مولوی صاحب کی بیوی
آپ مجھ سے متفق ہوں یا نہ ہوں مجھے اس کی پروا نہیں، مگر میرا تو یہ خیال ہے کہ ’میاں بیوی‘ کے تعلقات کے لحاظ سے گھر کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ پہلی قسم تو یہ ہے کہ میاں بھی گھر کو اپنا گھر سمجھیں اور بیوی بھی۔ اس گھر کو بس یہ سمجھو کہ جنت ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ایسے گھر دنیا میں کم ہوتے ہیں۔ کیونکہ جنت میں جانے والے لوگ کم ہیں اور دوزخ میں جانے والے بہت زیادہ۔ دوسری قسم یہ ہے کہ اگر میاں گھر کو گھر سمجھیں تو بیوی نہ سمجھیں اور بیوی سمجھیں تو میاں نہ سمجھیں۔ ایسا گھر اعراف ہے۔ تیسری شکل یہ ہے کہ نہ تو میاں گھر کو گھر سمجھیں اور نہ بیوی۔ ایسا گھر دراصل گھر نہیں بلکہ (Hollywood) ہالی ووڈ ہے یعنی آج میاں اس بیوی کے ہیں تو کل اُس بیوی کے اور بیوی آج اس میاں کی ہیں تو کل اُس میاں کی۔ یہ ضرور ہے کہ بعض دفعہ ایک قسم والے دوسری قسم میں آنا چاہتے ہیں۔ لیکن ’’ایاز قدر خوش بشناس‘‘ کی ٹھوکر کھاتے ہیں اور ’’با ضابطہ پسپا‘‘ ہوجاتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک مضمون نگار کے لیے ان گھروں میں سے ایسا کونسا گھر ہے، جس کے حالات لکھ کر وہ اپنے مضمون کو دلچسپ بناسکتا ہے۔ اس کے متعلق میں تو کیا آپ بھی یہی کہیں گے کہ ’’قسم دوم کے گھر‘‘ میں ایسی باتیں بہت کچھ مل جائیں گی۔ وجہ یہ ہے کہ ’’قسم اول کے گھر‘‘ نمونہ جنت ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جنت میں سوائے آرام کے اور رکھا ہی کیا ہے۔ صبح ہوئی میاں بیوی دونوں اٹھے۔ بیوی نے ناشتہ پکایا، میاں کے سامنے رکھا۔ اتنے میں بچے اُٹھ بیٹھے۔ ان کا منھ ہاتھ دھلایا، کچھ کھلایا پلایا، کپڑے بدلے۔ مدرسہ بھیج دیا۔ میاں دس بجے دفتر گئے۔ سارے دن وہاں سرمغزنی کرکے شام کو گھر واپس آئے۔ دن بھر بیوی کچھ سیتی پروتی رہیں۔ شام کو میاں آئے۔ آتے آتے راستہ میں سے دو آنے کے دہی بڑے لیتے آئے۔ بیوی نے ’’دونا‘‘ لے رکابی میں دہی بڑے نکالے۔ میاں بیوی اور بچوں نے کھائے۔ میاں آرام کرسی پر دراز ہوگئے۔ چھوکرے نے حقہ بھر کر سامنے رکھ دیا۔ اب یہ حقہ پی رہے ہیں اور بیوی سے باتیں کررہے ہیں۔ بیوی پان بنا بنا کر میاں کو دے رہی ہیں۔ بچے باہر کھیلنے چلے گئے ہیں۔ رات ہوئی سب نے مل کر کھانا کھایا۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ میاں نے حقہ پیا۔ بچے دالان میں اور میاں بیوی کمرے میں جاکر سوگئے۔ صبح ہوئی، سب اٹھے اور وہی پُرانا چرخہ چلنے لگا۔ غرض یونہی ساری عمد گزار دی۔ آخر مرگئے۔ بچوں نے لے جاکر دفن کردیا۔ چلو بھئی چھٹی ہوئی۔ بھلا غور تو کیجئے یہ بھی کچھ زندگی ہوئی۔ مزا تو اس گھر میں آتا ہے جہاں کبھی تو ہمالیہ کی ٹھنڈی ہوا چلے اور کبھی جھانسی کی لو۔ کبھی اکڑ گئے اور کبھی جھلس گئے۔ ایسے گھروں کی اللہ کے فضل سے کوئی کمی نہیں ہے۔ لیجئے سامنے والے گھر ہی کو دیکھ لیجئے۔
یہ مولوی یعقوب صاحب قبلہ کا مکان ہے۔ مولوی صاحب وعظ کہتے ہیں۔ عورتوں کی شان میں بڑی بڑی گستاخیاں کرتے ہیں اور غضب تو یہ ہے کہ جو کچھ کہتے ہیں کہ اس پر گھر میں آکر عمل بھی کرتے ہیں۔ بیوی کو لونڈی سمجھتے ہیں اور بچوں کو آخور کی بھرتی۔ خود تو کمانے کے کیوں قابل ہونے لگے، ہاں بیوی کو جو کچھ میکے سے ملا ہے، اسی پر گھر چل رہا ہے۔ بیوی بڑے گھرانے کی لڑکی ہیں۔ شادی کے وقت بہت کچھ ملا۔ کپڑا لتّا ملا۔ گہنا پاتا ملا۔ کئی دکانیں ملیں، دومکان ملے۔ غرض اتنا ملا کہ دس برس ہوگئے ہیں اور اسی پر یہ حضرت مولوی صاحب بنے پھرتے ہیں۔ اب ان کے بس یہی دو تین کام رہ گئے ہیں کہ اِدھر اُدھر اُلٹا سیدھا وعظ کہتے رہیں۔ گھر میں آئیں تو بیوی کو صلواتیں سنائیں، بچیوں کی ٹھکائی کریں۔ خوب پیٹ بھر کر کھانا کھائیں۔ توند پر ہاتھ پھیریں اور شام ہی سے اس طرح ’’سنّاٹیں‘‘ کہ بس صبح ہی کی خبر لائیں۔
آپ کہیں گے کہ جب سارا خرچ بیوی کی جائداد سے چلتا ہے تو پھر آخر بیوی ان سے دبتی کیوں ہیں، لات مارکر باہر کریں۔ خود ہی تھوڑے دنوں میں ان کے ’’خنّے‘‘ ڈھیلے ہوجائیں گے۔ تو صاحب بات یہ ہے کہ یہ بچاری بیوی ہندوستانی بیوی ہے۔ ولایتی بیوی ہوتی تو اب تک کبھی کا ’’تیا پانچا‘‘ ہوجاتا۔ جتنے میاں سر چڑھتے ہیں اتنی ہی یہ غریب دبتی ہے اور جتنی یہ دبتی ہے اتنے ہی میاں اور شیر ہوتے ہیں۔ بس یہ دیکھ لو کہ اسی ’’دباؤ دباؤ‘‘ میں ان حضرت نے ساری جائداد اپنے نام لکھوالی۔ ہوا یہ کہ ایک دن یہ ایسے بگڑے ایسے بگڑے کہ طلاق دینے پر آمادہ ہوگئے۔ بیوی بچاری یہ بھی نہیں سمجھی کہ اگر یہ طلاق دیں گے تو مہر کہاں سے ادا کریں گے۔ اس کے لیے تو ’’طلاقنی‘‘ کہلانا ہی بس قیامت تھا۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے گھر میں آنا چھوڑ دیا۔ باہر کمرے میں پڑے رہتے اور وہیں سے طلاق کی دھمکی دیا کرتے۔ بیوی سے بات چیت کرنا چھوڑدیا تھا۔ اس لیے یہ گفتگو بذریعہ خط ہوا کرتی۔ ہمیشہ خط میں ’’ٹیپ کا بند‘‘ یہ ہوتا تھا کہ جائداد میرے نام کردو تو میں گھر میں آتا ہوں نہیں تو القط۔ بیوی بچاری نے ساری جائداد ان کے نام لکھ دی اور اس طرح مولوی صاحب نے بیوی کی ’’رقمی گرفت‘‘ سے چھٹکارا پایا۔ جب کچھ نہ ہونے پر یہ زور تھا تو سمجھ لیجئے جائداد کا مالک ہونے کے بعد انھوں نے کیا کچھ زور نہ پکڑا ہوگا۔ پہلے زبان چلتی تھی اب ہاتھ بھی چلنے لگا۔ بیوی سب کچھ سہتی تھیں اور اس لیے سہتی تھیں کہ ذرا کچھ بولی تو گھر بگڑ جائے گا اور بچیاں تباہ ہوجائیں گے۔ لیجئے ان کی گفتگو کا کچھ رنگ بھی دیکھ لیجئے؛
مولوی صاحب، کیا پیٹ سے ہو۔
بیوی، (شرما کر) جی ہاں۔
مولوی صاحب، پھر کوئی لڑکی جن دینا۔
بیوی، یہ کچھ میرے اختیار کی بات ہے۔
مولوی صاحب، دیکھو جی، تمہارے اوپر تلے لڑکیاں جننے سے ہم بیزار ہوگئے ہیں۔ اگر اب کے بھی لڑکی ہوئی تو تمہاری خیر نہیں ہے۔
بیوی، یہ اللہ میاں کی دین ہے۔ جی چاہے لڑکی دے، جی چاہے لڑکا۔
مولوی صاحب، تم جانتی ہو، مجھے لڑکیوں سے نفرت ہے۔
بیوی، یہ کیوں؟
مولوی صاحب، یہ اس لیے کہ دوسرے کے گھر جاتی ہیں اور باپ کے ہاں کا بہت کچھ ساتھ لے جاتی ہیں۔
بیوی، آخر اس گھر میں جو کچھ ہے وہ بھی تو لڑکی ہی کی طرف کا آیا ہوا ہے۔ اگر یہ مال لڑکی کو چلا جائے گا تو کیا ہرج ہے۔
مولوی صاحب یہ سن کر تو آپے میں نہیں رہے۔ کہنے لگے، ’’بد زبان، کیا یہ کم ہے کہ تجھ جیسی جاہل عورت ایک عالم دین متین کے حبالہ نکاح میں آئی ہو۔ قسم اللہ کی میں طرح دے جاتا ہوں ورنہ کبھی کا چوٹی پکڑ کر نکال دیا ہوتا۔‘‘
بیوی نے کہا، ’’نکال دو، میں پھر آجاؤں گی۔ مجھے تو یہیں مرنا بھرنا ہے۔‘‘ اس کے بعد جناب مولوی یعقوب صاحب قبلہ نے جو کچھ گلفشانی کی، اس پر ڈراپ سین ڈالنا ہی زیادہ مناسب ہے۔
بیوی کو اس کی پروا نہیں تھی کہ اس پر کیا ظلم ہورہے ہیں لیکن بچیوں کی حالت دیکھ کر تڑپ جاتی تھی۔ خود پہننے کو پھٹے پرانے پیوند لگے کپڑے تھے۔ اس کا تو اسے رتی برابر خیال نہیں تھا۔ ہاں بچیوں کو ننگا دیکھ کر اس کے آنسو نکل آتے تھے۔ گھر میں تھی ایسی کونسی بچوں کی ’’لانگائیر‘‘ بس دولڑکیاں تھیں۔ ایک سات برس کی۔ دوسری چار برس کی۔ مگر مولوی صاحب ان ننھی سی جانوں کے متعلق سمجھتے تھے کہ خوب موٹی تازی ہٹی کٹی عورتیں ہیں۔ گھر میں جھاڑو دیں تو یہ دیں، گھڑوں میں پانی بھریں تو یہ بھریں۔ چلمیں بھر کر لائیں تو یہ لائیں۔ غرض دنیا کا کوئی کام نہ ہوگا جو ان معصوموں سے نہ لیا جاتا ہو۔ پھر اس پر غضب یہ کہ ذرا دیر ہوئی اور ’’تڑ‘‘ سے تھپڑ پڑا۔ بیوی یہ ظلم دیکھتی تھیں اور کلیجہ مسوس کر رہ جاتی تھیں۔ مگر کیا کرتیں، جانتی تھیں کہ ذراکچھ بولیں اور گھر کا گھر وایا ہوا۔ خود تو گئیں چولھے میں بچے تباہ ہوجائیں گے۔
غرض اسی طریقہ سے کسی نہ کسی طرح کھنچی چلی جاتی تھی۔ لیکن آخر کہاں تک، اسی کوفت میں بیوی بیمار ہوئیں۔ علاج کرایا، کچھ سنبھل گئیں مگر کھانسی بدستور رہی اور ہلکا ہلکا بخار بھی رہنے لگا۔ ایک دن یہ ڈولی میں بیٹھ اپنے بھانجہ رحیم الدین کو ساتھ لے حکیم احمد سعید خاں کے پاس نبض دکھانے گئیں۔ انھوں نے نبض دیکھی۔ قارورہ ملا کر دیکھا اور کہا کہ ’’اگر مولوی یعقوب صاحب آجاتے تو اچھا تھا۔ مجھے ان سے تمہارے مرض کی صحیح کیفیت کہنی تھی۔‘‘ انہوں نے بہت نیچی آواز میں کہا، ’’وہ کیوں آنے لگے۔ آپ کو جو کچھ کہنا ہے مجھ سے کہہ دیجئے۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہئے گا نا کہ مرجاؤں گی۔ میں مرنے سے کب ڈرتی ہوں۔‘‘
حکیم جی نے کہا، ’’بوا جب تم سب کچھ سننے کو تیار ہو تو سنو۔ تمھارا مرض بہت بڑھ گیا ہے۔ دِق ہے اور تیسری درجہ پر پہنچنے والی ہے۔ اگر احتیاط نہیں کی گئی تو زندگی مشکل ہے۔ تمھیں سب سے زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔ طبیعت پر بار پڑنا اس مرض کے لیے زہر ہے۔‘‘ یہ کہہ انھوں نے نسخہ لکھ دیا۔ کہاروں نے ڈولی اٹھائی۔ انھوں نے رحیم الدین کو پاس بلاکر کہا کہ ’’مجھے بھائی کریم الدین کے پاس لے چل۔‘‘ کریم الدین ان کے رشتہ کے بھائی اور رحیم الدین کے چچا تھے۔ وکالت کرتے تھے اور اپنے کام میں بڑے ہوشیار تھے۔ خیر ڈولی مطب سے اُٹھ کر کریم الدین صاحب وکیل کے دفتر پہنچی۔ جب بہن کے آنے کی خبر ہوئی تو انھوں نے دفتر میں پردہ کراکے بہن کو اتروایا۔ بچارے پریشان تھے کہ یا تو مولوی صاحب ان کو گھر سے نکلنے نہیں دیتے تھے۔ رشتہ داروں سے ملنے کی بندی تھی یا یہ اس طرح گھر پر آنا تو کیا دفتر میں آگئیں۔ ان کے اترتے ہی وکیل صاحب نے پوچھا، ’’آخر یہ تو بتاؤ کہ تم آئیں کیسے۔‘‘
یہ، بھائی کیا بتاؤں۔ آج حکیم صاحب نے جواب دے دیا۔ کہتے ہیں کہ تم بہت جئیں بہت جئیں تو کوئی مہینہ بھر جیوگی۔
وکیل صاحب، حکیموں کی بات کا کیا ٹھیک، جو جی میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔ تم خواہ مخواہ پریشان ہوتی ہو۔
یہ، پریشان وریشان تو میں ہوتی نہیں۔ ہاں یہ خیال ہے کہ میں نہ رہی تو ان بچیوں کا کیا حشر ہوگا۔ ان کی جو حالت ہے وہ تو تم بھی جانتے ہو۔ چاہتی ہوں کہ مرنے سے پہلے تھوڑے دن ان بچیوں کو ذرا آرام سے رہتا دیکھ لوں تاکہ میرے بعد ان کو یہ تو کبھی خیال آئے کہ ماں نے مرنے سے پہلے ہم کو تھوڑا بہت سکھ پہنچایا۔ ورنہ میرے بعد دونوں یہی کہیں گی کہ ہمارے لیے تو ماں کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر رہے۔
وکیل صاحب، مگر اس کے لیے چاہییے روپے اور تم کوڑی کوڑی مولوی صاحب کو دے چکی ہو۔
یہ، اسی لیے تو میں آئی تھی کہ میرا روپیہ ان سے نکلوا دو۔
وکیل صاحب، یہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ تم نے اپنی خوشی سے جائداد منتقل کی ہے۔ اب اس کا استرداد ناممکن ہے۔
یہ، میں نے خوشی سے تھوڑی دی ہے۔ ان کے ظلموں سے دی ہے۔
وکیل صاحب، اس کا ثبوت۔
یہ، اس کا ثبوت ان کے وہ خط ہیں جو انھوں نے مجھے لکھے ہیں۔ کسی خط میں لکھا ہے کہ اگر میرے نام جائداد نہیں کی تو میں طلاق دے دوں گا۔ کسی میں لکھا ہے کہ تیرا اور تیری بچیوں کا گلا گھونٹ دوں گا، غرض کیا بتاؤں کیا کیا ظلم توڑے ہیں۔
وکیل صاحب، وہ خط ہیں کہاں؟
یہ، میرے گھر میں ہیں۔
وکیل صاحب، یہ بات ہے تو بہن میں ابھی اس کا انتظام کیے دیتا ہوں۔ مگر دیکھنا وہ خط بہت احتیاط سے رکھنا۔ انہی پر جائداد کے واپس ہونے کا دار ومدار ہے اور ہاں، تم میں مولوی صاحب کے مقابلہ پر کھڑی ہونے کی ہمت بھی ہے۔
یہ، اب وہ بات گئی۔ اب تک میں اس لیے دبتی تھی کہ گھر نہ بگڑ جائے۔ بچیاں تباہ نہ ہوجائیں۔ جب خود ہی بیس پچیس روز میں مرنا ہے تو کیسا گھر اور کیسے مولوی صاحب۔ مثل مشہور مرتا کیا نہ کرتا۔
وکیل صاحب، اچھا، تم ٹھہرو۔ میں ابھی ایک نوٹس لکھ کر دیتا ہوں۔ جاتے ہی مولوی صاحب کو دے دینا، اس کے بعد جو کچھ ہوگا وہ میں بھگت لوں گا۔
غرض وکیل صاحب نے نوٹس لکھ کر بہن کو دیا اور یہ ڈولی میں بیٹھ گھر پہنچیں۔ مولوی صاحب کرسی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ چلم بھرنے پر بڑی لڑکی کو مارا تھا۔ وہ باورچی خانہ میں بیٹھی رو رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ان کو یہ بھی تاؤ تھا کہ بیوی اتنی دیر سے نبض دکھانے گئی ہیں، اب تک واپس نہیں آئیں۔ ادھر بیوی ڈولی سے اترکر اندر آئیں اور ادھر مولوی صاحب نے کہا؛
مولوی صاحب، آخر کہاں مرگئی تھی۔
بیوی، بس زبان سنبھال کے بولنا۔
مولوی، کیا کہا۔
بیوی، یہ کہا کہ زبان سنبھل کے بات کرنا ورنہ اچھا نہ ہوگا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ مولوی صاحب کو اس نمونہ کا جواب ملا تھا۔ آگ ہی تو لگ گئی۔ مارنے کو اُٹھے۔ بیوی نے صحن میں پڑا ہوا بانس اٹھا لیا اور کہا، ’’اگر ادھر ایک قدم بڑھایا تو سر توڑ دوں گی۔ مجھے سمجھ کیا لیا ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے کہا، ’’نکل جا میرے گھر سے۔‘‘ بیوی نے کہا، ’’گھر میرا ہے، تمہارے باپ کا نہیں ہے۔ یہ لو نوٹس اور مکان خالی کرو۔‘‘ نوٹس کا نام سن کر مولوی صاحب ذرا چکرائے۔ کسی قدر دبی زبان سے کہا، ’’کاہے کا نوٹس؟‘‘
بیوی نے کہا، ’’جائداد واپس کرنے کا۔‘‘ مولوی صاحب نے بیوی کے ہاتھ سے نوٹس لیا، لکھا تھا۔
’’جو جائداد آپ نے اپنی بیوی زاہد النساء بیگم صاحبہ سے اپنے نام منتقل کرائی ہے وہ داب ناجائز سے منتقل کرائی ہے اور ہمارے پاس اس امر کا تحریری ثبوت موجود ہے کہ نہ صرف طلاق کی بلکہ قتل کی دھمکیاں دے کر یہ انتقال جائداد کی کارروائی کی گئی ہے۔ اس لیے یا تو براہ کرم اس ساری جائداد کو دو روز کے اندر زاہد النساء بیگم صاحبہ کے نام مسترد کیجئے ورنہ آپ پر دیوانی اور فوجداری دونوں قسم کی نالشیں کی جائیں گی اور آپ خرچہ کے ذمہ دار ہوں گے۔ ‘‘
نوٹس پڑھ کر مولوی صاحب نے کہا؛
مولوی صاحب، وہ میری کونسی تحریریں ہیں جس میں میں نے طلاق اور قتل کی دھمکی دی ہے۔
بیوی، بھول گئےوہ زمانہ، جب بگڑ کر باہر کے کمرے میں جا پڑے تھے۔ خطوں پر خط لکھے جاتے تھے اور اس وقت تک گھر میں نہیں آئے جب تک ساری جائداد اپنے نام نہیں لکھوالی۔
مولوی، (بڑی نرمی سے) ارے۔ تو تم نے وہ خط اب تک اپنے پاس سینت کر رکھ چھوڑے ہیں۔ لاؤ، میں بھی تو دیکھوں۔
بیوی، اب ان کو عدالت میں دیکھنا۔ میں وہ سب کاغذ بھائی کریم الدین کو دے آئی ہوں۔
مولوی، (بگڑ کر) تم بغیر میرے پوچھے کریم الدین ہاں گئیں کیوں؟
بیوی، میرا دل چاہا۔
مولوی، یاد رکھنا، چٹیا پکڑ کر گھر سے نکال دوں گا۔
بیوی، میں بھی دیکھوں، کیسے نکالتے ہو۔ اجی تم کو نکلنا پڑے گا۔ اب گئے وہ دن جب خلیل خاں فاختہ اڑاتے تھے۔
آخر مولوی صاحب کرتے تو کیا کرتے۔ وہ تو نوٹس لے باہر گئے اور یہاں ان کی بیوی نے مولوی کے ریشمی شملے پھاڑکر بچیوں کے کپڑے سینے شروع کیے۔ دونوں بچیوں کو نہلا دھلا کپڑے پہنا خاص بھلے آدمیوں کی بچیاں بنادیا۔ مولوی صاحب اِس وکیل کے ہاں گئے۔ اُس وکیل کے ہاں گئے۔ سب نے یہی جواب دیا کہ معاملہ جھگڑے کا ہے۔ واقعی اگر آپ نے قتل کی دھمکی دے کر جائداد اپنے نام لکھوائی ہے تو جائداد تو گئی ایک طرف جیل چلے جانے میں کوئی کسر نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ جائداد بیوی کے نام منتقل کردو اور اس معاملہ کو رفع دفع کرو۔
اِدھر مولوی صاحب وکیلوں سے مشورہ کرتے پھر رہے تھے اور ادھر بیوی کو یہ خیال ہوا کہ اگر میاں نے آکر اور زبردستی صندوقچی کھول کر خط نکال لیے تو کیا ہوگا۔ یہ سوچ کر انھوں نے بڑی لڑکی کو بھیج کر ڈولی منگوائی اور سیدھی کریم الدین صاحب وکیل ہاں پہنچیں اور سب کے سب خط لے جا ان کے حوالے کیے۔ سارا واقعہ بیان کردیا۔ وکیل صاحب نے خط دیکھے اور کہا، ’’بہن یہ خط تو ایسے ہیں کہ منٹ بھر میں مولوی صاحب کاکھایا پیا سب اگلوا لوں گا، مگر ایک ڈر ہے۔ اگر انھوں نے تم کو دبایا اور تم دب گئیں تو میری سب کی کرائی محنت اکارت جائے گی۔ مولوی صاحب کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ تم پر ظلم توڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ پہلے اپنے دل کو مضبوط کرلو۔ اس وقت یہ کارروائی شروع کرو۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’بھائی، اب میں جان سے بیزار ہوگئی ہوں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ گھر بگڑ جائے گا۔ بگڑجانے دو۔ اب ہی ایسا کونسا بنا ہوا ہے۔ مگر مجھے ایک ڈر ہے۔‘‘
وکیل صاحب نے پوچھا، ’’وہ کیا؟‘‘
انہوں نے کہا، ’’مجھے ڈر یہ ہے کہ وہ میری دونوں بچیوں کو مجھ سے چھین لیں گے اور چھین ہی کیا لیں گے چھین کر ان پر ظلم توڑیں گے۔ اس کا خیال آتا ہے تو دل لرز جاتا ہے۔‘‘
وکیل صاحب نے کہا، ’’اس سے تم مت ڈرو۔ بچیوں کاحق حضانت تم کو حاصل ہے۔ ۱۲ برس کی عمر تک تو وہ ان کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔‘‘ یہ سن کر بی زاہد النساء بیگم کا دل شیر ہوگیا۔ ڈولی میں سوار ہو بڑی دلجمعی سے گھر آئیں۔ یہاں آکر دیکھا تو گھر کا رنگ ہی کچھ اور پایا۔ ٹرنک ٹوٹے صحن میں پڑے ہیں۔ صندوقچے اور صندوقچیوں کا ڈھیر دالان میں ہے، سامان بکھرا ہوا ہے۔ مولوی صاحب صحن میں بڑے زوروں سے ٹہل رہے۔ چھوٹی لڑکی سہمی ہوئی صحنچی کے ایک کونہ میں دبکی بیٹھی ہے۔ بڑی لڑکی باورچی خانہ میں بیٹھی رو رہی ہے اور سر سے تُلل تُلل خون بہہ رہا ہے۔ یہ حال دیکھ کر بیوی سمجھ گئیں کہ مولوی صاحب شکست کھاچکے ہیں۔ اب یہ ان کا آخری حملہ ہے۔ اگر اس کو سَہ لیا تو بس فتح ہی فتح ہے۔ یہ ابھی سوچ ہی رہی تھیں کہ حملہ شروع ہوگیا اور مولوی صاحب نے بڑی گرج دار آواز میں کہا،
مولوی صاحب، تم کہاں گئی تھیں؟
بیوی، وکیل صاحب کے پاس۔
مولوی صاحب، کیوں گئی تھیں؟
بیوی، خط دینے۔
مولوی صاحب، تم ناشزہ ہو۔
بیوی، میں ناشزہ نہیں، زاہد النساء ہوں۔ ناشزہ ہوگی کوئی اور۔۔۔
اس پر مولوی صاحب نے ایک بڑے زبردست گالی دی۔ گالی دینا تھاکہ بیوی تو مارنے مرنے تو تیار ہوگئیں اور بڑی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر دروازہ کی طرف چلیں۔ مولوی صاحب نے پوچھا، ’’کہا ں جاتی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا، ’’جاتی کہاں ہوں، تھانہ جاتی ہوں۔ ابھی جاکر رپٹ لکھواتی ہوں کہ تم نے اس معصوم بچی کا سر پھوڑدیا۔‘‘
مولوی صاحب نے ذرا دب کر کہا، ’’میں نے مارا تو اچھا کیا۔ میری بچی ہے۔‘‘
بیوی نے بگڑ کر جواب دیا، ’’اگر ہمت ہے بچّی کا گلا گھونٹ دو، میں بھی دیکھوں تمہیں پھانسی ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ بھی اچھی ہوئی کہ ہماری بچی ہے۔ ہم جی چاہے ماریں جی چاہے لہولہان کریں جی چاہے گلا گھونٹ دیں۔ ہم سے پرشش نہیں ہوسکتی۔ خیر جو کچھ تمہیں کہنا ہے کوتوالی میں جاکر کہنا۔ ہٹو میرا رستہ چھوڑو نہیں تو ابھی غل مچاکر محلہ بھر کو اکٹھا کرلوں گی۔‘‘
مولوی صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خوشامد پر اُترآئے۔ کہنے لگے، ’’تم خواہ مخواہ بگڑتی ہو۔ اس لڑکی سے پوچھو جو میں نے اس کو مارا ہو۔ ہوا یہ کہ میں اس کے کپڑے کا ٹرنک کھول رہا تھا، یہ آکر چھیننے لگی۔ میں نے دھکا دیا، یہ گری۔ اس کا سر سِل پر پڑا۔ یونہی تھوڑی سی کھال چھل گئی ہے۔ لاؤ ذرا دھو ڈالیں۔ ابھی اچھی ہوئے جاتی ہے۔‘‘
بیوی نے جو یہ رنگ دیکھا تو ذرا ٹھنڈی پڑیں۔ میاں بیوی نے مل کر لڑکی کا زخم دھویا۔ پٹی باندھی۔ بیوی سمجھیں کہ میاں دب گئے۔ میاں سمجھے ’’الحرب خدعۃ‘‘ اب مقابلہ سے نہیں دھوکا دے کر بیوی کے پاؤں میدان جنگ سے اکھاڑدو۔ یہ سوچ کر کہنے لگے؛
’’بیوی یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ یا تو میری ایسی فرمانبردار تھیں کہ سبحان اللہ یا ایک دفعہ ہی آستینیں چڑھاکر میرے مقابلہ پر تیار ہوگئیں اور خدا اور رسول کے احکام کو یک لخت دل سے بھلا بیٹھیں۔ بیوی نے کہا، ’’کیا کروں۔ ان بچیوں کی تکلیف مجھ سے نہیں دیکھی جاتی۔ میرا کیا ہے، آج مری کل دوسرا دن۔ چاہتی ہوں کہ مرنے سے پہلے ان کو اچھی حالت میں دیکھ لوں۔‘‘
میاں نے کہا، ’’تم نے مجھ سے پہلے ہی کیوں نہ کہا۔ لاؤ اب جو کچھ کہو ان بچیوں کے لیے لادوں۔‘‘
بیوی نے کہا، ’’اس وقت اورکیا منگاؤں۔ تھوڑی سی مٹھائی لادو۔ بچّی کے چوٹ لگی ہے۔ کھاکر خوش ہوجائے گی۔‘‘ یہ سن کر مولوی صاحب مٹھائی لانے گئے۔ ان کو گئے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ کسی نے دروازہ پر آواز دی۔ بڑی لڑکی دیکھنے دروازہ پر گئی اور آکر ماں سے کہا کہ ’’ماموں کریم الدین آئے ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’جا، اندر بلا لا۔ ان سے یہاں کون چھپنے والا ہے۔‘‘ غرض بچی باہر گئی اور ماموں کو لے کر اندر آئی۔
کریم الدین، بہن، میں کچہری جا رہاتھا۔ سوچا کہ لاؤ، وکالتنامہ پر تمہارے دستخط لے لوں۔ مولوی صاحب بغیر لڑے شاید یوں جائداد نہ دیں۔
زاہد النساء، بھائی، اس کی اب ضرورت نہیں رہی۔ وہ تو اب بالکل سیدھے ہوگئے ہیں۔ دیکھو نا بچیوں کے لیے مٹھائی لینے بازار گئے ہوئے ہیں۔
کریم الدین، اچھا، تو مولوی صاحب نے اب یہ رنگ اختیار کیا ہے۔ تم سمجھیں بھی کہ آخر اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔
زاہد النساء، میں تو کچھ نہیں سمجھی۔
کریم الدین، مطلب یہ ہے کہ وہ اب خوشامد سے کام نکالنا چاہتے ہیں۔ وکیلوں کے پاس گئے تھے۔ انھوں نے جواب دے دیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ جائداد واپس کرنی ہوگی۔ اس لئے انھوں نے خوشامد کا جال پھیلایا ہے اور مزا یہ ہے کہ تھوڑی سی دیر میں تم اس میں پھنس بھی گئیں۔
زاہد النساء، پھر اب میں کیا کروں؟
کریم الدین، میں کیا بتاؤں کہ کیا کرو، لیکن میری یہ بات یاد رکھنا کہ بھولے سے بھی کوئی تحریر ان کو نہ دے بیٹھنا۔ جائداد اپنی کرلو۔ اس کے بعد جو چاہے کرنا۔
زاہد النساء، بھائی، آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ لائیے وکالت نامہ دیجئے، میں دستخط کردوں۔
غرض وکالت نامہ پر دستخط لے وکیل صاحب تو ادھر گئے اور ادھر مولوی صاحب ایک آنے کی جلیبیاں لے کر گھر میں گھسے۔ آتے ہی بچیوں کو بلایا اور دو جلیبیاں دونوں کو دیں، پانچ چھ خودکھائیں، دو بیوی کو دیں۔ اس کے بعد مٹھار مٹھار کر باتیں کرتے رہے۔ جب سمجھے کہ بیوی پھندے میں پھنس گئیں تو کہنے لگے، ’’اچھا، وہ خط تو دکھاؤ، ذرا میں بھی تو دیکھوں کہ غصہ میں میں نے تمھیں کیا لکھ دیا تھا۔‘‘ بیوی نے کہا، ’’خطوں کا ذکر تو جانے دو۔ وہ تو گئے عدالت میں۔ اب سیدھی طرح تم ساری جائداد میرے نام کردو اور اس کے بعد بات کرو۔ کیا ایک آنہ کی جلیبیاں لاکر تم مجھے اس کے شیرے میں پھنسانا چاہتے ہو۔ میں تمہاری باتیں خوب سمجھتی ہوں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب کا پارہ پھر بڑھ گیا۔ کہنے لگے، ’’اوہو ابھی دماغ درست نہیں ہوا۔ ذرا کندی کیے دیتا ہوں۔ سارے نخرے ناک کے رستے نکل جائیں گے۔‘‘
یہ پوری طرح کچھ عملی کارروائی کرنے کو اُٹھے بھی نہ تھے کہ بیوی نے شور مچانا شروع کردیا، ’’لوگو! بچاؤ بچاؤ۔ مولوی صاحب مجھے مارے ڈالتے ہیں۔‘‘ مکان تھا عین راستہ پر۔ راستہ والوں نے جو غل وشور سنا تو دروازہ پر جمع ہوگئے۔ ایک آدھ پولیس ولا بھی آگیا۔ مجمع میں سے ایک نے بڑھ کر کنڈی کھٹکھٹائی اور پوچھا، ’’یہ کیا غل ہورہاہے۔‘‘ اب مولوی صاحب گھبرائے کہ بیٹھے بٹھائے اپنے خلاف ایک ثبوت اور کھڑا کرلیا۔ باہر نکلے، لوگوںکو کہہ سن کر ٹالا۔ اندر آکر بیوی سے کہا کہ ’’ابھی میرے گھر سے نکل جا۔‘‘ بیوی اڑ گئیں کہ یو تو میں جاتی نہیں۔ دھکے دے کر نکالنا ہے تو نکالو۔ قیامت ہوجائے مگر مکان کا قبضہ تو میں نہیں چھوڑوںگی۔ آخری بیوی جیتیں اور میاں ہارے۔ کچہری گئے، اسٹامپ خریدا اور بیوی کی ساری جائداد ان کے نام منتقل کرکے کاغذ کی رجسٹری کرادی۔ دستاویز لاکر بیوی کے منھ پر ماری اور کہا، ’’لے۔ نیک بخت سنبھال اپنی جائداد۔ اب میرا تیرا کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن یاد رکھ کہ بچیوں کی شکل دیکھنے کو ترس جائے گی۔‘‘
بیوی نے کہا، ’’اجی رہنے دو یہ با تیں۔ ۱۲ برس کی عمر تک تو مجھ سے ان کو کوئی چھڑا نہیں سکتا اور ۱۲ برس کیسے میں تو اب تھوڑے دنوں میں ختم ہوئی جاتی ہوں۔ اس کے بعد تم جانو اور تمھاری اولاد جانے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسا انتظام کرکے جاؤں گی کہ ان کے پیسے کو تم ہاتھ نہ لگا سکو۔‘‘
مولولی صاحب نے جل کر کہا، ’’یہ بات ہے تو میں تجھے طلاق ہی دے دیتاہوں۔‘‘ بیوی نے کہا، ’’دے دو۔ میں کیا اس سے ڈرتی ہوں۔ مگر میرے مہر کا پہلے انتظام کردو، نہیں تو یاد رکھنا، پندرہ روپے مہینہ دو ںگی مگر تم کو دیوانی کی جیل میں سڑاؤں گی۔‘‘ یہ حملہ ایسا سخت تھا کہ مولوی صاحب تو مولوی صاحب کوئی خاص صاحب بھی ہوتے تو بس ’’چکت‘‘ تھے۔ آخر بڑبڑا تے ہوئے مولوی صاحب گھر سے چلے گئے اور بیوی بچیوں کو گلے لگا کر خوب روئیں۔
رات کو مولوی صاحب گھر پر آئے، کھانا مانگا۔ بیوی نے کہا، ’’ٹھہرو۔ پہلے بچیاں کھالیں، اس کے بعد تمھیں ملے گا۔‘‘ بھلا اس بات کی مولوی صاحب تاب لا سکتے تھے۔ بگڑ کر گھر سے نکل گئے اور کسی دوست کے ہاں کھاپی کر وہیں رات گزار دی۔ دوسرے دن بیوی نے کریم الدین صاحب کو بلایا اور کہا کہ ’’میری ایک دکان بکوا دو۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’آخر اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ ’’مرنے سے پہلے میں چاہتی ہوں کہ اجمیر شریف اور دہلی کی درگاہوں کی زیارت کر آؤں اور بچیوں کو بھی کچھ گہنا کپڑا بنوادوں۔ اس کے بعد یہ بچیاں جانیں اور ان کے باپ جانیں۔ اور ہاں میری طرف سے کوئی ایسا کاغذ بھی لکھ دینا کہ میرے بعد میری ساری جائداد بچیوں کو پہنچے اور مولوی صاحب کو ایک حبہ نہ ملے۔ اگر میری جائداد میں وہ اپنا شرعی حصہ لینا چاہیں تو پہلے میرا مہر ادا کریں۔‘‘
غرض ایک دکان چار ہزار میں بکی۔ بیوی نے بچیوں کے خوب دل کھول کر کپڑے بنوائے۔ تھوڑا بہت زیور بھی خریدا۔ اپنی حیثیت بھی کچھ درست کی اور اجمیر شریف جانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ مولوی صاحب کو خبر ہوئی وہ پیٹ پکڑے گھر آئے۔ بیوی کو پہلے ڈرایا، دھمکایا پھر خوشامد کی۔ مگر یہاں کا رنگ ہی بدل چکاتھا۔ آخر اس پر اتر آئے کہ ’’مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ تمھاری وجہ سے میں بھی زیارت کرلوں گا۔ دوسرے کسی غیر محرم کے ساتھ جانا شرعاً منع ہے۔‘‘ مگر بیوی کیا ماننے والی تھیں، کہنے لگیں کہ ’’تمہیں رہنا ہے تو گھر میں رہو۔ میں اکیلی ہی جاؤں گی، زیادہ ہوا تو رحیم الدین کو ساتھ لے لوں گی۔ بچیاں میرے ساتھ جائیں گی۔ تم میرے آنے تک گھر کی حفاظت کرتے رہو۔‘‘ بچارے مولوی صاحب کرتے تو کیاکرتے انھوں نے بھی غنیمت سمجھا کہ ’’چلو یہاں ٹھہرنے کو ٹھکانا اور کھانے کو روٹی تو مل جائے گی۔ اگر یہ نیک بخت گھر ہی سے نکال دیتی تو میں اس کا کیا بنا لیتا۔‘‘
قصہ مختصر یہ کہ بچیوں اور رحیم الدین کو لے کر بی زاہد النساء اجمیر شریف پہنچیں۔ وہاں کئی دن رہیں، خوب خیر خیرات کی۔ وہاں سے نکل دہلی پہنچیں۔ کئی دن درگاہوں کی زیارت میں گزارے۔ آخر ایک دن خیال آیاکہ دہلی میں بڑے بڑے حکیم ہیں۔ چلو دیکھیں تو یہ میری بیماری کو کیا کہتے ہیں۔ ریشمی برقع اوڑھ موٹر میں بیٹھ حکیم ظفر اللہ خاں کے مطب میں گئیں، نبض دکھائی۔ انھوں نے نبض دیکھ کر کہا کہ ’’واہ بھئی واہ، یہ تم کو میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی۔ تمھاری نبض تو ایسی ہے کہ ہزاروں میں ایک آدمی کی ہوگی۔ تم میرا امتحان لینے آئی ہو یا مذاق کرنے۔‘‘
زاہد النساء نے کہا، ’’حکیم صاحب، یہ آپ کیا فرمارہے ہیں۔ میں بچاری آپ سے کیا مذاق کروں گی۔ ہمارے شہر کے حکیم صاحب نے میرے متعلق یہ حکم لگایا تھاکہ میں ایک مہینہ سے زیادہ نہیں جینے کی۔ اس میں سے بھی بائیس دن گذر چکے ہیں۔‘‘
حکیم جی، اور وہ حکیم صاحب ہیں کون؟
زاہد النساء، حکیم احمد سعید خاں۔
حکیم جی، تعجب ہے۔ حکیم احمد سعید خاں کو میں بھی جانتا ہوں۔ اچھے حکیم ہیں اور ہاں، انھوں نے مرض کیا بتایا تھا؟
زاہد النساء، دِق۔
حکیم جی، کیا تم پر کوئی مصیبت پڑی تھی؟
زاہد النساء، جی مصیبت کی کچھ نہ پوچھئے۔ ساری عمر مصیبت ہی میں گذری ہے۔
حکیم جی، اور اب؟
زاہد النساء، اب میں بالکل آزاد ہوں۔ غم کو پاس تک نہیں پھٹکنے دیتی۔
حکیم جی، اوہو، یہ بات ہے۔ بی بی، خدا کا شکر کرویا تو مصیبت سے رہائی پانے کے بعد تمھاری طبیعت مرض پر غالب آگئی یا تشخیص میں حکیم احمد سعید خاں سے کچھ غلطی ہوئی۔ بہرحال میں تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ دِق تو کیا کوئی مرض بھی تم کو نہیں ہے۔
زاہد النساء، تو اب میں ایک مہینے میں نہیں مروں گی۔
حکیم جی، بی بی، مرنا جینا تو خدا کے ہاتھ ہے۔ مگر بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہینے بھر تو کیاشاید اور پچاس ساٹھ برس تک گھسیٹ جاؤ۔ اچھا، خدا حافظ۔ لاؤ دوسری ڈولی لاؤ۔
مطب سے رخصت ہوکر بی زاہد النساء خوشی خوشی محبوب ہوٹل میں آئیں۔ بچیوں کو گلے لگاکر خوشی کے آنسو خوب بہائے۔ چاندی چوک میں پھر کر بہت سارا سامان خریدا۔ میاں کو اپنے آنے کا تار دیا۔ رات کی گاڑی میں روانہ ہوئیں۔ دوسرے دن شام کے چار بجے اپنے شہر پہنچیں۔ لینے کے لیے اسٹیشن پر مولوی صاحب موجود تھے۔ کھلے تانگہ میں برقعہ اوڑھ کر بیٹھیں۔ مولوی صاحب کو بھی لاحول پڑھ کر اسی تانگہ میں بیٹھنا پڑا۔ گھر پہنچ کر میاں کو سوغاتیں دیں۔ دوسرے دن گھر کا یہ سامان نکالا، وہ سامان خریدا اور تھوڑے ہی دنوں میں گھر کی رنگت بدل گئی۔ بیوی تو پہلے سے گھر کو گھر سمجھتی ہی تھیں۔ میاں بھی گھر کو گھر سمجھنے لگے۔ چلو گھر جنت ہوگیا۔
اب اس گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں رہی جو دیکھنے یا لکھنے کے قابل ہو۔ بھلا ’’کام جنت میں ہے کیا ہم سے گنہگاروں کا۔‘‘ اب میاں جانیں بیوی جانیں اور ان کا گھر جانے۔ اچھا، مولوی یعقوب صاحب اور زاہد النساء بیگم صاحبہ آداب عرض کرتا ہوں، خدا حافظ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.