بلڈ پریشر
’’میرا بلڈپ ریشر۔۔۔‘‘ شیطان نے پھر شروع کیا۔
’’درست ہے۔‘‘ مقصود گھوڑے نے پھر ان کی بات کاٹ دی۔ ’’ہوا یہ کہ آج صبح جو میں اٹھ کر دیکھتا ہوں تو کائنات میرے لیے سنوری ہوئی تھی۔ سورج میرے لیے ضرورت سے زیادہ چمک رہا تھا اور اپنی چمکیلی اور سنہری شعاعیں براہِ راست میرے واسطے بھیج رہا تھا۔ باغیچے میں لاتعداد پھول محض میرے لیے کھلے تھے اور پرندے صرف اس امید پر سریلے گیت گارہے تھے کہ میں سنوں گا۔ پھر ناشتے پر مجھے دنیا کی بہترین چائے ملی جو صرف میرے لیے دارجلنگ کی خوش نما پہاڑیوں سے چنی گئی تھی اور دنیا کی تندرست ترین گائے نے اپنے لخت جگر منظورِنظر بچھڑے کو نظرانداز کرتے ہوئے میرے لیے دودھ کا ایک گلاس بھیجا۔ لاکھوں شہد کی مکھیاں مدتوں فقط میرے لیے محنت مشقت کرتی رہتی ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنی کاوشوں کا نتیجہ شہد کی صورت میں میری خدمت میں پیش کیا، جسے میں نے بڑی فراخدلی اور خندہ پیشانی سے قبول فرمایا۔‘‘
ہم مقصود گھوڑے کے ہاں رات کے کھانے پر مدعو تھے۔ اس کا گھر ہمارے ہوسٹل سے سات میل دور تھا۔ وہاں سے رات کے دس بجے آخری بس چلتی تھی۔ ابھی ساڑھے نوبجے تھے اور کھانے کے بعد باتیں ہو رہی تھیں۔ قنوطیت اور رجائیت پر بحث ہو رہی تھی۔
’’لیکن اس میں ایسی خاص بات کیا ہے؟ ہر شخص صبح اٹھ کر سورج کو دیکھتا ہے اور حسب توفیق ناشتہ کرتا ہے۔ تم تو خواہ مخواہ بڑھا چڑھا کر باتیں کر رہے ہو۔ بھلا آج تمہیں کون سی خوش خبری ملی ہے جو اتنے مسرور ہو۔‘‘
’’آج تو مجھ سا خوش قسمت تمہیں آس پاس نہیں ملے گا۔ آج میں نے تیرہ ہزار مرتبہ سانس لیا ہے۔ آج میرا دل ستاون ہزار مرتبہ دھڑکا ہے۔ آج میں طرح طرح کے حادثوں سے محفوظ رہا ہوں۔ آج میں کسی موٹر کے نیچے نہیں آیا۔ آج مجھ پر کوئی درخت نہیں آن گرا۔ آج میں کسی شبے میں گرفتار نہیں کیا گیا۔ آج کسی نے میری جیب نہیں کتری۔ آج کسی لفنگے نے مجھے محض تفریحاً پیٹا نہیں۔ آج میں کسی پر عاشق نہیں ہوا۔ اور آج۔۔۔‘‘
’’وہ اور بات ہے۔‘‘ گیدی صاحب بولے، ’’لیکن حساس شخص کبھی بھی مسرور نہیں رہ سکتا۔ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ رجائیت پسند وہ خوش فکرا ہے جو شیر سے ڈر کر درخت پر چڑھ جائے اور جب کہ شیر نیچے کھڑا اس کا انتظار کر رہا ہو، وہ آس پاس کے نظاروں سے خوب لطف اندوز ہوتا رہے۔‘‘
’’دیکھیے! میں آپ کو مثال دوں۔ اگر ہمارے سامنے پانی کا آدھا گلاس رکھا ہو، تو میں اس بات پر خوش ہوں گا کہ شکر ہے کہ اس میں پانی تو ہے اور آپ یہ سوچ کر غمگین ہوں گے کہ یہ آدھا خالی کیوں ہے؟‘‘ مقصود گھوڑے نے کہا۔
’’در اصل ہم پریشان اس لیے ہوتے ہیں کہ آتی ہوئی مصیبت کو جلد از جلد رخصت کرنے کی بجائے اس کا استقبال کرتے ہیں اور اسے بیٹھنے کو کرسی پیش کرتے ہیں۔ اور پھر ہماری توقعات بے شمار ہیں اور ہم بے حد خود غرض ہیں۔ چند سال پہلے میں نے باغیچہ لگا رکھا تھا تو ہر رات کو کچھ اس قسم کی دعا مانگا کرتا کہ اے خدا آج رات بالکل ہوا نہ چلے۔ اور اگر پڑے تو صرف گلاب کے تختوں پر پڑے۔ جس کونے میں خشک بیج ہیں، اس طرف کچھ نہ ہو۔ کل گیندے کے پھولوں کو خوب دھوپ لگے، لیکن ذخیرے پر دھوپ قدرے ہلکی ہو۔ اس کے بعد سہ پہر کو معمولی سی بارش ہو، تاکہ پھل دار پودوں کو پانی مل جائے۔ لیکن ذخیرے پر بارش نہ ہو اور۔۔۔‘‘ بڈی اپنا فلسفہ بیان کر رہا تھا۔
’’حضرات میرا بلڈ پریشر۔‘‘ شیطان بولے۔
’’درست ہے روفی۔‘‘ مقصود گھوڑے نے پھر بات کاٹی، ’’بات دراصل یہ ہے کہ۔۔۔‘‘
’’حضرات سنیے۔‘‘ شیطان نے داہنا ہاتھ اٹھا کر زور سے نعرہ لگایا، ’’در اصل بات یہ ہے کہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ کب ایک اچھا بھلا مسخرہ قنوطی بن جائے گا اور کب ایک روتا پیٹتا قنوطی چھلانگیں مارنے لگے گا۔ اس لیے یہ بحث ہی فضول ہے۔ اسی قسم کا ایک قصہ میں سنانا چاہتا ہوں جس کا تعلق نہ صرف اس موضوع سے ہے بلکہ میرے بلڈ پریشر سے بھی ہے۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ تقریباً سال بھر سے میں قنوطی رہا ہوں۔ بالکل گیا گزرا قنوطی! اور میرا بلڈ پریشر دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ میں صبح سے شام تک فکر کرتا رہتا اور شام سے صبح تک۔۔۔ اگر کوئی فکر کرنے کی بات ہوتی تب بھی فکر کرتا، اور جب ایسی کوئی بات نہیں ہوتی تب اور بھی فکر کرتا کہ ایسی بات کیوں نہیں ہے۔ پچھلے اتوار کو ڈاکٹر صاحب نے میرا بلڈ پریشر لیا تھا اور وہ بہت گھبرائے تھے۔ کیونکہ بلڈپریشر کا گراف اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ بیس بائیس سال کی عمر میں بلڈ پریشر کا بڑھنا نہایت خطرناک ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا فکر تھا جس نے میری زندگی تلخ کر رکھی تھی۔ نہ مجھے دنیا کی کسی چیز سے دلچسپی تھی اور نہ جینے کی کوئی تمنا تھی۔ میرا یہی خیال تھا کہ یہ بیزاری بڑھتی جائے گی اور میرا بلڈ پریشر بھی بڑھتا جائے گا۔ لیکن دفعتاً سب کچھ بدل گیا۔۔۔ حالات بدل گئے۔۔۔ دنیا بدل گئی۔ کل صبح سے میری زندگی میں حیرت انگیز تبدیلیاں آگئیں۔ مجھے اتنی امیدیں اور مسرتیں مل گئیں کہ اب یہی جی چاہتا ہے کہ ناچنے لگوں۔‘‘
’’بھئی خیال رکھنا، کہیں بس نہ نکل جائے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ابھی دیر ہے۔ میں صرف چند منٹ لوں گا۔‘‘ شیطان بولے، ’’ہاں تو ہوا یوں کہ کل صبح یونہی مسکراہٹ کی لہر میرے چہرے پر دوڑ گئی۔ میں کپڑے پہننے میں ہمیشہ لاپروائی سے کام لیا کرتا تھا۔ پتلون کسی سوٹ کی ہوتی تو کوٹ کسی سوٹ کا، اور ٹائی کسی رنگ کی ہوتی۔ لیکن کل صبح میں نے نہایت اچھا لباس پہنا، تمام کپڑے ایک دوسرے کے مطابق تھے۔ کالج جاتے وقت میں نے ایک عجیب بات محسوس کی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اس سڑک کو پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ میں نے کئی نئی عمارتیں بھی دیکھیں۔ بہت سی نئی دکانیں اور نئے اشتہار نظر آئے۔ کئی نئے چہرے دکھائی دیے۔ شاید تمہیں یاد ہوگا کہ میں نے ہمیشہ سائنس کی برائی کی ہے اور کئی مرتبہ یہ بھی کہا ہے کہ شاید میں سائنس پڑھنا چھوڑ دوں گا، کیونکہ یہ مضمون مجھے بے حد خشک اور مشکل معلوم ہوتا تھا۔
لیکن کل مجھے محسوس ہوا کہ لیکچر روم میں جو بڑے بڑے چارٹ آویزاں ہیں، وہ بالکل آسان ہیں۔ پروفیسر صاحب نے جو کچھ بورڈ پر لکھا وہ نہ صرف آسان ہی تھا بلکہ دلچسپ بھی تھا۔ پھر میں نے اپنی ہم جماعت مس ہدہد کو غور سے دیکھا۔ سال بھر کے بعد مجھے دفعتاً معلوم ہوا کہ اس کی شکل بالکل معمولی ہے، بلکہ بالکل ہی معمولی ہے اور صبیحہ کے مقابلے میں تو وہ کچھ بھی نہیں۔ میرے خیال میں مقابلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نہ جانے اس کا خیال کیوں مجھ پر اتنے دنوں سوار رہا تھا۔ میں نے دل کھول کر اپنے اوپر لعنت بھیجی۔ آئندہ اگر کبھی مجھے اس سے باتیں کرتے دیکھ پاؤ تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ خیر، اس کے بعد پریکٹیکل شروع ہوا۔ جو آلے اور اوزار مجھے زہر دکھائی دیتے تھے وہ کچھ اتنے برے معلوم نہیں ہو رہے تھے۔ پہلے تو میں پریکٹیکل خود کرتا ہی نہیں تھا۔ کل میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے کیا اور مجھے سائنس اس قدر دلچسپ معلوم ہوئی کہ اب میرا ارادہ ہے کہ ایم ایس سی کر کے ریسرچ کر دوں۔ دوپہر کو کالج سے واپس آتے وقت دور میں نے ایک تانگہ دیکھا جس میں صبیحہ بیٹھی تھی۔‘‘
’’صبیحہ بیٹھی تھی؟ سچ مچ؟‘‘ کئی حضرات نے چونک کر پوچھا۔
’’بھئی ذرا خیال رکھنا، کہیں بس نہ نکل جائے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ہاں سچ مچ صبیحہ تھی۔ اس سڑک سے وہ ہر روز تانگے میں گزرتی تھی، لیکن میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ نہ جانے وہ کون سی طاقت تھی جس نے کل مجھے اس کی جانب متوجہ کر دیا۔ ذرا سی دیر میں میں سائیکل پر اس کے تانگے کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔ میں نے سلام کیا جس کا جواب ملا۔ کل مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ صبیحہ نہایت ہی پیاری لڑکی ہے اور اس سے بہتر آنکھیں کسی کی نہیں ہو سکتیں۔ دفعتاً مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں صبیحہ پر دوبارہ عاشق ہو رہا ہوں۔ ہوسٹل پہنچ کر میں نے آئینہ دیکھا۔ کبھی میرا چہرہ ترچھا نظر آتا تھا، کبھی لمبوترا اور کبھی بالکل گول دائرے کی طرح۔ یہ آئینے کا نقص تھا۔ غالباً اسی سستے آئینے کی وجہ سے مجھے اس قدر احساس کمتری تھا۔ لطف یہ کہ مجھے پہلے اس کا خیال تک نہیں آیا۔
کل میں فوراً بازار گیا اور ایک اچھا سا آئینہ خریدا۔ اس میں اپنا چہرہ غور سے دیکھتا ہوں تو زمین آسمان کا فرق تھا۔ مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ میں اتنا برا نہیں ہوں۔ پھر شام کو میرا میچ تھا۔ میں گھبرا رہا تھاتو صرف اس بات سے کہ اگر میچ لمبا ہوگیا اور اندھیرا ہوگیا تو میں ضرور ہار جاؤں گا، کیونکہ روشنی کم ہوتے ہی کھیل میں میری دلچسپی کم ہوتی جاتی تھی۔ کل شام کو میچ واقعی لمبا ہوگیا اور آخری سٹ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ لیکن میں اسی دلچسپی اور تندہی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ یہاں تک کہ جب میں نے میچ جیتا ہے تو باقاعدہ تارے نکلے ہوئے تھے۔ تعجب ہے کہ میں نے پہلی مرتبہ روشنی کی کمی کو محسوس نہیں کیا اور ایسے مخالف کو ہرایا جس نے کئی سال سے میری زندگی تلخ کر رکھی تھی۔ کھیل کے بعد میں نے صبیحہ کے گھر کا رخ کیا۔۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
’’بھئی وہ ذرا بس کہیں۔‘‘ میں نے نہایت دھیمی آواز میں کہا۔
’’بس میں دیر ہے۔ وہاں صبیحہ کے ابا ملے، اس کی امی ملیں۔ پہلے مجھے ان دونوں سے یہی شکایت تھی کہ وہ مجھ سے بے رخی برتتے ہیں، لیکن کل رات میں نے پہلی مرتبہ ان کی آنکھوں میں شفقت جھلکتی دیکھی۔ وہ میری جانب بڑی محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ میری نظریں انگیٹھی پر رکھی ہوئی تصویروں کی طرف چلی گئیں، جہاں کنبے کے افراد کی تصویریں رکھی تھیں۔ وہاں ایک تصویر میری بھی تھی۔ یہ تصویر مجھے پہلے کیوں نہیں دکھائی دی؟ اس کا جواب میں نہیں دے سکتا۔ پھر مجھے کھانے پر ٹھہرا لیا گیا۔ دسترخوان پر صبیحہ ذرا دور بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا، بری طرح شرما رہی تھی۔ میں رات گئے لوٹا، لیکن کوٹھی کے دروازے پر ٹھٹک کر رہ گیا۔ اوپر صبیحہ کے کمرے میں روشنی تھی اور کوئی دریچے میں کھڑا تھا۔ اس سے پہلے بھی میں کتنی مرتبہ رات گئے ان کے ہاں سے لوٹا تھا۔ صبیحہ کے کمرے میں روشنی بھی ہوا کرتی تھی اور شاید وہ دریچے سے مجھے دیکھا بھی کرتی، لیکن کل رات پہلی مرتبہ مجھے اس کا احساس ہوا۔
اور جب میں واپس لوٹا تو چاند مسکرا رہا تھا۔ تار ے مسکرا رہے تھے۔ دنیا مسکرا رہی تھی۔ میرا رواں رواں مسرت سے ناچ رہا تھا۔ میرے خیال میں اتنے مختصر عرصے میں اتنی ساری خوش گوار تبدیلیاں کسی کی زندگی میں نہیں آئی ہوں گی۔ پرسوں میں ایک چڑچڑا اور بیزار لڑکا تھا، جس کی زندگی کا مقصد صرف خودکشی تھا۔ جس کے بلڈ پریشر کا گراف دن بدن اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن کل قسمت کچھ ایسی مہربان ہوئی کہ سب کچھ بدل گیا۔ میرے چاروں طرف جو دھند سی چھائی رہتی تھی وہ یک لخت دور ہوگئی۔ مجھے وہ چیزیں دکھائی دینے لگیں جن سے میں پہلے آشنا نہیں تھا۔ یہی کائنات جو بے حد دھندلی، بے معنی اور دور دور معلوم ہوتی تھی، فعتاً اپنی تمام رنگینیوں اور دلفریبیوں کے ساتھ بالکل قریب آگئی۔‘‘
’’اور تمہارا بلڈ پریشر؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’ہاں! میرا بلڈ پریشر۔۔۔ آج صبح میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے میرا معائنہ کیا اور حیران رہ گئے۔ میرا بلڈ پریشر اس قدر گر چکا تھا کہ نارمل سے بھی نیچے تھا۔‘‘
’’کمال ہے۔‘‘
’’حد ہو گئی۔‘‘
’’لیکن روفی بلاوجہ تو یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا۔ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوا ہوگا۔‘‘
’’نہیں کوئی خاص بات تو نہیں ہوئی۔‘‘ شیطان بولے۔
’’پھر بھی۔ شاید کچھ ہوا ہو۔ پرسوں یا کل۔‘‘
’’کوئی ایسی خاص بات تو نہیں ہوئی۔ فقط میں نے ذرا۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں۔ فقط کیا؟‘‘ ہم سب نے پوچھا۔
’’فقط میں نے اپنی عینک کے شیشے بدلوائے تھے۔‘‘ انہوں نے اپنی عینک اتار کر کہا، ’’پچھلے ہفتے میں نے کافی عرصے کے بعد دوبارہ اپنی بینائی کا معائنہ کرایا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے نئے شیشے تجویز کیے تھے۔ یہ نئی عینک میں نے کل صبح سے لگانی شروع کی ہے۔‘‘
ہم سب لاحول پڑھتے ہوئے اٹھے اور بڑی پھرتی سے سڑک پر پہنچے۔ آخری بس نکل چکی تھی۔ جب ہم سات میل لمبی سڑک پر پیدل ہوسٹل کی طرف آرہے تھے تو ہمارے بلڈ پریشر کا گراف ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی اونچا پہنچ چکا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.