیں اور دوسرا خالی ہے۔ وہ صاحب عجیب افیمچی سے تھے۔ باقر صاحب نے آہستہ سے بتایا، ’’بھئی! مجھے یہ شخص بالکل پسند نہیں۔ اس کی حرکات عجیب سی ہیں۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’السلام علیکم!‘‘ بولے، ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘ (ایک ایک لفظ میں نون غنہ بسا ہوا تھا۔ بعد میں جو گفتگو ہوئی اس میں بھی نون غنہ بدستور رہا۔)

    ’’کیسے تشریف آوری ہوئی؟‘‘

    ’’آپ کا مکان۔۔۔!‘‘ باقر صاحب بولے۔

    ’’اجی! بس کیا نام ہے، خدا تمہارا بھلا کرے۔ سمجھو کہ بڑے خوش نصیب ہو، جبھی تو کھٹ سے ایسا مکان مل گیا۔ ورنہ کیا نام۔۔۔ جناب بڑے بڑے آدمی مہینوں حیران و پریشان گلی کوچوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور جناب مکان نہیں ملتا۔۔۔ پھر یہ محلہ، بس خدا تمہیں خوش رکھے، سب محلوں کا سرتاج ہے۔۔۔ دیوان صاحب کا کٹرا۔ اب اس کٹرے پر کیا نام کہ ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک تھے میں نے کہا مولوی صاحب۔ وہ آئے دلی میں کپڑا خریدنے۔ اب تمہیں خدا خوش رکھے، ہوگا کوئی شادی وادی کا معاملہ۔ اب قصہ اس طرح چلتا ہے کہ انھوں نے کپڑا خریدا۔ کیا نام نیل کے کٹرے سے اور واپس چلے گئے۔ اب صاحب کوئی دس سال کے بعد میں نے کہا انہیں پھر ضرورت ہوئی کپڑے کی۔ وہ پھر دلی آئے اور ایک تانگے والے سے کیا نام بولے۔ ہمیں نیل کے بھینسے لے چل۔۔۔

    اب صاحب خدا تمہارا بھلا کرے۔ یوں تو دلی میں ہزاروں بازار اور لاکھوں گلیاں ہیں اور یوں بھی کیا نام تانگے والے ہوتے ہیں بڑے ظالم۔۔۔ پر صاحب تانگے والے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ بولا۔۔۔ بڑے میاں یہ عمر ہو گئی اور ہنسی مزاخ کی عادت نہ گئی۔ اب تک بھلا نیل کا بھینسا بھی دلی میں کسی نے سنا ہے؟ اب کیا نام بڑے میاں بھی چٹاخ سے بولے، ابے! میں نے کہا کل کے لونڈے، چلاتا ہے ہمیں! ابھی دس سال گزرے ہم نے نیل کے کٹرے سے کپڑا خریدا تھا اور اب خدا تمہارا بھلا کرے، دس سال میں وہ کم وخت کٹرا بھینسا بھی نہ بن گیا ہوگا۔ اب صاحب جو مذاق۔۔۔‘‘

    ’’جناب! اس مکان کا کرایہ۔۔۔؟‘‘

    ’’ارے صاحب! کیا نام اتنی جلدی کاہے کی ہے جو مرضی آئے دے دینا، خدا تمہیں خوش رکھے۔ آپ کے آنے سے ذرا رونق ہو جائے گی۔ ذری میں نے کہا محفلیں گرم ہوا کریں گی۔ یہاں سارنگی اور طبلوں پر مہینوں گرد جمی رہتی ہے۔ آپ دونوں کیا نام ماشاء اللہ رنگیلے دکھائی دیتے ہیں۔ بس جناب مزہ آ جائے گا۔ اور خدا تمہارا بھلا کرے، جب تک کوئی سننے والا نہ ہو کیا نام گانے بجانے کا مزہ ہی کیا۔‘‘

    اب جو ہم وہاں سے بھاگے ہیں تو کوئی آدھ میل آکر دم لیا۔ گانے بجانے کی محفلیں۔۔۔ رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ جس چیز سے ڈر کر ہوسٹل سے بھاگے تھے وہی سامنے آ موجود ہوئی۔ واپس ہوسٹل آئے۔ باقر صاحب نے الماری سے ایک اشتہار نکالا۔ لکھا تھا۔۔۔ ایک مکان بجلی اور پانی سے آراستہ و پیراستہ، باورچی خانے اور غسل خانے مزین، صاف ستھرا اور پاکیزہ۔ عقب خاندانی دواخانہ، نزد حویلی سیٹھ رام نرائن مرحوم و مغفور باشندہ دہلی، درونِ کباڑی بازار۔‘‘

    ’’پھر وہی کباڑی بازار؟‘‘

    مکان دیکھا۔ کچھ ایسا تھا جیسے امریکہ میں ہوتے ہیں۔ یعنی بے تحاشا اونچا۔ نیچے پونے دو کمرے، یعنی ایک اوسط کمرہ دوسرا اس سے نصف اور تیسرا اس سے نصف۔ پھر سیڑھیاں شروع ہوئیں۔ جیسے قطب صاحب کی لاٹھ پر چڑھ رہے ہوں۔ چڑھتے گئے۔ اوپر جاکر ڈھائی کمرے ملے۔ مگر دراصل حساب کے مطابق وہاں صرف سوا کمرہ ہی تھا۔ یعنی نچلے کمروں سے وہ نصف تھے۔ ہمارے رہنما بولے، ’’یہ غسل خانہ ہے۔‘‘

    ’’اور نیچے؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’وہ کیا تھا؟‘‘

    ’’جناب وہ باورچی خانہ تھا۔‘‘

    ’’اور ساتھ یہ دو چھوٹے چھوٹے کمرے۔۔۔؟‘‘

    ’’ایک سامان رکھنے کا گودام اور دوسرا سونے کا کمرہ۔‘‘

    ’’عجب تماشا ہے۔‘‘ باقر صاحب نے جھلا کر کہا۔

    ’’اجی ابھی اوپر بھی کچھ ہے۔‘‘

    ’’نہیں صاحب، بس۔۔۔‘‘

    ’’اجی آپ کو ہماری قسم، ذرا ملاحظہ تو فرمائیے۔‘‘ وہ صاحب بولے۔ پھر وہی بے شمار سیڑھیاں چڑھنی پڑیں۔ دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا۔ سانس پھولا ہوا تھا۔ اوپر جاکر دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی کوٹھری ہے۔ ایک مرغیوں کا ڈربا ہے۔ ایک طرف کبوتروں کی چھتری ہے اور ایک کونے میں پرانا ڈھول پڑا ہے۔ ہمیں ہنسی آ گئی۔ بھلا کوئی اس سے پوچھتا کہ چھت پر کبوتر تو بے شک رکھے جا سکتے ہیں مگر مرغیاں کون رکھتا ہوگا۔ پھر وہ ڈھول؟ سارے مکان کا نقشہ ہی فضول سا تھا۔ جیسے کسی افیمچی نے مکان بنایا ہو۔ جب ذرا پینک دور ہوئی ایک آدھ کمرہ بنوا دیا۔ کوئی کہیں سے کوئی کہیں۔

    ’’اب اترنا بھی پڑے گا۔‘‘ ہم نے دل میں سوچا۔ نیچے اترکر فہرست نکالی۔ نیا مکان دیکھا۔ کشادہ میدان میں ایک خوبصورت سا مکان چمک رہا تھا۔ میں نے باقر سے ہاتھ ملایا۔ آخر ہم نے منزل مار لی تھی۔ اب جو دروازے پر دیکھتے ہیں تو لکھا تھا، ’’حسرت کدہ۔‘‘ طبیعت پر اوس سی پڑ گئی۔

    ’’اس کا مطلب؟‘‘ باقر صاحب نے حیران ہوکر پوچھا۔

    ’’کسی شاعر کا مکان معلوم ہوتا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ شاعر صاحب بلائے گئے۔ معلوم ہوا وہ نچلے حصے میں رہتے ہیں۔ اوپر کا حصہ خالی تھا۔ شاعر صاحب بھی بس ایسے کہ ڈبیا میں بند کر کے رکھنے کے قابل۔ دبلے پتلے، شترمرغ جیسے، ناک پر عینک چسپاں، حلیہ ایسا کہ اگر سڑک پر جاتے ہوں تو بچہ تک بتا دے کہ وہ جا رہا ہے شاعر۔ چل کس طرف رہے ہیں۔ منہ کہیں ہے اور قدم کہیں پڑتے ہیں۔

    باتیں شروع ہوئیں۔۔۔ انتہائی لطیف باتیں۔ بات بات میں شاعری۔ ، ’’جب رات کو ساری کائنات پر ایک عجیب سا نور طاری ہوتا ہے۔ جب بے قرار دل بے طرح تڑپ رہا ہوتا ہے۔ جب فضا بھیگی بھیگی سی ہوتی ہے۔ جب آسمان میں تارے ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں تو جو لطف اوپر کے مکان میں آتا ہے وہ نیچے کے مکان میں کہاں۔ آہ اگر میرا بس چلے تو دنیا کے تمام مکان اوپر کے مکان بنا دوں۔‘‘ (یہ فقرہ ہماری سمجھ میں نہ آیا۔) ہم عجیب کشمکش میں پھنس گئے۔ ایک طرف تو ایسا خوبصورت مکان اور دوسری طرف یہ شاعر۔۔۔! وہ یک لخت چمک کر بولے، ’’صاحب آپ مجھے رومان پسند لگتے ہیں۔‘‘

    ’’کیا میں؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا، ’’یا یہ۔۔۔؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ آپ! آپ کا حلیہ، آپ کے کپڑے، آپ کی حجامت اور آپ کے کپڑوں کی خوشبو، سب کے سب گواہی دے رہے ہیں۔‘‘

    میں اپنے اس نئے خطاب پر حیران تھا۔ شاعر صاحب فرمانے لگے، ’’جناب بندہ فطرتاً رومان پرست ہے۔ بلکہ حسن پرست۔ چنانچہ میری شادی۔۔۔ آہ میری شادی۔ یہ ایک لمبی داستان ہے جوکبھی آپ کو فرصت میں سناؤں گا۔ ایک خونچکاں داستان حسن و عشق ہے۔ مجھے اپنی بیوی سے والہانہ محبت ہے۔‘‘ اتفاق سے میری نگاہ سامنے کھڑکی پر پڑ گئی۔ شاعر صاحب کی بیوی جھانک رہی تھیں۔

    ’’صبح کے دھندلکے میں جب معصوم چڑیا گیت گا رہی ہوگی تو ہم سڑکوں پر سیر کیا کریں گے۔ دوپہر کے وقت میں آپ کو اپنے کلام سے محظوظ کیا کروں گا اور شام کو جب سورج اپنی زرد زرد کرنوں سے زمین کو الوداع کہہ رہا ہوگا، ہم باغ میں سیر کرنے چلا کریں گے اور میں کلام سنایا کروں گا۔‘‘ بڑی مصیبتوں سے ہم نے اس شاعر سے پیچھا چھڑایا۔ ہم ایک گلی میں سے گزر رہے تھے کہ ایک رنگین مکان پر نظریں جم گئیں جس پر لکھا تھا ’کرائے کے لیے خالی ہے۔‘ مکان تھا بھی سڑک پر اور بڑا خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ چابیاں انار کلی میں کسی وکیل صاحب کے پاس ملیں گی۔ پوچھتے پوچھتے وہاں پہنچے۔ اندر سے وکیل صاحب نکلے۔ ہم نے اپنا مطلب ظاہر کیا۔

    ’’آپ میٹر کا کرایہ فوراً ادا کردیں گے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘ ہم بولے۔

    ’’اور کل کرایے کا آدھا۔ یعنی نصف کرایہ پیشگی جمع کرا دیں گے؟‘‘

    ’’بہت اچھا۔‘‘

    ’’آپ حلفیہ بیان کرتے ہیں کہ پڑوس میں کسی کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے؟‘‘

    ’’نہیں پہنچائیں گے۔‘‘

    ’’آپ مکان کے اندر لگے ہوئے قوانین پر عمل کریں گے؟‘‘

    ہم نے سر ہلا دیے۔

    ’’آپ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتے ہیں کہ مکان سے کسی قسم کا ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھائیں گے؟‘‘

    ناجائز فائدہ! غالباً ان کا مقصد تانک جھانک سے تھا۔

    ’’نہیں اٹھائیں گے صاحب!‘‘

    ’’اور آپ مکان چھوڑنے سے کم از کم ایک ماہ پہلے حاضر ہو کر اطلاع دیں گے۔‘‘

    ’’ہم سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔‘‘

    ’’اب سیدھے کشمیری بازار جائیے۔ وہاں رام ناتھ حلوائی کی دکان پوچھ لیجیے۔ بالکل اس کے سامنے رام چرن عینک والے کی دکان ہے۔ چابی وہیں ملے گی۔‘‘ ہم دونوں وہاں پہنچے۔ دکان پر لالہ صاحب نہیں تھے۔ ان کے لڑکے کے ساتھ ان کے گھر جانا پڑا جو ڈبی بازار میں تھا۔ ہمیں دیکھ کر لالہ جی نے احتجاج کیا، ’’صاحب میں مکان پر کسی قسم کی خرید و فروخت پسند نہیں کرتا۔ نہ معلوم کتنی دفعہ لوگوں سے کہا ہے کہ کم از کم مجھے گھر تو چین سے بیٹھنے دیا کریں۔ عینکیں اور دکانوں سے بھی مل سکتی ہیں۔‘‘ ہم نے انہیں بتایا کہ وکیل صاحب کے مکان کی چابی چاہیے۔

    ’’اخاہ! وکیل صاحب کا مکان! خوب لطیفہ ہے صاحب۔ یہ وکیل صاحب کا مکان کب سے ہو گیا۔ کل تو بستر بغل میں داب کر یہاں آیا تھا اور آج مالک بن کر گیا۔ جناب مکان میرا ہے۔‘‘

    ’’بہت اچھا آپ کا سہی! مگر چابی کہاں ہے؟‘‘

    ’’مجھے اچھی طرح معلوم نہیں، البتہ آپ چوبرجی جائیے۔ وہاں نمبر پندرہ میں چرن جی لال ٹھیکے دار سے چابی مل سکتی ہے۔‘‘ کوئی مغرب کے وقت چوبرجی پہنچے۔ وہاں چرنجی لال سے ملے۔ انہیں مقصد بتایا، ’’کیسی چابی؟ کس کی چابی؟ صاحبان آپ کو بڑی غلط فہمی ہوئی۔ مجھے کسی چابی کا پتہ نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ واپس انار کلی جائیے۔ چابی وکیل صاحب کے پاس ہی ہوگی۔‘‘ پھر واپس وکیل صاحب کے پاس پہنچے۔ انہیں ساری داستان سنائی۔ وہ ہنس کر بولے، ’’چابی دراصل لالہ رام چرن کے پاس ہی ہے۔ وہ آپ سے ویسے ہی مذاق کرتے ہوں گے۔‘‘

    یہ مذاق کی بھی ایک ہی رہی۔

    ’’تو پھر آپ اپنا کوئی آدمی ہمارے ساتھ بھیج دیجیے۔‘‘ باقر صاحب نے تجویز پیش کی۔ وکیل صاحب نے دو آدمی ہمارے ساتھ کر دیے۔ اب چار آدمیوں کا مختصر سا قافلہ سائیکلوں پر روانہ ہوا۔ ہم میں سے ایک کے پاس بھی روشنی نہ تھی۔ طے ہوا کہ آگے پیچھے ہوکر چلیں اور اگر کہیں پولیس والا ہو تو اشارہ کر دیا جائے۔ غرض یہ کہ عجب بے ڈھنگے پن سے ہم روانہ ہوئے کبھی کوئی کہیں نکل گیا ہے۔ کبھی کوئی کسی کو ڈھونڈ رہا ہے۔ بیسیوں مرتبہ کھوئے گئے اور پائے گئے۔ ان دونوں کی حرکات سے پتا چلتا تھا کہ یہ لوگ چلبلے سے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ایسے کھوئے گئے کہ گھنٹے بھر کی تلاش کے بعد بھی نہ مل سکے۔ لالہ جی کے ہاں پہنچے، وہ وہاں نہیں تھے۔ پھر واپس انار کلی آئے۔ وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ خیال آیا کہ شاید چوبرجی نہ چلے گئے ہوں۔ وہاں بھی چکر لگا آئے ایک مرتبہ پھر لالہ جی اور وکیل صاحب کے گھروں کا طواف کیا۔ رات کے گیارہ بج گئے۔ نہ چابی ملی نہ وہ دونوں۔ آخر تنگ آکر واپس آ گئے۔

    رات کو مشورہ کیا گیا کہ اینگلو اینڈین اور صاحب لوگوں کی کالونی میں مکان تلاش کیا جائے۔ شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ رات بھر ہم کتنے دل شکستہ رہے۔ دوسرے روز صاحب لوگوں کے محلے کی راہ لی۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو فضا ہی بدلی ہوئی تھی۔ بچے سے بوڑھے تک جسے دیکھو بالکل سیاہ تھا، جیسے کسی نے زبردستی دھواں لگا دیا ہو۔

    ’’نی کڑے وکٹوریہ! تم کا بریک فاسٹ ہوگیا کہ نہیں؟‘‘ برابر کے مکان سے آواز آئی۔

    ’’ہو گیا بھین مارگرٹ! لسی اور ساگ لنچ کے واسطے کافی رکھا ہے۔ اگر بریک فاسٹ لئی وانٹڈ ہو تو پریزنٹ کروں۔‘‘ جواب ملا، ’’تھینک یو وکٹوریہ!‘‘

    بحث شروع ہوئی۔ میں کالے آدمیوں کی طرفداری کر رہا تھا اور باقر صاحب ان کے دشمن تھے۔ آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ صرف ایک مکان دیکھیں گے۔ اگر پسند آ گیا تو خیر! ورنہ فوراً واپس! ہم ڈرتے ڈرتے سامنے کے مکان میں داخل ہوئے۔ وہاں برآمدے میں ایک کالا کلوٹا بچہ ایک پتلی سی چھڑی سے ایک موٹے ستون کو ٹھک ٹھک کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک بھاری سی میم صاحبہ نکلیں اور انگریزی میں چلا کر بولیں، ’’ولیم! کتنی دفعہ تم سے کہا کہ اس پتلون کو اس بری طرح نہ ٹھوکا کرو۔ کسی دن یہ سارے کا سارا مکان سر پر آ پڑے گا۔‘‘

    ہم نے مکان کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے اشارے سے بتایا کہ وہ ہے۔ ہم نے شکریہ ادا کیا۔ وہ مسکرائیں اور ان کے دانت اس طرح چمکے جیسے اندھیری گھٹا میں بجلی چمکتی ہے۔ اب جو مکان جا کر دیکھتے ہیں تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ ایک بالکل بیہودہ مکان جس میں غالباً دروازوں اور دیواروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ ہوگا قبل ازمسیح سے بھی پہلے کا۔ دیواروں پر طوفان نوح کے نشانات تھے۔ مکان سے ۱۸۵۷ء کی بھی یاد تازہ ہوتی تھی۔ اندر جاکر دیکھتے ہیں تو سب کچھ ٹوٹا پھوٹا ہوا۔ باقر صاحب بولے، ’’غلطی ہوئی ہوگی۔‘‘ جیب سے اخبار نکال کر پڑھا، وہی مکان تھا۔ واپس ہونے لگے۔ باقر صاحب نے کہا، ’’چلو انگریزوں کی طرف بھی ایک مرتبہ قسمت آزمائی کرتے ہیں۔‘‘

    وہاں پہنچے۔ ایک انگریز سیٹی بجاتا جا رہا تھا۔ اس سے پوچھا۔ اس نے زبان کو اچھی طرح توڑ مروڑ کر جواب دیا کہ ہاں وہ سامنے ہے۔ مکان دیکھا۔ نیچے ہوٹل تھا اور پڑوس میں سنیما۔ ہوٹل کے سامنے بے شمار تانگے کھڑے تھے۔ بہت سے لوگ جمع تھے۔ چپراسی بولا، ’’جناب ایسے مکان کہاں ملتے ہیں۔ ذرا کھڑکی میں آبیٹھے اور سامنے رونق ہی رونق ہے۔ طبیعت گھبرائی تو فوراً کوٹ سنبھالا اور کھٹ سے سنیما میں پہنچ گئے۔ کبھی جی چاہا تو جلدی سے نیچے ہوٹل میں آبیٹھے۔ ناچ واچ میں کوئی حرج نہیں۔ کوئی چیز منگوانا ہو تو بس (چٹکی بجاکر) منٹوں میں آ جاتی ہے۔‘‘

    ’’اور کرایہ؟‘‘

    ’’دو سو روپے۔‘‘

    ہم واپس چلنے لگے کہ اتنے میں ایک صاحب جو سوٹ پہنے ہوئے تھے اندر تشریف لائے اور بولے، ’’جناب آپ طالب علم معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کے لیے رعایت کی جا سکتی ہے۔‘‘

    ’’کتنی؟‘‘

    ’’ہم ڈھائی روپے کم کر سکتے ہیں۔‘‘

    ’’شکریہ!‘‘ ہم پھر واپس ہوسٹل آ رہے تھے۔ سوچنے لگے کہ بس ایک مرتبہ آخری حملہ کیا جائے۔ کیونکہ دوروز ضائع ہو گئے تھے اور امتحان میں کل بیس روز رہ گئے تھے۔ باقی سب جگہ دیکھ چکے تھے۔ اب صرف شہر کا گنجان حصہ باقی رہ گیا تھا۔ پھر چل کھڑے ہوئے۔ لوگوں سے پوچھتے جارہے تھے کہ کسی نے سامنے اشارہ کر کے کہا، ’’اوپر کی منزل خالی ہے۔‘‘ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کھڑکی میں سے ایک بچہ جھانکنے لگا۔ وہ چلا گیا۔ پھر ایک لڑکا آیا۔ اس کے بعد ایک لڑکی آئی۔ وہ بھی چلی گئی۔ ذرا سی دیر میں ایک عورت آئی اور اس کے بعد ایک بڑھیا۔ پھر کوئی نہ آیا۔ ہم نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔

    ’’پتاجی گھر میں نہیں۔‘‘ آواز آئی۔

    ’’ہمیں پتاجی سے کوئی واسطہ نہیں۔ تم میں سے کوئی باہر نکلو۔‘‘

    ’’آپ کو کہیں دولت رام ٹھیکے دار نے تو نہیں بھیجا؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔

    باقر صاحب جلدی سے بولے، ’’ہاں بھیجا ہے۔‘‘

    کھٹ سے کھڑکی بند ہو گئی۔ قصہ ختم۔ بے شمار آوازیں دینے پر بھی کوئی نہ بولا۔ آگے چلے۔ چھوٹی چھوٹی تاریک گلیاں اور دونوں طرف عظیم الشان مکان! ایک جگہ پتا چلا کہ نزدیک ہی ایک حویلی خالی پڑی ہے۔ وہاں جا کر دیکھتے ہیں کہ بندر کا تماشا ہو رہا تھا۔ دروازوں، چھتوں، منڈیروں، کھڑکیوں میں جہاں دیکھو عورتیں، مرد، بچے کھڑے تھے۔بہ مشکل اس ہجوم میں سے گزرے۔ مکان دیکھا تو اچھا تھا۔ کرایہ پوچھا۔

    ’’اڑتالیس روپے پانچ آنے چار پائی۔‘‘ معلوم ہوا کہ مالک مکان بنیے تھے۔

    ’’آپ انہیں کب ساتھ لائیں گے؟‘‘ لالہ جی نے پوچھا۔

    ’’ہم شام تک سامان وغیرہ لے آئیں گے۔‘‘ باقر صاحب بولے۔

    ’’جی نہیں، آپ کی وہ کب آئیں گی؟‘‘

    ’’ہماری وہ۔۔۔ کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘

    آپ بیاہے ہیں نا۔۔۔؟ دونوں صاحبان؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’تو پھر آپ تشریف لے جائیے۔ یہ شریفوں کا محلہ ہے۔ یہاں سب کنبہ دار آدمی رہتے ہیں۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے۔‘‘

    سوچا کہ اب کسی نے پوچھا تو کہہ دیں گے کہ ہاں بیاہے ہیں۔ باقر صاحب نے قسم کھائی کہ اگر اس دفعہ بھی مکان نہ ملا تو واپس ہوسٹل چلے جائیں گے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد ایک خالی مکان کا پتا چلا۔ مکان تو اچھا نکلا مگر اس کا حدود اربعہ عجیب تھا۔ پڑوس میں ایک بے ہودہ سا سنیما تھا۔ پیچھے گدھے بندھے ہوئے تھے۔

    ’’یہ شور تو نہ مچائیں گے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ ایک لالہ جی بولے، ’’اول تو یہ گدھے ہیں ہی شریف۔ میرا مطلب ہے سیدھے سادے ہیں۔ صرف صبح اور شام کو شور مچاتے ہیں۔ ذرا رونق ہو جاتی ہے۔ پھر آپ ایک ہفتے تک عادی ہو جائیں گے۔ وہ دیکھیے پنڈال سامنے ہے۔ ہر تیسرے روز وہاں جلسہ ہوتا ہے۔ وہ رہی پنواڑی کی دکان۔ ساتھ ہی نائی بھی ہے۔ یہاں نیچے دہی بڑے والا بیٹھا ہے۔‘‘ لالہ صاحب نے بے شمار خوبیاں گنوا دیں۔ کرایہ ساٹھ روپے تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیسا شریف ہے یہ شخص، اس نے شادی کے بارے میں پوچھا تک نہیں۔ باقر صاحب کو جوش آیا تو بول اٹھے، ’’اور جناب ہم بیاہے بھی ہیں۔‘‘

    ’’افوہ! یہ تو میں بھول ہی گیا تھا۔ مگر آپ دونوں کی شریمتیاں ہیں کہاں؟‘‘

    ’’جی میکے گئی ہوئی ہے۔ چند ماہ تک آجائے گی۔‘‘ میں نے بتایا۔

    ’’خوب! اور آپ کی؟‘‘

    ’’سرگباش ہو گئیں پچھلے مہینے! جبھی تو بے گھر ہوا پھر رہا ہوں۔‘‘ باقر صاحب رنجیدہ ہوکر بولے۔ مجھے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گئی۔ ادھر لالہ جی کے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    ’’اجی پرماتما کسی کو بیوی کی موت کا غم نہ دکھائے۔ بس کمر ہی ٹوٹ جاتی ہے انسان کی۔ میں تو خود یہ دکھ جھیلے ہوئے ہوں۔ کوئی بچہ تو نہیں چھوڑا بچاری نے؟‘‘

    ’’ایک بچی تھی۔ دو تین مہینے کے بعد پرلوک سدھار گئی۔‘‘

    ’’آہ، آپ دکھیا ہیں۔۔۔ آپ کون سے کالج میں پڑھتے ہیں؟‘‘

    ہم نے کالج کا نام بتا دیا۔ کالج کا نام بتانا تھا کہ کیا تو لالہ جی رونے کی کوشش کر رہے تھے اور کیا ایک دم چونک پڑے۔

    ’’صاحبان، معاف کیجیے! مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں آپ کو مکان نہیں دے سکتا۔‘‘

    ’’آخر کیوں۔۔۔؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔

    ’’آپ کے کالج کا ایک لڑکا یہاں رہا کرتا تھا۔ وہ سامنے کے مکان سے ایک استانی کو بھگا کر لے گیا۔ چار سال سے ان دونوں میں سے کسی کا پتا نہیں چلا۔۔۔ ہم نہیں چاہتے کہ محلے میں کہیں دوبارہ اس قسم کی واردات ہو۔‘‘ ہم نے اس نامعقول لڑکے کو کوس ڈالا۔ شام کا وقت تھا۔ پرندے اپنے اپنے آشیانوں کو واپس جا رہے تھے۔ ہم دونوں زمین پر نظریں گاڑے ہوسٹل کی طرف واپس آ رہے تھے۔ باقر صاحب شاید غور کر رہے ہوں گے کہ کس کے جوتوں پر زیادہ گرد جمی ہے۔ دل میں جو کچھ تھا سو تھا ہی، بظاہر ہم دونوں مسکرا رہے تھے۔

    ’’سراسر بے ہودگی ہے یہ مکان وغیرہ ڈھونڈنا!‘‘ باقر صاحب بولے۔

    ’’بالکل۔۔۔!‘‘ میں نے کہا۔

    ہم دونوں ہنس پڑے۔

    ویسے بھی سنتے ہیں کہ اگر صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں سمجھنا چاہیے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے