Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈگریاں بڑی نعمت ہیں

ابن انشا

ڈگریاں بڑی نعمت ہیں

ابن انشا

MORE BYابن انشا

    لاہور کے ایک اخبار میں ایک وکیل صاحب کے متعلق یہ خبر مشتہر ہوئی ہے کہ کوئی ظالم ان کا سرمایہ علم و فضل اور دولت صبر و قرار اور آلات کاروبار لوٹ لے گیا ہے۔ تفصیل مال مسروقہ کی یہ ہے ایک ڈگری بی۔ اے۔ کی ایک ایل ایل بی کی۔ ایک کیریکٹر سرٹیفیکٹ بدیں مضمون کہ حامل سرٹیفیکٹ ہذا کبھی جیل نہیں گیا۔ اس پر ہر قسم کے مقدمے چلے لیکن یہ ہمیشہ بری ہوا۔ الماری کا تالا توڑ کر یہ سرٹیفیکٹ لے گئے ہوں یا یہ سہواً خود ان کے پاس چلے گئے ہوں۔ وہ براہ کرم واپس کردیں۔ ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اگر کوئی اور صاحب اس نابکار چور کو پکڑ کر لائیں تو خرچہ آمد و رفت بھی پیش کیا جائے گا۔ حلیہ ہے ہے۔ چور کا نہیں، سرٹیفیکٹوں کا، کہ ان پر بندے کا نام لکھا ہے۔ گلشن علی سمرقندی، سابق سوداگر شکرقندی۔ مقیم گوال منڈی۔

    بعض کم فہم ظاہر بین کہیں گے کہ ڈگری سے کیا ہوتا ہے۔ وکیل صاحب شوق سے کاروبارجاری رکھیں۔ وکالت علم و عقل بلکہ زبان سے کی جاتی ہے۔ ڈگری کوئی تعویذ تھوڑا ہی ہے کہ جس کے بازو پر باندھا وہ گونگا بھی ہے تو پٹ پٹ بولنے لگا۔ فصاحت کے بتاشے گھولنے لگا۔ لیکن ہماری سینے تو ڈگری اور عہدہ دونوں کام کی چیزیں ہیں۔ بلکہ علم اور لیاقت کا نعم البدل ہیں۔ آناں راکہ ایں دہند آں نہ دہند۔ آپ نے منصب دار لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ بظاہر بے علم معلوم ہوتے ہیں، لیکن وقت آنے پر ادب اور آرٹ کے اسر و رموز پر ایسی مدبرانہ گفتگو کرتے ہیں کہ دانا اندرآں حیراں بماند۔ جتنا بڑا عہدہ دار ہوگا اتنی ہی اونچی بات کرے گا۔ نیچے والوں کو خاطر میں نہ لائے گا۔

    ڈگری کو بھی ہم نے اسی طرح لوگوں کے سر چڑھ کر بولتے دیکھا۔ ایک ہمارے مہربان ہیں۔ اردو زبان و ادب کے پروفیسر۔ ایک روز دست نگر کو دستِ نگر پڑھ رہے تھے اور ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ بول رہے تھے۔ ہم نے بڑے ادب سے ٹوکا لیکن وہ بکھرگئے اور پوچھنے لگے، کتنا پڑھے لکھے ہو تم؟ ہم نے کہا کچھ بھی نہیں بس حرف شناس ہیں۔ الف بے آتی ہے۔ بیس تک گن بھی لیتے ہیں۔ اس پر وہ اندر سے دوفریم شدہ چوکھٹے اٹھا لائے۔۔۔ ان پر ایک ڈگری ایم اے کی تھی۔ دوسری پی ایچ ڈی کی۔ بولے اب کہو تمہارا کہا سند ہے یا ہمارا فرمایا ہوا۔ اس دن پہلی بار ہمیں اپنی غلطی معلوم ہوئی۔ اب ہم بھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن والوں کی طرح دستِ نگر، چشمِ دید، دم زدن اور استفادہ حاصل کرتے ہی بولتے اور لکھتے ہیں۔

    ڈگری اور سرٹیفیکٹ کا چلن پرانے زمانے میں اتنا نہ تھا جیسا آج کل ہے۔ اس زمانے کے لوگ بیمار بھی سرٹیفیکٹ کے بغیر ہو جایا کرتے تھے اور بعض اوقات تو شدت مرض سے مر بھی جایا کرتے تھے۔ اب کسی کی علالت کو، خواہ سامنے پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہو، بلاسرٹیفیکٹ کے ماننا قانون کے خلاف ہے۔ پرانے زمانے میں لوگوں کے اخلاق بھی بلا سرٹیفیکٹ کے شائستہ ہوا کرتے تھے۔ اب جس کے پاس کیریکٹر سرٹیفیکٹ نہیں، سمجھو کہ اس کا کچھ اخلاق نہیں۔ اس کی نیک چلنی مشتبہ۔ اب تو مرنے جینے کا انحصار بھی سرٹیفیکٹ پر ہے۔ سانس کی آمد و شد پر نہیں۔ آپ نے اس شخص کا قصہ سنا ہوگا جو خزانے سے پنشن لینے گیا تھا۔ جون کی پنشن تو اسے مل گئی کیونکہ اس ماہ کے متعلق اس کے پاس بقید حیات ہونے کا سرٹیفیکٹ تھا۔ لیکن مئی کی پنشن روک لی گئی کہ جب مئی میں زندہ ہونے کا سرٹیفیکٹ لاؤگے تب ادا کی جائے گی۔ اصول اصول ہے۔ اس منطق سے تھوڑا ہی توڑا جا سکتا ہے کہ جو شخص جون میں زندہ ہے، اس کے مئی میں بھی زندہ ہونے کا غالب امکان ہے۔ باقاعدہ سرٹیفیکٹ ہونا چاہیے۔

    عشق کا ریست کہ بے آہ و فغاں نیز کند۔ وکیلوں کے لیے بے شک ڈگری کی پابندی ہے۔ اسی لیے وہ ڈگریاں چوری ہو جانے پر پریشان اور بے بس ہو جاتے ہیں۔ لیکن مؤکلوں اور گواہوں کو ان کے بغیر ہی ایسی لیاقت پیدا کرتے دیکھا ہے کہ ڈگری والا تری قدرت کا تماشا دیکھے۔ آپ نے ان میر صاحب کا ذکر سنا ہے جو ہاتھ میں چھڑی لیے پھندنے دار ٹوپی پہنے، بغل میں بستہ مارے کچہری کے احاطے میں گھومتے رہتے تھے کہ اگر لکھوائے کوئی ان کو خط تو ہم سے لکھوائے یعنی۔۔۔مناسب معاوضے پر گواہی دے کر حاجت مندوں کے آڑے وقت کام آتے تھے۔

    ایک روز کی بات ہے کہ کوئی جائداد کا مقدمہ عدالت میں تھا۔ مدعی کا وکیل تیار نہ تھا۔ اسے پوری امید تھی کہ آتے ہی تاریخ لے لے گا۔ لیکن مجسٹریٹ نے جانے کیوں اصرار کیا کہ سماعت آج ہی ہوگی۔ گواہ پیش کیے جائیں۔ ورنہ یک طرفہ ڈگری دیتا ہوں۔ وکیل صاحب بوکھلائے ہوئے باہر نکلے کہ میر صاحب دکھائی دیے۔ ان کی جان میں جان آئی۔ فوراً انہیں بازو سے پکڑ کر اندر لے گئے۔ مقدمہ سمجھنے سمجھانے کا تو وقت ہی نہ تھا۔ بس اتنی بھنک کان میں پڑی کہ کوئی خان بہادر رضا علی مرگئے ہیں۔ ان کی جائداد کا قصہ ہے یہ کون تھے۔۔۔ کیا تھے؟ جھگڑا کیا ہے۔ کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ بہرحال پیش ہوگئے اور حلف اٹھا کٹہرے میں کھڑے ہوگئے۔ وکیل مخالف کو معلوم تھا کہ یہ بھاڑے کے ٹٹو ہیں۔ ابھی ان کے قدم اکھاڑ دوں گا۔ جرح شروع کردی۔

    ’’میر صاحب۔ آپ خان بہادر رضا علی مرحوم کو جانتے تھے؟‘‘ میر صاحب نے فرمایا، ’’اجی جاننا کیا معنی۔۔۔ دانت کاٹی روٹی تھی۔ بڑی خوبیوں کے آدمی تھے۔ خدا مغفرت کرے۔ ان کی صورت ہمہ وقت آنکھوں کے آگے پھرتی ہے۔‘‘

    ’’کیا عمر تھی ان کی؟‘‘

    ’’بس چالیس اور اسی کے درمیان ہوں گے۔ بدن چور تھے اسی لیے صحیح اندازہ آج تک کوئی نہیں لگا سکا۔‘‘

    ’’اچھا یہ بتائیے کہ وہ لانبے تھے یا ناٹے؟‘‘

    میر صاحب نے کہا، ’’خوب لانبا قد تھا۔ لیکن از راہ خاکساری جھک کرچلتے تھے۔ اس لیے ناٹے معلوم ہوتے تھے۔‘‘

    وکیل نے دوسرا سوال داغا، ’’ان کی رنگت تو آپ بتا ہی سکتے ہیں۔ گورے تھے یا کالے؟‘‘

    میر صاحب نے کہا، ’’خوب سرخ و سفید رنگت تھی۔ لیکن بیماری کے باعث جلد سنولا جاتی تھی تو کالے نظر آنے لگتے تھے۔‘‘

    وکیل نے ایک اور وار کیا، ’’یہ بتائیے کہ داڑھی مونچھ رکھتے تھے یا صفاچٹ تھے۔‘‘ میر صاحب ہنسے اور کہا، ’’مرحوم کی طبیعت عجب باغ و بہار تھی۔ کبھی جی میں آیا تو مونچھیں رکھ لیں۔ وہ بھی کبھی پتلی۔ کبھی گچھے دار۔ داڑھی بھی چھوڑ دیتے تھے، خشخشی کبھی یک مشت۔ کبھی یہ لمبی ناف تک او رپھر ترنگ آتی تو سب کچھ منڈا صفاچٹ ہوجاتے تھے۔‘‘

    ’’اچھا داڑھی آپ نے ان کی دیکھی ہوگی۔ سفید ہوتی تھی یا کالی۔‘‘

    میر صاحب نے کہا، ’’ویسے تو سفید ہی ہوتی تھی لیکن جب خضاب لگا لیتے تھے تو بالکل کالی نظر آتی تھی۔ ان کی طبیعت ایک رنگ پر نہیں تھی۔ وکیل صاحب کہہ دیا نا کہ باغ و بہار آدمی تھے۔‘‘

    وکیل صاحب نے کہا، ’’اچھا یہ فرمائیے کہ ان کا انتقال کس مرض میں ہوا۔‘‘

    میر صاحب نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا، ’’رونا تو یہی ہے کہ آخر تک کچھ تحقیق نہ ہوئی۔ ڈاکٹر کچھ کہتے تھے حکیم کچھ۔ مرگ چوآید طبیب ابلہ شود۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ ان کو مرض الموت تھا۔ ہائے کیسی نورانی صورت تھی ہمارے خان بہادر صاحب کی۔ ان کی یاد آتی ہے تو سینے میں تیر سالگتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ڈس ڈس رونے بھی لگے۔

    مجسٹریٹ نے کہا، ’’اچھا۔ اب دوسرے مقدمے کی باری ہے۔ اگلی بدھ کو دوسرے گواہان پیش ہوں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے