یوں تو ہرمہینے نیا چاند نکلا ہی کرتا ہے لیکن ان چاندوں میں وہ بات نہیں ہوتی جو عید کے چاند میں ہوا کرتی ہے۔ عید کا چاند نظام شمسی میں چیف گیسٹ کی حیثیت کا چاند ہوا کرتا ہے۔
عید کا چاند بڑی محنت سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ اپنی نازکی اور باریکی کے لئے بہت مشہور ہے۔ اس سے زیادہ باریک چیز آسمان پر چلنی مشکل ہے۔
یہ چاند اس قرضدار شخص کی طرح ہوتا ہے جو چھپ کر نکلتا ہے اور نظر آنے سے پہلے چھپ جاتا ہے۔
یہ چاند دیکھنے میں بڑا خوبصورت ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ نظر آنا چاہئے۔ چاند رات کو اس سمت میں جس سمت میں کہ چاند کو نکلنا چاہئے لوگ انگلی کے اشارے سے بتاتے ہیں کہ چاند اس طرف ہے۔ وہ اونچے درخت کی سیدھی جانب ذرا نیچے کی طرف۔ وہ جو ٹہنی نظر آرہی ہے بس اسی سے لگ کر، یہ سن کر سمجھ لینا چاہئے کہ چاند وہاں نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جسے چاند نظر نہیں آتا، دوسرے شخص کو ضرور چاند دکھاتا ہے، یہ صرف انگشت نمائی ہے۔
عید کے چاند کے دن دوپہر ہی سے مطلع ابر آلود ہوجاتا ہے (جہاں تک مطلع کا تعلق ہے یہ بہت کم موقعوں پر صاف ہوا کرتا ہے۔ چند غزلوں کے مطلعے البتہ صاف معلوم ہوتے ہیں) اس لئے عید کے چاند کو لوگ اب دیکھتے نہیں صرف ریڈیو پر سُن لیتے ہیں۔ (اگر یہ خبر ہندی میں نشر ہو تو خود ہندی والوں کی بھی سمجھ میں نہیں آتی۔) ریڈیو پر سنے ہوئے چاند کابھی وہی مرتبہ ہے جو چشم دید چاند کاہوا کرتا ہے۔ (زمانہ مساویانہ حقوق کا ہے۔)
عید کے چاند کو زمین پر کھڑے رہ کر نہیں دیکھا جاتا۔ اسے گھر کی چھت پر چڑھ کر دیکھنا چاہئے (گھر کی چھت کی غرض وغایت ہی یہ ہے۔ یہاں تک پتنگ بھی اڑائی جا سکتی ہے کیونکہ اس سے زیادہ غیر محفوظ جگہ اور کوئی نہیں ہوتی، گھر کی چھت اس چھت کو کہتے ہیں جو بارش میں ٹپکا کرے جو چھتیں بہت اچھی ہوتی ہیں وہ بغیر بارش کے بھی ٹپکا کرتی ہیں) چاند کو دیکھنے کی مساعی جمیلہ، ہرقسم کی چھت پر کی جاسکتی ہیں۔ چاند کو نظر آنا ہے تو وہ ضرور دکھائی دے گا خواہ آدمی کتنی ہی ناقص اور کمزور چھت پر کیوں نہ دم سادھے کھڑا ہو (ہاوزنگ بورڈ کے بنائے ہوئے مکانوں کی چھتیں تک بھی اس کام کے لئے استعمال کی جاسکتی ہیں۔)
پہلے زمانے میں تو اس چاند کے مطالعے کے لئے بڑے جتن کرنے پڑتے تھے۔ کئی گھوڑسوار شہر سے باہر جاکر پہاڑیوں پر چڑھ جاتے اور اسے دیکھنے کی سعادت بزور بازو حاصل کرتے تھے (بے چارے گھوڑوں کی سمجھ میں کچھ نہ آتا کہ وہ ایسے بے وقت، پہاڑیوں پر کیوں لے جائے گئے ہیں) انھیں کیا معلوم کہ آدمی ہارس پاور کہاں کہاں استعمال کرتا ہے، جب کافی وقت گزر جاتا اور لوگ یہ سمجھ لیتے کہ اب یہ گھوڑے سوار کل شام ہی کو واپس ہوں گے تو یہ حضرات اچانک واپس آکر یہ خبر پھیلاتے کہ وہ چاند کو دیکھ آئے ہیں۔ آج بھی جب کہ سائنس نے اپنی دانست میں کافی ترقی کرلی ہے اور آدمی خود چاند پر ہو آیا ہے پہلی تاریخ کے اس مختصر سے چاند کے اعمال و افعال میں کوئی سیاسی یا سماجی تبدیلی نہیں ہوئی، عید کے چاند کو اب بھی اس طرح ڈھونڈنا پڑتا ہے جیسے روزگار ڈھونڈا جا رہا ہو۔
عید کے چاند کو مقررہ تاریخ نمودار ہونے میں کوئی خاص دقت تو نہیں ہوتی لیکن اس کی مجبوری صرف اتنی ہوتی ہے کہ عید سے دو مہینے پہلے ہی اس کے نمودار ہونے کی تاریخ بدل دی جاتی ہے۔ عید کا چاند اس لئے یا تو ایک دن پہلے یا ایک دن بعد ہوا کرتا ہے۔
نور جہاں اور جہانگیر بلکہ یوں کہئے کہ جہانگیر اور نور جہاں کے عہد میں (یہ دونوں زن و شوہر عید کا چاند دیکھ کر فنِ شعر گوئی کا مظاہرہ کرتے تھے) جہانگیر نے ایک مرتبہ کہیں عید کا چاند دیکھ لیا تو اس نے نور جہاں کو مخاطب کرکے کہا،
ہلالِ عید بر اوجِ فلک ہویدا شُد
تو نور جہاں نے جو کسی معاملے میں جہانگیر سے کم نہ تھی فوراً دوسرا مصرعہ چُست کردیا اور کہا،
کلید میکدہ گم گشتہ بود پیدا شُد
بحیثیت فن فہم، ہم نور جہاں کے مصرعے سے زیادہ خوش ہیں۔ ایک تو اس شعر میں تشبیہ بہت عمدہ ہے۔ ہلال عید بالکل کنجی کی شکل کا ہوتا ہے۔ جوشؔ نے اس مختصر سے چاند کو ٹوٹے ہوئے کنگن سے تشبیہ دی ہے۔
جب ناز سے قندیل مہ نو ہوئی روشن جیسے کسی معشوق کا ٹوٹا ہوا کنگن
یہ تو تیسری چوتھی تاریخ کے چاند کی بات ہوئی۔ پہلی تاریخ کا چاند تو کنجی ہی کے قد و قامت کا ہوا کرتا ہے۔ کنجی اور وہ بھی بریف کیس کی کنجی۔
دوسرا اہم نکتہ جو نور جہاں کے کہے ہوئے مصرعے میں ہے وہ ہے میکدہ والی بات۔ یعنی شاہی محل کا وائن کاونٹر کامل ایک ماہ بند رہا۔
اگر کسی شخص کو بینائی کے کسی نقص کی وجہ سے عید کا چاند نظر آجائے تو ایک اچھے شہری کی حیثیت سے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سب کو سلام کرے (ہو سکے تو مصافحہ بھی کرے۔)
عید کا چاند اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی الیکشن میں کامیاب ہو جانے کے بعد چھ سال تک بالکل دکھائی نہ دے لیکن یہ غلط ہے کیونکہ عید کا چاند دوچار سال میں تو ایک مرتبہ دکھائی دیتا ہی ہے۔
مبادیات عید
عید سے چند دن پہلے ضرور غسل کر لینا چاہیے۔ عید کے دن سب کو نہانے کا کہاں موقعہ ملتا ہے۔ اس دن تھوڑا بھی نہایا جائے تو سمجھنا چاہیے کہ گنگا نہالی۔
رات ہی میں پاجامے میں ازار بند ڈال لینا چاہیے۔ ازار بند کے بغیر پاجامہ ترقی اور بہبودی کی اس اسکیم کی طرح ہوتا ہے جسے روبہ عمل لایا جائے تو مفاد عامہ خطرے میں پڑسکتا ہے۔ یہ ازار بند جسے کمر بند بھی کہا جاتا ہے متحرک ڈائری کا کام دے سکتا ہے۔ اس میں ضروری باتیں درج کی جاسکتی ہیں۔ کمر بند کی ہر گرہ میں کوئی نہ کوئی مسئلہ بندھا ہوتا ہے۔ کمر بند پاجامے کو اپنے صحیح مقام پر برقرار رکھنے کے علاوہ یاد داشت کو بھی برقرار رکھتا ہے لیکن اس میں گنجائش سے زیادہ گرہیں نہیں لگانی چاہئیں، یاد داشت ساتھ نہ دے گی۔ کمر بند جو کرتے یا شیروانی کے دامن سے آگے نکل جائے ناظرین کی بصارت پر گراں گزرتا ہے۔ کمر بند کو اس سہرے کی طرح اپنی حد میں رہنا چاہئے جس کا ذکر غالبؔ نے جواں بخت کے سہرے کے پانچویں یا چھٹے شعر میں کیا ہے (حوالے کے لئے ملاحظہ ہو لٹریچر مطبوعہ بہ دوران غالبؔ صدی)
اگر پاجامے کی جگہ یعنی پاجامے کی بجائے پتلون پہننی مقصود ہو (کیونکہ یہی دستور زمانہ ہے) تو پتلون کو اچھی طرح بند کرنے کا معقول انتظام کرلینا چاہئے (پہلے سے اس کی جانچ ضروری ہے، بعض ژپیں ناقص ہوتی ہیں) اب جو پتلونیں بن رہی ہیں عید کی نماز کے لئے مفید ہیں، آج سے دوچار سال پہلے جن پتلونوں کا رواج تھا وہ عرصۂ حیات کی طرح تنگ تھیں۔ ان میں آدمی مشکل ہی سے داخل ہوسکتا تھا۔ وہ پتلونیں نہ صرف صاحب پتلون کو تکلیف میں مبتلا کرتی تھیں بلکہ ناظرین کو بھی تشویش پہنچاتی تھیں۔ (کپڑا لیکن اتنا ہی خرچ ہوتا تھا) موجودہ پتلونوں کے اندر ایک ہی نہیں کئی پاجامے پہنے جاسکتے ہیں۔ ان میں آدمی کے پھلنے پھولنے کی کافی گنجائش ہے۔ دنیا کتنی وسیع ہو گئی ہے۔
عید کے دن جوتوں پر خواہ وہ نئے ہی کیوں نہ ہوں کریم پالش ضرور کروالینی چاہئے۔ اس سے آدمی کی رفتار سبک ہو جاتی ہے۔ چلنے میں ٹھوکر بھی نہیں لگتی ہے، کیونکہ آدمی بار بار جوتوں پر نظر ڈال لیتا ہے اور جی ہی جی میں خوش ہوتا ہے کہ زندگی کتنی چمکدار ہوگئی ہے۔ جوتا وہی اچھا ہوتا ہے جو چلنے میں بولا کرے۔ اس طرح کے جوتے ٹرانسسٹر کا کام دیتے ہیں، بیک گراؤنڈ موسیقی کا لطف آتا ہے۔ کاٹنے والا جوتا بھی دلچسپ ہوتا ہے، گھر واپس آکر ایک عدد بینڈایڈ لگا لیا جائے تو زیادہ لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔ کچھ جوتے قد بڑا کرنے کے کام آتے ہیں۔ ان جوتوں کی مدد سے آدمی آسانی سے اُونٹ پر چڑھ سکتا ہے۔ ٹیلی فون کے تار میں اٹکی ہوئی پتنگیں بھی سہولت سے نکالی جا سکتی ہیں۔ ان جوتوں میں ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ جب آپ یہ جوتے نہ پہنے ہوں تو کوئی بھی آپ کو پہچان نہیں سکتا۔ دیکھنے والوں کو جھک کر دیکھنا ہوتا ہے۔
عید کے دن آنکھوں میں سرمہ ضرور لگانا چاہئے (سرمہ پہنا بھی جاسکتا ہے۔) سرمہ گھر سے باہر جاکر کسی ایسے شخص سے لگانا چاہئے جس کے پاس چھڑیکے سائز کی سلائی ہو! اس سلائی سے سرمہ لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آنکھوں میں کوئی چیز لگی ہے۔ شاعر کہتا ہے،
دنبالہ سے سرمہ کے دھواں ہیں تری آنکھیں کہہ بیٹھیں نہ کچھ سیفِ زباں ہیں تری آنکھیں
ماہرین سرمہ سے سرمہ لگوانے کے بعد بغیر کسی مدد کے راستہ نہیں چلنا چاہئے۔ خاص طور پر جب سڑک کی ایک سمت سے سڑک کی دوسری سمت میں جانا ہو تو اپنے بچے کی انگلی تھام لینی چاہئے۔ ماہرینِ سرمہ نہایت ہی کم داموں میں اتنی کثیر مقدار میں سرمہ آنکھوں میں ڈالتے ہیں کہ بڑی سے بڑی آنکھوں کو تنگیٔ داماں کا گلہ ہونے لگتا ہے اور ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ آنکھوں پر پٹی بندھی ہے (اسی وجہ سے اکثر لوگ نماز میں جب وقت قیام آتا ہے سجدے میں گرجاتے ہیں۔)
دونوں کانوں میں عطر کے پھاہے بھی رکھنے چاہئیں (تکبیر کی آواز سننی ضروری بھی کیا ہے) عطر پہلے سونگھا جاتا تھا اب اُسے کانوں سے سننا پڑتا ہے یا ممکن ہے امتداد زمانہ سے آدمی کی قوتِ شامہ کانوں میں منتقل ہوگئی ہو۔ کپڑوں پر بھی عطر لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ کُرتے پر عطر کا سرخ یا زرد گول سا نشان اچھا دکھائی دیتا ہے، یہ نشان جتنا پھیلا ہوا ہوگا آدمی اتنا ہی پھولے پھلے گا۔ شاعر کہتا ہے؛
عطر آنست کہ خود بگوید نہ کہ عطار ببوید
(عطر وہ ہوتا ہے جو کہ خود بولے نہ کہ عطار سنگھاتا پھرے۔)
عید کی نماز میں سب سے اہم حصہ گلے ملنے کا ہوتا ہے۔ خطبے کے دوران ہی اس واقعہ سے دوچار ہونا چاہیے۔ گلے ملتے وقت سامنے والے شخص کے تن و توش کا جائزہ لے لیا جائے تو گھر واپس ہونے کا امکان رہتا ہے۔ جو لوگ خبطہ سنتے بیکار بیٹھے رہتے ہیں اور اٹھ کر گلے ملنے میں دیر کرتے ہیں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
دوست احباب اور رشتہ داروں کو عیدنامے بھی بھیجنے ضروری ہیں۔ یہ انگریزی میں چھپے ہونے چاہئیں تاکہ صرف دیکھے نہ جائیں پڑھے بھی جائیں۔ اب بھی کہیں کہیں اردو میں چھپے ہوئے عید نامے مل جاتے ہیں جن پر مصافحے کی تصویر کندہ ہوتی ہے۔ بعض تصویروں میں ایک ہاتھ زنانہ اور ایک ہاتھ مردانہ ہوتا ہے۔
دبتا ہوا ہاتھ صاف پہچانا جاتا ہے کہ مرد کا ہے۔ زنانہ ہاتھ سے بالادستی ٹپکتی دکھائی دیتی ہے۔ چند عید ناموں میں معانقے کے مناظر بھی دکھائے جاتے ہیں۔ یہ صرف مردانہ مقابلوں کی تصویریں ہوتی ہیں۔ تگ ودو کی جائے تو ایسے عید کارڈ بھی مل جاتے ہیں جن پر بھانجی کی طرف سے ممانی کے نام بھیتجے کی طرف سے چچا اور تایا اور ابا کے نام، دیور کی طرف سے بھاوج کے نام باضابطہ خطوط چھپے رہتے ہیں۔ ان عید ناموں پر جو بھی تحریر ہوتی ہے ان سے تعلقات خراب ہونے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس لئے ان کے بھیجنے میں کوئی حرج نہیں۔
عید کے دن میٹنی شو دیکھنے سے بینائی اور صحت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر سنیما ہال میں ’’ہاؤس فل‘‘ کی تختی لگی ہو جو ہمیشہ لگی رہتی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ٹکٹ مل جائے گا۔
عید کے دن سنا ہے روٹھے ہوئے بھی من جاتے ہیں اس لیے ذرا محتاط رہنا چاہیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.