یہ بہت مشہور جانور ہے۔ قد میں عقل سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔ چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے کہ موسیقی سے ذوق رکھتا ہے، اسی لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔ کسی اور جانور کے آگے نہیں بجاتے۔
بھینس دودھ دیتی ہے لیکن وہ کافی نہیں ہوتا۔ باقی دودھ گوالا دودھ والا دیتا ہے اور دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔ تعاون اچھی چیز ہے لیکن دودھ کو چھان لینا چاہئیے تاکہ مینڈک نکل جائیں۔
بھینس کا گھی بھی ہوتا ہے۔ بازار میں ہر جگہ ملتا ہے۔ آلوؤں، چربی اور وٹامن سے بھرپور۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ پیسے پر بھینس کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل میں نہ جانا چاہئیے۔
آج کل بھینسیں انڈے نہیں دیتیں۔ مرزا غالب کے زمانے کی بھینسیں دیتی تھیں۔ حکیم لوگ پہلے روغنِ گُل بھینس کے انڈے سے نکالا کرتے تھے۔ پھر دَوا جتنی ہے کُل بھی نکال لیا کرتے تھے۔ بہت سے امراض کے لیے مفید ثابت ہوتی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.