ایک اور ایک چار
خدا نخواستہ مجھے ذاتی تجربہ تو نہیں لیکن یہ دیکھا اور سُنا ضرور ہے کہ پہلی زچگی میں تکلیف ضرور ہوتی ہے اور خاص کر ایسی صورت میں کہ یہ آفت اس وقت نازل ہو جب عورت ذرا پُرانی ہوگئی ہو۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کو تو وہی بیبیاں بیان کرسکیں گی جن کو یہ مصیبت پڑ چکی ہے۔ ہا ں اپنے گھر کا صرف ایک واقعہ دیکھ کر یقین آگیا ہے کہ واقعی یہ مثل صحیح ہے، ’’کہ جینا اور مرنا دونوں برابر ہیں۔‘‘
وہ واقعہ کیا تھا۔ اس کو بھی سن لیجئے۔ ہماری بیگم صاحب جب سے گھر والی بن کر آئیں ہم اور وہ مل کر بس ایک اور ایک دو ہی رہے۔ سنتے تھے کہ گنڈے تعویضوں سے ایک اور ایک تین ہوجاتے ہیں لیکن کوئی گنڈا تعویذ حساب کے اس مسئلہ کو نہ توڑ سکا کہ ایک اور ایک برابر ہیں دو کے۔ آخر ہار مان لی اور سمجھ گئے کہ ہم دونوں بھی ایک ایک کرکے چل دیں گے اور اس طرح ایک دو تین ہو جائیں گے۔
یہ سب کچھ تھا، مگر دنیا بامید قائم کی دم برابر لگی ہوئی تھی، کوئی ڈاکٹر نہیں تھا، جس نے فیسوں سے جیب نہ بھری ہو، کوئی حکیم جی نہیں تھے جنھوں نے قدحوں کی بھرمار سے ہماری بیوی کا معدہ خراب نہ کیا ہو۔ کوئی وید نہیں تھے جن کی رسائنیں ’’ہرچیز کی درکانِ نمک رفت نمک شد‘‘ نہ ہوئی ہوں۔ مگر ہماری بیگم صاحب کے جسم کا درمیانی حصّہ جیسے کا ویسا ہی رہا۔ انسان کی یہی وہ حالت ہے جس کو دنیاوی زبان میں لاچاری اور مذہبی زبان میں قسمت کہتے ہیں۔ آخر تنگ آکر حکیموں، ڈاکٹروں، ویدوں، ملاؤں، داڑھی والوں، موچھوں والوں، صفا چٹوں، زلفوں والوں اور خرمنڈوں سب کو چھوڑ بیٹھے اور کیوں نہ چھوڑ بیٹھے۔ جب بچہ پیدا کرنا تو کجا ان میں سے کوئی یہ بھی نہ بتاسکا کہ اس شکمی بخل کے متعلق دونوں میں سے قصور کس کا ہے۔ میرا یا میری بیوی کا۔ جب کسی کام سے انسان لاچار ہوجاتاہے تو ہمیشہ لعنت پر اُتر آتا ہے۔ ہم بھی انسان ہیں اس لیے ہم نے بھی یہی کہا کہ
’’بچوں پر لعنت بھیجو جس طرح گھر کی حکومت رعایا کے بغیر صرف بادشاہ اور وزیر پر چل رہی ہے اسی طرح چلنے دو۔ میں اس وقت اس بحث میں جانا بے ضرورت سمجھتا ہوں کہ ہمارے گھر میں وزیر کون تھا اور بادشاہ کون۔ ہاں یہ اصول بتا دینا چاہتا ہوں کہ جس گھر میں بچے تشریف لے آتے ہیں، وہاں حکومت کی باگ بیوی کے ہاتھ میں آ جاتی ہے کیونکہ میاں ڈرتے ہیں کہ اگر بیوی نے بغاوت پر کمر باندھ لی تو یہ ساری رعایا ان کے ساتھ ہوجائے گی اور پھر اس سلطنت بے آئین میں ٹکڑا کھانے کو نہ ملے گا۔ البتہ جہاں معاملہ برعکس ہوتا ہے، وہاں کا رنگ ہی کچھ دوسرا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ بیوی ڈرتی ہیں کہ اگر اس بھلے مانس نے کوئی دوسرا وزیر مقرر کرلیا تو جینا مشکل ہوجائے گا اور وزراء کا اختلاف رائے سلطنت میں آفت بپا کردے گا۔ لیکن یقین مانئے کہ ہمارے گھر میں اس اصول کے برسرِ کار آنے کی وجہ باقی نہیں رہی تھی اور وجہ اس لیے باقی نہیں رہی تھی کہ اس کمترین کا وہ زمانہ بیوی کی دوا درمن گذر چکا تھا۔ جب سلطنت کو دو وزیروں کے ذریعہ سے چلانے کا خیال پیدا ہوتا ہے ایسا ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہم نے ارادہ کرلیا کہ اب بہت گئی ہے تھوڑی رہی ہے اس کو بھی کسی طرح بڑی بی کے ساتھ رہ کر لشتم پشتم گزار دو۔‘‘
الغرض کئی برس یونہی نکل گئے۔ ایک دن میں دفتر سے آکر بیٹھا ہی تھا کہ ہماری بیگم صاحب کچھ شرماتی ہوئی آئیں اور میرے پاس بیٹھ گئیں۔ اب کچھ کہنا چاہتی ہیں مگر شرمائی جاتی ہیں۔ آخر بڑی ہمت کرکے ذرا نیچی آواز میں کہا، ’’اجی ایک بات کہوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’کہیے۔ تمہیں کہنے سے کس نے روکا ہے۔ ایک نہیں سو باتیں کہو۔ مگر آج آپ کچھ جھینپی جھینپی سی کیوں ہیں۔‘‘ کہنے لگیں، ’’میں امید سے ہوں۔‘‘ یقین مانئے کہ میں بالکل نہ سمجھا کہ اس موقع پر ’’امید سے ہوں‘‘ کے کیا معنی ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کسی زمانے میں یہ پڑھا ضرورتھا کہ ’’امید سے ہونا‘‘ حمل سے ہونا کے معنی رکھتا ہے، لیکن اول تو یہ فقرہ ہماری بیوی صاحب نے کہا تھا، جن کا ’’امید سے ہونا‘‘ ایک خلاف امید واقعہ تھا۔ دوسرے امید میرے سالے کا نام بھی تھا۔ خیال یہ ہوا کہ شاید یہ گفتگو انہی حضرت سے متعلق ہے۔ تیسرے یہ کہ اگر یہ واقعہ خود ان سے متعلق تھا تو اس عمر کی عورت کو ایسی معمولی بات کے کہنے میں شرمانے کی کیا وجہ ہوسکتی تھی۔ بہرحال میں نے اُن سے کہا کہ، ’’ذرا وضاحت فرمادی جائے تو مناسب ہے۔‘‘ پھر کچھ شرما کرکہنے لگیں ’’کیوں ننھا بچہ بنتے ہو۔ تم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ امید سے ہونا کس کو کہتے ہیں۔‘‘ اس وقت میں ذرا سمجھا۔ مگر اس واقعہ کو کسی طرح بھی اپنی بیگم صاحبہ سے متعلق نہ کرسکا۔ اس لیے میں نے کہا، ’’پیٹ سے ہے تو ہونے دو۔ ہماری اور تمہاری جوتی سے۔ جیسا کیا ہے ویسا بھرے گی۔‘‘ اس پر انھوں نے اس زور سے’’نوج کی‘‘ کہ میں اچھل پڑا اور کہا ’’آخر اس پہیلیوں کے بوجھوانے سے کیا فائدہ۔ صاف کیوں نہیں کہتی کیا امید کی بیوی پیٹ سے ہے یا بی ہمسائی کی بیٹی۔‘‘ انھوں نے ذرا شرما کر کہا ’’میں۔‘‘ یقین مانئے کہ اگر کوئی بم کا گولہ ٹھیک میری چندیا پر گرتا تو اتنا جھٹکا نہ پڑتا جتنا اس ’’میں‘‘ سے پڑا۔
میں بیٹھا لکھ رہا تھا کہ قلم خود بخود میرے ہاتھ سے گر پڑا اور میں نے ٹھوڑی کو مٹھی میں بڑے زور سے دبا کر کہا، ’’کیا ارشاد ہوا؟ کیا آپ امید سے ہیں بس جانے بھی دو۔ اتنا جھوٹ بولنے سے فائدہ۔‘‘ کہنے، ’’نہیں، میں سچ کہتی ہوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں نہیں مانتا تمھارے کبھی پہلے کوئی بال بچہ ہوا ہے جو تمھیں معلوم ہو کہ پیٹ سے ہونا کس کو کہتے ہیں؟‘‘ کہنے لگیں، ’’واہ، یہ بھی خوب ہوئی۔ خاندان میں سینکڑوں بچے میرے سامنے ہوچکے ہیں، مجھے اتنا بھی معلوم نہیں کہ آثار کیا ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’اب جو تمہاری عمر ہے اس میں وہی شکل ہوجاتی ہے جو امید سے ہونے میں ہوتی ہے۔ جاؤ جاؤ۔ اپنا کام کرو۔ خواہ مخواہ کیوں جھوٹوں میں اپنی ہنسی اڑواتی ہو۔ قسم خدا کی اگرتمہارا یہ وہم نہیں گیا تو خاندان بھر میں نکّو ہوجاؤگی اور ہرشخص تمہیں دیکھ کر اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا کرے گا۔‘‘ کہنے لگیں، ’’آخر تم مجھے جھوٹا کیوں سمجھتے ہو۔ اللہ کی دین ہے جب نہ دیا اب دیا۔ میں نے سیتی دائی کو آج بلایا تھا، اس کا بھی یہی خیال ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے گردن جھُکا لی اور پھر مسکراکر میرے پاس سے اُٹھ گئیں۔
اب جناب آپ ہی غور فرمائیے کہ اس خبر وحشت اثرکا مجھ پر کیا کچھ اثر نہ ہوا ہوگا۔ فرض کرلیجئے کہ چالیس پینتالیس برس کی بیوی پیٹ سے ہیں اور اس بیماری کا یہ پہلا حملہ ہے۔ ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سن میں یہ اس جھٹکے کو سہہ بھی سکیں گی یا نہیں اور فرض کیجئے کہ سہہ بھی گئیں تو سوال یہ ہے کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی اور فرض کیجئے کہ وہ ہوا بھی یا ہوئی بھی تو سوال یہ ہے کہ اس بڑھاپے کی اولاد میں اتنی سکت بھی ہوگی کہ وہ جی سکے اور فرض کیجئے کہ وہ جیا بھی یا جی بھی، تو سوال یہ ہے کہ ہم اس وقت تک زندہ بھی رہ سکیں گے، جب تک وہ لڑکا پڑھ لکھ کر کھانے کمانے کے قابل ہوجائے یا وہ صاحبزادی صاحبہ جوان ہوکر ’’سپرد م بتو مایۂ خویش را‘‘ بن سکیں۔
قصّہ مختصر یہ کہ بیگم صاحبہ کی اس ’’میں‘‘ نے لفظ ’’کُن‘‘ کی طرح خیالات کی ایک نئی دنیا قائم کردی۔ مایوسی نے ہم دونوں کا اتنا دل توڑدیا تھا کہ اس ’’چھپر پھاڑ‘‘ دولت کا یقین ہی نہیں آتا تھا لیکن جب کسی ایسی دائیوں اور ڈاکٹرنیوں نے تصدیق کردی جن کو میری بیوی سے مخالفت کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوسکتی تھی۔ اس وقت بات پکی ہوگئی اور مجھے اور میری بیوی کو یقین ہوگیا کہ ہم دونوں عنقریب کسی مرد یا عورت کے ماں باپ بننے والے ہیں۔ اس واردات کے اطمینان کے بعد ہم میں اور ہماری بیوی میں دنوں تک کچھ کچھم کچھا بھی رہی۔ وجہ اختلاف وہی پیٹ کے اندر والی چیز تھی۔ میں کہتا تھا کہ بیٹا ہو تو اچھا۔ بیوی کہتی تھی کہ بیٹی ہو تو اچھا۔ میری یہ محبت تھی کہ بیٹا ہوگا تو جائیداد کا وارث ہوگا۔ ہم نے اپنی محنت سے جو کچھ پیدا کیاہے وہ نیک لگے گا۔ بیوی فرماتی تھیں کہ بیٹی ہوگی تو ہوا کی طرح بڑھے گی۔ آج اتنی ہے کل اتنی ہوگی۔ پرسوں اتنی ہوجائے گی۔ کم سے کم مرنے سے پہلے ہم اس کا سہرا تو دیکھ لیں گے۔ غرض کوئی دن نہ جاتا ہوگا جو اس مضمون پر کچھ کشمکش نہ ہو جاتی ہو۔
زمانہ جس تیزی سے گزرتا ہے وہ سب ہی کو معلوم ہے۔ ایک مہینہ گیا۔ دو مہینے گئے۔ تین مہینے گئے اور متلی کے ساتھ ہی ’’اوع، اوع‘‘ کا وظیفہ دن رات پڑھا جانے لگا۔ لیکن آخر کہاں تک۔ یہ بھی ہوتے ہوتے ساتواں مہینہ لگ ہی گیا۔ ہماری بیوی کو اگر رنج تھا تو یہی تھا کہ اب خاندان کے بڑے بوڑھوں میں کوئی ایسا نہیں رہا تھا جو اس عمر میں ان کی گود بھرتا۔ کوئی ایسا نہیں رہا تھا جو تشریف لانے والے بزرگوار کے کپڑے سیتا۔ نھالچے اور تکنیاں تیار کرتا۔ کوئی چھوٹی موٹا زیور بنواتا۔ غرض جدھر نظر ڈالتے سارا میدان صاف پاتے۔ آخر خود ہونے والی زچہ ہی نے یہ دوسروں کا کام اپنے ذمّہ لیا اور جھپاچھپ کپڑے سلنے اور زیور بننے لگے۔ خیر کپڑوں کی حد تک تو مجھے بھی کچھ اعتراض نہ تھا کیونکہ لڑکی ہو یا لڑکا، دونوں کے کپڑے ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ مگر زیوروں کے معاملہ میں میری رائے بیگم صاحبہ سے ذرا مختلف تھی۔
فرض کیجئے کہ ان کے ہاں لڑکا ہواتو ایسی صورت میں یہ زیور کہاں جائے گا اور حالت یہ ہے کہ زیور بناؤ تو سو روپیہ میں بنے اور نکالو تو پچیس روپے میں جائے۔ ہماری بیگم صاحبہ ایک حجت قائم کرتی تھیں، مگر مجھے اس سے اتفاق نہیں تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ ’’اچھا سمجھ لو کہ اب کے لڑکا ہوا زیور رکھے رہیں گے۔ اس کے بعد انشاء اللہ لڑکی ہوگی۔ یہ زیور اس کے کام آئے گا۔‘‘ میں تو کیا، ذرا آپ ہی انصاف کیجئے کہ کیا اس حجت میں کوئی قوت ہے۔ جس عورت کے ہاں چھتیس برس تک لڑکا لڑکی ہونا تو درکنار، چوہے کا بچہ بھی نہ ہوا ہو، اس کا صرف ایک دفعہ امید سے ہوجانے کے بعد یہ سمجھ لینا کہ دنیا کی آبادی میں اضافہ کرنے کا تمغہ آئندہ اسی کو ملنے والا ہے، کس حد تک صحیح ہوسکتا ہے۔ مگر بھئی بات یہ ہے کہ اولاد ہونے یا کم سے کم ہونے کی توقع ہوجانے کی خوشی ایسی ہوتی ہے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی خانہ جنگیوں سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور بڑھاپے میں پہلا باپ بننا یا بننے کا متوقع ہونا انسان کے دماغ کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔
اب کیا تھا، بیوی بیچ میں سے دن بدن کچھ بڑھتی ہی گئیں۔ آخر اتنی بڑھیں، اتنی بڑھیں کہ ایک دن میں نےجل کر کہا کہ ’’بیوی ذرا میں بھی تو سنوں کہ آخر تمھارا ارادہ کیا ہے۔ کیا کوئی پالا پوسا بچہ جننا چاہتی ہو۔‘‘ یہ سن کر وہ تو بگڑ گئیں اور کہنے لگیں، ’’تمہیں ایسی فال زبان منھ سے نکالتے وہم نہیں آتا۔ جو بوجھ ہے وہ مجھ ہی پر تو ہے۔ تم کیوں بلبلائے جاتے ہو۔‘‘
ہوتے ہوتے ان کا گھیر پھیر ایسا بڑھا کہ چلنا پھرنا مشکل ہوگیا۔ پاؤں پر ورم آگیا، سانس لینے میں دقت ہونے لگی اور خدا کی عنایت سے نواں مہینہ لگ ہی گیا۔ اب کیا تھا، ذرا کچھ پیٹ میں گڑبڑ ہوئی یا بچہ نے پھیر لیا اور بیگم صاحبہ پلنگ پر دراز ہوگئیں۔ تھوڑی دیر میں یہ درد کم ہوا اور بات پھر کل پر جا پڑی اور ہم بھی مایوس ہوکر دفتر چلے گئے۔ آخر یہ دھوکے بازی کب تک چلتی۔ ایک دن وہ آہی گیا کہ ان کو سچ مچ کے درد شروع ہوئے۔ دردوں کا اٹھنا تھا کہ انھوں نے غل مچاکر سارے محلہ میں منادی کردی کہ اب اس گھر کی بیوی بچہ کی ماں بننے پر پوری طرح تیار اور آمادہ ہیں لیکن بڑھاپے کی لاج رکھنے کے لیے انھوں نے کسی کو نہیں بلایا۔ جانتی تھیں کہ اگر ایک کو بھی اطلاع دی تو یہ بن کوڑی بن پیسہ کا تماشا دیکھنے سارا کنبہ الٹ آئے گا۔
ہاں یہ کیا کہ پہلے تو ایک کھوسٹ دائی کو بلوالیا لیکن آدھ گھنٹے کے بعد ہی اس کو ناکافی سمجھا گیا۔ ڈاکٹرنی بلائی گئی۔ اس نے اپنی مدد کے لیے اپنی دوسری بہن کو بلالیا۔ ان دونوں نے مل کریہ صلاح دی کہ کسی بڑے ڈاکٹر کا بھی بلالینا اچھا ہے۔ ان کے لگے بندھے ایک ڈاکٹر صاحب بھی آگئے۔ اس کے بعد ان تینوں کی رائے ہوئی کہ ’’ڈاکٹر پھوڑ گاؤں کر‘‘ کا بھی آنا مناسب ہے، کیونکہ پہلی زچگی ہے اور زچہ کی عمر زیادہ ہے۔ یہ بھی آگئے اور اپنے ساتھ ڈاکٹر سیفٹی کو بھی لائے۔ الغرض اتنے ڈاکٹر اور ڈاکٹرنیاں آئیں کہ تھوڑی دیر میں ہمارا گھر خاصہ جنرل ہاسپیٹل بن گیا۔ خیر بیوی کو تو درد لگ ہی رہے تھے مگر مجھ کو بھی ان سے کچھ کم درد نہیں تھے۔ کئی تو دست آگئے اور ٹانگیں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پھرتے پھرتے شل ہوگئیں۔ جوکوئی ڈاکٹرنی اندر کے کمرے میں سے آتی اس سے پوچھتا، ’’کیوں کیا حال ہے۔ کب تک بچہ ہوجائے گا۔‘‘ وہ یہی جواب دیتی ’’ہوجائے گا۔ آپ گھبراتے کیوں ہیں۔‘‘ لیجئے سنا آپ نے ان کا جواب۔ یہاں تو بیوی کی جان کے لالے پڑےہیں۔ ان کی چیخوں سے دل بیٹھا جارہا ہے اور یہ بی صاحبہ فرماتی ہیں، ’’گھبراتے کیوں ہو؟ ہوجائے گا۔‘‘ طبیعت تو اس وقت بے قابو ہوجاتی تھی۔ جب ان ڈاکٹرنیوں میں سے کوئی آکر کسی ڈاکٹر سے گھسر پھسر کرتی تھیں اور مزا یہ ہے کہ جب میں پوچھتا تھا کہ ’’کیا بات ہے؟‘‘ تو جواب رہتا تھا، ’’کچھ نہیں۔‘‘
غرض اسی گڑبڑ میں ایک رات اور ایک دن گزر گیا۔ دوسرے دن رات کے کوئی دس بجے ہوں گے کہ اس اندر باہر کی آمد ورفت میں بہت تیزی آگئی۔ میں سمجھا کہ اب معاملہ بس لبِ دوچار پر آگیا ہے (خدا مغفرت کرے۔ میرے ایک دوست تفضل حسین تھے۔ وہ اکثر ایسے فقرے بولا کرتے تھے ’’دوچار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا‘‘ کو انھوں نے مختصر کر کے ’’لب دوچار‘‘ کردیا تھا ان کا یہ فقرہ بولنے میں تو کیا اکثر لکھنے میں بھی استعمال کر جاتا ہوں۔)
لیکن میری اس امید کو ڈاکٹر سیفٹی نے یہ کہہ کر خاک میں ملادیا کہ ’’بچہ پایل ہے۔ زچگی ذرا مشکل سے ہوگی۔ شاید بے ہوش کرکے آلوں سے نکالنا پڑے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ڈاکٹر صاحب، خواہ کچھ بھی کیجئے مگر میری بیوی کی جان بچالیجئے۔ میں دھایا اس زچگی سے۔ ہم دونوں بغیر بچہ ہی کے اچھے تھے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے پھر وہی بیہودہ فقرہ کہا کہ ’کہ آپ گھبراتے کیوں ہیں؟‘‘ لیجئے ان کی سنئے، ہماری بیوی کی تو جان پر بنی ہے اور یہ حضرت بڑے ٹھنڈے دل سے فرمارہے ہیں کہ آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ ان کی بیوی پر اگر یہ گذر رہی ہوتی تو حقیقت معلوم ہوتی۔ اتنے میں اندر سے دائی نے آکر کہا، ’’چلیے بیگم صاحب آپ کو بلاتی ہیں۔‘‘ ایسی خطرناک جگہ جانے کی ہمت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ وہ تو کہو کہ میں بچپن ہی سے کچھ مضبوط دل والا ہوں جو ذرا ڈرتے ڈرتے کمرہ میں چلا گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ بیگم پلنگ پر لوٹ رہی ہیں اور ہائے ہائے کے نعرے مار رہی ہیں۔
مجھے دیکھ کر ان کی آواز کچھ اور اونچی ہوگئی اور لوٹنے میں بھی تیزی آگئی۔ میں پٹی کے پاس اکڑوں بیٹھ گیا، کچھ تسلی دینا چاہتا تھا کہ انھوں نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس زور سے ’’ہائے مری‘‘ کہا کہ وہ تو وہ خود میرے آنسو نکل آئے۔ اس کے بعد انھوں نے اس نمونے کی باتیں کیں جو مرنے سے ذرا پہلے کی جاتی ہیں اور عرف عام میں وصیت کہلاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے بچے بالے ہوتے تو وصیت کا رنگ یہ ہوتا کہ
’’ان بچوں کی خبر گیری کرنا ان کو تکلیف نہ دینا۔ میری ننھی کا دل بہت چھوٹا ہے اس کا دل نہ دکھانا۔ ننھے پر تم بہت خفا ہوتے ہو۔ میرے بعد خدا کے لیے ایسا نہ کرنا۔ اس کا ٹوٹا ہوا دل اور ٹوٹ جائے گا اور دیکھنا خدا کے لیے ان بچوں پر سوتیلی ماں نہ لانا وہ ان کو ستائے گی اور میری روح قبر میں بیقرار ہوگی۔‘‘
لیکن ہم بال بچوں کی مصیبت سے آزاد تھے۔ اس لیے ہماری بیگم صاحبہ کی گفتگو ذرا دوسرے نمونہ کی تھی۔ ان کا اصرار تھاکہ ’’میرے مرنے کے بعد ہی دوسری شادی کرلینا۔ گھر میں کوئی نہ رہا تو تمھیں تکلیف ہوگی اور تمہیں تکلیف ہوئی تو میری روح بھی بے چین رہے گی؟‘‘
غرض پریشان کرنے اور رونے رُلانے کی جتنی شکلیں ہوسکتی تھیں وہ انھوں نے روروکر اور بیچ میں ہائے ہائے کے گنڈے ڈال ڈال کر سب پوری کردیں۔ جب وقت کا یہ سین کچھ حد سے زیادہ بڑھنے لگا تو ایک ڈاکٹرنی نے آکر مجھے زبردستی پلنگ کے پاس سے اٹھایا۔ گھسیٹ کر کمرے کے باہر کیا اور شاید میری بیوی کو سمجھایا بجھایا کیونکہ ہائے ہائے کے ساتھ ہچکیوں کے جو سُر تھے وہ بند ہوگئے۔ کمرے سے باہر نکلنے کے بعد میری بس وہی حالت ہوگئی جو میدان جنگ کو دیکھنے کے بعد کسی کمزور دل والے سپاہی کی ہوجاتی ہے اور یہ کمزوری اس طرح دفع کی جاتی ہے کہ جس جس طرح اور جس جس پہلو سے ممکن ہو دعا مانگی جائے۔
اب رہا یہ امر کہ دعا کے الفاظ صحیح نکلتے ہیں یا غلط تو اس کا حال خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم نے بھی یہی پُرانا اور آزمودہ کار طریقہ اختیار کیا۔ جب کمرے کی آوازیں تیز ہوجاتی تھیں، اس وقت اس وظیفہ میں بھی تیزی آجاتی تھی اور جب دھیمی پڑجاتی تھیں تو وظیفہ بھی ذرا مدھم ہوجاتا تھا۔ اب ڈاکٹروں میں یہ بحث شروع ہوئی کہ درد بڑھانے کے لیے پچکاری دینی مناسب ہے یا نہیں۔ کچھ عجیب بات ہے کہ جو شخص زیادہ تعلیم یافتہ ہوتا ہے وہ اپنے سے کم پڑھے لکھے شخص کی بات ماننا اپنی توہین سمجھتا ہے، جو کم تعلیم یافتہ ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ یہ دوسرے صاحب اپنی تعلیم کا دباؤ مجھ پر ڈال رہے ہیں۔ ان سے دبنا گویا اپنی نظروں میں خود اپنے آپ کو ذلیل کرنا ہے۔ یہی صورت یہاں بھی پیش آئی اور حجت طول پکڑگئی۔ ابھی ان لوگوں میں یہ بحثم بحثی ہورہی تھی کہ اندر کے کمرے سے اس زور کی چیخ آئی کہ میں نے بلاسوچے سمجھے ’’انا للہ‘‘ پڑھ لی۔ ساتھ ہی ایک ڈاکٹرنی صاحبہ اندر سے تشریف لائیں اور کہا کہ ’’اب پچکاری کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ جس کے معنی یہ ہوئے کہ جن کو پچکاری دی جا رہی تھی وہ ختم ہوگئیں۔ یہ سوچ کر میں نے بھی ایک چیخ ماری اور ڈھاڑیں مارمار کر رونے لگا۔ میری یہ حالت دیکھ کر ڈاکٹر سیفٹی میرے پاس آئے اور کہا، ’’مسٹر تم کیوں روتا ہے، بیگم صاحب کے اب بچہ ہوگا۔‘‘ میں نے بسور کر کہا، ’’وہ تو مرگئیں‘‘ کہنے لگے، ’’نُو۔ نوُ ابھی جینا سکتا ہے۔‘‘ مجھے ان کی بات کا یقین نہیں آتا تھا مگر جب دوسرے ڈاکٹروں سے بھی اس کی تصدیق کی اس وقت کہیں جاکر کچھ اطمینان ہوا اور انہیں کے کہنے سے میں زنانے کمرے کے دروازہ سے کان لگاکر کھڑا ہوگیا۔ پہلے تو ڈاکٹرنیوں کی آوازوں میں بیوی کی آواز سنائی نہیں دی۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان کی اونھ اونھ بھی سنائی دینے لگی۔ ابھی پوری طرح اطمینان کا سانس نہیں لیا تھا کہ بیوی نے زبردست چیخوں پر چیخیں مارنی شروع کیں۔ بھلا ایسی حالت میں مجھ سے دروازہ پر کیا ٹکا جاتا۔ بھاگا، بری طرح بھاگا اور برآمدہ میں ٹہل ٹہل کر وظیفے پڑھنے شروع کردیے۔ چیخوں کی رفتار، تیزی اور بلندی برابر بڑھی چلی جارہی تھی۔ آخر ایک اس زور کی چیخ آئی کہ تمام گھر ہل گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک ڈاکٹرنی صاحبہ ہنستی ہوئی کمرے سے نکلیں اور میرے پاس آکر کہنے لگیں، ’’مبارک ہو بچہ ہوا۔‘‘ میں نے کہا، ’’لڑکا یا لڑکی؟‘‘ جواب ملا، ’’یہ ابھی نہیں بتا سکتی۔‘‘
اب ذرا میرے سوال اور اُن کے جواب پر منطقی پہلو سے غور کیجئے۔ یا تو میری یہ حالت تھی کہ ڈاکٹروں کی خوشامد کر رہا تھا کہ بچہ جائے جہنم میں کسی طرح میری بیوی کی جان بچاؤ۔ یا اب جو یہ مشکل آسان ہوئی تو یہ فکر پڑی کہ لڑکا ہوا یا لڑکی اور ساری مصیبتوں کو بھول کر جنسی اختلاف کے مسئلہ کو حل کرنے کی سوجھی۔ ڈاکٹرنی نے جو جواب دیا وہ مشاہدہ انسانی کے بالکل خلاف تھا کیا۔ اس امر کا تصفیہ کرنے میں کہ جو بچہ پیدا ہوا ہے لڑکی ہے یا لڑکا کوئی دقّت پیش آسکتی ہے مگر وہ تو کہو کہ ان ماہران فن کو اپنی قابلیت کا سکہ بٹھانے کا یہی موقع ہوتا ہے۔ بٹھا گئے۔ ادھر ڈاکٹر پھر اندر گئی اور ادھر میں نے شکرانہ کے دو نفل پڑھنے کے لیے جانماز بچھائی۔ لیکن یہ دونوں نفل اتنی جلد ختم ہوگئے کہ مجھے خود تعجب ہوتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی خیال آتا تھا کہ شاید ایک ہی رکعت کے بعد سلام پھیر دیا۔ خیر اللہ میاں توانسان کی نیت دیکھتے ہیں۔ یہ تھوڑی گنتے ہیں کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھیں۔ زنازن پڑھیں یا طوطے کی طرح ادوان پر چل کر۔ لیجئے، ہم بھی بچے والے ہوگئے۔
ابھی یہاں مبارکبادیاں چل رہی تھیں کہ دائی نے آکر’’ڈاکٹر پھوڑ گاؤں کر‘‘ کے کان میں کچھ کہا۔ انہوں نے ڈاکٹر سیفٹی سے کچھ کانا پھوسی کی اور ڈاکٹر سیفٹی نے مجھ سے آکر کہا کہ ’’ایک اور آنا مانگتا ہے۔‘‘ اب میں بھی دیکھوں کہ وہ ایسے کون بوجھ بوجھکڑ ہیں جو ڈاکٹر سیفٹی کے اس فقرہ کو سمجھ سکیں۔ میں نے بلا سوچے سمجھے ’’اونھ‘‘ کردی۔ مگر اس کے ساتھ ہی اندر کے کمرے کی گڑبڑاور بیوی صاحبہ کی مکرر اور مستقل چیخوں نے اس فقرہ کے معنی کھول دیے کہ ایک اور صاحب تشریف لانے والے ہیں۔ بعض دفعہ عالم بالا والے بھی دعاؤں کے سمجھنے میں کچھ غلطی کر جاتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ میں لڑکے کی دعا مانگتا تھا اور ہماری بیگم صاحبہ لڑکی کی۔ لیکن اس کے یہ معنی تو ہرگز نہیں تھے کہ دونوں کی دعائیں ایک ساتھ قبول کی جائیں اور ایک کے بجائے دو بچے عنایت ہوں۔ مگر کیا کیا جائے، جب دونوں دعائیں قبول ہوچکی تھیں تو ان کا اثر ظاہر ہوئے بغیر رہ تھوڑی سکتا تھا۔ غرض پھر رونے کا وہی غل، شور اندر، اور ٹہلنے اور وظیفہ پڑھنے کا زور باہر ہونے لگا۔ خدا خدا کرکے یہ دوسری مشکل بھی آسان ہوئی اور ہم سمجھے کہ چلو، گنگا نہالیے۔ اس کو کچھ دیرنہ گزری ہی تھی کہ اُبکائیوں کا سلسلہ بیوی صاحبہ نے لگا دیا۔ مجھے ڈر ہوا کہ آنول نکالنے کے لیے چوٹی کے بال مُنہ میں ڈال کر یہ ابکائیاں لوائی جارہی ہیں (یہ طریقہ حیدرآباد میں عام طورسے رائج ہے۔) اس وقت پریشانی رفع ہوئی۔
غرض اس گڑبڑ میں صبح ہوگئی۔ ڈاکٹر اپنی اپنی فیس لے کر رخصت ہوئے۔ ڈاکٹرنیوں نے دونوں بچوں کو نہلا دھلا کر زچّہ کے دونوں پہلوؤں میں لٹادیا۔ باہر آکر مجھے مبارکباد دی۔ فیسیں لیں اور خدا حافظ کہا۔ اب گھر میں ہماری بیوی اور ایک کھوسٹ دائی رہ گئے۔ تھوڑی دیر میں اُس نے آکر کہا، ’’میاں، آئیے بچوں کے کان میں اذاں دے دیجئے۔‘‘
یہ ذرا ٹیڑھی کھیر تھی۔ اول تو کبھی اذان دی ہی نہیں تھی۔ دوسرے یہ کہ بچے کے کان میں اذان دیتے کسی کو سنا بھی نہیں تھا اور سب سے زیادہ مشکل یہ تھی کہ اذان دی جائے تو کس درجہ تک بلند کیا جائے۔ لیکن دقت یہ آن پڑی تھی کہ گھر میں ہمارے سوا کوئی مرد تھا ہی نہیں۔ اس لیے ہم ہی بسم اللہ کہہ کر اذان دینے کو تیار ہوگئے۔ اندر گئے۔ بیوی دوشالہ تانے لمبی لمبی پڑی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کچھ شرما گئیں اور آنکھیں بند کرلیں۔ میں نے کہا، ’’واہ بیوی واہ۔ یا تو اتنی ٹھس تھیں کہ ایک بچہ دینا بھی گوارا نہ تھا یا اب دو دو کی لین لگا دی ہے۔ اگر یہی دو اور دو چار اور دو چھ کا سلسلہ چلا تو پھر تمہارا اور میرا اللہ ہی مالک ہے۔ بس ایک بات کرو۔ اول تو بچہ کے لیے دعا ہی نہ مانگو اور اگر مانگو تو پہلے مجھ سے کہہ دیا کرو تاکہ ایسا نہ ہو کہ میں بھی دعا مانگوں اور پھر اس کی منظوری میں کچھ غلط فہمی ہوجائے۔‘‘ بیوی مُنھ سے تو کچھ نہ بولیں۔ ہاں مُسکرا کر چپ ہوگئیں۔ آپ نے دیکھا کہ واقعات کے تھوڑ سے ادل بدل میں میری اور ان کی حالت میں کتنا فرق آیا۔ سچ ہے کہ دل کو اطمینان ہونے کے بعد انسان کو اسی طرح مذاق کی سوجھتی ہے۔ خیر کچھ بھی ہو، ہم میاں بیوی نے مل کر یہ تو ثابت کردیا کہ ایک اور ایک مل کر چار ہوتے ہیں نہ کہ دو۔ اور ساتھ ہی میر تقی میرؔ کے اس شعر کا کہ؛
غم ساتھ ہو اگلی سے اس کی
ایک آئے تھے اور دو گئے ہم
اس طرح جواب دے دیا کہ
بیوی کے ہوئے ہیں جڑواں بچے
دو پہلے تھے چار ہوگئے ہیں
قصہ مختصر یہ کہ آج کی تاریخ سے ہم کو کسی قدر یقین ہوگیا ہے کہ ہمارا سلسلۂ نسب دنیا کی تاریخ میں کچھ عرصہ بظاہر چلنے والا ہے۔ لڑکے کا تاریخی نام تو میں نے ’’مشکل ورود خاں‘‘ رکھ لیا ہے۔ البتہ لڑکی کا نام ٹھیک نہیں بیٹھتا اس لیے دوستوں اور عزیزوں اور خاص کر شعرا صاحبان ملک سے دست بستہ عرض پرداز ہوں کہ کوئی مناسب نام تجویز کرکے ممنون و مشکور فرمائیں لیکن اس کا خیال رہے کہ اَترسوں عقیقہ ہونے والا ہے اور بقول ہماری بیوی صاحبہ کے عقیقہ ہی میں نام ڈالنے کا قاعدہ ہے۔ اب یہ نام ڈالنا چہ معنی دارد۔ اس کو وہ سمجھتی ہوں تو سمجھتی ہوں میں تو نہیں سمجھتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.