دو تارے
میں نے دونوں بازو اوپر اٹھائے، پنجوں پر اچھلا اور سر کے بل چھلانگ لگا دی۔ خنک ہوا کے جھونکوں میں سے گزرتا ہوا دھم سے ٹھنڈے پانی میں کودا۔ میری انگلیاں ندی کی تہ سے جا لگیں۔ پھر اچھلا اور پانی کی سطح پر آگیا۔ ادھر ادھر دیکھا۔ گلدستے کا کوئی پتہ نہ تھا۔ پانی کا بہاؤ کافی تیز تھا۔ میں پورے زور سے تیرنے لگا۔ ذرا سی دیر کے بعد میں نے گلدستے کو دیکھ لیا جو کافی دور تھا۔ میں پتھروں سے بچتا ہوا بڑی تیزی سے تیرتا جا رہا تھا۔ خوب لمبا سانس لے کر ایک غوطہ لگایا اور پھولوں کے بالکل پاس جا پہنچا۔
یکایک پانی گرنے کا شور سنائی دیا۔ پھوار کے بادل اٹھتے نظر آئے۔ آبشار نزدیک آگئی تھی۔ میں نے بے تحاشا تیرنا شروع کر دیا۔ اگر فوراً ہی گلدستہ نہ پکڑ لیا تو آبشار میں پھولوں کی پتی پتی بکھر جائے گی۔ آخر ایک اور غوطے کے بعد میں نے گلدستے کو جا لیا اور شپ سے پکڑ لیا۔ بڑی حفاظت سے اسے کنارے تک لے آیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں کتنی دور چلا آیا تھا۔ ندی کے موڑ اور چیڑ کے درختوں نے اس چٹان کو چھپا دیا تھا جہاں سے چھلانگ لگائی تھی۔ گول گول پتھروں کو پھلانگتا ہوا کنارے کے ساتھ ساتھ واپس جا رہا تھا۔ وہ چٹان بھی نظر آگئی۔ حیران رہ گیا کہ اتنی بلندی سے کس طرح کود گیا تھا۔ دوبارہ کوشش بھی کروں تو ہمت نہ پڑے۔
پھر اس چٹان پر ایک سفید سا دھبہ بھی نظر آنے لگا، جو بڑا ہوتا گیا۔ یہ پروین تھی۔ میں نے پھولوں کو پھر سے چنا۔ بھلا ایسے پھولوں کو کیونکر ضائع ہونے دیتا۔ مسکراتے ہوئے رنگ برنگے معطر پھول، کتنے پیارے۔ بالکل پروین کی طرح! چھوٹی پگڈنڈی کئی چکر لگا کر پہاڑ پر چڑھتی تھی، لیکن اتنی دیر کون لگاتا۔ میں سیدھا چل دیا۔ لہلہاتے ہوئے سبزے کو روندتا، خودرو پھولدار پودوں اور جھاڑیوں کو پھلانگتا اوپر چڑھ رہا تھا۔ اب پروین اچھی طرح نظر آرہی تھی۔ پہاڑوں کا چمکیلا سورج ابھی ابھی جنگلوں سے طلوع ہوا تھا۔ سرد ہوائیں عجیب سی خوشبو پھیلا رہی تھیں۔ نیلا نیلا آسمان، اجلے اجلے بادل، لہراتی ہوئی ٹہنیاں، اور چٹان پر کھڑی ہوئی پروین، سنہرے بالوں اور گلابی چہرے والی۔۔۔ جس کی لٹیں ہوا کے جھونکوں سے کھیل رہی تھیں۔ اور جب میں اس کے پاس پہنچ گیا تو وہ مسکرائی۔ میں نے گلدستہ اسے واپس دے دیا۔ ایسا عجیب اتفاق ہوا۔ صبح میں تیرنے کے لیے آیا اور پروین پھول چنتی ہوئی مل گئی۔
ہم دونوں چپ چاپ چل رہے تھے۔ پھر اس نے کہا کہ میں نے یونہی چند پھولوں کے لیے اتنی بلندی سے چھلانگ لگا دی۔ میں نے جواب دیا کہ جب تیرتے ہیں تو چھلانگیں بھی لگاتے ہیں۔ پھر دونوں چپ ہوگئے۔ میں نے ڈریسنگ گاؤن کی جیب سے سگریٹ نکالا، پوچھا، ’’سگریٹ سلگالوں؟‘‘ وہ بولی، ’’ہاں۔‘‘
’’سگریٹ پی لوں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔!‘‘
پھر خاموشی۔۔۔ میرا جی چاہتا تھا کہ یہ باتیں کرے۔
’’یہ وادی کس قدر خوبصورت ہے۔ اودے اودے پہاڑوں کی قطاریں یوں لگ رہی ہیں جیسے سمندر کی لہریں ہوں، اور جھلمل جھلمل کرتے ہوئے چشمے جیسے چاندی کے تار! ان سفید سفید بادلوں نے آسمان میں کیسے عجیب گنبد بنا رکھے ہیں۔ دیکھا؟‘‘
’’جی!‘‘ وہ بولی۔
اب ہم ایک موڑ سے گزر رہے تھے۔
’’بلندی پر وہ آبشار تو دیکھی ہی نہیں تم نے۔ کیسی دھندلی سی قوس قزح نے اسے محیط کر رکھا ہے۔ چاروں طرف پھوار پڑ رہی ہے۔ یہ پانی ان چمکیلی چوٹیوں سے آ رہا ہے، وہ اجلی اجلی چوٹیاں جن پر برف جمی رہتی ہے۔ کبھی تم نے یہ پانی چکھا؟ ایسا ٹھنڈا اور شیریں ہوتا ہے کہ کیا بتاؤں۔ اگر تم کہو تو کل وہاں چلیں؟‘‘
’’اچھا!‘‘
اب ہم گھر کے نزدیک پہنچ گئے تھے۔ ان کی کوٹھی پہلے آتی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ اس مختصر سے وقفے میں بہت سی باتیں ہوں۔
’’خوب! ہم تو گھر کے نزدیک پہنچ گئے۔ وہ سامنے صنوبر کا اونچا درخت نظر آ رہا ہے۔ آج کیا پروگرام ہے؟ دوپہر کے بعد سب سیر کو چلیں گے نا؟ نہیں۔۔۔؟ ابا دو بندوقیں لائے ہیں۔ ایک میں لے چلوں گا۔ پرندوں کا شکار کریں گے۔ جو اس جھنڈ کے پیچھے جھیل ہے وہاں چلیں گے۔ وہاں ناشپاتیاں بھی ہیں اور سیب بھی، شاید اسٹرابری بھی ہو۔ تم کلیوں اور جنگلی پھولوں کے گلدستے بنانا، میں تیارر ہوں گا کہ کب وہ تمہارے ہاتھ سے گرکر نیچے بہتے ہوئے نالے میں جاپڑیں اور میں دھم سے چھلانگ لگادوں۔‘‘
’’لیکن آج دوپہر کے بعد تو۔۔۔ آج ذراوہ۔۔۔ مجھے کچھ پڑھنا تھا۔‘‘
اب ان کا گھر آگیا تھا۔
میں نے جلدی سے کہا، ’’اچھا لائیے جناب ہمارا گلدستہ واپس کر دیجیے۔‘‘ اور پھول واپس لے لیے۔
وہ چلی گئی۔ میں کھڑا دیکھتا رہا۔
پھر ایک سرد شام کو میں لمبی سیر سے واپس آرہا تھا۔ دن بھر کی دوڑ دھوپ سے بالکل تھکا ہوا۔ گلے میں کیمرہ، بندوق، تھیلے اور نہ جانے کیا کیا الا بلا۔ گھر اب نزدیک تھا۔ صرف دو موڑ اور رہ گئے تھے۔ یکایک میری نگاہ چیڑ کے درخت کی چوٹی پر گئی جہاں بڑی روشنی ہو رہی تھی۔ لمبے لمبے نوکدار پتوں میں سے ایک بڑا چمکیلا تارا جھانک رہا تھا۔ میں وہیں رک گیا اور اسے دیکھنے لگا۔ پھر چکر کاٹ کر اور اوپر پہنچا۔ ہوا کے جھونکے تیز ہوگئے۔ اور خنکی بڑھ گئی۔ موڑ سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک اور تارا بھی چمک رہا تھا، اتنا ہی بڑا، اتنا ہی پیارا۔۔۔ پہلے تارے کے بالکل قریب۔۔۔ میں مسکراتا ہوا ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور ان دو تاروں کو دیکھنے لگا۔ وسیع آسمان میں جہاں لا تعداد ننھے ننھے تارے چمک رہے تھے، وہاں یہ دونوں روشن ستارے سب کو خیرہ کیے دیتے تھے۔ ایک دوسرے کے بالکل ساتھ ساتھ، جیسے ہاتھ پکڑے ہوئے ہوں اور فضاکی ظلمت میں دوش بدوش چل رہے ہوں۔
کتنی دیر تک انہیں دیکھتا رہا۔ سوچا کہ یہ تارے ضرور پروین کو دکھاؤں گا۔ اور جب گھر پہنچا تو عجیب خبط مجھ پر سوار ہوگیا۔ ساری رات نہ سوسکا۔ ذرا ذرا سی دیر کے بعد اٹھتا اور باہر نکل کر دونوں تاروں کو دیکھتا کہ دونوں ساتھ ہی ہیں، کہیں بچھڑ تو نہیں گئے، مگر وہ رات بھر ساتھ رہے۔ جب پچھلے پہر دھندلے ہوئے تب بھی اکٹھے، اور ساتھ ہی غائب ہوگئے۔
اگلی شام کو جب ہم سب سیر سے واپس آ رہے تھے، تو میں نے پروین کو باتوں میں لگا لیا اور ہم دونوں پیچھے رہ گئے۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ ذرا سی دیر میں ہم اسی موڑ پر پہنچے، جہاں سڑک کے ایک طرف تو اونچا پہاڑ تھا اور دوسری طرف وادی تھی۔ نیچے کہیں اکی دکی روشنی ٹمٹما جاتی اور پھر اندھیرا ہو جاتا۔ نیا چاند آسمان میں تیر رہا تھا۔ چاروں طرف ہلکی ہلکی چاندنی پھیلی ہوئی تھی، بالکل پھیکی سی۔ جہاں دوسرے تاروں کی چمک ماند پڑگئی تھی وہاں وہ دونوں تارے بالکل اسی طرح چمک رہے تھے بلکہ چاند سے بھی زیادہ روشن تھے۔
’’وہ تارے دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے اشارہ کرکے کہا۔ وہ لمبی لمبی پلکیں اٹھائے انہیں دیکھنے لگی۔ میں اس کے جگمگاتے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
’’کیسے ساتھ ساتھ ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اور رات بھر میں انہیں دیکھتا رہا۔ یہ یونہی اکٹھے سفر کرتے رہے، اور غروب بھی اکٹھے ہوئے۔ مجھے یہ ڈر رہا کہ کہیں بچھڑ نہ جائیں۔‘‘
اور جب اس نے بڑی بڑی مسحور کن آنکھوں سے مجھے دیکھا تو میں بے چین ہو گیا۔ نہ جانے ان نگاہوں میں کیا پیغام تھا؟ وہ کیا کہنا چاہتی تھیں؟ اس ملگجے دوپٹے کے حاشیے میں وہ گلابی چہرہ ایک خوابیدہ پھول دکھائی دے رہا تھا، جو ہوا کے جھونکوں سے ابھی ابھی کھلا ہو۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ سب کچھ ایک رنگین اور سہانا خواب ہے۔ آسمان پر دمکتے ہوئے تارے یونہی نہیں جھلملاتے۔ ان کے بھی اشارے ہیں۔ رمزیں ہیں۔ شبنم گل سے چپکے چپکے کیا کہہ جاتی ہے؟ چاند سمندر کی لہروں سے رات بھر کیا باتیں کرتا رہتا ہے؟ کنول کے پھول ہوا سے کیا سرگوشیاں کرتے ہیں؟ یہ ایک راز ہے۔
جب ہم واپس آ رہے تھے تو میں انہی تاروں کا ذکر کر رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’کہتے ہیں کہ ان تاروں کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘ وہ سرد مہری سے بولی، ’’ہوتا ہوگا۔‘‘ وہ یک لخت گھبراگئی، جیسے کوئی خواب دیکھتے دیکھتے ڈر جائے۔ اس نے پھر میری طرف نہیں دیکھا۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ راستے میں بہت کم باتیں ہوئیں۔ دیر تک سوچتا رہا کہ اس فوری تبدیلی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
ہمیں پکچر دیکھے ہوئے عرصہ ہوگیا تھا۔ پندر بیس میل دور نیچے ایک سینما تھا۔ پہلے ایک مرتبہ وہاں جاچکے تھے۔ طے ہوا کہ پکچر دیکھی جائے۔ بزرگ حضرات میں سے چند ایک نے اختلاف کیا، بعد میں وہ بھی مان گئے۔ کار میں میں آگے بیٹھا تھا اور پروین پچھلی سیٹ پر۔ جب ہم ایک اندھیرے جھنڈ میں سے گزر رہے تھے تو میں نے سامنے لگا ہوا شیشہ ترچھا کردیا۔ اب میں پروین کو دیکھ سکتا اور وہ مجھے۔ پتہ نہیں کار میں کیا باتیں ہوتی رہیں؟ بس میں ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا اوروہ مجھے۔ لیکن دیکھتے دیکھتے نہ جانے وہ کیوں چونک پڑتی اور جو نگاہیں نیچی کرتی تو میں تنگ آ جاتا۔ یہ معما بالکل سمجھ میں نہ آیا۔ نیچے پہنچے، وہاں ایک رنگ برنگا طویل کارٹون دکھایا جا رہا تھا۔ اس میں سنووائٹ ایک بڑی پیاری لڑکی تھی اور سات چھوٹے چھوٹے مسخرے بونے تھے۔ پروین میرے ساتھ بیٹھی تھی۔ خوب مسکرا رہی تھی۔
میں نے آپا کے کان میں کچھ کہا۔ وہ بولیں، ’’چپ۔۔۔!‘‘ دوبارہ کہا۔ وہ بولیں، ’’ہشت۔۔۔!‘‘ پروین سے کہا۔ وہ چپ ہوگئی۔ میں نے پوچھا، ’’کہہ دوں؟‘‘ بولی، ’’کہہ دیجیے!‘‘ میں نے زور سے کہا، ’’ایک سنووائٹ ہمارے ساتھ بھی ہے!‘‘ سب پوچھنے لگے، ’’کون؟‘‘ میں نے پروین کی طرف اشارہ کردیا۔ ایک قہقہہ پڑا اور شرماگئی۔
’’کس طرح بھلا؟‘‘ کسی نے پوچھا۔ میں نے آہستہ سے کہا، ’’شکل و صورت بالکل ملتی جلتی ہے۔ بھولی بھالی۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ آپا نے مجھے بری طرح گھورا۔
جب ہم واپس آنے لگے تو پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کا موقع ملا۔ پروین کے ساتھ ایک ننھی منی بچی بیٹھی تھی۔ اس کے ریشم جیسے بالوں سے بڑی اچھی خوشبو آ رہی تھی اور ایک نیلا ربن لہرا رہا تھا۔ ہم دونوں کے درمیان یہی گڑیا بیٹھی تھی۔ ننھی ٹکٹکی باندھے پروین کو دیکھ رہی تھی۔
’’کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے اس کے ایک کان میں پوچھا۔
’’دیکھ ری ہوں کہ آپا کتنی پیاری ہیں۔‘‘ وہ بولی اور میں نے اس کے ننھے ہونٹ چوم لیے۔ سامنے بھاگتی ہوئی ٹہنیوں اور پتوں میں وہی دو چمکیلے تارے جھانک رہے تھے۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی، لیکن دونوں اسی طرح دمک رہے تھے۔
’’وہ دیکھو دو تارے!‘‘
پروین ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔
’’وہ بائیں طرف کا تارا تمہارا ہے اور دایاں میرا۔‘‘ میں نے کہا۔ وہ میری بائیں طرف بیٹھی تھی۔
’’جی۔‘‘ وہ آہستہ سے بولی۔
کار کو گیراج میں چھوڑ کر ہم دونوں ان کے گھر کی طرف جارہے تھے۔ سہانی چاندنی کھلی ہوئی تھی۔ ہم گلاب کے تختوں میں سے گزرے، جہاں پھول، کلیاں، پتے سب سوئے پڑے تھے۔ پھر لمبے لمبے سایوں اور پھولوں سے لدی ہوئی بیلوں میں سے گزرے۔ ہمیں ننھی ننھی کلیوں نے چھپ چھپ کر دیکھا۔ تاروں کے جھرمٹ نے ہمیں اکٹھے چلتے دیکھا۔ چاند جو اونچے درختوں میں سے جھانک رہا تھا، ہمیں دیکھ کر مسکرانے لگا اور چاندنی کئی گنا تیز ہوگئی۔ میں بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔
’’ایک بات ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’وہ یہ ہے کہ میں ایک عرصے سے چاہتا تھا کہ کہہ دوں!‘‘
’’کہہ دیجیے۔‘‘
’’اور پھر کہہ دینا ہوتا بھی اچھا ہے، بھلا چھپانے سے کیا فائدہ؟ بات دراصل یہ ہے۔۔۔ کہ وہ۔۔۔!‘‘
’’ہاں ہاں کہیے!‘‘ وہ مسکرانے لگی۔ میں گھبرا گیا۔
’’بات دراصل یہ ہے کہ مدت سے کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔‘‘
’’ہاں!‘‘
’’یہی کہ۔۔۔ یہی کہ یہ تارے بہت چمکتے ہیں۔ اور پھر تارے بھی خدانے خوب بنائے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو رات کو بڑا اندھیرا رہا کرے۔‘‘
اب ان کی کوٹھی بالکل نزدیک آگئی تھی۔ میں نے پھر ہمت کی۔ ایسے موقعے بار بار نہیں آتے، جو کچھ کہنا ہے اب بھی کہہ دو۔ کیا بزدلی دکھا رہے ہو۔ میں نے گلا صاف کیا اور بولا، ’’نہیں تاروں کی بات نہیں ہے۔ بات کچھ اور ہے، مجھے ڈر تھا کہ کہیں تم برا نہ مان جاؤ۔ لیکن اب کوئی ڈر نہیں، تمہیں برا لگتا ہے تو لگا کرے۔ میں ضرور کہوں گا۔‘‘
’’ہاں ہاں کہہ دیجیے۔‘‘ وہ مسکرا رہی تھی۔
’’یہی کہ مجھے اتنے دنوں سے تم سے۔۔۔ یعنی مجھے سچ مچ تم سے۔۔۔ یعنی۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘
’’مجھے تم سے۔۔۔ ایک شکایت ہے۔ یہی کہ تم اتنے سارے لباس کیوں پہنتی ہو، جب کہ تمہارے پاس ایسے اچھے لباس ہیں۔‘‘
وہ ہنس دی۔ اب ہم برآمدے میں پہنچ گئے تھے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میں ہرگز اسے نہیں بتا سکتا۔
کیا تو وہ مسکرا رہی تھی اور کیا بے چین سی ہوگئی۔ وہ تیزی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔ یہ کیا اسرار ہے؟ اس رویے میں کیا راز پوشیدہ ہے جسے میں سمجھ نہیں سکتا۔ آخر یہ بے رخی کیا ظاہر کرتی ہے؟ میرے ساتھ یہ دفعتاً رنجیدہ کیوں ہوجاتی ہے؟ کس قدر پیچیدہ ہے یہ معما؟ اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، ہر دفعہ یہی ہوتا ہے۔ مسکراتے ہوئے چہرے پر یکلخت خوف کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں۔ کہیں اسے مجھ سے نفرت تو نہیں؟ نہیں نہیں نفرت نہیں ہو سکتی۔ اگر ہوتی تو یہ بتا دیتی۔ مگر بتاتی کس طرح؟ کیونکر کہہ دے کہ مجھے آپ اچھے نہیں لگتے، مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ شاید یہ مجھے صرف ایک رفیق سمجھتی ہے، ایک مخلص رفیق۔۔۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اپنی محبت کے قابل نہیں سمجھتی۔ میں ساری رات یہی سوچتا رہا۔ کئی بار اٹھ اٹھ کر میں نے تاروں کو دیکھا کہ کہیں بچھڑ تو نہیں گئے۔ مگر وہ بدستور اکٹھے تھے۔ دل کو اطمینان ساہوگیا۔
دوسرے روز دیکھا کہ سامنے کی کوٹھی میں کچھ مزدور کام کر رہے تھے۔ چٹان پر چڑھ کر دیکھا تو ٹینس کا میدان ٹھیک کیا جا رہا تھا۔ لائنیں لگائی جا رہی تھیں۔ میری رال ٹپک پڑی۔ مدت سے ٹینس کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔ جی میں آیا کہ ان لوگوں سے واقفیت پیدا کی جائے۔ ہماری اور ان کی کوٹھی کے درمیان ایک چوڑا سا نالا بہتا تھا جس میں میں روز نہایا کرتا تھا۔ اس کا پل آدھ میل پرے تھا۔ نوکروں نے بتایا کہ سامنے کوئی انگریز کنبہ آیا ہے۔ ان کی ایک لڑکی ہر روز تیرنے آتی ہے۔ مجھے یاد آگیا۔ ایک انگریز لڑکی کو کبھی نالے کے دوسرے کنارے پر دیکھا تھا، لیکن باتیں کرنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔
چند دنوں تک ہماری واقفیت ہوگئی۔ اس نے میرے تیرنے کی تعریف کی اور میں نے اس کی چستی اور لباس کی۔ ہم صبح اکٹھے تیرتے، پہاڑ پر چڑھتے۔ وہ کہا کرتی، آپ بہت اچھا تیرتے ہیں۔ آپ کا جسم کتنا موزوں ہے بالکل سپورٹس مین جیسا۔ کبھی ہمارے ہاں بھی آئیے۔ ممی آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔ میں عموماً ان سے آپ کا ذکر کیا کرتی ہوں۔ ہم لوگ تنہائی سے تنگ آجاتے ہیں۔ ابا باہر گئے ہوئے ہیں۔ ممی کسی سہیلی سے ملنے کئی میل دور چلی جاتی ہیں۔ میں اکیلی گھبراتی ہوں۔ ہمارے ہاں پنگ پانگ بھی ہے اور ٹینس بھی۔ میں مووی کیمرے سے تصویر اتارا کرتی ہوں۔ ہمارے ہاں رنگ برنگے خوبصورت پرندوں سے پنجرے بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن میں ٹال مٹول کر جاتا۔ ایک دن پروگرام بنا کہ دوپہر کو میرے تیرنے کی فلم اتاری جائے۔ وہ اپنا مووی کیمرہ ساتھ لائی۔ میں نے ایک اونچے پتھر سے چھلانگ لگائی، اور تیرتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔
’’مجھے آپ اس پتھر پر لے چلیے!‘‘ وہ ایک پتھر کی طرف اشارہ کرکے بولی جو نالے کے وسط میں تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ میں جھجھک کر پیچھے ہٹ گیا، لیکن پھر رکتا ہوا آگے بڑھا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس لطیف بوجھ کو سنبھال لیا۔ اس نے ایک بازو میری گردن میں ڈال لیا اور دوسرے سے پانی کے چھینٹے اڑانے لگی۔
’’نہیں، یہ پتھر تو اچھا نہیں۔ وہ ٹھیک رہے گا۔‘‘ اس نے ایک دور کے پتھر کی طرف اشارہ کیا، ’’وہاں روشنی بھی تیز نہیں ہے۔ اور وہاں سے تصویر بھی اچھی آئے گی۔‘‘
میں نے رخ بدل دیا اور ادھر چلنے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ سرگوشیوں میں بولی، ’’مجھے ایسے لڑکے بہت اچھے لگتے ہیں، آپ جیسے بے پرواہ اور خوش باش۔ لیکن اتنی بے پرواہی بھی کس کام کی۔‘‘ اس نے سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا، لیکن میں تیزی سے پتھر تک پہنچا اور جلدی سے اسے اتار دیا۔ وہ خاموش ہوگئی، لیکن جلد ہی سنبھل گئی اور مسکرانے لگی۔ اس کے بعد دیر تک فلم اتارتی رہی۔
ایک صبح کو میں سیر سے واپس آ رہا تھا۔ باغ سے گزرتے ہوئے رک گیا۔ پروین پھولوں کا گلدستہ بنا رہی تھی اور ننھی ساتھ بیٹھی تھی۔ جی میں آیا کہ ان کی باتیں سنوں۔ آخر کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ میں دبے پاؤں پودوں کی آڑ میں بالکل ان کے نزدیک جا کھڑا ہوا۔ ننھی بولی، ’’تو اب آپ ہمارے ساتھ ہی رہا کریں گی نا؟‘‘
’’ہمیشہ تو رہتی ہوں تمہارے ساتھ۔ ننھی گڑیا؟‘‘
’’اوں ہوں۔ میں پوچھتی ہوں آپ ہمارے ساتھ چلیں گی۔ ہماری آپا بن کر؟‘‘
پروین کا دمکتا ہوا چہرہ ایک دم سفید پڑگیا۔
’’بتاؤنا آپا!‘‘ ننھی مچلنے لگی۔
’’دیکھو نزہت کیسی رنگ برنگی کلیاں ہیں۔‘‘ پروین بولی۔
’’نہیں ہمیں کلیاں نہیں چاہئیں۔ آپ بتائیے کہ چلیں گی ہمارے ساتھ یا نہیں؟‘‘
’’ارے وہ دیکھو کیسی اچھی تتلی اڑ ی جارہی ہے، پکڑ لو تو جانیں۔‘‘
اور جب ننھی بیٹھی رہی تو پروین خود تتلی کے پیچھے بھاگ پڑی۔ شام کو سیر سے واپس آتے ہوئے مجھے موقع مل گیا اور میں نے پروین کو اپنے ساتھ ٹھہرا لیا، ’’آؤ جھیل تک چلیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’دیر تو نہ ہو جائے گی؟‘‘
’’نہیں!‘‘
ہم دونوں ایک چھوٹی سی پگڈنڈی پر چل رہے تھے۔ اودے اودے پہاڑوں کے پیچھے سورج غروب ہو رہا تھا۔ پہاڑ کی چوٹی پر چیڑ کے درختوں کی قطاریوں چمک رہی تھی جیسے سنہری سنجاف لگی ہوئی ہو۔ آسمان شفق کی سرخی سے جگمگا رہا تھا۔ پرندوں کے غول کے غول اڑے جا رہے تھے۔ ہم دونوں چپ چاپ چل رہے تھے۔ معطر ہواؤں کے جھونکے تیز ہوتے گئے اور ہم دونوں موڑ تک پہنچ گئے۔ میری نگاہیں آسمان کی جانب اٹھ گئیں۔ دونوں تارے ابھی ابھی طلوع ہوئے تھے۔ دل مسرت سے لہکنے لگا۔ میں نے پروین کو دیکھا اور نگاہوں نگاہوں میں اتنا کچھ کہہ گیا کہ زبانی نہ کہہ سکتا تھا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج اس سے سب کچھ پوچھوں گا۔ آج اس معمے کو حل کر کے رہوں گا۔
’’تمہیں یہ تارے اچھے لگتے ہیں نا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں! بہت!‘‘ وہ بولی۔
’’ارے!‘‘ میں وہیں رک گیا، ’’تاراٹوٹا پروین!‘‘
ان میں سے ایک تارا ٹوٹا اور نورانی لکیر بناتا ہوا غائب ہو گیا۔ میں پھٹی پھی آنکھوں سے پروین کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی سہم گئی تھی۔
’’کون سا تارا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’پتہ نہیں کون سا تھا!‘‘
بہتیرا یاد کرنے کی کوشش کی، مگر پتہ نہ چلا کہ کون سا تارا ٹوٹا تھا۔ چیڑ کے درختوں کی نوکدار چوٹیوں پر صرف ایک روشن تارا جگمگا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کی چمک بھی مدھم پڑتی جا رہی تھی۔ جب ہم واپس آ رہے تھے تو جنگل میں سناٹا تھا۔ پھر وہ حقیر سا اندیشہ جسے میں پہلے نظر انداز کر دیا کرتا آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ اور مجھے نہ جانے کیوں یقین سا ہو گیا کہ پروین کو مجھ سے نفرت تھی۔ شروع سے ہی نفرت تھی اور میں ہمیشہ اسے غلط سمجھتا رہا۔
اونچے اونچے درختوں سے گھری ہوئی جھیلوں کی سطح پر میں نے اداسی دیکھی۔ درختوں کے کانپتے ہوئے سایے دیکھے۔ پتوں کی سرسراہٹ میں سرد آہیں سنیں۔ میں نے سوچا کہ پانی کی یہ سطح میری روح کی طرح ہے جس پر تاریکیاں منعکس ہیں، جس پر دہشت ناک تاریکی چھاتی جارہی ہے۔ میں نے تھرتھراتی ہوئی ٹہنیاں دیکھیں۔ بڑے بڑے اداس پھول دیکھے جو ڈنٹھلوں پر جھکے ہوئے تھے۔ یوں محسوس ہوتا جیسے دنیا نہایت غمگین جگہ ہے۔ یہاں مسرت کی اتنی سی رمق بھی تو نہیں۔ آہیں ہیں، سسکیاں ہیں، رنج ہیں، پھیکے پھیکے خوابوں میں وحشت ہے۔ میں چڑچڑا ہو گیا۔ ایک ایک کرکے سارے مشغلے ختم ہوگئے۔ رات کو کھڑکی میں دو روشنیاں نظر آئیں۔۔۔ ایک تو اسی تنہا تارے کی چمک اوردوسری روشنی انگریز لڑکی لوسی کی کوٹھی سے آتی۔ میں بیٹھا تصویر بنا رہا تھا۔ طرح طرح کے رنگ سامنے رکھے تھے۔ دھڑام سے دروازہ کھلا اور ننھا اندر دوڑتا ہوا آیا۔ پیچھے پیچھے اور بچے تھے۔ ہاتھ میں کرکٹ کا بلا اور گیند تھی۔
’’آہا ہا، تصویر بن رہی ہے۔ کیسی رنگ برنگی تصویر ہے۔ یہ کہاں کی ہے؟‘‘
’’کہیں کی بھی ہو۔ تم جا کر کھیلو!‘‘
’’ہم تو یہ تصویر لیں گے۔ ابھی نہیں۔ جب یہ بن جائے گی تب۔‘‘
’’اسی وقت دوڑ جاؤ، ورنہ پٹ جاؤگے۔‘‘
’’اچھا! آپ یہ تصویر ہمیں دے دیں گے نا؟‘‘
’’نہیں! ہرگز نہیں!‘‘ میں نے غصہ سے کہا۔
’’اچھا تو ہمارے ساتھ کرکٹ ہی کھیل لیجیے۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ بولنگ سکھائیں گے۔‘‘
’’اس وقت نہیں! پھر کبھی سہی!‘‘
’’آج تو ہم آپ کو ضرور لے جائیں گے۔‘‘
’’میں آج ہرگز نہیں کھیلوں گا!‘‘
’’اچھا اگر نہیں کھیلتے تو یہ تصویر ہی۔۔۔‘‘
’’شیطانو!‘‘ میں چلا کر بولا، ’’تم نے مجھے کیا سمجھا ہے؟ میں تمہارا ڈرل ماسٹر ہوں یا لنگوٹیا دوست۔۔۔ لو یہ رہی تصویر!‘‘ میں نے تصویر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ دیر تک بیٹھا پیچ و تاب کھایا کیا، پھر کوٹ اٹھایا اور باہر نکل آیا۔ نوکر کو آواز دی کہ موٹرسائیکل لے آئے۔ دونوکر بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر ایک ہنسا اور دوسرے کے کان میں کچھ کہا۔ اس نے بھی دانت نکال دیے۔
’’کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’تم اس سے کیا کہہ رہے تھے؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’تو تمہیں بھی ہنسی سوجھتی ہے، صاف صاف بتاؤ کیا بات تھی؟‘‘
’’میں یہ کہہ رہا تھا کہ موٹر سائیکل تو پچھلے ہفتے آپ ہی نے مرمت کے لیے بھیجی تھی۔‘‘
دیر تک کمرے میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔ ننھی کی آواز نے چونکا دیا۔ اس کاننھا منا سا ہاتھ میرے چہرے کو چھو رہا تھا۔
’’بھیا!‘‘
میں چونک پڑا، ’’ایں؟‘‘
’’بھیا کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘
’’آئیے آپا پروین کے ہاں چلیں!‘‘
’’نہیں! وہاں نہیں جائیں گے۔‘‘
’’تو پھر مجھے اپنے ساتھ سیر کو لے چلیے۔‘‘
’’نہیں! اور کسی کے ساتھ چلی جاؤ، مجھے کام ہے!‘‘
’’کوئی بھی کام نہیں آپ کو، آپ یونہی رات تک یہاں بیٹھے رہیں گے!‘‘
’’اب جاؤ! کہا مانا کرتے ہیں بڑوں کا۔‘‘
’’نہیں! ہم تو سیر کو چلیں گے اور وہاں سے آپا پروین کے ہاں!‘‘ وہ مچل گئی۔ میں نے اسے جھڑک کر کہا، ’’ننھی شور نہ کرو۔‘‘
وہ چپ رہی۔ اس نے بڑی بے بسی سے میری طرف دیکھا۔ معصوم آنکھیں دھندلی ہوگئیں اور دو بڑے بڑے آنسو اس کے رخساروں پر بہنے لگے۔ وہ چپکے سے باہر جانے لگی۔ میں نے دوڑ کر پکڑ لیا اور گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگا۔ کتنی مرتبہ امی نے بھی ٹوکا کہ یہ کیا سارا دن کمرے میں بند رہتے ہو۔ کیا تو صبح سے شام تک قہقہے لگاتے پھرتے اور کیا اب ہر وقت کا بسورنا رہ گیا ہے۔ پروین کے ہاں سے ہر تیسرے چوتھے روز شکایت آتی کہ میں وہاں نہیں جاتا۔ ایک روز ابا بولے، شاید تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں، سامنے کے پہاڑ پر ایک انگریز ڈاکٹر رہتے ہیں انہیں دکھائیں گے۔ انہوں نے جس مکان کی طرف اشارہ کیا وہ لوسی کا تھا۔ نالے کے اس کنارے سے دیکھا لوسی اپنے باغیچے میں کھڑی تھی، سبز رنگ کا گاؤن پہنے۔ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا، پھر نہ جانے کیا دل میں آیا۔ جھٹ سے شوخ رنگ کی سبز جرسی پہنی، بال سنوارے اور سیدھا چل دیا پل کی طرف۔ لوسی کی کوٹھی اور ہمارے درمیان جو نالا تھا اس کا پل۔
میں نے جلدی سے پل عبور کیا۔ لوسی نے مجھے دیکھا، دوڑی دوڑی آئی۔ اس کا چہرہ اور بھی دمکنے لگا۔ میری شوخ جرسی کو دیکھا اور بڑی تعریف کی۔ پھر میرے بازوؤں کو دیکھتی رہی۔ میرا ہاتھ میرے ہاتھ میں لیے رکھا۔ اس کی امی کہیں باہر تھیں۔ مجھے کوٹھی کا کونا کونا دکھایا، پرندے دکھائے، پھر صوفے پر بٹھا کر اپنا البم دکھانے لگی۔ وہ میرا سہارا لیے صوفے کے بازو پر بیٹھی تھی۔ اس کی معطر زلفیں میرے چہرے کو چھو رہی تھیں۔ ہم خوب قہقہے لگاتے رہے۔ جب میں لوٹا تو مسرور تھا، مطمئن تھا، سیٹی بجاتا ہوا آ رہا تھا۔ میں نے وہ پل اچھلتے کودتے عبور کیا۔ اس کے بعد ہم اکٹھے سیر پر جاتے، تصویریں اتارتے۔ میرا زیادہ وقت ان کے ہاں گزرنے لگا۔ پروین جیسے غائب ہوگئی۔ کیا ہوا جو کبھی کبھار آمنا سامنا ہوگیا۔ روکھا پھیکا سلام ہوا اور بس!
اب میں پھر ہنس ہو گیا تھا۔ چڑچڑاپن جاتا رہا تھا۔ ایک دن میں اور لوسی دونوں سیر سے واپس آ رہے تھے۔ اچھا خاصا اندھیرا ہو چلا تھا۔ ہم اسی موڑ پر پہنچے۔ میری نگاہیں آسمان کی جانب اٹھ گئیں، چیڑ کے درختوں پر ایک تنہا تارا چمک رہا تھا۔ ہم دونوں اسی پتھر پر بیٹھ گئے، جہاں کبھی میں اور پروین بیٹھے تھے۔ ان لمحات میں میں نے اپنے آپ کو کس قدر تنہا محسوس کیا، وہ کون سی سلگتی ہوئی چنگاریاں تھیں جو بھڑک اٹھیں۔ میرا جی بھر آیا۔ لوسی شاید کچھ کہہ رہی تھی، لیکن میں کچھ نہ سن سکا۔ اس تنہا تارے کو دیکھتا رہا۔ دن گزرتے گئے اور آخر وہ دن آگیا جب ہمیں واپس جانا تھا۔ اباکی چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں۔ میرا کالج بھی کھلنے والا تھا۔ ہم سب واپس جارہے تھے۔ میرا جی تو نہ چاہتا تھا کہ پروین کے ہاں جاؤں، لیکن آپا کی خشمناک نگاہوں نے مجبور کردیا۔ پروین کے ابا اور امی بے رخی سے ملے۔ نہ انہوں نے خود خط لکھنے کا وعدہ کیا اور نہ مجھے خط لکھنے کی تاکید کی۔
پروین کی انا اپنے وطن جا رہی تھی۔ سٹیشن تک اس کا اور ہمارا ساتھ تھا۔ پہلی کار میں سب جاچکے تھے۔ دوسری میں سامان تھا اور میں اور انا۔ سب سے آخر میں پروین سے ملنے اس کے کمرے میں ڈرتے ڈرے گیا، جیسے مجھے وہاں جانے کا کوئی حق نہ تھا۔
’’خدا حافظ پروین!‘‘ میں چپکے سے بولا۔
’’خدا حافظ!‘‘ اس نے سرد مہری سے کہا اور کھڑکی سے سفید سفید برفانی چوٹیوں کو دیکھنے لگی۔ میں چند لمحے ٹھہرا کہ شاید وہ کچھ کہے، لیکن وہ چپ رہی اور میں چلا آیا۔ ذرا سی دیر میں ہم واپس جا رہے تھے۔ کار فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔ سامنے چیڑ کے درخت، اودی اودی پہاڑیاں، رنگ برنگے کنج، چمکیلی ندیاں، سب اڑے جارہے تھے۔ سوچتے سوچتے میں نے انا سے پوچھا، ’’ایک بات بتاؤگی؟‘‘
’’کیا ہے؟‘‘
’’انا تم بہت اچھی ہو۔۔۔ اب تم چلی جاؤگی، پھر نہ جانے کب تمہاری زیارت ہو۔‘‘
’’کیا کہنا چاہتے ہو تم؟‘‘ وہ خفگی سے بولی۔
’’یہی کہ میں کیسا ہوں؟‘‘
’’اچھے بھلے ہو!‘‘
’’تو پھر پروین کو مجھ سے نفرت کیوں تھی؟ یعنی میں اسے برا کیوں لگتا تھا؟‘‘
’’مجھے کچھ پتہ نہیں۔‘‘
’’تمیں سب پتہ ہے۔ فقط یہ بتا دو کہ اس نفرت کی وجہ کیا تھی؟ اتنی کوششوں کے باوجود اس کے پتھر سے دل پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ ہمیشہ اجنبی ہی رہی۔ آخر کیوں؟‘‘
’’سننا ہی چاہتے ہو تو سن لو۔ تم اسے محبت کہتے ہو؟ یہ خودغرضی ہے یا محبت؟ تم جیسا خودغرض تو کہیں بھی نہ ہوگا۔ تمہیں کبھی بھی اس کا خیال نہیں تھا۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ یہ مت کہو۔‘‘
’’کیوں نہ کہوں؟ تم ذرا سی دلچسپی جتاکر یہ چاہتے تھے کہ وہ تمہیں پوجنے لگے۔ تم نے اسے دیا کیا تھا جو بدلے میں اتنی توقع رکھتے تھے۔ کبھی اپنے رویے پر بھی غور کیا؟ تم نے اسے کس قدر رنج پہنچائے ہیں؟‘‘
میں پاگلوں کی طرح اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
’’آج سے دو برس پہلے ایسے ہی دن تھے۔ ہم گرمیوں میں یہاں آئے ہوئے تھے۔ پروین یہاں مینا کی طرح چہکتی تھی۔ کتنی چنچل تھی، کتنی ہنس مکھ۔۔۔ سب اس کی شوخیوں سے پناہ مانگتے۔ اس کا منگیتر بھی یہیں تھا!‘‘
’’منگیتر؟‘‘
’’ہاں! بیگم کا بھتیجا یا بھانجا عجیب سا لڑکا تھا۔ ایسا باتونی کہ صبح سے شام تک بولتا رہتا۔ بچپن سے رشتہ طے ہوا تھا۔ پروین نے ہوش سنبھال کر صرف اسے ہی دیکھا تھا!‘‘
’’وہ لڑکاکیسا تھا؟ میرا مطلب ہے شکل صورت میں؟‘‘ میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔
’’یونہی منحنی سا تھا۔ خاص برا بھی نہیں تھا لیکن اس کا منگیتر تھا۔ وہ ہر وقت خوش رہتی تھی، کتنی بھولی سی تو ہے۔ پھر اس کی زندگی میں بڑا منحوس دن آیا۔۔۔ وہ لڑکا کہیں چلا گیا اور پھر کبھی نہ لوٹا۔ خبر آئی کہ اس نے کسی نہایت مالدار لڑکی سے شادی کرلی۔ دراصل اسے پروین کے ابا کی جائداد سے دلچسپی تھی، پروین کا کوئی خیال نہ تھا۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے اس لڑکی کو کبھی خوش نہیں دیکھا۔ سداغمگین رہتی ہے۔ مسکراتی ہے تو ٹھنڈا سانس بھر کر، اس کی ہنسی میں آنسو چھپے ہیں۔ ایک شوخ تتلی کی جگہ اب سنجیدہ اور افسردہ پروین رہ گئی ہے۔ اس کے نازک دل کو اس صدمے سے ایسی ٹھیس لگی کہ وہ کبھی سنبھل نہ سکی۔ اس کے دماغ میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ سب کے سب اس سے نفرت کرتے ہیں۔ ایک ایک کرکے سب اسے چھوڑ کر چلے جائیں گے اور یہ اکیلی رہ جائے گی۔
یہ تمہیں کتنا اچھا سمجھتی تھی، اس کا اندازہ شاید تم نہ کر سکو۔ مجھ سے تمہاری باتیں کیا کرتی۔ تمہاری خوبیاں، تمہارے خلوص کی تعریفیں۔ جس دن تمہیں دیکھ نہ پاتی اسے چین نہ آتا۔ لیکن اسے یہی اندیشہ تھا کہ کہیں تم بھی اسے نہ چھوڑ کر چلے جاؤ، چنانچہ تم نے یہی کیا۔ تم نے اس کے رہے سہے سہارے کو بھی چھین لیا۔ وہ بے چاری ہمیشہ جھجکتی رہی۔ اسے تمہاری باتوں پر اعتبار تھا، لیکن وہ جھجکتی تھی۔۔۔ اور تم ایسے خود غرض نکلے کہ اس کی ذرا پروا نہ کی اور آخری دنوں میں جب تم نے اس سے بولنا چھوڑ دیا تو وہ بہت اداس رہنے لگی۔ جب تم لوسی کی کوٹھی۔۔۔!‘‘
اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی۔ میں کھوئی کھوئی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کوئی میرے دل کو مسوس رہاتھا۔ جب میں اس بھیانک خواب سے چونکا تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ فضا میں ماتم سا تھا۔ ہوا کے اداس جھونکے سائیں سائیں کر رہے تھے۔ میرے سامنے چیڑ کے درخت، پتھروں کے ڈھیر، پہاڑیاں سب اڑے جا رہے تھے۔ کار فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔ میں ہتھیلی پر ٹھوڑی رکھ کر شفق کو دیکھنے لگا۔ درختوں کے جھنڈ پر ایک گلابی بدلی کے پاس ایک چمکیلا تارا جگمگاتا رہا تھا۔ دھندلی دھندلی نگاہوں سے دیکھتا رہا۔۔۔ اسی تنہا تارے کو!
میں پھر بھی نہ سمجھ سکا کہ کون سا تارا ٹوٹا تھا!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.