دلی جو ایک شہر ہے
دہلی کا آواگون
کہتے ہیں دہلی کئی بار اجڑی اور کئی بار آباد ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے ک دہلی کو اجڑنے اور آباد ہونے کا پرانا چسکا ہے۔ وہ اجڑنے کے لیے آباد ہوتی ہے اور آباد ہونے کے لیے اجڑتی ہے۔ یعنی آواگون کی تھیوری میں یقین رکھتی ہے۔
بار بار جنم لیتی ہے بار بار مرتی ہے۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ بار بار اسی گھر میں جنم لیتی ہے جہاں سے اس کی ارتھی نکلتی ہے وہی روح وہی نام، وہی مقام۔۔۔ صرف چولا بدل لیتی ہے بلکہ کئی بار تو چولا بھی وہی ہوتا ہے، صرف اسے ڈرائی کلین کرالیتی ہے، اس کا رنگ بدل دیتی ہے، اس پر نئے پھول اور بیل بوٹے کاڑھ لیتی ہے۔ شاید اپنے آپ کو دھوکا دینے کے لیے یا نئے نادر شاہ کو ترغیب دینے کے لیے کہ دیکھومیں کتنی پرکشش ہوں۔ آؤ اورمیرے حسن کو لوٹ لو۔ میری مانگ اجاڑدو کیونکہ میں اجڑنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہوں۔ میری بہار میری خزاں ہی کا عکس ہے۔ مجھے اجاڑدو، لوٹ لو، ماردو کیونکہ میری موت ہی سے۔۔۔ زندگی کا پھول کھلتا ہے۔
دہلی۔۔۔ ایک اٹھارہ سالہ دوشیزہ
آج کی دہلی ایک ایسی دوشیزہ کی طرح ہے جس پر جوانی ٹوٹ ٹوٹ کر آتی ہے۔ اس سے آنکھ ملانے کے لیے سورج دیوتا کی سی آنکھ چاہیے اور مہرشی وشوامتر کا سا تقدس، ورنہ ایمان بھرشٹ ہونے میں ایک سیکنڈ نہیں لگتا۔ ایک بار جو دہلی آگیا، وہ اس کی زلف کے جال سے نکل نہ سکا اور جو ابھی تک دہلی نہیں آیا، وہ دور بیٹھا اس کے فراق میں آہیں بھر رہا ہے اور کون جانتا ہے کہ وہ ایک آہ ایسی لمبی بھرے کہ خود بخود کھنچ کر دہلی تک آجائے۔ اور دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر پوچھے، ’’کیوں صاحب کیا دہلی یہی ہے؟‘‘
اور اسے جواب ملے، ’’معاف کیجیے۔ مجھے فرصت نہیں، اور کسی سے پوچھ لیجیے۔‘‘
کسان سے اسمگلر تک
اگر آپ ابھی دہلی نہیں آئے ہیں تو کسی نہ کسی بہانے جلدہی آجائیں گے۔ کیونکہ دہلی آنے کے کئی بہانے ہیں۔ آپ کسی مظاہرے میں شامل ہوکر آجائیں گے تاکہ پارلیمنٹ کے سامنے آکر مظاہرہ کریں، جس کے اردگرد عام طور پر دفعہ ۱۴۴ لگی رہتی ہے۔ وزیر اعظم کی کوٹھی کے باہر بھوک ہڑتال کرنے کے لیے آجائیں گے۔ گاؤں میں بھوکوں مرمر کر دہلی میں نوکری کرنے کے لیے آجائیں گے، کیونکہ یہاں کے گناہگار بھکاریوں کے کشکول میں پانچ دس پیسے کے سکے ڈال کر احساس گناہ کم کرنے کے بہت شوقین ہیں اور اگر آپ کے پاس دولت زیادہ ہے تو آپ دہلی کے اشوکا ہوٹل میں چائے پینے کے لیے آجائیں گے۔ جہاں پانچ روپے فی کپ چائے ملتی ہے اور جہاں کے بیرے مغل شہزادے لگتے معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ اور اگر کوئی بہانہ نہ ملے گا تو آپ کوئی نہ کوئی چیز اسمگل کرکے دہلی لے آئیں گے۔ گھڑیاں، سونا، اناج، کپڑے، لڑکیاں، عورتیں، کیونکہ دہلی اسمگلروں کی بہت چہیتی منڈی ہے۔ جہاں گھڑی سے لے کر لڑکی تک ہر چیز بغیر رسید پرچہ کے منہ مانگے داموں بک جاتی ہے۔
غرض آپ کسی بھی بہانہ سے آئیں گے، جلد بایدیر دہلی ضرور آئیں گے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ جائیں گے۔ شادی کریں گے۔ بچے پیدا کریں گے، بچے پھر لکھ پتی ہوجائیں گے یا صرف پتی، دونوں حالتوں میں دہلی آپ کو برداشت کرے گی۔
اجنبی باشندوں کی بستی
دہلی میں داخل ہونے کے کئی راستے ہیں اور ہر راستے سے ہر روز ہزاروں لوگ دہلی پر حملہ کرنے کے لیے داخل ہوتے ہیں اور پھر دہلی کے کوچہ وبازار میں یوں پھیل جاتے ہیں کہ دہلی ہی کے باشندے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ایک اجنبی حملہ آور اور دہلی کے مستقل باشندے میں تمیز کرنا انتہائی مشکل ہے۔
آپ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ایک ’’پہاڑی چھوکرا‘‘ جو دہلی کے ایک ہوٹل میں برتن مانجھ رہا ہے، آٹھ سال سے دہلی میں مقیم ہے، یا آج صبح ہی بدایوں کے اڈے پر اترا ہے یا کافی ہاؤس میں جو سیاہ رنگ کا مدراسی جنٹل مین، سیاہ رنگ کا سوٹ پہنے سیاہ رنگ کی کافی پی رہا تھا، سنٹرل سکریٹریٹ میں گزشتہ دس سال سے کلرکی کر رہا ہے، یا آج ہی مدراس میل سے سوار ہوکر دہلی میں کلرکی کرنے آیا ہے۔ اور یا اجمیری گیٹ سے جس تانگہ بان کے تانگے پر آپ سوار ہوے ہیں وہ ۱۹۴۷ء ہی میں یہاں تانگہ بانی کرنے آگیا تھا، یا سہارن پور میں اس کا چینی کا ڈپو تھا جو کسی وجہ سے چل نہ سکا اور یہ دہلی میں یانگہ چلانے کے لیے ایک ہی ہفتہ پہلے آیا ہے۔
دہلی کے باشندوں اور باہر سے آنے والوں میں امتیاز کرناکیوں مشکل ہے؟ اس لیے کہ موجودہ دہلی کا نہ کوئی اپنا کلچر ہے، نہ لباس ہے، نہ زبان، جس سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ دہلی والا ہے اور یہ کلکتے والا اور یہ لکھنو والا۔ دہلی کی کسی سڑک پر اگر دو آدمی چل رہے ہوں تو آپ یہ جان کر حیران ہوجائیں گے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے۔ ایک نے کوٹ پتلون پہن رکھا ہے تو دوسرا دھوتی کرتے میں ملبوس ہے۔ ایک نے کوٹ پتلون کے اوپر گاندھی ٹوپی پہنی ہوئی ہے تو دوسرے نے کھدر کی اچکن اور پائجامے کے اوپر ہیٹ لگارکھی ہے۔ ایک ابھی ابھی ہوٹل سے مچھلی چاول کھاکر نکلا ہے تو دوسرے نے پراٹھا اور چھاچھ نوش فرمائی ہے اور ستم یہ کہ دونوں ہی اپنے آپ کو دہلی کا باشندہ کہتے ہیں۔
حدود اربعہ کہاں ہے؟
دہلی کا حدود اربعہ معلوم کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ریاضی اور جغرافیہ کا کوئی فارمولا دہلی پر لاگو نہیں ہوتا۔ دہلی ریاضی اور جغرافیہ کو پس پشت ڈال کر آگے نکل گئی ہے۔ کہتے ہیں کچھ قدرتی حدود ہوتی ہیں، جیسے دریا، پہاڑ، نہر، جن سے کسی مقام کا حدود اربعہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ دہلی میں دریا بھی ہے، پہاڑ بھی اور نہر بھی لیکن دہلی نے قدرت کی لگائی ہوئی ان بندشوں کی پروا نہیں کی اور تیز رفتار سیلاب کی طرح ان کے اوپر سے دندناتی ہوئی گزر گئی۔ آج کل یہ دریا، پہاڑ اور نہریں دہلی شہر کے اندر آگئی ہیں، یہ دہلی کو قید نہیں کرسکیں بلکہ دہلی نے انہیں قید کرلیا ہے۔
مثلاً بچاری جمنا دہلی شہر کے ا ندر یوں بہہ رہی ہے جیسے پولیس کے گھیرے میں کوئی سہما ہوا مجرم۔ دہلی کے کئی پہاڑ جو کبھی اپنے سر اٹھائے کھڑے رہتے تھے، اب دہلی کے باشندے ان پر سے موٹریں لاریاں اور سائیکلیں گزار کریوں لے جاتے ہیں، جیسے یہ پہاڑ نہ ہوں بلکہ ان کے زرخرید غلام ہوں۔ سارے پہاڑ دہلی کے چھوٹے چھوٹے محلے بن گئے ہیں اور دہلی والوں نے ان کا نام پہاڑ گنج، پہاڑی دھیرج، بھوجلہ پہاڑی، آنند پربت رکھ چھوڑا ہے او ریہ پہاڑ قدرتی پہاڑوں کی بجائے ’’پہاڑی چھوکرے‘‘ معلوم ہوتے ہیں جو برتن مانجھنے کے لیے دہلی میں آگئے ہیں۔
دراصل جب سے دہلی آزاد ہندوستان کا دارالخلافہ بنی ہے، آزاد اور بے باک ہوگئی ہے اور کسی الھڑ دوشیزہ کی طرح چاروں کھونٹ اٹھکھیلیاں کرتی پھر رہی ہے، اس لیے اس کی حدود بدل جاتی ہیں۔ اگر ایک ہفتہ پہلے اس کی مغربی حد پٹیل نگر نامی کالونی میں تھی، تو ہفتہ کے ختم ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے پتہ چلتا ہے کہ اب پٹیل نگر سے آگے ایک اور کالونی نمودار ہوگئی ہے، جو اب دہلی کی مغربی حد کہلاتی ہے۔ مشرقی حد میں پہلے جمنا ندی تھی۔ اس کے بعد شاہدرہ بن گئی۔۔۔ اور اب شاہدرہ والے سرد آہ بھر کر کہتے ہیں کہ اب ہم مشرقی حد نہیں رہے کیونکہ ستاروں سے آگے ایک اور کالونی کا جہاں بس گیا ہے۔
غرض دہلی کی حدیں ٹوٹتی بنتی اور بنتی ٹوٹتی رہتی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دہلی میں شیطان آگھسا ہے جو اپنی آنتوں کو چاروں طرف پھیلاتا چلا جارہا ہے اور کچھ عجب نہیں کہ ایک دن ہم یہ خبر سنیں کہ دہلی کی ایک حد کلکتہ ہے اور دوسری حد سری نگر۔ ممکن ہے، نقشہ سے ہندوستان نام کا ملک غائب ہوجائے اور دہلی نام کا ملک نمودار ہوجائے، کیونکہ ہندوستان سمٹ رہا ہے اور دہلی بڑھ رہی ہے۔ دہلی ایک جسم ہے جس میں ہندوستان کی روح داخل ہوتی جارہی ہے۔ جسم اور روح کا یہ وصال ٹریجڈی ہے یا کامیڈی۔ اس کا فیصلہ ہم آنے والے مؤرخ پر چھوڑتے ہیں۔
ایک نہیں پانچ دہلیاں
بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ دہلی صرف ایک ہے۔ انہیں یہ غلط فہمی دور کرلینی چاہیے۔ کیونکہ دہلیاں پانچ ہیں، پرانی دہلی، نئی دہلی، شرنارتھی دہلی، چھاونی دہلی، دیہاتی دہلی اور ان میں سے ہر دہلی دوسری دہلی سے الگ مزاج رکھتی ہے۔ ہر دہلی دوسری دہلی کی سوکن معلوم ہوتی ہے۔ پرانی دہلی اپنے آپ کو خاندان کی اس بڑی بی کی طرح سمجھتی ہے جس کی کمر میں چابیوں کا گچھا لٹکتا رہتا ہے اور جو اپنے سامنے خاندان کے سارے افراد کو ہیچ سمجھتی ہے اور منہ میں پان کی گلوری دبائے ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعرے لگاتی رہتی ہے۔
اور نئی دہلی خاندان کی وہ ماڈرن لڑکی ہے جو چابیوں کے گچھے کی بجائے کلائی میں پرس جھلاتی ہوئی اپنے آپ کو یورپ رٹرن کہتی ہے۔ منہ میں ’’چونگ گم‘‘ اپنے آپ کو انڈیا کی ’’ہزہائنس‘‘ سمجھتی ہے اور پرانی دہلی سے اڑکر آئی ہوئی کسی مکھی کو ناک پر نہیں بیٹھنے دیتی۔ اور ’’شرنارتھی دہلی‘‘ اپنے آپ کو وہ حسینہ سمجھتی ہے جو اپنی عشوہ طرازیوں کے ساتھ یہاں آئی اور دلِ عشاق پر حملہ کرکے فاتح بن گئی۔ کبھی منہ میں پان دباتی، کبھی چونگ گم اور کبھی گنڈیر یاں۔ اپنے آپ کو دہلی کی ناک سمجھتی ہے مگر سرکار اس پر ہمیشہ مکھیاں بٹھاتی رہتی ہے۔
چھاونی دہلی کی پوزیشن اس جلاوطن کی سی ہے، جو اب بھی اپنے آپ کو کو تخت و تاج کا وارث سمجھتی ہے اور اپنی رعایا سے دور ہی رہنے میں اپنی بڑائی سمجھتی ہے۔ اور دیہاتی دہلی اس بے بس دوشیزہ کی طرح ہے جس کا بیاہ زبردستی ایک ایسے شخص سے کردیا گیا ہو، جس کے نام کا وہ صحیح تلفظ بھی نہیں جانتی لیکن گھونگٹ اوڑھے ’’پتی ورتا دھرم‘‘ نبھائے جارہی ہو۔
ان پانچوں دہلیوں میں صرف ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم حاکم ہیں ہمارے ہی احکام کے سامنے سارا ہندوستان سرجھکاتا ہے۔ ہم اس دلی کے مالک ہیں جو ہمیشہ سے راس کماری تک راج کرتی ہے۔ دہلی کا ہر باشندہ اپنے آپ کو راج کمار محسوس کرتا ہے۔ اپنی رگوں میں شاہی خون دوڑتا ہوا محسوس کرتا ہے، چاہے اسے آسٹریلیا کا گندم ہی کھانے کو ملے۔
دہلی کی بسیں
دہلی شہر کے اندر ڈی، ٹی، سی بسیں چلتی ہیں جو انسانوں کو ڈھونے کا کام کرتی ہیں۔ ایک علاقے کے لوگوں کو اٹھاکر دوسرے علاقے میں پھینک آتی ہیں اور دوسرے علاقے کے لوگوں کو تیسرے علاقے میں۔ دہلی کا ایک انسان اگر دوسرے انسان سے جڑا ہوا ہے تو ان بسوں کی بدولت۔ اگر ایک دن کے لیے یہ بس سروس ختم ہوجائے تو محبوبہ اپنے عاشق سے نہیں مل سکتی۔ طالب علم اپنے ٹیچر سے نہیں مل سکتا۔ قرض خواہ اپنے مقروض تک نہیں پہنچ سکتا۔ مالک اپنے ملازم کے ہجر میں تڑپتا رہے اور کلرک اپنے افسر کی جھڑکیاں کھانے سے محروم رہ جائے۔ حتی کہ آتما پرماتما سے نہیں مل سکتی، جب تک بس ڈھوکر اسے پرماتما تک نہ پہنچادے۔
غرض یہ بسیں دہلی کے بچھڑے ہوؤں کا ’’وصال‘‘ کراتی ہیں۔ دہلی بہت سے ’’ہجرزدہ‘‘ ٹکڑوں کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ ٹکڑے ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔ اگر یہ ٹکڑے ہمیشہ الگ تھلگ رہیں تو دہلی نام کا شہر ہندوستان کے نقشے پر نظر نہ آئے۔ دہلی کو ایک وحدت، ایک اکائی، ایک شہر کی حیثیت اسی وقت ملتی ہے جب ڈی، ٹی، سی بسیں ان ہجرزدہ ٹکڑوں کا ایک دوسرے سے وصال کراتی ہیں۔ اس اعتبار سے دہلی کی بسیں ایک ایسے ’’ایجنٹ‘‘ کی طرح ہیں جو طالب و مطلوب کو ایک دوسرے سے ملادیتا ہے اور اپنی دلالی کھری کرتا ہے۔
لیکن یہ بسیں صرف ایجنٹ ہی نہیں ہیں، صرف اپنی ’’دلالی‘‘ ہی کھری نہیں کرتیں، صرف عاشق کو محبوبہ سے نہیں ملاتیں بلکہ خود بھی مجنوؤں کی طرح ناز نخرے دکھاتی ہیں۔ محبوبہ کے دیدار کے پہلے آپ کو بس کے دیدار کے لیے تڑپنا پڑتا ہے۔ بس ایک طرح کی لیلیٰ ہے، جس کے مجنوں اس کے انتظار میں سوکھ کر کانٹا ہوجاتے ہیں۔ ایک مجنوں نے تو مجھے یہاں تک بتایا کہ وہ دہلی کے ایک بس اسٹاپ پر پیدا ہوا تھا۔ یہیں پر ماں کا دودھ پی پی کر بڑا ہوا۔ یہیں پر مونگ پھلیاں کھا کھا کر جوان ہوا۔ بس کے انتظار میں ہی مطالعہ کرتے کرتے گریجویٹ ہوگیا۔ یہیں کھڑے کھڑے اس نے شادی کی۔ یہاں تک کہ اب بوڑھا ہوگیا ہے۔ لیکن ابھی تک بس نہیں ملی جس پر سوار ہوکر وہ اپنے باپ کے پاس پہنچ جائے اور اسے یہ خوش خبری سنائے کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔
لیکن دہلی کا ہر مجنوں اتنا صابر و شاکر نہیں ہوتا کہ اپنی ساری عمر بس کے انتظار میں گزاردے۔ چنانچہ وہ لپک کر، جھپٹ کر، پھڑک کر، دوڑ کر، بھاگ کر بس کا تعاقب کرتا ہے اور اس نامعقول محبوبہ کو کسی نہ کسی طرح پکڑ لیتا ہے۔ اور جب بس سے اترکر گھر پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی عینک کا ایک شیشہ ٹوٹ گیا ہے، پتلون گھٹنے پر سے پھٹ گئی ہے، جیب کسی بلیڈ سے کٹ چکی ہے اور ماتھے سے خون بہہ رہا ہے اور گھر جانے کی بجائے اسے ہسپتال جانا چاہیے۔
لیکن آہ! ہسپتال جانے کے لیے بھی بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اس ذلت و خواری کے باوجود جب صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے تو دہلی کے ہر بس اسٹاپ پر میلوں لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ دہلی کی آدھی آبادی ان قطاروں میں سمٹ کر کھڑی ہوجاتی ہے اور پھر رات گئے تک بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھر کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچادی جاتی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق دہلی کے باشندے اپنی آدھی عمر بسوں کی نذر کرتے ہیں اور باقی آدھی عمر بسوں کے متعلق سوچنے میں صرف کرتے ہیں۔ ایک صاحب کا بیان ہے کہ اس نے گزشتہ چھ ماہ سے اپنے بچوں سے بات نہیں کی۔ کیونکہ صبح وہ بس نہ ملنے کے خوف سے جلدی گھر سے روانہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت بچے سوتے ہوئے ہوتے ہیں اور جب رات کو دیر سے بس ملنے کے سبب گھر پہنچتا ہے تو بچے بھی سوچکے ہوتے ہیں۔
دہلی کی بسیں عہد حاضر کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہیں جو انسان کی عمر لذیذ لقمہ تر سمجھ کر کھائے جارہی ہیں۔
دہلی کے بائیسکل اور اسکوٹر
دہلی بابوؤں اور بائیسکلوں کا شہر ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بابوؤں نے بائیسکلوں کو جنم دیا۔ کئی کہتے ہیں کہ بائیسکلوں نے بابو پیدا کیے۔ مگر میری رائے ہے کہ یہ دونوں جڑواں پیدا ہوئے۔ اگر بابوؤں اور سائیکلوں کو دہلی سے نکال دیا جائے تو وہ دہلی بیوہ ہوکر رہ جائے اور گورنمنٹ آف انڈیا ماتھے پر دوہتڑ مار کر کہے، اب کیا فائدہ جینے کا۔ یہ حقیقت ہے کہ بائیسکل اور بابو کی برکت ہی سے انڈیا کی عظیم ری پبلک چل رہی ہے۔ ہر روز صبح بائیسکلوں اور اسکوٹروں کے غول کے غول گلی کوچوں سے نکل نکل کر سڑکوں پرپھیل جاتے ہیں، جو بابوؤں کو اپنے کندھوں پر سوار کیے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔
اگر دہلی کی سڑکوں پر بائیسکل چل رہے ہوں تو سمجھ لیا جائے کہ ہندوستان کی حکومت چل رہی ہے ورنہ نہیں۔ سرزمین ہندوستان پر حکومت کی باگ ڈور بائیسکلوں کے ہاتھ میں ہے۔ کیونکہ اگر بائیسکل نہ ہو تو بابو دفتر نہیں جاسکتا اور جب دفتر نہیں جاتا تو ہندوستان کا وزیر اعظم تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہتا ہے اور بار بار کھڑکی سے جھانک کر دیکھتا رہتا ہے کہ کوئی بائیسکل آئے تو وہ حکومت کا کاروبار چلائے۔ شاید دنیا کی کوئی سلطنت بائیسکل کی اتنی محتاج نہیں رہی جتنی موجودہ زمانہ کی گورنمنٹ آف انڈیا۔
میرا خیال ہے اس مرتبہ اگر دہلی اجڑی تو صرف اس بناپر اجڑے گی کہ بائیسکل فیکٹریاں بائیسکلیں بنانا بند کردیں اور بابو لوگ یہ شعر پڑھتے ہوئے دہلی سے نکل جائیں کہ،
ہے اب اس معمورہ میں قحط غم سائیکل اسد
ہم نے یہ مانا کہ دہلی میں رہیں، کس پر چڑھیں
بابو اور بائیسکل دونوں جڑواں پیدا ہوئے ہیں، اس لیے دونوں کے فضائل اور مسائل بھی ایک دوسرے سے بے حد مشابہ ہیں۔ بائیسکل ارزاں ترین سواری ہے اور بابو ایک ارزاں ترین ملازم ہے۔ بائیسکل پر آپ جتنا بوجھ لاد دیجیے اُف نہیں کرتی۔ بابو پر جتنی فائلیں لاد دیجیے اٹھالیتا ہے۔ آپ بائیسکل کی مرمت نہ کریں تو بھی کام چلتا رہتا ہے۔ بابو کے انجر پنجر بھی چاہے جتنے ڈھیلے ہوچکے ہوں کام کرتا رہتا ہے۔ بائیسکل کچھ نہیں کھاتی، تھوڑی سی ہوا بھردو، چل پڑے گی۔ بابو بھی کچھ نہیں کھاتا، صرف اس کے دماغ میں یہ ہوا بھردو کہ وہ بابو ہے اپنے دفتر کا بادشاہ، بابو چلتا رہے گا۔
بائیسکل کو تھوڑی سی گریس چاہیے۔ بابو کو دو روٹیاں اور چٹنی چاہیے۔ زیادہ عیاشی کرے گا تو دفتر کی کینٹین میں چائے کا ایک کپ پی لے گا اور پھر تروتازہ ہوکر اپنی بائیسکل کو اٹھاکر لتامنگیشکر کے فلمی بول گنگناتا ہوا چل پڑے گا۔ وہ اپنی بائیسکل کو ’’بیوک کار‘‘ کہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اپنے آپ کو سلطنت کا اصل بادشاہ سمجھتا ہے۔ بائیسکل پر بیٹھا ہو تو بیش قیمت کاروں کو حقارت سے دیکھ کر آگے نکل جاتا ہے۔ دفتر کی کرسی پر بیٹھا ہو تو بڑے سے بڑے سیٹھ کو پھٹکار کر کہتا ہے، سیٹھ صاحب! اس وقت میرے پاس ٹائم نہیں ہے، کل آنا۔‘‘
دہلی کا بابو اپنی اپنی بائیسکل کی فطرت خوب سمجھتا ہے اور اسے ہر سانچے میں ڈھال لیتا ہے۔ بابو کی طرح بائیسکل بھی بڑی لچکیلی فطرت رکھتی ہے۔ بابو کبھی اسے ایروپلین کی طرح چلاتا ہے، اس کے پیچھے فائلیں باندھ لیتا ہے، کبھی آٹے کی بوری رکھ لیتا ہے، کبھی گھر کے سودا سلف کی گٹھری باندھ لیتا ہے اور کبھی جب چھٹی کے دن تفریح کے لیے نکلتا ہے تو اسی اپنی واحد وفادار بائیسکل پر اپنے تین چار بچوں او ربیوی کو لاد کر سارا دہلی شہر گھماتا رہتا ہے اور پھر بڑے فخر سے اپنی بیوی سے کہتا ہے، ’’منے کی ماں! چاہے تم میرا ساتھ چھوڑ جاؤ لیکن یہ بائیسکل میرا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گی۔ یہ تم سے بھی زیادہ وفادار حیوان ساتھی ہے اور سدا سہاگن ہے۔
بائیسکل اور بابو کی جوڑی مستقل اور پائیدار ہے اور گورنمنٹ آف انڈیا کا سہاگ اسی جوڑی پر قائم ہے۔
دہلی کے تانگے
دہلی میں تانگے بھی چلتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چلتے تھے، کیونکہ آج کل تو وہ حسرت سے کھڑے دیکھتے رہتے ہیں کہ کبھی جن سڑکوں پر وہ مغل شہزادوں کی طرح گردن اٹھائے چلا کرتے تھے ان پر کاریں اسکوٹر اور بسیں چل رہی ہیں۔ سڑکوں کی مغل سلطنت ان سے چھن چکی ہے۔ اور اگر کبھی کبھار کوئی تانگہ سڑک پر چلتا ہوا دکھائی دے بھی جائے تو یوں شرما شرماکر، اچک اچک کر، سہم سہم کر کہنی کترا کترا کر چلتا ہے کہ کہیں کوئی دیکھ کر پہچان نہ لے کہ سلطنت کا معزول شہزادہ جارہا ہے۔ رائل فیملی سے تانگے کے تعلقات ٹوٹ چکے ہیں لیکن ان تعلقات کااحساس ابھی نہیں ٹوٹا اور احساس کا نہ ٹوٹنا ہی سب سے زیادہ دردناک ہے۔ احساس کے بغیر تانگے کو مکمل ’’نروان‘‘ حاصل نہیں ہوسکتا۔
لوہے کی مشین نے تانگے کو پچھاڑ دیا ہے۔ پٹرول اور انجن اسے بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں، جس سے تانگے میں احساس کمتری پیدا ہوگیا ہے۔ اس نے دہلی کی بڑی بڑی سڑکوں پر نکلنا چھوڑ دیا ہے اور چھوٹی چھوٹی سڑکوں، گلیوں، کوچوں کے اندر سمٹتا جارہا ہے۔ دہلی کی زندگی اتنی تیز ہوگئی ہے اور اتنے دور دور کے علاقوں تک پھیل گئی ہے کہ بے چارہ تانگہ اس تیز رفتار زندگی کا ساتھ نہیں دے سکتا، اس لیے وہ صرف ان تنگ و تاریک اور پسماندہ علاقوں میں محدود ہوتا جارہا ہے جن میں داخل ہوکر چلنا مشین اپنی توہین سمجھتی ہے مگر لوہے کی مشین کا کوئی اعتبار نہیں، کب اپنی عارضی توہین کا لبادہ پھاڑ کر پھینک دے اور تانگہ کو اپنی سلطنت کی آخری پناہ گاہوں سے باہر نکال دے اور محکمہ آثار قدیمہ، دہلی کے آخری تانگے کو اٹھاکر لال قلعے کے اندر ایک کونے میں محفوظ کرکے رکھ دے تاکہ غیر ملکی سیاح آکر اس ’’ہندوستانی عجوبہ‘‘ کو دیکھیں اور اس کا فوٹو لے کر امریکہ کے ’’لائف میگزین‘‘ میں تفریح کے لیے شائع کیا کریں۔
دہلی کا تانگہ کبھی رئیسوں کی سواری سمجھا جاتا تھا۔ رئیسوں نے کاریں خریدلیں تو تانگے نے عوام کی سرپرستی قبول کرلی۔ لیکن اب عوام بھی اسے دغا دیتے جارہے ہیں اور وہ بھی تانگوں کی بجائے بائیسکلوں کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ کیونکہ وہ بائیسکلوں سے بھی وہی کام لینے لگے ہیں جو تانگوں سے لیا کرتے تھے یعنی بائیسکلوں کو باربرداری کے لیے بھی استعمال کرلیتے ہیں۔ تانگے کی طرح بائیسکلوں پر بھی گھر کی چار چار سواریاں بٹھالیتے ہیں اور تانگوں سے شرط باندھ لیتے ہیں کہ آؤ ریس لگاکر دیکھ لو، ہم تم سے پہلے منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے۔
غرض دہلی کے تانگے اپنے آخری دن جوں توں کرکے کاٹ رہے ہیں اور عام خیال یہ ہے کہ وہ شاید اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں ایک بار پھر رئیسوں کی سواری بن جائیں گے۔ اور کبھی کبھی کوئی رئیس زادہ منہ کا مزا بدلنے کے لیے ململ کا کرتہ یا اچکن پہن کر دوپلی سر پرلگائے پان کی گلوری منہ میں دبائے، شام کو تانگے پر سیر کے لیے نکلے اور لوگ باگ اچک اچک کر اسے یوں حیرت سے دیکھیں، جیسے بچے شہر میں گھومتے ہوئے سرکس کے ہاتھی کو دیکھتے ہیں۔
دہلی کی کاریں
دہلی کی سڑکوں پر کاریں گھومتی ہیں اور پارلیمنٹ کے ممبران بھی لیکن راہ چلتے لوگوں کو دونوں کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا کہ سڑک پر کوئی کار جارہی ہے یا ممبر پارلیمنٹ، کیونکہ جب کوئی چیز عام ہوجائے تو اس کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ دہلی میں کاریں اور ممبرانِ پارلیمنٹ دو بہت عام چیزیں ہیں۔ اس لیے جب وہ سڑکوں پر چلتے ہیں تو صرف انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ کار ہے یا پارلیمنٹ کا ممبر ہے۔
جب کوئی کار والا سڑک پر چلتا ہے تو نہ جانے کیوں اسے بار بار یہ خیال آتا ہے کہ یہ سڑکیں اور پٹرول پمپ صرف اسی کے لیے بنائے گئے ہیں اور باقی یہ جو لاریاں، بسیں، بائیسکلیں، ا سکوٹر وغیرہ چل رہے ہیں، کالے رنگ کے ’’ریڈ انڈین‘‘ ہیں۔ اور بدقسمتی سے ڈیموکریسی نہ ہوتی تو انہیں ان سڑکوں پر چلنے کی ممانعت کردی جاتی، جن پر کاریں چلتی ہیں۔ چنانچہ کاروالا ان کی طرف ناک سکوڑ کر دیکھتا ہے اور بڑبڑاکر کہتا ہے، ’’ابے اندھا ہے، دیکھتا نہیں کار آرہی ہے۔ راستہ چھوڑ دے۔ یوں سڑک پر چل رہا ہے جیسے تیرے باپ دادا کی ملکیت ہے، ہٹ جا ورنہ چالان کروادوں گا۔ جانتا بھی ہے ٹریفک پولیس کا سپرنٹنڈنٹ میرے داماد کا بھائی ہے۔‘‘
ابھی چند سال پہلے دہلی میں صرف امیروں کے پاس کوٹھی ہوتی تھی لیکن ہمارے دیکھتے دیکھتے کوٹھی کی شرط اڑ گئی۔ اور اب تو اس آدمی کے پاس بھی کار ہے، جس کے پاس صرف دو کمروں والا کوارٹر ہے۔ میں نے ایک ایسے آدمی کے پاس بھی کار دیکھی ہے، جو غالب کے شعر غلط پڑھتا ہے۔ اور ایک ایسا آدمی تو تین کاروں کا مالک، جو چند سال پہلے ایک تنور پر روٹیاں لگانے کا کام کرتا تھا۔ حتی کہ ایک پہلوان کے پاس بھی کار ہے اور وہ صبح اکھاڑے میں جاتا ہے تو کار پر سوار ہوکر جاتا ہے۔
دہلی میں بھانت بھانت کی کاریں گھومتی ہیں۔ ان کے رنگ، سائز، وزن، شکل و صورت میں ’’فینسی ڈریس شو‘‘ کا سا منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہاں ایسی کاریں بھی چلتی ہیں جن پر لوگ گھاس لادتے ہیں اور ایسی کاریں بھی جو دور سے جیٹ ہوائی جہازمعلوم ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ سب کاریں ہی کہلاتی ہیں۔ چاہے کسی کے پاس کار کے لیے گیراج تک نہ ہو مگر وہ اسے گھر کے باہر سڑک یا گلی میں یوں کھڑا کرلیتا ہے جیسے کار نہ ہو، کوئی گائے بھینس ہو۔
دہلی کی حسینائیں
دہلی کی حسینائیں یوں گھومتی ہیں، جیسے جنگل میں شیر گھومتے ہیں۔ دہلی پر ان کا راج ہے۔ جہانگیر نے شراب کے ایک پیالے پر اپنی سلطنت نور جہاں کو دے دی تھی، دہلی کے موڈرن جہانگیر صرف کافی کے ایک پیالے پر سلطنت نچھاور کردیتے ہیں۔
دہلی کی بیشتر حسینائیں دہلی کے کھیتوں سے نہیں اگتیں بلکہ باہر سے درآمد کی جاتی ہیں۔ دہلی کی اوریجنل حسینائیں اقلیت میں ہیں۔ اور یہ چھوٹی سی اقلیت بھی اب لہو لگاکر رائل فیملی میں شامل ہو رہی ہے۔ درآمد شدہ حسیناؤں کے پیلے پیلے طلائی رخسار غصہ سے لال پڑگئے تھے لیکن حملہ آور زیادہ موڈرن ہتھیاروں سے مسلح تھے، اس لیے قدیم حسیناؤں نے معمولی سی مزاحمت کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور پھر آہستہ آہستہ خود بھی موڈرن حسیناؤں کے سانچے میں ڈھل گئیں اور جنگل پر راج کرنے میں حملہ آور حسیناؤں کے ساتھ، ساتھی دار بن گئیں۔
ایک مؤرخ نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ سامراجی حملہ آوروں کے کلچر کو یہاں کے اصلی باشندے اپنالیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دن ایسا آتا ہے جب اصل باشندے بھی حملہ آور اور سامراجی حاکم معلوم ہونے لگتے ہیں۔‘‘
آزادی کے بعد دہلی ایک کاسموپالیٹن شہر بن گیا ہے، اس لیے یہاں کی حسینائیں بھی کاسموپالیٹن قسم کی حسینائیں بن گئیں ہیں۔ بنگال کی جادو کرنے والی کالی، لمبی زلفیں، سندھ کے پر بہار ریگ زاروں میں کھلی ہوئی ولایتی سگرٹوں کے پھول لگاکر، جب مدراسی برہمن زادوں کی سانولی سڈول اور رقص کرتی ہوئی پنڈلیوں پر، پنجاب کے سنہرے مکئی کی طرح شوخ و شنگ چمکیلے رخساروں پر شلوار قمیص کا سایہ ڈالتی ہیں تو یورپ کی نیلگوں آنکھوں اور بھورے کٹے ہوئے بالوں پر بھی یہ جنون سوار ہوجاتا ہے کہ بنارسی ساڑی پہن کر بازار میں نکلیں اور آتش شوق میں کاسموپالیٹن حرارت پیدا کرلیں اور جدھر بازار سے گزریں، کشتوں کے پشتے لگادیں اور حسن کو عالم گیر بنادیں اور عاشقوں کو ’’کنفیوز‘‘ کردیں کہ نگاہ ٹھیرے تو کہاں ٹھیرے، کس پر ٹھیرے کہ کانگو کی پتھریلی حسینہ اور کشمیر کی گلنار بیر بہوٹی دونوں بیک وقت دل کو کھینچ لیتی ہیں اور یہ بھی نہیں سوچنے دیتیں کہ دل کس کے حوالے کریں۔ پانچ منٹ پہلے ایک جاپانی گڑیا جو دل لے گئی تھی، اب اسے کس منہ سے کہیں کہ حضور! ایک افغان زادی ہم سے دل لینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ براہ کرم ہمارا دل لوٹادو کہ،
یہاں عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
دہلی میں حسیناؤں کی تعداد کتنی ہے؟ اس کے متعلق کوئی اعداد و شمار نہیں ملتے۔ محکمہ مردم شماری اس سلسلہ میں خاموش ہے، کیونکہ رولز کے مطابق حسن شماری ان کے فرائض میں شامل نہیں۔ لیکن عام اندازہ یہ ہے کہ حسیناؤں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک مستقل قسم کے ’’سڑک گرد‘‘ عاشق کا حلفی بیان ہے کہ وہ ایک سڑک پر گزشتہ دس برس سے حسن شماری کر رہا ہے، لیکن ہر روزاس سڑک پر پچھتر فی صدی نئی حسینائیں نمودار ہوجاتی ہیں۔ نہ جانے وہی حسینائیں بھیس بدل کر سامنے آجاتی ہیں یا کسی چھپے ہوئے ریزرو اسٹاک میں سے نیا مال نکال کر مارکیٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس لیے تعداد کے اضافہ کی صحیح رفتار کا اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے۔
خطرہ یہ ہے کہ ایک دن ایسا آجائے گا جب دہلی شہر کی ہر ’’صنفِ نازک‘‘ حسینہ بن چکی ہوگی اور ہر حسینہ لاکھوں دل اپنے پرس میں چھپائے پر س جھلاتی نظر آئے گی اور اس وقت شاید ان کو شمار کرنا نسبتاً آسان ہوجائے گا، کیونکہ حسن کی نگری میں یہ عام رجحان پھیل رہا ہے کہ لباس کی موڈرن، تیکھی اور پھڑکیلی تراش خراش ہی کو حسن کی بنیاد بنادیا جائے اور لباس ہی کو ایک ایسا فل سورج بنادیا جائے جس کی چکاچوند میں، نین نقش کے سبھی چھوٹے موٹے ستارے اوجھل ہوجائیں۔۔۔
عشق کے لیے یہ ایک بہت جانکاہ اور آزمائشی دور ہے کہ لب و رخسار کی قدیم ترازو میں لباس نے ڈنڈی مارنا شروع کردی ہے اور بے چارے عاشق حیران ہیں کہ اس ڈنڈی سے دل کی قدرقیمت کو بچائیں یا حسین سوداگروں کی اس لئے بازی میں نقد دل و جان لٹاکر ہار مان لیں۔
دہلی کی حسیناؤں کی لیڈرشپ یونیورسٹی کی لڑکیوں کے ہاتھ میں ہے کیونکہ وہ دل لینے کے نت نئے ڈھنگ ایجاد کرتی رہتی ہیں۔ اگر کسی شام کو یونیورسٹی کی ایک حسینہ جو گیے رنگ کا لمبا کرتا زیب تن کرکے میدانِ کار زار میں اتر آتی ہے تو دوسری شام کو دہلی کی تمام حسینائیں جوگنیں بنی ہوئی نظر آتی ہیں اور ابھی تیسری شام پوری طرح ختم نہیں ہوتی کہ یونیورسٹی کی کوئی حسینہ جوگیا لباس اتار کر تنگ پتلون پہن لیتی ہے۔ جیسے وہ حسینہ نہ ہو بلکہ ریس کورس کی چاق و چوبند گھڑسوار ہو۔ چنانچہ چوتھی شام دہلی کے سلم ایریا میں رہنے والی رام جی داس کلرک کی میٹرک پاس بیٹی ٹائپسٹ کا کام کرتی ہے، نزدیکی ٹیلر ماسٹر کو تنگ پتلون تیار کرنے کا آرڈر دے آتی ہے، کہ فیشن بدل گیا ہے اور حسیناؤں نے کوئی ’’ٹرائی کلر‘‘ لباس پہننا شروع کردیا ہے۔
دہلی کی حسیناؤں کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ان کی زلفوں کی طرح اس کہانی کے بھی کئی پیچ، کئی خم اور کئی ا سٹائل ہیں لیکن میں صرف ایک بات کہہ کر اسے ختم کرتا ہوں۔ دہلی کی حسینائیں وہ لیلائیں ہیں جو مجنوؤں پر جان نثار کرنے کی قائل نہیں ہیں۔ صرف کبھی کبھار ایک آدھ خودکشی کی خبر آجاتی ہے۔ حسیناؤں کی تعداد کے اعتبار سے خودکشیوں کی یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
دہلی کے عاشق
دہلی کے عاشقوں کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ ان کی اپنی کوئی آواز نہیں ہے۔ وہ صرف دہلی کی حسیناؤں کے گنبد کی صدائے بازگشت ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ دہلی کے کسی عاشق کو الگ کرکے دیکھیں تو آپ کو مایوسی ہوگی کیونکہ وہ کسی نہ کسی حسینہ کے دوپٹے میں تنکے کی طرح اٹکا ہوا نظر آئے گا اور وہ تنکا دوپٹے کے بغیر آپ کو لاوارث نظر آئے گا۔ دوپٹہ ہی اس کی ہستی کی ضمانت ہے۔ اور اگر آپ اسے دوپٹہ سے الگ کرکے دیکھنا چاہیں گے تو وہ یوں لگے گا جیسے سگریٹ کی راکھ زمین پر گرگئی ہے۔
دہلی میں عاشقوں کی تعداد حسیناؤں سے کئی سو گنا زیادہ ہے۔ تعداد کے اس بے ہنگم اضافہ نے عشق کا معیار گرادیا ہے اور عاشق لوگ اس گرے ہوئے معیار کو نہیں دیکھ سکتے۔ کیونکہ عشق اندھا ہوتا ہے۔ مجھے ایک عاشق کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ حسن کا تعاقب کرنے کے لیے ہر روز بائیسکل پر پندرہ پندرہ میل کا سفر کرتا رہا اور آخر ایک دن جب اس کی محبوبہ نے وفور محبت میں اس سے پوچھا، ’’پیارے میرا جی چاہتا ہے کہ تجھ پر کچھ نچھاور کروں، بول کیا مانگتا ہے؟‘‘ جواب میں عاشق کے منہ سے بے ساختہ نکلا، ’’پیاری! مجھے ایک اسکوٹر دے دو۔ مجھ سے اب زیادہ دیر بائیسکل نہیں چلائی جاتی۔‘‘
دہلی کا عاشق حساب کتاب کا عاشق ہے۔ وہ عشق کو بائیسکل اور اسکوٹر سے تولتا ہے۔ وہ بے حد چوکنا ہوکر دیکھتا ہے کہ حسینہ کے حسن کی کیا قیمت ہے۔ وہ کافی کے کتنے کپ پلاچکا ہے اور اس کے بدلے میں اسے کتنی مسکراہٹیں مل چکی ہیں۔ اگر محبوبہ کی طرف سے ملی ہوئی مسکراہٹوں کی تعداد کم ہے تو عاشق کا نازک شیشہ دل چور چور ہوجاتا ہے اور وہ محبوبہ پر بے وفائی کا الزام لگادیتا ہے۔ اگرزیادہ ذکی الحس ہوجاتا ہے تو مسکراہٹیں کم ہونے کے غم میں ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے۔ راتوں کو تارے گنتا ہے اور فلمی گیت گنگناتا ہے اور کافی کے بلوں کے غیرمتوازن بجٹ کو اس طرح پورا کرتا ہے کہ بڑھیا بلیڈوں کی بجائے گھٹیا بلیڈ استعمال کرنے لگتا ہے بلکہ کئی بار تو ہفتوں شیو نہیں کرتا اور آزردہ حال ہوکر یہ شعر بڑے رقت انگیز میں لہجہ میں گاتا ہے،
اک بے وفا سے پیار کیا، ہائے کیا کیا
خود کو ذلیل و خوار کیا ہائے کیا کیا
دلّی کے عاشقوں کی ایک اور بلند قسم بھی ہے جو حسن کا مول تول نہیں کرتی، بلکہ اپنے عشق کامول تول کرتی ہے۔ اس قسم کے عشق میں کافی کے پیالے نہیں گنے جاتے اور نہ دیکھا جاتا ہے کہ حسن کے تعاقب میں کار کا کتنا پٹرول ضائع ہوا۔ بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ عاشق کو سوشل اور اقتصادی طور پر کہیں ہیٹا تو نہیں سمجھا جارہا۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی میں مکانوں کے کرائے کی طرح حسیناؤں کاریٹ بھی بڑھادیا جاتا ہے۔ بلڈنگ کا کرایہ جتنا زیادہ ہوگا، بلڈنگ کی سماجی حیثیت اتنی ہی زیادہ بڑھے گی اور بلڈنگ کی حیثیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ بلڈنگ کے مالک کامرتبہ بھی بڑھے گا۔ اس قسم کے گھر پھونک تماشہ دیکھنے والے مالک مکان قسم کے عاشقوں نے جہاں عشق کا مارکیٹ ریٹ بہت بڑھادیا ہے، وہاں محبوباؤں کے دماغ بھی بگاڑ دیے ہیں اور عشق کے مفہوم کو بینک بیلنس کی سالانہ رپورٹ بنادیا ہے۔۔۔
آپ کے پاس کار ہے یا تانگہ، یا آپ صرف کسی پبلک پارک میں ایک آنے کی مونگ پھلی ہی سے محبوبہ کا دل رجھا رہے ہیں؟ کار، تانگہ اور مونگ پھلی میں جتنا فرق ہوتا ہے، اسی فرق کی بنیاد پر عشق کیا جاتا ہے اور ان چیزوں کو پرکھنے کی کسوٹی صرف حسیناؤں کے پاس ہے۔ اسی لیے میں نے کہا ہے کہ دہلی کے عاشق کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے۔ جو کچھ ہے حسیناؤں کے پاس ہے۔ دہلی کے عاشق حسیناؤں کے دوپٹے کے تنکے ہیں۔ اس تنکے کو الگ کرکے دیکھیے تو نہ کار کی حیثیت باقی رہتی ہے نہ بائیسکل کی، نہ پستے اور بادام کی، نہ مونگ پھلی کی۔ غریب اور امیر دونوں کے عاشق مول تول کا شکار ہیں اور یہ مول تول محبوباؤں کے اختیار میں ہے۔ عاشقوں کے اختیار میں تو صرف چند رومانٹک اشعار ہیں، جنہیں پڑھ پڑھ کر وہ اپنے شب و روز بگاڑ رہے ہیں۔ اس کے باوجود سمجھتے ہیں کہ وہ قیس اور رانجھے کی روایات کے وارث ہیں۔
دہلی کے عاشقوں کی ایک اور قسم بھی ہے جن کے پاس کوئی محبوبہ نہیں۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ان کے پاس اپنے عشق کی کئی مفروضہ کہانیاں موجود ہیں اور وہ محفلوں میں، کلبوں میں ریسٹورانوں میں اپنی ان محبوباؤں کے دل فریب قصے بیان کرتے رہتے ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئیں اور اگر پیدا ہوچکی ہیں تو عاشقوں کے نام پتے اور شکل سے آگاہ نہیں۔ مجھے ایسے ہی ایک عاشق سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ وہ راہ چلتی ہر تیسری حسینہ کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اس پر مرتی ہے اور آج کل دو بچوں کی ماں بن چکی ہے۔۔۔
فلاں موتیوں جیسے دانتوں والی حسینہ میرے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی اور اس نے میرے ساتھ ساری عمر گزارنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن اس کی ایک چھوٹی سی بے ووقوفی پر میں نے اسے دھتا بتادیا۔ اپنی بے وقوفی اور میری بے نیازی کے باعث ابھی تک شادی نہیں کرسکی۔۔۔ اور فلاں نیلگوں ساڑی اور آنکھوں والی حسینہ مجھے اغوا کرکے تاج محل تک لے گئی تھی لیکن جب میں نے کہا کہ میرے پاس شاہجہاں کی طرح اتنا روپیہ نہیں ہے کہ تمہارے لیے ایک تاج محل بنواسکوں تو اس کا دل ٹوٹ گیا اور آج کل تاج محل کی بجائے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں رہتی ہے اور کلرک کی بچے پیدا کرنے والی ٹائپ مشین بنی ہوئی ہے۔
ان عاشقوں کی عمر کے متعلق جب کسی حسینہ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب مناسب حدود سے آگے بڑھ گئی ہے اور ان کی خودکشی کاخطرہ ہے تو ان میں سے کوئی حسینہ رحم کھاکر ان کی طرف بڑھتی ہے اور کہتی ہے کہ، ’’اب سب قصے تمام ہوئے۔ اب شادی کرلو۔‘‘ جس پر وہ نہایت اکتاہٹ اور بے بسی کے عالم میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتے ہیں اور کسی بینڈ پارٹی کا ایڈریس پوچھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جو ان کے فرضی عشق کے ماتم اور حقیقی شادی کی خوشی کی دھن بچا سکیں۔
ایسی کئی ماتمی خوشیوں میں شرکت کرنے کا مجھے بھی فخر حاصل ہوچکا ہے۔
دہلی کے مکان
دہلی میں صرف دو قسم کے انسان رہتے ہیں۔ مالک مکان اور کرایہ دار۔ ایک اور قسم بھی ہے جو ’’لامکان‘‘ کہلاتی ہے اور خدا کی طرح ہر جگہ موجود ہے۔ فٹ پاتھوں پر تھڑوں پر، پارکوں میں، پلوں کے نیچے، پلوں کے اوپر، برآمدوں میں، کھنڈروں میں، مگر یہ ضمنی قسم ہے۔ خدا کی طرح مکان سے بے نیاز ہے۔ حقیقی قسمیں دو ہی ہیں۔ مالک مکان اور کرایہ دار۔
مالک مکان۔۔۔ مکان بناتے ہیں۔ اپنے لیے نہیں بلکہ کرایہ داروں کے لیے۔ دہلی میں جو مکان بنتا ہے اس میں کرایہ داروں کے مزاج اور تمناؤں کو اینٹوں کی طرح چن دیا جاتا ہے۔ جن مکانوں میں ایسا نہیں ہوتا، ان کے متعلق مالک مکان سمجھتا ہے بیکار پیسہ ڈبویا۔ مکان کے نقشے ہی میں کرایہ داروں کے چہرے اور جیب فٹ کردی جاتی ہے۔ بلکہ اکثر اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ مکان کے لیے ابھی سیمنٹ کی منظوری بھی نہیں آتی کہ اس پر کرایہ داروں کا بورڈ لگ جاتا ہے۔
دہلی میں ایسے مالک مکان بالکل گدھے سمجھے جاتے ہیں جو کرایہ دار نہیں رکھتے اور شکر ہے کہ دہلی میں گدھوں کی تعداد بہت کم ہے۔ مجھے ایک ایسے ہی گدھے رئیس کے بارے میں معلوم ہے کہ اپنی کوٹھی میں کرایہ دار رکھنے کا سخت مخالف ہے لیکن اس کی بیوی اسے ایک سو روپیہ ماہانہ کرایہ دیتی ہے۔ ایک چپراسی نے اپنا مکان اپنے بیٹے اور بہو کو کرایہ پر دے رکھا ہے۔
چاٹ والے سے ممبران پارلیمنٹ تک
دہلی کے مکان انسانوں کے لیے نہیں، کرایہ کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب اپنے مکان کے سامنے تھڑا بنارہے تھے۔ میں نے عرض کیا یہ تھڑاکس لیے؟ فرمانے لگے ایک چاٹ والے کو کرایہ پر دینا ہے۔ دہلی میں سیڑھیاں تک کرایہ پر چڑھانے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ دراصل دہلی کے ہر باشندے کی روح کرائے کی روح ہے۔ روح کو بھی سیڑھی اور تھڑا سمجھ کر کرایہ پر چڑھادیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کئی ممبرانِ پارلیمنٹ بھی ایسے ہیں جو اپنے ضمیر اور مکان دونوں کو کرایہ پر چڑھادیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ممبر خود بھی کرایہ دار ہوتے ہیں اور پھر خود ہی پارلیمنٹ میں کرایے کی روحوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں اور اس طرح اپنے گناہ کا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں۔
اس اعتبار سے دہلی میں کوئی مالک مکان خالص مالک مکان نہیں ہے کیونکہ اگر وہ کرایہ دار نہیں رکھتا تو اپنے آپ سے ہی اپنے مکان کا کرایہ وصول کرلیتا ہے۔
مکانوں کا شہر
دہلی صرف مکانوں کا شہر ہے۔۔۔ آزادی کے بعد یہاں صرف مکان بنے۔ ان کے سوا ہر چیز بگڑ گئی ہے۔ مکان خوبصورت ہو رہے ہیں انسان بھدے ہو رہے ہیں۔ خدا نے انسان کو جتنا حسن عطا کیا تھا، وہ سب مکانوں پر لگادیا گیا ہے۔ اس لیے انسان کے پاس کچھ باقی نہ رہا، صرف کرایہ کے پیسے باقی رہ گئے۔ یہاں تک کہ خدا کے مکانوں میں بھی کرایہ دار رکھ لیے گئے ہیں، جوپیٹ کی خاطر خدا کو کرایہ پر چڑھاتے ہیں اور خدا سے داد پاتے ہیں۔
دہلی کے مکانوں کی طرزتعمیر میں ’’کرایہ آرٹ‘‘ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کہنے کو دہلی کے سبھی آرکٹیکٹ یہی کہتے ہیں کہ فلاں مکان میں مغل آرٹ ہے، فلاں میں یورپین آرٹ اور فلاں میں چینی آرٹ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مکانوں کے سبھی آرٹ ’’کرایہ آرٹ‘‘ کے گرد کولھو کے بیل کی طرح گھومتے ہیں۔ کرایہ داروں کی جتنی اقسام ہیں اتنی ہی اقسام کے تعمیری آرٹ ہیں۔ آرٹ۔۔۔ ضمنی چیز ہے۔ کرایہ بنیادی چیز ہے۔
یہاں کے مکان چار قسم کے ہیں،
(۱) قدیم مکان (۲) نئے بنگلے اور کوٹھیاں (۳) عوامی مکان (۴) سلم ایریا کی جھونپڑیاں۔
دہلی کے قدیم مکان
مکانوں کی یہ قسم پرانی دہلی میں پائی جاتی ہے۔ انہی مکانوں کی گلیوں کے بارے میں ذوقؔ نے کہا تھا،
کون جائے ذوقؔ اب دلی کی گلیاں چھوڑ کر
یہ گلیاں اتنی تنگ و تاریک اور بھول بھلیاں قسم کی ہیں کہ ان سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں۔ اس لیے انہیں چھوڑ کر جاناآسان نہیں۔ ذوقؔ نے ٹھیک کہا تھا۔ ان سے باہر نکلنے کا واقعی کوئی راستہ نہیں۔
قدیم طرز کے یہ مکان اس زمانے کے انسانوں کی گہری او رقریبی محبت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے اتنے قریب ہیں، اتنے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک مکان کا باشندہ اپنی چھت پر کھڑا ہوکر دوسرے مکان کی چھت پر کھڑے ہوئے باشندے کا بوسہ لے سکتا ہے۔ مل کر ڈوئٹ گاسکتا ہے۔ ایک دوسرے کا سگریٹ سلگاسکتا ہے۔ غصہ آئے تو ہاتھ بڑھاکر تھپڑ مار سکتا ہے۔ ان مکانوں کی عورتیں اپنے گھروں سے نکلے بغیر ایک دوسرے کو گالیاں اور کوسنے دے سکتی ہیں۔ دال سبزی ایکسچینج کرسکتی ہیں۔ اپنی چھت پر کھڑے کھڑے تعزیت تک کرلیتی ہیں۔
غرض یہ قدیم طرز کے مکان دو انسانوں کے وصال اور قربت کا سمبل ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں اے دنیا بھر کے لوگو! قریب آجاؤ۔ کیونکہ قربت ہی تمہارے دکھوں کا علاج ہے۔ نہ صرف علاج ہے بلکہ خود بھی ایک دکھ ہے۔ اس لیے دکھی ہونا چاہتے ہو تو ایک دوسرے کے مکانوں کو اتنا قریب لے آؤ کہ مردوں کو مورچے بنانے میں اور عورتوں کو سیاپہ کرنے میں سہولت ہوجائے۔
یہی جذبہ وصال و قربت ہے کہ اگر ان میں سے ایک مکان بھی گرے تو وہ سیدھا دوسرے مکان پر گرتا ہے۔ اور دوسرا مکان تیسرے پر۔ اور اس طرح ایک مکان کے گرنے سے ایک ساتھ تین چار مکان گرجاتے ہیں۔ جیسے بچھڑے ہوئے اہل محبت ایک دوسرے پر بوسے ثبت کر رہے ہوں۔
اور چونکہ یہ قدیم مکان ہیں، اس لیے عام طور پر گرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ان کا گرنا بدشگونی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ دہلی کے قدیم کلچر کی یادگار ہیں۔ انہیں محفوظ رکھنے کے لیے برابر اینٹیں اور پلستر لگائے جاتے ہیں۔ اس کلچر کو محفوظ کرنے کے سلسلہ میں قربانیاں بھی دی جاتی ہیں اور ہر سال مکان گرنے سے بہت سے لوگ ملبے کے نیچے آکر شہید ہوجاتے ہیں۔
جب یہ قدیم مکان ملبے بن جائیں گے۔ دہلی کا قدیم کلچر بھی ملبہ بن جائے گا اور انشاء اللہ وہ دن بہت جلد آرہا ہے۔
کوٹھیاں اور بنگلے
مکانوں کی دوسری قسم کوٹھیاں اور بنگلے ہیں۔ ان کی طرز تعمیر میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ ان میں مصری، ایرانی امریکی، فرانسیسی، روسی، جاپانی، افریقی روح نظر آئے مگر ہندوستان ہرگز نظر نہ آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی روح مفلس ہے اور یہ کوٹھیاں اور بنگلے امیر لوگ بنواتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان پر مفلس ہندوستان کا سایہ پڑے۔ اس لیے وہ اپنی کوٹھیاں، مفلس عوام کی چشم بد سے دور شہر سے باہر بنواتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے تو وہ اپنی کوٹھیاں شہر کے باہر ہی نہیں ہندوستان سے بھی باہرتعمیر کروائیں۔
عوام سے دور شہر سے باہر کوٹھیاں بنوانے کارجحان آہستہ آہستہ اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ شہر کے باہر کوٹھیوں اور بنگلوں کا ایک اور شہر بن گیا ہے اور یہ بڑے لوگ بہت پریشان ہیں کہ اب کیا کریں۔ وہ اس دوسرے شہر سے بھی باہر جنگلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں تاکہ عوام سے دور اور فطرت کے نزدیک جابسیں، لیکن وہ جوں جوں جنگلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں شہر ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ چنانچہ اب دہلی کے ارد گرد جنگل اور پہاڑ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ جنگل اور پہاڑوں میں کوٹھیاں اور بنگلے نمودار ہوگئے ہیں۔ فطرت غائب ہوگئی ہے۔ افلاس اور سرمایہ کی ریس نے فطرت کو روند ڈالا ہے، مارڈالا ہے۔ فنا کردیا ہے۔
ان کوٹھیوں میں وہی لوگ رہتے ہیں جو دہلی (بلکہ ہندوستان) پر راج کرتے ہیں۔ کار، بل ڈاگ، ہرے ہرے لان، برقی قمقمے، مصوروں کے قیمتی شاہکار ریشم و کمخواب، دودھ اور چاندنی میں دھلی ہوئی عورتیں، ڈرائنگ روم، پلنگ روم ریڈنگ روم، ویٹنگ روم، ڈائننگ روم، پنگ پانگ روم، چلڈرن روم، ڈانس روم، انگریزی میں ہنسنا، رونا، لڑنا، عشق کرنا، غرض راج کرنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے، وہ سب ان کوٹھیوں میں جمع کرلی جاتی ہیں۔ ان سب نعمتوں کے لیے روپیہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ رائل فیملی کے شہزادے ہی جانیں، کیونکہ یہ ان کا ’’ٹریڈ سیکرٹ‘‘ ہے۔
ہاں! دہلی میں ایک افواہ ضرور پھیلی ہوئی ہے کہ یہ سب نعمتیں وہی لوگ مہیا کرتے ہیں جن سے یہ شہزادے بھاگ بھاگ کر جنگلوں کی طرف بڑھتے اور کوٹھیاں بناتے جارہے ہیں۔
یہ کوٹھیاں اور بنگلے کرایہ پر مل جاتے ہیں، لیکن ان میں صرف وہی کرایہ دار رہتے ہیں جو خود بھی رائل فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ ان کا کرایہ بھی شاہی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ایک بار ایک سرکاری افسر نے، جس کی تنخواہ ایک ہزار روپے ماہانہ تھی، ایک کوٹھی ایک ہزار روپے ماہانہ کرایہ پر لے لی۔ وہ اپنی تنخواہ کرایہ میں دے کر کوٹھی کے باہر بیٹھ گیا اور ہر راہ چلتے کے سامنے ہاتھ پھیلاکر کہنے لگا، بابا! خدا کے نام پر ایک پیسہ دے دو۔ بھوکا ہوں۔
لیکن شام تک اسے بھیک میں ایک پیسہ تک نہ ملا، کیونکہ ہر راہ چلتے نے یہی سمجھا، ایسا سوٹڈبوٹڈ آدمی بھکاری نہیں ہوسکتا، مذاق کر رہا ہے۔
عوام کے مکان
دہلی عوام کا شہر ہے، اس لیے ان کے مکان بھی عوامی ہیں۔ ان کے مکانوں کی وہی ساخت ہے جو عوام کی اپنی ساخت ہے۔ عوام بھوک کے مارے ہیں، اس لیے ان کے مکان بھی یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے صدیوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔
عوام کے مکان عوام کے کلچر کو ظاہر کرتے ہیں، اس لیے ان کی تعمیر کے وقت بھی عوام کے کلچر کا خاص دھیان رکھا جاتا ہے۔ ایک کمرہ ایک رسوئی۔ ایک باتھ۔۔۔ مگر نہیں باتھ روم کا کام رسوئی سے بھی لیا جاسکتا ہے اور بس۔۔۔ اس سے زیادہ کی عوام کا کلچر اجازت نہیں دیتا۔ اگر کسی عام آدمی کے پاس ایک کی بجائے دوکمرے ہوں تو اس کی بیوی یہ کہہ کہہ کر اس کی نیند حرام کردیتی ہے کہ یہ دوسرا کمرہ کرائے پر اٹھادو۔ ہماری ضرورت سے زیادہ ہے۔ اور کچھ نہیں تو اس کرایہ سے بچوں کی نیکریں اور قمیص ہی بن جائیں گی۔
عوام شاستروں کے انویائی ہیں، اس لیے ان کے مکان بھی شاستروں کا ترجمہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان مکانوں سے صبر و قناعت ٹپکتی ہے۔ حرص و ہوا کا ادھر کبھی گزر نہیں ہوتا۔ اکڑفوں اور جھوٹا غرور انہیں چھو تک نہیں گیا۔ ایک پاخانہ پندرہ عوامی کنبوں کے لیے کافی ہے۔ ایک غسل خانہ میں دس دس گھرانے اشنان کرلیتے ہیں۔ ایک ہی کمرے میں چارپائیاں، کرسیاں، ریڈیو سیٹ، انگیٹھی، جوتے کتابیں، برتن ہرچیز سما جاتی ہے۔ کیونکہ عوام کی تھیوری یہ ہے کہ دل بڑا ہونا چاہیے مکان نہیں۔ دل بڑا ہے تو اس میں کرسیاں بھی رکھی جاسکتی ہیں اور پانی کی بالٹیاں بھی۔ کئی لوگوں نے تو اپنے دل میں بچوں کے لیے پلے گراؤنڈ تک بنارکھے ہیں، جسے دیکھ کر وہ خدا کا شکر بجالاتے ہیں، جس نے انہیں صوفہ سیٹ عطا نہیں کیا، ورنہ وہ اسے کہاں رکھتے۔
عوام کے ان مکانوں کی ایک اور کلچرل خصوصیت بھی ہے وہ یہ کہ ان مکانوں کے ناموں میں تکلف اور جھوٹ روا نہیں رکھا گیا۔ یعنی عوام نے اپنے مکانوں کے ’’شیش محل، پریم بھون، قصر احمر، آرام محل، عشرت کدہ‘‘ جیسے شاندار نام نہیں رکھے بلکہ ان کے مکانوں کے نام ہندسوں پر رکھے گئے ہیں۔ بلاک نمبر ۸ کوارٹر نمبر۱۵۔ چوبیس نمبر، اٹھائیں نمبر، پچاس نمبر۔ ان سیدھے سادے، غیر پیچیدہ ناموں سے عوام کوایک فائدہ یہ ہوا کہ عوام کو اب اپنے نام رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ یعنی اگر کسی کا نام گھنشیام لال ہے تو اسے گھنشیام لال کے نام سے نہیں پکارا جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے اٹھارہ نمبر والا آیا تھا۔ کہتا تھا، بائیس نمبر والے کی بیوی اس کے تکیے کا غلاف چراکر لے گئی ہے۔ ہم نے چھبیس نمبر والے سے اس کی شکایت کی تو آٹھ نمبر والا باہر نکل آیا اور اس کی بے جا حمایت کرنے لگا۔
یعنی عوام کا کوئی نام نہیں رہا۔ مکانوں کا نام ہی باقی رہ گیا ہے۔ عوام اب اپنے مکان کے نام ہی سے پہچانے اور پکارے جاتے ہیں۔ عوام اب انسان نہیں رہے مکان ہوگئے ہیں۔ عوام اور مکان میں بھید بھاؤ مٹ گیا ہے۔ اور ’’تومن شدی، من توشدم‘‘ کے مصداق ایک دوسرے میں ضم ہوگئے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے آتما، پرماتمامیں مل جاتی ہے اور یہ عوام کے کلچر کی وہ بلند ترین منزل ہے جہاں سے خدا صرف ایک آدھ انچ آگے رہتا ہے۔
سلم ایرا کی جھونپڑیاں
دہلی میں سلم ایریا کی جھونپڑیاں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ ان کا کوئی طرز تعمیر نہیں۔ یہ خود روپودوں کی طرح اگتی ہیں اور خودبخود مرجھا جاتی ہیں۔ یہ عام طور پر گندے نالوں، نشیبی علاقوں اور جھاڑ جھنکاڑ کے پاس بنائی جاتی ہیں۔ بظاہر یہ دہلی کے ماتھے پر داغ معلوم ہوتی ہیں لیکن اس داغ کے بغیر دہلی کا ماتھا مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے جب دہلی کے ماتھے کو صاف کرنے کے لیے ایک جھونپڑی گرائی جاتی ہے تو نئی جھونپڑیاں جنم لے لیتی ہیں۔ دہلی کے مہذب حکام کا خیال ہے کہ جب تک ان جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو ختم نہیں کیا جائے گا، یہ جھونپڑیاں ختم نہیں ہوسکتیں۔ لیکن جھونپڑیوں والے چونکہ سماج کی تہذیب کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، اس لیے وہ ختم نہیں ہوسکتے کیوں کہ تہذیب کی کوکھ کو بانجھ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تہذیب کے نمائندے ان جھونپڑیوں کو ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔ انہیں پانی، بجلی اور نالیاں مہیا کرتے ہیں۔ انہیں ووٹروں کی فہرست میں شامل کرلیتے ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ یہ غلاظت قائم رہے۔ زندہ ر ہے، کیوں کہ جمہوریت کو زندہ رکھنے کا یہی تقاضا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.