دماغ چاٹنے والے
میرے ملاقاتیوں کی کوئی تعداد معین نہیں ہے۔ مگر ان میں سے چند ملاقاتی ایسے ہیں جن کے بارے میں رہ رہ کر مجھے خیال آتا ہے کہ کاش ان سے میری ملاقات نہ ہوتی۔ یا کاش اب ان سے میری راہ و رسم منقطع ہوجائے۔ یہ ضرور ہے کہ پہلی بار جب میں کسی ملاقاتی سے ملتا ہوں تو عادتاً یہ ضرور کہہ دیتا ہوں کہ ’’مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔‘‘ یہ جملہ تو بالکل رسمی ہے۔ اس کے معنی و مفہوم اور اس کی اہمیت پر غور کیے بغیر خود بخود زبان سے نکل جاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اس جملے سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے اور اس لیے بار بار ملاقات کی جائے کہ پہلی بار مجھے ان سے مل کر بڑی خوشی ہوئی تھی۔ ویسے اب میں سچ سچ بتادوں کہ اب تو ان ملاقاتیوں سے مل کر مجھے بے حد کوفت ہوتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ذرا ڈھیٹ بن کر، ذرا بے مروت ہوکر صاف صاف کہہ دوں کہ صاحبان میں آپ سے ہرگز نہیں ملنا چاہتا۔ مجھے آپ سے مل کر نہ پہلی بار کوئی خوشی ہوئی تھی اور نہ اب ہوئی ہے، اور نہ آئندہ کبھی ہوسکتی ہے۔ میں بڑی عاجزی سے درخواست گزار ہوں کہ مجھے معاف کیجیے اور خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑیے۔
لیکن کیا اب میں ایسا کہہ سکتا ہوں؟ نہیں نہیں شائد میں ایسا نہیں کہہ سکتا۔ میں لاکھ کوشش کروں، تب بھی ایسا نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ مجھ میں وہ اخلاقی جرأت ہی نہیں ہے جس کی ہر بڑے آدمی نے تلقین کی ہے اور جو ابتدائے آفرینش سے آج تک (پیغمبروں اور غیرمعمولی آدمیوں کو چھوڑ کر) کسی انسان میں پیدا ہوسکی۔ اس دنیائے آب و گل میں اخلاقی جرأت کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے، جتنی کہ اخلاقی بزدلی کو حاصل ہے۔ اخلاقی بزدلی کے لیے دل گردے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اخلاقی جرأت رکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ لیکن چونکہ میرے دل گردے بہت کمزور ہیں اور فطرتاً آسان بھی ہوں۔ اس لیے مجھ میں اخلاقی جرأت پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ ہر زید، بکر، عمر سے پہلی ملاقات پر میں بے کھٹکے یعنی بغیر سوچے سمجھے کہہ دیتا ہوں کہ مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔
مگر ازراہِ انصاف آپ فرمائیے کہ سید شاہ ضیاالحسن سے مل کر کسی صحیح عقل و دماغ رکھنے والے انسان کو خوشی ہوسکتی ہے؟
مجھے اپنے دوست محمد ریاض خاں پر بے حد غصہ آتا ہے کہ جس نے سید شاہ ضیاء الحسن سے ایک مبارک یا منحوس دن میرا تعارف کرایا۔ یہ کوئی سخن سازی نہیں بکہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جس دن بھی سید شاہ ضیاء الحسن سے کسی شخص کا تعارف ہوگا وہ دن اس شخص کے لیے یقیناً ایک منحوس دن ہوگا۔ چنانچہ میری زندگی میں اب اس منحوس دن کے علاوہ روز بروز منحوس گھڑیوں کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ سید شاہ ضیاء الحسن روز روز مجھ سے ملتا ہے۔ میں جتنا اس سے دور بھاگتا ہوں وہ اتنی ہی تیزی سے میری طرف دوڑتا ہے۔ مجھے پکڑلیتا ہے اور مجھے اپنی شکست مان کر مجبوراً دانت کھول کر مسکرانا پڑتا ہے، اور پھر میں پوچھتا ہوں،
’’اوہ! سید شاہ ضیاء الحسن صاحب۔ کہیے مزاج تو اچھے ہیں؟‘‘ اب پھر کچھ نہ پوچھئے۔ سید شاہ ضیاء الحسن کی زبان چلنے لگتی ہے تو پھر گھنٹوں چلتی رہتی ہے۔ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ آپ بیٹھیے اور اپنے صبر و ضبط کا امتحان دیتے رہیے۔ نتیجتاً ناکامی آپ کو یا مجھے ہی ہوگی۔ سید شاہ ضیاء الحسن کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔
وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ چونکہ وہ دو دو تین تین گھنٹوں تک بے تکان گفتگو کرسکتا ہے اور سننے والے چپ چاپ اس کی باتیں سنتے رہتے ہیں تو یقیناً اس کی گفتگو بڑی دلچسپ ہوتی ہے۔ جبھی تو لوگ اپنے زخم جگر کو دینےن کی بجائے ہمہ تن گوش ہوکر بڑے انہماک سے اس کی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ سید شاہ ضیاء الحسن کبھی یہ جاننے یا محسوس کرنے کی کوشش نہیں کرے گا کہ آپ کس موڈ میں ہیں۔ وہ اس کی کبھی پروا نہیں کرے گا کہ آپ کو بخار اور درد سر ہے۔ یا آپ اپنی محبوبہ کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ اسے تو بس یہ خوش فہمی ہے کہ وہ بڑا دلچسپ باتونی یا ایک اچھا مجلسی آدمی ہے۔ اسی لیے وہ باتیں شروع کردیتا ہے۔ ہر قسم کی باتیں ہر موضوع کی باتیں، ایران کی باتیں، توران کی باتیں، مہمل باتیں، بیکار باتیں۔۔۔ ضیاء الحسن باتیں ہی باتیں کرتا رہتا ہے۔ مگر نزدیک سے بغور دیکھنے پر بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ باتیں نہیں کر رہا بلکہ اپنے مخاطب کا دماغ چاٹ رہا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ انسان کے حلق میں زبان اسی لیے جڑدی گئی ہے کہ وہ باتیں کرے۔ باتیں کرنا ہرگز کوئی غیرانسانی حرکت نہیں۔ مگر مجھے یہ کہنے میں ذرہ برابر بھی باک نہیں ہے کہ دماغ چاٹنا یقیناً غیرانسانی حرکت ہے۔
ضیاء الحسن جب کبھی ملتا ہے تو پہلے یہ ضرور کہہ دیتا ہےکہ ’’نہیں نہیں کوئی خاص بات نہیں۔ بس ادھر سے گزر رہا تھا سوچا تم سے دو ایک منٹ کے لیے باتیں کرتا چلوں۔‘‘
اب سنیے اس کی دو ایک منٹ کی باتیں۔
’’ارے بھئی- کچھ سنا تم نے۔ ابھی ابھی ایک بڑا افسوس ناک واقعہ ہوا۔ وہ موہن لال ہے نا۔ چلتی موٹر سے گر پڑا۔ بیچارے کو بڑی سخت چوٹ آئی۔‘‘
میں پوچھتا ہوں،
’’کون موہن لال؟‘‘
وہ حیرت سے کہتا ہے۔ ’’ارے موہن لال کو نہیں جانتے۔ ہاں ہاں موہن لال کو تم نہیں جانتے۔ تم اس سے کبھی ملے ہی نہیں۔ موہن لال بے چارا ایک بڑا پیارا دوست ہے۔ ڈپٹی دیا نرائن کا بھانجا ہے۔ بڑا دلچسپ ہنس مکھ۔ بالکل ڈپٹی دیا نرائن کی طرح خوش مذاق اور زندہ دل۔ ہے ہے۔ ڈپٹی دیا نرائن کی کیا تعریف کی جائے۔ ابھی ابھی پچھلی جولائی میں وہ سورگ باش ہوئے ہیں۔ بڑی حسرت ناک موت تھی۔ ہاں اس حسرت ناک موت پر خوب یاد آیا۔ وہ بے چارا قمرالدین بھی تو مرگیا۔ اس کی موت بھی بڑی دردناک تھی۔ قمرالدین کو بھی شاید تم نہیں جانتے۔ بے چارے کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔
ارے ہاں بھئی۔ تہایرے چھوٹے بچے کامزاج اب کیسا ہے؟ کون سے ڈاکٹر کا علاج کروا رہے ہو۔ آج کل تو یہاں کوئی اچھا ڈاکٹر ہے ہی نہیں۔ سب نیم حکیم خطرہ جان ہیں۔ اب تو یار میرے علاج کرنے والے بھی ڈاکٹر ہیں اور کالج پڑھانے والے بھی ڈاکٹر ہیں۔ اس پر ایک بات یاد آگئی۔ وہ جو ڈاکٹر فاروق حسین جو معاشیات کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ بڑا خوددار آدمی تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں دو ہی خوددارآدمی دیکھے ہیں۔ ایک تو ڈاکٹر فاروق حسین، دوسر اپنا محمد قاسم طبلہ مرچنٹ۔ تم نے محمد قاسم طبلہ مرچنٹ کا وہ واقعہ تو ضرور سنا ہوگا کہ ایک بار انھوں نے ایک بڑے رئیس کا طبلہ درست کرنے سے اس لیے انکار کردیا تھا کہ رئیس نے دوکان کے باہر ہی سے موٹر میں بیٹھے بیٹھے بڑی رعونت سے کہا تھا کہ۔۔۔
’’اے میاں طبلے والے، ادھر آؤ۔ اسے درست کرنا ہے۔‘‘
محمد قاسم خوددار آدمی تھا۔ اس نے ویسے دوکان میں ہی بیٹھے بیٹھے کہا،
’’غرض پڑی ہے تو موٹر سے اتر کریہاں آؤ۔ ورنہ اپنا راستہ ناپو۔‘‘ یہ ہے خودداری۔ تجارت کرتا ہے۔ آزاد پیشہ آدمی ہے۔ وہ بھلا کسی رئیس کا دبیل کیوں ہو۔ وہ تو اس وقت۔۔۔ ارے بھائی جلیس، اٹھ کھڑے ہوگئے۔ اماں یار بیٹھو۔ کہاں جا رہے ہو، بیٹھو بھئی بیٹھو۔
مگر میں نے جواب دیا کہ مجھے ساڑھے گیارہ بجے ایک صاحب سے ملنا ہے۔ معاف کرنا ضیاء الحسن میں محمد قاسم طلبچی کی داستانِ خودداری پوری طرح نہ سن سکا۔ مگر کیا کروں مجبور ہوں، ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے ان صاحب سے ملنا ضروری ہے اور اب گیارہ بجنے میں پندرہ منٹ باقی ہیں۔ اچھا پھر ملاقات ہوگی۔ خداحافظ۔
اس کے بعد میں وہاں سے سرپر پاؤں رکھ کر بھاگتا ہوں۔ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ ساڑھے گیارہ بجے مجھے کسی صاحب سے ملنا ہے۔ مگر یہ بالکل سچ ہے کہ مجھے زخمی مومن لال یا ان کے خوش مذاق، زندہ دل ماموں ڈپٹی دیانرائن آنجہانی یا چھوٹے چھوٹے بچوں والے مرحوم قمرالدین یا ڈاکٹر فاروق حسین سابق پروفیسر معاشیات اور خود دار طبلہ مرچنٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ موہن لال جسے میں جانتا تک نہیں۔ بھئی اگر موٹرسے گر پڑا تو میں کیا کروں؟ ڈپٹی دیا نرائن بڑے خوش مذاق اور زندہ دل آدمی تھے، تو وہ ہوں گے۔ قمرالدین کی موت بڑی حسرت ناک تھی تو بھئی اس کی موت میں میرا کیا دخل؟ ڈاکٹر فاروق حسین نےاستعفیٰ دےدیا، تو میرا کیا بگڑا۔ محمد قاسم طبلہ والے اگر خوددار ہیں تو ہوا کریں۔ مجھے تو ان سے طبلہ درست نہیں کرانا ہے۔
مجھے صرف اکیلے ضیاء الحسن ہی سے شکایت نہیں ہے۔ بلکہ ضیاء الحسن کے سارے بھائیوں سے شکوہ ہے۔ میرا روئے سخن ضیاء الحسن کے سگے یا رشتے کے بھائیوں کی طرف نہیں ہے بلکہ میری ضیاء الحسن کے پیشے کے بھائیوں یعنی ضیاء الحسن کی طرح دماغ چاٹو لوگوں سے ہے۔ دماغ چاٹنا نہ صرف ایک پیشہ ہے بلکہ اس کا شمار فنونِ لطیفہ میں بھی ہوتا ہے۔
سید شاہ ضیاء الحسن کے ایک ہم پیشہ بھائی ابوالفضل صاحب ہیں۔ یہ ابوالفضل صاحب کسی ضلع کی ایک تحصیل کے پیشکار ہیں۔ اپنی کسی نہ کسی کارروائی کے سلسلے میں ہر اٹھوارے پندھواڑے شہر آتے رہتے ہیں اور جب بھی مجھ سے ملتے ہیں تو پہلا سوال یہ کرتے ہیں،
’’میاں تم کب آئے؟‘‘
میں جواب دیتا ہوں۔ ’’جی میں تو یہیں ہوں۔ عرصے سے یہاں رہتا ہوں۔ میں تو پانچ سال سے کسی چھوٹے سے سفر پر بھی نہیں گیا۔‘‘
وہ فرماتے ہیں۔ ’’اوہ، وہ شاید آپ کے بھائی ہیں جو بمبئی میں ہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں ’’جی میرے تو کوئی بھائی بمبئی میں نہیں ہیں۔‘‘ وہ مصر ہوجاتے ہیں۔ ’’ارے کوئی تھے نا میاں تمہارے بمبئی میں؟‘‘
اب میں ان سے کس طرح بحث کروں۔ اس لیے جھوٹ موٹ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔ ’’اچھاآپ عابد حسین کو پوچھ رہے ہیں۔ جی، وہ تو بمبئی میں فلم ایکٹر بن گئے۔‘‘ (حالانکہ عابد حسین تو یہیں ہیں اور ہیں ایک دفتر میں ملازم ہیں) وہ خوش ہوکر فرماتے ہیں۔ ’’ہاں میں نے کہا تھا نا۔ اچھا اب آپ کیا کر رہےہیں۔ ’’جی تو چاہتا ہےکہہ دوں، جھک مار رہا ہوں۔ مگر چونکہ وہ میرے بزرگوں کے ملنے والوں میں سے ہیں اس لیےجواب دیتا ہوں۔ ’’جی ایک اخبار کا ایڈیٹر ہوں۔‘‘ فرماتے ہیں ’’اخبار کے ایڈیٹر ہو! خوب اچھا، آج کل اخباروں میں کیا چھپ رہا ہے؟‘‘ ایسے سوال کے بعد اپنا اور ان کا جی ایک کردینے کو چاہتا ہے۔ مگر انسان ایک بندۂ مجبور ہے اور وہ صرف تحصیل کے پیشکار ہیں۔ مگر میرے بزرگوں کے ملنے جلنے والے بھی ہیں۔
وہ جب کبھی اپنی تحصیل سےشہر آتے ہیں تو ادھر کئے ہوئے سوالات ہر مرتبہ دہراتے ہیں اور تین گھنٹے تک برابر دماغ چاٹتے رہتے ہیں مگر پرسوں میں نے انہیں بڑا چکمہ دیا۔ وہ شہر آئے تھے۔ اتفاق سے عابد روڈ پر نظر آگئے۔ میں سائیکل پر جارہا تھا۔ مجھے دیکھ کر پکارا،
’’میاں۔ ارے ٹھہرو۔ ٹھہرو بات تو سنو۔‘‘
مگرمیں نے بالکل انجان ہوکر پیڈل تیز کیے اور نام پلی سڑک پر مڑگیا۔ حالانکہ مجھے معظم جاہی مارکیٹ جانا تھا۔
ضیاء الحسن کے تیسرے برادرِ طریقت ہمارے ایک پڑوسی بزرگ بھی محکمہ مالگذاری کے پنشن یافتہ منتظم ہیں۔ انہیں بڑھاپے کی وجہ سے جلدی نیند نہیں آتی۔ اسی لیے بے خوابی کا وقت میرا دماغ چاٹنے میں گزارتے ہیں۔ روزانہ رات کو کھانے کے بعد آجاتے ہیں اور آتے ہی پہلا سوال یہ کرتے ہیں۔
’’مناؤ بابا۔ آج اخبار میں کیا لکھا ہے؟‘‘
میں کوئی حافظِ اخبار تو نہیں ہوں۔ اس لیے عمداً اخبار ان کی طرف بڑھا دیتا ہوں۔ مگر وہ اخبار جوں کاتوں واپس کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’اخبار تو میں صبح کا ہی پڑھ چکا ہوں، اس میں کیا رکھا ہے، کچھ تو سناؤ۔ اسٹالن ہندوستان پر کب ہلّہ بولنے والا ہے؟‘‘
میرا ارادہ ہے کہ کسی دن جب میرے صبر و تحمل کا پیالہ چھلک جائے گا تو میں ان سے صاف صاف کہہ دوں گا کہ قبلہ نہ تو اسٹالن کو باؤلے کتّے نے کاٹا ہے کہ وہ ہندوستان پر حملہ کرے اور نہ مجھے کہ میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر دوتین گھنٹوں تک اخبار کا آموختہ پڑھوں۔ آپ پنشن یافتہ ہیں۔ آپ کو بے خوابی کی شکایت ہے تو پھر آپ اپنے گھر بیٹھ کر تارے گنتے رہیے۔ میرا جوان وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔ میرا دماغ کہاں اتنا فالتو ہے کہ آپ بیٹھے چاٹا کیجیے۔ حضرت مجھے سونے دیجیے۔ رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔ اپنی بزرگی یا میری سعادت مندی سے للہ ناجائز فائدہ تو نہ اٹھائیے۔
ضیاء الحسن کے ایک چوتھے ہم مشرب آرٹسٹ ہیں۔ لوگ انہیں ہرفن مولا کہتے ہیں۔ مگر انہوں نے انتہائی سادگی سے اپنا تخلص بے کمال رکھا ہے۔ وہ ایک بہت اچھے شاعر، بہت اچھے افسانہ نگار، بہت اچھے مصور، بہت اچھے گویے اور بہت اچھے لطیفہ گو ہیں۔ بلبل ترنگ بھی بہت اچھا بجاتے ہیں۔ آج کل ناچ بھی سیکھ رہے ہیں۔ مگر ایک اچھائی یا خرابی یہ ہے کہ وہ ’’سنانے کے مرض‘‘ میں گرفتار ہیں۔ جب کبھی میں انہیں نظر آجاتا ہوں تو بس پکڑ کر زبردستی موٹر میں بٹھا سیدھا گھر لے جاتے ہیں۔ حکم ہوتا ہے کہ پہلے چائے سگریٹ پی کر تازہ دم ہوجاؤ۔ چائے پی کر پہلا ہی سگریٹ جلاتا ہوں کہ وہ اپنی تازہ نظم یا غزل شروع کردیتے ہیں۔ اب میں ہوں کہ بات بے بات واہ واہ کہنے لگتا ہوں۔ پندرہ بیس تازہ منظومات کا اسٹاک ختم ہوگیا تو وہ اندر سے چمڑے کا موٹا بیگ لے آئے۔ اب افسانے شروع ہوتے ہیں۔ رومانوی افسانے، سیاسی افسانے، تاریخی افسانے، جاسوسی افسانے۔
دو بج گئے۔ اندر سے دوپہر کاکھانا آیا۔ کھانا کھاتے کھاتے بھی اپنی نگارشات اور ان کی شانِ نزول زیربحث آجاتی ہے۔ کھانا ختم کرنے کے بعد بچے کھچے مقالے، تقریریں، اقتباسات، ڈائری، کچھ بڑے لوگوں کے خطوط اور کچھ فرضی لڑکیوں کے محبت نامے لیجیے اب پانچ بج گئے۔ شام کی چائے آتی ہے۔ شام کا وقت چونکہ نثر نظم کے سے وزنی پروگراموں کے لیے موزوں نہیں ہوتا اس لیے لطیفہ گوئی اور بیت بازی شروع ہوگئی۔ رات کے آٹھ بج گئے۔ اندر سے رات کا کھانا کھاتے کھاتے ٹیبل ٹاک ہوتی ہے۔ نو بج جاتے ہیں۔ اب ذرا سکوت اور سناٹا طاری ہوجاتا ہے۔ مگر اس پر بھی مصوری کے شہکار دکھانے لگے۔
’’یہ تاج محل ہے، یہ نخلستان ہے، یہ نسیم جونیر کی تصویر ہے۔‘‘
’’یہ ایک لڑکی کی تصویر ہے جس کا چہرہ عشق کی ناکامی کے تاثرات ظاہر کرنےکی میں نے انتہائی کوشش کی ہے۔‘‘
میری یہ تیندوے کی تصویر۔ اب کے سال بمبئی کی آرٹ اگزبیشن میں بھیجی جانے والی ہے۔‘‘
خدا خدا کرکے رات کے دو بج گئے۔ دو بجے سے موسیقی کا پروگرام شروع ہوگیا۔ پھر رات کے پانچ بج گئے۔ اب بلبل تگرنگ پر بھیرویں بجانے لگے۔ یہ مجلس راگ و رنگ ابھی جاری تھی کہ قریب میں کسی ٹاپے سے مرغ بول پڑا۔ ایک مسجد سے موذن کی اذان گونجی۔
فرمایا ’’ارے دیکھا تم نے۔ آرٹسٹ کو گردشِ شام و سحر کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اچھا، ارے تمہاری آنکھیں لال ہو رہی ہیں۔ اب تم سو جاؤ۔ میں ذرا شفق کانظارہ کروں۔‘‘
میں سوچتا ہوں کہ کیا میں سوجاؤں؟ مگر شائد میں نہ سوسکتا ہوں اور نہ سوچ سکتا ہوں۔ کیونکہ میرے سر میں جتنا کچھ مغز تھا۔ آرٹسٹ نے سارے کا سارا چاٹ لیا ہے۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟
اب مجھے یہ کرنا چاہیے کہ جب بھی مجھے دوبارہ آرٹسٹ صاحب سے ملنا پڑے تو پہلے ہی اپنے بیوی بچوں کو نصیحت کر آؤں۔ تاکہ پھر میں بھی آرٹسٹ بن جاؤں اور مجھے گردشِ شام و سحر کی خبر ہی نہ ہو۔ ظاہر بات ہے کہ جب سارا دماغ چاٹ لیا جائے گا تو پھر گردشِ شام و سحر کی خبر ہی نہ ہوگی۔
ضیاء الحسن صاحب کے پانچویں بھائی چودھری رام کشن جی ہیں۔ بہت بچپن سے میرے ساتھ پرائمری جماعت میں پڑھتے تھے۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد وہ اپنے بابا کی کپڑے کی دوکان پر بیٹھ گئے۔ پھر زمانہ گزر گیا۔ میں نے بی، اے پاس کرلیا۔ اس کا رام کشن جی کو بھی پتہ چل گیا۔ وہ مجھے بڑا لائق آدمی سمجھنے لگے۔ اپنے کاروباری خطوط پڑھانے اور لکھانے کے علاوہ اپنے راج پھوڑے کے علاج سے لے کر اپنی لڑکی کی شادی تک ہر معاملے میں مجھ سے مشورہ کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو کابار بار دہرایا جانے والا جملہ یہ ہے،
’’بھئی تم علم و ادب کے خوب چرچے کرتے ہو۔ کچھ بتاؤ تو سہی کہ کیا دیسی کپڑوں کے ساتھ ولائتی کپڑوں کی بھی تجارت کروں؟‘‘
’’کیا چھوٹے لڑکے کو گرجا کے اسکول میں بھیج دوں؟ یا اپنے سرکاری مدرسہ میں ہی شریک کراؤں۔‘‘
’’کیا راج پھوڑے کا اپریشن کراؤں یا دوائیاں ہی کھاتا رہوں؟‘‘
’’کیا دیوان خانے کی دیوار اینٹوں سے چنواؤں یا لکڑی کی جالی ٹھوکوادوں؟‘‘
’’کیا حقہ چھوڑ کر سگریٹ شروع کردوں یا صرف پان کھاؤں؟‘‘
غرض یہ کہ رام کشن جی ہر روز مجھ سے میری قابلیت کا امتحان لینے کے لیے کوئی نہ کوئی صلاح مشورہ کرنے ضرور آتے ہیں اور محض اس لیے کہ میں بقول ان کے علم و ادب کے خوب چرچے کر رہاہوں اور میری کھوپڑی میں بہت بڑا دماغ ہے۔ اب میں رام کشن جی کو کس طرح سمجھاؤں کہ میری کھوپڑی میں جتنا کچھ مغز تھا وہ ضیاء الحسن نے، پیشکار تحصیل نے، پڑوسی بزرگ نے، آرٹسٹ نے اور خود آپ نے چاٹ ڈالا ہے۔ اب میں آپ کو کیا مشورہ دے سکتا ہوں کہ اپنے راج پھوڑے کا آپریشن کرانا چاہیے۔
اس لئے اب مجھے معاف کیجئے اور اجازت دیجئے۔ خدا حافظ!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.